ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی بحث

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​
قارئین کرام !
اس وقت ہاتھ میں ''انٹر نیٹ اور جدید ذرائع وابلاغ ''(اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے بارہویں فقہی سمینار منعقدہ 13تا 16 اپریل 2001 میں پیش کئے گئے منتخب مقالات کا مجموعہ )ہے اس مجموعہ مقالات سے ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی بحث ہدیہ قارئین ہے۔

ٹی وی کے جواز وعدم جواز کی بحث​

سوال: مغربی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ٹی وی اور اس سے اشتغال واستفادہ عام اور اس کو مختلف تحریکات وتنظیموں نے اپنے مقاصد ونظریات کی اشاعت کے لئے آلہ کار بنا رکھا ہے ، وہاں مذکورہ بالا مقصد اور نظام کے تحت ٹی وی اسٹیشن قائم کرنا یا اس کا کوئی نظم بنانا ،کیا اسکی اجازت ہو گی؟
نوٹ: اس سوال کے جواب میں علماء کرام کے رایوں میں اختلاف ہے،جس کی بنیادی وجہ ٹی وی میں استعمال ہو نے والی تصاویر کا وجود ہے ۔ یہ آرا بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں ۔ایک رائے تصاویر کے ساتھ ٹی وی کے استعمال کو درست قرار دیتی ہے ،اگر چہ اس رائے کے قائلین نے جواز کی بنیادیں اور وجوہات علاحدہ علاحدہ ذکر کی ہیں ،لیکن نتیجہ جواز پر سب متفق ہیں،لہذا ان کے نزدیک سوال نامہ میں مذکور مقاصد کیلئے ٹی وی اسٹیشن کا قائم درست ہے ۔
دوسری رائے تصاویر کی حرمت کو اساس بناتے ہوئے ٹی وی کو اس کے تصویری پہلو کے ساتھ نادرست بنا تی ہے ۔اس رائے کے اختیار کرنے والوں میں سے بعض نے تصویر کی بعض مخصوص شکلوں کا استثناء کیا ہے ۔
ذیل میں ان دونوں قسم کی آرا اور ان کی تفصیلات نیز ان کے مستدلات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
ٹی وی کا استعمال درست ہے
تصاویر کا جواز
ٹی وی کو تصویری پہلو کے ساتھ درست قرار دینے والے حضرات کی آرا اور ان کے مستدلات مندرجہ ذیل ہیں ۔ابتدا تصویر کی شرعی حیثیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے مولانا راشد حسین ندوی نے لکھا ہے کہ ذی روح کی تصویر بنانے اور رکھنے کی ممانعت پر مسلم شریف کتاب اللباس وغیرہ میں متعدد احادیث مروی ہیں ، جن کی بنیاد پر جمہور علماء کے نزدیک یہ دونوں عمل حرام ہیں ، خواہ تصویر سایہ دار ہو یا مسطح ، علامہ نووی فر اماتے ہیں ۔وھذہ الاحادیث صریحۃ فی تحریم تصویر الحیوان وانہ غلیظ التحریم۔۔۔۔۔۔۔وھذ مذھب العلماء کافۃ ( شرح نووی لمسلم 2ص201)
لیکن امام مالکؒ کا مسلک الموسوعۃ الفقیہ میں نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک صرف سایہ دار تصاویر حرام ہیں مسطح تصویر حرام نہیں ہے ( الموسوعۃ الفقہیہ ،اصطلاح تصویر 12ص101) جمہور علماء کے نزدیک حرمت تصویر تو عام ہے ،البتہ چند چیزوں کو انہوں نے مستثنیٰ قرار دیا ہے جن کا تعلق رکھنے اور استعمال سے ہے ،تصویر بنانے کی حرمت سے کوئی استثناء نہیں۔
علماء عرب نے مالکیہ کا قول اختیار کرتے ہوئے تمام غیر مجسمہ تصاویر بشمول کیمرہ کی تصویر کو جائز قرار دیا ہے ۔ سید سابق صاحب فقہ السنۃ میں لکھتے ہیں '' کل ما سبق ذکرہ خاص با لصور المجسد ۃ التی لھا ظل ،اما الصور التی لا ظل لھا کا النفوس فی الحوائظ وعلیٰ الورق ،والصور التی تو جد فی الملابس والستور والصور الفوتو غرافیہ ، فھذہ کلھا جائزۃ ( 2ص58)
اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب لکھتے ہیں :واما تصویر اللوحات وتصویر الفوتو غرا فی فقد قدمنا ان الاقرب الیٰ روح الشریعۃ فیھما ھو الاباحۃ او علیٰ الاکثر الکراھۃ ، وھذا مالم یشمل موضوعۃ الصورۃ نفسھا علیٰ محرم فی الاسلام ( الحلال والحرام فی الاسلام صفحہ 14)
علماء ہند وپاک تو جمہور ہی کے مسلک پر کا ربند ہیں ،لیکن وہ پاسپورٹ ،لائسنس اور شناختی کارڈ وغیرہ جیسی ضروریات کے لئے ''المشقۃ تجلب التیسیسر'' کے تحت فوٹو کھیچوانے کی اجازت دیتے ہیں ۔( دیکھئے کفایت المفتی 9ص234حلال وحرام ،صفحہ 229)
