حضرت مولانا نور محمد قادری
حیات بعد الوفات کا عقیدہ ضروریاتِ دین اور مسلمات اسلام میں سے ہے، کتاب اللہ کی درجنوں آیاتِ قطعیہ اور احادیثِ متواترہ سے حیاتِ قبر ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس پر اجماعِ اُمت مستزاد ہے، آج تک کسی سنی مسلمان عالمِ دین نے قبر کی زندگی کا انکار نہیں کیا، اور یہ حیاتِ قبر درجہ بدرجہ ہر انسان کو حاصل ہوتی ہے اور یہی حیات قبر کے سوال و جواب، ثواب و عقاب جیسی کارروائی کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ اگر حیات بعد الوفات نہ ہو تو یہ سارے اُمور لایعنی بن کر رہ جائیں گے، قبر کی زندگی کا سب سے اعلیٰ اور اُونچا مقام حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام کو حاصل ہوتا ہے، بالخصوص ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بعد از وفات سب سے ممتاز اور سب سے ارفع ہے، اور اِس بات پر بھی پوری اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام کا اتفاق ہے کہ یہ حیات دُنیا والے جسدِ عنصری کو بہ تعلق روح حاصل ہوتی ہے، اسی پر کتاب و سنت کی نصوصِ قطعیہ شاہد ہیں، اور اِس پر بھی اتفاق ہے کہ قبر کی یہ زندگی غیب کی چیز ہے جس پر بِن دیکھے ایمان لانا موٴمن کی شان ہے اور اہلِ علم و دانش جانتے ہیں کہ عقیدہٴ حیات الانبیاء، حیاتِ قبر کے عقیدے کی ایک مخصوص شاخ اور ایک امتیازی شعبہ ہے۔ مندرجہ بالا تمام اُمور پر اجماع اور اتفاق کے بعد علمائے اسلام نے عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف تعبیرات سے ادا کیا ہے اور مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے، مثلاً بعض علمائے اسلام نے فرمایا کہ: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کو آپ کے جسدِ اطہر سے دُخول و حلول کا تعلق ہے، اور بعض نے فرمایا کہ: اتصال کا تعلق ہے، بعض نے فرمایا کہ: اشراق کا تعلق ہے، بعض نے انعکاس کا تعلق بتایا، بعض علماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حیاتِ برزخیہ سے تعبیر کیا، اور بعض نے حیاتِ دُنیوی کا لفظ استعمال فرمایا، اور بعض نے حیاتِ برزخیہ اور حیاتِ دُنیویہ دونوں کو جمع فرمایا، اور کسی نے حیاتِ دُنیوی کی بظاہر نفی کرکے برزخی سے تعبیر کیا، اور بعض علمائے اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حسی اور جسمانی قرار دیا اور بعض علماء نے حیاتِ روحانی اور روح کی حیات سے تعبیر فرمایا، اور بعض حضرات نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر بہ تعلق روح مع الجسد العنصری پر ایمان رکھ کر اِس سے آگے والی تفصیلات میں نہ جانا چاہئے، کیونکہ نجات کے لئے اتنا عقیدہ رکھنا کافی ہے، باقی رہیں اگلی تفصیلات، تو وہ اہلِ علم ہی کا کام ہے، ہم جیسوں کے لئے اِن باتوں میں پڑنا مناسب نہیں ہے۔
تمام تعبیرات کی قدرِ مشترک
لفظی اور تعبیری اختلاف کے باوجود یہ تعبیریں مآل کے اعتبار سے ایک چیز ہیں، اور ان سب میں جو چیز بطور قدرِ مشترک کے پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر و برزخ میں بہ تعلق روح مع الجسد العنصری ایک خاص قسم کی حیات حاصل ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زائرین کے سلام کو سنتے ہیں اور جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں اور یہ قدرِ مشترک درحقیقت حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کا تاریخی فیصلہ ہے جو اُنہوں نے راولپنڈی میں تحریر فرماکر فریقین سے دستخط لئے تھے اور یوں اِس اختلاف کا خاتمہ کرکے مصالحت کرادی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اِس عظیم کارنامے پر جزائے خیر عطا فرمائے، آمین!
