Amjad Ali نے کہا ہے:عزیزم ۛ؛
اس سائٹ سے بھی آپ کو بہت رہنمائی مل جائے گی ۔اِن شاء اللہ
http://alittehaad.org
جس کے جواب میں اصلی حنفی صاحب نے نیچے دیا گیا جواب فرمایا :ناصر نعمان نے کہا ہے:اصلی حنفی بھائی بہت معذرت کے ساتھ ہم اپنی پوری کوشش کرچکے ۔۔۔لیکن اگر کسی نے میں نا مانوں کا ورد کرتے ہوئے بات کرنی ہے تو یقینا یہ لاعلاج مرض ہے۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں بات اُن کو سمجھ میں آتی ہے جو اپنے دلوں میں دوسرے کی بات سننے سمجھنے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔لیکن ضد و ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں ہے ۔
آپ نے فرمایا کہ ہمیں بھی اس نکتہ پر سوچنا چاہیے کہ "کہیں ہم غلطی پر تو نہیں ہیں"...تو جناب کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ الحمدللہ ہم اپنے دل میں نہ صرف دوسرے کا موقف سننے سمجھنے کی گنجائش رکھتے ہیں بلکہ اللہ رب العزت سے دعا بھی کرتے ہیں کہ جو ہدایت کا راستہ ہے اللہ تعالیٰ ہمیں وہ سمجھنا آسان فرمائے.....اللہ رب العزت دلوں کے حال بہتر جانتا ہے......لہذا ہمیں اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں .
لیکن جہاں تک تو آپ کا سوال ہے ...... تو یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں آپ کے دل کے حال کا علم نہیں ...لیکن جب آپ کے جوابات دیکھتے ہیں ..... تو بلآخر ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ آپ نے اب تک محض جانبدار رویہ اختیار کیا ہوا ہے ....بلکہ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے جوابات سے آپ کا سخت متعصب رویہ کی جھلک باآسانی دیکھی جاسکتی ہے.....اس کی زندہ مثال آپ کا یہ فرمانا ہے کہ "ہمارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ رفع یدین کے نفس مسئلہ پر صراحت نہیں"
یعنی آپ کے نزدیک اس مسئلہ پر صراحت موجود ہے ؟؟؟
گویا آپ کہہ رہے ہیں کہ جو کچھ آپ نے یا آپ کے مجتھدین نے رفع یدین کرنے پر نصوص سے سمجھا ہے وہ صریح ہے ...... باالفاظ دیگر آپ کے مجتہدین کی رائے نص قطعی بن گئی ہے ..... اور اُس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے ؟؟؟
گویا مجتھدین حضرات کی رائے (یعنی رفع یدین کرنا) ہی جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی قطعی اور سو فیصد یقینی منشاء ہے ؟؟؟
کیوں کہ اگر تو آپ صریح نہ سمجھتے تو آپ کو محتمل تو سمجھنا پڑے گا ..... جس کے بعد ہمارا موقف ہی واضح ہوتا ہے؟؟؟
لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے مجتھدین حضرات کے لئے وحی کے نزول کا عقیدہ رکھتے ہیں ....کیوں کہ ایسا سوفیصد یقینی اور قطعی علم تو سوائے صاحب وحی کے کسی کو نہیں ہوتا ؟؟؟
حالانکہ معتبر بزرگوں(جنہیں آپ بھی قابل اعتبار تسلیم کرتے ہیں )نے بھی اس مسئلہ پر دونوں طرح کے دلائل کے پیش نظر بلآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ "رفع یدین یا ترک رفع یدین دونوں طرح سنت سے ثابت ہے"
اور یہ وہ بزرگ ہیں کہ جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام کے لئے وقف کی ..... اور دینی علوم حاصل کرکے ایک مقام حاصل کیا .
جیسے شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا یا نہ کرنا دونوں طرح سنت ہے۔(حجتہ اللہ بالغہ)
اور ترک اور رفع یدین سے متعلق شاہ عبدالقادر دہلوی کا موقف بھی دونوں کے سنت ہونے کا ہے۔
فرماتے ہیں: جس طرح رفع یدین سنت ہے اسی طرح ارسال بھی سنت ہے۔(ارواح ثلاثہ، صفحہ 114)
لیکن ہمیں یاد آیا کہ آپ کے یہاں عام لوگوں کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ بزرگوں کی جو بات آپ کی عقل میں نہ اترے اُسے رد کردو.... چاہے اُن بزرگ کا جو بھی مقام و مرتبہ ہو ..... چاہے اُن کے دینی علوم کے مقابلے میں آپ کو علم کتنا ہی کیوں نہ ناقص ہو ..... لیکن سب باتوں کو بالائے طاق رکھ کر" بس رد کردو؟؟؟
جبکہ عقلی طور پر یہ بات باآسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ یہ حکم مجتھد کے لئے تو ہوسکتا ہے تاکہ اُس کے پاس کسی امتی کا قول رد کرنے کا مضبوط جواز(یعنی اُس کا وسیع علم) ہو لیکن عام مسلمان کے لئے یہ کیسے ممکن ہے؟؟؟
کیوں یہ معمولی بات تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا میں سارے لوگوں کی عقل و فہم ایک برابر نہیں ہوتی ....کسی کی کمزور کسی کی نسبتا بہتر ..... لیکن جب عام مسلمانوں کی یہ تعلیم دی جائے گی کہ آپ کسی بھی بزرگ کا قول رد کرسکتے ہیں..... تو یقینا لوگ ایک وقت میں آکر اپنی کمزور عقل و فہم کی وجہ سے اُن کے اقوال بھی کو بھی رد کرسکتے ہیں .... جو اُنہیں کو اس کی تعلیم دے رہے ہیں.
کیوں کہ بہت سی نصوص ایسی ہیں جو اپنے ظاہری معنی پر دلالت نہیں کرتیں ...... لیکن کمزور عقل و فہم والے اس نکتہ سے بے خبر تو صرف یہ دیکھیں گے کہ فلاں بزرگ کا قول تو حدیث کے مخالف نظر آرہا ہے ...... لہذا یہ بزرگ جو بھی ہیں اوردنیائے اسلام میں اپنے علم و فقاہت کی وجہ سے جو بھی مقام رکھتے ہیں ...لیکن یہ عام لوگ ان تمام نکات کو پس پشت ڈال کر یہ بھی نہیں دیکھیں گے کہ ہوسکتا ہے کہ بزرگوں کے قول کی حکمت ان کی کمزور عقل و فہم کی وجہ سے سمجھ نہیں آرہی ہے........بلکہ وہ تو یہ سمجھیں گے کہ فلاں بزرگ کا قول کو حدیث کے مخالف نظر آرہا ہے ...لہذا بس اسے رد کردیا جائے ؟؟؟؟ بصورت دیگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے حدیث سے سمجھا ہے وہ جناب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی مراد ہے ...... گویا ایسے عام لوگوں کی کمزور عقل و فہم(معاذ اللہ) حدیث بن جاتی ہے ....جس کی بنا پر وہ بڑے بڑے علماء دین کو حتی کہ اُن لوگوں کا بھی رد کردیں گے جنہوں نے ایسے عام لوگوں کو مجتھد بننے کی تعلیم دی ؟؟؟
اور یہ سب قیاس آرائی نہیں بلکہ حقیقت کے قریب تر ہے ....کیوںکہ یہ بات جو حضرت شاہ ولی اللہ اور شاہ عبد القادر رحمہم اللہ نے فرمائی ہے .....وہی بات آپ کے بزرگوں نے بھی فرمائی ہے:
مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ جلد1 صفحہ 141 میں فرماتے ہیں
کہ رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالی جماعتِ غیر مقلدین کے بڑے اونچے عالم اور مجدد وقت تھے ، ان کی کتاب روضہ الندیہ غیر مقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب سے نقل کرتے ہوے فرماتے ہیں۔
۔"رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں۔۔۔(صفحہ 148)"۔
اور اسی کتاب میں حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ (صفحہ 150)۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے
لہذا اب ہم دیکھے گے اپنے اوپر والی قیاس کی عملی تصویر ....آیا کہ آپ اپنے ہی اُن بزرگوں کی بات کو رد کرتے ہیں ...جنہوں نے آپ جیسے عام لوگوں کو امتی کا قول رد کرنے کی تعلیم دی ...... یا آپ اپنے ہی بزرگوں کی بات تسلیم کرکے ہمارا موقف تسلیم کرلیتے ہیں ..
