شہا دتِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ

اسداللہ شاہ

وفقہ اللہ
رکن
افادات :مولاناسید ابوذر بخاری رحمتہ اللہ علیہ
مرتب:سیدمحمدکفیل بخاری

سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ عنہما کی انقلاب انگیز شہادت تاریخ اسلا م کا ایک مسلّمہ اور مصدقہ واقعہ ہے۔جس کے منفی اثرات سے اُمت قیامت تک کے لیے دو دھڑوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ۔ ان میں عقائد اور دین کے متعلق اتنا زبردست اختلاف اور بُعد پیدا ہوچکا ہے ۔جس کا ختم ہونا تو اب عملاً غیر ممکن ہے‘اور کم ہونا بھی مشکل ترین معاملہ ہے۔ساتھ ہی یہ بھی قطعی اور یقینی امر ہے کہ آپ کی شہادت کا دردناک حادثۂ فاجعہ امیر یزید کے عہد خلافت اور عبید اللہ ابن زیاد کی گورنری کے دور میں محرم۶۱ہجری کے اندرپیش آیا ۔لیکن یہ مسئلہ کہ حُکامِ کوفہ کے ساتھ سیدنا حسین ص کی آخری گفتگو کے مطابق آپ کے اِرادہ میں کوفہ کے عوام کے حیرت انگیز سیاسی انقلاب کے باعث دمشق جاکر براہِ راست امیر یزید کے ساتھ اپنا معاملہ طے کرنے کا جو تغیر پیدا ہوا تھا‘ اس کے بعد بھی آپ کی فطرت ونسبت کے خلا ف اور متضاد مطالبہ منوانے کا بہانہ بنالیا گیا ۔ نتیجتاً آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نسبی اور روحانی تعلق کی بنا پر اپنی خداداد غیرت وحمیت اور عزیمت وشجاعت کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی ہی جان قربان کردی ،بلکہ اپنے بھائیوں،بیٹوں اور بھتیجوں کوبھی شہید ہوتے ہوئے دیکھ کر خون کے گھونٹ پیئے اور اپنے دینی مؤقف پرکوہِ استقلال بن کر آخری سانس تک ثابت قدم رہے۔جب آپ کے آفت ومصیبت اوردرد وغم چشیدہ بقیہ اہلِ خانہ دمشق پہنچائے گئے تو حادثۂ کربلا کی تفصیلی روداد سن کر اور اس کے نتیجہ میں اس عظیم خاندان کے تباہ شدہ افراد کی حالت زار دیکھ کر امیر یزید نے قتلِ حسین کے حکم اور اس پر رضا مندی سے علانیہ برأت ظاہر کی تو اسی دور میں آپ کی شہادت کے حقیقی اور خفیہ اسباب ومحرِکات کے متعلق ایک عجیب ذ ہنی مخمصہ پیدا ہوااور کچھ عرصہ بعد ایک مستقل اختلاف کی شکل اختیار کرگیا۔حال آنکہ بہ ظاہر بالکل واضح اور یقینی طور پر معلوم ومسلّم ہے کہ آپ نے اپنے برادرِ بزرگ امام خامس وخلیفۂ راشد سیدنا حسن صکی طرف سے امام سادس وخلیفۂ عادل و راشد سیدنا امیرمعاویہ ص کے ساتھ صلح کا معاہدہ قبول کرکے سیدنا امیر معاویہ ص کی زندگی تک صبروتحمل کا ثبوت دیا اورسیدنا معاویہ ص اپنی زندگی میں امیر یزید کی جانشینی کی جو بیعت لے چکے تھے اُسے بھی برداشت کرتے رہے۔لیکن سیدنا معاویہ ص کی وفات کے بعد آپ کے تمام دینی اور سیاسی عزائم مکمل طور پر ظاہر ہوگئے اورآپ نے اپنی عقل وفراست کے مطابق کوفہ وغیرہ کے حالات کاجائزہ لے کر وہاں پر موجود اپنے حامیوں کی دعوت قبول کرلی اوریزید کے خلاف انقلابِ حکومت وخلافت کے لیے بغیر کسی ظاہری سازو سامان کے محض اہل کوفہ کی یقین دہانیوں پر اعتبار کرکے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ اور وہاں سے کو فہ کے لیے مع اہل و عیال و اعزّہ واقارب رختِ سفر باندھ لیا ۔لیکن صدافسوس کہ حالات ان کے اندازہ وخیالات اور عزائم ومقاصد کے باکل برعکس پلٹا کھاگئے اورآپ نہایت بے کسی وبے چارگی کی حالت میں انتہائی بے جگری سے دشمنوں کامقابلہ کرتے ہوئے جان کی بازی لگاکر جنت کوسدھارگئے ۔ فَاءِ نَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ

