ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حضرت امیرِ معاویہ نے خط لکھا کہ “مجھے کوئی مختصر سی نصیحت کیجئے‘ بات لمبی نہ ہو‘ مختصر ہو تاکہ اسے حرز جان بناؤں” اکابر کا ہمیشہ یہ معمول رہا ہے کہ بزرگوں سے نصیحت طلب کرتے تھے۔ علامہ شعرانی نے اپنی کتاب “تنبیہ المغترین” میں اس پر ایک مستقل باب قائم کیا ہے کہ جب بڑوں کی خدمت میں جاؤ تو ان سے نصیحت طلب کرو۔ حضرت امیرِ معاویہ باوجودیکہ خود بھی صحابی ہیں‘ حضورِ اکرم ﷺ کے ارشادات خود بھی سنے ہیں لیکن جن کو اپنا بڑا سمجھتے تھے‘ انکی خدمت میں لکھتے رہتے تھے‘ اس لیے حضرت عائشہ کی خدمت میں خط لکھا‘ حضرت عائشہ صدیقہ نے کاتب کو بلایا اور کہا کہ لکھو:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ خط ہے عائشہ ام الموٴمنین کی جانب سے معاویہ کے نام! میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کو راضی کرنے کی خاطر انسانوں کو ناراضکرلیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے انسانوں کی ناراضگی کی خود کفایت فرماتے ہیں۔ (کہ انکی پرواہ نہ کرو انکو راضی کرنا ہمارے ذمہ رہا) اور جو شخص لوگوں کی رضامندی کی خاطر اللہ کو ناراض کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو ان لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں (کہ کرو انکو راضی‘ میں دیکھتا ہوں تم کتنے لوگوں کو راضی کرلیتے ہو) مشکوٰة : ص۴۳۵
فائدہ: ارشاد فرما رہے ہیں کہ جو شخص اپنے درمیان کا اور اللہ کے درمیان کا معاملہ صحیح کر لے اللہ تعالیٰ اسکے اور لوگوں کے درمیان کے معاملے کی خود کفایت فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے ذمہ رہا۔ ہم سے تم معاملہ درست رکھو‘ تمہارے اور لوگوں کے درمیان جو معاملہ ہے اسکو ہم پر چھوڑ دو‘ وہ میں درست کرلونگا‘ اسکی پرواہ نہ کرو کہ کوئی ناراض ہوتا ہے‘ لوگ ناراض ہوجائینگے تو ہم انکو بھی راضی کردینگے‘ (بھئی یہ بھی بڑے امتحان کی بات ہے‘ آزمائش کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو آزمائش میں نہ ڈالے‘ بسااوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے‘ دوسری طرف لوگوں کی رضامندی ہے‘ اگر اس کام کو کر لے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتے ہیں اور نہ کرے تو لوگ ناراض ہوتے ہیں۔
بشکریہ
اون اسلام
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ خط ہے عائشہ ام الموٴمنین کی جانب سے معاویہ کے نام! میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کو راضی کرنے کی خاطر انسانوں کو ناراضکرلیتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے انسانوں کی ناراضگی کی خود کفایت فرماتے ہیں۔ (کہ انکی پرواہ نہ کرو انکو راضی کرنا ہمارے ذمہ رہا) اور جو شخص لوگوں کی رضامندی کی خاطر اللہ کو ناراض کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو ان لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں (کہ کرو انکو راضی‘ میں دیکھتا ہوں تم کتنے لوگوں کو راضی کرلیتے ہو) مشکوٰة : ص۴۳۵
فائدہ: ارشاد فرما رہے ہیں کہ جو شخص اپنے درمیان کا اور اللہ کے درمیان کا معاملہ صحیح کر لے اللہ تعالیٰ اسکے اور لوگوں کے درمیان کے معاملے کی خود کفایت فرماتے ہیں کہ وہ ہمارے ذمہ رہا۔ ہم سے تم معاملہ درست رکھو‘ تمہارے اور لوگوں کے درمیان جو معاملہ ہے اسکو ہم پر چھوڑ دو‘ وہ میں درست کرلونگا‘ اسکی پرواہ نہ کرو کہ کوئی ناراض ہوتا ہے‘ لوگ ناراض ہوجائینگے تو ہم انکو بھی راضی کردینگے‘ (بھئی یہ بھی بڑے امتحان کی بات ہے‘ آزمائش کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو آزمائش میں نہ ڈالے‘ بسااوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے‘ دوسری طرف لوگوں کی رضامندی ہے‘ اگر اس کام کو کر لے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتے ہیں اور نہ کرے تو لوگ ناراض ہوتے ہیں۔
بشکریہ
اون اسلام