سرحدیں یا احساسِ تعلق؟ امت کے تصور پر ایک نئی نگاہ
کیا ہماری پہچان قوم سے ہے؟ نسل سے؟ قبیلے سے؟ یا اُس وحدہٗ لا شریک کی بندگی سے، جس نے ہمیں مختلف رنگ، زبانیں اور شناختیں دے کر پیدا کیا؟اسلام کا پیغام ہی یہ تھا کہ ظاہری فرق انسانوں کو بانٹنے نہیں، جوڑنے کا ذریعہ ہوں۔ نسل، زبان، قومیت، طبقہ یہ سب محض پہچان کا وسیلہ ہیں، برتری کا معیار نہیں۔
اس ماہ ہم غور کریں گے:
"قومیت، نسل اور قبائلی تعصب کا قرآنی جائزہ اور امتِ واحدہ کی اخلاقی و عالمی شناخت کی تفہیم"
اسلام نے کبھی انسانی تنوع کو مٹانے کی دعوت نہیں دی بلکہ اسے اللہ کی نشانی قرار دیا۔ چنانچہ ثقافت، زبان اور زمین سے تعلق کو سراہنا ایمان کے خلاف نہیں۔ مگر جب یہی تعلقات تعصب، احساسِ برتری یا دوسرے کو کمتر سمجھنے کا ذریعہ بن جائیں تو وہی خوبصورت تنوع دیوار بن جاتا ہے اور ہم "امت" کی اس وحدت سے محروم ہو جاتے ہیں جس کی قرآن دعوت دیتا ہے۔
اب سوال یہ ہے:
ہم ان سرحدوں اور تعصبات پر کیسے قابو پائیں؟
ہم کیسے اپنی قوم سے محبت کرتے ہوئے بھی پوری امت سے جڑے رہیں؟
تنوع کو دیوار نہیں، پُل کیسے بنائیں؟
فخرِ قومیت اور عالمگیر اخوت میں توازن کیسے پیدا ہو؟
قرآن ہمیں اس بارے میں کیا حکمتیں سکھاتا ہے؟
یہ سوالات نہ صرف آج کی دنیا میں اہم ہیں، بلکہ امت کے وجود و بقا سے جڑے ہوئے ہیں۔
آیئے، اس موضوع پر مل کر غور کریں، لکھیں، پڑھیں اور ایک ایسی سوچ کی تشکیل کریں جو ہمیں "امتِ واحدہ" بننے کی طرف لے جائے۔
آپ کی گراں قدر آرا، تجربات اور حاصل مطالعہ کا ہمیں انتظار ہے!
#سرحدوں_سے_آگے
#نور_نیت