جمعے کا دن ہوتا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسجدِ نبوی کے منبر کی طرف بڑھتے اور اس کی ایک سیڑھی پر بیٹھ جاتے۔ موقع جمعے کے خطبے کاہوتا لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کھڑے نہ ہوتے بلکہ خاموش بیٹھے انتظار کرتے رہتے۔ اتنے میں مسجد کے کسی گوشے میں کوئی اٹھ کھڑا ہوتا۔ اپنی کوئی مشکل امیر المؤمنین سے بیان کرتا۔ وہ اس کا حل ڈھونڈتے، اسے مشورہ دیتے۔ کسی کارروائی کی ضرورت ہوتی تو بحیثیت سربراہِ حکومت خود اس کا وعدہ کر لیتے۔ اسلامی مملکت میں اقتدارِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس کے اقتدار کو نافذ کرنے والا اس کا وہ بندہ جو سربراہِ مملکت ہو ہمہ وقت ملّت کا خدمت گزار ہے۔ ایسا خدمت گزار جو دوسروں سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوتا ہے۔
مسجدِ نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے پارلیمنٹ ہاؤس کی تھی۔ جمعہ کا خطبہ کیا ہوتا پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا۔ اس لیے ذاتی معاملات جن میں حکومت کی توجہ کی ضرورت ہوتی ان کے علاوہ عام شکایات بھی اس موقع پر پیش ہوتیں کہ۔۔۔ فلاں حاکم نے یہ زیادتی کی! فلاں عامل یعنی کمشنر یا ڈپٹی کمشنر یا گورنر کا رویہ عوام کے ساتھ یوں رہا!
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ۔۔۔ امیر المؤمنین منبر کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہر ایک کی بات سنتے اور جس بات کا نوٹس لینا ہوتا فوری نوٹس لیتے۔ اس لیے کہ ایک تو خود انھیں خدا کا خوف ہوتا دوسرے رائے عامہ جاگتی ہوتی اور عوام امانت و دیانت کے ساتھ ملک و ملّت کے بھلے کی باتیں سوچتے اور اگر نظم و نسق میں کوئی جھول ہوتا تو خلیفۂ وقت کو فوراً ٹوک دیتے۔ لیکن یاد رکھیے یہ کام وہی کر سکتا ہے جو کھوکھلا نعرے باز نہ ہو بلکہ اپنے اعمال پر بھی اسی طرح نظر رکھتا ہو جیسے وہ دوسروں کی گرفت کرتا ہے۔
لوگ دور دور سے مدینۃ النبی جاتے تھے۔ کچھ اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ پاک کی زیارت کریں۔ کچھ اس لیے کہ یہ حکومت کا صدر مقام تھا۔ یہاں اہم انتظامی کاموں کا فیصلہ ہوتا۔ یہ سب حضرات جمعہ کی نماز کے وقت پابندی سے مسجدِ نبوی میں جمع ہوتے۔ اس لیے کہ جمعہ کی اہمیت کو وہ خوب سمجھتے تھے۔ جمعہ آرام یا پِک نِک کا دن نہیں، جمعہ کی نماز کے لیے تیاری کا دن ہے۔ اس کی اہمیت عید کے دن سے بھی زیادہ ہے۔ جو جمعہ کی نماز کی طرف سے غافل رہتا ہے وہ راندۂ درگاہ اور بد نصیب ہوتا ہے۔
ان لوگوں سے جو جمعہ کی نماز میں مدینے کے باہر سے آ کر شریک ہوتے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خاص طور پر ان سیان کے علاقے کے حالات پوچھتے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں یہ حالات بیان ہوتے، اس طرح ملک کے گوشے گوشے کے حالات سے وہ باخبر رہتے۔ اپنے عہدہ داروں اور سرکاری ملازموں کی نگرانی میں ان کا بھی وہی حال تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا۔
طبری میں ہے حج کا موقع ہوتا تو تمام صوبوں کے حاکموں کو جمع کرتے، ان کا احتساب کرتے۔ کوئی اس موقع پر کسی گورنر یا کمشنر کی شکایت کرتا تو فوراً تحقیق کرتے اور جائز شکایت ہوتی تو اس اس کا ازالہ کرتے۔ ویسے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑے بردبار بڑے متحمل انسان تھے، مگر بات جہاں تک ملّت کے مسائل کی ہوتی تو وہ بڑے سخت تھے۔ اسلامی تاریخ کو جن لوگوں نے مسخ کیا انھوں نے حضرت عثمان کی انتظامی خوبیوں کو بھی کمزور بنا کر پروپیگنڈا کیا ہے مگر تاریخ کا غیر جانبدار مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ملّت کے معاملات میں کھرے اور نظم و نسق میں پکے تھے۔ خلفائے راشدین میں سب سے بڑی اسلامی مملکت کا کاروبار چلانے والے وہی تھے۔ وہ بڑے سے بڑے آدمی کو اس کی غلطی پر ٹوکتے اور اس کا احتساب کرتے۔ کس لیے کہ۔۔۔ اگر بڑے بڑے لوگ قانون، اصول اور ضابطوں کی پابندی نہ کریں تو پھر انصاف بھی ممکن نہیں اور امن و امان بھی ممکن نہیں۔ حضرت سعد بن وقاص، حضرت عمرو بن عاص، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت ولید بن عتبہ رضی اللہ عنہم بڑے بڑے گورنر تھے۔ موقع آیا تو امیر المؤمنین نے ان کی گرفت کی اور ان کے خلاف سخت کارروائیاں کیں۔ جسے مناسب سمجھا معزول کر دیا۔ فوج اور انتظامیہ کو الگ رکھا۔
تاریخ طبری ہی میں ہے کہ۔۔۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے عُمّال کے احتساب کے لیے ایک اعلیٰ اختیارات کا ٹربیونل بنایا تھا۔ حضرت محمد بن مسلمہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم اس کے ارکان تھے۔ جہاں سے، جس صوبے، جس گوشے سے شکایت آتی انھیں وہاں بھیج دیا جاتا۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے ملّت کا مفاد عزیز ہو۔
رضی اللہ عنہ
از نقیب ختم نبوت
مسجدِ نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے پارلیمنٹ ہاؤس کی تھی۔ جمعہ کا خطبہ کیا ہوتا پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا۔ اس لیے ذاتی معاملات جن میں حکومت کی توجہ کی ضرورت ہوتی ان کے علاوہ عام شکایات بھی اس موقع پر پیش ہوتیں کہ۔۔۔ فلاں حاکم نے یہ زیادتی کی! فلاں عامل یعنی کمشنر یا ڈپٹی کمشنر یا گورنر کا رویہ عوام کے ساتھ یوں رہا!
