الشیخ الامام علی بن سلطان محمد ہروی معروف بہ ملا علی قاری
حنفی م 1014
حنفی م 1014
مشہور ومعروف وحید عصر ، فرید دہر ،محدث وفقیہ ، جامع معقول ومنقول تھے،سنہ ہزار کے سرے پر پہنچ کر درجہ مجددیت پر فائز ہوئے ، ہرات میں پیدا ہوئے اور مکہ معظمہ میں حاضر ہو کر علامہ محقق مدقق ، متبحر فی علوم الحدیث والفقہ احمد بن حجر ہیثمی مکی ،علامہ ابو الحسن بکری ،شیخ عبد اللہ سندی ، شیخ قطب الدین مکی وغیرہ اعلام سے علوم کی تحصیل وتکمیل کی ، آپ کی مشہور تصانیف یہ ہیں ، مرقات شرح مشکوٰۃ ، شرح نقایہ ( مختصر الوقایہ ) شرح مؤطا امام احمد، شرح مسند الامام الاعظم ،اربعین فی ا لنکاح ،اربعین فی فضائل القرآن ، رسالہ فی تر کیب لا الٰہ الا اللہ ،رسالہ فی قراءۃ البسملہ اول سورۃ البراءہ ، فرائد القلائد فی تخریج احادیث ، شرح العقائد المصنوع فی معرفۃ الموضوع ، نور القاری شرح صحیح البخاری ،شرح صحیح مسلم ، جمع الوسائل شرح الشمائل للترمذی ،شرح جامع الصغیر للسیوطی ، شرح حصن حصین ،شرح اربعین نووی ، شرح ثلاثیات البخاری ،الاحادیث القدسیہ ،تذکرۃ الموضوعات ، تفسیر قرآن مجید ، جمالین حاشیہ جلا لین ، شرح شفا ء قاضی عیاض ، شرح النخبہ ،شرح الشاطبیہ ، شرح الجزریہ ،اعراب القاری ، شرح عین العلم ، شرح فقہ اکبر ،شرح مناسک الحج ، تزئین العبارہ لتحسین الاشارہ ، التدہین للتزیین ، الاہتدا ء فی الاقداء ، حاشیہ مواہب الدنیہ ، حاشیہ بدء الامالی ، رسالہ فی صلٰوۃ الجنازہ فی المسجد ،مشرب الوردی فی مذہب المہدی ،بہجۃ الانسان فی منحۃ الحیوان،، رسالہ فی حکم الشیخین وغیرہما من الصحابہ، الاشمار الجنیہ فی اسماء الحنفیہ ، نزہۃ الخاطر الفاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر ، الناموس فی تلخیص القاموس وغیرہ ،آپ نے امام مالک کے مسئلہ ارسال کے خلاف اور امام شافعی واصحاب امام شافعی کے بھی بہت سے مسائل کے خلاف حدیثی فقہی دلائل وبرا ہین جمع فر ماء کر نہایت انصاف ودیانت سے کلام کیا ہے .
آپ کی تمام کتابیں اپنے اپنے موضوع میں مجموعہ نفائس وفرائد ہیں ، خصوصا شرح مشکوٰۃ ،شرح نقایہ ( مختصر الوقایہ) احادیث واحکام کا نہایت گراں قدر مجموعہ ہے ، مرقات بہت مدت ہوئی 5 بڑی جلدوں میں چھپی تھی.
شرح نقایہ کتب فقہ میں نہایت اہم درجہ رکھتی ہے حضرت علامہ محقق کشمیری قدس سرہ نے اپنی وفات سے چند دن قبل اپنے تلمیذ رشید جناب مولا نا سید احمد صاحب مالک کتب خانہ اعزازیہ دیوبند کو خاص طور سے متوجہ کیا تھا کہ اسکو شائع کردیں اور ان کی بڑی تمنا تھی کہ کتاب مذکورہ طبع ہو کر داخل درس نصاب مدارس عربیہ ہو جائے .فر مایا کرتے تھے کہ یہ کتاب ان لوگوں کا جواب ہے جو کہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے مسائل احادیث صحیحہ سے مبرہن نہیں ہیں ، علامہ ملا علی قاری نے تمام مسائل پر محدثانہ کلام کیا ہے یہ بھی فر مایا کہ یہ کتاب اگر میری زندگی میں شائع ہو گئی تو تمام مدارس عربیہ کے نصاب میں داخل کرانے کی سعی کروں گا.
