محرم کی فضیلت و رسومات، صحابہ کی آپس میں محبت

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
ماہ محرم الحرام روز اول سے کافی اہمیت رکھتا ہے۔قرآن و حدیث میں اس کی کافضیلت وارد ہوئی ہے،اور اسی ماہ کی یکم تاریخ کو سسر رسول اکرم ﷺ ،امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور اسی ماہ کی دس تاریخ کو جگر گوشہ بتول ،نواسہ رسولﷺ سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے۔
آئیے اختصار کے ساتھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
*فضائل محرم الحرام*
رب کائینات نے اس ماہ کو قرآن کریم فرقان حمید میں چار مہینوں کو ’’اشہُر حُرُم‘‘ میں شمار فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے۔ جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے، جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔(التوبۃ، آیت نمبر:۳۶)
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔اسلام سے قبل بھی یہ مہینہ قابل احترام تھا اور اہل مکہ اسی مہینے سے نئے سال کا آغاز کرتے تھے۔ امیر المؤمین سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب اسلامی تاریخ کا مسئلہ زیر بحث آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کے اتفاق رائے سے’’محرم‘‘کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔(المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام للدكتور جواد علي: ۱۲۱/۱۶، ط: دار الساقي)
’’اشہُر حُرُم‘‘ میں ’’محرم الحرام‘‘ سب سے افضل مہینہ ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ رات کا کون سا حصہ بہتر ہے اور کون کا مہینہ افضل ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’رات کا درمیانی حصہ بہتر ہے، اور مہینوں میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے، جس کو تم محرم کہتے ہو،لیکن ماہِ رمضان اس سے مستثنیٰ ہے۔‘‘ (خصوصیاتِ ماہِ محرم الحرام)
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ:
’’ اللہ تعالی نے اسلامی سال کی ابتداء بھی ’’اشھرحرم‘‘سے کی اور اختتام بھی ’’اشھرحرم‘‘پر کیا، سال بھر کے مہینوں میں رمضان کے بعد اللہ تعالی کے نزدیک افضل ترین مہینہ محرم ہی کا ہے، اس کی شدت حرمت کی وجہ سے" اس کو ’’شھر اللہ الاصم‘‘ (اللہ تعالی کا بہرا مہینہ ) کہا گیا ہے۔(لطائف المعارف لابن رجب: ص: ۷۸، ط: دار ابن کثیر، بیروت)
جس طرح ماہ محرم میں ’’عبادت‘‘ کی فضیلت ہے اسی طرح ہی اس ماہ میں ’’گناہ‘‘ کرنے کی شدت بھی ہے۔
مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’تمام انبیاء کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال وعذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ ( معارف القرآن: ۳۷۲/۴، ط: ادارة المعارف)
*فضائل امیرا لمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ*
مرادِ رسول،خسرِ رسول،دامادِ بتول، امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زندگی اسلامی تاریخ میں ایک درخشندہ اور تابندہ باب ہے۔آپؓ ایمان و ایقان، علم وعمل،شرافت،بزرگی،اخلاص وللہیت،عدل وانصاف،دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی اعلی مثال ہیں۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا شمار ان رہبروں میں ہوتا ہے جو لوگوں کیلئے زندگی کے اصول وضع کرتے ہیں اور پھر لوگ اپنی زندگیوں میں ان کے اقوال و افعال سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔تاریخِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے، لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے طفلِ مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہلِ انصاف سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدل پروری کو دیکھ کر جی کھول کر اُن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام کو غلبہ دینے کی دعا کرتے تھے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا یوں فرمائی:
اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الإِْسْلاَمَ بِأَحَبِّ ہَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِوَکَانَ أَحَبَّہُمَا إِلَیْہِ عُمَرُ۔’’
اے اللہ ! ابو جہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ زیادہ محبوب تھے۔(ترمذی:۳۶۸۱،۳۶۸۳ باسنا د حسن)
یہی وجہ ہے کہ آپ کو مراد رسول ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔
آپؓ کے قبولِ اسلام پر آنحضرت ﷺ نے بے ساختہ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ تمام پہاڑیاں گونج اُٹھیں۔ (اسدالغابہ وابن عساکر وکامل ابن اثیر )
مفسرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم : لما أسلم أتاني جبرائیل، فقال: استبشر أھل السماء بإسلام عمرؓ ‘‘
یعنی حضور سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور کہا کہ: آسمان والے عمر ؓ کے قبولِ اسلام پر خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘(مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