مولانا راشد صاحب ندوی اس تفصیل کے بعد اپنی رائے ذکر کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ سوالنامہ میں مذکور مقاصد کے تحت ٹی وی اسٹیشن قائم کرنے اور اس کے رکھنے اور دیکھنے کی تین وجہوں سے گنجائش ہو سکتی ہے ۔
اول دعوت وتبلیغ کی اہمیت اور امر با المعروف ونہی عن المنکر کی تا کیدات کے پیش نظر امام مالکؒ کا مسلک اختیار کر لیا جائے ، کیونکہ دعوت فرض کفایہ ہے ،اور مغربی ممالک میں آج کی مصروف ترین زندگی میں اس فرض کی ادائیگی دشوار ہو جاتی ہے ، تو جہاں بہت سے مواقع پر '' المشقۃ تجلب التیسیر'' کے تحت امام مالکؒ کا مسلک اختیار کیا گیا ، یہاں پر بھی ''الحرح مدفوع شرعا'' کے پیش نظر مالکی مسلک اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔
دوم : حرمت تصویر کے قائلین نے '' الضرورات تبیح المحظورات ''اور'' المشقۃ تجلب التیسیر''کو بنیاد بنا کر جان ومال کی ضرورت کے تحت پاسپورٹ وغیرہ کے لئے فوٹو کی جازت دی ہے ، تو حفاظت دین کی ضرورت کے تحت بھی اس کی اجازت ہو نی چاہئے ،اس لئے کہ اس کی اجازت دینے میں ایک حرام کے ارتکاب کا مفسدہ ہے لیکن اس کی ممانعت میں بہت بڑے طبقہ کی دینی دعوت سے محروم ہو جانے کا بڑا اور عام مفسدہ ہے ، لہذا ''اھون البلیتین'' کو اخیار کرتے ہوئے جواز کو تر جیح دی جا سکتی ہے ، یہ بھی پیش نظر رہے کہ جواز کی اجازت سے پیدا ہو نے والا مفسدہ امام مالکؒ کے اختلاف کی وجہ سے اس کے مجتہد فیہ ہو جانے ، نیز بہت سے علماء عرب کی جانب سے تا ئید پا لینے کے بعد ہلکا ہو چکا ہے ۔
سوم حدیث میں آگ کے ذریعہ سزا دینے سے منع کیا گیا ہے : ''فانہ لا یعذب با لنار الا رب النار'' ( ابوداؤد 3ص 124 ) اس کے با وجود فقہا نے حالت جنگ میں کفار کو جلا ڈالنے کی اجازت دی ہے(دیکھئے رد المحتار3ص224 ،منجنیق کے استعمال کی اجازت نیز آیت کریمہ ''واعدوالھم مااستطعھم۔۔۔''کی تفسیر میں علامہ آلوسی کی تشریح ، روح العانی 19ص25 ) اور حالات پر نظر رکھنے والوں سے مخفی نہیں کہ ذرائع ابلاغ اور میڈیا عصر حاضر میں سرد جنگ کا سب ست مؤثر ہتھیار بن چکے ہیں ، لہذا جس طرح معرکہ سیف وسنان کے وقت ضرورت کے پیش نظر اصلا ممنوع امور کی اجازت دی جا سکتی ہے جو عام حالات میں جائز نہیں ، کہ اس معرکہ کی سنگینی کس طرح بھی پہلے معرکہ سے کم نہیں
ان تینوں وجوہات کی بنیاد پر موصوف کے نزدیک ٹی وی مرکز قائم کرنا درست ہو گا بشرطیکہ ان تمام محرمات سے پر ہیز کیا جائے ، جو کہ فی ذتہ حرام ہے ، مثلا اس میں باجہ کا استعمال ، اور عورتوں کے ذریعہ پر وگرام کو ترتیب دینا وغیرہ۔
مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب کی بھی تقریبا یہی رائے ہے ، وہ با الاختصار اپنی رائے ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں کہ ٹی وی کی موجودہ شکل میں تصویر کی مدد سے پر وگرام انجام پاتا ہے ، مذکورہ مقاصد عالیہ کے پیش نظر اسے ایک ضرورت شرعیہ کے تحت گوارا کر لیا جانا چاہئے ،اور '' اخف الضرورین'' کے اصول کوسامنے رکھنا چاہئے ، جس طرح ملکی قوانین اور پاسپورٹ وغیرہ کے موقع کے لئے تصویروں کو مجبورا رکھا جاتا ہے ۔
مولانا مفتی انور علی اعظمی اور مولانا اشیاق احمد اعظمی صاحبان بھی ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے جواز سے اتفاق کرتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ ایسی تصویر جو ٹی وی سے ہٹ کر دیکھی جا سکتی ہے ، اور شریعت میں اس کی اجازت ہے ، ٹی وی پر اسی حد تک اجازت ہو گی ، ٹی وی اسٹیشن قا ئم کرنے اور چینل لینے والے علماء کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان حدوں کی رعایت کریں ۔
مولانا عزیر قاسمی صاحب کی رائے میں جب اچھے مقاصد کیلئے ٹی وی کا استعمال ہو گا تو علت لہو ولعب نہیں پائی جا ئیگی ، نیز یہ ''ما لا تقوم المعصیۃ بعینہ" کے قبیل سے ہے اور جو تصاویر نشر ہوں گی وہ مقصود نہیں ہو ں گی اور مستورات کی تصویریں وعریاں تصویریں بھی نہیں ہوں گی اس لئے ٹی وی اسٹیشن کا قیام درست ہے۔

