مسند امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حدیث میں مسانید ابی حنیفہ کا مقام​

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور میں ایک فقیہ اور مجتہد ہونے کے ساتھ ایک حافظ حدیث اور عظیم محدث بھی تھے ، کیونکہ جس ہستی کو حدیث وشرائع کی تبویب اور تدوین جدیدہ کا شرف حاصل ہو تو بھلا کون ان کی جلیل القدر محدثانہ خدمات سے انکار کر سکتا ہے ؟
عارف با اللہ محقق دوراں علامہ عبد الوہاب الشعرانی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ''مسانید ''کا بنظر غائر تنقیدی جائزہ لیا تاکہ وہ بلا مبالغہ موصوف کی محدثانہ شان وشوکت اور اس علم میں ان کی سیادت سے بخوبی آگاہ ہو سکیں، چنانچہ '' مسانید ابی حنیفہ '' کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ لینے کے بعد اس امر کی حقیقت کو اپنی شہرہ آفاق کتاب ''الحیوان الکبریِ'' میں یوں بیان فر ماتے ہیں۔
ترجمہ: مجھ پر اللہ تعالیِ نے بڑا احسان فر مایا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تین مسندوں کا ان کے صحیح نسخوں سے مطالعہ کی تو فیق ملی ،ان نسخوں پر حفاظ حدیث کے قلم کی تحریریں تھیں ،جن میں آخری شخص حافظ دمیاتی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔مطالعہ کے دوران میں نے دیکھا کہ امام ممدوح صرف ان تابعین کرام رضی اللہ عنہ سے حدیثیں روایت کرتے ہیں کہ جو اپنے وقت کے بر گزیدہ ،عادل اور ثقہ حضرات تھے ،اور جو حدیث نبوی کی تصریح کے مطابق خیرا لقرون کے لوگ تھے جیسے کہ اسود ،علقمہ ،عطاء ، مجاہد ، مکحول اور حسن بصری جیسے حضرات ہیں رضی اللہ عنہم اجمعین۔ سو تمام وہ رواۃ جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ہیں ،سب کے سب عادل ، ثقہ ، نیک نام اور بر گزیدہ ہیں ،ان میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ جو کذاب ہو یا اس پر کذاب کی تہمت لگائی گئی ہو ،اور میرے بھائی ان کی عدالت کے لئے تمہیں یہ کافی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے با وجود شدت ورع واحتیاط اور امت محمدیہ کا خاص خیال رکھنے کے لئے ان حضرات کو اس غرض کیلئے منتخب فر مایا ہے کہ ان سے اپنے دینی احکام حاصل کر سکیں۔
اسی طرح محقق العصر علامہ عبد الرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ مسانید ابی حنیفہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو علم حدیث میں جو رتبہ حاصل ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جس کثرت سے ان کی مسندیں لکھی گئیں کسی کی نہیں لکھی گئیں ۔حدیث میں صحاح، سنن مستخرجات، جوامع، ،مسانید ، معاجم ،اجزاء ، طرق وغیرہ مختلف عنوانات پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں،مگر خاص کسی ایک شخص کی روایات کو ایک مستقل مجموعہ میں قلمبند کرنے کی فضیلت صرف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہے کہ موصوف کی احادیث اور روایات کے ساتھ معمول سے زیادہ اعتناء کیا گیا اور کثرت سے ان کی مسندیں لکھی گئیں، اس خصوصیت میں اگر کوئی شخص امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہمسر ہو سکتا ہے تو وہ صرف امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ احناف حفاظ حدیث کی فن جرح وتعدیل میں خدمات ص ۷۶۔۷۷


یہ ‘‘کتاب مسند امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ‘‘نٹ پر تھی لیکن اسکیننگ اتنی اچھی نہ تھی الحمد للہ لائبریری ٹیم کے ممبران عامر محمد سلمہ اور احمد عدیل غزالی ،محمد یو شع شیرازی نے بڑی محنت سے اسکین کیا ۔تمام قارئین سے التماس ہے ان بچوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ۔جسم وجان وایمان کی سلامتی کی دعا کر یں۔

