اصلی حنفی نے کہا ہے:
بکواس بند مسٹر سہج مقلد (جاہل) میرے اکابرین کو تم کیسے مشرک اور حرام کار کہہ سکتے ہو ؟ یہ جراءت تمہیں کس نے دی ہے۔؟ یہ سراسر تمہارا الزام وبہتان ہے جس کا جواب تمہیں روز قیامت دینا ہوگا۔
مسٹر اصلی غیر مقلد بکواس کہو یا کچھ بھی تم خود ہی اپنے اکابرین کو مشرک اور حرام کار کہتے ہو اور میں نے تمہارا جوتا تمہارے ہی سر رکھا ہے اپنا نہیں ، اسلئے مسٹر اصلی آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے عقیدے پر نظر ثانی کیجئے یعنی
http://www.algazali.org/gazali/showthread.php?pid=31876#pid31876
محترم ہم جس تقلید کو شرک اور حرام کہتے ہیں وہ تقلید ہے نص کے مقابلے میں۔
جب آپ خود ہی کہیں نص کے مقابل تقلید کرنے کو اور آپ کے اکابرین بھی کہیں کہ
جہاں نص قرآنی اور حدیث نہ ملے وہاں تقلید مجتہدین سے انکار نہیں تو مسٹر اصلی حنفی پھر تو یہی کہا جائے گا کہ تمہارے اکابرین اقراری مشرک اور حرام کار قرار پائے آپ کے عقیدے کے مطابق ۔ اسلئے خاطر جمع رکھئے یہاں آپ کا جوتا آپ کے سر رکھا گیا ہے صرف۔اسلئے کہ تمہارے اکابرین
“خصوصاً آئمہ مزھب حنفی کی “ تقلید کیا کرتے تھے اقراری ۔ اوکے مسٹر اصلی غیر مقلد ؟ اور حنفی تمہارے نزدیک
“نص کے مقابل“ تقلید کرتے ہیں (جبکہ یہ الزام آپ کا جھوٹ ہے) اور اگر اپنے اکابرین کے اقراری مشرک اور حرام کار ہونے (تمہارے عقیدے کے مطابق) کے اعلان سے پریشان ہو اور یہ کہو کہ انہوں نے “نص کے مقابل“ نہیں بلکہ “نص کے نا ملنے پر “ تقلید کا پھندہ گلے میں ڈالا تو مسٹر اصلی غیر مقلد پھر بھی تمہیں ہی ڈوب کر مرنا چاھئے کہ پھر بھی تمہارے اکابرین ““خصوصاً آئمہ مزھب حنفی کی ““ ہی تقلید کیا کرتے تھے ۔ تو اس بات سے تم ہی جھوٹے ثابت ہوئے اور نفس پرست ، کیونکہ تم اپنے اکابرین کو کافر اور مشرک اور حرام کار تو ثابت مان لو گے لیکن اپنے آپ کو نفس پرست یا جھوٹا کبھی نہیں مانو گے ۔ اور یہی ہے خاصیت فرقہ اہل حدیث کے غیر مقلدوں کی۔
اصلی حنفی نے کہا ہے:
جی بالکل ہم اس تقلید کو حرام وشرک کہتے ہیں ۔ ایک بار نہیں لاتعداد بار کہوں گا۔ کیونکہ ایک طرف نص ہو اور دوسری طرف کسی کی بات ہو۔ نص سےمراد اللہ اور نبی کریمﷺ کا فرمان۔ تو جو اس حالت میں بھی تقلید کرے اور اللہ واس کے رسولﷺ کی بات کو نہ مانے کیا تم لوگ اس کو موحد کہتے ہو ؟
تم موحد کہتے پھرو میں ایسی تقلید کو حرام وشرک کہتا ہوں۔
دوبارہ ذرا ان الفاظ پر غور کرلینا کہ جو تقلید نص کے مقابلے میں ہو۔ امید ہے ان الفاظ کا مطلب اچھی طرح سمجھ گئے ہوگے۔
مسٹر اصلی غیر مقلد آپ صرف جھوٹ ہی بولے جارہے ہیں ! جناب ہم نص کے مقابلے میں تقلید نہیں کرتے بلکہ عین نص کے مطابق تقلید کرتے ہیں ۔
دیکھئے
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ
سو اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو
صاحب روح المعانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
-:ترجمہ:-
