تبلیغی جماعتوں کی جد وجہد اور خالص دعوتی انداز
مغربی تہذیب کے اثر ورسوخ کی وجہ سے پورے عالم عرب میں سادگی م جفا کشی اور سادہ معاشرت تقریبا ختم ہو چکی تھی م بڑے بڑے علماء آرام وآسائش کی زندگی گزارنے لگے تھے ، مغربی تہذیب وتمدن نے زندگی کے ہر ہر گو شہ میں جگہ پکڑ لی تھی ۔اجنبی لوگوں کی آمد ورفت پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ۔ تبلیغی جماعتوں نے جب پہلے پہل کام شروع کیا تو ان کو مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ، اجنبی صورتوں ، اجنبی باتوں اور اجنبی طور طریق کی وجہ سے شروع شروع مقامی لوگ ان سے دور دور رہتے تھے ۔ خدا نے‘‘والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ‘‘کے اصول پر ان جماعت والوں کی مدد کی اور جماعت والوں نے بھی یہ طے کر کے کہ کسی پارٹی یا حکومت سے کسی قسم کا ربط وتعلق یا مقابلہ اور ٹکراؤ نہ کیا جا ئیگا ۔ کسی سے امداد وتعان کا طلب گار نہ ہو ا جائے گا جب بھی کوئی رکاوٹ آئے گی تو حاکم سے سفارش نہ کی جائیگی بلکہ دنیا کے اصول کے خلاف صلوٰۃ الحاجۃ پڑھ پڑھ کر اس خدا سے ما لگا جائیگا جس کے کام کیلئے ان ملکوں کی خاک چھاننے نکلے ہیں ۔ جماعتوں کی نقل وحرکت کے سلسلے میں ہمیشہ مندرجہ با لا اصول وطریقہ کا کو پیش نظر رکھا گیا اور انہی اصولوں پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدانے قدم قدم پر ان کیلئے راہیں کھولیں۔
مولانا محمد عیسیٰ پالنپوری صاحب جنہوں نے عرب میں بہت زیادہ کام کیا اور عرب میں کام کرنے کا بڑا تجربہ رکھتے ہیں ، اپناایک واقعہ بیان فرماتے ہیں۔
ایک جماعت 62ء میں شام گئی تھی جب شام کی سرحد پر پہنچی تو پو لیس نے روک دیا ،جماعت والوں نے اپنے خدا کی طرف رجوع کیا اور صلٰوۃ الحاجۃ پڑھ کر دعائیں کر نے لگے ،اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ بڑی آسانی ہو گئی م جنہوں نے روکا تھا وہ ساتھ دینے لگے اور خلاف تو قع جتنا رکنا تھا اس سے زیادہ رکنا ہوا اور ہر جگہ خوب کام ہوا اور گیارہ آدمیوں کی جماعت بھی نکل کر ہندوستان آئی۔
‘‘تبلیغی احباب اپنے غیر ملکی سفر عموما حرمین سے شروع کرتے تھے ۔خواہ وہ ممالک عرب کے ہوں یا یورپ وغیرہ کے ۔ خصوصا مدینہ طیبہ سے روانگی ہو تی تھی جس میں باطنی بر کات کے علاوہ ظاہری مصالح با الخصوص کرنسی وغیرہ کی مشکلات سے ایک حد تک امن تھا ۔اس کے ساتھ ہی ایک سہولت اس میں منجاب اللہ یہ ہوتی تھی کہ حج کے موقع پر چونکہ اطرافِ عالم کے لوگ شریک ہوتے تھے اور لوگ اس کام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اس لئے ان میں اس کام کے جذبات پیدا ہوتے تھے اوروہ جانے والوں کے لئے فی الجملہ معین بنتے تھے ،اس سب کے با وجود جماعت کو اس مبارک کام کے اندر جو مجاہدے اختیار کرنے پڑتے تھے ۔مثلا پیدل چلنا ، چنوں اور کھجور پر کبھی گز ر کرنا ۔ یہ چیزیں آنے والی تھیں اور آئیں لیکن اس کے ساتھ اللہ کی جانب سے جو کھلی ہوئی مددیں ہر ہرموقع پر ہوتی رہتی تھیں اس کی تفاصیل اس جماعت کے اکابر ہمیشہ تذکروں میں لانے سے بچتے رہے بلکہ روکتے رہے ۔اس کے ساتھ ہی سیکڑوں کے واقعات ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خواب میں اس جماعت کی خبر گیری کا حغکم فر ما یا گیا ہے کہ ‘‘ میری جماعت آرہی ہے اس کی دعوت کر نی ہے ‘‘
اس سلسلے میں سرف دو واقعات ذکر کئے جاتے ہیں
(1) حماۃ ،ہً ایک جماعت گئی ہوئی تھی وہاں پر ایک عرب ساحب نے رات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ بہت ہی بے قراری کے ساتھ عربوں سے فر مارہے ہیں کہ یہ لوگ میرا کام کر رہے ہیں تم ان کے ساتھ لگو ۔اس خواب کے بعد مقامی لوگ اس کام میں ہمہ تن مشغول ہو گئے‘‘۔
(2)‘‘اسی طریقہ سے حماۃ میں جماعت کام کر رہی تھی ،ایک بڑی پارسا اور بزرگ عورت جو دن میں کئی ہزار بار درود شریف پڑھتی تھیں اس نے جماعت کی دعوت کی ۔جماعت نے حاجی محمود رواس مشورہ کیا ۔انہوں نے کہا اس خاتون کی دعوت ضرور قبول کرنا چاہئے ۔یہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ کی اولاد میں سے ہیں اور بہت بزرگ خاتون ہیں ۔جب جماعت اس بزرگ خاتون کے مکان پر پہمچی تو اس نے پوچھا کہ تم میں کوئی عربی جاننے والا ہے ،لوگوں نے مولانا عیسیٰ صاحب پالنپوری کی طرف اشارہ کیا اس نے پردہ کے پیچھے سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تہماری دعوت کیوں کی ؟ نہ تم سے میری کوئی جان ہے نہ پہچان ،اصل میں بات یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان سے ایک تاج اترا ہے اورایک ہندوستانی کے سر پر رکھا گیا ہے ۔میں نے دعوت اس لئے کی کہ دیکھوں وہ آدمی تم سے ہے یا نہیں ۔ وہ تم میں نہیں ہے اس کی صورت مجھے یاد ہے ۔(سوانح مولانا یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ )