بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
قارئین کرام !اس وقت ہاتھ میں ''انٹر نیٹ اور جدید ذرائع وابلاغ ''(اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بارہویں فقہی سمینار منعقدہ 13تا 16 اپریل 2001 میں پیش کئے گئے منتخب مقالات کا مجموعہ )ہے اس مجموعہ مقالات سے ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی بحث ہدیہ قارئین ہے۔
ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی بحث
سوال: مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ٹی وی اور اس سے اشتغال واستفادہ عام اور اس کو مختلف تحریکات وتنظیموں نے اپنے مقاصد ونظریات کی اشاعت کے لئے آلہ کار بنا رکھا ہے ، وہاں مذکورہ بالا مقصد اور نظام کے تحت ٹی وی اسٹیشن قائم کرنا یا اس کا کوئی نظم بنانا ،کیا اسکی اجازت ہو گی؟
نوٹ: اس سوال کے جواب میں علماء کرام کے رایوں میں اختلاف ہے،جس کی بنیادی وجہ ٹی وی میں استعمال ہو نے والی تصاویر کا وجود ہے ۔ یہ آرا بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں ۔ایک رائے تصاویر کے ساتھ ٹی وی کے استعمال کو درست قرار دیتی ہے ،اگر چہ اس رائے کے قائلین نے جواز کی بنیادیں اور وجوہات علاحدہ علاحدہ ذکر کی ہیں ،لیکن نتیجہ جواز پر سب متفق ہیں،لہذا ان کے نزدیک سوال نامہ میں مذکور مقاصد کیلئے ٹی وی اسٹیشن کا قائم درست ہے ۔
دوسری رائے تصاویر کی حرمت کو اساس بناتے ہوئے ٹی وی کو اس کے تصویری پہلو کے ساتھ نادرست بنا تی ہے ۔اس رائے کے اختیار کرنے والوں میں سے بعض نے تصویر کی بعض مخصوص شکلوں کا استثناء کیا ہے ۔
ذیل میں ان دونوں قسم کی آرا اور ان کی تفصیلات نیز ان کے مستدلات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
ٹی وی کا استعمال درست ہے
تصاویر کا جواز
ٹی وی کو تصویری پہلو کے ساتھ درست قرار دینے والے حضرات کی آرا اور ان کے مستدلات مندرجہ ذیل ہیں ۔ابتدا تصویر کی شرعی حیثیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے مولانا راشد حسین ندوی نے لکھا ہے کہ ذی روح کی تصویر بنانے اور رکھنے کی ممانعت پر مسلم شریف کتاب اللباس وغیرہ میں متعدد احادیث مروی ہیں ، جن کی بنیاد پر جمہور علماء کے نزدیک یہ دونوں عمل حرام ہیں ، خواہ تصویر سایہ دار ہو یا مسطح ، علامہ نووی فر اماتے ہیں ۔وھذہ الاحادیث صریحۃ فی تحریم تصویر الحیوان وانہ غلیظ التحریم۔۔۔۔۔۔۔وھذ مذھب العلماء کافۃ ( شرح نووی لمسلم 2ص201)
لیکن امام مالکؒ کا مسلک الموسوعۃ الفقیہ میں نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک صرف سایہ دار تصاویر حرام ہیں مسطح تصویر حرام نہیں ہے ( الموسوعۃ الفقہیہ ،اصطلاح تصویر 12ص101) جمہور علماء کے نزدیک حرمت تصویر تو عام ہے ،البتہ چند چیزوں کو انہوں نے مستثنیٰ قرار دیا ہے جن کا تعلق رکھنے اور استعمال سے ہے ،تصویر بنانے کی حرمت سے کوئی استثناء نہیں۔
علماء عرب نے مالکیہ کا قول اختیار کرتے ہوئے تمام غیر مجسمہ تصاویر بشمول کیمرہ کی تصویر کو جائز قرار دیا ہے ۔ سید سابق صاحب فقہ السنۃ میں لکھتے ہیں '' کل ما سبق ذکرہ خاص با لصور المجسد ۃ التی لھا ظل ،اما الصور التی لا ظل لھا کا النفوس فی الحوائظ وعلیٰ الورق ،والصور التی تو جد فی الملابس والستور والصور الفوتو غرافیہ ، فھذہ کلھا جائزۃ ( 2ص58)
اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب لکھتے ہیں :واما تصویر اللوحات وتصویر الفوتو غرا فی فقد قدمنا ان الاقرب الیٰ روح الشریعۃ فیھما ھو الاباحۃ او علیٰ الاکثر الکراھۃ ، وھذا مالم یشمل موضوعۃ الصورۃ نفسھا علیٰ محرم فی الاسلام ( الحلال والحرام فی الاسلام صفحہ 14)