ٹی وی کی تصویر عکس ہے

مولاناعطاء الرحمٰن مدنی صاحب کی رائے میں ٹی وی پر انسان کی نظر آنے والی شکل اس تصویر جیسی نہیں ہے جسے کوئی آرٹسٹ بناتا ہے ، جو اپنے ہاتھوں سے تصویر کا جسم اور اس کا چہرہ مہرا بنا کر خلق خدا سے مشابہت پیدا کرتا ہے ،ایسے آرٹسٹوں ومصوروں کے لئے حدیث میں وعید آئی ہے ، ٹی وی کی یہ شکل اس عکسی تصویر جیسی ہے جو کسی شیشے پر نطر آتی ہے جس کی تصویر میں انسان کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوئی بھی چیز نہیں ہوتی ہے ،دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ کسی چیز کی شکل کا جو عکس کیمرے پر پڑتا ہے اسے کیمرہ کرنٹ کی چھوٹی چھوٹی لہر کی شکل میں محفوظ کر کے اسی کرنٹ کی لہر کو ٹی وی میں بھیجتا ہے جو اسکرین پر اصل شکل وصورت کی طرح نظر آتی ہے لہذا منکرات سے بچتے ہوئے ٹی وی کے مفید پرو گرام دیکھنا درست ہے اور خیر کی اشاعت کے لئے ٹی وی اسٹیشن قائم کرنا اسلام اور مسلمانوں کی بہت بڑی خدمت ہے۔

