تجوید قراءت سے متعلق چند مسائل

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تجوید قراءت سے متعلق چند مسائل​

سوال:قراءت سبعہ میں سے کوئی ایک روایت نماز میں پڑھنا کیسا ہے ؟ کیا حفص کی روایت اور روایتوں سے اولیٰ ہے یا برابر؟ نیز اگر کئی روایتیں نماز کے اندر خلط ملط ہو گئیں تو نماز ہو گی یا نہیں ؟
(2) قرآن میں کہیں کہیں صرف درمیان میں آیت لا لکھا رہتا ہے ،اس پر ٹہرجانے سے اعادہ ضروری ہے یا اس کے ما بعد سے پڑھا جائیگا ؟
(3) ۔۔۔حروف مقطعات میں کہیں کہیں اخفاء کے قاعدے پائے جاتے ہیں ،کیا وہاں اخفا ہو گا تو کیوں ؟ اور اظہار ہو گا تو کیوں ؟
(4) استعاذہ قراءت سے پہلے پڑھنا واجب ہے یا مستحب ؟ نماز اور غیر نماز دونوں میں ،یا کسی ایک میں ؟
(5) ۔۔۔اخفا ،ادغام کے غنہ اور خالص غنہ کا واضح فرق کیا ہے ؟


جواب : ۔۔۔اگر نماز میں قراءت سبعہ متواترہ میں سے کوئی روایت پڑھی جائے تو با الاتفاق نماز ہو جائیگی ( سراج القراءت ضمیمہ ضیاء القراءت )
صاحب خلاصۃ البیان ( صفحہ 8 کی عبارت ملاحظہ ہو ) وقد اتفقت الائمہ علی صلاۃ وقراء فیھا القراءۃ المتواترہ من القراء العشرہ جازت صلاتہ بلا خلاف ۔ حضرات ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ کوئی نماز پڑھے اور اس میں ایسی قراءت متواترہ پڑھے جس میں قراء سبعہ متفق ہوں تو بغیر کسی اختلاف کے اس کی نماز صحیح ہو جائیگی ۔
شامی: 1 ص 364 کی عبارت یہ ہے : ویجوز با لروایات السبع ۔
اب رہا یہ سوال لہ خلط کی صورت میں نماز ہو گی یا نہیں ؟ مثلا کوئی ایک رکعت میں امام نافع کی قراءت کرے ، دوسری رکعت میں امام مکی کی قراءت کرے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نماز ہو جائیگی نفس قرآن ہو نے کی وجہ سے مگر خلط فی القراءۃ یا خلط فی الروایۃ حتی کہ خلط فی الطرق سے احتراز چاہئے اگر کوئی شخص کہیں امامت کرے ، تو پھر تو ایسی قراءت پڑھنی چاہئے کہ جس سے عوام خلطی میں مبتلا نہ ہوں ، اس لئے کہ وہ ایک ہی قراءت جانتے ہیں ،اگر دوسری قراءت شروع کر دی تو وہ قرآن کریم کا مذاق اڑائیں گے۔
چنانچہ کبیری شرح منیۃ المصلی : 463 میں ہے ‘‘ قراءۃ القرآن با لقراءات السبع والروایات کلھا جائزۃ ، لکن اریٰ الصواب ان لا یقرء با لقراءۃ العجیبۃ والروایات الغریبۃ لان السفھاء یقعون فی الاثم ۔

2۔۔۔۔۔ ضیاء القراءۃ صفحہ 20 پر مرقوم ہے :البتہ سانس پوری ہو جانے کی وجہ سے درمیان آیت علامت وصل وغیرہ پر وقف کر لیا جائے تو اعادہ ضروری ہے ۔
شارح ضیاء القراءت علامہ قاری محب الدین صاحب الٰہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ ۔
شارح ضیاء القراءت علامہ قاری محب الدین صاحب الٰہ آبادی اپنی کتاب ‘‘ تنویر المرآت شرح ضیاء القراءت ‘‘میں تحریر فر ماتے ہیں علامت وصل دو ہیں۔ایک الف لام ، یہ علامت ہے لا وقف علیہ کی یعنی اس جگہ وقف نہیں ہے ، دوسرے صلے یہ وصل اولیٰ کامخفف ہے ۔
اور اس کے ماقبل کی عبارت میں فرماچکے ہیں کہ غیر علامت وقف پر ٹہر جائے تو اعادہ کرنا چاہئے ، لہذا اگر صرف لا مرسوم ہو تو اعادہ کرنا چاہئے ،اور آیت لا ہو یعنی آیت کے اوپر علامت لا مرسوم ہو تو پھر اعادہ کرنا چاہئے ، کیونکہ کہ مطلقا آیت پر ٹہرنا مستحب ہے ، اگر چہ آیت پر علامت وصل ہی کیوں نہ ہو ۔

