ایران کے وسط میں مشرق رخ’’ سیستان‘‘کی ایک ریاست تھی یہاں کی آب وہوا بہت عمدہ ہے اور آج بھی اس سر زمین میں عمدہ عمدہ میوہ جات پیدا ہو تے ہیں ۔
یہاں کے ایک عادل بادشاہ سید حسین ابن سید ابو القاسم کی حکومت تھی دنیا وی دولت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان کو دینی دولت بھی ورثہ میں ملی تھی آپ کے تین فرزند اور دو
لڑ کیاں تھیں۔ انھیں تین فرزندوں میں سب سے چھو ٹے حضرت سید فخر الدین ؒ جو ۵۶۴ ھ میں پیدا ہو ئے۔
چھ مہینہ کی ہی مدت میں آپ نے قرآن شریف حفظ کر لیا اور بہت جلد علوم مروجہ میں کافی
دسترس حاصل کی ۔
آپ کے والد بزرگ گوار نے آپ کی ذکاوت اور ذہانت دیکھ کر آپ کو اپنا جا نشین بنا لیا اور آپ کو اپنی ہی زندگی میں کار وبار سلطنت میں حصہ لینے کا موقع دیا ۔تقریباً اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی والد بزرگوار کی وفات کے بعد بلا شرکت غیر پچیس سال کی سن میں آپ کو بادشاہ سیستان بنا دیا گیا۔
حضرت سید بابا فخر الدینؒ کا ارادہ پہلے سے بادشاہ بننے کا ہی نہ تھا وہ چاہتے تھے کہ کہ اپنے چچا زاد بھائی سید علی کو بادشاہ بنا دیں لیکن امرا و وزرا اور تمام رعایا کے تقاضے سے آپ نے بادشاہی اختیار کی ۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت سید بابا فخر الدینؒ دربار میں عدل وانصاف فرما رہے تھے اس وقت ایک تاجر چند عمدہ گھو ڑے لا یا جن میں ایک گھوڑا بہت عمدہ اور تیز رفتا ر تھا اس گھو ڑے کو دیکھ کر آپ نے ادھر توجہ کی اور عدل وانصاف کے کام سے ذرا سی دیر کیلئے رک رہے تھوڑی دیر کے بعد عدل وانصاف کی طرف متوجہ ہوئے آپ کو اپنا تھوڑی دیر کیلئے عدل وانصاف کو چھوڑ کر گھوڑے کی طرف مائل ہو نا بہت ہی برا معلوم ہوا علماء کو بلا کر فتویٰ طلب کیا ایک جید عالم نے اس کا کفارہ ترک بادشاہی بتلایا اوریہ حدیث پڑھی ۔
الدنیا جیفۃ وطالبھا کلاب (یعنی دنیا مردار ہے اور اس کا طلبگا ر کتا ہے)اس حدیث نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اس راست باز عالم سے خوش ہو کر اسے انعام واکرام دیا اور فوراً تخت شاہی سے اتر کر تاج کو سر سے اور مہر کو انگشتری سے نکال ڈالا۔
آپ نے فوراً منا دی کرادی کیا چھوٹے کیا بڑے سب حاضر در بار ہوں بڑے بڑے امرا وزرا تجار رعایا حاضر دربار ہوئے آپ نے ان کے روبرو ایک تقریر کی اور سب کو راضی کر لیا کہ آپ کے بھائی سید مرتضیٰ کو آپ بادشاہی دیویں گے اور اس دربار میں بھائی سے عدل وانصاف کا اقرار لے کر انہیں مالک تخت وتاج کر دیا اور جا بجا بجلی کی طرح یہ خبر پھیل گئی ۔
حضرت سید بابا فخر الدین ؒ نے سیستان کی بادشاہی اپنے بھائی سید مرتضیٰ کو اور ترکستان کی بادشاہی سید علی کو دیدی اس کے بعد حج بیت اللہ ادا کر نے کا خیال کیاخویش واقارب سے اجازت لے کر چلدئیے ۔آپ سیستان سے چند وفا داروں کے ساتھ کشمیر تشریف