اور ہمارا مقصد نہ تو اس مسئلہ پر بحث کرنا ہے اور نہ آپ سے اپنا موقف تسلیم کروانا ہے ...بلکہ آپ کو آئینہ دکھانا ہے .....کہ کیوں آپ لوگوں کو حضرات فقہائے کرام کے اقوال سمجھ نہیں آتے ؟؟؟
کیوں کہ آپ لوگ اپنی عقل و فہم سے سمجھے گئے مفہوم کو حدیث کے درجہ تک لے جاتے ہو..... کہ بس جو ایک بار ذہن میں اتر گیا وہ ہی حق ہے ...اُس کے سوا سب باطل ہے ...... اور جب آپ کو معتبر بزرگوں کی عبارتیں بھی دکھائی جائیں تو آپ باآسانی امتی کا قول کہہ کر رد کردیتے ہو .....یہ نہیں سوچتے کہ ایک مسئلہ پر اگر مختلف فیہ اقوال ہیں تو یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ آپ کی عقل و فہم میں جو مسئلہ آیا ہے وہ درست نہ ہو ...یا کم از کم یہی سمجھ لیں کہ ہوسکتا ہے کہ آپ بھی امتی ہیں اور آپ لوگوں سے بھی خطاء کا احتمال ہوسکتا ہے ...تو پھر اس احتمال کو ہی پیش نظر رکھ کر آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ پھر قطعیت کے ساتھ کسی دوسرے پر باطل کا حکم لگانا کیوں کر درست ہوسکتا ہے ؟؟؟
اور اگر آپ اپنی رائے کو خطاء سے پاک سمجھتے ہیں تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ...پھر آپ جس کے متعلق جو چاہے سمجھتے رہیں ...ہم بس آپ کے لئے اپنے لئے سب کے لئے ہدایت کی دعا کرسکتے ہیں.
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے.آمین
ضروری گذارش : آپ ہمیں جواب نہ دیجیے گا ....بس ہمارے پیش کردہ نکات پر غور کرلییجے گا .... اور اس ساری بات چیت میں ہماری طرف سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو معاف فرمادیجیے گا...... ہم یہ بات چیت مزید آگے لے کر چلنے سے قاصر ہیں.
یعنی اصلی حنفی صاحب نے بالکل ہماری امیدوں کے مطابق جواب دیا ۔۔۔۔یعنی چوں کہ یہ بات “کہ دونوں عمل سنت ہیں“ اصلی حنفی صاحب کی عقل شریف میں نہیں اتری ۔۔۔۔ لہذا انہوں نے صریح الفاظ میں تو رد نہیں کیا ۔۔۔۔لیکن سوالیہ نشان بنا کر دبے لفظوں میں مسئلہ عقل میں نہ آنے کی وجہ سے انکار کیا ۔اصلی حنفی نے کہا ہے:آپ نے مسئلہ رفع الیدین کو اجتہادی مسئلہ قرار دیتے ہوئے دو حدیثیں نقل کیں
1۔ایک وہ جس میں اس بات کی صراحت ہے کہ اختلافی رفع الیدین کرنی چاہیے۔
2۔دوسری وہ (حالانکہ اس میں نا شبہ ہے ، نا اشکال ہے، اور نہ دور تک کوئی تاویل سے یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ رفع الیدین منسوخ ہے) کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین کی جاتی تھی پھر آپ ﷺ نےمنع کردیا۔
یعنی پہلی حدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ رفع الیدین کرنا چاہیے۔ اوردوسری حدیث سے ثابت ہورہا ہے کہ رفع الیدین نہیں کرنا چاہیے۔
اور آپ نے جو اقوال ذکر کیے وہ ان دونوں سے باہر ہیں ان میں تو یہ ہےکہ رفع الیدین کر لیا جائے یا نہ کرلیا جائے یعنی اقوال دونوں کے درمیان کے ہیں۔
آپ کے پیش کردہ اقوال میں ایک قول شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور دوسرا قول شاہ عبدالقادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔
دونوں کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا بھی سنت ہے اور نہ کرنا بھی سنت ہے۔یعنی کروگے تب بھی سنت پر عمل کروگے اور نہیں کروگے تب بھی سنت پر عمل کرو گے۔
بہت خوب بیان ہے آپ کا بھائی جان یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک چیز کا ترک بھی سنت ہو اور اس کی اداء بھی سنت ہو۔کیا آپ کی عقل اس بات کو ماننے پر تیار ہے ؟
اصلی حنفی نے کہا ہے:محترم شرر صاحب لگتا ہے بلکہ یوں کہتا ہوں کہ یقین ہے کہ آپ پہنچی ہوئی سرکار ہیں۔ اورپھر میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھوہ تھوہ۔ مزا تو تب آتا کہ فضول، لایعنی اور بے مقصد باتوں سے در گزر کرتے ہوئے جو باتیں پوچھی گئی تھی ان کا جواب دیتے۔ ان باتوں کے جواب کی تو ہمت نہیں ہوئی پر اپنا بھی ٹائم لکھنے میں ضائع کیا اور میرا ٹائم پڑھنے میں ضائع کیا ۔
آپ کی پوسٹ پر میرے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں۔ کیونکہ کوئی علمی بات تو ہے نہیں کہ جس کاجواب دیا جائے یا پھر کچھ اس پر لکھا جائے۔باقی مجھےخوشی ہے کہ ناصر نعمان بھائی تو اپنی بات ثابت نہ کرسکے۔شاید وہی بات آپ ثابت کرسکیں۔
چلیں پھر آپ کو ہی آزما کر دیکھ لیتے ہیں۔لیکن ایک بات یاد رکھنا اپنی فضول بکواسات اپنے پاس ہی رکھنا۔اور مطلب کی بات کرنا۔اور میں بھی اپنی معروضات صرف مطلب تک ہی رکھوں گا۔ ان شاءاللہ
چلیں ہماری بات جہاں پہنچی تھی وہاں سے آگے میں آپ سے ہی مخاطب ہوتا ہوں۔
ناصر بھائی اور میری بات یہاں تک پہنچی تھی کہ تقلید بے دلیل ہوتی ہے یا دلیل پر مگر بلا مطالبہ دلیل؟
ناصر بھائی نے اس ضمن میں کافی باتیں پیش کیں۔آپ مزید ان باتوں کا مطالعہ کرلینا۔ان باتوں کاخلاصہ بیان کردیتا ہوں
ناصر بھائی نے کہا تھا کہ تقلید ہوتی دلیل پر ہے لیکن دلیل کا مطالبہ نہیں کیاجاتا۔ لیکن میں نے ان کی ہی پیش کی گئی تعریفات سے اس بات کو ثابت کردیا تھا کہ تقلید بے دلیل بات پر ہوتی ہے۔اسی ضمن میں انہوں نےکچھ یوں تشریح کی تھی کہ
مسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔کچھ نصوص قطعیہ والے، کچھ نصوص ظنیہ والے ، کچھ محتمل نصوص والے، کچھ متعارض نصوص والے۔وغیرہ وغیرہ
