عزیز بھائی بحث بہت پھیل چکی ہے۔ حالانکہ میرا مقصود بالکل یہ نہیں تھا۔ اور شاید آپ بھی یہ نہیں چاہتے ہونگے۔ میری اس پوسٹ پر غور کریں اور پھر مختصر جواب عنایت فرمادیں کہ تقلید بے دلیل ہوتی ہے یا بادلیل پر بلا مطالبہ دلیل۔
محترم ناصر بھائی ہماری بحث تقلید کی لغوی واصطلاحی تعریف پر ابھی مبنی ہے۔آپ سے پہلے بھی اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ آپ ہمیں متقدمین علماء کی کتب سے تقلید کی تعریف میں بلا مطالبہ دلیل وغیرہ دکھائیں۔ لیکن تاحال آپ نے یہ کوشش نہیں کی۔
اس پوسٹ میں آپ کے سامنے متقدمین اور متاخرین علماء کی تعریفات کو پیش کیاجاتا ہے۔جس میں ان شاءاللہ ہم سب کو یہ جاننے میں آسانی ہوگی کہ تقلید کی اصطلاحی تعریفات میں جو الفاظ بنا دلیل، بے دلیل یا غیر حجت کے استعمال کیے گئے ہیں۔اس سے مراد بلا مطالبہ دلیل ہے یا بے دلیل بات پر عمل کرنا ہے۔ یا کچھ اور ہے۔
1۔مسلم الثبوت ص289 طبع 1316ھ کی تعریف میں
’’تقلید غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل کانام ہے۔اور اسی تعریف میں یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ اور اجماع پر عمل تقلید میں سے نہیں ہے۔اسی طرح عامی کاعالم سے سوال کرنا ، قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔۔۔الخ‘‘
محترم بھائی آپ کے بقول کہ تقلید دلیل پر ہی ہوتی ہے لیکن دلیل کا مطالبہ نہیں ہوتا تو پھر اسی تعریف میں یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺ اور اجماع یعنی مختصر مفہوم نص پر عمل تقلید نہیں ۔چہ معنی؟
یہاں سے تو صاف معلوم ہورہا ہے کہ الفاظ
’’ العمل بقول الغیر من غیر حجۃ ‘‘ اس بات پر واضح دال ہیں کہ تقلید بے دلیل بات کی ہی ہوتی ہے۔اگر دلیل موجود ہوتی لیکن طلب نہ کی جاتی تو پھر صاحب مسلم الثبوت یہ نہ کہتے کہ
’’فالرجوع الی النبی علیہ الصلاۃ والسلام او الی الاجماع لیس منہ۔۔۔الخ‘‘
آپ کی بات ایک منٹ کےلیے تسلیم بھی کرلی جائے تو پھر اسی تعریف میں ہی تضاد آجاتا ہے۔
2۔فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت فی اصول الفقہ ج2 ص 400 سے بھی یہی بات اخذ ہوتی ہے۔( فصل ’’التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجۃ) متعلق بالعمل والمراد بالحجۃ حجۃ من الحجج لاربع۔۔۔الخ‘‘
3۔اسی طرح ابن ہمام حنفی نے تحریر ابن ہمام فی علم الاصول ج3 ص 453میں ، قاضی محمد اعلی تھانوی حنفی کشاف اصطلاحات الفنون ج2 ص 1178 میں، علی بن محمد علی الجرجانی حنفی نے کتاب التعریفات ص 29 میں اور اسی طرح محمد بن عبدالرحمن عید المحلاوی الحنفی نے تسہیل الوصول الی علم الاصول میں،
ان سب علماء نے جو تقلید کی تعریف نقل کی ہے ۔ان تعریفات کو مختصر اگر بیان کیا جائے تو یہ مفہوم نکلتا ہے۔
بغیر دلیل والی بات کو تسلیم کرنا۔
اور پھر ان تعریفات میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ نص پر عمل تقلید نہیں۔مطلب جہاں دلیل ہوگی وہاں تقلید نہیں۔(ہاں عرفاً نص پر عمل کو آپ اتباع کانام دےلیں یا تقلید کا نام دے لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں)