حضرت الاستاذ العلام مولانا اعزاز علی صاحب اس کا ایک مکمل نسخہ ( جو غالبا روس کا مطبوعہ تھا) حجاز سے لے کر آئے اور تحشیہ فرمایا ، مولانا سید احمد صاحب موصوف نے حضرت شاہ صاحب کے ارشاد بلکہ حکم پر حیدرآباد دکن کے ایک سر کاری اسکول کی ملازمت تر ک فر ماکر اسکی اشاعت کا اہتمام کیا اور اسی سے ان کی موجودہ کتب خانہ اور تجارتی لائن کی بنیا د پڑی جس کیلئے حضرت شاہ صاحب نے ہی یہ پیشین گوئی بھی فر مائی تھی کہ تم اس کام میں ملازمت سے زیادہ اچھے رہو گے ، حالانکہ وہ اسکول کالج ہو نے والا تھا اور اب موصوف کی تنخواہ 605 روپیہ ماہوار ہو جاتی مگر خود موصوف کا بیان ہے کہ حضرت شاہ صاحب کی بیشنگوئی صادق ہوئی اور مجھے اس کام میں ملازمت سے بدرجہا زائد منافع حاصل ہوئے .
کتاب مذکور کی جلد اول وفات سے چند ایام قبل تیار ہو سکی تھی ، مولوی صاحب موصوف نے پیش کی تو حضرت نے نہایت مسرت کا اظہار فر مایا اور چند مشہور مدارس کو خطوط لکھوائے کہ داخل درس کیا جائے ، جامعہ ڈابھیل ، دارا لعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ ، اور پنجاب کے بعض مدارس میں داخل نصاب ہوئی ، بعد کو دوسری جلد بھی چھپی جو اب نایاب ہے افسوس کہ تیسری وچوتھی جلد نہ چھپ سکی ،دارالعلوم دیو بند میں بھی کچھ عرصہ حضرت مولانا اعزازعلی صاحب نے پڑھائی ، پڑھنے والے ایک وقت میں چار سو تک ہوئے ہیں مگر افسوس کہ مستقل طور پر داخل درس نہ ہو سکی .
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ '' مذہب حنفی ہی میں وہ نہایت عمدہ طریقہ ہے جو بہ نسبت دوسرے تمام طریقوں کے حدیث وسنت کے اس تمام ذخیرہ سے جو امام بخاری اور ان کے اصحاب کے زمانہ میں جمع ہو کر منقح ہوا ، زیادہ مطابق ہے ''
نیز علامہ کشمیری کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ '' ائمہ احناف کے اکثر مسائل احادیث صحیحہ معمولہ سلف کے موافق ہیں اور دوسرے مذاہب میں تخصیصات ومستثنیات زیادہ ہیں '' ضرورت ہے کہ ہم اپنے درس ومطالعہ کے زاویہائے نظرکو بدلیں ، تمام مسائل کی تحقیق وتنقیح محدثانہ نقطہ نظر سے کرنے کے عادی ہوں اور بغیر کسی ادنیٰ مر عوبیت کے اپنوں وغیروں کی کتابوں سے مستفید ہوں.
صحیح کی تالیف سے قبل اکابرمحدثین کی تقریبا ایک سو کتابیں احادیث وآثار کی مدون ہو چکی تھیں ،جن میں مسانید امام اعظم ، مؤطا امام مالک ، مسند امام شافعی ، مسند امام احمد ، مصنف ابن ابی شیبہ ، مصنف عبد الرزاق ، وغیرہ ہیں اور وہ سب بعد کو آنے والی کتب صحاح کے لئے بمنزلہ اصول وامہات کے ہیں.
امام بخاری نے نے اپنی صحیح میں صحیح مجردہ کا الزام کیا اور اپنے اجتہاد کے موافق احادیث کی تخریج کا اہتمام زیادہ فر مایا ، دوسرے اصحاب صحاح نے دوسرے مجتہدین وائمہ کے موافق بھی احادیث وآثار جمع کئے ،امام طحاوی حنفی نے اس دور میں خصوصیت سے شرح معانی الآثار ومشکل الآثار وغیرہ لکھ کر محدثانہ ، محققانہ ، فقیہانہ طرز کو ترقی دی ،پھر علامہ ابو بکر جصاص حنفی، علامہ خطابی ،شافعی ،علامہ ابن عبد البر مالکی، علامہ تقی الدین بن دقیق العید ،علامہ ماردینی حنفی، علامہ زیلعی حنفی ،علامہ عینی حنفی ،علامہ ابن حجر شافعی ،علامہ ابن ہمام حنفی ،علامہ قاسم بن قطلوبغا حنفی ، علامہ ابن قیم ، علامہ سیوطی شافعی ، ملا علی قاری حنفی وغیرہ محدثین کبار نے اپنے اپنے مخصوص محدثانہ طرز سے علم حدیث کے دامن کو مالامال کیا .
ہمارا یقین ہے کہ اگر پورے ذخیرہ حدیث سے صحیح طور پر استفادہ کیا جائے تو حضرت شاہ صاحب دہلوی اور حضرت شاہ صاحب کشمیری کے ارشادات کی صداقت وحقانیت میں ادنیٰ شک وشبہ باقی نہ رہے گا . واللہ وعلم وعلمہ اتم واحکم.
( مقدمہ انوار الباری)