3۔۔۔ حروف مقطعات میں سے کۤھٰیٰعۤصؔ کے عین کے نون ساکن میں طٰسۤ(نحل) کے سین کے نون ساکن میں عۤسۤقۤ (شوریٰ) کے عین اور سین کے نون ساکن میں سب قاعدہ اخفا ء حقیقی مع الغنہ ہو گا ، کیونکہ نون ساکن کے بعد حروف حلقی ، حروف یر ملون باء اور الف کے علاوہ پندرہ حرفوں میں سے کوئی نہ کوئی حرف آیا ہے ، چنانچہ تنویر المرآت شرح ضیاء القراءت ( ص 52 ) میں ہے حروف مقطعات میں سے کۤھٰیٰعۤصؔ اورعۤسۤقۤ کے عین اور سین کے نون ساکن میں اخفا مع الغنہ ہوگا ،اسی طرح طٰسۤ تلک میں سین کے نون کا بحالت وصل اخفاء ہوگا ، یاد رہے کہ کلمات مذکورہ بالا کے نون ساکن میں اظہار کا کوئی قاعدہ نہیں پا یا جا رہا ہے ۔اخفاء ہی متعین ہو گا ۔

4۔۔۔ استعاذہ قراءت سے پہلے نمازاور خارج نماز دونوں میں پڑھنا ہمارے ائمہ احناف کے نزدیک مستحب ہے جیسا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح شاطبیہ میں فر امتے ہیں ‘‘ والصحیح انھا مستحبۃ بقرینۃ الشرط ،فان المشروط غیر واجب فکذا الشرط ‘‘ ۔
ازروئے فقہ بھی استعاذہ واجب نہیں ہے ، بلکہ سنت ہے ،صاحب نور الایضاح نے نماز میں پندرہ سنتوں میں شمار کیا ہے ۔

5۔۔۔ اخفاء کے لغوی معنیٰ ستر اور چھپانے کے ہیں ،اور اصطلاحی معنیٰ اظہار اور ادگام کے درمیان مع غنہ کے ادا کرنا اور ادگام کے لغوی معنیٰ ‘‘اد کال الشئی فی الشئی ‘‘ یعنی ایک چیز کو دوسری چیز میں داخل کرنا ، جیسا کہ کہا جاتا ہے ‘‘ادغمت اللجام فی الفرس ‘‘ یعنی لگام کو گھوڑے کے منہ میں داخل کردیا ۔
اور اصطلاحی معنیٰ ایک حرف کو دوسرے حرف میں ملا کر اس طرح مشدد پڑھنا کہ زبان ایک بار مرتفع ہو م دو بارہ مرتفع نہ ہو ۔
اخفاء اور ادغام میں فرق یہ ہے کہ اخفا میں تشدید نہیں ہو تی ،اور ادغام میں تشدید ہو تی ہے ،اور اخفا حرف کے پاس ہو تا ہے ، حرف کے اندر نہیں ہو تا ، اور ادغام یہ حرف کے اندر ہوتا ہے ،۔
اخفاء کیلئے غنہ ضروری ہے ،اور ادغام کیلئے غنہ ضروری نہیں ہے ، کہیں ادغام مع الغنہ ہوتا ہے ۔ جیسے من یقول اور کہیں ادگام بلا غنہ ہو تا ہے جسیے من لدنہ ۔
یاد رہے کہ اخفا اور ادغام مع الغنہ کا محل خیثوم ہے یعنی ناک کے بانسہ سے بقدر ضرورایک الف یعنی ایک سکنڈ تک آواز غنہ کی نکالی جاتی ہے ہرن کی آواز کی طرح ، جو وہ اپنے بچے کے ضائع ہو نے کے وقت نکالتی ہے ۔اور ثم ان میں خالص غنہ ہوگا ۔ نہ اخفا ہو گا نہ ادغام ۔
( المنح الفکریہ ،شرح المقدمۃ الجزریہ وغیرہ ۔( فتاویٰ ریاض العلوم جلد 2)
 

خادمِ اولیاء

وفقہ اللہ
رکن
مولانا قاسمی صاحب اللہ آپ کو جزائے عظیم عطا فرمائے
آپ نے نہایت احسن کارنامہ سرانجام دیا ہے اور آغاز کیا ہے
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
بہت شکریہ جناب قاسمی صاحب ۔ ۔ ۔ آپ نے بہت اچھے اور مفید انداز میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top