اور بھی اس پر حوالہ جات پیش کیے جاسکتے ہیں۔پر خلاصہ سب کابیان کردیا گیا ہے۔
لیکن آپ سمیت دور جدید کے مقلدین تقلید کامعنی ہی بدل دیتے ہیں ۔تاکہ عوام الناس کو تقلید کا اصل مفہوم معلوم نہ ہوجائے۔اور آپ لوگ تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں-
’’جس شخص کا قول ماخذ شریعت میں سے نہیں ۔اس پر حسن ظن کرتے ہوئے اس کےقول کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا ، عمل کرلینا۔اور یہ سمجھ لینا کہ اس کے پاس دلیل ہوگی۔یا دلیل کے موافق بتلاوے گا۔وغیرہ وغیرہ‘‘
اور پھر اس سے ملتی جلتی تعریف محمد اسماعیل سنبھلی ،محمد تقی عثمانی، ماسٹر امین اوکاڑوی، محمد ناظم علی خاں قادری بریلوی، وغیرہ وغیرہ
نوٹ
یعنی متقدمین اور متاخرین کی تعریفات میں واضح فرق محسوس ہورہا ہے۔جو میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا لیکن آپ نے کہا کہ تقلید کی تعریف ناسمجھنے کی وجہ سے ہے۔اور آپ نے بلا مطالبہ دلیل کو تقلید کانام دیا ہے۔
یہاں پر ہی میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ متقدمین علماء سے یہ ثابت کردیں کہ تقلید بلا مطالبہ دلیل کانام ہے مجتہد کی بے دلیل بات پر عمل کا نام نہیں۔
اب میں نے متقدمین علماء کی تعریفات پیش کرکے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ تقلید کہ تقلید بے دلیل ہوتی ہے۔
اور آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں دلیل ہوتی ہے۔
تو پھر تقلید کی کوئی ایسی جامع مانع تعریف کریں کہ جس میں سب اشکالات دور ہوجائیں۔یادر رہے جامع بھی ہو مانع بھی ہو۔
اور اس کے بعد پھر ہماری بات آگے چلے گی۔ اور ہاں اب بہت ہوچکا مزید شاید دوبارہ اگلی پوسٹ میں یہ بات نہ کروں۔لیکن اگر ضرورت ہوئی تو کچھ لکھوں گا۔ان شاءاللہ
محترم ناصر بھائی ہماری بحث تقلید کی لغوی واصطلاحی تعریف پر ابھی مبنی ہے۔آپ سے پہلے بھی اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ آپ ہمیں متقدمین علماء کی کتب سے تقلید کی تعریف میں بلا مطالبہ دلیل وغیرہ دکھائیں۔ لیکن تاحال آپ نے یہ کوشش نہیں کی۔
اس پوسٹ میں آپ کے سامنے متقدمین اور متاخرین علماء کی تعریفات کو پیش کیاجاتا ہے۔جس میں ان شاءاللہ ہم سب کو یہ جاننے میں آسانی ہوگی کہ تقلید کی اصطلاحی تعریفات میں جو الفاظ بنا دلیل، بے دلیل یا غیر حجت کے استعمال کیے گئے ہیں۔اس سے مراد بلا مطالبہ دلیل ہے یا بے دلیل بات پر عمل کرنا ہے۔ یا کچھ اور ہے۔
1۔مسلم الثبوت ص289 طبع 1316ھ کی تعریف میں
’’تقلید غیر کے قول پر بغیر حجت کے عمل کانام ہے۔اور اسی تعریف میں یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ اور اجماع پر عمل تقلید میں سے نہیں ہے۔اسی طرح عامی کاعالم سے سوال کرنا ، قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔۔۔الخ‘‘
محترم بھائی آپ کے بقول کہ تقلید دلیل پر ہی ہوتی ہے لیکن دلیل کا مطالبہ نہیں ہوتا تو پھر اسی تعریف میں یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺ اور اجماع یعنی مختصر مفہوم نص پر عمل تقلید نہیں ۔چہ معنی؟
یہاں سے تو صاف معلوم ہورہا ہے کہ الفاظ
