مقامِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:

یَا اَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْ نُوا مَعَ الصَّادِقّیْنَ۔

اے ایمان والو اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کی معیت اختیار کرو۔(سورۂ توبہ:۱۱۹)

جیسے تقویٰ کا حکم ہے ویسے ہی معیّت کا حکم ہے یعنی صادقین کی معیت اختیار کرو گے تو تقویٰ اور خشیت پیدا ہوں گے۔ حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت و بڑائی صحبتِ نبوی ہی تو ہے۔ اس کی بنیاد محض تعلیم نہیں بلکہ صحبت یافتگی ہے۔ جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کا اپنی آنکھوں سے دیدار کیا ۔ جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک سے اپنے ہاتھ ملائے۔ جنھوں نے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سونگھی اُن کے پاس بیٹھ کر۔ یہ وہ فضیلت ہے کہ امت میں بڑے سے بڑا قطب ہو جائے مگر صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔

صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست جو نور حاصل کیا ہمیں وہ نور واسطہ در واسطہ ہو کر ملا ہے۔ صحبت و معیّت کا بلاواسطہ شرف صرف صحابہ کو حاصل ہے۔ صحابہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگوں میں رنگے ہوئے ہیں۔ برس ہا برس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور صحبتِ مبارکہ میں رہ کر وہی خُوبُو اور وہی ذوق اپنے اندر پیدا کیا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذوق مبارک تھا۔ اس لیے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ہمارا تعلق فقط کتابی، روایتی ، اسنادی اور تاریخی نہیں بلکہ محبت اور ایمان کا تعلق ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ تاریخ میں چونکہ وہ بڑے آدمی ہیں اس لیے ہم بھی بڑا سمجھتے ہیں بلکہ صحابہ کا مقام اور حیثیت اس سے ماورا ہے۔ اُن کی نسبت کا تقاضا یہ ہے کہ ایمان والوں کو جو محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے وہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ :

مَنْ اَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّیْ اَحَبَّہُمْ وَ مَنْ اَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِیْ اَبْغَضَہُمْ۔

’’جو میرے صحابہ سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ میرے بغض کی وجہ سے رکھے گا۔‘‘

صحابہ محض ہمارے استاد اور شیوخ ہی نہیں بلکہ محبوب القلوب بھی ہیں۔ ہمارے دلوں کے رگ و پے میں اُن کی محبت رچی بسی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے جب کسی سے محبت ہو جائے تو اس کی ہر ادا محبوب ہوتی ہے۔ محب بھی ہو اور محبوب پر تنقید بھی کرے تو دعویٰ محبت میں جھوٹا ہو گا۔ محبوب اپنے قد و قامت، رنگ ڈھنگ اور خُو بُو میں اعلیٰ ہے تو میں محب بنا ہوں۔ اگر یہ سب کچھ غلط نظر آتا ہے تو کس نے مجبور کیا تھا کہ تو محبت کرے۔

ایک طرف دعویٰ محبت اور دوسری طرف تنقید۔ یہ متضاد چیزیں ہیں یکجا نہیں ہو سکتیں۔ جو انھیں جمع کرتا ہے ہم اُسے احمق کہیں گے، دانش مند نہیں کہیں گے۔ محبوب کے معنیٰ یہ ہیں کہ اُن کی ساری ادائیں ہمیں پسند ہیں۔ جبھی تو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے تمام صحابہ سے محبت کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور صحابہ پر تنقید ؟یہ اخلاص نہیں ، نفاق ہے۔

اخلاص کے معنیٰ یہ ہیں کہ نبی کا قول و فعل اور ہر اداء محبوب ہو۔ انبیاء کی محبت ایمان کی بنیاد ہے تو صحابہ کی محبت آثار ایمان میں سے ہے۔ صحابہ سے محبت نہیں تو ایمان میں خرابی اور نقص ہے۔ محبت میں تنقید نہیں چلا کرتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو معیارِ حق قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ نصاریٰ کے اندر ۷۲ فرقے ہوئے اور میری امت میں ۷۳ فرقے ہوں گے۔ کُلُّہا فِی النّارِ الّا واحِدَۃٌ سب کے سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے جو نجات پائے گا‘‘

صحابہ نے عرض کیا : کون ہیں وہ لوگ؟

فرمایا : مَا أنا عَلَیْہِ وَ أصْحَاْبِیْ۔ جس طریقے پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں یہی وہ طریقہ ہے جو نجات کا ذریعہ بنے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ذاتِ اقدس کے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی ملایا اور اِس مجموعہ کو معیارِ حق فرمایا۔ گویا فرقوں کے حق و باطل ہونے کا معیار نب�ئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ جو ان سے منسلک رہے وہ حق پر ہے اور جو ان سے منحرف ہو جائے وہ فرقۂ ناری ہے۔ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حق جان کر آپ سے کامل محبت اور کامل اتباع کریں گے وہی نوعیت صحابہ میں آجائے گی صحابہ سے بھی کامل محبت اور کامل اتباع واجب ہے۔ تب مانا جائے گا کہ ہم نے ان کو معیار حق سمجھا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو جو محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے وہی محبت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ہونی چاہیے۔ نبی اور اصحابِ نبی کی محبت ایمان کی بنیاد ہے۔

اقتباسِ خطاب
حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ
مدرسہ معدن العلوم واتمباڑی، بھارت۔

(۳۰ دسمبر ۱۹۷۹ء)

بشکریہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت
 
Top