اس آیت سے استدلال کیا گیا ھے کہ جس بات کا خود علم نہ ھو اس میں علماء کی جانب رجوع کرنا واجب ھے۔
(روح المعانی ،،ص،148،ج،4)
حافظ ابوعمر ابن عبدالبر المتوفی 463 ھجری فرماتے ہیں
ترجمہ:-
علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ھے کہ عوام کے لئے اپنے علماء کی تقلید واجب ھے اور اللہ کے قول فاسئلو اھل الزکر ۔۔ الخ۔ سے یہی لوگ مراد ہیں۔اور سب کا اتفاق ھے کہ اندھے پر جب قبلہ مشتبہ ھوجائے تو جس شخص کی تمیز پر اسے بھروسہ ہے ،قبلہ کے سلسلہ میں اس کی بات ماننی لازم ہے اسی طرح وہ لوگ جو علم اور دینی بصیرت سے عاری ہیں ان کے لئے اپنے عالم کی تقلید لازم ہے۔
(جامع بیان العلم و فضلہ ،ص989،،ج 2)
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُوْلِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ
(النساء 83)
-:ترجمہ:-
اور جب انکے پاس امن یا خوف کا کوئی معاملہ آتا ھے تو اسے مشہور کردیتے ہیں۔ اگر پیغمبر خدا اور اپنے میں سے اولی الامر کے پاس اسے لے جاتے تو ان میں سے جو اہل استنباط (یعنی مجتہدین) ہیں اسے اچھی طرح جان لیتے
اس آیت میں از خود عمل کرنے اور اہم معاملات کی تشہیر کرنے کو منع کرکے مجتہدین کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ھے کیونکہ مسئلہ کی حقیقت کماحقہ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں ،نیز اس آیت میں معاملہ کو لوٹانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علماء مجتہدین کو شریک کرکے یہ اشارہ کیا گیا ھے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرنا محض حسن ظن اور اعتبار و اعتماد کی بنا پر ھے اسی طرح مجتہدین کی طرف رجوع کرنا محض حسن ظن اعتبار و اعتماد کے ساتھ ہونا چاھئے ، گو اعتماد کی نوعیت میں دونوں جگہ بڑا فرق ہے۔ اسی چیز کو اصطلاح میں تقلید کہا جاتا ھے۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ "تفسیر کبیر" میں اس آیت سے چند امور اخز کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
-:ترجمہ:-
تو ثابت ھوا کہ استنباط حجت ہے اور قیاس یا تو استنباط ہے یا اس میں داخل ، تو وہ بھی ہوا۔ اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو ہم کہتے ہیں کہ آیت چند امور پر دلالت کرتی ہے۔
(1)
پیش آمدہ مسائل میں بعض ایسے امور ہیں،جو نص سے نہیں بلکہ استنباط سے جانے جاسکتے ہیں۔
(2)
استنباط حجت ھے ۔
(3)
عام آدمی کے لئے ان پیش آمدہ مسائل میں علماء کی تقلید واجب ھے ۔
(تفسیر کبیر ،،ص،،273،،ج3،)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
(النساء 59)
-:ترجمہ:-
اے ایمان والو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے میں سے اولوالامر کی اطاعت کرو ۔
لفظ " اولی الامر " کی تفسیر مفسرین کرام نے حکام و سلاطین اور علمائے مجتہدین دونوں سے کی ہے۔ مگر یہاں علمائے مجتہدین مراد لینا زیادہ بہتر اور راجح ھے،کیونکہ حکام دنیوی، احکام دینیہ میں خود مختار مہیں ہیں ۔ بلکہ وہ علمائے شریعت کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ لہٰزا علمائے کرام حکام دنیاوی کے حاکم اور امیر ھوئے۔