نصوص قطعیہ کے علاوہ باقی سب میں عامی کو مجتہد کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔(حالانکہ یہ بات بھی تقلید میں نہیں آتی۔کیونکہ مجتہد جب نص میں موجود ظن کو یا احتمال کو یا تعارض کو رفع کردیتا ہے۔اورعامی کو بتا دیتا ہے کہ اس نص پر عمل نہیں کرنا بلکہ اس نص پر عمل کرنا ہے تو یہ کیسے تقلید بن جاتی ہے۔؟ اور دوسری طرف خود اقرار کرچکے ہیں کہ نص پر عمل تقلید بھی نہیں۔اس تضاد کی حقیقت؟؟؟) لیکن وہ یہاں پر اس بات کو ثابت نہ کرسکے کہ تقلید بھی دلیل پر ہوتی ہے لیکن بلا مطالبہ دلیل۔ کیونکہ دلیل (نص) پر عمل کرنے کو وہ کہہ چکے تھے کہ تقلید نہیں ہوتی ۔بلکہ ان کے علاوہ آپ کے بڑوں نے بھی کہا ہے۔
مزید انہوں نے اس پر یہ بات بھی کی تھی کہ
عامی کا مجتہد سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ۔کیونکہ عامی کو یہ حکم نص سے ثابت ہے اور نص پر عمل تقلید نہیں۔لیکن مجتہد کا عامی کو مسئلہ بتانا اور پھر اس مسئلہ پر عامی کا عمل کرنا یہ تقلید ہے۔
اس پر سوال کیا گیا تھا کہ جو مجتہد مسئلہ بتائے گا وہ نص سے یا نص کی روشنی میں نہیں بتائے گا۔؟ اس کے جواب میں ناصر بھائی نے کہا کہ اصل میں ایک ہوتا ہے قرآن وحدیث اور ایک ہوتا ہے قرآن وحدیث سے مجتہد کا مسئلہ اخذ کرنا۔اور جو مجتہد مسئلہ بتارہا ہے ۔مجتہد کا یہ بتانا قرآن وحدیث نہیں ہے۔اس لیے عامی کا مجتہد کی یہ بات مانناتقلید میں آتا ہے۔
حالانکہ یہ جواب بول بول کر بتارہاہے کہ میں ناقص ہوں۔ٹھیک ہے اس بات کو میں بھی مانتا ہوں کہ مجتہد کے الفاظ یا تشریح قرآن وحدیث نہیں۔لیکن اس مجتہد کے الفاظ کی بنیاد تو قرآن وحدیث ہی ہے۔اگر ہم اسی اصول پر رہیں تو پھر یہ کہنا بھی لایعنی ہیں کہ نص قطعی پر تو تقلید حرام ہے۔لین باقی نصوص پر تقلید واجب یا جو بھی کہہ لو۔ یہ کہنا کیوں لایعنی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم نے ایک اصول بنا دیا کہ مجتہد کے الفاظ قرآن وحدیث نہیں تو پھر نص قطعی کو سمجھانے کےلیے مجتہد عامی کو جو الفاظ بولے گا وہ الفاظ بھی قرآن وحدیث نہیں ہونگے۔؟ نص قطعی میں بھی عامی مجتہد کے الفاظ سن کر عمل کررہا ہے اور باقی نصوص میں بھی عامی مجتہد کے الفاظ سن کر عمل کررہا ہے۔تو ایک میں تقلید واجب اور ایک میں تقلید حرام؟ اس فرق کی کیاحقیقت ہے ۔کوئی نہیں سمجھا سکے گا۔
مطلبی گزارش
اصلی حنفی صاحب آپ نے لکھا ہے " مقلد جاہل ہوتا ہے " ضرورت پڑی تو اس کو ہمارے بزرگوں کی کتابوں سے دکھا دیں گے ۔یہاں آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لئے سمجھنا بھی مشکل ہے جناب والا ہم بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کی سمجھدانی کتنی بڑی ہے آئیں دیکھتے ہیں۔وضاحت میں بات کافی پھیل گئی اور شاید آپ کےلیے سمجھنا بھی مشکل ہوجائے۔
میرا جواب یہ ہے کہ چھوٹے بڑے سب غیر مقلد اعمیٰ ہوتے ہیں ۔انھیں کتاب میں لکھی ہوئی اصل بات نظر ہی نہیں آتی ۔عبارت فہمی کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ۔ مثلا امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث ( انڈیا) مولوی مختار احمد ندوی نے ایک کتاب لکھی اس کا نام رکھا " مسلمان امت ہیں فرقہ نہیں " حالانکہ سورہ تو بہ میں ہے فلو لا نفر من کل فر قۃ منھم۔ من ھم میں ھم ضمیر کا مرجع صحابہ کرام ہیں ۔۔۔ مگر یہ آیت ان کو نظر نہیں آئی ۔۔۔ ایسے شخص جس قبیلے کے مر کزی امیر ہوں اس قبیلہ کا حال خدا ہی جانے ۔ سلفی عالم خجندی مرحوم کی کتاب کا تر جمہ ( بقول مترجم قدرے تر میم وتلخیص کے ساتھ ) کر کے انہوں نے چھا پا اس میں عنوان ہے" فرقہ بندی فر عون کی سیاست تھی " ۔قرآن میں ہے وان من شیعۃ لابراہیم ۔یہ فر قہ بندی معاذ اللہ حضرت نوح ؑکی ہے یا حضرت ابرہیمؑ کی ؟ اور یہ کہ نوح علیہ السلام اور ابرا ہیم علیہ السلام پہلے گز رے ہیں یا فر عون ؟یہ آیت ان کو نظر نہیں آئی ۔ ولقد ارسلنا من قبلک فی شیع الاولین ۔ کیا فر عون سے پہلےقومیں نہیں گز ریں کیا ان میں نبی نہیں بھیجے گئے ؟ یہ آیت نہ ان کو نطر آئی نہ ان کی امت کو ۔
اگرم غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہاں ہمارے مقتداؤں اور کود ہمیں نظر نہیں آئی تو اعمیٰ ۔۔۔ اور اگر کہتے ہیں کہ نظر آئی ہم پڑھتے ہیں ۔۔تو اس کا انکار کر کے یہودی ہوئے جیسا کہ مر کزی امیر صاحب کا فتویٰ ہے دیکھئے " مسلمان امت ہیں فر قہ نہیں "
اصلی حنفی صاحب نے لکھا ہے مقلد جاہل ہوتا ہے ۔۔۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ غیر مقلدین انسان نہیں اور فرشتہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ فرشتے مرد یا عورت نہیں ہوتے۔۔۔۔ ان کے بچے نہیں ہوتے غیر مقلد فرشتہ ہونے کی بات کریں گے تو ان کے نسب نامہ مشکوک ہو جائیں گے ۔۔اب وہ خود بتائیں کہ وہ کیا ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؟ بتائیں نا ۔۔۔۔!
مقلد انسان ہو تا ہے انہ کان ظلوما جھولا ۔۔۔الایہ ۔۔۔ مقلدین انسان ہے ۔ان میں تواضع ہے انکسار ہے ( ان میں سے کسی نے آج تک جمیع ماکان وما یکون کا عالم ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔اگر کسی کو کوئی بات معلوم نہیں تو وہ اس بات سے جاہل ہے ) ہمارے بڑوں میں بھی تواضع ہے اور غیر مقلدین چُھٹ بھیے سب ماں کے پیٹ سے مجتہد اور محقق بن کر پیدا ہوتے ہیں ۔۔۔۔ تکبر کر کے غیر مقلدین کہاں پہونچتے ہیں ۔۔۔؟ ۔۔۔ کس کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں ؟ ۔ انہ کان ظلوما جھولا سورہ احزاب ۷۲ ۔۔یہ آیت بھی " اعمیٰ " کو نطر نہیں آتی ۔۔۔
پر دادا حضرت ابرا ہیم ؑ دادا حضرت اسحاق ؑ ابا حضرت یعقوب ؑ حضرت یوسف ؑ اپنے بھائیوں کو فر ماتے ہیں ۔انتم قوم جاہلون (سورہ یوسف ) یہ آیت نظر نہیں آئی یا سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ کیا برداران یوسف ان پڑھ جاہل اور اجڈ گنوار تھے معاذ اللہ ؟
