( مولانا مشتاق احمد چنیوٹی )
آغا شورش کاشمیری قلم سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کے حق میں تھے۔ وہ قلم کو قوم کی امانت خیال کرتے تھے اور اپنی تمام تر نوانائیاں قلم کے ذریعہ مخلوق کو اٹھانے جگانے، بڑھانے اور چلانے میں صرف کرنا چاہتے تھے۔
ان کو، انسان کو طبقاتی نرغہ میں لینے والی قوتوں اور انسانی غلامی کی زنجیروں کو مضبوط کرنے والے عقیدوں سے نفرت تھی۔ وہ اردو زبان سے ایسے تمام الفاظ نکال دینا چاہتے تھے، جن سے بوئے سلطانی آتی ہے۔ جو انسان کو انسان کی دہلیز پر جھکاتے ہیں۔ جن کا منشا و مفہوم انسانی دماغوں میں انسانوں کی اطاعت پیدا کرنا ہے۔
ان کو یقین تھا کہ طبقاتی ادب، طبقاتی امثال، طبقاتی لہجہ ، طبقاتی مطالب اور طبقاتی محاوروں نے ہمارے معاشرہ کو اس کی موجودہ نکبت پر قانع رہنے کی عادت ڈالی ہے۔ اور اب ان سے قلم و زبان کی مسلسل بغاوت ہی نجات دلا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو بڑی وسیع زبان ہے لیکن مجھے اس کے دامن کی اس ویرانی پر صدمہ ہوتا ہے کہ اس میں بے جا طاعت اور بے جا خوشامد کے الفاظ کی بھرمار ہے۔ اس میں علم کے الفاظ کم اور قصیدوں کے الفاظ زیادہ ہیں۔
وہ چشم بصیرت واکیے ہوئے ادیبوں اور صحافیوں کے حالات دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر ہر تھیلی کے چٹے کا بٹا ہیں۔ سرکاری اداروں کے کاسہ لیسی اور نام و نمود کے طالب ہیں۔ ادب کی خدمت سے زیادہ ادبی دھڑے بندیوں پر ان کی قوتیں صرف ہو رہی ہیں۔ عہدے اور مرتبے ان کی منزل مقصود ہیں۔ چنانچہ اپنی ایک نظم بعنوان ’’ہم اہل قلم کیا ہیں؟‘‘ میں آغا صاحب ایسے صحافیوں پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الفاظ کا جھگڑا ہیں ، بے جوڑ سراپا ہیں
بجتا ہوا ڈنکا ہیں ، ہر دیگ کا چمچا ہیں
ہم اہل قلم کیا ہیں
مشہور صحافی ہیں ، عنوان معافی ہیں
شاہانہ قصیدوں کے بے ربط قوافی ہے
ہم اہل قلم کیا ہیں یہ شکل یہ صورت ہے ، سینوں میں کدورت ہے
آنکھوں میں حیا کیسی ، پیسے کی ضرورت ہے
ہم اہل قلم کیا ہیں
تابع ہیں وزیروں کے ، خادم ہیں امیروں کے
قاتل ہیں اسیروں کے ، دشمن ہیں فقیروں کے
ہم اہل قلم کیا ہیں
اوصاف سے عاری ہیں ، نوری ہیں نہ ناری ہیں
طاقت کے پجاری ہیں ، لفظوں کے مداری ہیں
ہم اہل قلم کیا ہیں
ان حالات کے پیش نظر آغا صاحب نے دور حاضر کے سقراط کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے کہا:
’’میں نے اپنے قلم کو حرکت و بیداری کے لیے وقف کر دیا ہے۔ میں عوام کے قصیدے لکھوں گا اور خواص پر طنز کروں گا۔ خواہ مجھے کوئی سی قیمت ادا کرنی پڑے۔ آج پاکستانی ادب کو ایک روسو اور والیٹر کی ضرورت ہے۔ انقلاب ہو تو والیٹر کی تحریروں پر پاکستانی بزر چمہروں کی کھال کھنچوا کر جلد بند ی کی جا سکے۔ یہی میرا مطمح نظر ہے۔‘‘
ہفت روزہ چٹان کے پہلے شمارہ میں انھوں نے لکھا:
’’بحمد اللہ چٹان کی پشت پر کسی سرمایہ دار کا بوجھ نہیں، اب سوچ کا دائرہ یہ ہے کہ چٹان کی آواز کہاں تک گونجتی ہے۔ اصل مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کے اندر جو اضطراب پایا جاتا ہے۔ وہ کیوں ہے؟ اور اس سے نکلنے کی صورت کیا ہے؟
بعض افراد اور کچھ اخبار اس بحث کو طول دینے کے لیے خیال سے بحث و نظر کی بہت سی شاخیں پھیلا دیتے ہیں۔ لیکن چٹان اور اس کا بنیادی ادارہ اس ایک بنیادی حصہ سے ادھر ادھر ہٹنا اور بھٹکنا نہیں چاہتا کہ وہ سماج کی علیل روح کا ایک معالج اور معاشرے کے فاسد خیالات کا مصلح بننے کی آرزو رکھتا ہے۔
اس کی طنز میں اگر شدت ہو گی تو محض اس لیے کہ خود سماج میں ہر شے طنز بن چکی ہے۔ فطرت سے لے کر انسان تک اداس ہیں۔ ہر چہرہ غمگینی کے تاثر میں ڈوبا ہوا ہے اور جن لوگوں نے خدا کے خزانے سے احساس کی شدت پائی ہے وہ اپنے گرد و پیش پر مسلسل سوچتے ہیں۔