اس حادثہ کے پس منظر اور حقیقی اسباب ومحرِّکات کے متعلق شروع سے جو دو ذہنی پیدا ہوگئی تھی۔ اس نے بعد میں صدیوں تک بڑی شدت سے تاریخ پر اثر ڈالا ‘ جو روایات کے اختلاف کے باعث اب تک سیرت وتاریخ کے ہر طالب علم کے لیے زبردست فکری خلجان اور ایسے حادثہ کے تجزیہ کے وقت سخت پریشانی کا موجب بنا رہتا ہے۔چنانچہ عالم اسلام کی معروف ترین اور جلیل القدر شخصیت،حجۃ الاسلام امام ’’محمد غزالی‘‘ رحمۃاللہ علیہ سے امیر یزید کے اسلا م واعمال اور قتلِ حسین صکے سلسلہ میںیزید کی ذمہ داری اور اس کے لیے دعاء مغفرت وغیرہ جیسے اہم اور خطرناک ترین مسئلہ کے متعلق ان کے ہم زمانہ ایک شافعی فقیہ ’’عماد الدین ابوالحسن الکیاہراسی‘‘ متوفی ۵۰۳ہجری نے استفہام کیا تو امام موصوف نے شہادت حسین صکے سلسلہ میں مشہو رعوامی تصور کی تردید کرتے ہوئے حسبِ ذیل حیرت انگیز جواب دیا جو مشہور مؤرخ علّامہ ’’ابن خلکان‘‘نے اپنی معروف کتاب ’’وفَیٰاتُ الاَعیٰان‘‘میں نقل کیا ہے۔امام غزالی ؒ امیر یزید کے اسلام کی تائیدوتصدیق کے بعد قتلِ حسین ص کی ذمہ داری کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :

وَمَن زَعَمَ أَنَّ یَزِیْدَاَمَرَبِقَتْلِ الحُسَینِ أَورَضِیَ بِہ۔۔۔فَیَنْبَغِی أَن یُّعْلَمَ بِہ غایَۃَالْحَمَاقَۃِ،فَاءِ نَّ مَنْ قُتِلَ مِنَ الأَکَابِرِوَالْوُزَرَآءِ والسَّلَاطِینِ فی عَصرِہ لَوأَرَادَأَن یَّعْلَمَ حَقِیقَۃَ مِنَ الّذی اَمَرَبِقَتلِہ۔۔۔وَمَنِ الّذی رَضِیَ بِہ۔۔۔وَمَنِ الّذی کَرِہَہ‘لَمْ یَقدِرْ عَلیٰ ذٰلِکَ۔۔۔وَاأنْ کَانَ الّذی قَدْقُتِلَ فِی جَوَارِہ وَزَمَانِہ وَہُوَیُشَاہِدُ،فَکَیْفَ لَو کَانَ فِی بَلَدٍ بَعِیْدٍ۔۔۔وَزَمَنٍ قَدِیمٍ قَدِانْقَضیٰ۔۔۔فَکَیْفَ یُعلَمُ ذٰلِکَ فِیمَااِنْقَضیٰ عَلَیہِ قَرِیْبٌ مِنْ أَرْبَعِمِاءَۃِ سَنَۃٍ فِی مَکَانٍ بَعِیْدٍ۔۔۔وَقَدْ تَطَرَّقَ التَّعَصُّبُ فِی الْوَاقِعَۃِ فَکَثُرَتْ فِیْہَا الأَحَادِیْثُ مِنَ الجَوَانِبِ فَہٰذا لاَمْرُ لَا یُعْلَمُ حَقِیْقَتُہ‘اَصْلاً،وَاِذَا لَمْ یُعْرَفْ۔۔۔وَجَبَ اِحْسَانُ الظَّنِّ بِکُلِّ مُسْلِمٍ(الی آخرہ)

