سید محمد جونپوری کی مہدوی تحریک قسط 3

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اس موقع پر سلطان غیاث الدین خلجی کے خاص امراء میں سے ایک میاں الہداد حمید بھی ان کے حلقہ ادارت میں شامل ہو گئے ۔وہ بڑے پایہ کے عالم ، عمدہ شاعر اور بلند پایہ مصنف تھے اور بڑی شہرت کے مالک تھے ۔بعد میں وہ مہدویوں کے خلیفہ ششم ہوئے ۔ان کی کثیر التعداد تصنیفات ہیں جن میں سے مرثیہ مہدی موعود ،ایک دیوان ،رسالہ بار امانت اور رسالہ در ثبوت مہدیت بڑی مشہور ہیں ۔ان کی ان تصنیفات سے مہدوی تحریک کو بھی بڑی تقویت اور شہرت حاصل ہوئی ان کے ایک قابل قدر شاگرد ابن خواجہ طہ صاحب دیوانِ مہری بھی بڑے قابل قدر انسان تھے ۔
اس کے بعد سید محمد نے 888ھ مطابق 1484ء میں جاپنایز پہنچ کر وہاں کی جامع مسجد میں ڈیرے جمادیے ۔وہاں بے شمار لوگ ان کی وعظ وتلقین سننے آتے تھے ۔ان میں سے ایک سلطان محمود بیگڑہ ( 1511ھ) بھی تھے وہ ان سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی ان سے ذاتی طور پر ملاقات کی خواہش کی مگر بعض امراء نے ان کی ملاقات کو مصلحت حکومت کے خلاف سمجھا ۔۔۔ سید محمد وہاں ڈیڑھ سال رہے ۔اور اس دوران میں ہزاروں لوگ ان سے مستفیض ہوئے ۔اسی جگہ ان کی اہلیہ وفات پا گئیں اور وہیں قلعہ میں دفن ہوئیں۔

وہاں سے پھر وہ برہان پور ہوتے ہوئے دو لت آباد پہمچے اور اس جگہ کے صوفیا کے مزارات کی زیادت کی ۔پھر وہ احمد نگر پہنچےان دونوں وہاں ملک احمد نظام شاہ اول ( 1490ح مطابق 1508ء ) کی حکومت تھی وہ بھی ان گر ویدہ ہو گیا اور اس نے ان سے بیٹے کی ولادت کے لئے دعا کی خواہش کی ۔ چنانچہ ان کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا فر مایا جس کا نام بر ہان نظام رکھا ۔ بعد میں وہ سات برس کی عمر میں سلطان برہان نظام شاہ اول کے نام سے ( 1808۔ 1553ء ) سلطنت کا وارث ہوا ۔
احمد نگر سے پھر وہ بیدر پہنچے وہاں ان دنوں ملک قاسم برید کی حکومت تھی اور وہاں بھی بے شمار ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے ۔
احمد نگر سے گلبرگہ گئے اور وہاں سید محمد گیسو دراز بندہ نواز کے مزار کی زیارت کی ۔
اس سفر کے بعد اپنے 360 پیروکاروں کے ساتھ 901ھ میں بندر گاہ ابھول سے بحری جہاز میں مکہ معظمہ چلے گئے جہاں طواف کعبہ کے بعد رکن یمانی اور مقام ابرا ہیم کے در میان 901 ھ 1495 ۔1494ء میں کھلم کھلا اپنے مہدی ہو نے کا اعلان کیا ۔تاریخ مہدوی کے مطابق یہ ان کے مہدی ہو نے کا سب سے پہلا اعلان اور دعویٰ سمجھا جاتا ہے ۔اس کے بعد وہ چند ماہ مزید مکہ معظمہ میں رہے مگر مدینہ منورہ میں حاضری دیئے بغیر ہندوستان چلے آئے ۔
مختلف شہروں اور ملکوں کا سفر کرتے ہوئے قندھار سے فرہ پہونچے اور 63سال کی عمر میں بروز سوموار 19 ذی قعدہ 910ح مطابق 23اپریل 1504 میں یہیں انتقال ہوا ۔کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ان کے خلیفہ میاں الہداد نے ان کی قبر پر ایک بڑا درد ناک مرثیہ پڑھا تھا ۔ان کی وفات کے بعد ان کے بہت سے مرید واپس ہندوستان چلے آئے تھے اور جو تھوڑے بہت فرہ میں رہے ،ان میں سے ایک شیخ محمد فرا ہی تھے جنہوں نے بعد میں اپنے عیسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔
 
Top