چٹان افادی ادب کی بے لوث آواز ہے اور تعمیری سیاست کی بے خوف صدا ہے۔ میں نے اس کے مضامین کواپنی رگوں کے لہو کی ایک ایک بوند سے رنگین بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
لختے برد ازد دل گزر دہر کہ زپیشم
من قاش فروش دل صد پارہ خوشیم
(چٹان۔ یکم جنوری ۱۹۴۹ء)
۲۔ چٹان جب نکلا تھا تو اس کے سامنے ایک واضح نصب العین تھا۔ بحمدللہ اس نے اپنے مقاصد کا ایک سفر طے کیا اور چمکتا دمکتا بلکہ گونجتا، گرجتا اور برستا رہا ،اس نے اپنے سفر میں کمی نہیں کی اور نہ منزل سے بھٹکنا گوارا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سفر میں اس کو نہ صرف اپنے تلوے سہلانے پڑے بلکہ اس وادی پر خار کو اپنی آبلہ پائی سے بھی نوازتا رہا۔
چٹان کو اپنی کوتاہیوں کا اعتراف ہے۔ وہ بہرحال انسانوں ہی کا ایک ادارہ ہے اور انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہم نے جو غلطیاں کی ہیں، وہ بشری غلطیاں تھیں اور کوئی سا شخص بھی خطاؤں سے بچ نہیں سکتا۔ مگر جو کچھ کیا اور جو کچھ لکھا، اس میں تمام کوتاہیوں کے باوجود ہمارا اخلاص شامل رہا۔ ہم اسے اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے دامن قلم کو بازار کی خرید و فروخت سے آلودہ نہیں کیا۔ غلط لکھا یا صحیح لکھا، اپنے ضمیر کی آواز پر لکھا اور آج ہم فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکتے ہیں کہ چٹان نے بجا طور پر پاکستان میں بعض خاص روایتیں قائم کی ہیں۔ مثلاً
۱۔ چٹان نے ہفتہ وار صحافت میں اپنا ایک خاص مقام اور منفرد فکر پیدا کیا ہے۔
۲۔ چٹان نے ہفتہ وار صحافت کو پرانی آلوگیوں سے مصفا و منزہ کیا ہے۔
۳۔ چٹان نے حق گوئی و بے باکی کی خصوصیتوں کو اجالا ہے۔
۴۔ چٹان ہمیشہ کلمۃ الحق کا داعی رہا ہے۔
۵۔ چٹان جمہوریت کے نشو و فروغ کا حامی اور اسلامی اقدار کا نعرہ زن رہا ہے۔
۶۔ چٹان نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا اور ظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
۷۔ چٹان نے کبھی تجارت کو اپنا معیار یا مؤقف نہیں بنایا بلکہ اس کا مؤقف و معیار ہمیشہ خیالات و افکار کی دعوت و تبلیغ رہا ہے۔
۸۔ چٹان (بحمد اللہ) اپنے دامن عمر پر کوئی دھبہ ایسا نہیں پاتا، جس کی اس کے ضمیر میں خلش ہو اور اللہ کے دربار میں رسوائی۔
۹۔ چٹان اپنے طرز کا واحد اخبار ہے جس نے تصویروں پر تحریروں کو ترجیح دی ہے۔
۱۰۔ چٹان اسلام، انسان، پاکستان اور دین کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہے۔
۱۱۔ چٹان کسی کا دشمن نہیں صرف ان نظریوں اور ان کے داعیوں کا دشمن ہے جو ملک و قوم اور قرآن و اسلام کے خلاف بزعم خویش نبرد آزما ہوتے ہیں اور انہی مقاصد کے ساتھ چٹان آج اپنی زندگی کے سولہویں سال میں قدم رکھ رہا ہے اور یہ سب پروردگار عالم کی عنایات بے پایاں کا فضل و کرم ہے۔ (چٹان ۳۱، دسمبر ۱۹۶۲ء)
۳۔ یہ کہنا کہ اخبار نویس کے عقیدے اور اخبارنویس کے قلم میں فرق ہو سکتا ہے۔ عقیدہ کا تعلق ذات سے ہے اور قلم روزی کا وسیلہ ہے، ایک خوفناک جسارت ہے۔ جس کی تائید میں کوئی سند پیش نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ ضمیر کی اس جانکنی کا جواز ہی نہیں ہے۔
