تھیم آف دا منتھ(’’فاروقِ اعظمؓ کی بصیرت اور حسینؓ کی قربانی، آج کی قیادت و استقامت کے لیے۔‘‘)

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی

تھیم آف دا منتھ​


’’فاروقِ اعظمؓ کی بصیرت اور حسینؓ کی قربانی، آج کی قیادت و استقامت کے لیے۔‘‘


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امید ہے کہ آپ سب خیریت، ایمان، اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے سائے میں ہوں گے۔

ماہِ محرم الحرام اسلامی سال کی پہچان، شہادت، صبر، قربانی، اور باطل کے خلاف کھڑے ہونے کی علامت۔
یہ مہینہ ہمیں اسلام کی دو عظیم ترین ہستیوں کی قربانیوں کی یاد دلاتا ہے:

اسلام کے دوسرے خلیفہ، امیرالمؤمنین، خادمِ دین، عدل و انصاف کا استعارہ، جرأت و قوت کا پیکر، اللہ کے محبوب بندے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جنہوں نے عدل، قیادت، فہمِ دین، اور تقویٰ کے وہ نقوش چھوڑے جن پر چل کر اسلام دنیا کی سب سے مضبوط تہذیب بنا۔
نواسہ رسولﷺ،جگر گوشہ بتول ؓ،جنت کے نوجوانوں کے سردار،شہید کربلا حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ جنہوں نے کربلا میں ظلم کے سامنے نہ جھکنے کی لازوال مثال قائم کر کے حق کی حفاظت کا عَلَم بلند رکھا۔
آج جب میں حضرت عمرؓ کی سیرت کے اوراق پلٹ رہا تھا امیرالمؤمنین، عدل و انصاف کا استعارہ، جرأت و تقویٰ کا مجسمہ اور جب حضرت حسینؓ کے میدانِ کربلا میں استقامت کا منظر ذہن میں آتا ہے، تو دل جذبے، عقیدت اور فکر سے بھر جاتا ہے۔
ایسے میں ایک سوال ابھرتا ہے:
کیا ہم اپنی زندگیوں میں ان ہستیوں کی سیرت کو محض پڑھتے ہیں یا اپنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں؟
کیوں نہ اس مہینے کو، حضرت عمرؓ کی بصیرت، عدل، اور قیادت، اور حضرت حسینؓ کی قربانی، صبر، اور ثابت قدمی سے روشنی حاصل کرنے کا مہینہ بنایا جائے؟
آئیے، چند سوالات کی روشنی میں ہم اپنے اندر جھانکیں، اور ان سیرتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

عمومی سوالات (Introductory)​

  • کیا ہم اپنی روزمرہ زندگی میں عدل و انصاف کو مقدم رکھتے ہیں؟
  • ہمارے فیصلے قرآن و سنت کی روشنی میں ہوتے ہیں یا ذاتی مفاد کی بنیاد پر؟
  • کیا قیادت ہمارے لیے خدمت ہے یا محض اختیار کا نام؟
  • کیا ہم حق کے لیے ویسی جرأت رکھتے ہیں، جیسی حضرت حسینؓ نے کربلا میں دکھائی؟

عدل و انصاف کے حوالے سے (حضرت عمرؓ کی بصیرت سے)​

  • حضرت عمرؓ کا عدل کس حد تک جاتا تھا؟ کیا ہم خود کو اس میزان میں تول سکتے ہیں؟
  • کیا ہم اپنے گھروں، دفاتر، اور دکانوں میں انصاف کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں؟
  • اگر ہمارا مخالف سچ کہے، تو کیا ہم اسے تسلیم کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟

فہم دین اور بصیرت​

  • حضرت عمرؓ کی رائے کئی بار قرآن کی آیات کی صورت میں نازل ہوئیں ،کیا ہم دین کو اتنی سنجیدگی سے سمجھتے ہیں؟
  • حضرت حسینؓ نے قرآن کے اصولوں پر جان قربان کر دی ،کیا ہم قرآن کو زندگی کا مرکز مانتے ہیں؟
  • کیا ہم دین کو صرف عبادت تک محدود کرتے ہیں یا معاملات، اخلاق، اور رویوں میں بھی شامل کرتے ہیں؟

قیادت، نظم و نسق، اور خدمت​

  • حضرت عمرؓ کی قیادت نےراتوں کی نیند اور ذاتی سکون کی قربانی دی تھی کیا ہم قیادت کو اتنی امانت سمجھتے ہیں؟
  • حضرت حسینؓ نے قیادت کی لالچ سے نہیں، بلکہ دین کی سربلندی کے لیے قیام کیا ، کیا ہم بھی قیادت کو دین کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں؟
  • کیا ہم اپنی ذمے داریوں میں قوم، ملت اور دین کا درد رکھتے ہیں؟

زہد، تقویٰ، اور خشیتِ الٰہی​

  • حضرت عمرؓ کی سادگی اور خدا خوفی ہمیں کیا سبق دیتی ہے؟
  • حضرت حسینؓ کا ہر قدم تقویٰ اور یقین کی علامت تھا کیا ہمارے فیصلے بھی اسی جذبے سے ہوتے ہیں؟
  • کیا ہم دنیاوی چمک کے بجائے اللہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں؟

قرآن سے تعلق​

  • حضرت عمرؓ نے قرآن کو عمل کا معیار بنایا ،کیا ہم قرآن سے زندگی کا راستہ لیتے ہیں؟
  • حضرت حسینؓ نے قرآن کی تفسیر کو میدانِ کربلا میں اپنے خون سے لکھا، کیا ہم قرآن کی محبت کو دل سے محسوس کرتے ہیں؟
  • کیا ہم قرآن صرف پڑھتے ہیں یا سمجھنے، عمل کرنے اور پھیلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں؟

عملی زندگی سے جوڑنے کے سوالات​

  • اگر حضرت عمرؓ آج ہوتے، تو ہمارے نظامِ عدل، معیشت، تعلیم اور سیاست کو کیسا پاتے؟
  • اگر حضرت حسینؓ ہمارے معاشرے کو دیکھتے، تو کیا وہ پھر بھی "حق کے لیے قربانی" کا نعرہ لگاتے؟
  • ہم حضرت عمرؓ کی کون سی ایک صفت اور حضرت حسینؓ کا کون سا ایک جذبہ فوری اپنی زندگی میں اپنا سکتے ہیں؟
  • اگر ہر مسلمان حضرت عمرؓ جیسا عادل اور حضرت حسینؓ جیسا ثابت قدم ہو جائے، تو معاشرہ کیسا بنے گا؟

حضرت عمرؓ کا عدل اور حضرت حسینؓ کا صبر یہ دونوں اسلام کی بقاء کے ستون ہیں۔
آئیے، ہم اس محرم کو ان ہستیوں کے کردار سے روشنی لینے، اپنی سوچ و عمل کو بدلنے، اور اپنی نسلوں کو سیرتِ عمرؓ و حسینؓ سے جوڑنے کا مہینہ بنائیں۔

ان کی قربانیوں کو صرف بیان نہ کریں — جئیں، اپنائیں، اور آگے پہنچائیں۔

اللّٰهم اجعلنا من العادلين كعمر، و من الصابرين كالحسين، و اجعلنا من عبادك المخلصين الذين يسيرون على نهجهم۔

آمین یا رب العالمین!
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عمرؓ کی بصیرت، حضرت حسینؓ کی قربانی

اسلامی تاریخ کے دامن میں ایسے تابناک چراغ موجود ہیں جن کی روشنی صدیوں تک رہنمائی کرتی رہی ہے۔ ان میں دو ایسی عظیم شخصیات نمایاں مقام رکھتی ہیں جنہوں نے اسلام کو استحکام اور تحفظ فراہم کیا:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ۔
ایک نے خلافت و عدالت کے نظام کو بصیرت سے سنوارا، تو دوسرے نے دینِ حق کی بقا کے لیے قربانی کی لازوال مثال قائم کی۔

حضرت عمر فاروقؓ: بصیرت و حکمت کا نمونہ

حضرت عمرؓ خلیفۂ دوم، عشرۂ مبشرہ میں شامل، جلیل القدر صحابی اور رسول اللہ ﷺ کے قریبی رفیق تھے۔ آپ کو "فاروق" کا لقب خود رسول اللہ ﷺ نے دیا، کیونکہ آپ حق اور باطل میں فرق کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔

قرآن کی تائید: عمرؓ کی رائے

کئی مواقع پر حضرت عمرؓ کی رائے کی تائید اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے فرمائی:

1. پردے کا حکم:

"وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ"
(سورۃ الاحزاب: 53)
حضرت عمرؓ کی رائے پر نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری، حدیث: 4483)

2. شراب کی حرمت:

"إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ... رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ"
(سورۃ المائدہ: 90)
عمرؓ کی مسلسل دعا کے نتیجے میں حرمت کی آخری آیت نازل ہوئی۔ (سنن نسائی، کتاب الأشربة)

3. مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانا:

"وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى"
(سورۃ البقرہ: 125)

سیاسی و انتظامی کارنامے:

عدالتی نظام کا قیام

بیت المال کی بنیاد

جیل خانوں، پولیس، ڈاک نظام، اور مردم شماری کا آغاز

نئے شہروں کی تعمیر اور رعایا پر شفقت


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔"
(جامع ترمذی، حدیث: 3686)


