حضرت امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری​

حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو امام صاحب سے ہمسری کا دعویٰ تھا پھر بھی وہ امام صاحب کے علوم سے بے نیاز نہ تھے انہوں نے بڑے لطائف الحیل سے کتاب الرہن کی نقل حاصل کی اور اس کو اکثر پیش نظر رکھتے تھے ،زائدہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سفیان کے سر ہانے ایک کتاب دیکھی جس کا وہ مطالعہ کر رہے تھے ان سے اجازت لے کر میں اسکو دیکھنے لگا تو امام ابو حنیفہ کی کتاب الرہن نکلی ، میں نے تعجب سے پو چھا کہ کہ آپ ابو حنیفہ کی کتابیں دیکھتے ہیں ؟ بولے کاش ان کی سب کتابیں میرے پاس ہو تیں .( عقود الجمان باب عاشر)

حسن بن مالک کا قول ہے کہ امام ابو یوسف فر مایا کرتے تھے ،کہ سفیان ثوری مجھ سے زیادہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اتبار کر نے والے ہیں ،حضرت علامہ عثمانی نے لکھا ہےکہ اس امر کا ثبوت جامع تر مذی کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے . ( مقدمہ فتح الملہم)

اس کے علاوہ حضرت ابو بعیم اصبہانی نے بھی کچھ روایات امام اعظم کی شان کے خلاف نقل فرمادی ہے جن کے راوی درجہ اعتبار سے ساقط ہیں ،کیا اچھا ہوتا ایسے بڑے لوگ جو روایت حدیث کے وقت بال کی کھال نکالتے ہیں اور کسی طرح کے شک وشبہ کے پاس بھی نہیں پھٹکتے ایک ایک لفظ کو جانچ تول کر اور کسوٹی پر کس کر نقل کرتے ہیں امام اعظم ایسی عظیم و جلیل شخصیتوں کے بارے میں بھی اپنی محتاط روش کو بے داغ رکھتے تا کہ جواب دینے والے بضرورت جواب بھی اپنے محبوب ومحترم امام بخاری یا محدث ابو نعیم کےمتعلق کسی ادنیٰ سے ادنیٰ شکوہ بے احتیاطی وغیرہ پر بھی مجبور نہ ہوتے ،یہ ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت قدر کو وہ حضرات ہم سے بھی زیادہ جانتے پہچانتے تھےاور ہم سے زیادہ ان کے دلوں میں ان کی قدر ومنزلت تھی .یہی وجہ ہے کہ محدث ابو نعیم اصبہانی نے امام اعظم کی مسانید کے 17 یا 21 روایت کر نے والوں میں سے ایک ہیں ،اور امام بخاری امام اعظم کے شاگردوں کے شاگر د ہیں .امام بخاری حضرت بن المدینی کے شاگر ہیں اور فر ماتے ہیں کہ میں نے علمی اعتبار سے اپنے آپ کو کسی سے حقیر وکمترنہیں سمجھتا بجز علی بن مدینی کے ( تہذیب التہذیب)
اور یہ علی بن مدینی یحییٰ بن سعید القطان کے شاگرد ہیں جوہر مضیہ میں ہے حضرت یحیٰی نماز عصر کے بعد مینارہ مسجد سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور امام احمد ،یحیی بن معین اور علی بن مدینی ان کے سامنے کھڑے ہو کر حدیثی سوالات کیا کرتے تھے اور نماز مغرب تک اسی طرح کھڑے کھڑے جواب سنتے تھے نہ وہ ان سے بیٹھنے کیلئے فر ماتے تھے اور نہ یہ ان کی عظمت وہیبت کی وجہ سے بیٹھتے تھے ،یہ حضرت یحییٰ القطان با وجود اس فضل وکمال کے امام اعظم کے حلقہ درس میں اکثر شریک ہو تے تھے اور ان کی شاگردی پر فخر کرتے تھے اور اکثر مسائل میں امام صاحب ہی کی تقلید کی ہے خود کہتے ہیں قد اخذنا باکثر اقوالہ ( تہذیب التہذیب ترجمہ امام ابو حنیفہ) تذکرۃ الحفاظ میں ذہبی نے وکیع بن الجراح کے ذکر میں لکھا ہے کہ وہ اور یحییٰ القطان دونوں امام ابو حنیفہ کے اقوال پر فتویٰ دیا کرتے تھےاور یحییٰ بن معین نے اسی طرح لکھا ہے پھر امام اعظم کے بعد بواسطہ ابن مبارک بھی امام اعظم کے شاگرد رہے ہیں ، نیز علی بن المدینی معلیٰ بن منصور کے بھی شاگرد ہیں اور وہ امام اعظم کے شاگرد ہیں اسی طرح اور بہت سے اساتذہ وشیوخ ہیں کہ ان کے واسطوں سے امام بخاری کو امام اعظم کے علمی فیوض وبر کات پہنچے ہیں اور امام بخاری نے بیسوں مسائل میں امام اعظم کی موافقت کی ہے .
اس کے بعد تیسرے نمبر پر خطیب بغدادی کا ذکر بھی مناسب ہے کہ انہوں نے تاریخ بغداد میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر امام اعظم کی شان رفیع کے خلاف بے سرو پا روایات کا ایک ڈھیر لگا دیا ہے جن کی تعداد تقریبا ڈیڑھ سو تک پہنچادی ہے ،اس کے جواب میں ملک معظم عیسیٰ بن ابی بکر ایوبی نے السہم المصیب فی کبد الخطیب لکھا اور ہمارے استاذ محترم حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کو بڑی تمنا تھی کہ وہ چھپ جائے لیکن جب طبع ہو کر آئی تو اسکو جیسا خیال تھا نہ پایا، اس کے علاوہ سبط ابن الجوزی نے الانتصار لام ائمۃ الامصار دو جلدوں میں تا لیف کی اور خطیب کا پورا رد کیا اور ابو لمؤید الخوارزمی نے مقدمہ جامع المسانید میں بھی اچھا رد کیا ہے لیکن آخر میں حضرت الاستاذ المحترم شیخ محمد زاہد الکوثری قدس سرہ نے جو کافی وشافی رد لکھا وہ یقینا سب پر فائق ہے اس کا نام 'تانیب الخطیب علیٰ ماساقہ فی تر جمۃ ابی حنیفہ من الاکاذب' ہے یہ لاجواب کتاب قابل دید ہے جس میں ایک چیز کا روایت ودرایت سے جواب لکھا ہے اور تحقیق وتدقیق کی پوری پوری داد دی ہے اور الحند للہ امت پر جو خطیب کے جواب کا قرض تھا اس کو انہوں نے پورا پورا ادا کر دیا ہے . (انوا الباری شرح بخاری جلد اول ص 142تا 143)
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
احمد قاسمی صاحب کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں اگر برا نہ مانیں تو؟
1:محدثین جنھوں نے ہم تک احادیث کو پہنچایا آپ کے انداز سے ان کا مجروح ہونا لازم آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ھے کہ انھوں نے امام ابوحنیفہ پر جرح کی ہے یہ بات آپ ہی نہیں بلکہ تمام مقلدین حضرات کرتے ہیں اور یہ انصاف نہیں ہے آپ سے گزارش ہے کہ باسند صحیح محدثین سے امام ابوحنیفہ کی توثیق ثابت کریں ورنہ ہم محدثین سے با سند صحیح امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کرتے ہیں ،جرح وتعدیل کا ایک مستقل امت مسلمہ کے پاس فن ہے جس میں جو صحیح ثابت ہو جائے وہ مانا جائے گا اگر آپ کی بات مان لیں کہ محدثین کو ابوحنیفہ سے تعصب تھا تو اس علت کی وجہ سے یہ اہم ترین فن جس پر حدیث رسول کی بنیا دہے دہڑم کر کے گر جاتا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون
2:آپ نے جو کچھ پیش کیا وہ (انوا الباری شرح بخاری جلد اول ص 142تا 143)سے لیا گیا ہے اور یہ کتاب کیسی ہے محدثین کے خلاف کیا لکھا گیا ہے آپ کو بھی شاید علم ہو گا اور فقہ حنفی کا دفاع کذب و افترا سے کیا ہے جس کا حقیقت سے دور سے بھی تعلق نہیں وکیل سلفیت رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ نے اس کا تار پول کھول دیا ۔ہے
3:جب بھی بات کی جائے عدل و انصاف سے کی جائے ورنہ نقصان ہے فائدہ نہیں ہے


امید ہے کہ راقم کی گزارشات پر غور و فکر کیا جائے گا
اور مجھے فورم میں اظہار رائے کی اجازت دی جائے گی ۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبر کاتہ
آپ کی باتوں کو برا کیوں مانوں گا ؟.
لیکن پہلے یہ بتا دوں انوار الباری شرح بخاری استاذ الاساتذہ حضرت علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مجموعہ افادات ہے جامع ہیں مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری تلمیذ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ .ہم وکیل احناف علامہ کشمیری کے تعلق سے وہی بات کہہ سکتے ہیں جو آپ نے وکیل سلفیت رئیس احمد ندوی رحمۃ اللہ کے تعلق سے کہی . بات تو برابر ہی ہے .