صاحب تفسیر کبیر فرماتے ہیں
ترجمہ:-
بے شک امراء و سلاطین کے اعمال علماء کے فتاوٰی پر موقوف ہیں اور علمائ درحقیقت سلاطین کے بھی امیر ہیں، تو لفظ "اولی الامر " کا ان پر محمول کرنا زیادہ بہتر ھے ۔
(تفسیر کبیر،،ص،،344،،ج،3)
اسلاف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبداللہ ، حضرت عطاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ، حضرت مجاھد رحمہ اللہ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ ، حضرت ضحاک رحمہ اللہ علیہ ، حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی یہی رائے ھے کہ " اولی الامر " سے علماء فقہاء اور مجتہدین مراد ہیں۔(تفسیر خازن ۔ مدارک وغیرہ)
یہ بات ذہن میں رہے کہ " اولی الامر " کی تفسیر میں علماء اور فقہاء کا جو لفظ آیا ہے اس سے مجتہدین ہی مراد ہیں ۔
صاحب روح المعانی فرماتے ہیں
ترجمہ:-
بے شک علماء سے مراد وہ حضرات ہیں جو احکام کا استنباط اور انہیں اخز کرتے ہیں۔
(روح المعانی ، ص ، 65 ، ج ، 5 )
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ شریعت میں اولی الامر سے مجتہدین مراد ہیں ، تو ان کی بھی اتباع واجب ھوئی اور اتباع وہی کرتا ھے جو متبوع کے درجے کو نہ پہنچے تو اس آیت سے صاف ثابت ھوا کہ وہ مسلمان جو خود مجتہد نہیں ہے اس کے لئے کسی مجتہد کی اطاعت اور اس کی تقلید واجب ھے ۔ اب رہی یہ بات کہ مجتہد کا اجتہاد محض حسن ظن کی بنیاد پر مان لیا جائے یا اس سے دلیل طلب کی جائے ۔ تو اس کا جواب خود آیت سے طلب کیا جائے، چنانچہ " اولی الامر " کو فعل اطاعت کے اعادہ کے بغیر "الرسول" پر عطف کیا گیا ھے۔ جو اشارہ ہے اس بات کی جانب کہ جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بغیر دلیل طلب کئے ہوئے محض حسن ظن کی بنیاد پر واجب ھے اسی طرح مجتہد کی اطاعت بھی مسائل اجتہادیہ میں حسن ظن کی بنیاد پر دلیل طلب کئے بغیر ہونی چاھئے۔ اگرچہ حسن ظن کا منشاء دونوں جگہ الگ الگ ھے ۔ پہلی جگہ حسن ظن کا منشا ذات رسالت ھے جس کی اطاعت واجب قطعی ہے۔ دوسری جگہ حسن ظن کا منشاء مجتہد کا تقوٰی اور اس کا علم صحیح ہے جس کی اطاعت واجب ظنی ہے۔ اور کسی مجتہد کی ایسی اطاعت جس کی بنیاد حسن ظن ہو اسی کو تقلید کہتے ہیں۔ لہٰذا اس آیت سے ثبوت تقلید اظہر من الشمس ہوگیا ۔
مسٹر اصلی صاحب میں نے دکھا دیا ہے کہ ہم اہل سنت والجماعت حنفی نص کے عین مطابق تقلید کرتے ہیں اور ہمارے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اصول بھی آپ کو دکھا دوں !
دیکھئے
اِنِّیْ آخُذُ بکتاب اللّٰہ اذا وجدتہ، فما لم اجدہ فیہ اخذت بسنة رسول اللّٰہ والآثار الصحاح عنہ التی فشت فی ایدی الثقات عن الثقات، فاذا لم اجد فی کتاب اللّٰہ ولا سنة رسول اللّٰہ اخذت بقول اصحابہ من شئتُ وادَعُ قولَ من شت، ثم لا آخرُج عن قولہم الی قولِ غیرہم.