مولوی محمد جونا گڈھی کی اُمت محمدی میں ایک مولوی عبد الشکور عبد القادر صاحب خطیب جامع مسجد گنگا ضلع حصار پور بھی ہیں ان کی تالیف لطیف سیاحۃ الجنان بمناکحۃ اہل الایمان ہے سرورق سمیت کتاب کے صفحات ۲۴ ہیں ۔ غیر مقلدوں کے چند القاب اس کتاب سے ۔ " پرلے درجہ کے ظالم ،بے انصاف اور بے عزت ( سرورق ) بے غیرت اور بے شرم ص ۱۰ احادیث نبویہ سے غافل اور بے پروا ص ۲۱اہل بدعت میں جذب اور ان کا عین ( ہو بہو نقل ) ص ۱۳) حنفی مشرکوں سے نکاح کرنے والے ( مشرکوں سے نکاح درست نہیں لہذا بد کار ہوئے اور ان سے ہو نے والی اولاد حرام ) ص ۱۵ مرتکب حرام ص ۱۷ نام نہاد اہل حدیث ،،ذات پرست ۔۔۔ ہندوؤں کا نمونہ ص ۱۸ مرزائی ۔شیعہ اور بہت سے فر قوں سے کم تر ص ۱۹ نام نہاد اہل حدیث ایسے بے وقوف ہیں ص ۱۹ غیرت مذہبی نہ رکھنے والے ص ۲۰ اہل حدیث علماء ( حنفی کے ساتھ کسی کا نکاح پڑھا ویں ) ان بے وقوف سے بڑھ کر احمق ص ۲۰"
۔۔۔۔ اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان بھوپالی ۔ نواب وحید الزماں حیدرآبادی اور دوسرے غیر مقلد بزرگوں کی تحریران انشا ءاللہ پھر کبھی
حضور ! خاکسار اپنی جہالت کو تسلیم کرتا ہے ( بشرطیکہ فرار کا بہانہ نہ بنائیں ) مگر غیر مقلدین کتنے پڑھے لکھے ہیں اور غیر مقلد یو نیورسٹی میں کیسے رجال کار اور عظیم ہستیوں کو تیار کیا جاتا ہے احقر سے سن لیں میرا دعویٰ ہے آپ کا دماغ ضرور روشن ہو جائے گا ۔۔ غیر مقلدیت نے جنم دیا ہے مرزا غلام احمد قادیانی کو، اس کذاب دجال مدعی بنوت سے غیر مقلدیت کا رشتہ کتنا گہرہ ہے اپنے اسلاف کی کتابیں دیکھ کر اندازہ فر مائیں ۔۔
غیر مقلدیت کی کوکھ سے " نیچری فرقہ " پیدا ہوان ۔۔۔اسی ے بطن سے فر قہ " غربا ء اہل حدیث " کی ولادت ہوئی ۔ نام نہاد جماعت المسلمین یعنی مسعودی فرقہ مقلدیت کا نیا روپ ہے ۔ غیر مقلد فرقہ کتنی فر قیوں میں بٹا ہوا ہے ملاحظہ ہو ۔۔۔۔ (۱)جماعت غرباء اہل حدیث ۱۳۱۳ھ (۲) کانفرنس اہل حدیث ۱۳۲۸ھ (۳) فر قہ ثنائیہ ۱۳۳۸ھ (۴) امیر شریعت صوبہ بہار ۱۳۳۹ھ (۵) فرقہ حنفیہ عطائیہ ۱۳۳۹ھ (۶) فرقہ شریفیہ ۱۳۴۹ھ (۷) فر قہ غزنویہ ۱۳۵۳ھ (۸) جمیعت اہل حدیث ۱۳۷۰ھ (۹) محی الدین لکھوی فرقہ ۱۳۷۸ھ ۔حوالہ خطبہ امارت ص ۲۶
عالی وقار اصلی حنفی صاحب آپ کی دیگر معروضات کا جواب بعد میں۔ پہلے یہ ایک تو پوارا ہو جائے آپ لوگ تو ہمہ دان ہیں اور مقلد کے جاہل ہو نے کا فتویٰ ( شائد قرآن وحدیث سے ) جاری فر چکے ہیں ۔آپ تو کسی چھوٹی سے بھی جاہل نہ ہونگے ۔ ہر بات کا علم ہوگا۔ یہ بھی ضرور جانتے ہوں گے کہ آپ کے بقول جاہل کون لوگ ہیں ؟ میں مختصر سی فہرست پیش کردوں تاکہ دنیا کو بھی پتہ چلے غیر مقلدانہ فتوؤں کا انداز کیا ہوتا ہے لوگ بھی دیکھیں ۔
1) امام بخاری 2) امام نسائی 3)امام ابو داؤد4) امام مسلم 5) امام ترمذی 6) امام بیہقی 7) امام دارا قطنی 8) امام ابن ماجہ ۔ یہ سب مقلد تھے اور صحیح قول کے مطابق شافعی تھے ۔9) امام یحییٰ ابن معین 10) محدث یحییٰ بن سعید القطان 11) یحییٰ ابن ابی زئدہ 12) محدث وقیع ابن الجراح 13) امام طحاوی 14) امام زیلعی 15) امام بخاری ودیگر محدثین کے استاد امام عبد اللہ ابن مبارک یہ سب حنفی مقلد تھے ۔16) علامہ ذہبی 17) امام ابن تیمیہ 18) ابن قیم 19) ابن جوزی 20) شیخ عبد القادر جیلانی یہ سب حنبلی مقلد تھے ۔
ہندوستا ن کے اکابر علما ء ومحدثین واتقیا ء حنفی مقلد تھے ۔یہ چند نام دیکھئے ، شیخ علی متقی صاحب کنز العمال ۔ شیخ محمد طاہر پٹنی ،محدث ملا جیون صاحب ،شیخ عبد الحق محدث دہلوی صاحب اشعۃ اللمعات۔ شیخ نوا الحق صاحب تیسیر القاری فارسی شرح بخاری ۔ شیخ فخر الدین شارح بخاری ۔ محدث شیخ سلام اللہ شارح مؤطا شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی ۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی۔ شاہ عبد العزیز۔ شاہ عبد القادر محدث ومفسر قرآن ۔ شاہ عبد الغنی محدث دہلوی ۔شاہ اسحٰق محدث دہلوی۔ شاہ اسماعیل شہید ۔ شاہ قطب الدین صاحبِ مظاہر حق ۔ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی ۔ شاہ محمد یعقوب محدث دہلوی ۔امام ربانی شیخ سید احًد مجدد الف ثانی ۔ مرزا مظہر جان جاناں ۔ کواجہ معین الدین چشتی اجمیری ۔ کواجہ قطب الدین بختیار کاکی ۔ خواجہ فر ید الدین گنج شکر ۔ خواجہ نظام الدین اولیاء ۔ حوالہ حدائق حنفیہ ۔2) نز ہۃ الخواطر ۔فتاویٰ رحیمیہ ج 1
۔نص پر عمل آپ کے نزدیک تقلید ہے یا نہیں ۔(ہاں یا ناں میں جواب۔)اس لیے دوبارہ بیان کردیتا ہوں
2۔تقلید بے دلیل ہوتی ہے یا دلیل پر مگر بلا مطالبہ دلیل۔؟ (بیان کی گئی باتوں کے علاوہ کوئی توجیح ہوتو پیش کرنا ۔ورنہ خاموشی میں بہتری ہے)
3۔اگر آپ کہیں کہ تقلید دلیل پر ہوتی ہے لیکن دلیل کا مطالبہ نہیں کیاجاتا ۔ تو برائے مہربانی اس کاثبوت ضرور پیش کرنا۔شاید آپ کے پاس ثبوت ہو ورنہ ناصر بھائی تو ثبوت پیش نہ کرسکے۔
4۔تقلید کی جامع مانع تعریف بھی ایک بار دوبارہ اپنے معصوم ہاتھوں سے نقل کردینا تو نوازش ہوگی۔
نوٹ:
شرر صاحب ایک بات کی طرف دوبارہ اشارہ کردوں کہ جو بات بطور حوالہ پیش کی جانے کے قابل ہو اس کو بغیر حوالہ پیش نہ کریں۔ تاکہ ہمارا ٹائم اسی میں ضائع نہ ہو کہ آپ ایک بات کردیں یا پھر میں کوئی بات کردوں بغیر حوالہ۔ اور پھر بعد میں حوالہ کی طلب کرتے پھریں۔اس لیے میں بھی کوئی بات بغیر حوالہ کے پیش نہیں کرونگا۔آپ بھی مت کیجئے گا۔
اصلی حنفی نے کہا ہے:محترم شرر صاحب لگتا ہے بلکہ یوں کہتا ہوں کہ یقین ہے کہ آپ پہنچی ہوئی سرکار ہیں۔ اورپھر میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھوہ تھوہ۔ مزا تو تب آتا کہ فضول، لایعنی اور بے مقصد باتوں سے در گزر کرتے ہوئے جو باتیں پوچھی گئی تھی ان کا جواب دیتے۔ ان باتوں کے جواب کی تو ہمت نہیں ہوئی پر اپنا بھی ٹائم لکھنے میں ضائع کیا اور میرا ٹائم پڑھنے میں ضائع کیا ۔