عصرہذا کے معتزلہ کی کج فہمی
جو لوگ عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اور دن رات یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اِس عقیدے کی اہمیت کو کم کیا جائے اور اِس کی حیثیت کو گھٹایا جائے اور سادہ لوح عوام اور طلبہ کو اِس عقیدے سے دُور رکھا جائے تو ایسے اغیار نے علمائے اسلام کی ان تعبیرات سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ خود یہ عقیدہ مختلف فیہ ہے، اِس میں علماء کا اختلاف ہے، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کہتا ہے، لہٰذا یہ کوئی دین و ایمان کا ضروری عقیدہ نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ، نیز یہ کج فہم لوگ ہمارے اکابر پر تضادبیانی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں، حالانکہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کا راولپنڈی والا فیصلہ ایک ایسی قدرِ مشترک ہے جس پر تمام علمائے اسلام کی تعبیرات منطبق آتی ہیں اور تمام اکابر اِس پر متفق نظر آتے ہیں، یعنی حیات بعد الوفات بہ تعلق روح مع الجسد العنصری۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس تعلق کی کُنہ اور حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ قبر کی یہ زندگی ہر کہ و مہ کے لئے محسوس و مبصر نہیں ہے، بلکہ: ”وَلٰکِن لَّا تَشْعُرُوْنَ“ کے درجے میں ہے۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ اِس مخصوص زندگی سے ”والبعث بعد الموت“ نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو بروزِ قیامت ہوگا، اس پر بھی اتفاق ہے کہ ہر مرنے والے پر میّت کا اطلاق دُرست ہے، کیونکہ عالمِ قبر و برزخ کے اعتبار سے بے شک وہ زندہ ہے لیکن اہلِ دُنیا اس پر میّت کا اطلاق کرسکتے ہیں، جیسا کہ میٹھی نیند سونے والا عالمِ خواب میں پہنچ جاتا ہے، اب یہ شخص اہلِ دُنیا کی نظر میں سوتا اور عالمِ خواب کے اعتبار سے جاگتا، کھاتا، پیتا، ڈرتا اور دوڑتا ہے۔ لفظِ ”میّت“ یا ”موتیٰ“ کے اطلاق سے قبر و برزخ کی زندگی کی نفی سمجھنا جہالت و حماقت ہے۔
ہاں! تو میں عرض کر رہا تھا کہ عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف تعبیرات کے باوجود تمام اہلِ اسلام اس پر مجتمع اور متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس اور جسدِ اَطہر کے مابین ایک خاص قسم کا تعلق ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز اور اعلیٰ قسم کی حیات حاصل ہے، الغرض اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کوئی بندہ ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے اِس تعلق کا انکار کیا ہو۔ اِس لئے تو امام اہلِ سنت شیخ الحدیث والتفسیر محققِ اعظم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر عافاہ اللہ نے اپنی مایہٴ ناز کتاب ”تسکین الصدور“ میں عصرِ ہذا کے معتزلہ کو چیلنج دیا کہ صرف اور صرف ایک شخص کا نام پیش کرو جس نے عدمِ تعلق کا قول اختیار کیا ہو۔ یقین جانیئے یہ چیلنج ان کے کانوں میں گونج رہا ہے، لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا! شیخ الحدیث صاحب دامت برکاتہم نے دعویٰ کیا ہے کہ منکرینِ حیات قیامت تک میرے چیلنج کا جواب نہیں دے سکتے۔
عصرِ ہذا کے معتزلہ کا موقف
آپ کو معلوم ہوگیا کہ عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف الفاظ اور مختلف تعبیرات میں بیان کرنے والے تمام سلف و خلف ”تعلق“ پر مجتمع اور متفق ہیں، جبکہ معتزلہ خود ”تعلق“ کے منکر ہیں، اِن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ قبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اَطہر سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اَطہر بے تعلق ہونے کی وجہ سے جمادِ محض ہے، حتیٰ کہ اس میں ذرّہ بھر بھی حیات نہیں ہے، بلکہ اتنی بڑی گستاخی کرنے سے بھی باز نہیں آتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اَطہر بلاتعلق ہونے کی وجہ سے نہ نبی اللہ ہے، نہ رسول اللہ۔ دیکھئے ”ندائے حق جدید“ ص:۴۰۸۔ معاذ اللہ!