بقدر ضرورت تصاویر کا استعمال:مولانا عبد الرشید قاسمی صاحب کی رائے یہ ہے کہ ٹی وی پر صرف ضرورت کے وقت تصویر نشر کی جائے جو پاسپورٹ سائز کی ہو یا سر کٹی ہوئی تصویر ہو،اور صرف ایک مرتبہ دکھادی جائے ،بلا ضڑورت شدیدہ تصویر نہ دکھائی جائے۔
جواز کی رائے سے اتفاق کرنے والوں میں قاضی عبد الجلیل صاحب، مولانا ریاض احمد سلفی ،ڈاکٹرقدرت اللہ باقوی ، مفتی محبوب علی وجیہی ،مولانا سلطان احمد اصلاحی ،ڈاکٹر عبد العظیم اصلاحی ،مولنا عزیز الرحمٰن ،مولانا ابو سفیان مفتاحی ، مفتی وسیم احمد ،مولانا ظفر عالم عالم ندوی، مولانا خورشید احمد اعظمی ،مولانا اسجد ندوی ، مولانا شفیق الرحمٰن ندوی ، مفتی صباح الدین ملک فلاحی ، مولانا مصطفیٰ قاسمی صاحبان کے اسماء گرامی بھی ہیں ان حضرات نے دین کی نشر واشاعت وحفاظت اور عقیدہ وعمل کی اصلاح کے لئے ٹی وی اسٹیشن کے قیام کو مجموعی طور پر جائز ، مستحسن اور واجب قرار دیا ہےم اور بعض نے منکرات سے خالی ہو نے کی شرط لگائی ہے

مغربی ممالک کیلئے جواز
چند حضرات نے ٹی وی اسٹیشن کے قیام کو صرف ان مغربی ممالک کے لئے جائز قرار دیا ہے جہاں اس سے اشتغال واستفادہ عام ہے ۔یہ رائے مفتی حبیب اللہ قاسمی ،مولانا محمد یعقوب قاسمی، زید پور مولانا نعیم اختر اور مفتی جمیل احمف نذیری صاحبان کی ہے ۔مولانا نعیم اختر صاحب نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ پرو گرام پیش کرنے والا مرد ہو عورت کی تصویر نہ ہو اور دینی پرو گرام ہو ،جبکہ مفتی جمیل صاحب نے یہ وضاحت کی ہے کہ یہ جواز اس لئے نہیں ہے کہ فی نفسہ ٹی وی یا تصویر کشی جائز ہے بلکہ ابتلاء عام اور عموم بلویٰ کی گنجائش وتخفیف کا سبب ہو تا ہے ، نیز کسی مسئلہ میں علماء حق کی آراء مختلف ہوں اور مسئلہ مجتہد فیہ ہو تو بھی مذکورہ فی السوال حالات گنجائش پیدا کر دیتے ہیں۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قسط 2
ٹی وی کا استعمال درست نہیں​

دوسری رائے ٹی وی کے استعمال کو اس بنیاد پر نا درست قرار دیتی ہےکہ اس میں تصویر کا استعمال لازمی ہے ،اور تصویر ہر شکل میں حرام ہے خواہ وہ قلم سے بنائی جائے یا فوٹو گرافی کی جائے یا طباعت کے ذریعہ تیار کی جائے ، نیز تصویر کا بنانا جس طرح حرام ہے تصاویر کا رکھنا اور ان کا دیکھنا بھی حرام ہے ، رکھنے کی بعض صورتیں تو جائز ہیں لیکن تصویر سازی کسی حال میں درست نہیں ،جن مواضع ضرورت کو حرمت سے مستثنیٰ کیا گیا ہے ،ٹی وی میں اس درجہ کی ضرورت نہیں پائی جاتی ، لہذا ٹی وی اسٹیشن کا قیام جائز نہیں۔

