مشرقی و مغربی پاکستان جمعیت علمائے اسلام کے ناظم عمومی مولانا غلام غوث ہزاروی (رح) کو ہم سے جدا ہوئے 28 سال بیت گئے لیکن جمعیت علمائے اسلام کو پروان چڑھانے اور یکجا کرنے والا کوئی لیڈر پیدا نہ ہو سکا۔ آپ کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے ضلع مانسہرہ کے قصبہ بفہ سے تھا۔ اسی نسبت سے آپ مولانا ہزاروی مشہور ہوئے۔ آپ کے اور بھی القابات تھے۔ مجاہد ملت، بطل حریت، ضیغم اسلام، وکیل صحابہ و اہل بیت، بابائے جمعیت وغیرہ۔ آپ نے جنگ آزادی میں انگریز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنوں کی مخالفت برداشت کر کے ملک آزاد کرانے کے گہرے نقوش چھوڑے۔ پاکستان بن جانے کے بعد جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی تشکیل ضروری سمجھی گئی۔ مشرقی و مغربی پاکستان کے اجلہ علمائے کرام کی کئی میٹنگز ہوئیں۔ امارت کیلئے مفسر قرآن و محدث صرف حضرت مولانا احمد علی لاہوری پر نظریں جم گئیں۔ امارت قبول کرنے کیلئے مولانا احمد علی لاہوری نے مولانا غلام غوث ہزاروی کا (جنرل سیکرٹری) کا عہدہ قبول کرنے کی شرط لگا دی۔ چنانچہ آل پاکستان اجلہ علمائے کرام کے اصرار پر حضرت ہزاروی ناظم عمومی اور مولانا احمد علی لاہوری امیر جمعیت علمائے اسلام منتخب ہو گئے۔ آپ حضرت لاہوری کے اعتماد پر اس طرح پورے اترے کہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مشرقی و مغربی پاکستان میں ڈیڑھ ہزار فعال دفاتر کھول دیئے گئے۔جمعیت علمائے اسلام ایک قوت بن کر ابھری۔مخالفین نے 1960ء سے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ہزاروی گروپ لکھنا شروع کر دیا۔یہ جمعیت میں پھوٹ ڈالنے کی ایک کوشش تھی لیکن اس وقت جمعیت میں اخلاص ہی اخلاص تھا۔ کوئی انتشار نہ ہوا۔ 2001ء تک جمعیت علمائے اسلام ہزاروی گروپ کے نام سے بیانات و مضامین اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔مولانا غلام غوث ہزاروی مغربی پاکستان اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور دونوں جگہوں پرکارہائے نمایاں انجام دیئے۔ آپ کی محنت و کوشش سے خلاف اسلام قوانین کو مغربی پاکستان اسمبلی نے نامنظور کیا۔قومی اسمبلی میں آپ کی طرز سیاست سے آئین میں اسلامی رنگ موجود ہے۔ یہ رنگ اور بھی یقیناً نکھرتا لیکن ایک سازش کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ مولانا ہزاروی نے ختم نبوت کے مسئلے پر مسٹر بھٹو مرحوم سے طویل ملاقات کی جس میں تبلیغی عنصر نمایاں تھا۔ دوسرے دن نصرت بھٹو صاحبہ نے تین گھنٹے مولانا سے اپنے سوالات کے جوابات سنے اور دونوں مطمئن ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسمبلی میں قادیانیوں سے مسلمانوں کا مناظرہ کرایا اور اسلام جیت گیا۔ قرارداد منظور ہو گئی، قادیانی، مرزائی غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔مولانا ہزاروی کہا کرتے تھے جو شخص شریعت کو سیاست سے اونچا سمجھے اور رسول اللہ کا احترام کرے اس کے خلاف ایجی ٹیشن سے مجھے رسول خدا کے سامنے شرم محسوس ہوتی ہے تاہم اب مفتی محمود مرحوم کے فرزند مولانا فضل الرحمن، مولانا ہزاروی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔مولانا ہزاروی کی سیاسی بصیرت سے جب نیشنل پارٹی کے صدر ولی خان مرحوم نے جمعیت علمائے اسلام کے نکات تسلیم کرائے تو مفتی محمود کی وزارت اعلیٰ کا راستہ ہموار ہوا۔ مولانا ہزاروی نے دیوبند سے جمعیت طلبہ بنا کر سیاست شروع کی جبکہ اس سے پہلے دیوبند میں سیاست شجر ممنوعہ تھی۔ مولانا نے اہتمام کے ساتھ ملاقاتیں کر کے ان کو قائل کیا۔ انتظامیہ نے میٹنگ کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ اگر کوئی حدیث کا استاد جمعیت طلبہ اسلام کی صدارت و سرپرستی قبول کرے تو اجازت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ آپ نے اپنے استاد مولانا شبیر احمد عثمانی کو قائل کیا۔ وہ جمعیت طلبہ اسلام کے صدر (امیر) اور مولانا ہزاروی جنرل سیکرٹری بنے اور پھر ہندوستان کا دورہ کیا۔آپ غریب عوام سے پیار کرتے تھے۔ غریب آدمی کی دعوت قبول کرتے تھے۔ ظالم، متکبر اور غریبوں کی زمینیں ہتھیانے والے خوانین کو ببانگ دہل جلسہ عام میں للکارتے تھے۔ 400 سالہ خوانین کا رعب غریبوں کے دلوں سے آپ نے نکالا۔ مولانا ہزاروی شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی سے متاثر تھے۔ ان کا پاکستان کا پہلا جھنڈا محمد علی جناح کی موجودگی میں لہرانا اور 22 نکات یا قرارداد مقاصد میں ان کی سعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مولانا ہزاروی (رح)، مولانا حسین احمد مدنی (رح) کے شاگرد بھی تھے اور ان کے عاشق بھی تھے۔ آپ فتویٰ مولانا اشرف علی تھانوی کا قبول کرتے تھے۔ لوگ آج بھی مولانا ہزاروی (رح) کو یاد کرتے ہیں۔ مخالف سے مخالف آدمی بھی آپ کی دیانت، امانت، سچائی، غریب پروری، تقویٰ، طہارت اور شب زندہ داری کا قائل ہے۔
تحریر : خاکپائے مجاہدین ختم نبوت
بشکریہ
اون اسلام
تحریر : خاکپائے مجاہدین ختم نبوت
بشکریہ
اون اسلام