قارئینِ کرام! عدمِ تعلق والی راہ بالکل نئی راہ ہے، اور ایسے موقف کی وجہ سے آدمی اہل السنة والجماعة سے کٹ کر رہ جاتا ہے، اور تمام علمائے اسلام کے مسلک سے ہٹ کر گمراہی کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ عدمِ تعلق کا نظریہ آدمی کو اعتقادی بدعت میں مبتلا کردیتا ہے، اور اِسی عدمِ تعلق کے نظریہ کو عذابِ قبر کا انکار لازم ہے، حالانکہ عذابِ قبر کا عقیدہ آیاتِ کثیرہ اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، اور اِس کے منکر کو فقہائے دین اور علمائے اسلام نے کافر قرار دیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ عصرِ ہذا کے معتزلہ نے اختلافِ تعبیرات کا بہانہ بناکر عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی راہ ہموار کی ہے، اگر یہ لوگ اکابر علمائے اسلام کے حق میں واقعی مخلص ہوتے تو اکابر کی طرح ”تعلق“ جیسے اجماعی عقیدے پر ایمان و یقین ضرور رکھتے، لیکن ”تعلق“ کے انکار سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ لوگ اکابر کی راہ پر ہرگز نہیں ہیں، بلکہ تعلق کا انکار کرکے اِن لوگوں نے پوری اُمت سے کٹ کر ایک نئی راہ ایجاد کر رکھی ہے، اور اعتقادی بدعت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ آج بھی اگر یہ لوگ اکابر علمائے اسلام کے عقیدے کے مطابق روح اور جسد کا تعلق اور علاقہ تسلیم کرلیں اور اِس سے اگلی تفصیلات میں نہ جائیں تو اِس مسئلے کی حد تک علمائے اہلِ سنت کا ان سے کوئی اختلاف نہ ہوگا، اختلاف تو اسی بات میں ہے کہ علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ بعد الوفات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کا جسدِ اَطہر سے تعلق ہے، جبکہ عصرِ ہذا کے معتزلہ کے یہ لوگ اِس کے انکاری ہیں، یہ ہے وجہ نزاع اور نقطہٴ اختلاف۔ تو ثابت ہوا کہ یہ لوگ تعبیراتی اختلاف کو آڑ بناکر ایک اجماعی عقیدے کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔
مختلف تعبیرات کا مآل تقریباً ایک ہے
عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرِ مشترک کو معلوم کرنے کے بعد یہ بات بھی ذہن نشین فرمالیں کہ مختلف تعبیرات میں بھی کوئی لمبا چوڑا اختلاف نہیں ہے، بلکہ مآل کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے، جس کو مختلف الفاظ میں ادا کیا گیا ہے، مثلاً جن حضرات نے حلول و دُخول کا قول اختیار کیا ہے، ان کی مراد بھی روح اور دُنیا والے جسد کا تعلق ہی ہے۔
دیکھئے! عالمِ دُنیا میں روح کا بدنِ انسانی میں دُخول و حلول ہوتا ہے، لیکن اس کو دُنیوی تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے، چونکہ عالمِ قبر، عالمِ خواب سے ملتا جلتا جہان ہے اور عالمِ خواب والا اپنے آپ کو ایسے ہی محسوس کرتا ہے جیسے وہ عالمِ دُنیا میں تھا اور وہ اپنی روح کو اپنے جسم کے اندر ہی محسوس کرتا ہے، شاید اِسی وجہ سے اِس تعلق کو دُخول و حلول سے تعبیر کردیا گیا۔ لہٰذا دُخول و حلول کے لفظ سے تعلق کی نفی سمجھنا یا اِن میں تضاد سمجھنا قلتِ تدبر اور سوءِ فہم کا نتیجہ ہے۔ اور جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بعد الوفات کو حیاتِ دُنیوی سے تعبیر کیا ہے، ان کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیات دُنیا والے جسدِ اَطہر سے متعلق ہے، یعنی روحِ اقدس کا دُنیا والے جسدِ عنصری سے تعلق ہے، ان کی یہ مراد نہیں ہے کہ عالمِ قبر کی زندگی بالکل اور ہر لحاظ سے دُنیا والی زندگی کی طرح ہے کہ حیاتِ دُنیا کے سارے لوازمات وہاں پائے جائیں، روح بدن کی تدبیر کرکے جسم میں نشو ونما پایا جائے اور حیاتِ دُنیا کی طرح قبر کی زندگی محسوس و مبصر بن جائے حتیٰ کہ والبعث بعد الموت قبل از وقت ظہور پذیر ہوجائے اور مردہ انسان عالمِ دُنیا والی پہلی حالت پر دوبارہ واپس آجائے۔ اور جو علماء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حیاتِ دُنیوی بمعنی مذکورہ بالا کہتے ہیں، وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حیاتِ برزخیہ بھی کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بعد از وفات عالمِ برزخ کی طرف منتقل ہوچکے ہیں، اِس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات برزخیہ ہے، اور چونکہ دُنیا والا جسد اِس حیاتِ برزخیہ میں شامل ہے، اِس لئے حیات دُنیوی ہے۔ پس حیاتِ برزخیہ سے دُنیا والے جسد کی حیات کی نفی کرنا جہالت ہے، اور حیاتِ برزخیہ اور حیاتِ دُنیویہ میں تضاد سمجھنا حماقت ہے۔