ہر چیز پیشہ کی نہیں ہوتی۔ جو شخص قلم کی عظمت کو محسوس نہیں کرتا کہ اس کا درجہ کیا ہے، وہ اس بیسوا کی طرح ہے جس نے اپنی آبرو بولی کے لیے رکھ دی ہو کہ قیمت دو اور لے جاؤ۔ قدرت نے ہر چیز اور خوبی فروخت کے لیے نہیں دی۔ جس طرح ماں کی محبت، دل کا عشق، ایمان کا ولولہ، بیٹی کی عصمت، خرید و فروخت کی چیز نہیں اور نہ انھیں خرافاتی منطق سے خرد برد کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کا قلم ہے جن سے دعوت و تذکیر اور غور و فکر کی راہیں کھلتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے دعوت و تذکیر کی راہ اختیار کی وہ ہمیشہ درویشوں کی سی زندگی بسر کرتے رہے۔ کہ ضرورت ان کی حاجت مندوں کی سی ہوتی ہے اور چہرہ بے نیازوں کا۔ چٹان بھی اسی قبیلہ کا فرد ہے جس کے افراد انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جب تک رگوں میں خون ہے، اس چراغ کو جلاتے رہیں گے، جب خون نہ رہا تو کشکول اٹھانے کی بہ نسبت اس کو بند کر دینا ہی ہمارے لیے زیادہ عزت مندانہ طریق ہو گا۔ (چٹان، ۲۳؍جنوری۱۹۶۷ء)
ضمیر کا اطمینان:
مجھے پاکستان اور اس کے عوام سے بے پناہ محبت ہے۔ میں ان کی آزادی اور آبرو کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ اسی غرض سے قلم و زبان کو استعمال کیا ہے۔ میں غلطی کر سکتا ہوں لیکن دو چیزیں میری فطرت سے خارج ہیں۔ اولاً میں قلم کو ہمیشہ ضمیر کی آواز پر اٹھاتا ہوں لہٰذا کسی لفظ پر اس لحاظ سے ندامت نہیں ہوتی کہ اس میں کوئی مخفی اشارہ ہے یا اس میں کسی اور کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ ثانیاً کسی ماں نے آج تک وہ بچہ ہی نہیں جنا جو میرے قلم و زبان کو خرید سکے۔ میرے نزدیک قلم فروشی عصمت فروشی سے کم نہیں۔ بلکہ اس سے بھی فروتر ہے۔
قدرت نے قلم اس لیے نہیں دیا کہ بیچا جائے۔ اس سے بہتر ہے کہ ہاتھ شل ہو جائیں۔ زبان اس لیے نہیں بخشی کہ مرہون غیر ہو۔ ایسی زبان پر فالج گر جائے تو خدا کا احسان ہے۔
وہ لوگ جو قلم کا کاروبا کرتے ہیں۔ میں انھیں شرالداوب عند اللہ سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک ایسے تمام ادیب، شاعر، صحافی، واعظ، مقرر اور خطیب بالا خانوں کی مخلوق ہیں جنھوں نے جوہر قلم اور زبان کو بازار کی جنس بنا دیا ہے اور جن کا خیال ہے کہ انھیں درباروں کی چوکھٹ پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں اسی کا نام عبرت ہے۔
چٹان کا منشا و مقصد:
چٹان یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو نکلا تھا۔ شروع سال ۱۹۴۹ء سے باقاعدہ ہو گیا آج اس کو ۱۹ سال ہوئے ہیں۔ اسپہلی تاریخ سے اس کا بیسواں سال شروع ہو چکا ہے۔ پہلے دن بھی اس کا طرہ امتیاز یہی تھا کہ جس بات کو حق سمجھو اس کو بے کم و کاست کہہ ڈالو۔ آج بھی اس کا شیوہ امتیاز یہ ہے کہ حق کا ساتھ دو، خواہ وہ مسجد کے فرش پر ہو یا میکدہ کی چوکھٹ پر۔ ہم اجتماعی طور پر ذاتی حیثیت سے جو محسوس کرتے ہیں، وہ حوالہ قلم کرتے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ کلمۃ الحق کی پشتبانی ہو۔ اس کے لیے ہم نے ماضی مرحوم سے لے کر اب تک بے شمار صعوبتیں اٹھائی ہیں اور جو کچھ حاصل کیا وہ قوت بازو سے حاصل کیا۔ اس پر کسی دوسرے کے انعام و احسان کی مہر نہیں لگی ہوئی۔ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم شریک حال رہا ہے۔ چٹان کسی تنظیم کا پرچہ نہیں۔ نہ مستعمل معنوں میں وہ کسی مکتب خیال کا نمائندہ ہے۔ یا اس کے حلقہ بگوشوں میں ہے۔
وہ ایک آزاد خیال ہفتہ وار ہے جس کا دل لوگوں کے دلوں کی اجتماعی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اس کا ہمیشہ ہی یہ شعار رہا ہے کہ سیاسی مجاوروں، ادبی نٹ کھٹوں، شرعی جیب تراشوں اور مجلسی لقندروں کا پردہ چاک کیا جائے۔ قیمت اس کی خواہ کچھ بھی ادا کرنی پڑے۔ جب تک ان لوگوں کا وجود باقی ہے اور چٹان بفضل تعالیٰ زندہ ہے، سیاسی عجائب گھروں کی مورتیوں، ادبی بت کدوں کے کھلونوں، منبر و محراب کے آوارہ مصروعوں، مجلسی اور بازار کے مہنتوں کی باز پرس جاری رہے گی۔ بقول جوش
اہل دنیا کون ہیں ؟ ان کا اثر کیا چیز ہے ؟