آپ کی پوسٹ پر میرے اتنے الفاظ ہی کافی ہیں۔ کیونکہ کوئی علمی بات تو ہے نہیں کہ جس کاجواب دیا جائے یا پھر کچھ اس پر لکھا جائے۔باقی مجھےخوشی ہے کہ ناصر نعمان بھائی تو اپنی بات ثابت نہ کرسکے۔شاید وہی بات آپ ثابت کرسکیں۔
چلیں پھر آپ کو ہی آزما کر دیکھ لیتے ہیں۔لیکن ایک بات یاد رکھنا اپنی فضول بکواسات اپنے پاس ہی رکھنا۔اور مطلب کی بات کرنا۔اور میں بھی اپنی معروضات صرف مطلب تک ہی رکھوں گا۔ ان شاءاللہ
[\۔چلیں ہماری بات جہاں پہنچی تھی وہاں سے آگے میں آپ سے ہی مخاطب ہوتا ہوں
اصلی حنفی صاحب ! آپ غیر مقلد ہیں آپ کو اپنے نام کے ساتھ غیر مقلد لکھنا چاہئے ۔۔آپ نے اصلی حنفی تو لکھا لیکن اس کے ساتھ غیر مقلد نہیں لکھا ۔
آپ کے فرقہ کی ولادت کو تقریبا ڈیڑھ سو سال گزرے اس عرصہ میں کسی نے اپنے نام کے ساتھ غیر مقلد لکھا نہ دوسروں کو لکھنے کا فتویٰ دیا ۔ابن تیمیہ ،ابن قیم ،ابن حزم ظاہری ،قاضی شوکانی زیدی اور ابو داؤد ظاہری کے مقلدین نے بھی اپنے نام کے آگے مقلد یا غیر مقلد لکھنا ضروری نہ سمجھا ۔
ائمہ اربعہ میں سے کسی امام کے مقلد نے کبھی اپنانام ( اپنے نام کے ساتھ) مقلد نہیں بتا یا اور نہ ہی لکھا ۔ نہ کوئی امام مام کی تسبیح پڑھتا ہے ۔ائمہ اربعہ کے علاوہ بزرگوں کو بھی امام کہتے ہیں ذرا بتائیں ۔ مقلد کو مقلد کہنا فر ض ہے یا واجب۔؟
مقلد ہو نے کے لئے جاہل مطلق ہونا فرض ہے یا واجب ؟ قرآن وحدیث میں مقلد کو جاہل کہا گیا نہ کہنے کا حکم دیا گیا ۔نصوص کو چھوڑ کر مقلدین اور احناف یا غیر مقلد علماء کی تقلید (اس مسئلہ میں ) جن لوگوں نے کی وہ مسلمان رہےیا مشرک ہو گئے
جاہل سب یکساں درجہ کے ہوتے ہیں اور جہل مرکب میں مبتلا ہی کو جاہل کہتے ہیں ۔ان میں کوئی کم جاہل اور کوئی زیادہ جاہل نہیں ہوتا ۔ جواب ہاں یا نہیں میں دیں ۔
اگر کسی طالب علم کو پہلے سے کوئی سبق یاد ہو تو اس کو طالب علم کہنا حرام ہے یا جائز ؟
کیا استاد کتاب رٹائے تو استاد اور اس کام کام تعلیم اور کتاب کی تشریح کرنے لگے تو وہ استاد نہیں اور اس کا کام تعلیم نہیں ؟ اسی طرح استاد اپنے علم وفہم سے پڑھا دے تو استاد ہے اور یہ عمل تعلیم ہے اور کورس کی کتاب پڑھائے تو نہ وہ معلم واستاد اور نہ ہی ان کا عمل تعلیم ۔کیا یہ صحیح ہے ؟
آپ نے بخاری شریف نہ پڑھی ہو تو پڑھ لیں اور کوئی پوچھے کہ آپ کے بخاری کے استاد کون ہیں تو جواب دیجئے امام بخاری ۔اس لئے کہ استاد نے کیا پڑھایا وہی جو کچھ امام بخاری نے لکھا ہے اور میری مانیں تو آپ سیدھا جواب دیں میرے استاد پیغنبر ﷺ ہیں ۔اس لئے کہ امام بخاری نے کون سی حدیث اپنے گھر سے لکھی سب تو حضور ﷺ کی حدیثیں ہیں ۔
کوئی غیر مقلد ناظرہ قرآن پڑھ لے اور اس سے پو چھیں کہ تمہارے استاد کون ہیں اس کا جواب یقینا ہوگا میرا استاد اللہ ہے ۔ سب بندے ہیں ۔ بندے کا قرآن تھوڑی ہی ہے ۔پڑھائے قرآن اللہ کا اور استاد خود ہو اصلی حنفی صاحب آپ احقر سے متفق ہیں نا ۔۔۔ اصلی خالق اللہ ہے کوئی باپ کا نام پو چھے تو کیا کہا جائے اللہ ؟
جس نے آپ کو بچپن میں پڑھایا بعد میں اس کو استاد کہنا گناہ ہے یا جائز ۔اگر کوئی تمام دنیا کا علم کسی کو سکھائے وہ استاد کہلائے ایک آدھ کتاب پڑھانے والے کو استاد کیوں کہیں ؟
جب بھی کسی استاد کا ذکر کرنا ہو کیلکو لیٹ ( شمار وحساب) کر کےغیر مقلدین بتاتے ہوں گے کہ یہ دو مسئلے کےاستاد ہیں وہ ۱۱مسئلوں کے اور فلاں ۱۳ سبق کے اور فلاں ابن فلاں ۵ حدیثوں کے ۔
جو اہل علم ہیں وہ عالم ہیں ۔ کوئی کسی عالم کو کسی کا شاگرد نہ بتائے ۔ بھلا کوئی استاد بھی ہواور وہی شاگرد بھی ہو ( غیر مقلدوں کے نزدیک ) یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ طلباء کتاب پڑھتے ہیں تو استاد کے شاگرد کیوں۔ کوئی مذہبی عالم ہو اس کو دوسرا مضمون نہیں سیکھنا چاہئے ۔ تاریخ ،ادب سائنس ،کچھ بھی پڑھنا حرام ہے ۔ کوئی عالم تواضعا کہہ دے کہ میں حدیث کا یا فقہ کا یا تاریخ کا طالب علم ہو ں تو غیر مقلدین آئیں گے اور فتویٰ بازی شروع کر دیں گے کہ فلاں صاحب جاہل ہیں اور طالب علم ہو نے کا اقرار انہوں خود کیا ہے ، یا پھر ان کو جھوٹا بت کر دیں گے ۔الٹی عقل کسی کو بھی ایسی خدا نہ دے ۔
یہ چند سوالات ہیں اگر آن محترم ان کے جوابات مرحمت فر مادیں تو آپ کے سوالوں کے جوابات میں بہتر طور پر آپ کو سمجھا سکوں گا ۔ بلکہ آپ خود ہی سمجھ جائیں گے بشر طیکہ نہ سمجھنے کی قسم نہ کھائی ہو ۔
آپ نے میری معروضات کثیرہ کا کوئی حل ابھی تک نہ قرآن سے پیش فر مایا نہ حدیث سے نہ کسی معتبر کتاب سے ۔ میں جلد بازی کے لئے نہیں کہتا آپ فر صت میں ضرور لکھیں ۔ مگر احقاق حق میں آپ کو عجلت زیبا ہے ۔میں آپ کے اگلے پچھلے سب اشکالات انشاء اللہ حل کردوں گا ۔ آپ نے نص اور دلیل کا ذکر کیا ہے لیکن مجمل اور مبہم ۔۔ مہربانی فر ماکر نص کی تعریف ۔۔دلیل حصر کے ساتھ اس کی تقسیم۔ اور اس کے احکام جانتے ہوں تو لکھیں نہ جانتے ہوں تو بھی لکھیں۔
دلیل کی تعریف ۔۔ دلیل کے ساتھ اسکی تقسیم۔ اور علاحدہ علاحدہ سب کے احکام معلوم ہوں تو تحریر فر مائیں ۔۔نہ معلوم ہوں تو یہی بتادیں کہ معلوم نہیں ِ۔۔۔۔
آپ نے جو آیت پیش فر مائی ہے ۔ مہربانی فر ماکر یہ بتائیں کہ اس آیت کے پورے عموم کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔۔یا اس میں کچھ شرط کوئی قید لگاتے ہیں ۔اس آیت کی ذرا بھی خلاف ورزی اور کسی اعتبار سے اس کی مخالفت کر نے والے کو اللہ ورسول کیا کہتے ہیں ؟