’’ العمل بقول الغیر من غیر حجۃ ‘‘ اس بات پر واضح دال ہیں کہ تقلید بے دلیل بات کی ہی ہوتی ہے۔اگر دلیل موجود ہوتی لیکن طلب نہ کی جاتی تو پھر صاحب مسلم الثبوت یہ نہ کہتے کہ
’’فالرجوع الی النبی علیہ الصلاۃ والسلام او الی الاجماع لیس منہ۔۔۔الخ‘‘
آپ کی بات ایک منٹ کےلیے تسلیم بھی کرلی جائے تو پھر اسی تعریف میں ہی تضاد آجاتا ہے۔
2۔فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت فی اصول الفقہ ج2 ص 400 سے بھی یہی بات اخذ ہوتی ہے۔( فصل ’’التقلید العمل بقول الغیر من غیر حجۃ) متعلق بالعمل والمراد بالحجۃ حجۃ من الحجج لاربع۔۔۔الخ‘‘
3۔اسی طرح ابن ہمام حنفی نے تحریر ابن ہمام فی علم الاصول ج3 ص 453میں ، قاضی محمد اعلی تھانوی حنفی کشاف اصطلاحات الفنون ج2 ص 1178 میں، علی بن محمد علی الجرجانی حنفی نے کتاب التعریفات ص 29 میں اور اسی طرح محمد بن عبدالرحمن عید المحلاوی الحنفی نے تسہیل الوصول الی علم الاصول میں،
ان سب علماء نے جو تقلید کی تعریف نقل کی ہے ۔ان تعریفات کو مختصر اگر بیان کیا جائے تو یہ مفہوم نکلتا ہے۔
بغیر دلیل والی بات کو تسلیم کرنا۔
اور پھر ان تعریفات میں یہ بات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ نص پر عمل تقلید نہیں۔مطلب جہاں دلیل ہوگی وہاں تقلید نہیں۔(ہاں عرفاً نص پر عمل کو آپ اتباع کانام دےلیں یا تقلید کا نام دے لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں)
اور بھی اس پر حوالہ جات پیش کیے جاسکتے ہیں۔پر خلاصہ سب کابیان کردیا گیا ہے۔
لیکن آپ سمیت دور جدید کے مقلدین تقلید کامعنی ہی بدل دیتے ہیں ۔تاکہ عوام الناس کو تقلید کا اصل مفہوم معلوم نہ ہوجائے۔اور آپ لوگ تقلید کی تعریف یوں کرتے ہیں-
’’جس شخص کا قول ماخذ شریعت میں سے نہیں ۔اس پر حسن ظن کرتے ہوئے اس کےقول کو بلا مطالبہ دلیل مان لینا ، عمل کرلینا۔اور یہ سمجھ لینا کہ اس کے پاس دلیل ہوگی۔یا دلیل کے موافق بتلاوے گا۔وغیرہ وغیرہ‘‘
اور پھر اس سے ملتی جلتی تعریف محمد اسماعیل سنبھلی ،محمد تقی عثمانی، ماسٹر امین اوکاڑوی، محمد ناظم علی خاں قادری بریلوی، وغیرہ وغیرہ
نوٹ
یعنی متقدمین اور متاخرین کی تعریفات میں واضح فرق محسوس ہورہا ہے۔جو میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا لیکن آپ نے کہا کہ تقلید کی تعریف ناسمجھنے کی وجہ سے ہے۔اور آپ نے بلا مطالبہ دلیل کو تقلید کانام دیا ہے۔
یہاں پر ہی میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ متقدمین علماء سے یہ ثابت کردیں کہ تقلید بلا مطالبہ دلیل کانام ہے مجتہد کی بے دلیل بات پر عمل کا نام نہیں۔
اب میں نے متقدمین علماء کی تعریفات پیش کرکے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ تقلید کہ تقلید بے دلیل ہوتی ہے۔
اور آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں دلیل ہوتی ہے۔
تو پھر تقلید کی کوئی ایسی جامع مانع تعریف کریں کہ جس میں سب اشکالات دور ہوجائیں۔یادر رہے جامع بھی ہو مانع بھی ہو۔
اور اس کے بعد پھر ہماری بات آگے چلے گی۔ اور ہاں اب بہت ہوچکا مزید شاید دوبارہ اگلی پوسٹ میں یہ بات نہ کروں۔لیکن اگر ضرورت ہوئی تو کچھ لکھوں گا۔ان شاءاللہ