ہم خدا سے ناز کرتے ہیں ، بشر کیا چیز ہے ؟
بالفاظ دیگر
ٹوٹ تو سکتے ہیں لیکن ہم لچک سکتے نہیں
جس دن چٹان نہ رہا اور اس کے ایڈیٹر کا سفر دنیا پورا ہو گیا اس دن یہ تعاقب بھی ختم ہو جائے گا۔ اللہ کی کائنات کسی انسان کی بھی محتاج نہیں۔ لوگ اپنا اپنا سفر پورا کر کے دار البقا کو پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں ہر شخص یکساں ہے اور اپنے اعمال و افکار کے لیے جوابدہ ۔ البتہ ان کی جواب دہی ذرا زیادہ سخت ہو گی جو مخلوق خدا کے اجارہ دار تھے لیکن مخلوق خدا ہی کی تجارت کرتے رہے۔
عرض حال:
شاید یہ چیز انمل، بے جوڑ ہو لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ میری گرفتاری کے دو پہلو تھے۔ اوّلاً حکومت نے محسوس کیا اور پکڑ لیا۔ مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں۔ حکومتیں یہی کیا کرتی ہیں۔ جو شخص اس پر نکتہ چینی کرتا ہے اس کو آزمائش کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن اس قسم کے حادثوں میں جو لوگ اعزازی طور پر شریک ہوتے اور سرکار کے دسترخوان سے نوالے توڑتے ہیں۔ افسوس کہ میرا قلم انھیں کبھی معاف نہیں کر سکتا۔
یا ان کا گریباں چاک یا اپنا گریباں چاک
ان دوست نما مخبروں، خطابت فروش مغبچوں اور انجام نا آشنا خرقہ پوشوں کے مکروہ چہروں سے نقابیں اتاری ہیجائیں گی۔ ان کے نیزوں کی انی توڑی جائے گی اور ان کے خنجروں کو دو لخت کر دیا جائے گا تا کہ یہ سیاسی یتیم خانے سے پرورش نہ پا سکیں۔ (ہفت روزہ چٹان، ۱۶؍ جنوری ۱۹۶۷ء)
آغا صاحب نے متذکرہ بالا نظریات کی بنیاد پر گراں قدر صحافتی خدمات سرانجام دیں۔
۱۔ حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں پر مسلسل کلمہ حق کہتے رہے۔ کلمہ حق کی پاداش میں انھیں متعدد بار قید و بند اور ہفت روزہ چٹان کی بندش جیسے صدمات سہنے پڑے۔ لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ان کا بجا طور پر یہ دعویٰ تھا کہ
اور میں آج بھی اس دورِ ستم پیشہ میں
کج کلاہوں کی رعونت سے الجھ سکتا ہوں میں
ڈال سکتا ہوں مہہ و مہر کے سینے پہ خراش
برق و بارارں کی خشونت سے الجھ سکتا ہوں میں
۲۔ ہفت روزہ چٹان میں قادیانیت کی وطن اور اسلام دشمنی کا مکمل جرأت ایمانی کے ساتھ تعاقب کیا۔
۳۔ اسلام میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش کے خلاف نبرد آزما رہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے علمائے کرام کو بھی جھنجھوڑا اور انھیں حضرت امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ کا اسوۂ حسنہ یاد دلاتے رہے۔ انھوں نے علمائے سوء کو للکارتے ہوئے کہا
پھر یہ نہ شکایت ہو کہ گستاخ ہے شورش
جب میں نے قباؤں کو ادھیڑا کہ اتارا
۴۔ چٹان کے ذریعے انھوں نے علم و ادب کی بے پناہ خدمت کی۔ قلم قتلے، قلم پارے، گر تو برا نہ مانے، گفتنی نا گفتنی، غریبِ شہر، سخن ہائے گفتنی دار دو غیرہ عنوانات کے تحت ادبی کالم لکھتے رہے۔ ان کالموں میں ادبی نوادرات کا اتنا بڑا ذخریرہ موجود ہے کہ باید و شاید۔
ذکر اس پری وش کا اور پھر اندازِ بیاں اپنا
یہ ادبی کالم آغا صاحب کے ادبی کمالات کا نقطہ معراج ہیں۔ اکثر و بیشتر ہر شمارہ میں کئی کئی کالم لکھتے تھے۔ اور کوئی کالم اپنے اعلیٰ معیار سے گرا ہوا نہ ہوتا تھا۔
۵۔ وہ اپنے رسالہ میں دیگر اہلِ علم کے علمی، تاریخی، ادبی اور سائنسی مضامین بھی شائع کرتے رہے جو کہ علم و ادب کی ایک مستقل اور گراں قدر خدمات ہے۔
۶۔ آغا صاحب نے اہم ادبی، سیاسی، صحافتی اور سماجی شخصیات کی یاد میں مضامین لکھ کر تاریخ کا اہم حصہ محفوظ کر دیا۔
یہ چند امور مشتے از خروارے کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔ ورنہ تفصیلات تو ایک مستقل کتاب کی متقاضی ہیں۔