اصل بات یہ ہے دعویٰ کے مطابق''ورنہ ہم محدثین سے با سند صحیح امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کرتے ہیں ،جرح وتعدیل کا ایک مستقل امت مسلمہ کے پاس فن ہے جس میں جو صحیح ثابت ہو جائے وہ مانا جائے گا ''..براہ مہر بانی جرح ثابت کریں.والسلام
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن


تمام اراکین سے گذارش ہے کہ تہذیب کے دائرے میں رہ کر اپنی بات رکھیں اور ایکدوسرے پر طعنہ زنی سے پرہیز کریں خاص کر ان پر جو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں - سب سے بہتر ہے کہ دل کو توڑنے والے کلمات نہ کہیں - اور ایکدوسرے کا احترام ملحوظ رکھیں

اور ایک گزارش ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ کا لنک نہ دیں - نوازش ہوگی

اللہ ہم سب کو فہم عطا کرے . آمین

جزاک اللہ
 

بدرجی

وفقہ اللہ
رکن
:محدثین جنھوں نے ہم تک احادیث کو پہنچایا آپ کے انداز سے ان کا مجروح ہونا لازم آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ھے کہ انھوں نے امام ابوحنیفہ پر جرح کی ہے یہ بات آپ ہی نہیں بلکہ تمام مقلدین حضرات کرتے ہیں
محترم افسوس ہے کہ آپ نے بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھی ہے اس کا جواب دوطرح سے دیاجاسکتاہے
ایک یہ کہ محدثین نے امام بخاری پر بھی جرح کی ہے.کیا آپ اس کو درست قراردیں گے یاغلط
صحیح کہا تو امام بخاری مجروح اورغلط کہا تو جارحین مجروح دونوں صورتوں میں آپ کے آصول پر محدثین کا مجروح ہونا لازم آگیا
باجماع امت امام ابوحنیفہ مجتہد اورمسائل دین کے مدون ہیں محدثین نے اگرحدیث پہنچائی ہے تو امام صاحب نے شرع کی تدوین کی ہے اورمحدثین کی جرح سےایک مسلمہ مجتہد کا مجروح ہونا لازم آتاہے اگرمحدثین کا مجروح ہونا غلط ہے تو امام صاحب کا مجروح ہونا غلط درغلط ہے
اور یہ انصاف نہیں ہے آپ سے گزارش ہے کہ باسند صحیح محدثین سے امام ابوحنیفہ کی توثیق ثابت کریں
دوسری اینٹ پہلی سے بھی زیادہ ٹیڑھی ہے،سوال یہ ہے کہ کیا آپ امام صاحب کو مجتہد تسلیم کرتے ہیں ؟اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر ثابت کیجئے کہ درج ذیل وجوہ کی بنا پر امام صاحب مجتہد نہیں،اوراگرآپ انہیں مجتہدسمجھتے ہیں تو مجتہد کو توثیق کی ضرورت نہیں
دوسری بات یہ ہے کہ آپ انہیں مجتہد تسلیم کریں یا نہ کریں پوری امت اجماعی طورپران کو مجتہد کہتی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ اہل علم کا کوئی بھی قابل ذکر طبقہ ان کی مجتہدانہ حیثیت سے انکا رنہیں کرتا.اورمجتہد کے لیے بھی توثیق ضروری قراردی جائے تو یہ اس کے منصب اجتہادکا انکارہے اورامام صاحب کے لیےاس منصب کاانکارکرنا دراصل اجماع امت کاانکارکرناہے.تیسری بات یہ کہ جرح وتعدیل کا فن رواۃ حدیث کے لیے ہے یا مجتہد کے لیے بھی ؟اگر مجتہد کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے تو اپنے اصول کے مطابق بسند متصل کوئی مرفوع صریح روایت پیش فرمائیں،
ورنہ ہم محدثین سے با سند صحیح امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کرتے ہیں
،
یہ گھوڑایہ میدان آپ کو روکا کس نے ہے ،آپ کے حصے میں یہ کا م آیاہے آپ یہ کام کیجیے ہمارے حصے میں اجماع امت کے دفاع کا .آپ اپنا کام کیجیے ہم اپناکام کریں گے یہ خدانی تقسیم ہے .مگراوپر کی معروضات کو پیش نظررکھیے گا
جرح وتعدیل کا ایک مستقل امت مسلمہ کے پاس فن ہے جس میں جو صحیح ثابت ہو جائے وہ مانا جائے گا
اس کا جواب میں ابھی دے چکا ہوں پھر پڑھ لیں
اگر آپ کی بات مان لیں کہ محدثین کو ابوحنیفہ سے تعصب تھا تو اس علت کی وجہ سے یہ اہم ترین فن جس پر حدیث رسول کی بنیا دہے دہڑم کر کے گر جاتا ہے انا للہ وانا الیہ راجعون
کیا ہماری تحریر میں محدثین کا من حیث الطبقہ ذکرہے ؟؟؟؟
2:آپ نے جو کچھ پیش کیا وہ (انوا الباری شرح بخاری جلد اول ص 142تا 143)سے لیا گیا ہے اور یہ کتاب کیسی ہے محدثین کے خلاف کیا لکھا گیا ہے آپ کو بھی شاید علم ہو گا اور فقہ حنفی کا دفاع کذب و افترا سے کیا ہے جس کا حقیقت سے دور سے بھی تعلق نہیں وکیل سلفیت رئیس احمد ندوی رحمہ اللہ نے اس کا تار پول کھول دیا ۔ہے
آپ کے زعم اورگمان کے مطابق ورنہ حقیقت میں ایسا نہیں
3
:جب بھی بات کی جائے عدل و انصاف سے کی جائے ورنہ نقصان ہے فائدہ نہیں ہے
کاش آپ خود بھی اس پر عمل پیراہوتے
امید ہے کہ راقم کی گزارشات پر غور و فکر کیا جائے گا
اور مجھے فورم میں اظہار رائے کی اجازت دی جائے گی ۔
جی ہاں مگر علمی متانت اوردیانت کے ساتھ .
 

سارہ خان

وفقہ اللہ
رکن
حافظ عبدالعزیز بن میمون جنہوں نے حضرت نافع حضرت عکرمہ اور حضرت سالم رحمۃ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے۔ یہ امام اعظم کے ہم عصر ہیں لکھتے ہیں ہمارے اور لوگوں کے ابوحنیفہ ہیں جوان سے محبت رکھتا ہے وہ سنی ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ بدعتی ہے ،،،..الجوہر المضیہ ص182ج1۔
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
ایک یہ کہ محدثین نے امام بخاری پر بھی جرح کی ہے.کیا آپ اس کو درست قراردیں گے یاغلط
صحیح کہا تو امام بخاری مجروح اورغلط کہا تو جارحین مجروح دونوں صورتوں میں آپ کے آصول پر محدثین کا مجروح ہونا لازم آگیا
باجماع امت امام ابوحنیفہ مجتہد اورمسائل دین کے مدون ہیں محدثین نے اگرحدیث پہنچائی ہے تو امام صاحب نے شرع کی تدوین کی ہے اورمحدثین کی جرح سےایک مسلمہ مجتہد کا مجروح ہونا لازم آتاہے اگرمحدثین کا مجروح ہونا غلط ہے تو امام صاحب کا مجروح ہونا غلط درغلط ہے
..............................................................................
بدر جی صاحب آپ نے کئی ایک باتوں میں انصاف کوچھوڑا ہے .
1: محدثین نے امام بخاری پر بھی جرح کی ہے
اس پر دلائل پیش کریں اور امام الفقہ امام المحدثین و الفقہائ امام بخاری رحمہ الباری کا ضعیف ہونا ثابت کریں قیامت آسکتی ہے مگر کوئی بھی مقلد اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا.
چند دنوں تک میں امام بخاری اور امام ابوحنیفہ کا تقابل پیش کروں گا پھر مقلدین کو سمجھ آئے گی کہ کس کا مقام محدثین کے ہاں ہے اور کس کا نہیں ،کون محدث اور فقیہ اور کون غیر محدث اور فقیہ .،امام بخاری کی تصانیف کا کیا مقام ہے اور امام ابو حنیفہ کی تصنیفی خدمات ہیں .
تقلید جھوٹ بولنے پر اکساتی رہتی ہے .تاکہ باطل کو تقویت دی جائے انا للہ و انا الیہ راجعون .

2:باجماع امت امام ابوحنیفہ مجتہد اورمسائل دین کے مدون ہیں
یہ بات بھی غلط ہے اور امام ابوحنیفہ پر بہتان ہے
کہاں اجماع امت ہوا کب ہوا کس نے کیا ؟
مسائل دین کےمدون ہیں ؟یہ بھی غلط ہے باسند صحیح وہ مسائل پیش کریں جو امام صاحب نے مدون کئے قدوری ،ہدایہ وغیرہ میں موجود مسائل کی صحئیح سند پیش کریں جو امام صاحب تک پہنچتی ہو اور اس میں صحیح کی تمام شرطیں پائی جائیں .