مسند امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ​

[scribd id=74390057 key=key-1xyg6hrchpdpfa55ke8y mode=list]

[scribd id=74386089 key=key-18cgnkj3e59i1dt5cpj5 mode=list]

[scribd id=74383759 key=key-1ieyfqgz1b2skqq7jboo mode=list]
 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سراج الئمہ ، امام الائمہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے
مسانید کے بارے میں بہترین مضمون ارسال کرنے کا بصد شکریہ قاسمی صاحب ۔ جزیت عن ربی احسن الجزاء
 
M

Malang009

خوش آمدید
مہمان گرامی
attachment.php
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
اشماریہ بھائی ۔ کیا واقعی آپ نے مسانید امام ابوحنیفہؒ پر مولانا عبد الرشید نعمانیؒ صاحب کا مقدمہ نہیں پڑھا۔
جی بھائی جان یہ حقیقت ہے کہ جب میں سادسہ میں آیا تھا تو بہت تلاش کے باوجود مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوا تھا کہ ان کا اس قسم کا کوئی مقدمہ بھی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ بعد میں بھی کبھی نظر سے نہیں گزرا۔ حالاں کہ سادسہ میں میں نے حارثی کی اصل اور مبوب دونوں مسانید لی تھیں اور اس وقت اور بعد میں امام صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے بے شمار چیزیں پڑھیں بھی اور ڈھونڈیں بھی۔ لیکن اس کا کوئی اشارہ بھی کبھی نہیں ملا۔ اس لیے آپ کی بات پڑھ کر مجھے کافی حیرت ہوئی تھی۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
جی بھائی جان یہ حقیقت ہے کہ جب میں سادسہ میں آیا تھا تو بہت تلاش کے باوجود مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوا تھا کہ ان کا اس قسم کا کوئی مقدمہ بھی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ بعد میں بھی کبھی نظر سے نہیں گزرا۔ حالاں کہ سادسہ میں میں نے حارثی کی اصل اور مبوب دونوں مسانید لی تھیں اور اس وقت اور بعد میں امام صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے بے شمار چیزیں پڑھیں بھی اور ڈھونڈیں بھی۔ لیکن اس کا کوئی اشارہ بھی کبھی نہیں ملا۔ اس لیے آپ کی بات پڑھ کر مجھے کافی حیرت ہوئی تھی۔

پاک و ہند میں بلکہ عرب میں بھی امام ابو حنیفہؒ کے تعلق سے کام کرنے والا کوئی بھی شخص مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کی تحقیقات سے مستغنی نہیں ہو سکتا ۔
عرب میں اس معاملے میں سر فہرست علامہ الکوثریؒ ہیں ۔
انہوں نے ائمہ احناف کے تراجم کے ضمن میں ہمیشہ وہ تحقیقات پیش کیں ۔جو پہلے نہ ہوئی تھیں ۔
افسوس ہمارے اردو میں امام ابوحنیفہؒ پر لکھنے والے ، خیرات الحسان ، عقود الجمان سے آگے بڑھتے ہی نہیں ۔
یا عرب سے معاصر حوالہ دیں تو شیخ ابو زہرہؒ کی کتاب کا دے دیتے ہیں ۔
آپ یہ سمجھیں کہ جہاں علامہ کوثریؒ نے ختم کیا ۔وہیں سے شیخ نعمانیؒ نے شروع کیا ۔
انہوں نے علامہ کوثریؒ سے بھی کافی فائدہ اٹھایا ۔
کتاب الآثار کی تحقیق مرتب انداز سے ایک مقدمہ کی صورت میں سب سے پہلے انہوں نے ہی پیش کی ۔
اور کیا آپ نے مولانا محمد علی صدیقیؒ کی کتاب امام اعظم اور علم حدیث بھی نہیں دیکھی ۔وہ تو نیٹ پہ بھی موجود ہے ۔
انہوں نے ساری کتاب میں مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کی تحقیقات کو ہی (اعتراف کے ساتھ)پیش کیاکچھ اضافوں کے ساتھ ۔
اس میں بھی تمام مسانید کی تحقیق موجود ہے ۔
ان کے بیٹے مولانا عبد الشہید نعمانی کی کتاب امام ابو حنیفہؒ کی تابعیت تو آپ نے پڑھی ہو گی ۔وہ بھی نیٹ پہ موجود ہے ۔
ان کی نہج پہ تحقیق کرنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں ۔
اب مزید کتب اور مخطوطات شائع ہو رہے ہیں ۔ مزید تحقیق آگے سے ہونی چاہیے ۔
 