بشکریہ
ماہنامہ نقیب ختم نبوت
آغا شورش کاشمیری قلم سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کے حق میں تھے۔ وہ قلم کو قوم کی امانت خیال کرتے تھے اور اپنی تمام تر نوانائیاں قلم کے ذریعہ مخلوق کو اٹھانے جگانے، بڑھانے اور چلانے میں صرف کرنا چاہتے تھے۔
ان کو، انسان کو طبقاتی نرغہ میں لینے والی قوتوں اور انسانی غلامی کی زنجیروں کو مضبوط کرنے والے عقیدوں سے نفرت تھی۔ وہ اردو زبان سے ایسے تمام الفاظ نکال دینا چاہتے تھے، جن سے بوئے سلطانی آتی ہے۔ جو انسان کو انسان کی دہلیز پر جھکاتے ہیں۔ جن کا منشا و مفہوم انسانی دماغوں میں انسانوں کی اطاعت پیدا کرنا ہے۔
ان کو یقین تھا کہ طبقاتی ادب، طبقاتی امثال، طبقاتی لہجہ ، طبقاتی مطالب اور طبقاتی محاوروں نے ہمارے معاشرہ کو اس کی موجودہ نکبت پر قانع رہنے کی عادت ڈالی ہے۔ اور اب ان سے قلم و زبان کی مسلسل بغاوت ہی نجات دلا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اردو بڑی وسیع زبان ہے لیکن مجھے اس کے دامن کی اس ویرانی پر صدمہ ہوتا ہے کہ اس میں بے جا طاعت اور بے جا خوشامد کے الفاظ کی بھرمار ہے۔ اس میں علم کے الفاظ کم اور قصیدوں کے الفاظ زیادہ ہیں۔
وہ چشم بصیرت واکیے ہوئے ادیبوں اور صحافیوں کے حالات دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے بیشتر ہر تھیلی کے چٹے کا بٹا ہیں۔ سرکاری اداروں کے کاسہ لیسی اور نام و نمود کے طالب ہیں۔ ادب کی خدمت سے زیادہ ادبی دھڑے بندیوں پر ان کی قوتیں صرف ہو رہی ہیں۔ عہدے اور مرتبے ان کی منزل مقصود ہیں۔ چنانچہ اپنی ایک نظم بعنوان ’’ہم اہل قلم کیا ہیں؟‘‘ میں آغا صاحب ایسے صحافیوں پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الفاظ کا جھگڑا ہیں ، بے جوڑ سراپا ہیں
بجتا ہوا ڈنکا ہیں ، ہر دیگ کا چمچا ہیں
ہم اہل قلم کیا ہیں
مشہور صحافی ہیں ، عنوان معافی ہیں
شاہانہ قصیدوں کے بے ربط قوافی ہے
ہم اہل قلم کیا ہیں یہ شکل یہ صورت ہے ، سینوں میں کدورت ہے
آنکھوں میں حیا کیسی ، پیسے کی ضرورت ہے
ہم اہل قلم کیا ہیں
تابع ہیں وزیروں کے ، خادم ہیں امیروں کے
قاتل ہیں اسیروں کے ، دشمن ہیں فقیروں کے
ہم اہل قلم کیا ہیں
اوصاف سے عاری ہیں ، نوری ہیں نہ ناری ہیں
طاقت کے پجاری ہیں ، لفظوں کے مداری ہیں
ہم اہل قلم کیا ہیں
ان حالات کے پیش نظر آغا صاحب نے دور حاضر کے سقراط کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے کہا:
’’میں نے اپنے قلم کو حرکت و بیداری کے لیے وقف کر دیا ہے۔ میں عوام کے قصیدے لکھوں گا اور خواص پر طنز کروں گا۔ خواہ مجھے کوئی سی قیمت ادا کرنی پڑے۔ آج پاکستانی ادب کو ایک روسو اور والیٹر کی ضرورت ہے۔ انقلاب ہو تو والیٹر کی تحریروں پر پاکستانی بزر چمہروں کی کھال کھنچوا کر جلد بند ی کی جا سکے۔ یہی میرا مطمح نظر ہے۔‘‘
ہفت روزہ چٹان کے پہلے شمارہ میں انھوں نے لکھا:
’’بحمد اللہ چٹان کی پشت پر کسی سرمایہ دار کا بوجھ نہیں، اب سوچ کا دائرہ یہ ہے کہ چٹان کی آواز کہاں تک گونجتی ہے۔ اصل مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں انسانوں کے اندر جو اضطراب پایا جاتا ہے۔ وہ کیوں ہے؟ اور اس سے نکلنے کی صورت کیا ہے؟
بعض افراد اور کچھ اخبار اس بحث کو طول دینے کے لیے خیال سے بحث و نظر کی بہت سی شاخیں پھیلا دیتے ہیں۔ لیکن چٹان اور اس کا بنیادی ادارہ اس ایک بنیادی حصہ سے ادھر ادھر ہٹنا اور بھٹکنا نہیں چاہتا کہ وہ سماج کی علیل روح کا ایک معالج اور معاشرے کے فاسد خیالات کا مصلح بننے کی آرزو رکھتا ہے۔
اس کی طنز میں اگر شدت ہو گی تو محض اس لیے کہ خود سماج میں ہر شے طنز بن چکی ہے۔ فطرت سے لے کر انسان تک اداس ہیں۔ ہر چہرہ غمگینی کے تاثر میں ڈوبا ہوا ہے اور جن لوگوں نے خدا کے خزانے سے احساس کی شدت پائی ہے وہ اپنے گرد و پیش پر مسلسل سوچتے ہیں۔