جناب من ! عدیم الفرصتی کا رونا نہ روئیں ۔۔اگر واقعی سچ کہتے ہیں تو شاہ صاحب کی تقلید کی مذکورہ تعریف کو تسلیم کر لیں آپ کا کوئی اعتراض باقی نہ رہے گا ۔ غیر مقلدین یہی کہتے ہیں جو ملے اس سے پوچھو اپنے مذہب کے عالم یا خاص امام ہی کی تقلید کیوں ؟ آپ تو خاص عالم کے علاوہ کسی کی تعریف کو قبول نہیں کرتے یہ دو رُخا پن کیوں ؟۔۔۔ کیا یہ حکم کہنے کے لئے ہے کرنے کے لئے نہیں ؟
ناصر نعمان ہی کی " تعریف " پر اڑے رہنا اور ناصر نعمان کے علاوہ کسی کی پیش کردہ تعریف نہ ماننا کیا یہ تقلید شخصی نہیں ہے ؟۔۔۔ کیا اپنی قابلیت جتانے کے لئے اس حرام کو حلال کرنے کا اختیار آپ کو حاصل ہے ؟ اور اگر بکواس ہی کرنی ہو تو فرصت نہیں فرصت نہیں کا نعرہ بند کر دیں ۔۔اور صبر سے کام لیں ۔
آپ ایک سے گنتی مت کیجئے مگر اچھل اچھل کر اور چھلانگ لگا کر سیڑھیاں طے مت کیجئے ۔۔میرے اعتراضات کا پہلے جواب ہو جائے اس کے بعد دیکھئے میں آپ کو سمجھاتا ہوں کہ نہیں ؟
میں اپنے مضامین کمپوزکرا کے نٹ پرڈ التا ہوں ۔کمپوزر صاحب سفر کرنے والے ہیں ( گر می کی چھٹیاں ہیں نا ) اگر جواب میں تاخیر ہو تو مایوس نہ ہوں اس وقت تک آپ بھی فارغ ہو جائیں گے یہ سلسلہ جاری رہے گا ،انشا ء اللہ ۔ [/color]
ناصر بھائی اور میری بات یہاں تک پہنچی تھی کہ تقلید بے دلیل ہوتی ہے یا دلیل پر مگر بلا مطالبہ دلیل؟
ناصر بھائی نے اس ضمن میں کافی باتیں پیش کیں۔آپ مزید ان باتوں کا مطالعہ کرلینا۔ان باتوں کاخلاصہ بیان کردیتا ہوں
ناصر بھائی نے کہا تھا کہ تقلید ہوتی دلیل پر ہے لیکن دلیل کا مطالبہ نہیں کیاجاتا۔ لیکن میں نے ان کی ہی پیش کی گئی تعریفات سے اس بات کو ثابت کردیا تھا کہ تقلید بے دلیل بات پر ہوتی ہے۔اسی ضمن میں انہوں نےکچھ یوں تشریح کی تھی کہ
مسائل کئی طرح کے ہوتے ہیں۔کچھ نصوص قطعیہ والے، کچھ نصوص ظنیہ والے ، کچھ محتمل نصوص والے، کچھ متعارض نصوص والے۔وغیرہ وغیرہ
نصوص قطعیہ کے علاوہ باقی سب میں عامی کو مجتہد کی تقلید کرنی پڑتی ہے۔(حالانکہ یہ بات بھی تقلید میں نہیں آتی۔کیونکہ مجتہد جب نص میں موجود ظن کو یا احتمال کو یا تعارض کو رفع کردیتا ہے۔اورعامی کو بتا دیتا ہے کہ اس نص پر عمل نہیں کرنا بلکہ اس نص پر عمل کرنا ہے تو یہ کیسے تقلید بن جاتی ہے۔؟ اور دوسری طرف خود اقرار کرچکے ہیں کہ نص پر عمل تقلید بھی نہیں۔اس تضاد کی حقیقت؟؟؟) لیکن وہ یہاں پر اس بات کو ثابت نہ کرسکے کہ تقلید بھی دلیل پر ہوتی ہے لیکن بلا مطالبہ دلیل۔ کیونکہ دلیل (نص) پر عمل کرنے کو وہ کہہ چکے تھے کہ تقلید نہیں ہوتی ۔بلکہ ان کے علاوہ آپ کے بڑوں نے بھی کہا ہے۔
مزید انہوں نے اس پر یہ بات بھی کی تھی کہ
عامی کا مجتہد سے مسئلہ پوچھنا تقلید نہیں ۔کیونکہ عامی کو یہ حکم نص سے ثابت ہے اور نص پر عمل تقلید نہیں۔لیکن مجتہد کا عامی کو مسئلہ بتانا اور پھر اس مسئلہ پر عامی کا عمل کرنا یہ تقلید ہے۔
اس پر سوال کیا گیا تھا کہ جو مجتہد مسئلہ بتائے گا وہ نص سے یا نص کی روشنی میں نہیں بتائے گا۔؟ اس کے جواب میں ناصر بھائی نے کہا کہ اصل میں ایک ہوتا ہے قرآن وحدیث اور ایک ہوتا ہے قرآن وحدیث سے مجتہد کا مسئلہ اخذ کرنا۔اور جو مجتہد مسئلہ بتارہا ہے ۔مجتہد کا یہ بتانا قرآن وحدیث نہیں ہے۔اس لیے عامی کا مجتہد کی یہ بات مانناتقلید میں آتا ہے۔
حالانکہ یہ جواب بول بول کر بتارہاہے کہ میں ناقص ہوں۔ٹھیک ہے اس بات کو میں بھی مانتا ہوں کہ مجتہد کے الفاظ یا تشریح قرآن وحدیث نہیں۔لیکن اس مجتہد کے الفاظ کی بنیاد تو قرآن وحدیث ہی ہے۔اگر ہم اسی اصول پر رہیں تو پھر یہ کہنا بھی لایعنی ہیں کہ نص قطعی پر تو تقلید حرام ہے۔لین باقی نصوص پر تقلید واجب یا جو بھی کہہ لو۔ یہ کہنا کیوں لایعنی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم نے ایک اصول بنا دیا کہ مجتہد کے الفاظ قرآن وحدیث نہیں تو پھر نص قطعی کو سمجھانے کےلیے مجتہد عامی کو جو الفاظ بولے گا وہ الفاظ بھی قرآن وحدیث نہیں ہونگے۔؟ نص قطعی میں بھی عامی مجتہد کے الفاظ سن کر عمل کررہا ہے اور باقی نصوص میں بھی عامی مجتہد کے الفاظ سن کر عمل کررہا ہے۔تو ایک میں تقلید واجب اور ایک میں تقلید حرام؟ اس فرق کی کیاحقیقت ہے ۔کوئی نہیں سمجھا سکے گا۔
مطلبی گزارش
وضاحت میں بات کافی پھیل گئی اور شاید آپ کےلیے سمجھنا بھی مشکل ہوجائے۔ اس لیے دوبارہ بیان کردیتا ہوں
1۔نص پر عمل آپ کے نزدیک تقلید ہے یا نہیں ۔(ہاں یا ناں میں جواب۔)
2۔تقلید بے دلیل ہوتی ہے یا دلیل پر مگر بلا مطالبہ دلیل۔؟ (بیان کی گئی باتوں کے علاوہ کوئی توجیح ہوتو پیش کرنا ۔ورنہ خاموشی میں بہتری ہے)
3۔اگر آپ کہیں کہ تقلید دلیل پر ہوتی ہے لیکن دلیل کا مطالبہ نہیں کیاجاتا ۔ تو برائے مہربانی اس کاثبوت ضرور پیش کرنا۔شاید آپ کے پاس ثبوت ہو ورنہ ناصر بھائی تو ثبوت پیش نہ کرسکے۔
4۔تقلید کی جامع مانع تعریف بھی ایک بار دوبارہ اپنے معصوم ہاتھوں سے نقل کردینا تو نوازش ہوگی۔
نوٹ:
شرر صاحب ایک بات کی طرف دوبارہ اشارہ کردوں کہ جو بات بطور حوالہ پیش کی جانے کے قابل ہو اس کو بغیر حوالہ پیش نہ کریں۔ تاکہ ہمارا ٹائم اسی میں ضائع نہ ہو کہ آپ ایک بات کردیں یا پھر میں کوئی بات کردوں بغیر حوالہ۔ اور پھر بعد میں حوالہ کی طلب کرتے پھریں۔اس لیے میں بھی کوئی بات بغیر حوالہ کے پیش نہیں کرونگا۔آپ بھی مت کیجئے گا۔
اندھی تقلیدکا نتیجہ کہ عبارت نہ پوری ملی نہ پوری نقل کی ۔۔۔۔ انٹرنیٹ پر کئی کتابوں میں اس مسئلہ کی تفصیل موجود ہے ۔۔۔ چلو آج سب کو اپنی تحقیقی شخصیت دکھا کر یہ پوری عبارت نکال کر لاو ۔اصلی حنفی نے کہا ہے:معززین!