Last edited:

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
پاک و ہند میں بلکہ عرب میں بھی امام ابو حنیفہؒ کے تعلق سے کام کرنے والا کوئی بھی شخص مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کی تحقیقات سے مستغنی نہیں ہو سکتا ۔
عرب میں اس معاملے میں سر فہرست علامہ الکوثریؒ ہیں ۔
انہوں نے ائمہ احناف کے تراجم کے ضمن میں ہمیشہ وہ تحقیقات پیش کیں ۔جو پہلے نہ ہوئی تھیں ۔
افسوس ہمارے اردو میں امام ابوحنیفہؒ پر لکھنے والے ، خیرات الحسان ، عقود الجمان سے آگے بڑھتے ہی نہیں ۔
یا عرب سے معاصر حوالہ دیں تو شیخ ابو زہرہؒ کی کتاب کا دے دیتے ہیں ۔
آپ یہ سمجھیں کہ جہاں علامہ کوثریؒ نے ختم کیا ۔وہیں سے شیخ نعمانیؒ نے شروع کیا ۔
انہوں نے علامہ کوثریؒ سے بھی کافی فائدہ اٹھایا ۔
کتاب الآثار کی تحقیق مرتب انداز سے ایک مقدمہ کی صورت میں سب سے پہلے انہوں نے ہی پیش کی ۔
اور کیا آپ نے مولانا محمد علی صدیقیؒ کی کتاب امام اعظم اور علم حدیث بھی نہیں دیکھی ۔وہ تو نیٹ پہ بھی موجود ہے ۔
انہوں نے ساری کتاب میں مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کی تحقیقات کو ہی (اعتراف کے ساتھ)پیش کیاکچھ اضافوں کے ساتھ ۔
اس میں بھی تمام مسانید کی تحقیق موجود ہے ۔
ان کے بیٹے مولانا عبد الشہید نعمانی کی کتاب امام ابو حنیفہؒ کی تابعیت تو آپ نے پڑھی ہو گی ۔وہ بھی نیٹ پہ موجود ہے ۔
ان کی نہج پہ تحقیق کرنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں ۔
اب مزید کتب اور مخطوطات شائع ہو رہے ہیں ۔ مزید تحقیق آگے سے ہونی چاہیے ۔
نعمانیؒ کی مکانۃ الامام ابی حنیفہ اور الامام ابن ماجہ و کتابہ السنن میں نے لفظا لفظا پڑھی ہیں بلکہ مکانۃ الامام تو بہت غور سے پڑھی ہے۔ شیخ واقعی محقق تھے۔
البتہ علامہ کوثریؒ کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ مسلکی تشدد کا شکار ہو گئے تھے۔ اسی طرح ان کے مقابلے میں جنہوں نے قلم اٹھایا یعنی غماریؒ اور معلمیؒ وہ بھی مسلکی تشدد کا شکار ہو گئے ورنہ تاریخ بغداد پر بہت عمدہ کام ہو جاتا۔ بہرحال اگر کوئی دونوں فریقوں کو جمع کردے اور تھوڑی تحقیق خود کرلے اعتدال کے ساتھ تو بہت عمدہ کام ہو جائے گا۔ دونوں فریق ہی علم حدیث کے ماہر اور وسیع الاطلاع تھے اس لیے بہت کچھ جمع کر گئے ہیں۔ ضرورت صرف ترتیب و تنقیح کی ہے۔
مولانا محمد علی صدیقیؒ کی کتاب کا میں نے مطالعہ کیا ہے اور میرے پاس پی ڈی ایف شکل میں موجود بھی ہے۔ یہ سب مطالعہ تقریبا ان ڈیڑھ سال کا ہے جو میں نے محدث پر مسلکی ابحاث میں گزارے ہیں۔
اسی طرح عبد الشہید نعمانی صاحب کی کتاب بھی دیکھی ہے البتہ اس کا مطالعہ نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بھی کئی کتب دیکھی ہیں۔ شیخ ابو زہرہؒ کی تحقیقات تو مختلف جگہوں میں پڑھی ہیں لیکن اتفاق سے ان کی ابو حنیفہؒ کی سیرت نہیں پڑھی۔
عبد الرشید نعمانی صاحب کے مقدمہ کے بارے میں میں نے کبھی سنا ہی نہیں تو بھلا کیا پڑھتا۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
علامہ کوثریؒ کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ مسلکی تشدد کا شکار ہو گئے تھے۔ اسی طرح ان کے مقابلے میں جنہوں نے قلم اٹھایا یعنی غماریؒ اور معلمیؒ وہ بھی مسلکی تشدد کا شکار ہو گئے
مسلكی تو نہیں البتہ کچھ تشدد کا شکار تو ضرور ہو گئے ۔ اگرچہ ان کی طرف سے دفاع بھی ہو سکتا ہے ۔جیسے بالکل ہی غلط بات پر الذہبیؒ کا ابن حبانؒ ، عقیلیؒ ، حاکم ؒ پر سخت گرفت ۔ البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ وہ یہ لہجہ نہ اپناتے تو زیادہ فائدہ ہوتا ۔ اس سے ان کی شخصیت کو ہی متنازعہ بنا دیا گیا۔