لائے چھ سات دن تلک ساتھیوں کو کھانا میسر نہ ہوا ساتھی تڑپ گئے اور آپ سے کھانے کی التجا کی آپ نے دعا کی تو ایک ہرن ایک روٹی لے کر آپ کی خدمت پہو نچا آپ اس روٹی کوایک کپڑے کے نیچے چھپا کر اوپر کپڑا ڈھانک کر اپنے ساتھیوں کو برابر اس روٹی کے ٹکڑے کھلاتے جاتے تھے اور روٹی ختم نہیں ہوئی تھی۔
الغرض اس روٹی سے تمام ساتھیوں کا پیٹ بھر گیا ۔
حضرت جب سرینگر پہو نچے تو وہاں کے راجہ کے گھر میں ایک لڑکے کی پیدائش ہو ئی تھی
نجو میوں نے اس لڑکے کی ولادت سے راجہ کے راج کو زوال کا سبب بتایا تھا راجہ نے اس بچے کو جنگل میں پھینک دیا جب حضرت کا گذر تین بعد وہاں سے ہوا تو اس روتے بچے کی آواز سن کر حضرت اپنے ساتھی عبد العزیز کو اس بچے کو اٹھا کر پالنے کی اجازت دیدی بچہ بھوک سے تڑپتا تھا آپ نے اس کے منہ میں انگشت شہا دت دیا تو اس سے دودھ نکلنے لگا اور اسی طرح وہ بچہ سیراب ہو تا رہا۔
وہاں سے حضرت سید علی ترکستان کی سلطنت چھوڑ کر حضرت کی تلاش میں آہی گئے اور یہ دونوں حضرات ملکر ہمیشہ چلہ کشی اور روزہ دار رہا کرتے تھے۔
جمنا کے جنگل میں حضرت ایک پیر سے تقریباً تین سال کھڑے ہو کر عبادت کی تھی۔ آپ حج سے فارغ ہو کر ہندوستان میں ترچنا پلی میں کھمم مٹھ میں ٹہرے آپ کو ایک شیخ کی تلاش ہوئی۔ آپ کو خواب میں حضرت مظہر ولی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ میرے پاس چلے آئیے انشاء اللہ آپ کا مقصد بر آئے گا آپ نے خواب سے بیدار ہو کر اپنے بھائی کو سنایا یہ سن کر سب یار واحباب خوش ہو گئے۔
ادھر حضرت مظہر ولی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی لے پالک دختر ماما جگنی کو حضرت سید بابافخر الدین ؒ کے پاس بھیجا کہ انھیں بلا لائے حضرت کے حکم سے ماماں جگنی اپنے چند خادموں کو لیکر حضرت بابا فخر الدینؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے والد کا فرمان سنایا سب کھمم مٹھ سے چل کر ترچنا پلی آئے۔
حضرت مظہر ولی ؒ سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے قدم بوسی کی اور حضرت مظہر ولی نے گرم جوشی سے آپ کو گلے لگا لیا حضرت نے آپ کو آزمانے کیلئے بہت سی مشقتیں کرائیں آپ نے ہر کام کو سر انجام دہی میں بڑی جانفشانی سے کام لیا اس وقت حضرت بابا فخر الدینؒ کو قابل جو ہر جان کر آپ کو اپنا مرید بنایا اور اپنی خلافت دی ،خرقہ پہنایا اور ولایت کا ’’ پیالہ‘‘ پلایا اور حضرت سید علی حضرت مظہر ولی ؒ کے خادموں میں داخل ہو کر شرف حاصل کیا۔
یہاں اپنی طاقت آزمانے کیلئے حضرت سید بابافخر الدینؒ ایک سنگ خارا پر کھڑے ہو کر اپنے پاؤں دھنسائے دونوں پاؤں اس سنگ خارگا میں اتر پڑے آج تک یہ یاد گار نشان ترچنا پلی میں موجود ہے۔
حضرت سید بابا فخر الدینؒ کی وفات بروز پنچشنبہ بارھویں تاریخ ماہ جمادی الثانی ۶۹۴ ھ میں ہوئی۔(سن وصال آج سے تقریباً ۷۳۵ سال پہلے)
نوٹ یہ سارے مضامین کتاب قلندر برحق سے لئے گئے ہیں۔