علماء ہند وپاک تو جمہور ہی کے مسلک پر کا ربند ہیں ،لیکن وہ پاسپورٹ ،لائسنس اور شناختی کارڈ وغیرہ جیسی ضروریات کے لئے ''المشقۃ تجلب التیسیسر'' کے تحت فوٹو کھیچوانے کی اجازت دیتے ہیں ۔( دیکھئے کفایت المفتی 9ص234حلال وحرام ،صفحہ 229)
مولانا راشد صاحب ندوی اس تفصیل کے بعد اپنی رائے ذکر کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ سوالنامہ میں مذکور مقاصد کے تحت ٹی وی اسٹیشن قائم کرنے اور اس کے رکھنے اور دیکھنے کی تین وجہوں سے گنجائش ہو سکتی ہے ۔
اول دعوت وتبلیغ کی اہمیت اور امر با المعروف ونہی عن المنکر کی تا کیدات کے پیش نظر امام مالکؒ کا مسلک اختیار کر لیا جائے ، کیونکہ دعوت فرض کفایہ ہے ،اور مغربی ممالک میں آج کی مصروف ترین زندگی میں اس فرض کی ادائیگی دشوار ہو جاتی ہے ، تو جہاں بہت سے مواقع پر '' المشقۃ تجلب التیسیر'' کے تحت امام مالکؒ کا مسلک اختیار کیا گیا ، یہاں پر بھی ''الحرح مدفوع شرعا'' کے پیش نظر مالکی مسلک اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔
دوم : حرمت تصویر کے قائلین نے '' الضرورات تبیح المحظورات ''اور'' المشقۃ تجلب التیسیر''کو بنیاد بنا کر جان ومال کی ضرورت کے تحت پاسپورٹ وغیرہ کے لئے فوٹو کی جازت دی ہے ، تو حفاظت دین کی ضرورت کے تحت بھی اس کی اجازت ہو نی چاہئے ،اس لئے کہ اس کی اجازت دینے میں ایک حرام کے ارتکاب کا مفسدہ ہے لیکن اس کی ممانعت میں بہت بڑے طبقہ کی دینی دعوت سے محروم ہو جانے کا بڑا اور عام مفسدہ ہے ، لہذا ''اھون البلیتین'' کو اخیار کرتے ہوئے جواز کو تر جیح دی جا سکتی ہے ، یہ بھی پیش نظر رہے کہ جواز کی اجازت سے پیدا ہو نے والا مفسدہ امام مالکؒ کے اختلاف کی وجہ سے اس کے مجتہد فیہ ہو جانے ، نیز بہت سے علماء عرب کی جانب سے تا ئید پا لینے کے بعد ہلکا ہو چکا ہے ۔
سوم حدیث میں آگ کے ذریعہ سزا دینے سے منع کیا گیا ہے : ''فانہ لا یعذب با لنار الا رب النار'' ( ابوداؤد 3ص 124 ) اس کے با وجود فقہا نے حالت جنگ میں کفار کو جلا ڈالنے کی اجازت دی ہے(دیکھئے رد المحتار3ص224 ،منجنیق کے استعمال کی اجازت نیز آیت کریمہ ''واعدوالھم مااستطعھم۔۔۔''کی تفسیر میں علامہ آلوسی کی تشریح ، روح العانی 19ص25 ) اور حالات پر نظر رکھنے والوں سے مخفی نہیں کہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا عصر حاضر میں سرد جنگ کا سب ست مؤثر ہتھیار بن چکے ہیں ، لہذا جس طرح معرکہ سیف وسنان کے وقت ضرورت کے پیش نظر اصلا ممنوع امور کی اجازت دی جا سکتی ہے جو عام حالات میں جائز نہیں ، کہ اس معرکہ کی سنگینی کس طرح بھی پہلے معرکہ سے کم نہیں
ان تینوں وجوہات کی بنیاد پر موصوف کے نزدیک ٹی وی مرکز قائم کرنا درست ہو گا بشرطیکہ ان تمام محرمات سے پر ہیز کیا جائے ، جو کہ فی ذتہ حرام ہے ، مثلا اس میں باجہ کا استعمال ، اور عورتوں کے ذریعہ پر وگرام کو ترتیب دینا وغیرہ۔
مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب کی بھی تقریبا یہی رائے ہے ، وہ با الاختصار اپنی رائے ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں کہ ٹی وی کی موجودہ شکل میں تصویر کی مدد سے پر وگرام انجام پاتا ہے ، مذکورہ مقاصد عالیہ کے پیش نظر اسے ایک ضرورت شرعیہ کے تحت گوارا کر لیا جانا چاہئے ،اور '' اخف الضرورین'' کے اصول کوسامنے رکھنا چاہئے ، جس طرح ملکی قوانین اور پاسپورٹ وغیرہ کے موقع کے لئے تصویروں کو مجبورا رکھا جاتا ہے ۔