حضرت صہیب بن سنانؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو اسلام ظاہر ہوگیا ،انہوں نے علانیہ طور پر اسلام کی دعوت دینا شروع کی ۔ہم نے بیت اللہ کا طواف کیااور بیت اللہ میں نماز پڑھی ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں جب سے عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو ہم طاقتور اور مضبوط ہوتے گئے۔ ( الطبقات الکُبریٰ )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
’’اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جس راستے پہ آپ کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے، وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِہٖ
’’بے شک اللہ تعالی نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو رکھ دیا ہے۔‘‘(ترمذی:۳۶۸۲ وغیرہ باسناد صحیح لغیرہ)
*فضائل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ*
نواسۂ رسول، شہیدِکربلا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ اور شیرِ خدا خلیفہ ٔ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے لختِ جگر اور نواسۂ پیغمبر علیہ السلام ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی فضیلت یہی ہے کہ آپ نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول اور شیرِخدا رضی اللہ عنہ کے لختِ جگر اور رتبۂ صحابیت پر فائز ہیں، جو اس حسب و نسب کی فضیلت کو باعثِ نجاتِ اُخروی بنادیتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ اور باغِ نبوت کے مہکتے پھول تھے، جس ماحول میں آپؓ نے پرورش پائی، اس سے پاکیزہ اور اچھے ماحول کا تصور ممکن ہی نہیں ہے، چنانچہ آپؓ اخلاق، اعمال، صوم و صلاۃ، حج و زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، اُمورِ خیر اور عبادات میں اپنی مثال آپ تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ:
’’جناب حسنین کریمین رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے باہم کشتی کا کھیل کھیل رہے تھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: حسن! شاباش! جلدی کرو۔ حضرت فاطمہ t عرض کرنے لگیں: آپ حسن کو ہی کیوں شاباشیاں دے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: حسین کو جبریل امین کہہ رہے ہیں کہ شاباش حسین! جلدی کرو۔‘‘ (اسدالغابہ: ۱/۵۴۹۷)
حضرت یعلٰی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
’’ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوتِ طعام پر گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے آگے آگے چل رہے تھے ، آپ نے دیکھا کہ حسین بچوں کے ساـتھ کھیل رہے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑناچاہا تو وہ ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (اُن کو پکڑنے کے لیے دوڑ کر) خوش طبعی کرنے لگے، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں پکڑ لیا، پھر اپنا ایک ہاتھ اُن کی گدی پر رکھا اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور ان کے دہنِ طیب پر اپنا دہن مبارک رکھ کر چومنے لگے اور فرمایا کہ: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرے۔‘‘ (المستدرک للحاکم، رقم:۴۸۲۰)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
’’رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کو اہلِ بیت میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت ہے؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: حسن ؓ و حسین ؓ سے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ ؓ کو فرماتے کہ میرے بچوں کو میرے پاس بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور سینے سے لگاتے۔‘‘ (ترمذی: ۳۷۷۲)
یعلیٰ بن مرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں (لہٰذاحسین سے محبت مجھ سے محبت ہے اور حسین سے دشمنی مجھ سے دشمنی ہے) اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت کرتے ہیں جو حسین سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی: ۳۷۷۵)
*حضرات حسنین کریمین ؓ سے حضرات خلفاء راشدین ؓ کی محبت*
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم ! اپنے اقرباء سے صلہ رحمی کی نسبت مجھے یہ بات کہیں زیادہ عزیز ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقرباء سے صلہ رحمی کروں۔‘‘(صحیح البخاری)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں حیرہ علاقہ فتح ہوا تو ایک بہت خوبصورت اور قیمتی چادر مالِ غنیمت میں آئی، آپ نے وہ چادر حضرت حسینؓ کو دی کہ شہزادے کے ساتھ اچھی لگتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بدری اصحاب کے برابر دونوں بھائیوں کے وظائف مقرر کیے، دین نے جس چیز سے نہیں روکا اور اجازت دی، خلفاءثلاثہؓ نے اس مقدس گھرانے کے ایک ایک فرد بالخصوص ان شہزادوں کے ساتھ محبت ومودت ،جود وسخاوت میں انتہا کردی اور جس سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا تو پھر اس مقدس گھرانے کے تقدُّس کو دھبہ لگنا بھی گوارا نہ کیا ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یمن سے کپڑے آئے تو کوئی حسنین کریمینؓ کے ناپ کے مطابق پورا نہیں آیا، آپ غمگین ہوگئے اور فوراً ناپ یمن بھجوا کر نئے جوڑے تیار کروائے، اور جب انہوں نے پہنے تو فرمایا: ’’شکر ہے اس اللہ کا جس نے میرا دل ٹھنڈا کیا ہے۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک روز خطبہ دے رہے تھے تو حدیث پڑھ کر آپ نے دونوں صاحبزادوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ ان سے بھی محبت رکھے اور ان کے درجات پہچانے۔