عدم جواز کی رائے اپنانے والوں کا مجموعی نقطہ نظر تو یہی ہے جو ابھی مذکور ہوا ،لیکن ان کی علا حدہ علا حدہ آرا ءاور مستدلات مندرجہ ذیل ہیں ۔

تصاویر حرام ہیں :​

حرمت پر متعدد احادیث نقل کی ہیں ، بخاری شریف میں ہے ان اشد النا س عذابا یوم القیمۃ المصورون ( فتح الباری/0 ص 314) حضرت عبد اللہ بن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ‘‘ان الذین یصنعون ھذہ الصور یعذبون یوم القیمۃ یقال لھم احیوا ما خلقتھم‘‘ ( بخاری مع الفتح کتاب اللباس 10ص 316)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘فمن اظلم ممن ذھب یخلق کخلقی فلیخلقوا حبۃ ولیخلقوا ذرۃ ‘‘( بخاری مع الفتح10ص 316)مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا‘من عاد الیٰ صنعۃ شئی من ھذا فقد کفر بما انزل علیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قال الحافظ المننذری اسنادہ جید ‘( بلوغ القصد والمرام 22)

صاحب عمدۃ القاری لکھتے ہیں ‘‘وفی التوضیح قال اصحابنا وغیرہہم تصویر صورۃ الحیوان حرام اشد التحریم وھو من الکبائرر سواء صنعہ لما یمتھن او لغیرہ فحرام بکل حال ،لان فیہ مضاھات بخلق اللہ ، وسواء کان فی ژوب او بساط او دینار او درھم او فلیس او ااناء او ھائط ،واما ما لیس فیہ صورۃ حیوان کا لشجر ونحو ہ فلیس بحرام ،وساوء کان فی ھذا کلہ مالہ ظل ومالا طل لہ، وبمعناہ قال جماعۃ العللماء مالک والثورری وابو حنیفہ وغیرہم ( 22ص 70 )
مولانا اخترامام عادل صاحب نے تصویر سازی سے متعلق مذکورہ احادیث اور ذی روح کی تصویر سازی کی حرمت پر ائمہ اربعہ کا اجماع نقل کر نے کے بعد لکھا ہے کہ تصویر کے باب بالخصوص جدید فوٹوگرافی کے معاملہ میں بعض ہندوستانی علماء کے بار میں مشہور ہے کہ وہ توسع کے قائل تھے ،ان کے نزدیک حرمت تصویر کی علت شائبہ شرک سے حفاظت تھی ، اس لئے جن صورتوں میں اس کا اندیشہ نہ ہو ان میں تصویر کی گنجائش ہے ،اس سلسلہ میں دو بزرگوں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی اور حضرت مولانا ابو الکلام آزاد کا نام لیاجاتا ہے ، مگر تحقیق سے یہ بات معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے اپنے موقف سے رجوع کر کے جمہور امت کا موقف اختیار کر لیا تھا ‘‘جواہر الفقہ‘‘ کےے حوالہ سے انہوں جنوری 1943ء کے معارف میں شائع علامہ سید سلیمان ندوی کے رجوع اور رانچی جیل سے لکھے خط میں مولانا ابو الکلام آزاد کے رجوع کے اقتباسات بھی نقل کئے ہیں ۔
مولانا اختر امام عادل صاحب مزید لکھتے ہیں کہ تصویر بنانے ، تصویر رکھنے اور اسے دیکھ کر لطف اندوز ہو نے کے تینوں مراحل کو فقہا نے معصیت میں شمار کیا ہے ،ذی روح کی تصویر سازی کسی صورت میں اور کسی کے نزدیک جائز نہیں ۔ علامہ نووی لکھتے ہیں ‘‘ تصویرصورۃ الحیوان حرام شدید التحریم ‘‘ (نووی مع ممسلم 2ص 199 ) علامہ شامی لکھتے ہییں ‘‘واما فعل التصویر فھو غیر جائز مطلقا ‘‘ (رد المحتار 1ص 677) ذی روح کی سر کٹی تصاویر میں فقہاء نےمضائقہ نہیں سمجھا ہے کہ یہ تصویر نہیں نقوش ہیں ۔شیخ علی متقی لکھتے ہیں ‘‘فاذا قطع الراس فلا صورۃ ( کنز العمال 40)
شرح معانی الاثار للطحاوی 92ص 366) میں ہے فکل شئی لیس لہ راس فلیس بصورۃ ۔
جہاں تک تصویر رکھنے کا تعلق ہے ، بالکل چھوٹی اور ایسے ہی پامال وذلیل سمجھی جانے والی تصویروں کا رکھنا جائز ہے،لیکن ان کا بھی بنا نا نا جائز ہے ۔
خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے ‘‘ثم التمثال اذا کان علیٰ وسادۃ لا باس با ستعمالھا وان کان یکرہ اتخاذھا ( 1ص 58) اور بدائع الصنائع میں ہے ”وان کان الصورہ علی البسط والوسائد الصغار وھی تداس با لارجل لاتکرہ لما فیہ من اھانتھا‘‘‘‘ ( 1ص 116)
اور تصویر سازی حرام ہے تو حرام کو دیکھنا اور اس کو کسی مصرف میں استعمال کرنا بھی حرام ہے لہذا حاصل یہ ہے کہ ٹی وی فحشاء ومنکرات کی اشاعت سے کتنا ہی پاک ہو، اس میں غیر شرعی عمل نہ ہوو اور سارااختیار محتاط ومتدین طبقہ کے ہاتھوں ہو ،لیکن تصویر سازی، تصویر نمائی اور تصویر بینی کے مراحل سے گزرے بغیر چارہ نہیں ،اور تصوویر رکھنے اور دییکھنے کی بعض جائزصورتیں تو ممکن ہیں لیکن تصویر سازی کے جواز کی کوئی صورت نہیں ۔