مولانا مفتی انور علی اعظمی اور مولانا اشیاق احمد اعظمی صاحبان بھی ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے جواز سے اتفاق کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ ایسی تصویر جو ٹی وی سے ہٹ کر دیکھی جا سکتی ہے ، اور شریعت میں اس کی اجازت ہے ، ٹی وی پر اسی حد تک اجازت ہو گی ، ٹی وی اسٹیشن قا ئم کرنے اور چینل لینے والے علماء کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان حدوں کی رعایت کریں ۔
مولانا عزیر قاسمی صاحب کی رائے میں جب اچھے مقاصد کیلئے ٹی وی کا استعمال ہو گا تو علت لہو ولعب نہیں پائی جا ئیگی ، نیز یہ ''ما لا تقوم المعصیۃ بعینہ" کے قبیل سے ہے اور جو تصاویر نشر ہوں گی وہ مقصود نہیں ہو ں گی اور مستورات کی تصویریں وعریاں تصویریں بھی نہیں ہوں گی اس لئے ٹی وی اسٹیشن کا قیام درست ہے۔
ٹی وی کی تصویر عکس ہے
مولاناعطاء الرحمٰن مدنی صاحب کی رائے میں ٹی وی پر انسان کی نظر آنے والی شکل اس تصویر جیسی نہیں ہے جسے کوئی آرٹسٹ بناتا ہے ، جو اپنے ہاتھوں سے تصویر کا جسم اور اس کا چہرہ مہرا بنا کر خلق خدا سے مشابہت پیدا کرتا ہے ،ایسے آرٹسٹوں ومصوروں کے لئے حدیث میں وعید آئی ہے ، ٹی وی کی یہ شکل اس عکسی تصویر جیسی ہے جو کسی شیشے پر نطر آتی ہے جس کی تصویر میں انسان کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوئی بھی چیز نہیں ہوتی ہے ،دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ کسی چیز کی شکل کا جو عکس کیمرے پر پڑتا ہے اسے کیمرہ کرنٹ کی چھوٹی چھوٹی لہر کی شکل میں محفوظ کر کے اسی کرنٹ کی لہر کو ٹی وی میں بھیجتا ہے جو اسکرین پر اصل شکل وصورت کی طرح نظر آتی ہے لہذا منکرات سے بچتے ہوئے ٹی وی کے مفید پرو گرام دیکھنا درست ہے اور خیر کی اشاعت کے لئے ٹی وی اسٹیشن قائم کرنا اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت ہے۔
بقدر ضرورت تصاویر کا استعمال:مولانا عبد الرشید قاسمی صاحب کی رائے یہ ہے کہ ٹی وی پر صرف ضرورت کے وقت تصویر نشر کی جائے جو پاسپورٹ سائز کی ہو یا سر کٹی ہوئی تصویر ہو،اور صرف ایک مرتبہ دکھادی جائے ،بلا ضڑورت شدیدہ تصویر نہ دکھائی جائے۔
جواز کی رائے سے اتفاق کرنے والوں میں قاضی عبد الجلیل صاحب، مولانا ریاض احمد سلفی ،ڈاکٹرقدرت اللہ باقوی ، مفتی محبوب علی وجیہی ،مولانا سلطان احمد اصلاحی ،ڈاکٹر عبد العظیم اصلاحی ،مولنا عزیز الرحمٰن ،مولانا ابو سفیان مفتاحی ، مفتی وسیم احمد ،مولانا ظفر عالم عالم ندوی، مولانا خورشید احمد اعظمی ،مولانا اسجد ندوی ، مولانا شفیق الرحمٰن ندوی ، مفتی صباح الدین ملک فلاحی ، مولانا مصطفیٰ قاسمی صاحبان کے اسماء گرامی بھی ہیں ان حضرات نے دین کی نشر واشاعت وحفاظت اور عقیدہ وعمل کی اصلاح کے لئے ٹی وی اسٹیشن کے قیام کو مجموعی طور پر جائز ، مستحسن اور واجب قرار دیا ہےم اور بعض نے منکرات سے خالی ہو نے کی شرط لگائی ہے
مغربی ممالک کیلئے جواز
چند حضرات نے ٹی وی اسٹیشن کے قیام کو صرف ان مغربی ممالک کے لئے جائز قرار دیا ہے جہاں اس سے اشتغال واستفادہ عام ہے ۔یہ رائے مفتی حبیب اللہ قاسمی ،مولانا محمد یعقوب قاسمی، زید پور مولانا نعیم اختر اور مفتی جمیل احمف نذیری صاحبان کی ہے ۔مولانا نعیم اختر صاحب نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ پرو گرام پیش کرنے والا مرد ہو عورت کی تصویر نہ ہو اور دینی پرو گرام ہو ،جبکہ مفتی جمیل صاحب نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ جواز اس لئے نہیں ہے کہ فی نفسہ ٹی وی یا تصویر کشی جائز ہے بلکہ ابتلاء عام اور عموم بلویٰ کی گنجائش وتخفیف کا سبب ہو تا ہے ، نیز کسی مسئلہ میں علماء حق کی آراء مختلف ہوں اور مسئلہ مجتہد فیہ ہو تو بھی مذکورہ فی السوال حالات گنجائش پیدا کر دیتے ہیں۔