چٹان افادی ادب کی بے لوث آواز ہے اور تعمیری سیاست کی بے خوف صدا ہے۔ میں نے اس کے مضامین کواپنی رگوں کے لہو کی ایک ایک بوند سے رنگین بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
لختے برد ازد دل گزر دہر کہ زپیشم
من قاش فروش دل صد پارہ خوشیم
(چٹان۔ یکم جنوری ۱۹۴۹ء)
۲۔ چٹان جب نکلا تھا تو اس کے سامنے ایک واضح نصب العین تھا۔ بحمدللہ اس نے اپنے مقاصد کا ایک سفر طے کیا اور چمکتا دمکتا بلکہ گونجتا، گرجتا اور برستا رہا ،اس نے اپنے سفر میں کمی نہیں کی اور نہ منزل سے بھٹکنا گوارا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سفر میں اس کو نہ صرف اپنے تلوے سہلانے پڑے بلکہ اس وادی پر خار کو اپنی آبلہ پائی سے بھی نوازتا رہا۔
چٹان کو اپنی کوتاہیوں کا اعتراف ہے۔ وہ بہرحال انسانوں ہی کا ایک ادارہ ہے اور انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہم نے جو غلطیاں کی ہیں، وہ بشری غلطیاں تھیں اور کوئی سا شخص بھی خطاؤں سے بچ نہیں سکتا۔ مگر جو کچھ کیا اور جو کچھ لکھا، اس میں تمام کوتاہیوں کے باوجود ہمارا اخلاص شامل رہا۔ ہم اسے اپنی خوش بختی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے دامن قلم کو بازار کی خرید و فروخت سے آلودہ نہیں کیا۔ غلط لکھا یا صحیح لکھا، اپنے ضمیر کی آواز پر لکھا اور آج ہم فخر سے سر اٹھا کر کہہ سکتے ہیں کہ چٹان نے بجا طور پر پاکستان میں بعض خاص روایتیں قائم کی ہیں۔ مثلاً
۱۔ چٹان نے ہفتہ وار صحافت میں اپنا ایک خاص مقام اور منفرد فکر پیدا کیا ہے۔
۲۔ چٹان نے ہفتہ وار صحافت کو پرانی آلوگیوں سے مصفا و منزہ کیا ہے۔
۳۔ چٹان نے حق گوئی و بے باکی کی خصوصیتوں کو اجالا ہے۔
۴۔ چٹان ہمیشہ کلمۃ الحق کا داعی رہا ہے۔
۵۔ چٹان جمہوریت کے نشو و فروغ کا حامی اور اسلامی اقدار کا نعرہ زن رہا ہے۔
۶۔ چٹان نے ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیا اور ظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
۷۔ چٹان نے کبھی تجارت کو اپنا معیار یا مؤقف نہیں بنایا بلکہ اس کا مؤقف و معیار ہمیشہ خیالات و افکار کی دعوت و تبلیغ رہا ہے۔
۸۔ چٹان (بحمد اللہ) اپنے دامن عمر پر کوئی دھبہ ایسا نہیں پاتا، جس کی اس کے ضمیر میں خلش ہو اور اللہ کے دربار میں رسوائی۔
۹۔ چٹان اپنے طرز کا واحد اخبار ہے جس نے تصویروں پر تحریروں کو ترجیح دی ہے۔
۱۰۔ چٹان اسلام، انسان، پاکستان اور دین کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہے۔
۱۱۔ چٹان کسی کا دشمن نہیں صرف ان نظریوں اور ان کے داعیوں کا دشمن ہے جو ملک و قوم اور قرآن و اسلام کے خلاف بزعم خویش نبرد آزما ہوتے ہیں اور انہی مقاصد کے ساتھ چٹان آج اپنی زندگی کے سولہویں سال میں قدم رکھ رہا ہے اور یہ سب پروردگار عالم کی عنایات بے پایاں کا فضل و کرم ہے۔ (چٹان ۳۱، دسمبر ۱۹۶۲ء)
۳۔ یہ کہنا کہ اخبار نویس کے عقیدے اور اخبارنویس کے قلم میں فرق ہو سکتا ہے۔ عقیدہ کا تعلق ذات سے ہے اور قلم روزی کا وسیلہ ہے، ایک خوفناک جسارت ہے۔ جس کی تائید میں کوئی سند پیش نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ ضمیر کی اس جانکنی کا جواز ہی نہیں ہے۔