اِسی طرح جن حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو برزخی کہہ کر حیاتِ دُنیا کی نفی کی ہے، ان کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیات بالکل اور ہر لحاظ سے دُنیا کی زندگی کی طرح نہیں ہے، اس سے ان کا مقصد دُنیا والے جسد کو حیات سے محروم کرنا ہرگز نہیں ہے، لہٰذا ایسا کہنے والے حضرات کے کلام سے ”تعلق“ اور دُنیا والے جسد کی حیات کی نفی سمجھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اسی طرح بعض علماء نے قرآن مجید کی آیات: ”وَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ“ وغیرہ کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ موت کے بعد روح کا جسم سے تعلق بالکل ختم کردیا جاتا ہے، تو اُن علماء کی مراد یہ ہے کہ دُنیا والا تعلق بالکل ختم کردیا جاتا ہے، یعنی وہ حضرات دُنیا والے تعلق کی نفی کرنا چاہتے ہیں نہ کہ قبر و برزخ کے تعلق کی۔ کیونکہ وہی حضرات برزخی تعلق کے قائل ہیں اور اس کو ثابت کرتے ہیں، لہٰذا جس تعلق کی نفی کرتے ہیں وہ اور ہے، اور جس تعلق کا اثبات کرتے ہیں وہ اور ہے۔ لیکن کج فہم معتزلہ خود بھی فریب خوردہ ہیں اور دُوسروں کو بھی فریب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، اِس لئے جہاں کہیں ان کو بعد الوفات تعلق کی نفی ملتی ہے، اس کو برزخی تعلق پر چسپاں کردیتے ہیں، حالانکہ برزخی تعلق کی نفی کسی نے بھی نہیں کی، بلکہ سب نے اس کا اثبات کیا ہے، نفی تو ہو رہی ہے دُنیاوی تعلق کی، اور فٹ کردیتے ہیں برزخی تعلق پر۔
اور جن حضرات نے قبر کی زندگی کو حیاتِ روح یا حیاتِ روحانی سے تعبیر کیا ہے، ان کا مقصد بھی دُنیا والے جسد کی حیات کی نفی کرنا نہیں ہے، اور نہ ہی وہ روح اور دُنیا والے جسد کے مابین تعلق کا انکار کرتے ہیں، کیونکہ وہ خود اپنی تحریروں میں حیاتِ قبر بہ تعلق روح مع الجسد العنصری کا اقرار کرچکے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ حیاتِ قبر کو حیاتِ روح یا حیاتِ روحانی سے کیوں تعبیر کرتے ہیں؟ تو وجہ یہ ہے کہ عالمِ دُنیا اور عالمِ قبر و برزخ کی حیات میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ دُنیا میں جسد ظاہر اور اصل ہے اور روح اُس کے تابع ہے، اور دُکھ سکھ کے حالات اوّلاً جسد پر طاری ہوتے ہیں اور روح بالتبع اِس سے متأثر ہوتی ہے، برخلاف عالمِ قبر و برزخ کے کہ وہاں کے حالات اوّلاً روح پر طاری ہوتے ہیں اور جسد بالتبع اُس سے متأثر ہوتا ہے، چنانچہ اِ س اصلیت اور تبعیت کی وجہ سے دُنیا کی زندگی کو حیاتِ جسمانی اور قبر کی زندگی کو حیاتِ روحانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس طرح یہاں حیاتِ جسمانی اور تکلیفِ جسمانی کہنے سے روح کی نفی نہیں سمجھی جاتی، اِسی طرح قبر کی حیات کو حیاتِ روحانی کہنے سے جسد کی نفی نہیں ہوتی، لہٰذا حیاتِ روح اور حیاتِ روحانی کہنے سے جسد کی نفی کردینا یا تعلق کی نفی کرنا کج فہمی کا نتیجہ اور قلتِ فہم کا ثمرہ ہے۔
اِسی طرح قبر کی حیات کو تعلق اتصال یا تعلق اشراق یا تعلق انعکاس سے تعبیر کرنا کوئی الگ الگ مذہب نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی حقیقت کو ادا کرنے کی مختلف تعبیریں ہیں، مآل سب کا ایک ہی ہے۔ دُوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ:
جن حضرات نے فرمایا کہ عالمِ قبر و برزخ میں روح جسدِ عنصری کے اندر ہے، انہوں نے وہاں کے عالم کے اعتبار سے فرمایا، کیونکہ وہاں مردہ انسان روح کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے، جیسا کہ عالمِ خواب والا اپنی روح کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔
اور جن لوگوں نے تعلق کا قول کیا اُنہوں نے عالمِ دُنیا کا اعتبار کیا، کیونکہ مردہ انسان پر موت کے وقت سے انقباضِ روح ہوچکا ہے، اور اب جو قبر میں حساب و کتاب ہے، سوال و جواب ہے، اور ثواب و عقاب ہے، تو یہ سب کچھ تعلق روح مع الجسد العنصری کی وجہ سے ہے۔ بہرحال یہ مُسلَّمہ حقیقت ہے کہ قبر میں مردہ انسان، نکیرین کو دیکھتا ہے، ان کی باتوں، سوالوں کو سنتا ہے اور جواب دیتا ہے، اور قبر کی جزا و سزا اور دُکھ سکھ کے محسوس کرتا ہے، اور اِن اُمور کے لئے حیاتِ قبر لازمی ہے، اور یہ حیاتِ قبر آیاتِ قطعیہ اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، اِسی لئے ہمارے فقہائے کرام نے عذابِ قبر یعنی حیاتِ قبر کے منکر کو دائرہٴ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ اور عذابِ قبر یعنی حیاتِ قبر کی صحیح صورت یہی ہے کہ دُنیا والا جسدِ عنصری جزا و سزا میں شامل ہوتا ہے۔ اور اِس صحیح صورت کے منکر کو مفتیانِ کرام نے اہلِ سنت سے خارج فرماکر ضال و مضل قرار دیا ہے، اور ایسے بدعقیدہ امام کی اقتداء فی الصلوٰة سے بھی منع کیا ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اکابر علمائے اہلِ سنت کی راہ ”صراطِ مستقیم“ پر استقامت نصیب فرمائے اور ذہنی آوارگی اور بے راہ روی سے محفوظ رکھے، آمین یا رَبّ العالمین!
بشکریہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون
حیات بعد الوفات کا عقیدہ ضروریاتِ دین اور مسلمات اسلام میں سے ہے، کتاب اللہ کی درجنوں آیاتِ قطعیہ اور احادیثِ متواترہ سے حیاتِ قبر ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس پر اجماعِ اُمت مستزاد ہے، آج تک کسی سنی مسلمان عالمِ دین نے قبر کی زندگی کا انکار نہیں کیا، اور یہ حیاتِ قبر درجہ بدرجہ ہر انسان کو حاصل ہوتی ہے اور یہی حیات قبر کے سوال و جواب، ثواب و عقاب جیسی کارروائی کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ اگر حیات بعد الوفات نہ ہو تو یہ سارے اُمور لایعنی بن کر رہ جائیں گے، قبر کی زندگی کا سب سے اعلیٰ اور اُونچا مقام حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام کو حاصل ہوتا ہے، بالخصوص ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بعد از وفات سب سے ممتاز اور سب سے ارفع ہے، اور اِس بات پر بھی پوری اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام کا اتفاق ہے کہ یہ حیات دُنیا والے جسدِ عنصری کو بہ تعلق روح حاصل ہوتی ہے، اسی پر کتاب و سنت کی نصوصِ قطعیہ شاہد ہیں، اور اِس پر بھی اتفاق ہے کہ قبر کی یہ زندگی غیب کی چیز ہے جس پر بِن دیکھے ایمان لانا موٴمن کی شان ہے اور اہلِ علم و دانش جانتے ہیں کہ عقیدہٴ حیات الانبیاء، حیاتِ قبر کے عقیدے کی ایک مخصوص شاخ اور ایک امتیازی شعبہ ہے۔ مندرجہ بالا تمام اُمور پر اجماع اور اتفاق کے بعد علمائے اسلام نے عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف تعبیرات سے ادا کیا ہے اور مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے، مثلاً بعض علمائے اسلام نے فرمایا کہ: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کو آپ کے جسدِ اطہر سے دُخول و حلول کا تعلق ہے، اور بعض نے فرمایا کہ: اتصال کا تعلق ہے، بعض نے فرمایا کہ: اشراق کا تعلق ہے، بعض نے انعکاس کا تعلق بتایا، بعض علماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حیاتِ برزخیہ سے تعبیر کیا، اور بعض نے حیاتِ دُنیوی کا لفظ استعمال فرمایا، اور بعض نے حیاتِ برزخیہ اور حیاتِ دُنیویہ دونوں کو جمع فرمایا، اور کسی نے حیاتِ دُنیوی کی بظاہر نفی کرکے برزخی سے تعبیر کیا، اور بعض علمائے اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حسی اور جسمانی قرار دیا اور بعض علماء نے حیاتِ روحانی اور روح کی حیات سے تعبیر فرمایا، اور بعض حضرات نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر بہ تعلق روح مع الجسد العنصری پر ایمان رکھ کر اِس سے آگے والی تفصیلات میں نہ جانا چاہئے، کیونکہ نجات کے لئے اتنا عقیدہ رکھنا کافی ہے، باقی رہیں اگلی تفصیلات، تو وہ اہلِ علم ہی کا کام ہے، ہم جیسوں کے لئے اِن باتوں میں پڑنا مناسب نہیں ہے۔
تمام تعبیرات کی قدرِ مشترک
لفظی اور تعبیری اختلاف کے باوجود یہ تعبیریں مآل کے اعتبار سے ایک چیز ہیں، اور ان سب میں جو چیز بطور قدرِ مشترک کے پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر و برزخ میں بہ تعلق روح مع الجسد العنصری ایک خاص قسم کی حیات حاصل ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زائرین کے سلام کو سنتے ہیں اور جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں اور یہ قدرِ مشترک درحقیقت حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کا تاریخی فیصلہ ہے جو اُنہوں نے راولپنڈی میں تحریر فرماکر فریقین سے دستخط لئے تھے اور یوں اِس اختلاف کا خاتمہ کرکے مصالحت کرادی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اِس عظیم کارنامے پر جزائے خیر عطا فرمائے، آمین!