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ۔۔۔ امیر المؤمنین منبر کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہر ایک کی بات سنتے اور جس بات کا نوٹس لینا ہوتا فوری نوٹس لیتے۔ اس لیے کہ ایک تو خود انھیں خدا کا خوف ہوتا دوسرے رائے عامہ جاگتی ہوتی اور عوام امانت و دیانت کے ساتھ ملک و ملّت کے بھلے کی باتیں سوچتے اور اگر نظم و نسق میں کوئی جھول ہوتا تو خلیفۂ وقت کو فوراً ٹوک دیتے۔ لیکن یاد رکھیے یہ کام وہی کر سکتا ہے جو کھوکھلا نعرے باز نہ ہو بلکہ اپنے اعمال پر بھی اسی طرح نظر رکھتا ہو جیسے وہ دوسروں کی گرفت کرتا ہے۔
لوگ دور دور سے مدینۃ النبی جاتے تھے۔ کچھ اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ پاک کی زیارت کریں۔ کچھ اس لیے کہ یہ حکومت کا صدر مقام تھا۔ یہاں اہم انتظامی کاموں کا فیصلہ ہوتا۔ یہ سب حضرات جمعہ کی نماز کے وقت پابندی سے مسجدِ نبوی میں جمع ہوتے۔ اس لیے کہ جمعہ کی اہمیت کو وہ خوب سمجھتے تھے۔ جمعہ آرام یا پِک نِک کا دن نہیں، جمعہ کی نماز کے لیے تیاری کا دن ہے۔ اس کی اہمیت عید کے دن سے بھی زیادہ ہے۔ جو جمعہ کی نماز کی طرف سے غافل رہتا ہے وہ راندۂ درگاہ اور بد نصیب ہوتا ہے۔
ان لوگوں سے جو جمعہ کی نماز میں مدینے کے باہر سے آ کر شریک ہوتے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خاص طور پر ان سیان کے علاقے کے حالات پوچھتے۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں یہ حالات بیان ہوتے، اس طرح ملک کے گوشے گوشے کے حالات سے وہ باخبر رہتے۔ اپنے عہدہ داروں اور سرکاری ملازموں کی نگرانی میں ان کا بھی وہی حال تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا۔
طبری میں ہے حج کا موقع ہوتا تو تمام صوبوں کے حاکموں کو جمع کرتے، ان کا احتساب کرتے۔ کوئی اس موقع پر کسی گورنر یا کمشنر کی شکایت کرتا تو فوراً تحقیق کرتے اور جائز شکایت ہوتی تو اس اس کا ازالہ کرتے۔ ویسے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بڑے بردبار بڑے متحمل انسان تھے، مگر بات جہاں تک ملّت کے مسائل کی ہوتی تو وہ بڑے سخت تھے۔ اسلامی تاریخ کو جن لوگوں نے مسخ کیا انھوں نے حضرت عثمان کی انتظامی خوبیوں کو بھی کمزور بنا کر پروپیگنڈا کیا ہے مگر تاریخ کا غیر جانبدار مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ ملّت کے معاملات میں کھرے اور نظم و نسق میں پکے تھے۔ خلفائے راشدین میں سب سے بڑی اسلامی مملکت کا کاروبار چلانے والے وہی تھے۔ وہ بڑے سے بڑے آدمی کو اس کی غلطی پر ٹوکتے اور اس کا احتساب کرتے۔ کس لیے کہ۔۔۔ اگر بڑے بڑے لوگ قانون، اصول اور ضابطوں کی پابندی نہ کریں تو پھر انصاف بھی ممکن نہیں اور امن و امان بھی ممکن نہیں۔ حضرت سعد بن وقاص، حضرت عمرو بن عاص، حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت ولید بن عتبہ رضی اللہ عنہم بڑے بڑے گورنر تھے۔ موقع آیا تو امیر المؤمنین نے ان کی گرفت کی اور ان کے خلاف سخت کارروائیاں کیں۔ جسے مناسب سمجھا معزول کر دیا۔ فوج اور انتظامیہ کو الگ رکھا۔
تاریخ طبری ہی میں ہے کہ۔۔۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے عُمّال کے احتساب کے لیے ایک اعلیٰ اختیارات کا ٹربیونل بنایا تھا۔ حضرت محمد بن مسلمہ ، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم اس کے ارکان تھے۔ جہاں سے، جس صوبے، جس گوشے سے شکایت آتی انھیں وہاں بھیج دیا جاتا۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے ملّت کا مفاد عزیز ہو۔
رضی اللہ عنہ
از نقیب ختم نبوت