‘‘ (سیرۃ الخلفاءؓ)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کا حق بھی حسنؓ و حسینؓ نے ادا کیا، باغیوں نے جب خلیفۂ رسول کے گھر کا محاصرہ کیا تو دروازے پر پہرہ دیا، حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایک تیر سے زخمی بھی ہوئے، پر باغیوں کوسامنے سے اندر نہ جانے دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ‘ حضرت حسنین رضی اللہ عنہما کے گھوڑے کی رکاب پکڑتے تھے، کسی نے کہا: آپ علم و عمل میں زیادہ اور بزرگ ہیں؟ کہا: میرے لیے تو یہ سعادت کی بات ہے۔حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خاطر لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے صرف حسنین کریمینؓ کی فرمائش پر ہی بعد از وصالِ نبوی اذان دی۔
اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حکومتی معاملات میں ہاتھ بٹایا کرتے اور اُن کے ساتھ جنگوں میں بھی حصہ لیتے، ان کے بعد اپنے چہیتے بھائی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی معاون رہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی عنایات سے نوازے جاتے رہے۔ الغرض ہمیشہ سب کے منظورِ نظر رہے اور اپنے اختیارات کو استعمال کرتے رہے۔
یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرات حسنین کریمین ؓ سے حضرات خلفاء راشدین ؓ اور اکابرین صحابہ کے درمیان آپسی حُسنِ تعلقات، باہمی اعتماد، قلبی محبت ، دلی اُلفت ، اتحاد و یگانگت،اتفاق و ہم آہنگی اور بہترین سلوک تھا۔
*کیا محرم کی فضیلت شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہے؟*
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ماہِ محرم یا دس محرم کو فضیلت حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور شہدائے کربلا کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے،یہ بات کئی وجوہات کی بناء پر سراسر باطل اور غلط ہے۔
محرم کا مہینہ ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ہے، جن کو اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی پیدائشں کے وقت ہی سے فضیلت بخشی، جیسا کہ سورة توبہ کی آیت میں ذکر ہے، اور اسی طرح تفصیل سے احادیث مبارکہ ذکر ہوچکی کہ یہود ونصاریٰ اور قریش مکہ بھی اس دن کو عظمت اور احترام والا سمجھتے تھے، اور خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کی فضیلت بھی بیان فرمائی، اور اس دن روزہ رکھنے کو اجر کا باعث قرار دیا، جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ بہت بعد میں سن 61 ہجری میں پیش آیا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ محرم اور عاشورہ کو فضیلت شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہو، البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے مقبول بندے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے لیے اس محترم و معظم دن کا انتخاب فرمایا، لہذا ماہِ محرم یا عاشورہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے فضیلت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس دن شہید ہونے کی وجہ سے اور زیادہ فضیلت حاصل ہوئی۔(الغنية للشيخ عبدالقادر الجيلاني: ۹۳/۲، ط: دار الكتب العلمية)
*دس محرم کا روزہ*
*دس محرم کا روزہ*
یوم عاشوراء زمانہٴ جاہلیت میں قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ما رأیتُ النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ھذا الیومَ یومَ عاشوراءَ وھذا الشھرَ یعنی شھرَ رَمَضَان (بخاری شریف۱/۲۶۸، مسلم شریف ۱/۳۶۰،۳۶۱)
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم کیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر موسیٰ علیہ السلام کی (خوشی میں شریک ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔(صحیح البخاري: رقم الحدیث: ۲۰۰۴/صحیح مسلم: رقم الحدیث: ۲۵۲۶)
حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ’’تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواَوریہود کی مخالفت کرو۔‘‘(سنن الترمذي، ۳/ ۱۲۰)
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھے، تو مستحب یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور بھی رکھے، چاہے نو محرم کا روزہ ہو یا گیارہ کا۔(بدائع الصنائع: ۷۹/۲، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت/ رد المحتار: ۳۷۵/۲، ط: دار الفکر، بیروت)
*یوم عاشورہ کو اپنے گھر والوں پر فراخی کی فضیلت*
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔‘‘(شعب الإيمان: ۳۳۳/۵، ط: مكتبة الرشد، ریاض)