عصرہذا کے معتزلہ کی کج فہمی
جو لوگ عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے اور دن رات یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اِس عقیدے کی اہمیت کو کم کیا جائے اور اِس کی حیثیت کو گھٹایا جائے اور سادہ لوح عوام اور طلبہ کو اِس عقیدے سے دُور رکھا جائے تو ایسے اغیار نے علمائے اسلام کی ان تعبیرات سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ خود یہ عقیدہ مختلف فیہ ہے، اِس میں علماء کا اختلاف ہے، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ کہتا ہے، لہٰذا یہ کوئی دین و ایمان کا ضروری عقیدہ نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ، نیز یہ کج فہم لوگ ہمارے اکابر پر تضادبیانی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں، حالانکہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کا راولپنڈی والا فیصلہ ایک ایسی قدرِ مشترک ہے جس پر تمام علمائے اسلام کی تعبیرات منطبق آتی ہیں اور تمام اکابر اِس پر متفق نظر آتے ہیں، یعنی حیات بعد الوفات بہ تعلق روح مع الجسد العنصری۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ اس تعلق کی کُنہ اور حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں، اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ قبر کی یہ زندگی ہر کہ و مہ کے لئے محسوس و مبصر نہیں ہے، بلکہ: ”وَلٰکِن لَّا تَشْعُرُوْنَ“ کے درجے میں ہے۔ اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ اِس مخصوص زندگی سے ”والبعث بعد الموت“ نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو بروزِ قیامت ہوگا، اس پر بھی اتفاق ہے کہ ہر مرنے والے پر میّت کا اطلاق دُرست ہے، کیونکہ عالمِ قبر و برزخ کے اعتبار سے بے شک وہ زندہ ہے لیکن اہلِ دُنیا اس پر میّت کا اطلاق کرسکتے ہیں، جیسا کہ میٹھی نیند سونے والا عالمِ خواب میں پہنچ جاتا ہے، اب یہ شخص اہلِ دُنیا کی نظر میں سوتا اور عالمِ خواب کے اعتبار سے جاگتا، کھاتا، پیتا، ڈرتا اور دوڑتا ہے۔ لفظِ ”میّت“ یا ”موتیٰ“ کے اطلاق سے قبر و برزخ کی زندگی کی نفی سمجھنا جہالت و حماقت ہے۔
ہاں! تو میں عرض کر رہا تھا کہ عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف تعبیرات کے باوجود تمام اہلِ اسلام اس پر مجتمع اور متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس اور جسدِ اَطہر کے مابین ایک خاص قسم کا تعلق ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ممتاز اور اعلیٰ قسم کی حیات حاصل ہے، الغرض اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کوئی بندہ ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے اِس تعلق کا انکار کیا ہو۔ اِس لئے تو امام اہلِ سنت شیخ الحدیث والتفسیر محققِ اعظم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب صفدر عافاہ اللہ نے اپنی مایہٴ ناز کتاب ”تسکین الصدور“ میں عصرِ ہذا کے معتزلہ کو چیلنج دیا کہ صرف اور صرف ایک شخص کا نام پیش کرو جس نے عدمِ تعلق کا قول اختیار کیا ہو۔ یقین جانیئے یہ چیلنج ان کے کانوں میں گونج رہا ہے، لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا! شیخ الحدیث صاحب دامت برکاتہم نے دعویٰ کیا ہے کہ منکرینِ حیات قیامت تک میرے چیلنج کا جواب نہیں دے سکتے۔
عصرِ ہذا کے معتزلہ کا موقف
آپ کو معلوم ہوگیا کہ عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف الفاظ اور مختلف تعبیرات میں بیان کرنے والے تمام سلف و خلف ”تعلق“ پر مجتمع اور متفق ہیں، جبکہ معتزلہ خود ”تعلق“ کے منکر ہیں، اِن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ قبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدِ اَطہر سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اَطہر بے تعلق ہونے کی وجہ سے جمادِ محض ہے، حتیٰ کہ اس میں ذرّہ بھر بھی حیات نہیں ہے، بلکہ اتنی بڑی گستاخی کرنے سے بھی باز نہیں آتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اَطہر بلاتعلق ہونے کی وجہ سے نہ نبی اللہ ہے، نہ رسول اللہ۔ دیکھئے ”ندائے حق جدید“ ص:۴۰۸۔ معاذ اللہ!