لیکن کیا انصاف کرنے والے کو یہاں بھی انصاف نہیں کرنا چاہیے ۔اور ان کی لہجے کی سختی یا کہیں ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو اس کو ہم نہ مانیں ۔لیکن جہاں وہ ایسی معلومات دیں جن تک ان کی رسائی ہو دوسرے کی نہ ہو ۔۔کم از کم ان کو تو کچھ دیکھ لیں ۔ ان کے سب سے بڑے مخالف شیخ معلمی نہیں بلکہ البانی صاحب نے جو کہا ہے اسے بھی مد نظر رکھیں جو الکوثریؒ کو بدعی افکار کا حامل قرار دینے کے باوجود ان کی وسعت اطلاع کا اعتراف کرتے ہیں ۔اور فرماتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ کوثری کو رجال سے کثیر حصہ ملا(مفہوم)

ایک بات پہ میں نے کافی غور کیا ہے کہ جب آپ کسی شخصیت یا کتاب کے خلاف چیز پہلے سن پڑھ لیں اور اس کے بعد کتاب یا شخصیت کو دیکھیں تو آپ پر فطری بات ہے کہ اس اعتراض کا اثر ضرور ہوگا۔

اس کی مثال جو مجھے پیش آئی آپ کو بتاتا ہوں ۔

صحیح بخاریؒ کی شروع کی احادیث جو بدء الوحي سے متعلق ہیں ۔ان کو کئی بار دیکھا ۔ کبھی کوئی اشکال وہم میں بھی نہیں آیا ۔