3:محدثین نے اگرحدیث پہنچائی ہے تو امام صاحب نے شرع کی تدوین کی ہے
یہ جملہ بھی اپنے اندر غلط بات کی طرف واضح ثبوت رکھتا ہے ہم کہتے ہیں کہ محدثین نے حدیث بھی پہنچائی ہے اور انھوں نے ہی شرع کی تدوین کی ہے ہدایہ وغیرہ کو شرع کی تدوین قرار دینا درست نہیں ہے اگر یقین نہیں تو امام ابن العز الحنفی رحمہ اللہ کی التنبیہ علی مشکلات الہدایہ پڑھیں آپ کو سمجھ لگے گی کہ یہ فقہ حنفی کس شرع کا پرچار کرتی ہے؟
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
اہمیت اور یہ انصاف نہیں ہے آپ سے گزارش ہے کہ باسند صحیح محدثین سے امام ابوحنیفہ کی توثیق ثابت کریں


دوسری اینٹ پہلی سے بھی زیادہ ٹیڑھی ہے،سوال یہ ہے کہ کیا آپ امام صاحب کو مجتہد تسلیم کرتے ہیں ؟اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر ثابت کیجئے کہ درج ذیل وجوہ کی بنا پر امام صاحب مجتہد نہیں،اوراگرآپ انہیں مجتہدسمجھتے ہیں تو مجتہد کو توثیق کی ضرورت نہیں
دوسری بات یہ ہے کہ آپ انہیں مجتہد تسلیم کریں یا نہ کریں پوری امت اجماعی طورپران کو مجتہد کہتی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ اہل علم کا کوئی بھی قابل ذکر طبقہ ان کی مجتہدانہ حیثیت سے انکا رنہیں کرتا.اورمجتہد کے لیے بھی توثیق ضروری قراردی جائے تو یہ اس کے منصب اجتہادکا انکارہے اورامام صاحب کے لیےاس منصب کاانکارکرنا دراصل اجماع امت کاانکارکرناہے.تیسری بات یہ کہ جرح وتعدیل کا فن رواۃ حدیث کے لیے ہے یا مجتہد کے لیے بھی ؟اگر مجتہد کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے تو اپنے اصول کے مطابق بسند متصل کوئی مرفوع صریح روایت پیش فرمائیں،
..........................................................................................................................................................................................
بدر جی صاحب کیا آپ اصول محدثین سے بھی بے خبر ہیں اور ایس باتیں کر رہے ہیں جن سے آپ کی علمیت پر دھبہ لگتا ہے آپ زیادہ جانتے ہیں یا محدثین .
1:کس نے کہا ہے کہ مجتہد کا تعلق جرح وتعدیل سے نہیں ہوتا گویا آپ کے بقول امام ابوحنیفہ مجتہد نہیں اسی لئے تو تمام محدثین نے ان پر جرح کر رکھی ہے !!!آپ کے بقول(اورمجتہد کے لیے بھی توثیق ضروری قراردی جائے تو یہ اس کے منصب اجتہادکا انکارہےٕٕٕٕٕ)گویا ائمہ محدثین نے ابو حنیفہ کے منصب اجتہاد کا انکار کیا ہے !!!اسی لئے تو شدید جرح کی ہے .
2:دوسری بات یہ ہے کہ آپ انہیں مجتہد تسلیم کریں یا نہ کریں پوری امت اجماعی طورپران کو مجتہد کہتی ہے اوراس کا ثبوت یہ ہے کہ اہل علم کا کوئی بھی قابل ذکر طبقہ ان کی مجتہدانہ حیثیت سے انکا رنہیں کرتا.
ان کے مجتہد ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع کا دعوی باطل ہے اس پر کوئی حوالہ ہی پیش کر دیں؟؟!!!کیا آپ کو علم نہیں کہ اکثر مناقب غیر ثابت ہیں اور منگھڑت ہیں امام ابوحنیفہ کے متعلق .
ان کی تفصیل بھی ذکر کروں گا .

أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي (المتوفى: 505) نے کہا:
وأما أبو حنيفۃ فلم يكن مجتہدا لانہ كان لا يعرف اللغۃوعليہ يدل قولہ ولو رماہ بابو قبيس وكان لا يعرف الاحاديث ولہذا ضري بقبول الاحاديث الضعيفۃ ورد الصحيح منۃ ( المنخول من تعليقات الاصول ص: 581)

اصول احناف کے نزدیک جو شرائط ایک مجتہد میں پائی جاتی ہیں ان کو ایک ایک کرکے بادلائل پورا کریں تاکہ ہمارے علم میں بھی اضافہ ؟؟
ہل من مجیب !
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
ابن بشیر صاحب
السلام علیکم

اس عبارت کے بارے میں کیا خیال ہے؛سبط ابن الجوزی نے الانتصار لام ائمۃ الامصار دو جلدوں میں تا لیف کی اور خطیب کا پورا رد کیا اور ابو لمؤید الخوارزمی نے مقدمہ جامع المسانید میں بھی اچھا رد کیا ہے لیکن آخر میں حضرت الاستاذ المحترم شیخ محمد زاہد الکوثری قدس سرہ نے جو کافی وشافی رد لکھا وہ یقینا سب پر فائق ہے اس کا نام 'تانیب الخطیب علیٰ ماساقہ فی تر جمۃ ابی حنیفہ من الاکاذب' ہے یہ لاجواب کتاب قابل دید ہے جس میں ایک چیز کا روایت ودرایت سے جواب لکھا ہے اور تحقیق وتدقیق کی پوری پوری داد دی ہے اور الحمد للہ امت پر جو خطیب کے جواب کا قرض تھا اس کو انہوں نے پورا پورا ادا کر دیا ہے؛ دوسرے قاسمی صاحب نے جس مطالبہ کیا ہے اسکو پورا کریں ۔یعنی ابو حنیفہ پر جرح ثابت کریں۔واضح ہو یہ جرح اللہ اور اسکے رسول سے ثابت ہو۔کیونکہ آپکےیہاں امتی کا قول حجت نہیں۔ مودبانہ التماس ہے اس سے فرار کی کو شش نہ کریں ۔ہمارے مطالبہ کو پورا کریں اسکے بعد آگے۔
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
یہ گھوڑایہ میدان آپ کو روکا کس نے ہے ،آپ کے حصے میں یہ کا م آیاہے آپ یہ کام کیجیے ہمارے حصے میں اجماع امت کے دفاع کا .آپ اپنا کام کیجیے ہم اپناکام کریں گے یہ خدانی تقسیم ہے .مگراوپر کی معروضات کو پیش نظررکھیے گا
ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ............................................................
تحقیق احادیث کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے یہی کام محدثین نے کیا ہے اور وہی ہم کر رہے ہیں والحمد للہ علی ذلک
اور آپ کا قول :ہمارے حصے میں اجماع امت کے دفاع کا .انتہائی عجیب و غریب ہے وہ کونسا اجماع ہے ،کیا فقہ حنفی کو آپ اجماع کہہ رہے ہیں ایسے اجماع کی تبلیغ واقعتا تقلید امام اور خرافات کی تبلیغ ہے اس کو خدائی تقسیم کہنا ظلم عظیم ہے بلکہ سب کو علم ہے کہ آپ کی تبلیغ کا محور کیا ہے ؟؟!!ضرورت پڑی تو بتائیں گے .
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
تو امام صاحب نے شرع کی تدوین کی ہے
................................
بدر جی صاحب اس بات کی حقیقت پیش خدمت ہے
تدوین فقہ حنفی کا تاریخی جائزہ

حنفی بیان کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے قانون ساز کمیٹی بنائی ہوئی تھی جیسا کہ مولانا امین اوکاڑوی کے روحانی فرزند ابو بلال اسمعیل جھنگوی لکھتے ہیں ۔

امام صاحب نے علماءکی مجلس شوری بنائی جو مسئلہ پیش آتا اسی شوری میں رکھا جاتا ‘ شوری جو بھی فیصلہ کرتی اور جس مسئلہ پر متفق ہو جاتی وہ مسئلہ مدون کر لیاجاتا بخلاف دوسرے ائمہ کے ان کی فقہ غیر شورائی ہے ہر ایک نے اکیلے اکیلے بیٹھ کر لکھی ہے ۔

(تحفہ اہلحدیث ص79)

فقہ حنفی کی مجلس شوریٰ کی حقیقت

آئیے امام صاحب کی قانون ساز کمیٹی (مجلس شوریٰ ) کی تاریخی اعتبار سے حقیقت دیکھتے ہیں علامہ شبلی نعمانی نے امام صاحب کی سیرت پر کتا ب لکھی جس کا نام سیرة النعمان ہے اس کے مطابق یہ قانون ساز کمیٹی 121ھ میں بنائی گئی ۔یہ کمیٹی چالیس ممبران پر مشتمل تھی ۔مولانا شبلی نعمانی نے ان چالیس میں سے سولہ افراد کا ذکر کیا ہے ۔

( 1) قاضی ابو یوسف

انکی ولادت بقول مولانا شبلی 117ھ میں ہوئی یعنی چار برس کی عمر میں مجلس شوریٰ میں بحث فرمایا کرتے تھے ۔

(2) امام محمد بن حسن الشیبانی

یہ 135ھ میں پیدا ہوئے (سیرت النعمان ) اپنی پیدائش سے 41 سال پہلے آکر کمیٹی میں کیسے بحث کیا کرتے تھے؟

(3) یحییٰ بن ابی زائدہ

یہ 120ھ میں پیدا ہوئے (سیرت النعمان ) حیرت کی بات یہ ہے کہ انہیں مجلس شوری کا کاتب و منشی قراردیا جاتا ہے ۔

(4) حفص بن غیاث

117ھ میں پیدا ہوئے (تذکرہ الحفاظ ص 297ج ا‘ طبقات ابن سعد ج 6 ص 290)

(5) زفر بن ہذیل

110ھ میں پیدا ہوئے (وفیات الاعیان ج2ص 71)

(6) حبان بن علی

۱۱۱ھ میں پیدا ہوئے ‘ محدثین نے انہیں ضعیف اور متروک قرار دیا ۔( میزان ص 449 ج ۱ تہذیب ص 741 ج 2)

(7) امام و کیع

۸۲۱یا 129ھ میں پیدا ہوئے(تذکرہ الحفاظ ج ۱ ص 286‘ تہذیب التہذیب ج۱۱ ص 130)

(8)اسد بن عمرو

امام ابو حنیفہ کے مذہب کی تائید کیلئے حدیثیں گھڑا کرتے تھے (میزان ج ۱ص 206)

(9) حسن بن زیاد

امام نسائی کہتے ہیں خبیث اور کذاب ہے ۔( کتاب الضعفاءص 310‘ 289)