واذا انتہی الامرُ الی ابراہیم، والشعبی، والحسن، وعطاء، وابن سیرین، وسعید بن المسیب - وعدَّدَ رجالا - فقوم قد اجتہدو فلی ان اجتہدَ کما اجتہدوا
(الانتقاء للامام الحافظ ابن عبدالبر مع تعلیق الشیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمة الله عليه، ص: ۲۶۴-۲۶۵)
ترجمہ
میں (شرعی احکام میں)
اللہ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں جب وہ احکام مجھے کتاب الٰہی میں مل جائیں، اور جو احکام مجھے قرآن میں نہیں ملتے تو
پھر سنت رسول اللّٰہ اور ان صحیح آثار پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں سے منقول ہوکر ثقہ راویوں میں پھیل چکے ہیں، اور
اگر کتاب الٰہی اورحدیث نبوی (دونوں) میں نہیں پاتا تو آپ صلى الله عليه وسلم کے صحابہ کے اقوال میں سے جسے چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جسے چاہتاہوں چھوڑ دیتا ہوں(البتہ حضرات صحابہ کے قول سے باہر نہیں جاتا کہ) سارے صحابہ کے قول کو چھوڑ کر دوسرے کے قول کو اختیار کرلوں۔
اور جب نوبت ابراہیم نخعی، عامر،شعبی، محمد بن سیرین، حسن بصری، عطاء اور سعید بن مسیب (رحمہم اللہ) وغیرہ متعدد حضرات تابعین کے نام شمار کئے) تک پہنچتی ہے
تو ان حضرات نے اجتہاد کیا لہٰذا مجھے بھی حق ہے کہ ان حضرات کی طرح اجتہاد کروں۔ یعنی ان حضرات کے اقوال پر عمل کرنے کی پابندی نہیں کرتا بلکہ ان ائمہ مجتہدین کی طرح خدائے ذوالمنن کی بخشی ہوئی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاتا ہوں اور اپنے فکر واجتہاد سے پیش آمدہ مسائل کو حل کرتا ہوں
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے مسٹر اصلی غیر مقلد ؟ لیکن نہیں بھئی آپ ہیں غیر مقلد جو اپنے اکابرین کو بھی حرام کار اور مشرک قرار دیتا ہے وہ کیسے کسی اہل سنت والجماعت حنفی کی پیش کردہ بات کو مان سکتا ہے ؟ سمجھ بے شک جائے۔
مسٹر اصلی غیر مقلد ، میں نے آپ کو نص بھی دکھادی اور الحمدللہ اپنے امام صاحب ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا عقیدہ و طریقہ اجتہاد بھی دکھا دیا ۔اور امت کے اکابرین کے اقوال بھی دکھا دئیے کہ تقلید واجب ہے ۔
اب میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی دکھادیتا ہوں
دیکھئے
عن ابی حزیفہ قا ل قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقتدوا باللزین من بعدی ابی بکر و عمر ۔
(ترمزی ،، ص،507،،ج2،،)
-:ترجمہ:-
ان دونوں کی اقتداء اور پیروی کرو جو میرے بعد ہو یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ۔
اس حدیث میں شیخین کی اقتداء کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ان سے دلیل طلب کرنے کا حکم نہیں فرمایا گیا، اسی کو تقلید کہتے ہیں ۔
عن العرباض ابن ساریہ یقول قام فینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال سترون من بعدی اختلافاً شدیداً فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین۔
(ابن ماجہ،،ص،،5،)
-:ترجمہ:-
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں خطبہ دیا (اور اسکے درمیان فرمایا) میرے بعد تم لوگ بہت سے اختلافات دیکھو گے تو میری سنت اور میرے ھدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کی پابندی کرو ۔
اس حدیث سے علمائے کرام نے خلفائے راشدین کے عموم میں ائمہ مجتہدین کو بھی داخل کیا ھے۔
حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ حاشیہ ابن ماجہ میں تحریر فرماتے ہیں
ومن العلماء من کان علی سیرۃ علیہ السلام من العلماء والخلفاء کاالائمہ الاربعہ المتبوعین المجتھدین و الائمہ العادلین کعمر بن عبدلعزیز کلھم موارد لھد الحدیث۔
(انجاح الحاجۃ علی ابن ماجہ ص5،،)
ترجمہ:-
جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہوں ،جیسے چاروں ائمہ اور عادل حکام ، جیسے عمر بن عبدالعزیز سب اس حدیث کے مصداق ہیں ۔
علمائے کرام کے اقوال سے تقلید کا ثبوت
چوتھی صدی ھجری کے بعد جتنے مستند اور معتبر علمائے کرام گزرے ہیں سب نے تقلید کی ھے اور تقلید کے وجوب کو بیان فرمایا ھے۔ یہاں بطور اختصار صرف چند علماء کرام کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں ۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ترجمہ:-
عام لوگ اور وہ حضرات جو اجتہاد کے درجے کو نہ پہنچیں ان پر مزاھب مجتہدین میں سے کسی ایک معین کی تقلید واجب ہے ۔
(شرح جمع الجومع بحوالہ خیر التنفید ،،ص،،175،،)
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ترجمہ:-
اس میں شک نہیں کہ ان چاروں مزاھب کی اب تک تقلید کے جائز ہونے پر تمام امت کا یا جنکی بات کا اعتبار کیا جاسکتا ھے اجماع ہے اسلئے کہ یہ مدون ھوکر تحریری صورت میں موجود ہیں اور اس میں جو مصلحتیں ہیں وہ بھی مخفی نہیں ، خصوصاً اس زمانے میں جبکہ ہمتیں بہت ہی زیادہ پست ھوچکی ہیں اور ہر صاحب رائے اپنی ہی رائے پر نازاں ہے ۔
(حجۃ اللہ البالغہ،، ص،،154،،ج،،1،، طبع مصر)
بحر العلوم مولانا عبدالعلی فرنگی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
وعلیہ بنا ابن الصلاح منع التقلید غیر الائمہ الاربعہ ۔
ترجمہ:-
اسی بناء پر ابن صلاح رحمہ اللہ نے ائمہ اربعہ کے سوا دوسروں کی تقلید سے ممانعت فرمائی ھے ۔
(فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت،،ص،،269،،)
علامہ شیخ احمد المعروف بہ ملا جیون صاحب فرماتے ہیں۔
ترجمہ:-
اس پر اجماع ھوگیا ھے کہ اتباع صرف ائمہ اربعہ ہی کی جائز ہے۔۔ ان حضرات کے بعد پیدہ ھونے والے ان کے مسلک کے مخالف مجتہد کی تقلید درست نہیں
(تفسیرات احمدیہ،،ص،،346،،)
یہ تھے علمائے امت کے چند افراد کی گواہیاں کہ تقلید صرف ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی ہی کی جائے گی جسے مسٹر اصلی غیر مقلد کے اکابرین بھی اقراری کرتے تھے ، لیکن یہاں اک بات کی اور وضاحت کردوں کہ میں نے اکابرین فرقہ اہل حدیث کے اقوال اسلئے پیش نہیں کئے کہ مجھے ان سے اہل سنت والجماعت کا موقف ثابت کرنا تھا ، بحمدللہ ہم ان غیر مقلدین جوکہ نام نہاد اہل حدیث بنے پھرتے ہیں ، کے کسی قول و فعل کی حاجت نہیں ہے بلکہ میں نے اسلئے پیش کئے تھے کہ شاید مسٹر اصلی کو کچھ تو شرم آئے اور یہ صاحب میرا نہیں تو اپنے ان اکابرین کا ہی لحاظ کرلیں جو اقراری تقلید کرتے کرتے مرگئے ۔ لیکن افسوس کہ مسٹر اصلی غیر مقلد نے اک بار پھر ثابت کیا کہ یہ اصلی غیر مقلد ہی ہیں جو نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتا ہے اور ناہی صحابہ کا ۔ جی ہاں مسٹر اصلی جس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی بات کو نہیں مانا جاتا ۔
ثبوت !
