کوا.... دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کے افسانوی ادب یا لوک گیتوں اور عوامی کہانیوں میں کوے کا ذکر نہ ہو۔ قریب قریب ہر جگہ اس کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں اور قصے کہانیاں زبان زد خاص وعام ہیں۔ سوئٹزرلینڈ‘ جرمنی اور سسلی کے لوگوں میں یہ خیال عام ہے کہ کسی ایسے گھر کے قریب جس میں کوئی شخص بستر علالت پر پڑا ہو‘ کوے کی کائیں‘ کائیں سنائی دے تو سمجھ لیجئے کہ مریض کی موت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے ایک علاقے سسکس میں مشہور ہے کہ اگر کسی مکان کی منڈیر پر بیٹھ کر یہ تین بار متواتر ایک انداز سے کائیں‘ کائیں کائیں کرے تو یہ بات یقینی ہے کہ اس گھر کا کوئی فرد داغ مفارقت دینے والا ہے۔ آئرلینڈ والے کہتے ہیں کوے‘ ظالم جاگیرداروں کے بھوت ہیں‘ اس لیے کسانوں کے باغات سے سبزی چراتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض ایسے ممالک ہیں جہاں اسے مقدس سمجھ کر اس کی تعظیم کی جاتی ہے۔
برصغیر وپاک و ہند کے لوگ اسے متفقہ طور پر منحوس خیال کرتے ہیں لیکن زمانہ قدیم میں بعض ایسے ہندو طبقے موجود تھے جو اسے متبرک اور دانش مند پرندہ سمجھ کر اس کی پرستش کرتے تھے۔
اس پرندے کا سر اور پیٹھ عام طور پر سیاہ اور گردن اورچھاتی سفیدی مائل ہوتی ہے لیکن بعض ایسے کوے بھی ہیں جو سرتا پیر سیاہ رنگ کے فرغل میں ملبوس ہوتے ہیں جیسے پہاڑی کوے ان میں سفیدی نام کو بھی نہیں ہوتی۔ یہ سب انسانی صحبت کے مشتاق اور دلدادہ ہیں۔ انسان کہیں جائے یہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ دنیا میں نیوزی لینڈ کے سوا اور کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں ہے جہاں اس پرندے کا کوئی نہ کوئی ہم نسل یا نمائندہ موجود نہ ہو۔
بھوک‘ اس پرندے کی سب سے بڑی کمزوری ہے‘ کچھ نہ چھوڑے پاک نہ گندا۔ اس قدر بلانوش واقع ہوا ہے کہ کوئی بھی شے اسے غیرموافق نہیں۔ اناج‘ پھل‘ مینڈک‘ مردار‘ ٹڈے‘ مکوڑے اور انڈے سب کچھ اڑا جاتا ہے۔ شکاری پرندے تو صرف جوان پرندوں کو ہی ہلاک کرتے ہیں لیکن کوا باقاعدہ جاسوسوں کی طرح دوسرے پرندوں کے انڈوں اور بچوں کی تلاش میں رہتا ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں چٹ کرتا ہے۔
کسان کیلئے اس پرندے کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ کیونکہ اس سے جتنا فائدہ پہنچتا ہے تقریباً وہ اتنا ہی نقصان کردیتا ہے۔ شہروں میں البتہ اس کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ یہ یہاں کی غلاظت اور گندگی کو رفع کرنے کے کام میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ گاہے گاہے گدھوں کے ساتھ مردار کھانے میں شریک ہوکر گلی سڑی اور عفونت پیدا کرنے والی اشیاءکھاجاتا ہے۔
موسم بہار شروع ہوتے ہی یہ پرندے اپنے جیون ساتھی کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ یہ موسم ان کی زندگی میں خاصی گہماگہمی پیدا کردیتا ہے۔ وہی کوے جو پہلے صبح سے لے کر شام تک پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتے‘ اب ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے پھرتے اور آپس میں اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ فضا میں خوب اونچا اڑکر اچانک نیچے کا رخ کرتے ہیں اور کسی دوسرے ساتھی کو قریب سے ذرا سا مس کرکے دوبارہ بلندی کی طرف اڑجاتے ہیں یا بیٹھے بیٹھے اچانک اپنی گردن سکیڑ لے گا اور پر سمیٹ کر بڑے انداز سے اپنا راگ الاپنے لگے گا۔ یہ سب ان کی محبت کے انداز ہیں پسند کا جوڑا مل جانے کے بعد دونوں تادم زیست ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ مادہ ایک موسم میں عام طور پر چار سے لے کر چھ انڈے دیتی ہے۔ انڈوں کا رنگ نیلا‘ سبزی مائل ہوتا ہے اور اس پر بھورے رنگ کے دھبے یا دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں۔ مادہ جب انڈے سینے بیٹھتی ہے تو نر اس کیلئے خوراک مہیا کرتا ہے۔ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال بڑی احتیاط اور پوری جانفشانی سے کرتے ہیں۔ انہیں عقاب‘ شکرے اور الو جیسے دشمنوں کی دست درازی سے ہر ممکن حد تک بچاتے ہیں۔ا س پرندے میں ایک دوسرے کیساتھ اتفاق اور محبت سے مل جل کر رہنے کا گہراجذبہ پایا جاتا ہے اور اس جذبے کی انتہا یہ ہے کہ کوئی ذرا سی چیز جو پالے‘ کھائے نہ جب تک سب کو بلالے۔