امام ابن معین ‘ امام یعقوب اور امام عقیلی کہتے ہیں کہ کذاب ہے ۔( لسان ص 209‘208ج2)

(10) نوح بن ابی مریم

عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔( تقریب التہذیب ص 527 )الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ ص 36 میں ہے ۔

نوح بن ابی مریم اپنی طرف سے احادیث بنانے والا اور بہت جھوٹ بولنے والا ہے۔امام بخاری کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے ۔( میزان الاعتدال ص 279)

تدریب الراوی ص ۵۸۱میں نوح بن ابی مریم کہتا ہے ۔میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت میں 70 حدیثیں بنائیں ہیں ۔

قارئین کرام یہ کیسی مجلس شوریٰ تھی جس کے بعض ارکان کی پیدائش کا وہی سال ہے جس میں کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی بلکہ بعض کی پیدائش اس کے کئی سال بعد ہوئی اور جس کے تیرہ ممبران کو محدثین نے کذاب ‘ متروک ‘ وضع حدیث میں معروف اور غیر ثقہ قرار دیا ۔

غور کریں اتنے آدمیوں کی مرتب کردہ کتاب کا وجود کیوں نہیں پایا جاتا ۔ اس کمیٹی کے باوجود جتنا اختلاف حنفی مذہب میں پایا جاتا ہے اتنامالکی ‘شافعی ‘ حنبلی مذاہب میں قطعاً نہیں پایا جاتا۔اور پھر متاخرین کی کتب فقہ میں بھی اس کتاب کا ذکر نہیں ملتا کہ یہ مجلس شوریٰ کا اتفاقی مسئلہ ہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ مجلس شوریٰ کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہے ‘ محض یار لوگوں کی اختراع ہے ۔

دور حاضر میں فقہ حنفی کی مندرجہ ذیل مشہور کتابیں ہیں

ہدایہ ‘ در مختار ‘ فتاویٰ عالمگیری ‘ قدوری ‘ فتاویٰ شامی ‘ فتاویٰ قاضی خان وغیرہ ۔

ہدایہ حنفی کی مرکزی کتاب ہے ۔اس میں بہت سی باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے ٹکراتی ہیں اور حنفی علماءحدیث کو رد کرکے فقہ کو لے لیتے ہیں ۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔

(1)بیت اللہ کی چھت پر نما ز

عن ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یصلی فوق ظھربیت اللہ ۔(ترمذی)

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔لیکن ہدایہ باب الصلوة فی الکعبہ میں لکھا ہوا ہے ۔

من صلی علی ظھر الکعبة جازت صلوتہ

کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنی جائز ہے ۔

(2) ایک وتر کا مسئلہ

ومن احب ان یوتر بثلث فلیفعل ومن احن ان یوتر بواحدة فلیفعل۔

(نسائی ‘ابن ماجہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو تین رکعت وتر پڑھنا چاہے وہ تین وتر پڑھے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا چاہے وہ ایک رکعت پڑھ لے ۔

لیکن ہدایہ باب الصلوة میں لکھا ہے

الوتر ثلاث رکعات

وتر تین رکعت ہیں ۔

(3) جلسہ استراحت

فاذاکان فی وتر من صلوتہ لم ینھن حتی یستوی قاعدا ۔(بخاری )

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کی پہلی یا تیسری رکعت سے اٹھتے تو (دوسرا سجدہ کر کے ) پوری طرح آرام سے بیٹھ کر اٹھتے “۔

جبکہ ہدایہ باب صفہ الصلوة میں ہے

واستوی قائما علی صدور قدمیہ ولا یقعد

اپنے پنجوں پر سیدھا کھڑا ہو جائے اور بیٹھے نہیں ۔

(4) شراب کا سرکہ بنانا

عن انس رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن الخمر یتخذ خلا فقال لا ۔( مسلم )

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا شراب کا سرکہ بنا لیا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر گز نہیں ۔

جبکہ ہدایہ کتاب الاشربہ میں لکھا ہے

واذاتخللت الخمر حلت سواءصارت خلا بنفسھا او بشئی یطرح فیھا ولا یکرہ تخلیلھا۔

شراب کا سرکہ جب بن گیا تو شراب حلال ہو گئی ۔آپ ہی سرکہ بن جائے یا کسی چیز کے ملانے سے سرکہ بنا لیا جائے (حلال ہے ) اور شراب کا سرکہ بنانا مکروہ نہیں ۔

(5) متنفل کے پیچھے مفترض کی اقتداء

عن جابر قال کان معاذ بن جبل یصلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم یاتی قومہ فیصلی بھم۔ (بخاری و مسلم )

”حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے پھر اپنی قوم کے پاس جا کر انکی امامت کراتے“ ۔

جبکہ کتب فقہ میں لکھا ہے

ولا یصلی المفتر ض خلف المتنفل ۔( فتاویٰ عالمگیری)

اور فرض پڑھنے والے کی نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے نہیں ہوتی ۔

فتاویٰ عالمگیری جس کے متعلق مشہور ہے کہ اسے 500 علماءنے مرتب کیا اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی کوشش ہوتی رہی ‘ آئیے اس میں جھانک کر دیکھیں کہ اس میں کو ن سا اسلام لکھا ہوا ہے ؟

اذا اصابت النجاسة بعض اعضاءولحسھا بلسانہ حتی ذھب اثرھا یطھر۔(ص 45ج1)

اگر کسی عضو پر نجاست لگ جائے اور اس کو زبان سے چاٹ لے یہاں تک کہ اس نجاست کا اثر جاتا رہے تو پاک ہو جائے گا ۔

اذا ذبح کلبہ و باع لحمہ جاز ۔( ص 115‘ ج 3)

اگر کسی نے اپنا کتا ذبح کر کے اسکا گوشت فروخت کیا تو جائز ہے ۔

لور عف فکتب الفاتحة باالدم علی جبھتہ وانفہ جاز للا ستشفار و بالبول ایضا ان علم بہ شفاءلاباس بہ۔

( فتاویٰ شامی ص 210‘ ج 1)

جب نکسیرپھوٹ جائے پھر خون سے سورة فاتحہ اپنی پیشانی پر لکھے تو بھی جائز ہے او ر شفاءکیلئے پیشاب سے لکھنا بھی جائز ہے ۔استغفراللہ
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
نعیم صاحب!جو آپ نے کہا
حضرت الاستاذ المحترم شیخ محمد زاہد الکوثری قدس سرہ نے جو کافی وشافی رد لکھا وہ یقینا سب پر فائق ہے اس کا نام 'تانیب الخطیب علیٰ ماساقہ فی تر جمۃ ابی حنیفہ من الاکاذب' ہے یہ لاجواب کتاب قابل دید ہے.
.......................................
اس میں کیا ہے اہل علم جانتے ہیں اس کے رد میں امام معلمی یمانی کی التنکیل بے مثال کتاب ہے اور ایک ایک بات کا محدثانہ جواب دیا ہے
علامہ الکوثری کے بدعی افکار



علمائے دیوبند کے لیے لمحہ فکریہ


از استاد محترم محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ

علامہ محمد زاہد الکوثری المتوفی 1371ھ اہل علم کے ہاں محتاج تعارف نہیں- انہیں بالخصوص حنفی دیوبندی مکتب فکر میں بڑی پذیرائی حاصل ہے- اس لیے کہ انہوں نے ماضی قریب مین امام اجو حنیفہ رح اور حنفی نقطہ نظر کا بھرپور دفا ع کیا ہے- موصوف عقائد میں ماتریدی بلکہ جہمی تھے- اس لئے فروغ میں ہی نہیں بلکہ اصولی مسائل میں بھی انہوں نے اپنے موقف کی جس انداز سے ترجمانی کی- اس کی نظیر ماضی میں علمائے احناف میں شاید تلاش بیسار کے بعد بھی نہ ملے- غالبا وہ پہلی ذات شریف ہے جس نے امام ابن حزیمہ رح کی " کتاب التوحید" جسے خود انہوں نے صحیح ابن حزیمہ کا حصہ قرار دیا۔ (مقالات الکوثری ص 50 و ص 143، ط 1994) کو "کتاب الشرک" قرار دیا- (مقالات ص 409 التانیب ص29) اور امام حنبل رح کے بیٹے امام عبداللہ رح کی "کتاب السنہ" کو " کتاب الزیغ" (مقالات ص324) اور امام عثمان بن سعید الدارمی المتوفی 280ھ کی "الرد علی الجھیمہ" اور "الرد علی بشر المریسی" کو "کتاب الکفر و الوثینۃ" قرار دیا ہے- (مقالات ص300)

غور کیجیے امام ابن حزیمہ رح، امام عبداللہ رح بن احمد، اور امام عثمان رح بن سعید الدارمی جن کے علم و فضل، امانت و دیانت، حفظ و ضبط اور توثیق و تعدیل پر تمام محدثین کا اتفاق ہے- اگر وہی شرک ، بت پرستی، کفر اور گمراہی کے معاذ اللہ علمبردار ہیں تو بتلائیے توحید و سنت کا داعی کون ہے؟