ایک دن ایک منکر حدیث کا اعتراض کسی کے توسط سے سنا کہ بخاری پر اعتماد نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کی احادیث میں ایک حدیث ہے جس میں ہے کہ حضورﷺ خود کشی (معاذاللہ) کرنا چاہتے تھے (آپ کے علم میں ہوگا میری مراد کون سی حدیث ہے )۔جب یہ اعتراض سن کر پھر وہ حدیث پڑھی تو واقعتاََ میرے ذہن پر اثر ہوا ۔ اللہ کا شکر ہے پھر ادھر اُدھر تحقیق سے اس کا پتہ چلا ۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے کبھی عالم کو دیکھنا نہیں ، کتاب کو شرح کے ساتھ پڑھنا نہیں ۔بلکہ متن بھی نہیں پڑھنا ۔ البتہ اعتراض سن لینا ہے ۔ ان پر کیا اثر ہوگا۔اسی طرح ایک میرے ذاتی علم میں ہمارے رشتہ دار ہیں ، انہوں نے بخاریؒ کو دیکھا تک نہیں ۔ اور برق صاحب کی ایک اسلام ان کے ہاتھ لگ گئی ۔ اب ان کے نزدیک جو بخاری کا ایمج بنا وہ میں آپ کو کیا بتاؤں۔آپ خود سمجھ سکتے ہیں ۔

اب موجودہ ہمارے اہل حدیث بھائی اگر امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں کچھ پڑھیں اور شروع ہی ان کی محدث پہ موجود معلومات ہوں جو کہ صاحب حضرو، لمحات ، نشرالصحیفہ ۔کی مرہون منت ہے ۔ ان کا ذہن پھر کیسے قبول کرے گا امام ابو حنیفہؒ کو۔

یہی مثال مولانا شہیدؒ ، تھانویؒ وغیرہ کے بارے میں بھی ہے ۔

میرا جو ذاتی خیال ہے وہ اس بات کے اعتراف کے ساتھ کہ علامہ کوثریؒ معصوم عن الخطا نہیں تھے ۔ لیکن ان کے بیشتر معترضین نے پہلے اعتراض والی کتب پڑھی ہیں ۔ پھر شاید اس عینک کے لگانے کے بعد تانیب کو پڑھا ہو گا بھی تو وہی نظر آنا تھا ۔ جس شدت کی عینک لگا کے دیکھا ہوگا۔ بلکہ مجھے شک ہے اکثر نے (جن میں لگتا ہے کہ ہمارے محترم دوسروں کی نسبت نرم مزاج خضر بھائی بھی شامل ہیں ) تانیب کو پڑھا بھی ہے کہ نہیں ۔

ورنہ تاریخ بغداد پر بہت عمدہ کام ہو جاتا۔ بہرحال اگر کوئی دونوں فریقوں کو جمع کردے اور تھوڑی تحقیق خود کرلے اعتدال کے ساتھ تو بہت عمدہ کام ہو جائے گا۔ دونوں فریق ہی علم حدیث کے ماہر اور وسیع الاطلاع تھے اس لیے بہت کچھ جمع کر گئے ہیں۔ ضرورت صرف ترتیب و تنقیح کی ہے۔
مولانا محمد علی صدیقیؒ کی کتاب کا میں نے مطالعہ کیا ہے اور میرے پاس پی ڈی ایف شکل میں موجود بھی ہے۔ یہ سب مطالعہ تقریبا ان ڈیڑھ سال کا ہے جو میں نے محدث پر مسلکی ابحاث میں گزارے ہیں۔
اسی طرح عبد الشہید نعمانی صاحب کی کتاب بھی دیکھی ہے البتہ اس کا مطالعہ نہیں کیا
ایک سلفی ٹائپ کے مشہور محقق ہیں ڈاکٹر بشار عواد ۔۔آپ کے علم میں ہوگا ہی ۔انہوں نے جو تاریخ بغداد پر تحقیق کی ہے اس میں کچھ جمع یا محاکمہ کرنے کی ہی کوشش کی ہے ۔ البتہ (اعتراض کے ڈر سے کہیں مجھے بھی کوثری فرقہ میں نہ کوئی ڈال دے ، یا واقعی قائل ہو کر ہی) کچھ زیادہ میلان ان کا معلمی کی طرف ہی رہا ۔