بشکریہ
ماہنامہ عبقری
برصغیر وپاک و ہند کے لوگ اسے متفقہ طور پر منحوس خیال کرتے ہیں لیکن زمانہ قدیم میں بعض ایسے ہندو طبقے موجود تھے جو اسے متبرک اور دانش مند پرندہ سمجھ کر اس کی پرستش کرتے تھے۔
اس پرندے کا سر اور پیٹھ عام طور پر سیاہ اور گردن اورچھاتی سفیدی مائل ہوتی ہے لیکن بعض ایسے کوے بھی ہیں جو سرتا پیر سیاہ رنگ کے فرغل میں ملبوس ہوتے ہیں جیسے پہاڑی کوے ان میں سفیدی نام کو بھی نہیں ہوتی۔ یہ سب انسانی صحبت کے مشتاق اور دلدادہ ہیں۔ انسان کہیں جائے یہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ دنیا میں نیوزی لینڈ کے سوا اور کوئی دوسرا ملک ایسا نہیں ہے جہاں اس پرندے کا کوئی نہ کوئی ہم نسل یا نمائندہ موجود نہ ہو۔
بھوک‘ اس پرندے کی سب سے بڑی کمزوری ہے‘ کچھ نہ چھوڑے پاک نہ گندا۔ اس قدر بلانوش واقع ہوا ہے کہ کوئی بھی شے اسے غیرموافق نہیں۔ اناج‘ پھل‘ مینڈک‘ مردار‘ ٹڈے‘ مکوڑے اور انڈے سب کچھ اڑا جاتا ہے۔ شکاری پرندے تو صرف جوان پرندوں کو ہی ہلاک کرتے ہیں لیکن کوا باقاعدہ جاسوسوں کی طرح دوسرے پرندوں کے انڈوں اور بچوں کی تلاش میں رہتا ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر انہیں چٹ کرتا ہے۔
کسان کیلئے اس پرندے کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔ کیونکہ اس سے جتنا فائدہ پہنچتا ہے تقریباً وہ اتنا ہی نقصان کردیتا ہے۔ شہروں میں البتہ اس کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ یہ یہاں کی غلاظت اور گندگی کو رفع کرنے کے کام میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ گاہے گاہے گدھوں کے ساتھ مردار کھانے میں شریک ہوکر گلی سڑی اور عفونت پیدا کرنے والی اشیاءکھاجاتا ہے۔
موسم بہار شروع ہوتے ہی یہ پرندے اپنے جیون ساتھی کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ یہ موسم ان کی زندگی میں خاصی گہماگہمی پیدا کردیتا ہے۔ وہی کوے جو پہلے صبح سے لے کر شام تک پیٹ کے کارن گھر گھر پھرتے‘ اب ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے پھرتے اور آپس میں اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ فضا میں خوب اونچا اڑکر اچانک نیچے کا رخ کرتے ہیں اور کسی دوسرے ساتھی کو قریب سے ذرا سا مس کرکے دوبارہ بلندی کی طرف اڑجاتے ہیں یا بیٹھے بیٹھے اچانک اپنی گردن سکیڑ لے گا اور پر سمیٹ کر بڑے انداز سے اپنا راگ الاپنے لگے گا۔ یہ سب ان کی محبت کے انداز ہیں پسند کا جوڑا مل جانے کے بعد دونوں تادم زیست ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ مادہ ایک موسم میں عام طور پر چار سے لے کر چھ انڈے دیتی ہے۔ انڈوں کا رنگ نیلا‘ سبزی مائل ہوتا ہے اور اس پر بھورے رنگ کے دھبے یا دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں۔ مادہ جب انڈے سینے بیٹھتی ہے تو نر اس کیلئے خوراک مہیا کرتا ہے۔ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال بڑی احتیاط اور پوری جانفشانی سے کرتے ہیں۔ انہیں عقاب‘ شکرے اور الو جیسے دشمنوں کی دست درازی سے ہر ممکن حد تک بچاتے ہیں۔ا س پرندے میں ایک دوسرے کیساتھ اتفاق اور محبت سے مل جل کر رہنے کا گہراجذبہ پایا جاتا ہے اور اس جذبے کی انتہا یہ ہے کہ کوئی ذرا سی چیز جو پالے‘ کھائے نہ جب تک سب کو بلالے۔
بشکریہ
ماہنامہ عبقری