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح اور ان کے تلمیذ امام ابن قیم رح کے بارے میں جو کچھ انہوں نے "مقالات " اور "تبدید الظلام" اور "الاشفاق" میں کہا اس کی داستان طویل ہے- حتی کہ انہیں بدعتی، کذاب ، جاہل، غبی، ضال مضل، خارجی، زندیق، قلیل الدین والعقل تک لکھ مارا- امام ابو حنیفہ رح اور ان کے تلامذہ کے دفاع میں امام ابو عوانہ وضاح بن عبداللہ، امام ابو اسحاق الفزاری ابریہیم بن محمد، امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد المزکی، امام احمد بن سلیمان النجاد، امام زکریا بن یحی الساجی، امام علی بن عمر ابوالحسن الدارقطنی، امام محمد بن عیسی الترمذی، امام محمد بن حبان ابو حاتم البستی، امام محمد بن عبداللہ الحاکم صاحب المستدرک اور امام محمد بن عمرو العقیلی رحمھم اللہ وغیرہ جیسے ائمہ حفاظ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا امام احمد بن حنبل رح اور امام شافعی رح پر ان کے تبصرے بھی کسی طاحب علم سے مخفی نہیں-
خطیب بغدادی رح سے لےکر حافظ ابن حجر رح تک کے بعض علمائے شافعیہ پر ان کی تنقید بھی اہل علم کے ہاں معلوم و معروف ہے- حتی کہ حضرت انس بن مالک رضہ اور معاویہ بن ابوحکم جیسے صحابی بھی ان کے قلم کی کاٹ سے نہ بچ سکے- غالبا ان کی جرات کی بنا پر مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم نے ان کی بڑی تحسین کی اور فرمایا:

" وہ ایسے (حنیف) مخلص حنفی ہیں جنہوں نے چھوٹے بڑے سب بت پاش پاش کردیے"
(مقدمہ مقالات الکوثری ص د)

بلکہ یہ بھی فرمایا کہ:

" وہ چمکتی تلوار، سونتی تلوار اور مشہور ہندی لوہے کی تلوار تھے"
(ایضار ص ز)

گویا تاریخ کے اوراق میں جس تلوار کا ذکر حجاج بن یوسف کے تذکرہ میں ہے وہ ماضی قریب میں شیخ الکوثری کو "نصیب" ہوئی- جس سے نہ کسی بڑےکو چھوڑا اور نہ ہی کسی چھوٹے کو-
حنفی اصول و فروغ کے دفاع میں ( گواکثر اصول امام ابوحنیفہ رح کے قطعا نہیں) ان کی اسی بے باکانہ "خدمات" کو علمائے احناف بالعموم اور علمائے دیوبند بالخصوص بڑی تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں- مگر ان سطور کے واسطہ سے ہم اپنے ان دیوبندی علماء سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا وہ علامہ الکوثری کے ان بدعی افکار سے بھی متفق ہی جن کی تردید میں انہوں نے بے شمار صفحات سیاہ کئے اور ان کی وجہ سے اپنے ہی حنفی بریلوی حصرات سے لڑائی مول لی؟

علامہ کوثری اور قبروں کو پختہ کرنا

انہی مسائل میں ایک مسئلہ قبروں کو پختہ بنانا اور ان پر مسجدیں تعمیر کرنا بھی ہے۔ ربیع الآحر 1366ھ میں مجلہ "الازھر" میں ایک مضمون شائع ہوا جس میں مضمون نگار نے صحیح مسلم (ج1ص312) میں حضرت جابر رض بن عبداللہ اور حصرت علی رض کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حافظ ابن قیم رح کی "اغاثۃ اللھفان" سے نقل کیا ہے کہ قبروں پر یہ بنائے ہوئے قبے گرانے چاہییں- کیونکہ ان کے بنانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے-
ا س مضمون کے جواب میں "بناء مساجد علی قبور و الصلوۃ الیھا" کے عنوان سے شیخ کوثری نے مضمون لکھا جو ان کے مقالات (ص 456 تا 159) میں مطبوع ہے- جس میں وہ بڑے جذباتی انداز میں لکھتے ہیں-

" اس رائے کی بنا پر عالم اسلام کے بادشاہوں پر واجب ہے کہ وہ کدال، پھاوڑے پکڑلیں اور صحابہ کرام رض، ائمہ دین اور صلحائے امت کی قبروں پر مشرق و مغرب میں بنے ہوئے قبوں کو گرادیں اور ان کے قریب بنی ہوئی مساجد، ہر جگہ بادشاہوں اور امراء اسلام وغیرہ کی قبروں پر بنے ہوئے قبوں کو ڈھادیں- جب کہ سلف و خلف میں امت کا مسلسل عمل اس کے خلاف ہے-"
(مقالات ص 156، 157 و ص 245، 246 ط 1994)

اسی طرح "الھجرۃ النبویہ" کے عنوان سے اپنے مقالے میں لکھتے ہیں-

" اگر قبروں پر قبوں کا بنانا بدعت مکروہ ہوتا تو ابتدائے اسلام سے لےکر آج تک امت اسی پر عمل نہ کرتی"
( مقالات الکوثری ص437)

گویا قبروں پر قبے بنان اجماع امت سے ثابت ہے- انا للہ وانا الیہ راجعون-
بلکہ لطف یہ ہے کہ اس سلسلے میں وہی عامۃ الورود دلائل کہ اصحاب الکہف کف بارے میں اس دور کے "مسلمان" حاکم اور "مسلمانوں" نے عزم کیا تھا کہ ہم اس پر مسجد بنادیں-
اللہ تعالی کا ارشاد ہے-

قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا (الکہف:21)
"ان لوگوں نے کہا جو اپنے کام پر غالب تھے کہ ہم ان پر ایک مسجد بنادیں گے"

یہ لوگ کون تھے- علاوہ الکوثری لکھتے ہیں:-

"اس عزم کا اظہار مسلمانوں اور ان کے مسلمان بادشاہ نے کیا"
(مقالات ص159)

حالانکہ اس عزم کا اظہار کرنے والے موحدمسلمان نہیں بلکہ عیسائی تھے-
مالانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے سای آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ-

"جن لوگوں نے معتقد ہوکر وہاں مکان بنایا وہ نصاری تھے"
(تفسیر عثمانی ص395)

اگر انہیں مسلمان تسلیم کرلیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان کہ:

" اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو مسجدیں بنالیا"
(بخاری و مسلم)
کے بعد یہ کیسے مان لیا جائے کہ یہ طریقہ موحد مسلمانوں کا تھا اور صلحاء کی قبروں پر مسجدیں بنانا جائز ہے-

شیخ کوثری نے مزید یہ بھی فرمایا کہ علامہ عبدالغنی نابلیسی رح وغیرہ نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے- اسی قسم کے اقوال ہمارے بریلوی حضرات کا سہارا ہیں- مگر دیکھنا یہ ہے کہ حنفی دیوبندی مسلک کیا ہے-
ہم یہاں متقدمین علمائے احناف کی تصریحات کی بجائے علمائے دیوبند کی چند شہادتی پیش کرتے ہیں- چنانچہ سرخیل علمائے دیوبند مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم سے پوچھا گیا کہ قبروں کا پختہ بنانا اور ان پر عمارت و قبہ و روشنی وغیرہ کا کیا حکم ہے؟
انہوں نے فرمایا:

" یہ سب امور ناجائز ہیں اور جہاں کہیں لوگوں نے کیا ہے وہ علمائے مقبولین نے نہیں کیا بلکہ امراء و سلاطین نے کیا ہے اور خلاف قرآن شریف و سنت رسول صی اللہ علیہ وسلم کےجو کوئی کرے وہ ناجائز ہے"
(فتاوی رشیدیہ ص116)

اسی نوعیت کے ایک استفتاء کے حواب میں موصوف لکھتے ہیں-

"ہرگاہ کہ احادیث میں ممانعت ان امور کی وارد ہے پھر کسی کے فعل سے وہ جائز نہیں ہوسکتے- اور اعتبار قرآن و حدیث و اقوال مجتہیدن کا ہے نہ افعال مخالف شرع کا- اگر عرب اور حرمین میں امور غیر مشروع خلاف کتاب و سنت رائج ہوگئے تو جواز ان کا نہیں ہوسکتا- اور جو وہاں ان بدعات کو کوئی منع نہ کرسکے تو یہ حجت جواز نہیں ہوسکتی- اس پر سکوت کو کوئی وجہ نہیں کتاب و سنت سے رد کرنا چاہیے- "
(فتاوی رشیدیہ ص113)

دارالعلوم دیوبند کے مطبوعہ فتاوی میں حضرت مولانا عزیز الرحمن رحمہ اللہ مزارات سلاطین و اولیاء کرام پر تعمیر ہونے والے قبوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

" قبہ بنانا مکان میں دفن کرنا سوائے انبیاء کے اور کسی کو جائز نہیں"
(فتاوی دارالعلوم ج5 ص395)

اس کے بعد انہوں نے اس کی تائید رد المحتار شامی کی عبارت نقل کی ہے-

مولانہ اشرف علی تھانوی کے فتاوی امداد الفتاوی (ج1 ص 487۔488) میں بھی یہی کچھ ہے اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ مرحوم لکھتے ہیں:

" اونچی اونچی قبریں بنانا، قبروں کو پختہ کرنا، قبروں پر گنبذ اور قبے اور عمارتیں بنانا غلاف دالنا، چادریں چڑھانا، نذریں ماننا، طواف کرنا، سجدہ کرنا، یہ تمام امور منارات شرعیہ میں داخل ہیں شریعت مقدسہ اسلامیہ نے ان امور سے صراحتا منع فرمایا ہے-"
(کفایت المفتی ج 4 ص69- مطبوعہ امدادیہ- ملتان)