مجھے بعض اوقات بعض معتدلین پہ حیرت ہوتی ہے کہ فرض کریں ۔ایک شریف آدمی ہے اس پہ ایک آدمی قتل کی تہمت لگاتا ہے ۔وہ اس کا انکار کرتا ہے ۔

ایک تیسرا آدمی منصف بن کر جو آئے گا ۔کیا اس میں اعتدال یہ ہے کہ وہ دونوں سے کہے ۔۔کچھ تمہاری مان لیتے ہیں ،کچھ ان کی ، نہ تم قاتل ہو ، نہ شریف ،۔کیا یہی اعتدال ہے ۔ نہیں بلکہ اعتدال یہی ہے اور انصاف بھی یہی کہ ثابت ہو جائے کہ وہ آدمی یا تو شریف ہے یا قاتل ۔

ایک اور سلفی عالم ہیں ۔ڈاکٹر محمود طحان ۔ بہت مشہور ہیں ۔ تیسیر مصطلح الحدیث ان کی مشہور کتاب ہے ۔ اردو ترجمہ میں بھی دستیاب ہے ۔

آپ کے علم میں ہوگا ہی کہ انہوں نے خطیب بغدادیؒ پر سب سے زیادہ تحقیق کی ہے اور ان پر طویل دراسہ لکھا ہے ۔ اس میں خطیب پر اعتراضات کےجائزہ کے ضمن میں انہوں نے الکوثریؒ پر بھی تنقید کی ہے ۔ لیکن پھر جب انہوں نے خود ان روایات کی تحقیق پیش کی ۔ وہ ساری کوثریؒ کی تائید بلکہ اس سے بڑھ کر ہی ہے ۔

یا علما ازہر نے ایک تاریخ بغداد پر حاشیہ بھی لکھا ہے ۔ وہ بھی معتدل سمجھا جاتا ہے ۔

مولانا صدیقی کی کتاب
کا ذکر اس لئے کیا تھا کہ انہوں نے نعمانیؒ کا مقدمہ الآثار، اور مقدمہ مسند امام اعظم، ۹۰ فیصد لے لیا ہے ۔ اگر آپ نے وہ پڑھ لیا ہے تو پھر مقدمہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ۔

اسی طرح عبد الشہید نعمانی صاحب کی کتاب کا آپ نے مطالعہ نہیں کیا۔

اگر اس موضوع سے کچھ دلچسپی نہ ہو تو ٹھیک ہے ۔ لیکن جس کو دلچسپی ہو یہ کتاب اس موضوع پہ حرف آخر ہے ۔

ہاں دو کتابیں اور اسی سال اسی موضوع پہ اس سے زیادہ توسع سے تحقیق ہو کہ آئی ہیں ۔ وہ الگ ہیں ۔

ذکر اس لئے کیا کہ انہوں نے بھی اپنے والد کی تحقیق کو ہی کچھ شرح و تحقیق سے پیش کیا ۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
نعمانیؒ کی مکانۃ الامام ابی حنیفہ اور الامام ابن ماجہ و کتابہ السنن میں نے لفظا لفظا پڑھی ہیں بلکہ مکانۃ الامام تو بہت غور سے پڑھی ہے۔ شیخ واقعی محقق تھے۔

اگر آپ نے اتنے غور سے پڑھی ہے ۔تو شیخ نعمانیؒ نے حافظ ذہبیؒ کی سیر اعلام النبلا سے (جو ان کی آخری تصانیف میں سے ہے ) جو نقل کیا۔