مولف: مولانا شاہ ابو الحسن ادیبؔ
بشکریہ
الصمد
یہاں کے ایک عادل بادشاہ سید حسین ابن سید ابو القاسم کی حکومت تھی دنیا وی دولت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان کو دینی دولت بھی ورثہ میں ملی تھی آپ کے تین فرزند اور دو
لڑ کیاں تھیں۔ انھیں تین فرزندوں میں سب سے چھو ٹے حضرت سید فخر الدین ؒ جو ۵۶۴ ھ میں پیدا ہو ئے۔
چھ مہینہ کی ہی مدت میں آپ نے قرآن شریف حفظ کر لیا اور بہت جلد علوم مروجہ میں کافی
دسترس حاصل کی ۔
آپ کے والد بزرگ گوار نے آپ کی ذکاوت اور ذہانت دیکھ کر آپ کو اپنا جا نشین بنا لیا اور آپ کو اپنی ہی زندگی میں کار وبار سلطنت میں حصہ لینے کا موقع دیا ۔تقریباً اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی والد بزرگوار کی وفات کے بعد بلا شرکت غیر پچیس سال کی سن میں آپ کو بادشاہ سیستان بنا دیا گیا۔
حضرت سید بابا فخر الدینؒ کا ارادہ پہلے سے بادشاہ بننے کا ہی نہ تھا وہ چاہتے تھے کہ کہ اپنے چچا زاد بھائی سید علی کو بادشاہ بنا دیں لیکن امرا و وزرا اور تمام رعایا کے تقاضے سے آپ نے بادشاہی اختیار کی ۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ حضرت سید بابا فخر الدینؒ دربار میں عدل وانصاف فرما رہے تھے اس وقت ایک تاجر چند عمدہ گھو ڑے لا یا جن میں ایک گھوڑا بہت عمدہ اور تیز رفتا ر تھا اس گھو ڑے کو دیکھ کر آپ نے ادھر توجہ کی اور عدل وانصاف کے کام سے ذرا سی دیر کیلئے رک رہے تھوڑی دیر کے بعد عدل وانصاف کی طرف متوجہ ہوئے آپ کو اپنا تھوڑی دیر کیلئے عدل وانصاف کو چھوڑ کر گھوڑے کی طرف مائل ہو نا بہت ہی برا معلوم ہوا علماء کو بلا کر فتویٰ طلب کیا ایک جید عالم نے اس کا کفارہ ترک بادشاہی بتلایا اوریہ حدیث پڑھی ۔
الدنیا جیفۃ وطالبھا کلاب (یعنی دنیا مردار ہے اور اس کا طلبگا ر کتا ہے)اس حدیث نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اس راست باز عالم سے خوش ہو کر اسے انعام واکرام دیا اور فوراً تخت شاہی سے اتر کر تاج کو سر سے اور مہر کو انگشتری سے نکال ڈالا۔
آپ نے فوراً منا دی کرادی کیا چھوٹے کیا بڑے سب حاضر در بار ہوں بڑے بڑے امرا وزرا تجار رعایا حاضر دربار ہوئے آپ نے ان کے روبرو ایک تقریر کی اور سب کو راضی کر لیا کہ آپ کے بھائی سید مرتضیٰ کو آپ بادشاہی دیویں گے اور اس دربار میں بھائی سے عدل وانصاف کا اقرار لے کر انہیں مالک تخت وتاج کر دیا اور جا بجا بجلی کی طرح یہ خبر پھیل گئی ۔
حضرت سید بابا فخر الدین ؒ نے سیستان کی بادشاہی اپنے بھائی سید مرتضیٰ کو اور ترکستان کی بادشاہی سید علی کو دیدی اس کے بعد حج بیت اللہ ادا کر نے کا خیال کیاخویش واقارب سے اجازت لے کر چلدئیے ۔آپ سیستان سے چند وفا داروں کے ساتھ کشمیر تشریف