مولا بر ہان الدین سنبھلی صاحب تصویر سازی کی حرمت سے اتفاق کرتے ہوئے فر ماتے ہیں اگر ٹی وی میں تصویر نہ لینی پڑے ، نہ عورتوں کو شامل کیا جائے اور نہ اس کے علاوہ کوئی اور خلاف شرع چیزکا ارتکاب کرنا پڑے تو اس سے دعوت کا کام شرعا جائز ہوگا۔
جاری
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
براہ راست پروگرام نشر کیا جائے۔
حرمت تصویر کے بعض قائلین ٹی وی کے استعمال کی اس صورت کو درست قرار ار دیتے ہیں جس میں براہ راست پر گرام نشر کیا جارہا ہو ، کیونکہ آئینہ پر عکس کی مانند ہے ، یہ رائے مولانا بر ہان الدین سنبھلی ،مولانا زبیر احمد قاسمی ، مولانا ابرار خان ندوی ، مولانا تنویر عالم قاسمی ، اور مولانا ابو القاسم صاحبان کی ہے ۔

دیگر آرا

مولانا ظفر الاسلام صاحب بھی تصویر سےخالی ہونے کی صورت میں درست کہتے ہیں ۔
مولانا عبد القیوم صاحب پالنپوری بھی غیر شرعی امور سے اجتناب ، موسیقی ، عورت ،فلم ،اس کے گیت اور تصویر سازی سے دور رہتے ہوئے ٹی وی اسٹیشن کے قیام کو درست سمجھتے ہیں۔
لیکن مولاناعبد پالنپوری صاحب تصویر سازی کی ہر شکل کو نا جائز بتاتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ ٹی وی اسٹیشن کا قیام چاہئے کتنے ہی نیک مقاصد سے ہو اس میں تصویر کشی لابدی اور جزو لا ینفک ہے نیز ہزاروں لوگ تصویر دیکھنے کے گناہ میں مبتلا ہوں گے جس کا سبب ہم بنیں گے ، کیونکہ جن تصاویر کا بنانا اور رکھنا جا ئز ہے ان کا ارادہ ومقصد کے ساتھ دیکھنا بھی نا جائز ہوگا۔