اس فتوے پر دوسرے علمائے احناف دہلی کے بھی دستخط ہیں بلکہ "بناء القبب علی القبور" کے مستقل عنوان کے تحت کتب احناف سے قبوں کے ناجائز اور مکروہ ہونے کے حوالہ جات مندرج ہیں-
علمائے دیوبند کے اس فتوی کے بعد ہم دیوبندی علمائے کرام ہی سے نہایت ادب سے سوال کرتے ہیں کہ بریلوی حصرات اکر قبروں کو پختہ اور ان پر قبے بنائيں تو وہ بدعتی اور ناجائز کام کے مرتکب ٹھہریں- مگر جناب کوثری صاحب فقہ حنفی کے "حنفی حنیف" اور علمبردار پائيں!!!ع
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
محترم
ابن بشیر صاحب
راہ فرار اختیار کر سےقبل میرا مطالبہ اور اپنے وعدہ کو پورا کریں.
امام صاحب علیہ الرحمۃ پر جرح ''اللہ اور اسکے رسول سے'' سے ثابت کریں. جناب عالی
جب آپ امتی کے قول کو حجت ہی نہیں مانتے تو کیوں ایسی چیز کیلئے اپنی توانائی ضائع کر رہے ہیں جو آپ کے گلے کا پھندا جائے.
کج فہمی کی باتیں چھوڑیں اور اصل موضوع پر آجائیں.ورنہ مجھے کہنا پڑے گا.
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار تم سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

منتظمین الغزالی سے التماس ہے ،محترم کو قاعدے کے رو سے میری گزارشات پر جواب دینے کا پابند بنایا جائے.
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
یعنی ابو حنیفہ پر جرح ثابت کریں۔واضح ہو یہ جرح اللہ اور اسکے رسول سے ثابت ہو۔کیونکہ آپکےیہاں امتی کا قول حجت نہیں۔ مودبانہ التماس ہے اس سے فرار کی کو شش نہ کریں ۔ہمارے مطالبہ کو پورا کریں اسکے بعد آگے۔
...................................................
نعیم صاحب !
آل بدعت کی یہ چال ہے کہ وہ لوگوں کو صراط مستقیم سے ہٹانے کے لئے پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں قرآن و حدیث جس مقصد کے لئے ہے کہ اس میں بیان کردہ احکامات کو مانا جائے احناف قرآن وحیث کے مقابلے میں تقلید امام کو لیتے ہیں خواہ قول امام بے سند ہو ،یا قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہو غور سے مطالعہ اور عبرت پکڑیں
محمود الحسن دیو بندی فرماتے ہیں کہ لیکن سوائے امام کے قول سے ہم پر حجت قائم کرنا بعید از عقل ہے(ایضاح الادلہ ص۲۷۴)
۲ محمد قاسم نانوتوی فرماتے ہیں کہ دوسرے یہ کہ میں مقلد امام ابو حنیفہ کا ہوں اس لیئے میرے مقابلے میں آ پ جو قول بہی بطور معارضہ پیش کریں وہ امام ہی کا ہونا چاھیئے
( سوانح قاسمی ۲/۲۲)
۳ احمد یار نعیمی بریلوی لکھتے ھیں کہ اب ایک فیصلہ کن جواب عرض کرتے ہیں وہ یہ کہ ہمارے دلائل یہ روایات نہیں ہماری اصل دلیل تو ابو حنیفہ امام اعظم کا فرمان ہے ۔
( جآء الحق ۲/۹۱ )
۴ رشید احمد لدہیانوی دیو بندی کہتے ہیں کہ غرض یہ کہ یہ مسئلہ اب تشنہ تحقیق ہے لہذا ہمارا فتوی اور عمل قول امام رحمہ اللہ کے مطابق ہی رہے گا ۔اس لیئے کہ ہم امام رحمہ اللہ کے مقلد ہیں اورمقلد کے لیئے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہ مجتہد ہے
(ارشاد القاری ۴۱۲)
۵ عامر عثمانی دیو بندی (ایڈیٹر ماھنامہ ،، تجلی جو دیو بند سے جاری ہوتا ہے )سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ تو جواب ہوا اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں بھی کہ دیں جو آپ (سائل ) نے سوال کے اختتام پر سپرد قلم کیا ہے یعنی حدیث رسولﷺ سے جواب دیں،،اس نوع کا مطا لبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں یہ در اصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجھ ہے کہ مقلدین کے لیئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ آئمہ و فقہاء کے فیصلوں اور فتووں کی ضرورت ھے
( ماہنامہ تجلی ص ۹ شمارہ نمبر ۱۱ ماہ جنوری فروری ۱۹۶۷ ص ۴۷)
۶ ۵/۲۷۷ فتاوی عالمگیری میں لکھا ہوا ھے کہ،، طلب الا حادیث حرفۃ المفالیس،، یعنی کہ حدیث کو طلب کرنا مفلسوں کا کام ہے۔
۷ محمد تقی عثمانی دیو بندی لکھتے ہیں کہ اور آئمہ مجتھدین کے بارے میں تمام مقلدین کا عقیدہ یہ ہے کہ انکے ہر اجتھاد میں خطا ء کا احتمال ہے
(تقلید کی شرعی حیثیت ص ۱۲۵)
۸ تذکرۃ الرشید (۲/۱۷میں رشید احمد گنگوھی کے متعلق لکھا ہوا ہے کہ : ‘‘ آپ نے کئی مرتبہ بحیثیت تبلیغ یہ الفاظ زبان فیض ترجمان سے فرمائے ، سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتا ہے اور بقسم کہتا ہوں کہ میں کچھ نہیں مگر اس زمانے میں ہدایت و نجات موقوف میری اتباع پر...‘‘
۹ محمودالحسن ایک مسئلہ میں شافعی کے موقف کو ترجیح دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفہ ‘‘ یعنی ’’ اور ہم مقلد ہیں ہم پر اپنے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے ‘‘
( تقریرالترمزی ص۳۶ مع ترمزی )
۱۰ محمود الحسن دیوبندی نے کہا کہ : ’’ کیونکہ قول مجتہد بھی قول رسول اللہ ﷺ ہی شمار ھوتا ہے ‘‘ ( تقاریر حضرت شیخ الہند : ۲۴ )
۱۱ محمود الحسن دیوبندی نے اہلحدیث عالم محمد حسین بٹالوی کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ : ‘‘ آپ ہم سے وجوب تقلید کے طالب ہیں ، ہم آپ سے وجوب اتباع محمدی ﷺ و وجوب اتباع قرآنی کی سند کے طالب ہیں ‘‘
( ادلہ کاملہ : ص ۷۸)
۱۴ مفتی محمد دیوبندی سوال کا جواب لکھتے ہیں کہ ،، عوام کا دلائل طلب کرنا جائز نہیں نہ آپس میں مسائل شرعیہ پر بحث کرنا جائز ہے بلکہ کسی مستند
مفتی سے مسئلہ معلوم کر کے اس پر عمل کرنا ضروری ہے
( ہفت روزہ ضرب مومن کراچی جلد ۳ شمارہ ۱۵ص ۶)
۱۳مفتی رشید احمد لدھیانوی نے لکھا ہے کہ تبرعا لکھ دی ہے ورنہ رجوع الی
الحدیث وظیفہ مقلد نہیں ،،
( احسن الفتاوی ۳/۵۰)
۱۴ قاضی زاہد الحسینی دیوبندی لکھتے ہیں کہ حالانکہ ہر مقلد کے لیئے آخری دلیل مجتھد کا قول ہے۔جیسا کہ مسلّم الثبوت میں ہے ،، اما المقلد فمستندھ قول المجتھد،، اب ایک شخص امام ابو حنیفہ کا مقلد ہونے کا مدعی ہو اور ساتھ وہ امام ابو حنیفہ کے قول کے ساتھ یا علیہدہ قرآن و سنت کا بطور دلیل مطالبہ کرتا ہے تو وہ بالفاظ دیگر اپنے امام اور رہنما کے استدلال پر یقین نہیں رکھتا
(مقدمہ کتاب ،،دفاع امام ابو حنیفہ از عبدالقیوم حقانی صفحہ ۲۶)
۱۵ احمد سرہندی لکھتے ہیں کہ مقلد کو لائق نہیں مجتھد کی رائے کے بر خلاف کتاب وسنت سے احکام اخذ کرے اور ان پر عمل کرے
(مکتوبات امام ربانی،، مستند اردو و ترجمہ ۱/۶۰۱مکتوب ۲۸۶)
ابو الحسن الکرخی الحنفی نے کہا ہے کہ ، الاصل ان کل آیۃ تخالف اصحابنا فانھا تحمل علی النسخ أو علی التر جیح والاولی ان تحمل علی التأویل من جھۃ التوفیق ‘‘ یعنی ’’ اصل یہ ہے کہ ہر آیت جو ہمارے ساتھیوں (فقھاء) کے خلاف اسے منسوخیت پرمحمول یا مرجوح سمجھا جائے گا بہتر یہ ہے کہ تطبیق کرتے ہوئے اس کی تاویل کر لی جائے
(اصول الکرخی ۲۹ )
ٓ یاد رہے کوئی فتاوی دارالعلوم دیوبند (۳/۲۰۳)کی اس عبارت سے دھوکہ نہ کھائے جو انہوں نے احناف کو اھلسنت والجماعۃ کہنے کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ھے کہ اس گروہ (احناف) اھلسنت والجماعت اس وجہ سے کہتے ھیں کہ یہ فرقہ اھل حق و متبع سنت آنحضرت اور طریقہ صحابہ کو مظبوط پکڑے ھوئے ھے سبحنک ھذا بھتان عظیم ۔۔ مقلد (احناف) کو مرنا تو منظور ہے مگر اس بات پر عمل کرنا گوارا نہیں یہ خالی دعوے ہیں اور اس دعوی کی کوئی حنفی بھی حمایت نہیں کرتا جیسا آپ نے پچھلے اقوال سے بخوبی سمجھ لیا ہے
۲ اصول احناف کی روشنی میں اعلاء السنن ،آثارالسنن ،فیض الباری ،درس ترمذی ،المرقاۃ وغیرہ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جنہوں نے حدیث ماننی ہی نہیں پھر احادیث پر کتابوں کا لکھنا کیا حیثیت رکھتا ھے
(صرف اور صرف تقلید ، اول اورآخر تقلید ، دن اور رات تقلید ، چھوٹا اور بڑا تقلید ، عامی اور عالم تقلید ، مسجد اور مدارس میں تقلید ، نماز اور روزہ میں تقلید ، حج اور عمرہ میں تقلید ، زکوۃ اور بیوع میں تقلید ، خوشی اور غمی میں تقلید ،وضو اور غسل میں تقلید ، قضائے حاجت اور پیشاب کرنے میں تقلید ، آگے اور پیچھے تقلید ، اوپر اور نیچے تقلید ،دائیں اور بائیں تقلید ، سونے اور جاگنے میں تقلید ، گھر اور لیٹرین میں تقلید ، مرنا اور جینا تقلید پر آخر کیا کہوں تو پہر کیوں نہ کہوں کہ دیوبندیوں بریلویوں اور حنفیوں کا انحصار زندگی، انحصار موت ،انحصار عبادات تقلید پر ہے نہ انہیں قرآن کی پرواہ نہ حدیث کی پرواہ نہ اجماع امت کی پرواہ اللہ نے تو نمونہ محمدﷺ کو بنا کر مبعوث فرمایا مگر انھوں نے امام ابو حنیفہ کوفی کو اپنا نمونا بنا لیا اے اللہ تیرے لئے کیا مشکل ہے کہ اگر تو انہیں صراط مستقیم کی توفیق دے دے )
مذکورہ مستند کتب احناف کے حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ان کی دلیل صرف امام ابو حنیفہ کا قول ہے
الحاصل : نتیجہ آپ نے نکالنا ہے کہ قرآن حدیث کو ماننے والے (اھلحدیث) حق پر ھیں یا صرف اپنے امام کے قول کو ماننے والے (احناف) حق پر ھیں ؟
( ابن بشیر الحسینوی )
 