امام مالک ؒکے ترجمہ میں امام شافعی ؒکہ مشہور قول ۔

العلم يدور على ثلاثة: مالك والليث وابن عيينة

پر تعلیق کرتے ہوئے ذہبی فرماتے ہیں ۔

قلت : بل وعلى سبعة معهم ، وهم : الأوزاعي ، والثوري ، ومعمر ، وأبو حنيفة ، وشعبة ، والحمادان

اور ابن عیینہ ؒشعبہؒ اور دونوں حماد ؒکے ذکر سے ظاہر بھی ہو گیا کہ علم سے مراد علم حدیث ہی ہے ۔

پھر آپ نے اتناڈھیلا نتیجہ خضر بھائی سے بات کرتے ہوئے کیسے نکالا؟

شاید اس مصلحت سے کہ امام ابوحنیفہؒ سے متعلق ایسی بات کو جنون سے تعبیر کر دیا جاتا ہے ۔
آپ کا تو معلوم نہیں لیکن میں نے اسی لئے اُدھر آپ اور ان کے اصرار کے باوجود مسانید کے بارے میں معلومات نہیں دیں ۔ کیونکہ اُدھر مزاج یہی ہے کہ پھر انہوں نے جرح شروع کردینی تھی ۔اور بلاوجہ امام ابوحنیفہؒ یا فقہا پر پھر تنقید تکرار بحث سے مجھے مناسبت نہیں ۔اور جو صحیح نیت سے بحث نہ کرے اس سے کبھی نہیں کرنی چاہیے ۔
لیکن شاید کچھ مختلف انداز سے کچھ بات کروں گا ۔
 

اویس پراچہ

وفقہ اللہ
رکن
اگر آپ نے اتنے غور سے پڑھی ہے ۔تو شیخ نعمانیؒ نے حافظ ذہبیؒ کی سیر اعلام النبلا سے (جو ان کی آخری تصانیف میں سے ہے ) جو نقل کیا۔

امام مالک ؒکے ترجمہ میں امام شافعی ؒکہ مشہور قول ۔

العلم يدور على ثلاثة: مالك والليث وابن عيينة

پر تعلیق کرتے ہوئے ذہبی فرماتے ہیں ۔

قلت : بل وعلى سبعة معهم ، وهم : الأوزاعي ، والثوري ، ومعمر ، وأبو حنيفة ، وشعبة ، والحمادان

اور ابن عیینہ ؒشعبہؒ اور دونوں حماد ؒکے ذکر سے ظاہر بھی ہو گیا کہ علم سے مراد علم حدیث ہی ہے ۔