امام بیہقیؒ شعب الایمان میں تمام احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یہ تمام روایات اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن چوں کہ ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں، اس لیے مجموعی اعتبار سے ان میں قوت آجاتی ہے۔(شعب الایمان للبیھقي: ۳۳۳/۵، ط: مکتبة الرشد)
*محرم میں نہ کرنے کام*
۱۔حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:
’’ دو چیزیں ایسی ہیں جو کفر ہیں: ایک تو نسب میں طعنہ دینا، اور دوسرا میت پر نوحہ کرنا۔‘‘(صحیح مسلم: رقم الحدیث: ۲۲۷)
۲۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا:
’’وہ ہم میں سے نہیں جو (مصیبت کے وقت) چہرے کو پیٹے، گریبان کو پھاڑےاور جاہلیت جیسا واویلا اور نوحہ کرے۔‘‘(صحیح البخاري: رقم الحدیث: ۱۲۹۴)
احادیث مبارکہ میں واضح طور پر مصیبت کے وقت نوحہ کرنے، چیخنے چلانے، واویلا کرنے، جاہلیت جیسی باتیں کرنے، گریبان اور کپڑے پھاڑنے، چہرہ پیٹنے، چہرہ نوچنے اور ماتم کرنے جیسے، تمام غیر شرعی کاموں کی شدید مذمت اور ان سے متعلق سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، اس لیے ایک مسلمان کو ان غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
عشرہ محرم میں مسلمان بھی ماتم کی مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور تعزیہ کے جلوس کو دیکھنے کے لیے بڑے شوق سے جاتے ہیں یا ٹی وی، موبائل فون وغیرہ پر تعزیے اور ماتمی جلوس کا نظارہ کرتے ہیں، حالانکہ اس میں کئی گناہ ہیں:
ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہ اور دشمنان قرآن کے ساتھ مشابہت ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی قوم سے مشابہت کی، وہ انہی میں شمار ہوگا۔
دوسرا گناہ یہ ہے کہ دشمنان صحابہ کی تعداد بڑھتی ہے؛ جبکہ دشمنوں کی تعداد بڑھانا حرام ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کیا، وہ بھی انہی میں شمار ہوگا۔(کنز العمال، کتاب الصحبة من قسم الأقوال، ۹: ۲۲، رقم: ۲۴۷۳۵، ط موٴسسة الرسالة، بیروت)
تیسرا گناہ یہ ہے کہ جس طرح عبادت کا کرنا اور دیکھنا اور اس سے خوش ہونا باعثِ اجر وثواب ہے، اسی طرح گناہوں کے کاموں کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے، ظاہر ہے کہ ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا، یہ سب گناہ کے کام ہیں۔
چوتھا گناہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے، وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ایسی غضب والی جگہ پر جانا بھی گناہ سے خالی نہیں، غرض کہ ان مجلسوں اور جلوسوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے۔( احسن الفتاویٰ، ج:۱،ص: ۳۹۴ ط: ایچ ایم سعید )
بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا،حلیم وغیرہ پکاتے ہیں۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس بارے میں "البداية والنهاية" میں لکھا ہے کہ:
’’ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملاکر پکاتے تھے۔‘‘ (البدایة والنہایة: ۲۰۲/۸- ۵۹۹، ط: بیروت)
اس بات سے معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، اہل بیت سے الفت ومحبت رکھنے والوں کو اس رسم سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
بعض لوگ ماہ محرم اور بالخصوص دس محرم کو پانی اور شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں، تو اگرچہ پانی پلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے؛ لیکن اس ثواب کے کام کو صرف محرم کے مہینے کے ساتھ خاص کرنا اور اس مہینے کے اندر سبیل لگانے کو زیادہ اجر و ثواب کا موجب سمجھنا، بدعت اور ناجائز ہے۔( فتاوی عثمانی، ج:۱، ص:۱۲۲ ط: معارف القرآن )
ماہ محرم خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ میں بعض لوگ کھانا پکاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہ طریقہ بھی بالکل غلط ہے، اور اس مروجہ طریقے میں کئی قباحتیں ہیں:
۱۔ جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے، اگر ان کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا گیا اور ان کے نام سے وہ کھانا پکایا گیا تو یہ شرک ہے، اور ایسا کھانا ”مَا اُھلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ“ میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
۲۔ عموماً یہ خیال کیاجاتا ہے کہ جو چیز صدقہ میں دی جاتی ہے، میت کو بعینہ وہی ملتی ہے؛حالانکہ یہ خیال بالکل باطل ہے، میت کو وہ چیز نہیں پہنچتی؛ بلکہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔
۳۔ ایصالِ ثواب میں اپنی طرف سے قیود لگائی گئی ہیں، مثلا صدقہ کی متعین صورت یعنی کھانا، مہینہ متعین، دن متعین، حالانکہ شریعت نے ان چیزوں کی تعیین نہیں فرمائی ہے، جو چیز چاہیں جب چاہیں صدقہ کرسکتے ہیں، شریعت کی دی ہوئی آزادی پر اپنی طرف سے پابندیاں لگانا گناہ اور بدعت، بلکہ شریعت کا مقابلہ ہے۔( احسن الفتاوی،ج:۲، ص: ۳۹۲، ط: ایچ، ایم، سعید )
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں حضرات اہل بیت ؓ،حضرات صحابہ ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان جیسی محبتیں اور ان کی طرح دین اسلام کو سمجھتے ہوئے اپنا تن من دھن قربان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
 
Top