باب الفتاویٰ ۔3

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
باب الفتاویٰ۔3​

مولانا ومفتی طفیل احمد صاحب زیر نگرانی :مفتی عبد اللہ صاحب صدرمفتی وشیخ الحدیث .مدرسہ عربیہ ریاض العلوم .جونپور.
نوٹ .حضرت مولانامفتی عبد اللہ صاحب مظاہری صدرمفتی وشیخ الحدیث احقر کے استاذ ہیں،علمی قابلیت مسلم ہے ،تفقہ فی الدین میں بے نظیر ،شیخ وقت اور مصلح امت ہیں.اللہ تعالیٰ حضرت کی ذات بابرکت سے عالم اسلام کو نفع پہنچائے .تادیر سایہ ہم سب پر قائم رکھے ..آمین.

سوال : جمعہ کی کون سی اذان کے بعد خریر وفروخت وغیرہ بند کر دینا چاہئے ؟پہلی اذان کے بعد یا اذان ثانی کے بعد؟
جواب: جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید وفروخت اور ہر وہ عمل جو سعی الی الجمعۃ میں مخل ہو مثلا کھانا ، پینا ،سونا، کسی سے بات کرنا یہاں تک کہ کتابوں کا مطالعہ کرنا وغیرہ ،سب ممنوع ہیں ،صرف جمعہ کی تیاری سے متعلق جو کام ہیں وہ کئے جا سکتے ہیں “ وجب السعی الیھا وترک البیع با لاذان الاول فی الاصح ( در مختار : ص 552 ، معارف القرآن)

سوال :جمعہ یا عیدین میں دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنا واجب ہے یا سنت ؟ اور کتنی دیر بیٹھا جائے ؟
جواب : دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھنا کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہا جا سکے یا کم ازکم اتنی دیر بیٹھنا کہ تمام اعضاء اپنی جگہ پر ٹہر جائیں مسنون ہے ۔( ہندیہ :1 ص 147، بہشتی زیور )

سوال : جمعہ کی دوسری اذان جو خطبہ سے پہلے دی جاتی ہے وہ کہاں سے کھڑے ہو کر دینا چاہئے ؟ ممبر کے پاس مسجد میں خطیب کے سامنے دی جائے یا مسجد کے باہر سے دی جائے ؟ جیسا کی بعض لوگوں کا اس پر عمل ہے ، وہ حضرات کہتے ہیں کہ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے ،اس لئے یہ اذان ثانی بھی مسجد کے باہر سے دی جائے گی۔
جواب: اذان دومقاصد کے لئے ی جاتی ہے ۔(1) عام اور غیر موجود لوگوں کی اطلاع کے لئے ۔(2) خاص حاضرین یعنی مسجد میں موجود لوگوں کے لئے ،اذان اول عام اعلان ہے ، تاکہ غائبین مطلع ہو جائیں ، یہ اذان مسجد میں کہنا مکروہ ہے اور جمعہ کی دوسری اذان جو خطیب کے سامنے کہی جاتی ہے اسی طرح اقامت جو نماز کھڑی ہونے کے وقت کہی جاتی ہے ، یہ دونوں خاص حاضرین کی اطلاع کے لئے ہیں ،ان کا مسجد میں کہنا ہر گز مکروہ نہیں ، چناچہ مراقی الفلاح میں ہے “ والاذان بین یدی کا لاقامۃ بعد الخطبۃ ( 13)
اس میں دوسری اذان کو اقامت کے مانند قرار دیا گیا ہے ، پس جس طرح سے اقامت مسجد میں اور صف اول میں دینا جائز ہے ، مکروہ نہیں ہے ،اسی طرح یہ اذان بھی مسجد میں خطیب کے سامنے کہنے میں کوئی کراہت نہیں ، سلف وخلف کا یہی معمول اور طریقہ چلا آرہا ہے اور یہی طریقہ مسنون ہے ۔ ( فتاویٰ رحیمیہ 5 ص 87،خیر الفتاویٰ :3ص 49 ، شامی : 1ص 552)

سوال : مسجد میں اگرایسے وقت پہو نچے کہ خطبہ شروع ہو چکا ہو تو اس وقت سنتیں پڑھ سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب : خطبہ شروع ہو جائے یا امام خطبہ کے لئے چل پڑے تو ایسے وقت میں کوئی نماز شروع کر نا جائز نہیں ، بلکہ خطبہ سننا واجب ہے ۔ اذا خرج الامام من لحجرۃ ان کان والا فقیامہ للصعود فلا صلاۃ ولا کلام الیٰ اتمامھا ( در مختار 1ص 55 ، خیر الفتاویٰ 3ص 70 )

سوال : خطبہ میں جب خطیب قرآن پاک کی آیت “ ان اللہ وملئکتہ یصلون ولی النبی الخ پڑھے یا آُ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی آئے تو اس کو سن کر حاضرین کا درود پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : مذکورہ صورت میں زبان سے درود شریف پڑھنا جا ئز نہیں ، بلکہ دل میں پڑھے ۔ وکذالک اذا ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یجوز ان یصلوا علیہ با لجھر ل بالقلب وعلیہ الفتویٰ ( شامی 1 ص 55)

سوال :خطبہ جمعہ اور عیدین اور خطبہ نکاح میں کیا فرق ہے ؟ کیا مذکورہ تمام خطبے واجب ہیں یا نہیں ؟ نیز ان خطبوں کو سننا کیسا ہے ؟ واجب ہے یا سنت ؟
جواب : جمعہ کا خطبہ جمعہ کے صحیح ہو نےکے لئے شرط ہے ، لہذا اگر نماز جمعہ بلا خطبہ کے پڑھی جائے تو نماز ہی ادا نہ ہوگی ، لیکن عیدین اور نکاح میں خطبہ پڑھنا مسنون ہے ، اگر خطبہ نہ بھی پڑھا جائے تو بھی نکاح اور نماز عیدین صحیح ہو جائے گی ، البتہ جب خطبہ پڑھا جائے خواہ عیدین میں ہو یا نکاح میں توسننابہر حال واجب ہے ۔ ( در مختار مع الشامی 1 ص 555 با ب العیدین ، در مختار 1 ص 551 با ب الجمعہ )

سوال : دوران خطبہ اگر بچے شور کریں یا کوئی سنتیں پڑھنے لگے تو اس کو روکنا کیسا ہے ؟
جواب : اشارہ سے منع کر سکتے ہیں ، زبان سے نہ بولے ، زبان سے بو لنا جائز نہیں ۔ وکذالو اشار برا سہ او عینہ او یدہ عند رویۃ المنکر ولم یتکلم بلسانہ الصحیح انہ لا یکرہ ( کبیری : 1 ص 516 ، خیر الفتاویٰ 3 ص 89)
 
Top