قرآن کی سورت یسین میں اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتے ہیں ،،،،الم اعھد الیکم یبنی ادم؛کیا ہم نے تم سے عہد نہیں لیا تھا، ان لا تعبدوالشیطن،کہ تم شیطان عبادت نہیں کرو گے-یا اس کا مطلب یہ کہ جو شیطان کے راستے پر چلے وہ حقیقت میں شیطان کی عبادت کرتا ہے-،عبادت کا نام لیا گیا-ایک اور مقام پر اللہ تعالی یہود ونصارٰٰی کے بارے میں فرما تے ہیں،اتھذواخبارھم رھبانھم اربابا من دون اللہ،انہوں نے اپنے علماء اور مشاٰٰخ کو اللہ کے ساتھ شریک بنا لیا-اور یہ ان کی عبادت کیا کرتے تھے-حضرت کعب احبار مسلمان ہو ے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ اپنے علماء کی عبادت کیوں کیا کرتے تھےِ!وہ کہنے لگے،اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم ان کی عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے-فرمایا، اچھا یہ بتاؤ کہ اگر وہ حلال کو حرام کر دیتے تو تم مان لیتے تھے!عرض کیا-جی مان لیتے تھے-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا، اچھا وہ حرام کو حلال کہہ دیتے تو کیا مان لیتے تھے!عرض کیا،جی ہاں،مان لیتے تھے-فرمایا،اسی کا نام تو عبادت ہے-تم ان کی عبادت کرتے تھے -اللہ کے ساتھ ان کو شریک بنا لیتے تھے-
یہاں ایک نکتہ سمجھنے کا ہے کہ جب یہود و نصارٰی نے اپنے علماء کے پیروی کی تو پروردگار کی طرف کفر کا فتوٰی آگیا لیکن بندہ شیطان کی بات مانتا ہے تو اس پر کفر کا فتوٰی نہیں لگایا گیا-فقط گنہگار اور فاسق کہا گیا- یہ فرق کیوں رکھا!
علماءنے اس کی تفسیر میں بھی بڑا عجیب نکتہ لکھا ہے کہ اس میں فرق یہ ہے کہ یہود و نصارٰی جب اپنے علماء کی اتباع کرتے تھے ،عبادت کرتے تھے تو اس کی دو وجوہات تھیں-ایک تو یہ کہ یہ ان کے کہنے پر حلال کو حرام مان لیتے تھے-اور حرام کو حلال مان لیتے تھے-اور دوسرا وہ ان علماء کا دل میں احترام کیا کرتے تھے اس لیے ان کے لیے کفر کا لفظ استمعال کیا- لیکن یہ گنہگار بندے گو شیطان کی بات مانتے ہیں مگر یہ بات پکی ہے کہ حرام کام بھی کر رہے ہوں تو حرام کو حرام ہی سمجھتے ہیں کبھی حلال نہیں سمجھ رہے ہوتے- اور دوسری یہ کہ اھرچہ شیطان کی بات تو مان رہے ہوتے ہیں مگر شیطان کی عزت نہیں کرتے بلکہ اسے،اعوذباللہ پڑھ کر شیطن الرجیم کہہ رہے ہوتے ہیں- لعنتی کہہ رہے ہوتے ہیں-
یاد رکھیے کہ جنوں اور انسانوں میں سے جو نافرمان اپنی نافرمانی پر ڈٹے رہتے ہیںتوبہ نہیں کرتے انہیں اللہ رب العزت نے زمین کا بوجھھ فرمایا ہے-سنفرغ لکم ایھا الثقلان اور میری زمین کے بوجھو!ہم اپنے آپ کو تمہارے لیے فارغ کر رہے ہیں گویا انسان اگر گناہوںبھری زندگی گزارے گا تو بکرے کی ماں کب تک خیر مناے گی-با لآخر اسے اللہ رب العزت کے حضور پیش ہونا ہو گا
اس لیے اللہ سے دعا ہے کہ ہم کو سچی توبہ کی توفیق عطا فرماے آمین!،،،،،،،،،،،،،،،،،
(کتاب،کتنےبڑے ہیں حوصلے پروردگار کے،،،صفحہ،،15،حضرت مولانا زولفقار احمد نقشبندی مدظلہ[/size][/font])
یہاں ایک نکتہ سمجھنے کا ہے کہ جب یہود و نصارٰی نے اپنے علماء کے پیروی کی تو پروردگار کی طرف کفر کا فتوٰی آگیا لیکن بندہ شیطان کی بات مانتا ہے تو اس پر کفر کا فتوٰی نہیں لگایا گیا-فقط گنہگار اور فاسق کہا گیا- یہ فرق کیوں رکھا!
علماءنے اس کی تفسیر میں بھی بڑا عجیب نکتہ لکھا ہے کہ اس میں فرق یہ ہے کہ یہود و نصارٰی جب اپنے علماء کی اتباع کرتے تھے ،عبادت کرتے تھے تو اس کی دو وجوہات تھیں-ایک تو یہ کہ یہ ان کے کہنے پر حلال کو حرام مان لیتے تھے-اور حرام کو حلال مان لیتے تھے-اور دوسرا وہ ان علماء کا دل میں احترام کیا کرتے تھے اس لیے ان کے لیے کفر کا لفظ استمعال کیا- لیکن یہ گنہگار بندے گو شیطان کی بات مانتے ہیں مگر یہ بات پکی ہے کہ حرام کام بھی کر رہے ہوں تو حرام کو حرام ہی سمجھتے ہیں کبھی حلال نہیں سمجھ رہے ہوتے- اور دوسری یہ کہ اھرچہ شیطان کی بات تو مان رہے ہوتے ہیں مگر شیطان کی عزت نہیں کرتے بلکہ اسے،اعوذباللہ پڑھ کر شیطن الرجیم کہہ رہے ہوتے ہیں- لعنتی کہہ رہے ہوتے ہیں-
یاد رکھیے کہ جنوں اور انسانوں میں سے جو نافرمان اپنی نافرمانی پر ڈٹے رہتے ہیںتوبہ نہیں کرتے انہیں اللہ رب العزت نے زمین کا بوجھھ فرمایا ہے-سنفرغ لکم ایھا الثقلان اور میری زمین کے بوجھو!ہم اپنے آپ کو تمہارے لیے فارغ کر رہے ہیں گویا انسان اگر گناہوںبھری زندگی گزارے گا تو بکرے کی ماں کب تک خیر مناے گی-با لآخر اسے اللہ رب العزت کے حضور پیش ہونا ہو گا
اس لیے اللہ سے دعا ہے کہ ہم کو سچی توبہ کی توفیق عطا فرماے آمین!،،،،،،،،،،،،،،،،،
(کتاب،کتنےبڑے ہیں حوصلے پروردگار کے،،،صفحہ،،15،حضرت مولانا زولفقار احمد نقشبندی مدظلہ[/size][/font])