لائے چھ سات دن تلک ساتھیوں کو کھانا میسر نہ ہوا ساتھی تڑپ گئے اور آپ سے کھانے کی التجا کی آپ نے دعا کی تو ایک ہرن ایک روٹی لے کر آپ کی خدمت پہو نچا آپ اس روٹی کوایک کپڑے کے نیچے چھپا کر اوپر کپڑا ڈھانک کر اپنے ساتھیوں کو برابر اس روٹی کے ٹکڑے کھلاتے جاتے تھے اور روٹی ختم نہیں ہوئی تھی۔
الغرض اس روٹی سے تمام ساتھیوں کا پیٹ بھر گیا ۔
حضرت جب سرینگر پہو نچے تو وہاں کے راجہ کے گھر میں ایک لڑکے کی پیدائش ہو ئی تھی
نجو میوں نے اس لڑکے کی ولادت سے راجہ کے راج کو زوال کا سبب بتایا تھا راجہ نے اس بچے کو جنگل میں پھینک دیا جب حضرت کا گذر تین بعد وہاں سے ہوا تو اس روتے بچے کی آواز سن کر حضرت اپنے ساتھی عبد العزیز کو اس بچے کو اٹھا کر پالنے کی اجازت دیدی بچہ بھوک سے تڑپتا تھا آپ نے اس کے منہ میں انگشت شہا دت دیا تو اس سے دودھ نکلنے لگا اور اسی طرح وہ بچہ سیراب ہو تا رہا۔
وہاں سے حضرت سید علی ترکستان کی سلطنت چھوڑ کر حضرت کی تلاش میں آہی گئے اور یہ دونوں حضرات ملکر ہمیشہ چلہ کشی اور روزہ دار رہا کرتے تھے۔
جمنا کے جنگل میں حضرت ایک پیر سے تقریباً تین سال کھڑے ہو کر عبادت کی تھی۔ آپ حج سے فارغ ہو کر ہندوستان میں ترچنا پلی میں کھمم مٹھ میں ٹہرے آپ کو ایک شیخ کی تلاش ہوئی۔ آپ کو خواب میں حضرت مظہر ولی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ میرے پاس چلے آئیے انشاء اللہ آپ کا مقصد بر آئے گا آپ نے خواب سے بیدار ہو کر اپنے بھائی کو سنایا یہ سن کر سب یار واحباب خوش ہو گئے۔
ادھر حضرت مظہر ولی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی لے پالک دختر ماما جگنی کو حضرت سید بابافخر الدین ؒ کے پاس بھیجا کہ انھیں بلا لائے حضرت کے حکم سے ماماں جگنی اپنے چند خادموں کو لیکر حضرت بابا فخر الدینؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے والد کا فرمان سنایا سب کھمم مٹھ سے چل کر ترچنا پلی آئے۔
حضرت مظہر ولی ؒ سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے قدم بوسی کی اور حضرت مظہر ولی نے گرم جوشی سے آپ کو گلے لگا لیا حضرت نے آپ کو آزمانے کیلئے بہت سی مشقتیں کرائیں آپ نے ہر کام کو سر انجام دہی میں بڑی جانفشانی سے کام لیا اس وقت حضرت بابا فخر الدینؒ کو قابل جو ہر جان کر آپ کو اپنا مرید بنایا اور اپنی خلافت دی ،خرقہ پہنایا اور ولایت کا ’’ پیالہ‘‘ پلایا اور حضرت سید علی حضرت مظہر ولی ؒ کے خادموں میں داخل ہو کر شرف حاصل کیا۔
یہاں اپنی طاقت آزمانے کیلئے حضرت سید بابافخر الدینؒ ایک سنگ خارا پر کھڑے ہو کر اپنے پاؤں دھنسائے دونوں پاؤں اس سنگ خارگا میں اتر پڑے آج تک یہ یاد گار نشان ترچنا پلی میں موجود ہے۔
حضرت سید بابا فخر الدینؒ کی وفات بروز پنچشنبہ بارھویں تاریخ ماہ جمادی الثانی ۶۹۴ ھ میں ہوئی۔(سن وصال آج سے تقریباً ۷۳۵ سال پہلے)
نوٹ یہ سارے مضامین کتاب قلندر برحق سے لئے گئے ہیں۔
مولف: مولانا شاہ ابو الحسن ادیبؔ
بشکریہ
الصمد