حضرت حسینؓ: قربانی کی اعلیٰ مثال

حضرت حسینؓ، رسول اللہ ﷺ کے نواسے، حضرت علیؓ و حضرت فاطمہؓ کے فرزند اور اہلِ بیت کے چشم و چراغ تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"حسین منی وأنا من حسین، أحبّ الله من أحبّ حسینًا"
(جامع ترمذی، حدیث: 3775)
ترجمہ: "حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے۔"

کربلا: دین کی سربلندی کا معرکہ

سن 61 ہجری میں حضرت حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا:

"میں صرف امتِ رسول ﷺ کی اصلاح، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے نکل رہا ہوں۔"
(البدایہ والنہایہ، امام ابن کثیر)


کربلا میں آپ نے اپنے اہل و عیال سمیت صبر، استقامت، اور وفا کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک مظلوموں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

حضرت حسینؓ کا پیغام:

آپ نے ثابت کیا کہ دین کے تحفظ کے لیے جان قربان کی جا سکتی ہے، مگر باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا جا سکتا۔

خلاصہ کلام:

حضرت عمرؓ اور حضرت حسینؓ، دونوں کی زندگیاں اسلام کے دو عظیم ستون ہیں:
عمرؓ کی بصیرت نے اسلامی ریاست کو عدل، نظام اور وسعت عطا کی۔
حسینؓ کی قربانی نے دین کے بنیادی اصولوں کی حفاظت کی۔
ایک کی تدبیر نے اسلامی معاشرہ سنوارا، دوسرے کی شمشیر نے حق کو سر بلند رکھا۔ آج امت مسلمہ اگر ان دونوں کے طرزِ عمل کو اپنائے تو دنیا میں عدل، اتحاد، اور دین پر استقامت بحال ہو سکتی ہے۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عمرؓ کی شجاعت اور حضرت حسینؓ کی سخاوت

اسلام کی تاریخ بہادری، قربانی اور اخلاقی عظمت سے لبریز ہے۔ خلفائے راشدین اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم نے اپنے کردار سے دینِ اسلام کو زندہ کیا۔ ان عظیم ہستیوں میں حضرت عمر بن خطابؓ شجاعت کی علامت ہیں جبکہ حضرت حسین بن علیؓ سخاوت اور ایثار کا روشن مینار ہیں۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شجاعت:​


1. اسلام لانے کے بعد اعلانِ ایمان:


جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو کفارِ مکہ سے نہ ڈرے، بلکہ علی الاعلان اسلام کا اظہار کیا اور مسلمانوں کو دارِ ارقم سے نکال کر بیت اللہ میں لے گئے۔(ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج 3، ص 1145/ابن حجر، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج 4، ص 377)

2. غزوات میں شرکت:


حضرت عمرؓ نے غزوۂ بدر، احد، خندق اور دیگر معرکوں میں شرکت کی اور اپنی بے مثال شجاعت دکھائی۔(امام واقدی، المغازی، ج1، ص 82/امام طبری، تاریخ الأمم والملوک، ج 2، ص 137)

3. خلافت میں شجاعت اور فتوحات:


آپؓ کے دور خلافت میں فارس، شام، مصر، عراق اور بیت المقدس فتح ہوئے۔ آپ نے بڑی بہادری سے دشمنوں کے خلاف لشکر بھیجے اور سپہ سالاروں کی بہترین رہنمائی کی۔(امام بلاذری، فتوح البلدان، ص 235/ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوك والامم، ج 5، ص 45)

حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی سخاوت:​


1. مدینہ کے غرباء کی پوشیدہ مدد:


حضرت حسینؓ رات کی تاریکی میں راشن کی بوریاں اپنی پیٹھ پر رکھ کر غرباء کے گھروں میں پہنچاتے، اور ان کی شناخت ظاہر نہ ہونے دیتے۔(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ج 5، ص 133/امام ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 3، ص 289)

2. غلاموں سے حسنِ سلوک اور سخاوت:


حضرت حسینؓ کا معمول تھا کہ اپنے غلاموں کو کھلاتے، پلاتے اور معمولی بات پر بھی آزاد کر دیتے۔(امام ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج 14، ص 195/امام ذہبی، تذکرۃ الحفاظ، ج 1، ص 94)

3. کربلا میں اخلاق و سخاوت:


کربلا کے میدان میں جب دشمنوں نے پانی مانگا، تو حضرت حسینؓ نے ان کے گھوڑوں اور اہلکاروں کو پانی پلایا، حالانکہ خود کے خیمے پانی سے محروم تھے۔(ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج 8، ص 189/ابن ابی شیبہ، المصنف، حدیث: 32122)

حاصل کلام:​


حضرت عمرؓ کی شجاعت ہمیں حق بات پر ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتی ہے، جبکہ حضرت حسینؓ کی سخاوت انسانیت کی خدمت، ایثار اور صبر کا درس دیتی ہے۔ اہلِ سنت کے نزدیک یہ دونوں ہستیاں اسلام کے ستونوں کی مانند ہیں، جن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔
 
Top