پھر آپ نے اتناڈھیلا نتیجہ خضر بھائی سے بات کرتے ہوئے کیسے نکالا؟

شاید اس مصلحت سے کہ امام ابوحنیفہؒ سے متعلق ایسی بات کو جنون سے تعبیر کر دیا جاتا ہے ۔
آپ کا تو معلوم نہیں لیکن میں نے اسی لئے اُدھر آپ اور ان کے اصرار کے باوجود مسانید کے بارے میں معلومات نہیں دیں ۔ کیونکہ اُدھر مزاج یہی ہے کہ پھر انہوں نے جرح شروع کردینی تھی ۔اور بلاوجہ امام ابوحنیفہؒ یا فقہا پر پھر تنقید تکرار بحث سے مجھے مناسبت نہیں ۔اور جو صحیح نیت سے بحث نہ کرے اس سے کبھی نہیں کرنی چاہیے ۔
لیکن شاید کچھ مختلف انداز سے کچھ بات کروں گا ۔
صراحت نہیں ہے۔ مخاطب کہہ سکتا ہے کہ امام شافعی کی مراد علم دین ہے جس میں فقہ و حدیث دونوں شامل ہیں۔
ویسے میں وہاں منقول کی بحث نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ کیوں کہ ان حضرات سے کئی مرتبہ بحث کر چکا ہوں۔ منقول و معقول ہر طریقے سے ابو حنیفہؒ کی ذات پر بھی اور احناف کے مسائل پر بھی بحث کی ہے۔
اب تو صرف کبھی کبھی کسی تھریڈ میں کوئی بات کر دیتا ہوں۔ ورنہ وہاں جاری فجر کی سنتوں کے مسئلے میں بھی میں باقاعدہ بحث کر سکتا ہوں۔
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
کہاں پر پڑھا تھا ۔ ؟
کہیں کسی سلفی بھائی نے کہاہوگا۔
کیونکہ جو امام ابوحنیفہ ؒ سے کچھ نرم رویہ رکھے یا کچھ ان کا دفاع کرے ۔ اس کو وہ کہہ دیتے ہیں ۔(مسکراہٹ)
جیسے شیخ شعیب ارناوؤطؒ کو جناب شیخ البانی مرحوم نے حنفی چھوڑ متعصب حنفی کہہ دیا ۔
جو حضرات واقعی حنفی ہوں ۔ ان کی شہرت چھپی نہیں رہتی ۔
شیخ عبد الفتاح ؒ ، شیخ وہبی ؒ ، شیخ نور الدین عتر ۔۔۔اور شیخ محمد عوامہ حنفی علماء ہیں ۔ اور ان کی کتب سلفی علماء و طلباء میں بھی مقبول ہیں ۔
شیخ وهبة الزحیلیؒ ۔۔صاحب فقہ اسلامی وادلۃ۔۔کا تو خود قول میں نہیں پڑھا کہ ۔۔۔لوگ سمجھتے ہیں میں حنفی ہوں حالانکہ میں شافعی ہوں ۔
بعض کو اساتذہ اور فقہ حنفی کی تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے حنفی سمجھا جاتا ہے ۔ شیخ شعیبؒ پر بھی اسی لئے معتدل حضرات کو گمان ہوا ہوگا۔ اور یہی گمان د۔ الطحان پر بھی جاتا ہے ۔
لیکن ان کی کتب پر جو تحقیق کا منہج ہے ۔وہ بالکل دوسری طرز کا ہے ۔
اورتو اور شیخ البانی نے بھی شروع میں فقہ حنفی ہی کی تعلیم حاصل کی ۔
اور شہرت کے اعتبار سے ان کے کسی مشہور شیخ کا مجھے علم نہیں ۔ جب بھی ذکر کیا جاتا ہے ۔ ان کے والد شیخ نوحؒ کی نام ہی سنا ہے جو کہ حنفی عالم تھے ۔
اور ان کے بارے میں تو یہ بحث بھی ہے کہ ان کے اساتذہ کون ہیں ۔ان کی اسانید کیا ہیں ۔؟
اور ایک شیخ راغب طباخؒ کا عام طور پر نام لیا جاتا ہے کہ انہوں نے ان کو اجازت دی ۔شاید اسی لئے ان کی کتب میں ’’میں‘‘ بہت نظر آتی ہے ۔ اور جس کی انہوں نے تعلیم شروع میں اپنے والد سے حاصل کی ۔اس سے نفرت۔
اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے۔
شیخ بشار عواد کافی عرصہ کلیہ امام اعظم بغداد میں استاد رہے ہیں ۔اور تمام مسالک کے علماء کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں ۔
بعض ان کو بھی حنفی سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ بالکل ایسا نہیں ۔
تاریخ اسلامی میں توربشتیؒ ، تفتاذانیؒ ، یا شاہ ولی اللہ ؒ کا بھی مسلک زیربحث رہا ہے ۔
بلکہ ان سے پہلے ائمہ محدثین کا بارے میں بھی بحث مشہور ہے ۔
بعض دکتور حضرات کے مسلک کی تحقیق مشکل ہی ہوتی ہے ۔ ہاں کوئی پکی اطلاع ہو تو پھر ہوسکتا ہے ۔
 
Top