ہر چیز پیشہ کی نہیں ہوتی۔ جو شخص قلم کی عظمت کو محسوس نہیں کرتا کہ اس کا درجہ کیا ہے، وہ اس بیسوا کی طرح ہے جس نے اپنی آبرو بولی کے لیے رکھ دی ہو کہ قیمت دو اور لے جاؤ۔ قدرت نے ہر چیز اور خوبی فروخت کے لیے نہیں دی۔ جس طرح ماں کی محبت، دل کا عشق، ایمان کا ولولہ، بیٹی کی عصمت، خرید و فروخت کی چیز نہیں اور نہ انھیں خرافاتی منطق سے خرد برد کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کا قلم ہے جن سے دعوت و تذکیر اور غور و فکر کی راہیں کھلتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے دعوت و تذکیر کی راہ اختیار کی وہ ہمیشہ درویشوں کی سی زندگی بسر کرتے رہے۔ کہ ضرورت ان کی حاجت مندوں کی سی ہوتی ہے اور چہرہ بے نیازوں کا۔ چٹان بھی اسی قبیلہ کا فرد ہے جس کے افراد انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جب تک رگوں میں خون ہے، اس چراغ کو جلاتے رہیں گے، جب خون نہ رہا تو کشکول اٹھانے کی بہ نسبت اس کو بند کر دینا ہی ہمارے لیے زیادہ عزت مندانہ طریق ہو گا۔ (چٹان، ۲۳؍جنوری۱۹۶۷ء)
ضمیر کا اطمینان:
مجھے پاکستان اور اس کے عوام سے بے پناہ محبت ہے۔ میں ان کی آزادی اور آبرو کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی سمجھتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ اسی غرض سے قلم و زبان کو استعمال کیا ہے۔ میں غلطی کر سکتا ہوں لیکن دو چیزیں میری فطرت سے خارج ہیں۔ اولاً میں قلم کو ہمیشہ ضمیر کی آواز پر اٹھاتا ہوں لہٰذا کسی لفظ پر اس لحاظ سے ندامت نہیں ہوتی کہ اس میں کوئی مخفی اشارہ ہے یا اس میں کسی اور کی چھاپ لگی ہوئی ہے۔ ثانیاً کسی ماں نے آج تک وہ بچہ ہی نہیں جنا جو میرے قلم و زبان کو خرید سکے۔ میرے نزدیک قلم فروشی عصمت فروشی سے کم نہیں۔ بلکہ اس سے بھی فروتر ہے۔
قدرت نے قلم اس لیے نہیں دیا کہ بیچا جائے۔ اس سے بہتر ہے کہ ہاتھ شل ہو جائیں۔ زبان اس لیے نہیں بخشی کہ مرہون غیر ہو۔ ایسی زبان پر فالج گر جائے تو خدا کا احسان ہے۔
وہ لوگ جو قلم کا کاروبا کرتے ہیں۔ میں انھیں شرالداوب عند اللہ سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک ایسے تمام ادیب، شاعر، صحافی، واعظ، مقرر اور خطیب بالا خانوں کی مخلوق ہیں جنھوں نے جوہر قلم اور زبان کو بازار کی جنس بنا دیا ہے اور جن کا خیال ہے کہ انھیں درباروں کی چوکھٹ پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں اسی کا نام عبرت ہے۔
چٹان کا منشا و مقصد:
چٹان یکم جنوری ۱۹۴۸ء کو نکلا تھا۔ شروع سال ۱۹۴۹ء سے باقاعدہ ہو گیا آج اس کو ۱۹ سال ہوئے ہیں۔ اسپہلی تاریخ سے اس کا بیسواں سال شروع ہو چکا ہے۔ پہلے دن بھی اس کا طرہ امتیاز یہی تھا کہ جس بات کو حق سمجھو اس کو بے کم و کاست کہہ ڈالو۔ آج بھی اس کا شیوہ امتیاز یہ ہے کہ حق کا ساتھ دو، خواہ وہ مسجد کے فرش پر ہو یا میکدہ کی چوکھٹ پر۔ ہم اجتماعی طور پر ذاتی حیثیت سے جو محسوس کرتے ہیں، وہ حوالہ قلم کرتے ہیں۔ کوشش یہی ہے کہ کلمۃ الحق کی پشتبانی ہو۔ اس کے لیے ہم نے ماضی مرحوم سے لے کر اب تک بے شمار صعوبتیں اٹھائی ہیں اور جو کچھ حاصل کیا وہ قوت بازو سے حاصل کیا۔ اس پر کسی دوسرے کے انعام و احسان کی مہر نہیں لگی ہوئی۔ صرف اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم شریک حال رہا ہے۔ چٹان کسی تنظیم کا پرچہ نہیں۔ نہ مستعمل معنوں میں وہ کسی مکتب خیال کا نمائندہ ہے۔ یا اس کے حلقہ بگوشوں میں ہے۔
وہ ایک آزاد خیال ہفتہ وار ہے جس کا دل لوگوں کے دلوں کی اجتماعی دھڑکنوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ اس کا ہمیشہ ہی یہ شعار رہا ہے کہ سیاسی مجاوروں، ادبی نٹ کھٹوں، شرعی جیب تراشوں اور مجلسی لقندروں کا پردہ چاک کیا جائے۔ قیمت اس کی خواہ کچھ بھی ادا کرنی پڑے۔ جب تک ان لوگوں کا وجود باقی ہے اور چٹان بفضل تعالیٰ زندہ ہے، سیاسی عجائب گھروں کی مورتیوں، ادبی بت کدوں کے کھلونوں، منبر و محراب کے آوارہ مصروعوں، مجلسی اور بازار کے مہنتوں کی باز پرس جاری رہے گی۔ بقول جوش
اہل دنیا کون ہیں ؟ ان کا اثر کیا چیز ہے ؟