دیکھئے
مسئلہ تین طلاق میں لکھتے لکھتے مسٹر اصلی غیر مقلد کے فرقے کا مولوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتا ہے
”ان دونوں جلیل القدر صحابہ نے نصوص شرعیہ کے خلاف موقف مذکور اختیار کر لیا تھا ۔ “
تنویر الآفاق صفحہ 87 شائع کر دیا جامعہ سلفیہ بنارس
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مزید لکھتا ہے
انہوں نے نصوص کتاب و سنت کے خلاف طلاق کے مسئلہ میں قانون شریعت بنایا تھا
تنویر الآفاق صفحہ 499 شائع کر دیا جامعہ سلفیہ بنارس
پوری امت کا اس اصول پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام کے وہ فتا وے حجت نہیں بنائے جا سکتے جو نصوص کتاب و سنت کے خلاف ہوں
تنویر الآفاق صفحہ 515 شائع کر دیا جامعہ سلفیہ بنارس
یعنی معاذ اللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعٰین “نصوص“ کے خلاف “فتاوٰی“ دیا کرتے تھے ؟؟ اور پہلی دونوں عبارات میں غیر مقلد مولوی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ یعنی خلیفہ دوم اور مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بدگوئی کی اور انہیں “کتاب و سنت“ کے خلاف قانون شریعت بنانے والا کہا (معاذ اللہ)
یہ ہیں مسٹر اصلی غیر مقلد کے فرقہ اہل حدیث کے مولوی جن کے ہاں خیلفہ دوئم کا یہ مقام ہے ؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف صاف حکم موجود ہے
اقتدوا باللزین من بعدی ابی بکر و عمر۔
ترمزی
فیصلہ سب دیکھنے پڑھنے والے افراد خود کریں کہ کیا تین طلاق کے مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ کہہ کر کہ “انہوں نے نصوص کتاب و سنت کے خلاف طلاق کے مسئلہ میں قانون شریعت بنایا تھا“اور تمام فرقہ غیر مقلدیت اسے اور اس جیسی گستاخانہ باتوں کو مان کر یہ دعوٰی کرسکتا ہے کہ یہ لوگ صرف قرآن اور حدیث پر عمل کرنے والے ہیں ؟؟ جبکہ کم از کم اسی عبارت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا انکار اور صحابی خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ کے فتوے کا انکار ثابت کیا جاچکا ۔
اب مسٹر اصلی غیر مقلد یہ کبھی بھی نہیں کہہ سکتے کہ فرقہ اہل حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو مانتے ہیں ، کیونکہ اگر مانتے ہوتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بننے والے خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کو گلے سے لگاتے ۔ جبکہ ان کا آج تک یہ کہنا جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہ ہم (غیر مقلد) کی دوہی دلیلیں ہیں “اتیع اللہ و اتیع الرسول“ ۔ کیونکہ میرا دعوٰی ہے آزمادہ کہ یہ غیر مقلدین صرف ایک
“چیونٹی“ کی مار ہیں صرف۔ جی ہاں تمام غیر مقلدین سمجھ چکے ہوں گے مسٹڑ اصلی سمیت ۔ اسلئے عزت تماری اسی میں ہے مسٹر اصلی غیر مقلد جو یہاں بہروپ بدل کر یعنی اصلی حنفی بن کر وارد ہوئے ہیں آپ اپنے مولویوں سے جاکر صرف یہ پوچھ لو کہ
“اک چیونٹی شربت کے گلاس میں گر گئی ہے اور اسے نکال کر شربت پی لوں ؟ یا سارا شربت بہا دوں ؟“ جواب صرف اپنی دونوں دلیلوں سے ہی مانگنا مسٹر اصلی غیر مقلد ۔ اور جب مولویوں سے پوچھنے جاؤ تو پہلے آئنے میں اپنا منہ ضرور دیکھنا ، اسلئے کہ اس میں تمہیں ایک نفس پرست مقلد کا منہ نظر آئے گا جو اپنے نفس کی تسکین کی خاطر مولویوں سے مسئلہ پوچھتا ہے ، اور اگر اب ارادہ نہیں ھے مولوی سے پوچھنے کا آپ کا مسٹر اصلی غیر مقلد تو چیونٹی کو شربت میں سے نکالنے کی
“دلیل“ یعنی قرآن یا حدیث جسمیں صاف صاف لکھا ہو کہ شربت کے گلاس میں گری “چیونٹی“ کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے، پیش کردو خود تحقیق کرکے ۔ بغیر کسی کی تقلید کئے۔ بغیر کسی قسم کا قیاس اور اٹکل پچو لگائے کیونکہ یہ تمہارے نزدیک دلیل ہے ہی نہیں ۔
بس مسٹر اصلی غیر مقلد ابھی فلحال اتنا کافی ہوگا باقی بات انشاء اللہ اس وقت جب آپ چیونٹی کے مسئلہ کا حل قرآن یا حدیث کی صورت میں پیش کردیں گے ۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی گستاخی کے مرتکب غیر مقلد مولوی کی عبارت کے بارے میں ضرور بتانا اور اپنا ترز عمل بھی کہ تم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کی روشنی میں قرآن اور سنت کے مطابق فتوٰی دینے والا مانتے ہو یا خلاف؟
شکریہ والسلام