(وَفَیَا تُ الاعْیَان’’لِاأبْنِ خلِکَان‘‘-ج۱،ص۴۶۵،طبع مصر) ’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ یزید نے سیدنا حسین ص کے قتل کا حکم دیاتھایا وہ آپ کے قتل پر راضی تھا؟تو جاننا چاہیے کہ ایسا شخص پرلے درجہ کااحمق ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بہت سے اکابر اور وزراء اور سلاطین جو اپنے اپنے زمانہ میں قتل ہوئے ۔اگر کوئی شخص اس بات کی حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ اس کے قتل کا حکم کس نے دیا تھااورکون اس پرراضی تھا؟اور کس نے اس فعل کو ناپسند کیا؟ تو وہ آدمی اس کی حقیقت معلوم کرنے پر ہر گز قادر نہیں ہوسکے گا اگر چہ یہ قتل اس کے پڑوس میں اوراس کے زمانہ میں اوراس کی موجود گی میں ہی کیوں نہ ہواہو۔توپھراس واقعہ کی اصل حقیقت تک کیسے رسائی ہوسکتی ہے جودور کے شہر میں اور قدیم زمانہ میں ہواہو۔۔۔؟تو پھر اس واقعۂ کربلاء کی اصل حقیقت کا کیسے پتا چل سکتا ہے؟جس پر (امام غزالی کے زمانہ تک)چار سوبرس کی طویل مدّت دور درازمقام میں گزرچکی ہو۔۔۔اور پھر یہ بھی مسلّم ہوکہ اس واقعہ کے بارہ میں (روافض کی طرف سے )تعصب کا راستہ اختیار کیا گیا ہو۔۔۔جس کی وجہ سے مختلف فرقہ جات کی طرف سے اس کے متعلق بہ کثرت روایات بیان کی گئی ہوں۔اور جب حقیقت حال تعصب اور مخلوط ومتفرق روایات کے باعث معلوم نہیں ہوسکتی تو پھر ہر مسلمان کے متعلق جب تک قرائن موجود ہوں تو اس کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا واجب ہے۔ ‘‘

(اداریہ ’’الاحرار ‘‘ لاہور محرم ۱۴۱۸ھ مطابق اگست۱۹۸۸ء شمارہ۹،۱۰جلد ۱۸)

یزید ابن معاویہ کے متعلق سیدنا حسین کا تأثر:

ایک صاحب نے سوال کیا ہے کہ یزید سے متعلق کیاتأثر ہے؟یزید کے متعلق میرا تو کوئی تأثر نہیں۔البتہ سیدنا حسین ص کا تأثر یہ ہے کہ وہ اسے مسلمان سمجھتے تھے اور فرماتے تھے:’’اگر وہ میری بات سن کر مان لے تومیں اس کی’’بیعت ‘‘کرنے کو تیارہوں۔‘‘ لہٰذا میرا اپناکوئی تأثر نہیں نہ میں نے یزید کو دیکھا ‘نہ اس کے پیچھے نماز پڑھی۔ سیدنا حسین صنے بڑے بھا ئی سیدنا حسن ص سمیت ، سیدنا معاویہ ص سے بیعت کے بعد دمشق جاکر اس کے ساتھ نمازیں بھی پڑھیں اوراکٹھے کھانا بھی کھایا ۔یزید ان کے ہاتھ بھی دھلاتاتھا۔سیدنا معاویہ ص سامنے بیٹھے ہوتے تھے۔پھر ۵۲ھ کے ذوالقعدہ میں قسطنطنیہ کے میدان میں قائد لشکر ہونے کی وجہ سے سیدنا حسین صنے یزیدکے پیچھے نمازیں بھی پڑھیں۔ اس غزوہ میں حضرت ابو ایوب انصاری صبھی تھے اورحضرت حسین صبھی تھے۔عبداللہ ابن عمر بھی تھے اورعبداللہ ابن زبیر بھی تھے،عبداللہ ابن عباس ث بھی تھے اور بہت سے جلیل القدر صحابہ بھی تھے۔