تقلید کی لغوی یا پھر اصطلاحی تعریفات دیکھی جائیں تو ہر جگہ بنا دلیل، بے دلیل، بغیر حجت، بلادلیل کے الفاظ نظر آتے ہیں۔
اس پر سوال کیا گیا تھا کہ کیا دلیل بے دلیل بات پر ہوتی ہے یا پھر با دلیل بات پر۔ جواب ملا کہ بادلیل مگر بلا مطالبہ دلیل۔
تو پھر سوال کیا گیا کہ ٹھیک ہے لیکن اس کا ثبوت کہ تقلید دلیل پر ہوتی ہے لیکن مجتہد سے دلیل کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ۔
بھائیوں نے اپنی اپنی توجیہات پیش فرماکر واضح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سب کی اپنی اپنی سمجھ تھی جو کہ بہت سارے علماء سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ٹھوس اور واضح ثبوت کاکہا گیا لیکن ابھی تک ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
اگر ایک منٹ کےلیے میں مان لوں کہ تقلید دلیل پر ہوتی ہے لیکن بلا مطالبہ دلیل تو پھر اس عبارت
’’محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
’’ والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔‘‘
کا کیا جواب ہوگا ؟
امام شافعی رحمہ اللہ کو اس مسئلہ میں ترجیح کس بنیاد پر دی جارہی ہے اور تقلید ابی حنیفہ رحمہ اللہ کا لزوم کس بیناد پر کیا جارہا ہے ؟
اگر تقلید دلیل پر ہوتی ہے تو پھر یوں ہونا چاہیے کہ جس طرح دلیل قوی اسی طرف یعنی اس کی تقلید۔
اس لیے برائے مہربانی یا اس بات کا ثبوت پیش کریں کہ تقلید با دلیل مگر بلا مطالبہ دلیل ہوتی ہے۔ یا پھر کہہ دیں کہ ہمارے پاس اس کا ثبوت نہیں۔ تاکہ پھر بات کو آگے چلایا جائے ۔
Malang009 نے کہا ہے:اندھی تقلیدکا نتیجہ کہ عبارت نہ پوری ملی نہ پوری نقل کی ۔۔۔۔ انٹرنیٹ پر کئی کتابوں میں اس مسئلہ کی تفصیل موجود ہے ۔۔۔ چلو آج سب کو اپنی تحقیقی شخصیت دکھا کر یہ پوری عبارت نکال کر لاو ۔
اعجازالحسینی نے کہا ہے:جہاں تک میں سمجھا ہوں
اعجازالحسینی نے کہا ہے:تو یہ اصلی حنفی صاحب بات کو الجھا رہے ہیں۔
اعجازالحسینی نے کہا ہے:ایک جگہ فرماتے ہیں کہ آپکو اس قابل نہیں سمجھتا،
اعجازالحسینی نے کہا ہے:دوسرا ارشاد ہوتا ہے میرے پاس وقت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعجازالحسینی نے کہا ہے:میرے خٰیال میں انکے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقت کا ضیاع ہے ۔
اعجازالحسینی نے کہا ہے:جناب من میرے سوال کا جواب دیں پھر بات کرتے ہیں ۔
[size=xx-large]آپکو آپکے والد صاحب کے متعلق کس نے بتایا کہ یہ آپکے والد صاحب ہیں ؟
اور آپ نے کیسے یقین کیا ؟[/size]
کسی گاؤں میں ایک صاحب رہتے تھے ۔۔۔جنہیں مناظروں کا بے حد شوق تھا ۔۔۔۔ایک روز کسی سے بحث کرتے ہوئے جذبات میں آگئے ۔۔۔ اور کسی کو مناظرہ کا چیلنج کردیا ۔۔۔۔ اور ہارنے کی صورت میں دو لاکھ روپے دینے کا وعدہ بھی کر بیٹھے ۔۔۔حالانکہ وہ صاحب کافی غریب ہوا کرتے تھے۔۔اصلی حنفی نے کہا ہے:نوٹ
عارضی طور پر ماقبل جاری اعتراض کو مان رہا ہوں۔ ورنہ میرا اعتراض باقی ہے اگر کسی میں جرات ہے تو جواب عنایت کردے شاکر رہوں گا۔
ناصرنعمان نے کہا ہے:کسی گاؤں میں ایک صاحب رہتے تھے ۔۔۔جنہیں مناظروں کا بے حد شوق تھا ۔۔۔۔ایک روز کسی سے بحث کرتے ہوئے جذبات میں آگئے ۔۔۔ اور کسی کو مناظرہ کا چیلنج کردیا ۔۔۔۔ اور ہارنے کی صورت میں دو لاکھ روپے دینے کا وعدہ بھی کر بیٹھے ۔۔۔حالانکہ وہ صاحب کافی غریب ہوا کرتے تھے۔۔
ناصرنعمان نے کہا ہے:بہرحال جب گھر پہنچے تو ان کی گھروالی کو معلوم ہوا کہ موصوف ہارنے کی صورت میں دو لاکھ دینے کا وعدہ کر آئے ہیں ۔۔۔۔ تو ان کی گھر والی بہت ناراض ہوئیں کہنے لگیں یہاں کھانے کے لالے پڑے ہیں اور آپ دولاکھ دینے کا وعدہ کر آئے ہیں ؟؟؟
ناصرنعمان نے کہا ہے:جس پر وہ صاحب ہنس کر بولے
ناصرنعمان نے کہا ہے:بیگم میں نے ہارنے پر دولاکھ کا وعدہ کیا ہے ۔۔۔۔ جب ہاروں گا تب ہی تو دوں گا ۔۔۔۔میں نے کب ہار ماننی ہے ؟؟؟
ناصرنعمان نے کہا ہے:باقی مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ لیکن تمام حضرات سے غور و فکر کی درخواست ہے کہ کیا ایسے لوگوں پر وقت لگانا وقت کا ضیاع نہیں؟؟؟
ناصرنعمان نے کہا ہے:جو گھر سے ہی میں نا مانوں کا سوچ کر آتے ہیں ؟؟؟
ناصرنعمان نے کہا ہے:اور یہ ان کا ہی حال نہیں ۔۔۔۔ بلکہ ہمارے ساتھ تو ایک دفعہ ایسا بھی ہوچکا ہے کہ ایک قادیانی کے ساتھ بات چیت کے دوران مراسلات کی تعداد 500 سے بھی تجاوز کرگئی ۔۔۔لیکن حیران کن طور پر اُن صاحب کا بھی یہی دعوی تھا کہ موصوف کو کسی سوال کا جواب نہیں ملا ۔۔۔۔ ہے کسی میں جرات جو اُن کے سوالات ک جوابات دے سکے ؟؟؟
ناصرنعمان نے کہا ہے:واقعی ایسے لوگوں کو جواب دینے کے لئے کسی کو جرات نہیں ہوسکتی ۔
آپ جیسے سادے اور انپڑھ منافق ٹائپ بندوں کے سوالوں کے جواب دو طرح سے دئیے جاتے ہیں اک تو سوال کے جواب میں جواب اور دوسرا ٹائپ جو آپ والا ہے اسمیں سوال کے جواب میں سوال اور پھر آنے والے جواب کے جواب میں جواب دیا جاتا ہے ۔ سمجھ میں آیا یا مزید آسان کرکے سمجھاؤں؟ چلو بھئی سادہ لوح انپڑھ قسم کے منافق ٹائپ بندے بنام اصلی حنفی ، آپ سے جو سوالات پوچھے تھے وہ اسی فارمولے کے تحت تھے ۔ جب تک آپ اپنا موقف اور عقیدہ ظاہر نہیں کرتے آپ کو بات سمجھائی ہی نہیں جاسکتی اسلئے آپ پہلے ان سوالوں کے جوبات دیجئے جو آپ کے سامنے پیش کئیے تھے ۔پھر آپ کے جواب کی روشنی میں آپ کو جواب دیا جائے گا۔اصلی حنفی نے کہا ہے:تقلید مجھے سمجھا دو۔!السلام علیکم
مقلدین اور اہل حدیث کےہاں اختلافی مسائل میں سے ایک مسئلہ تقلید بھی ہے۔مقلدین حضرات کہتے ہیں کہ تقلید کی جائے گی بلکہ تقلید واجب ہے جب کہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
ہم جیسی ان پڑھ اور سادہ لوح عوام سرگرداں،پریشان اور حیران ہے کہ اب کہاں جایا جائے۔؟
الغزالی فورم پر تقلید پر پوسٹ کچھ پڑھیں ہیں اور کچھ زیر مطالعہ ہیں۔ان بحثوں سے ازخود سمجھنا یا کسے سے پوچھ گوچھ اور سوال وجواب کے طرز پر سمجھنا بہت فرق ہے۔تقلید کی حقیقت جاننے کےلیے اس تھریڈ کا آغاز کررہا ہوں۔امید ہے کہ ان شاءاللہ سلجھے ہوئے انداز سے جب بات کی جائے گی تو کچھ سمجھنے میں مشکل نہ ہوگی۔
مجھے مختصرتقلید کے بارے میں بتایا جائے
سب سے پہلے تو مجھے یہ بتائیں کہ تقلید کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کیا ہے۔اور ساتھ کسی معتبر کتاب کاحوالہ بھی ہو ۔اور ہاں اگر ممکن ہوتو کتاب کا لنک بھی ساتھ پیش کردیا جائے تاکہ کتاب کے مطالعہ کا بھی موقع مل سکے۔