ابراھیم تھانوی

وفقہ اللہ
رکن
یہ کیسی بحث ہو رہی ہے محترم نعیم صاحب آپ کیا فضول سوال کر رہے ہیں میرا بھی فقہ حنفی پر کافی مطالعہ ہے مگر آج تک میری کسی حنفی اہل علم نے اس طرح کا اعتراض نہیں کیا .افسوس سے کہ رہا ہوں کہ اس طرح کی کمزور باتیں نہ ہی کریں تو بہتر ہے بس جواب علمی انداز میں دیں .میں عنقریب امام علیہ الرحمہ کے مقام پر ایک تحقیقی مضمون پیش کروں گا .ابن بشیر نے بے شمار پوسٹس لکھ ماری ہیں ان پر بھی نظر رکھیں ورنہ میں جواب دیتا ہوں .
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
نعیم نے کہا ہے:
ابن بشیر صاحب
السلام علیکم

اس عبارت کے بارے میں کیا خیال ہے؛سبط ابن الجوزی نے الانتصار لام ائمۃ الامصار دو جلدوں میں تا لیف کی اور خطیب کا پورا رد کیا اور ابو لمؤید الخوارزمی نے مقدمہ جامع المسانید میں بھی اچھا رد کیا ہے لیکن آخر میں حضرت الاستاذ المحترم شیخ محمد زاہد الکوثری قدس سرہ نے جو کافی وشافی رد لکھا وہ یقینا سب پر فائق ہے اس کا نام 'تانیب الخطیب علیٰ ماساقہ فی تر جمۃ ابی حنیفہ من الاکاذب' ہے یہ لاجواب کتاب قابل دید ہے جس میں ایک چیز کا روایت ودرایت سے جواب لکھا ہے اور تحقیق وتدقیق کی پوری پوری داد دی ہے اور الحمد للہ امت پر جو خطیب کے جواب کا قرض تھا اس کو انہوں نے پورا پورا ادا کر دیا ہے؛ دوسرے قاسمی صاحب نے جس مطالبہ کیا ہے اسکو پورا کریں ۔یعنی ابو حنیفہ پر جرح ثابت کریں۔واضح ہو یہ جرح اللہ اور اسکے رسول سے ثابت ہو۔کیونکہ آپکےیہاں امتی کا قول حجت نہیں۔ مودبانہ التماس ہے اس سے فرار کی کو شش نہ کریں ۔ہمارے مطالبہ کو پورا کریں اسکے بعد آگے۔
جزاک اللہ خیرا
 
پ

پیامبر

خوش آمدید
مہمان گرامی
بحث و مباحثہ سے اس فورم کے اصول و ضوابط پڑھ لیے جائیں۔
ذاتیات پر حملے سے پرہیز کریں۔ اور اسلاف کو کسی اور لحاظ سے نہیں تو کم از کم اس لیے اچھے ناموں سے یاد کیا جائے کہ وہ اب ”سلف“ ہیں۔
بہتر ہے کہ ایک نکتے کو لے کر اس پر سیر حاصل بحث کی جائے، نہ کہ اندھا دھند حوالہ جات جمع کرکے ڈال دیئے جائیں۔
اگر کوئی مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے پورا کیا جائے۔
 

نعیم

وفقہ اللہ
رکن
ابراھیم تھانوی نے کہا ہے:
یہ کیسی بحث ہو رہی ہے محترم نعیم صاحب آپ کیا فضول سوال کر رہے ہیں میرا بھی فقہ حنفی پر کافی مطالعہ ہے مگر آج تک میری کسی حنفی اہل علم نے اس طرح کا اعتراض نہیں کیا .افسوس سے کہ رہا ہوں کہ اس طرح کی کمزور باتیں نہ ہی کریں تو بہتر ہے بس جواب علمی انداز میں دیں .میں عنقریب امام علیہ الرحمہ کے مقام پر ایک تحقیقی مضمون پیش کروں گا .ابن بشیر نے بے شمار پوسٹس لکھ ماری ہیں ان پر بھی نظر رکھیں ورنہ میں جواب دیتا ہوں .
تھانوی جی مجھے آپ کے افسوس پر افسوس ہو رہا ہے
میں نے دو مطالبہ کئے
(1) بقول مراسلہ نگار ہم امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کریں گے. میں نے عرض کیا جرح ثابت کریں.
(2) چونکہ آپ کے یہاں امتی کا قول حجت نہیں اسلئے اللہ ورسول کے قول سے جرح ثابت کریں.
محترم ابن بشیر اس کا جواب دیتے .پتہ نہیں کیا کیا لکھ رہے ہیں جس کا بحث سے دور کا واسطہ نہیں .میں نے لکھا تھا''شیخ کوثری قدس سرہ نے جو خطیب کا رد کیا ہے اس کے بارے میں اظہار خیال فر مائیں موصوف نے اسکو چھوڑ کر شیخ کوثری ہی کو نشانہ بنا لیا.یہ کہاں کا انصاف ہے.؟ میرا تیسری بار یہ مطالبہ ہے یا تو محترم ابن بشیر صاحب اللہ ورسول سے امام ابو حنیفہ پر جرح ثابت کریں .یا پھر صاف لکھیں'' امتی کا قول ہمارے یہاں حجت ہے''.پھر محدثین کبار سے جرح ثابت فر مائیں. اور شیخ کوثری نے جو خطیب کا رد کیا ہے.دلائل سے صرف اس کا رد کریں.آپ کا مطالعہ کتنا ہے اس سے مجھے کیا غرض .
 