ان سب نے ۵۲ھ کے معرکۂ قسطنطنیہ میں فوجی کمانڈر یزید کے پیچھے نمازیں پڑھیں اورجب اسی میدا ن میں میزبانِ رسول احضرت ابوایوب انصاری ص کا انتقال ہوگیا تو شرعی ضابطہ اور مسنون عمل کے مطابق امیرجیش یزید نے حضرت ابو ایوب انصاری ص کا جنازہ پڑھایا۔تمام صحابہ سمیت سیدنا حسین صنے بھی یزید کی قیادت میں شرکتِ جہاد کی طرح اس کی امامت میں نماز جنازہ بھی ادا کی تھی۔ بہر کیف وہ کلمہ گوتھا،مسلمان تھا۔کریکٹر ہم نے نہیں دیکھا۔سیدنا حسین ص نے اس کو یہ نہیں کہا جولوگ کہتے ہیں‘یاکچھ مولوی اور ذاکرکہتے ہیں ۔سیدنا حسین ص کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم میں اپنے اپنے باپ کی وجہ سے اختلاف ہے ۔وہ دونوں لڑے تھے ‘اب ہم دونوں کی لڑ ائی ختم ہوسکتی ہے۔ وہ میری شرائط مان لے ‘مجھ سے گفتگو کر لے تواَضَعُ یَدِی فِی یَدِہ میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے ’’بیعت‘‘کرنے کوبھی تیارہوں!‘‘اس وقت کوفہ کا گورنرعبید اللہ ابن زیادتھا ۔ سیدنا علی ا کی ایک بیوی محترمہ ام البنین رحمتہ اللہ علیہا کے بھا ئی اور کربلامیں سیدنا حسین صکے علم بردار،اور وفادار وفداء کا رماں سے سوتیلے بھائی جناب عباس کے حقیقی ماموں حضرت ذوالجوشن ضبائی صحابی صکابیٹاشمرجوبدبختی سے سیدنا حسین ص کا مخالف ودشمن اور ابن زیاد کا مشیر ومعاون خصوصی بناہوا تھا اور بعد میں سیدنا حسین ص کے قاتلوں میں شامل ہوکرجہنم کا خریداربن گیاتھا۔اس شمرکے بھڑکانے سے ابن زیاد سیدنا حسین صکی تین بہترین شرائط ماننے سے منکر ہوا۔نفسانیت وشیطنت کی تکمیل اور اپنے حسدوبغض کی تسکین کے لیے یزیدکے حقیقی منشاء اور حکم کے خلاف سیدنا حسین ص سے اپنے ہاتھ پر غیر مشروط بیعت کے مطالبہ پر اڑگیا۔ اس نے کہا کہ میں یزید کانمائندہ ہوں۔ اس لیے بجائے دمشق جاکریزید سے خود معاملہ طے کرنے کے یہیں میرے ہاتھ پربیعت کرو۔تو اس پر جواباً سیدنا حسین ص نے فرمایا: وَاللّٰہِ!لَنْ یَّکُوْنَ ہٰذَا-اِلَّا بَعْدَالْمَوْت’’یہ نہیں ہوسکتا ‘تیری یہ حیثیت نہیں ہے کہ ’’لونڈی بچے اورذلیل لوگ‘‘مجھ سے غلط مطالبہ کرکے غیر مشروط بیعت لیں یہ بات میرے جیتے جی اور چپ چاپ ہرگز نہیں ہوسکتی۔ ہاں! میرے مرنے اورقتل ہوجانے کے بعد تم میر اہاتھ پکڑکر اپنے ہاتھ میں لے کر سمجھ لو کہ میں نے بیعت کرلی ہے؟تویہ ہوسکتا ہے۔تم اس سے میری گفتگو کراؤ‘وہ میری بات اور شروط مان لے۔ورنہ یزید کی خاطر تمہارے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہوں۔‘‘اس واقعہ کا حاصل تو سارا اتنا ہی ہے باقی سب لفاظی، سبائیوں رافضیوں کی عجمی ڈرامائی داستان ہے اورکچھ نہیں!

(اقتباس خطاب :جام پور ۲۴رجب المرجب۱۴۱۰ھ ۲۹مئی ۱۹۸۱ء)
( مطبوعہ :’’الاحرار‘‘ش ۱،۲۔ج ۱۰،رمضان۱۴۱۰ھ ۔اپریل ۱۹۹۰ء)

بشکریہ
نقیب ختم نبوۃ
 

شاکرالقادری

وفقہ اللہ
رکن
مجھے ایک عجیب قسم کی حیرت ہو رہی ہے کہ العزالی فورم کے ناظمین کی جانب سے ایسے مقالے پوسٹ کیے جا رہے ہیں جن میں یزید پلید کو “امیر یزید“ کے لقب سے ملقب کر کے اسے ملت اسلامیہ کا ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ اور مزے کی بات یہ کہ موجود مراسلہ کا مراسلہ نگار بھی سیدنا حسین علیہ السلام کی اولاد ہونے کے ناتے سے شاہ زادہ اور سید زادہ ہے اور جس کا مضمون پوسٹ کیا گیا وہ بھی “سید“ کہلاتا ہے اور جو اس مضمون کا “مرتب“ ہے وہ بھی اپنے نام کے ساتھ فخر سے “سید“ لکھتا ہے ۔ ۔ ۔ لیکن دفاع ہو رہا ہے تو کس کا۔ ۔ ۔ ۔ حسین جو انکا جد امجد ہے اس کے مقابلہ میں یزید کا۔ ۔ ۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ چلو میں بھی کچھ ایسا ہی کروں تو برادران محترم میں خاندان بنو امیہ سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی ہستی کو کوٹ کرتا ہیں جنہیں لوگ عمر ثانی کے نام سے جانتے ہیں اور جن کے دور خلافت کو عدل انصاف کا بہترین نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ میری مراد “حضرت عمر بن عبدالعزیز“ رضی اللہ عنہ سے ہے۔ ۔ تو دوستو۔! ملاحظہ ہو:
”امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیز کی مجلس میں ایک روز یزید کا ذکر چھڑ گیا ۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا:
قال امیر المومنین یزید۔
یعنی امیر المومنین یزید نے یہ کہا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز غصہ سے بولے:
تم یزید (جیسے نابکار) کوامیر المومنین کہہ رہے ہو۔
پھر آپ نے حکم دیا کہ امیر المومنین کہنے والے کوبیس درے لگائے“۔
(تہذیب التہدیب 361جلد 11)
سب جانتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز خاندان بنی امیہ کے ایک فرد تھے، لیکن یزید کے بارے میں آپ یہ سننا تک گوارا نہ کر سکے کہ اسے کوئی شخص امیر المومنین کے معزز لقب سے یاد کرے۔ بلکہ آپ نے ایسا کہنے والے پر ناراضگی کا اظہارہی نہیں کیا بلکہ اسے بیس کوڑوں کی سزا دی، تاکہ آئندہ کوئی شخص اسے امیرالمومنین کہنے کی جرأت نہ کر سکے۔ کیا تیرہ سو سال بعد آنے والے یہ محققین یزید کے کردار و سیرت کو حضرت عمر بن عبدالعزیز سے بہتر جانتے ہیں۔ جب آپ اس کو اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تو پھر ہمیں یا کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ایسے شخص کو امیر المومنین اور خلیفہ راشد کے القاب سے ملقب کر کے ان عزت و حرمت والے القاب کی تذلیل کرے۔

والسلام من تبع الہدی
 

شاکرالقادری

وفقہ اللہ
رکن
«یزید بن معاویه» چونسٹھ ہجری میں عین جوانی کے عالم میں مرا اور منصب خلافت کو خالی کر دیا اس کے بعد معاویہ بن یزید (جسے معاویہ ثانی بھی کہا جاتا ہے) کو خلیفہ بنایا گیا۔ لیکن اس نوجوان نے باپ کی موت کے بعد نہ تو اختیار خلافت کو استعمال کیا اور نہ ہی امرائے خلافت اور دیگر لوگوں سے میل جول رکھا اور نہ ہی انکے ساتھ نماز میں شامل ہوا۔ معاویہ بن یزید کی مدت خلافت چالیس روزاور بقول بعصی دو ماہ ہے اس نوجوان نےایک خطبہ کےذریعہ خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا چنانچہ منبر پر بیٹھ کر حاضرین سے خطاب کیا:

“یہ خلافت جس کی وجہ سے آج میں اس منبر پر جلوہ افروز ہوں، خدا کی رسی ہے، اور ہمارے اور خدا کے مابین رابطہ کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے باوجود میرے دادا نے علی بن ابی طالب جیسے شخص کے ساتھ نزاع و جدال کیا جو خلافت کا کہیں زیادہ اہل تھا اور ایسے کام کیے جن سے تم خود آگاہ و با خبر ہوتا آنکہ اسے موت نے آلیا۔ اس کی موت کے بعد میرا باپ کرسی خلافت پر بیٹھا حالانکہ وہ اس کا قطعی اہل نہ تھا۔ اپنی حکومت کو استحکام دینے کے لیے حسین بن علی جو کہ نواسۂ رسول اللہ ﷺ ہیں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو اسے نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ لیکن بالآخر حالتِ جوانی میں ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔اور اس چند روزہ حکومت کے عوض دائمی عذاب و وبال کو اپنے ہمراہ لے گیا۔ (یہاں پہنچ کر معاویہ بن یزید زار زار رونے لگا) پھر کہا:
میں اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ حسین ؑ کے ساتھ جو محاربہ میرے باپ نے کیا وہ انتہائی براتھا۔اس کا انجام جہنم کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ اس نے اولادِ رسول خدا ﷺ کو قتل کیا، شراب نوشی کو مباح قرار دیا، تخریبِ مدینہ منورہ کا مرتکب ہوا اور حرمت کعبہ کی ہتک کو روا رکھا۔میں اس خلافت میں کوئی لذت و راحت نہیں پاتا۔ابو سفیان کی اولاد میں سے جو کوئی اس پر راضی ہو اس کو اپنا امیر بنا لو۔میں اپنی بیعت کے قلادے سے مسلمانوں کی گردنوں کو آزاد کرتا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ منبر سے اتر آیا اور اپنے گھر میں گوشہ نشینی اختیار کر لی اور لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیااور اسی حالت میں راہی ملک بقا ہوا۔
(صواعق محرقه ابن حجر )
 
Top