تمباکو وبیڑی وغیرہ کی حلت
تمباکو وبیڑی وغیرہ کے متعلق علماء کی تین رائے ہیں۔
(1) جواز (2) عدم جواز (3) کراہت
لیکن صحیح قول جواز والا ہے ۔ چنانچہ علامہ شامی در مختار کی ایک عبارت نقل کر کے فرماتے ہیں ۔اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ بیڑی نہ تو مسکر ہے اور نہ مفتر نہ مضر ،اور محقق ابن ہمام نے تصریح فر مائی ہے کہ جمہور حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک اصل اشیاء میں اباحت ہے ، نیز علامہ شامی نے ایک مالکی عالم کے ایک رسالہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ مذاہب اربعہ کے قابل اعتماد علماء نے حلال ہونے کا فتویٰ دیا یے ۔(1) جواز (2) عدم جواز (3) کراہت
نیز علامہ شامی فر ماتے ہیں ‘‘سید العارف عبد الغنی نا بلسی‘‘ نے بیڑی کے جواز میں ایک رسالہ لکھا ہے ،اور حرمت وکراہت کے قائلین پر حجت کبریٰ قائم کر دی ،اور حاصل دلیل یہ ہے کہ حرمت وکراہت حکم شرعلی ہیں ، جس کے لئے دلیل شرعی ضروری ہے ،اور حرمت وکراہت پر دلیل ہے نہیں ،اس لئے نہ تو بیڑی کا اسکار ثابت ہوا نہ افتار نہ اضرار ، بلکہ اس کے بر عکس بہت سے منافع ثابت ہو چکے ہیں ، لہذا الاصل فی الاشیاء الاباحۃ کے قاعدے میں داخل ہے ،اور بعض افراد کیلئے مضر ہو نے سے تمام لوگوں پر حرام ہونا لازم نہیں آتا ، کیونکہ شہد صفراوی مزاج والوں کے لئے مضر ہے ، حالانکہ ان کا شفا ہونا نص قطعی سے ثابت ہے اور بدون دلیل شرعی اپنی طرف سے حرمت یا کراہت کا حکم لگانے کو احتیاط نہیں کہیں گے ، بلکہ اللہ تعالیٰ پر افترا ہوگا ، دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ام الخبائث ( شراب) کو حرام نہ فر مایا تا آنکہ نص قطعی کا نزول نہ ہوا۔
علا طحطاوی سے علامہ شامی نے نقل فر مایا ہے کہ یہ لہسن پیاز کے ساتھ ملحق ہے ،اور یہی دلیل کے موافق ہے ،اس لئے کہ اس میں نا پسندیدہ بو ہو تی ہے ، لہذا بیڑی وغیرہ پی کر جب تک منہ میں بو باقی رہے ، مسجد میں جانا جائز نہیں ہے ،اسی طرح جب لوگوں کو اس کی بو سے تکلیف ہو تو مجمع میں بھی جانا جائز نہیں۔
اسی طرح تمباکو کھانے والوں کو بلا شبہ سلام کرنا جائز ہے ،اس لئے اول تو تمباکو کا استعمال بذات خود جائز ہے ،دوم اس وجہ سے کہ جس چیز کے عدم جواز میں اختلاف ہو ، اس پر نکیر نہیں کرنا چاہئے ۔ کما فی علاء السنن ‘‘ثم العلماء انما ینکرون ما اجمع علیہ، اما المختلف فیہ فلا انکار فیہ ۔الخ۔
فتاویٰ ریاض العلوم