بوقت اقامت مقتدیوں کے قیام کا مسئلہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بوقت اقامت مقتدیوں کے قیام کا مسئلہ​

عن ابن شہاب کانوا ساعۃ یقل المؤذن :اللہ اکبر ، یقومون الیٰ الصلوۃ فلا یاتی النبی مکانہ حتی تعدل الصفوف ۔
ابن شہاب سے مروی کہ جس وقت مؤذن اللہ اکبر کہتا تھا ، لوگ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے ،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لانے تک صفین درست ہو جاتی تھیں ۔( فتح الباری ج ۲ص ۹۵ ) اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کی اصل عادت اور عام معمول یہ تھا کہ اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہو کر صفوں کی درستگی کر لیتے تھے ۔

ایک اہم نکتہ
البحر الرائق میں حنفیہ کے مذہب کی تفصیل لکھتے ہوئے جہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب امام اقامت سے پہلے مسجد میں موجود ہو تو حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا چاہئے ،اس کی علت یہ بیان فر مائی ہے “ والقیام حین قبل حی علی الفلاح لانہ امر یستحب المساعۃ الیہ“ ۔ (البحر الرائق ج ۱ ص ۲۳۱ )
یعنی مامور بہ کی بجا آوری میں مسارعت اور چستی چونکہ مستحب ہے ،اس لئے حی علی الفلاح پر کھڑا ہونا افضل ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کہ جن حضرات نے حی علی افلاح یا قد قامت الصلوۃ پر کھڑے ہو نے کو مستحب فرمایا ہے ، اس نے نزدیک استحباب کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بیٹھے رہنا خلاف ادب ہے ، نہ یہ کہ اس کے پہلے کھڑا ہونا خلاف ادب ہے ، کیوں کہ پہلے کھڑے ہونے میں تو ور زیادہ مسارعت پائی جاتی ہے ، اس سے واضح ہو گیا کہ جن حضرات ائمہ نے حی علی الفلاح پر کھڑے ہونے کو مستحب فرمایا ہے اس کا بھی یہ مطلب ہے کہ اس کے بعد بیٹھے رہنا خلاف ادب ہے کیوں کہ وہ مسارعت الی الطاعۃ کے خلاف ہے ۔

نوٹ : تحریر مذکور سے یہ معلوم ہو گیا کہ اگر چہ حی علی الفلاح کے وقت ہی کھڑا ہونا افضل ہو تو بھی جنگ وجدال کی کوئی بات نہیں ،اولیٰ اور غیر اولیٰ ہو نے کا اختلاف تو ہزاروں مسائل میں پایا جاتا ہے ،اور ان مسائل میں کبھی جنگ نہیں ہوتی ۔واللہ اعلم با الصوب ۔ فتاوہ ریاض العلوم

مسلک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ
امام محمد کی “ کتاب الصلوٰۃ “ کا قلمی نسخہ کتب خانہ آصفیہ حیدرآباد میں موجود ہے ۔اس میں ہے کہ “ امام محمد نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ ایک شخص نماز کیلئے اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب مکبر “ حی علی الصلٰوۃ “ کہتا ہے ۔امام صاحب نے فر مایا ،لا حرج ، یعنی کوئی حرج نہیں، پھر دریافت فر مایا کہ ایک شخص شروع اقامت ہی سے کھڑا ہوتا ہے تب بھی یہی ارشاد فر مایا ،لاحرج ۔ملفوطات فقیہ الامت ۔
 

نورالاسلام

وفقہ اللہ
رکن
مفید پوسٹ ہے ۔ ۔ ۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔ ۔ ۔ صرف دل کو سمجھانے کی بات ہے پہلے یا بعد میں کھڑے ہونے کی گنجائش موجود ہے تو اس میں لڑائی جھگڑے کی کیا ضرورت ہے بس اعتدال پہ عمل کرنا ہی بہتر ہے ۔ ۔ ۔ اللہ ھدایت دے رضاخانیوں کو کہ انہوں نے اس مسئلہ کو بھی اپنا شعار بنا رکھا ہے ۔ ۔ ۔
جزاک اللہ خیرا
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
اسلام علیکم قاسمی صاحب :
آپ نے بہت اچھے اور مفید موضوع کا انتخاب فرمایا جو وقت کی ضرورت بھی ہے ۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ایک دوسرے پہ لعن و طعن کیا جائے اور اسے اپنا شعار بنا لیا جائے بلکہ جب دونوں صورتؤن پہ عمل کیا جا سکتا ہے تو خوش دلی سے عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔
جزاک اللہ خیرا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محمد نبیل خان نے کہا ہے:
اسلام علیکم قاسمی صاحب :
آپ نے بہت اچھے اور مفید موضوع کا انتخاب فرمایا جو وقت کی ضرورت بھی ہے ۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ایک دوسرے پہ لعن و طعن کیا جائے اور اسے اپنا شعار بنا لیا جائے بلکہ جب دونوں صورتؤن پہ عمل کیا جا سکتا ہے تو خوش دلی سے عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ ۔ ۔
جزاک اللہ خیرا
جناب یہ کیا بہت سارے مسائل ایسے ہیں جن میں لعن وطعن کی قطعا گنجائش نہیں ۔پر یار لوگوں نے اپنی دوکان چمکانے کیلئے کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں ۔امت کے ایک بڑے طبقے کو کافر ،منافق، گمراہ اور خد جانے کیا کیا ۔الامان الحفیظ
 
Top