مولانا ارشاد قاسمی صاحب کی رائے بھی ٹی وی سے حاصل فوائد کے مقابلہ میں شرعی منکرات زیادہ ہیں جن کا احتمال ہی نہیں بلکہ تجربات ہیں اس لئے نا جائز ہے ، مولانا موصوف مزید لکھتے ہیں کہ شرعی منکرات سے احتراز کرتے ہوئے متقی وپرہیز گارلوگ دعوت وتبلیغ اور اشاعت دین کا پرو گرام ٹی وی سے نشر کر سکتے ہیں ، لیکن آج کے پر فتن دور میں یہ مشکل نطر آتا ہے۔

مولانا ابو القاسم اور مولانا تنویر عالم قاسمی صاحبان نے تصویر کے مسئلہ میں اختلاف آرا ء علماء کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر غور کرنے کی دعوت دی ہے ،کہ ان کے خیال میں ٹی وی کا جواز یا عدم جواز تصویر کی بابت حکم شرعی متعین ہو نے پر موقوف ہے ۔ مولانا زبیر احمد قاسمی اور مولانا اختر امام عادل صاحبان کے نزدیک ٹی وی میں اس درجہ کی ضرورت کا تحقق ابھی نہیں ہوا کہ ضرورت کی وجہ سے اس کے جواز کی گنجائش ہو سکے۔

 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ہمارے پاس ٹی وی کی حرمت پر فقیہ العصر مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ کے فتاویٰ
اور شیخ العرب والعجم عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم
کے فرامین موجود ہیں ، جن سے واضح طور پر یہ معلوم ہورہاہے کہ ٹی وی دیکھنا خواہ اس میں اسلامی پروگرام ہی کیوں نہ ہوں قطعا جائز نہیں ، کیوں کہ اس میں ہروقت گندے پروگرام
فحش فلمیں اور میوزک وموسیقی جیسے خبیث شیطانی منتر چلتے رہتے ہیں
ایک ناپاک اور گندگی کے آلے سے دین کی خدمت کا م لینایا اسے سننا و دیکھنا کیسے جائز ہوگا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مجیب منصور نے کہا ہے:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ہمارے پاس ٹی وی کی حرمت پر فقیہ العصر مفتی رشید احمد رحمۃ اللہ کے فتاویٰ
اور شیخ العرب والعجم عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم
کے فرامین موجود ہیں ، جن سے واضح طور پر یہ معلوم ہورہاہے کہ ٹی وی دیکھنا خواہ اس میں اسلامی پروگرام ہی کیوں نہ ہوں قطعا جائز نہیں ، کیوں کہ اس میں ہروقت گندے پروگرام
فحش فلمیں اور میوزک وموسیقی جیسے خبیث شیطانی منتر چلتے رہتے ہیں
ایک ناپاک اور گندگی کے آلے سے دین کی خدمت کا م لینایا اسے سننا و دیکھنا کیسے جائز ہوگا
میں نے اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا کے بارہویں فقہی سمینار‘‘مجموعہ مقالات ‘‘سے خلاصہ نقل کیا تھا
یہ مجموعہ 434صفحات پر مشتمل ہے ہندوستان کے چوٹی کے مفتیان کرام کے مقالات ہیں بشول قاضی مجاہد الا سلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ۔کوشش ہے جلد ہی الغزالی پر اپلوڈ کر دی جائے ۔دعا فر مائیں
 

حیدرآبادی

وفقہ اللہ
رکن
تصویر کی حرمت اور موجودہ دور میں ٹی وی کے ذریعے تبلیغ کے اس موضوع پر تمام اسلامی مکاتب فکر کا ایک مذاکرہ پاکستان میں ہوا تھا جس میں ایک متفقہ قرارداد بھی جاری ہوئی۔
ابھی حال میں اس کی تفصیلات ایک فورم پر پڑھنے کو ملیں۔ یہاں مطالعہ کیجئے
الیکٹرونک میڈیا پر تصویرکا شرعی حکم ؛ تقابلی جائزہ
 
Top