ہم خدا سے ناز کرتے ہیں ، بشر کیا چیز ہے ؟
بالفاظ دیگر
ٹوٹ تو سکتے ہیں لیکن ہم لچک سکتے نہیں
جس دن چٹان نہ رہا اور اس کے ایڈیٹر کا سفر دنیا پورا ہو گیا اس دن یہ تعاقب بھی ختم ہو جائے گا۔ اللہ کی کائنات کسی انسان کی بھی محتاج نہیں۔ لوگ اپنا اپنا سفر پورا کر کے دار البقا کو پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں ہر شخص یکساں ہے اور اپنے اعمال و افکار کے لیے جوابدہ ۔ البتہ ان کی جواب دہی ذرا زیادہ سخت ہو گی جو مخلوق خدا کے اجارہ دار تھے لیکن مخلوق خدا ہی کی تجارت کرتے رہے۔
عرض حال:
شاید یہ چیز انمل، بے جوڑ ہو لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ میری گرفتاری کے دو پہلو تھے۔ اوّلاً حکومت نے محسوس کیا اور پکڑ لیا۔ مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں۔ حکومتیں یہی کیا کرتی ہیں۔ جو شخص اس پر نکتہ چینی کرتا ہے اس کو آزمائش کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن اس قسم کے حادثوں میں جو لوگ اعزازی طور پر شریک ہوتے اور سرکار کے دسترخوان سے نوالے توڑتے ہیں۔ افسوس کہ میرا قلم انھیں کبھی معاف نہیں کر سکتا۔
یا ان کا گریباں چاک یا اپنا گریباں چاک
ان دوست نما مخبروں، خطابت فروش مغبچوں اور انجام نا آشنا خرقہ پوشوں کے مکروہ چہروں سے نقابیں اتاری ہیجائیں گی۔ ان کے نیزوں کی انی توڑی جائے گی اور ان کے خنجروں کو دو لخت کر دیا جائے گا تا کہ یہ سیاسی یتیم خانے سے پرورش نہ پا سکیں۔ (ہفت روزہ چٹان، ۱۶؍ جنوری ۱۹۶۷ء)
آغا صاحب نے متذکرہ بالا نظریات کی بنیاد پر گراں قدر صحافتی خدمات سرانجام دیں۔
۱۔ حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں پر مسلسل کلمہ حق کہتے رہے۔ کلمہ حق کی پاداش میں انھیں متعدد بار قید و بند اور ہفت روزہ چٹان کی بندش جیسے صدمات سہنے پڑے۔ لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ان کا بجا طور پر یہ دعویٰ تھا کہ
اور میں آج بھی اس دورِ ستم پیشہ میں
کج کلاہوں کی رعونت سے الجھ سکتا ہوں میں
ڈال سکتا ہوں مہہ و مہر کے سینے پہ خراش
برق و بارارں کی خشونت سے الجھ سکتا ہوں میں
۲۔ ہفت روزہ چٹان میں قادیانیت کی وطن اور اسلام دشمنی کا مکمل جرأت ایمانی کے ساتھ تعاقب کیا۔
۳۔ اسلام میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش کے خلاف نبرد آزما رہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے علمائے کرام کو بھی جھنجھوڑا اور انھیں حضرت امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ کا اسوۂ حسنہ یاد دلاتے رہے۔ انھوں نے علمائے سوء کو للکارتے ہوئے کہا
پھر یہ نہ شکایت ہو کہ گستاخ ہے شورش
جب میں نے قباؤں کو ادھیڑا کہ اتارا
۴۔ چٹان کے ذریعے انھوں نے علم و ادب کی بے پناہ خدمت کی۔ قلم قتلے، قلم پارے، گر تو برا نہ مانے، گفتنی نا گفتنی، غریبِ شہر، سخن ہائے گفتنی دار دو غیرہ عنوانات کے تحت ادبی کالم لکھتے رہے۔ ان کالموں میں ادبی نوادرات کا اتنا بڑا ذخریرہ موجود ہے کہ باید و شاید۔
ذکر اس پری وش کا اور پھر اندازِ بیاں اپنا
یہ ادبی کالم آغا صاحب کے ادبی کمالات کا نقطہ معراج ہیں۔ اکثر و بیشتر ہر شمارہ میں کئی کئی کالم لکھتے تھے۔ اور کوئی کالم اپنے اعلیٰ معیار سے گرا ہوا نہ ہوتا تھا۔
۵۔ وہ اپنے رسالہ میں دیگر اہلِ علم کے علمی، تاریخی، ادبی اور سائنسی مضامین بھی شائع کرتے رہے جو کہ علم و ادب کی ایک مستقل اور گراں قدر خدمات ہے۔
۶۔ آغا صاحب نے اہم ادبی، سیاسی، صحافتی اور سماجی شخصیات کی یاد میں مضامین لکھ کر تاریخ کا اہم حصہ محفوظ کر دیا۔
یہ چند امور مشتے از خروارے کے طور پر ذکر کیے گئے ہیں۔ ورنہ تفصیلات تو ایک مستقل کتاب کی متقاضی ہیں۔
بشکریہ
ماہنامہ نقیب ختم نبوت