بدرجی

وفقہ اللہ
رکن
محدثین نے امام بخاری پر بھی جرح کی ہے
اس پر دلائل پیش کریں اور امام الفقہ امام المحدثین و الفقہائ امام بخاری رحمہ الباری کا ضعیف ہونا ثابت کریں قیامت آسکتی ہے مگر کوئی بھی مقلد اس بات کو ثابت نہیں کر سکتا.
ما شاء اللہ فہم ہوتوایسا بھائی میرے میں نے یہ نہیں لکھا کہ امام بخاری ضفیف ہیں اورجو کچھ لکھاہے اس کامال بھی یہ نہیں جو آپ نے کشید کیا اوراس پر وہ چیلنج دیا جو عموما آپ جیسے شرارتی مولویوں کا وطیرہ ہوتاہے.علمی بحث ہے علمی انداز میں بات کریں بڑھکیں لگانا اہل علم کا نہیں شہدے لوگوں کا کام ہے
بعض محدثین نے امام صاحب پر جرح کی اورانوارالباری میں اس کے بارے میں کہا گیاکہ یہ جرح غلط ہے اوراس میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا گیاآپ نے جذبات کی شدت سے کپکپاتے ہوئے یہ نادرشاہی حکم لگادیا کہ محدثین کی جرح کو غلط قراردینے سے ان کامجروح ہونا لازم آتاہے
آ پ کے اس اصول کا حاصل یہ نکلاکہ محدثین نے جو فرمادیاجو جرح کردی وہ حرف آخرہے اب اس جرح کے خلاف کوئی بات کہے گاتو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گاکہ حدیث ہم تک پہنچانے ولے مجروح ہوجائیں گے اوریہ ساراسلسلہ دھڑام سے گرجائے گا
آپ کی اس غلطی کو واضح کرتے ہوئے میں نے دوطرح سے اس کا جواب دیاتھا.کہ امام ذہلی نے امام بخاری کو مبتدع کہااورفرمایا
من زعم لفظی بالقرآن مخلوق فہومبتدع ولایجالس ولایکلم ومن ذھب بعدھذاالی محمد بن اسمااعیل فاتھموہ
اسی وجہ سے امام ابوحاتم اورامام ابوزرعہ نے امام بخاری سے حدیث کو ترک کردیا.گویاامام بخاری ان کے نزدیک متروک الحدیث ہوگئے.
ابن حجر عسقلانی نے مسلمہ بن قاسم کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ علی بن مدینی کی کتاب العلل ان کے غیبت میں ان کے بیٹے کو دولت کا لالچ دے کر امام بخاری نے ہتھیائی اورکاتبوں کے ذریعے اسے نقل کرکے اسی کی عبارتیں علی بن المدینی کے سامنے پیش کرتے رہے.
اب دو ہی باتیں ہیں جرح کو درست قراردیکر امام بخاری کو معاذاللہ مبتدع اورسارق کہاجائے یا امام صاحب کی جلالت شان کے پیش نظر اس جرح کو غلط قراردیاجائے دونوں صورتوں میں آپ جناب کے فیصل آبادی کارخانے کے اصول کے مطابق دین دھڑام کرکے گرجائے گا
پھر رہی یہ بات کہ میں امام صاحب کو ضعیف ثابت کروں حاشاوکلا کہ میں ایساکروں نہ کبھی سوچا نہ کیا.اسلاف پر طعن ولعنت کا کام آپ کو مبارک ہو
چند دنوں تک میں امام بخاری اور امام ابوحنیفہ کا تقابل پیش کروں گا پھر مقلدین کو سمجھ آئے گی کہ کس کا مقام محدثین کے ہاں ہے اور کس کا نہیں ،کون محدث اور فقیہ اور کون غیر محدث اور فقیہ .،امام بخاری کی تصانیف کا کیا مقام ہے اور امام ابو حنیفہ کی تصنیفی خدمات ہیں
اول تو بھائی صاب محدثین کسی شرعی حجت کا نام نہیں کہ ان کے ہاں کسی مقام کا ہونا کسی کی فضیلت کے لیے ضروری سمجھاجائے پہلے تو بائو جی آ پ یہ ثابت کریں کہ محدثین حدیث ہیں دوم یہ تفریق بھی خوب رہی محدث اورفقیہ اورغیر محدث اور فقیہ -قربان جاواں حدیث کے بغیر بھی کوئی فقیہ ہوسکتاہے؟لگے ہاتھوں یہ بتاتے چلیں کہ محدث اورفقیہ میں نسبت کون سی ہے ؟تباین یا تساوی یا عموم خصوص مطلق یا من وجہ؟اورکیوں نہ مٰیں آپ کی ضیافت طبع کے لیے حضرت ابن مسعو د اوربخاری کا تقابل پیش کردوں
.تقلید جھوٹ بولنے پر اکساتی رہتی ہے .تاکہ باطل کو تقویت دی جائے انا للہ و انا الیہ راجعون .
میراخیال ہے آپ کے دل کی آگ کچھ اوربھڑک اٹھی ہوگی یہ کلیہ ارشاد فرماکر
:باجماع امت امام ابوحنیفہ مجتہد اورمسائل دین کے مدون ہیں
یہ بات بھی غلط ہے اور امام ابوحنیفہ پر بہتان ہے
بھائی میاں آپ ایسے ہی طوطے کی طرح رٹے ہوئے بے محل الفاظ بول دیتے ہیں یہ تو سوچیے بہتان کسے کہتے ہیں اوراس کی تعریف کیا ہے ؟تہمت گنا ہ کی ہوتی ہے یا نیکی کی؟
کہاں اجماع امت ہوا کب ہوا کس نے کیا ؟
یہ آپ نے خوب بات کی اب ذرامیں بھی توپوچھوں کہ کتب حدیث میں بخاری کے اصح ہونے پر اتفاق کہاں ہوا کب کس صدی میں اورکس تاریخ کو ہوا اوراس اجماع میں اس وقت کی امت کے کتنے افراد شامل تھے؟
میں نے اپنے الفاظ کے ساتھ ہی دلیل بھی لکھی تھی امت کے اہل علم کاکوئ قابل ذکر طبقہ اس کی مخالفت نہیں کرتا. علامہ مجد بن اثیر فرماتے ہیں
اللہ کا کوئی خاص بھید اس مٰیں مضمر نہ ہوتا تو امت محمدیہ کا نصف حصہ کبھی امام ابوحنیفہ کہ پیروی نہ کرتا.
حافظ عبدالقادرقرشی دوثلث لکھتے ہیں
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ میرے گمان کے برخلاف ابوحنیفہ کہ فقہ آفاق تک پہنچ گئی
امام بخاری کے شیوخ اوربڑے بڑے اکابر ائمہ امام ابوحنیفہ کی فقاہت اورآراکوتسلیم کرتے ہیں
اورجناب نے اگلی پوسٹ میں محمد بن غزالی کا قول نقل کیا ہے تو پانچویں صدی کے ایک صوفی کا قول کوئی قابل ذکر نہیں اورنہ وہ گذشتہ تین سو سالہ اجماع میں قادح ہوسکتاہے اورپھر انہوں نے فقدان اجتہاد کی جو دلیل لکھی وہ خود مضحکہ خیز اورمعترضین کی قلت عربیت پر دلالت کرتی ہے.
مسائل دین کےمدون ہیں یہ بھی غلط ہے ؟
جی جی بجامستند ہے آپ کا فرمایاہوا.آپ کے شیخ الکل فی الکل فرماتے ہیں
آپ کا مجتہد متبع سنت متقی اورپرہیزگار ہوناہی آپ کی فضیلت کے لیے کافی ہے
تو جناب امام صاحب مجتہد ہیں اورمجتہد مسائل دین ہی کا استخراج واستنباط کرتاہے اورلیجئے
مورخ ابن ندیم کہتے ہیں کہ
بحروبر شرق وغرب اورقرب وبعد میں علم امام صاحب ہی کا مدون کیا ہواہے
حافظ سیوطی فرماتے ہیں
انہ اول من دون علم الشریعۃ ورتبہا
وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اورابواب میں مرتب کیا
باسند صحیح وہ مسائل پیش کریں جو امام صاحب نے مدون کئے
تو کتاب الاثار دیکھیے موطاامام محمد دیکھیے مذہب حنفی کی کتب ظاہرالروایہ دیکھیے
قدوری ،ہدایہ وغیرہ میں موجود مسائل کی صحئیح سند پیش کریں جو امام صاحب تک پہنچتی ہو اور اس میں صحیح کی تمام شرطیں پائی جائیں .
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے مذہب حنفی سے وہی واقفیت بہم پہنچائی ہے جو فیصل آباد سے منتخب کردہ آپ کو ملی ہے اوروہ انتی ہی ہے جو کہ تنقید وتوہین کے لیے کافی ہے اگر آپ جانتے ہوتے تو یہ بات کبھی نہ کہتے،امام صاحب کے شاگردوں امام محمد امام ابویوسف وغیرہم نے جب کتابوں میں انہیں بیان کردیا تو پھرسند کی کیا حاجت رہی آپ ہدایہ اورقدوری کا قدوری اورسرخسی کا مبسوط اورکتب ظاہرالروایہ کا تقابل کریں تو بات روشن ہوجائے گی اگر یہ بات آپ کے فرمے میں درست نہ بیٹھی تو بتایے گا میں سمجھادوں گا.
یہ جملہ بھی اپنے اندر غلط بات کی طرف واضح ثبوت رکھتا ہے ہم کہتے ہیں کہ محدثین نے حدیث بھی پہنچائی ہے اور انھوں نے ہی شرع کی تدوین کی ہے
اسی پر بات ختم کرتے ہیں ابن بشیر صاحب آپ بخاری نہیں بل کہ تمام کتب صحاح ستہ سے اورپوری شریعت نہیں صرف نماز جیسی اہم عبادت کے تمام مسائل ثابت کردیں ،واللہ میں اسی وقت غیر مجلد ہوجائوں گا.بل کہ آپ کی آسانی کےلیے میں تکبیرسے سلام تک کے مسائل پوچھتاجاتاہوں آپ میرے دریافت کردہ ہرمسئلے پر حدیث بیان کرتے جائیں
ہدایہ وغیرہ کو شرع کی تدوین قرار دینا درست نہیں ہے اگر یقین نہیں تو امام ابن العز الحنفی رحمہ اللہ کی التنبیہ علی مشکلات الہدایہ پڑھیں آپ کو سمجھ لگے گی کہ یہ فقہ حنفی کس شرع کا پرچار کرتی ہے؟
بھائی میاں میں نے کب کہا کہ ہدایہ نے شرع کی تدوین کی؟چلیں اب مزیدکسی گفتگوکی ضرورت ہی نہیں میں آپ کو یہ دوسری آفر کرتاہوں ہدایہ جلد اول سے شروع کرتے ہیں میں اس میں درج مسئلہ لکھتاہوں آپ جواب میں اس کے مخالف حدیث لکھ دیں تاکہ پتہ چل جائے کہ یہ مسئلہ اس حدیث کے خلاف ہے البتہ یہاں اتنی شرط ضرورہے کہ حدیث صریح ہوصحیح ہومرفوع ہواوراس کے معارض کوئی حدیث موجودنہ ہوہدایہ کی چار جلدیں ہیں اگر ہدایہ کی ایک جلد کے ہرمسئلے کے خلاف بھی آپ نے احادیث پیش فرمادیں تو سمجھوں کہ ساری ہی فقہ حنفی حدیث کے خلاف ہے میں حنفیت سے تائب ہوجائوں گاچشم ماروشن دل ماشاد آیے ہمت کیجئے
اب دیر نہ کریں
 
Top