پہلے ان سوالوں کے جواب دیجئے
1
اصلی حنفی صاحب اگر آپ واقعی اصلی حنفی ہیں تو پھر اپنے آپ کو اصلی حنفی ثابت کردیں۔
2
اگر جھوٹ موٹ اصلی حنفی بن کر آئے ہیں تو پھر اپنا اصلی عقیدہ بھی بتادیں۔
3
منافقوں والا طریقہ چھوڑ دیں اور آپ جو ہیں ، وہی بن کر بات کریں۔
(یعنی غیر مقلد،شیعہ،بریلوی،وغیرہ)
4
تقلید ایک کی چھوڑی جائے یا سب کی ؟
نوٹ:- بلکل سچی سچی جواب دینا ہے جناب پھر ان شاء اللہ آپ کو تقلید آپ کے ہی طریقے سے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
ہا ہا ہا ہا ہا ہا اوووووو ہا ہا ہا ہا اووو ہا ہا ہا ہا
۔اوئے مقلدو
ہٹ دھرمو
آپ ادھر ادھر کی گپ شپوں اور فضول بکواسات
بہت خوب مسٹر اصلی منافق بہت خوب یہ ہے آپ کا فرقہ اہل حدیث کے مولویوں کا جاہل اور سادہ لوح عوام ہونے کا ثبوت اور تربیت۔ سادہ لوح ایسے ہیں تو شاطر لوح کیسے ہوں گے؟؟؟[]==[]منافقت تم لوگوں میں ہے
مسٹر اصلی تقلید کو آپ مانتے بھی ہو یا نہیں ؟ کیونکہ آپ کے مولوی جن کی آپ کفریہ تقلید کرتے ہیں انمیں سے اک کہتا ہے4
تقلید ایک کی چھوڑی جائے یا سب کی ؟
اور دوسرا کہتا ہےصادق سیالکوٹی
صلوٰۃ الرسول صفحہ 79 پر جرابوں پر مسح کرنے کا باب قائم کرکے ثابت کرتا ہے کہ "جرابوں پر مسح کرنا چاھئے"۔
دیکھ لیجئے اور پھر ہوتا کیا ہے ؟ صرف اہل سنت والجماعت احناف سے بغض کی ہی وجہ سے جان بوجھ کر مسح کیا جاتا ہے اور عام اہل سنت افراد کو فتنہ میں ڈالا جاتا ہے۔لیکن اصل بات یہی ہے کہ غیر مقلدین یعنی نام نہاد اہل حدیث خود اسی تقلید کے شکار ہیں جسے وہ شرق اور کفر کہتے ہیں جیسےعبدالرحمان مبارک پوری غیر مقلد کہتے ہیں
"خلاصہ کلام یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کے معاملہ میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ملتی جس پر جرح نہ ہو۔"
(تحفۃ الاحوذی،جلد1،صفحہ102)
(یعنی مسح سے متعلق سب احادیث مجروح ہیں)
دیکھا مسٹر اصلی منافق ! عین آپ کی توقع کے مطابق سیالکوٹی نے الفاظ استعمال کئیے ہیں تقلید سے متعلق۔ پھولے نہیں سمارہے ہوگے آپ []--- خوشی سے بانچھیں چوڑی ہوگئی ہوں گی؟صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں
“تقلید گمراہی ہے ۔ہلاکت ہے۔“(سبیل الرسول،صفحہ166)
“تقلید ظلمت ہے“ (صفحہ153)
“تقلید آفت ہے“ (صفحہ157)
“تقلید بے علمی ہے“ (صفحہ 158)
آپ سے اسی لئے پوچھا تھا مسٹر اصلی کہ آپ اپنا عقیدہ بتادیں ، جوکہ آپ نے الفاظ میں نہیں بتایا لیکن اپنی “بکواس“ سے ظاہر کردیا ۔مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں
“تقلید مطلق اہلحدیث کا مزہب۔“
(ثنائیہ،جلد1،صفحہ256)
اصلی حنفی نے کہا ہے:ہا ہا ہا ہا میرا کہنا سچ نکلا کہ حضور سہج گالی گلوچ کی پیداوار ہیں۔ہا ہا ہا ہا اور غالب گمان ہے کہ جب پیدا ہوئے ہوں گے تو یا ماں نے کسی کو گالی دے کر پہلا سبق دیا ہوگا یا جوساتھ دائیہ ہوگی اس نے۔ کیونکہ باپ تو اس ٹائم ہوگا ہی نئی۔ یا سہج باپ بھی اس ٹائم موجود تھا؟ اچھا موجود تھا۔ واؤ۔ پر مجھے نہیں معلوم تھا۔ چلو شکر ہے کہ آپ کی خاموشی نے اس کا جواب دے ہی دیا۔ ہاہا ہا ہا ہا ہا ہا
مسٹر سہج مقلد منافق پہلے بھی تمہیں کہا گیا کہ موضوع کی مناسبت سےبات کریں لیکن پتہ نہیں خاص جگہ میں کیا آگ لگی ہوئی ہے (اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کےلیے مقلدیت میں کوئی نہیں ملا؟) منافقت کی۔ اور پھر مزے کی بات ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے کا بھی مصداق بنے جارہے ہیں۔ منہ پر گند بھی لگایا ہوا ہے اور شور بھی مچا رہے ہیں کہ میرا منہ صاف ہے۔ آپ جیسی گندگی تو جناب ہمیشہ وہاں ہوتی ہے جہاں گٹر ہوتے ہیں۔۔تو یہاں کیا کررہےہو؟ ہش ہش ہش ہش ۔ آپ سے گندگی کی بو آرہی ہے۔
تم شروع سے منافق منافق کی رٹ لگاتے جارہے ہو۔ صرف اس لیے کہ میں نے اپنا یوزر نیم اصلی حنفی رکھا ہوا ہے۔
ارے عبداللہ بن ابی صرف نام پڑھتے ہی گند باہر نکل آیا۔؟ دوسروں کے کپڑوں پر لگےگند کو نہ دیکھا کرو منافق سائیں کبھی اپنے اندر و باہر دیکھ لیا کرو کہ میرے اندر کیا پلیدی ہے میں حلالی ہوں یاحرامی۔؟ اور میں یقین کامل سے کہتاہوں کہ توں حرامی ہے۔ اگر حلالی ہے تو پھر امام ابوحنیفہ کاقول پیش کر کہ توں حلالی ہے۔جب تک قول پیش نہیں کرےگا۔ تب تک میں تجھے حرامی کےنام سے پکاروں گا۔ سہج حرامی اب قول پیش کرکے سہج حرامی کےبجائے سہج حلالی بن جاؤ۔
میں نے تمہیں عبداللہ بن ابی کہا کیوں؟ اس کا ثبوت بھی میرے پاس ہے۔ تم مقلدین عبداللہ بن ابی منافق سے بھی دو قدم آگے ہو۔ دعویٰ تو یہ ہےکہ ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےمقلد ہیں لیکن کیسےمقلد ہیں؟ یہ سچ ہے یا منافقت یہ دیکھ
دیکھا عبداللہ بن ابی منافق آپ نے ؟ کہ کیسی دعویٰ میں منافقت ہے۔ اب بتا حقیقی منافق یعنی عبداللہ بن ابی کا ساتھی توں اور تیری جماعت ہے یا میں ؟
جھوٹا ثابت ہوا ناں تیرا اور تیری جماعت کا یہ دعویٰ کہ ہم امام ابوحنیفہ کےمقلد ہیں۔؟ عبداللہ بن ابی منافق یہ صرف ایک جھلک تھی ورنہ فروعات میں بھی تم منافق کتنی امام صاحب کی تقلید کرتے ہو؟ اس کو بھی اپنےوقت پر پیش کیاجائے گا۔
نوٹ:
حضور اب بھی چھوٹ دے رہا ہوں اور ایک بار پھر کہہ رہاہوں کہ یہ تمام بغیرتیاں اپنے پاس رکھ اور تمیز سے بات کرتےہوئے جو بات جاری ہے اس کاجواب دے۔ ورنہ پہلےبھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ اگر اس طرح کی حرکت اب کی تو پھر مقلدیت کو سہارا دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ان شاءاللہ
اخلاق میں رہ کر بات کرو اور اخلاق میں رہ کر جواب لو۔ اگر ایک قدم بھی اخلاق سےباہر نکل کر جواب دو گے تو دوقدم اخلاق سےنکل کر جواب ملے گا۔ آئی سمجھ کہ نہیں ؟
اب بھی تیرے پاس ٹائم ہےکہ توں یہاں تک ہی رک جا
1۔عقائد میں دونوں فریق امام ابوالحسن اشعری اور امام ابو منصور ماتریدی کو امام و مقتدا مانتے ہیں۔ (اختلاف امت اور صراط مستقیم صفحہ نمبر ۳۷)
2۔ہم اور ہمارے مشائخ اور ہماری ساری جماعت بحمداللہ فروعات میں مقلد ہیں مقتدائے خلق حضرت امام ہمام امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے، اور اصول و اعتقاد یات میں پیرو ہیں امام ابوالحسن اشعری اور امام ابومنصور ماتریدی رضی اللہ عنہما کے (المھند علی المفند صفحہ ۲۹)
اب یہ آخری سوال رہ گیا ہے اسکا جواب بھی دے ہی دو مسٹر اصلی غیر مقلد ، تاکہ کم ازکم یہ تو معلوم ہو آپ کس درجہ کے غیر مقلد ہو۔4
تقلید ایک کی چھوڑی جائے یا سب کی ؟