قارئینِ کرام! عدمِ تعلق والی راہ بالکل نئی راہ ہے، اور ایسے موقف کی وجہ سے آدمی اہل السنة والجماعة سے کٹ کر رہ جاتا ہے، اور تمام علمائے اسلام کے مسلک سے ہٹ کر گمراہی کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ عدمِ تعلق کا نظریہ آدمی کو اعتقادی بدعت میں مبتلا کردیتا ہے، اور اِسی عدمِ تعلق کے نظریہ کو عذابِ قبر کا انکار لازم ہے، حالانکہ عذابِ قبر کا عقیدہ آیاتِ کثیرہ اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، اور اِس کے منکر کو فقہائے دین اور علمائے اسلام نے کافر قرار دیا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ عصرِ ہذا کے معتزلہ نے اختلافِ تعبیرات کا بہانہ بناکر عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی راہ ہموار کی ہے، اگر یہ لوگ اکابر علمائے اسلام کے حق میں واقعی مخلص ہوتے تو اکابر کی طرح ”تعلق“ جیسے اجماعی عقیدے پر ایمان و یقین ضرور رکھتے، لیکن ”تعلق“ کے انکار سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ لوگ اکابر کی راہ پر ہرگز نہیں ہیں، بلکہ تعلق کا انکار کرکے اِن لوگوں نے پوری اُمت سے کٹ کر ایک نئی راہ ایجاد کر رکھی ہے، اور اعتقادی بدعت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ آج بھی اگر یہ لوگ اکابر علمائے اسلام کے عقیدے کے مطابق روح اور جسد کا تعلق اور علاقہ تسلیم کرلیں اور اِس سے اگلی تفصیلات میں نہ جائیں تو اِس مسئلے کی حد تک علمائے اہلِ سنت کا ان سے کوئی اختلاف نہ ہوگا، اختلاف تو اسی بات میں ہے کہ علمائے اہل سنت فرماتے ہیں کہ بعد الوفات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کا جسدِ اَطہر سے تعلق ہے، جبکہ عصرِ ہذا کے معتزلہ کے یہ لوگ اِس کے انکاری ہیں، یہ ہے وجہ نزاع اور نقطہٴ اختلاف۔ تو ثابت ہوا کہ یہ لوگ تعبیراتی اختلاف کو آڑ بناکر ایک اجماعی عقیدے کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔
مختلف تعبیرات کا مآل تقریباً ایک ہے
عقیدہٴ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرِ مشترک کو معلوم کرنے کے بعد یہ بات بھی ذہن نشین فرمالیں کہ مختلف تعبیرات میں بھی کوئی لمبا چوڑا اختلاف نہیں ہے، بلکہ مآل کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے، جس کو مختلف الفاظ میں ادا کیا گیا ہے، مثلاً جن حضرات نے حلول و دُخول کا قول اختیار کیا ہے، ان کی مراد بھی روح اور دُنیا والے جسد کا تعلق ہی ہے۔
دیکھئے! عالمِ دُنیا میں روح کا بدنِ انسانی میں دُخول و حلول ہوتا ہے، لیکن اس کو دُنیوی تعلق سے تعبیر کیا جاتا ہے، چونکہ عالمِ قبر، عالمِ خواب سے ملتا جلتا جہان ہے اور عالمِ خواب والا اپنے آپ کو ایسے ہی محسوس کرتا ہے جیسے وہ عالمِ دُنیا میں تھا اور وہ اپنی روح کو اپنے جسم کے اندر ہی محسوس کرتا ہے، شاید اِسی وجہ سے اِس تعلق کو دُخول و حلول سے تعبیر کردیا گیا۔ لہٰذا دُخول و حلول کے لفظ سے تعلق کی نفی سمجھنا یا اِن میں تضاد سمجھنا قلتِ تدبر اور سوءِ فہم کا نتیجہ ہے۔ اور جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات بعد الوفات کو حیاتِ دُنیوی سے تعبیر کیا ہے، ان کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیات دُنیا والے جسدِ اَطہر سے متعلق ہے، یعنی روحِ اقدس کا دُنیا والے جسدِ عنصری سے تعلق ہے، ان کی یہ مراد نہیں ہے کہ عالمِ قبر کی زندگی بالکل اور ہر لحاظ سے دُنیا والی زندگی کی طرح ہے کہ حیاتِ دُنیا کے سارے لوازمات وہاں پائے جائیں، روح بدن کی تدبیر کرکے جسم میں نشو ونما پایا جائے اور حیاتِ دُنیا کی طرح قبر کی زندگی محسوس و مبصر بن جائے حتیٰ کہ والبعث بعد الموت قبل از وقت ظہور پذیر ہوجائے اور مردہ انسان عالمِ دُنیا والی پہلی حالت پر دوبارہ واپس آجائے۔ اور جو علماء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حیاتِ دُنیوی بمعنی مذکورہ بالا کہتے ہیں، وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو حیاتِ برزخیہ بھی کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بعد از وفات عالمِ برزخ کی طرف منتقل ہوچکے ہیں، اِس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات برزخیہ ہے، اور چونکہ دُنیا والا جسد اِس حیاتِ برزخیہ میں شامل ہے، اِس لئے حیات دُنیوی ہے۔ پس حیاتِ برزخیہ سے دُنیا والے جسد کی حیات کی نفی کرنا جہالت ہے، اور حیاتِ برزخیہ اور حیاتِ دُنیویہ میں تضاد سمجھنا حماقت ہے۔
اِسی طرح جن حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ قبر کو برزخی کہہ کر حیاتِ دُنیا کی نفی کی ہے، ان کی مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیات بالکل اور ہر لحاظ سے دُنیا کی زندگی کی طرح نہیں ہے، اس سے ان کا مقصد دُنیا والے جسد کو حیات سے محروم کرنا ہرگز نہیں ہے، لہٰذا ایسا کہنے والے حضرات کے کلام سے ”تعلق“ اور دُنیا والے جسد کی حیات کی نفی سمجھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
اسی طرح بعض علماء نے قرآن مجید کی آیات: ”وَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ“ وغیرہ کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ موت کے بعد روح کا جسم سے تعلق بالکل ختم کردیا جاتا ہے، تو اُن علماء کی مراد یہ ہے کہ دُنیا والا تعلق بالکل ختم کردیا جاتا ہے، یعنی وہ حضرات دُنیا والے تعلق کی نفی کرنا چاہتے ہیں نہ کہ قبر و برزخ کے تعلق کی۔ کیونکہ وہی حضرات برزخی تعلق کے قائل ہیں اور اس کو ثابت کرتے ہیں، لہٰذا جس تعلق کی نفی کرتے ہیں وہ اور ہے، اور جس تعلق کا اثبات کرتے ہیں وہ اور ہے۔ لیکن کج فہم معتزلہ خود بھی فریب خوردہ ہیں اور دُوسروں کو بھی فریب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، اِس لئے جہاں کہیں ان کو بعد الوفات تعلق کی نفی ملتی ہے، اس کو برزخی تعلق پر چسپاں کردیتے ہیں، حالانکہ برزخی تعلق کی نفی کسی نے بھی نہیں کی، بلکہ سب نے اس کا اثبات کیا ہے، نفی تو ہو رہی ہے دُنیاوی تعلق کی، اور فٹ کردیتے ہیں برزخی تعلق پر۔
اور جن حضرات نے قبر کی زندگی کو حیاتِ روح یا حیاتِ روحانی سے تعبیر کیا ہے، ان کا مقصد بھی دُنیا والے جسد کی حیات کی نفی کرنا نہیں ہے، اور نہ ہی وہ روح اور دُنیا والے جسد کے مابین تعلق کا انکار کرتے ہیں، کیونکہ وہ خود اپنی تحریروں میں حیاتِ قبر بہ تعلق روح مع الجسد العنصری کا اقرار کرچکے ہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ حیاتِ قبر کو حیاتِ روح یا حیاتِ روحانی سے کیوں تعبیر کرتے ہیں؟ تو وجہ یہ ہے کہ عالمِ دُنیا اور عالمِ قبر و برزخ کی حیات میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ دُنیا میں جسد ظاہر اور اصل ہے اور روح اُس کے تابع ہے، اور دُکھ سکھ کے حالات اوّلاً جسد پر طاری ہوتے ہیں اور روح بالتبع اِس سے متأثر ہوتی ہے، برخلاف عالمِ قبر و برزخ کے کہ وہاں کے حالات اوّلاً روح پر طاری ہوتے ہیں اور جسد بالتبع اُس سے متأثر ہوتا ہے، چنانچہ اِ س اصلیت اور تبعیت کی وجہ سے دُنیا کی زندگی کو حیاتِ جسمانی اور قبر کی زندگی کو حیاتِ روحانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس طرح یہاں حیاتِ جسمانی اور تکلیفِ جسمانی کہنے سے روح کی نفی نہیں سمجھی جاتی، اِسی طرح قبر کی حیات کو حیاتِ روحانی کہنے سے جسد کی نفی نہیں ہوتی، لہٰذا حیاتِ روح اور حیاتِ روحانی کہنے سے جسد کی نفی کردینا یا تعلق کی نفی کرنا کج فہمی کا نتیجہ اور قلتِ فہم کا ثمرہ ہے۔
اِسی طرح قبر کی حیات کو تعلق اتصال یا تعلق اشراق یا تعلق انعکاس سے تعبیر کرنا کوئی الگ الگ مذہب نہیں ہیں، بلکہ ایک ہی حقیقت کو ادا کرنے کی مختلف تعبیریں ہیں، مآل سب کا ایک ہی ہے۔ دُوسرے لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ:
جن حضرات نے فرمایا کہ عالمِ قبر و برزخ میں روح جسدِ عنصری کے اندر ہے، انہوں نے وہاں کے عالم کے اعتبار سے فرمایا، کیونکہ وہاں مردہ انسان روح کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے، جیسا کہ عالمِ خواب والا اپنی روح کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔
اور جن لوگوں نے تعلق کا قول کیا اُنہوں نے عالمِ دُنیا کا اعتبار کیا، کیونکہ مردہ انسان پر موت کے وقت سے انقباضِ روح ہوچکا ہے، اور اب جو قبر میں حساب و کتاب ہے، سوال و جواب ہے، اور ثواب و عقاب ہے، تو یہ سب کچھ تعلق روح مع الجسد العنصری کی وجہ سے ہے۔ بہرحال یہ مُسلَّمہ حقیقت ہے کہ قبر میں مردہ انسان، نکیرین کو دیکھتا ہے، ان کی باتوں، سوالوں کو سنتا ہے اور جواب دیتا ہے، اور قبر کی جزا و سزا اور دُکھ سکھ کے محسوس کرتا ہے، اور اِن اُمور کے لئے حیاتِ قبر لازمی ہے، اور یہ حیاتِ قبر آیاتِ قطعیہ اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، اِسی لئے ہمارے فقہائے کرام نے عذابِ قبر یعنی حیاتِ قبر کے منکر کو دائرہٴ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ اور عذابِ قبر یعنی حیاتِ قبر کی صحیح صورت یہی ہے کہ دُنیا والا جسدِ عنصری جزا و سزا میں شامل ہوتا ہے۔ اور اِس صحیح صورت کے منکر کو مفتیانِ کرام نے اہلِ سنت سے خارج فرماکر ضال و مضل قرار دیا ہے، اور ایسے بدعقیدہ امام کی اقتداء فی الصلوٰة سے بھی منع کیا ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اکابر علمائے اہلِ سنت کی راہ ”صراطِ مستقیم“ پر استقامت نصیب فرمائے اور ذہنی آوارگی اور بے راہ روی سے محفوظ رکھے، آمین یا رَبّ العالمین!
بشکریہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاون