الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد المرسلين وآله وصحبه أجمعين وبعد
صدقہ فطر کے مسائل واحکام
صدقہ فطر کی تعریف = فطر کا لفظ افطار سے ہے یعنی روزه افطار کرنے کے معنی میں ہے اور صدقہ فطر کو زكاة الفطر اس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ رمضان کے روزے پورے ہونے کے بعد دیا جاتا ہے اور زكاة الفطر اور صدقة الفطر یہ دونوں نام نصوص سے ثابت ہیں اور فطر کی طرف اس کی اضافت إضافة الشيء إلى سببه کی قبیل سے ہے یعنی اس کے وجوب کا سبب رمضان کا فطر ہے اور رمضان کے روزے ختم ہونے کے بعد جو عید آتی ہے اس کو عید الفطر کہا جاتا ہے اور صدقہ فطر اکثر کے نزدیک فرض ہے اور حنفیہ کے واجب ہے کیونکہ ان کے یہاں فرض و واجب کے معنی میں تهوڑا فرق ہے لیکن یہ فرق صرف اعتقادی ہے عملا کوئی فرق نہیں ہے
صدقہ فطر کب فرض ہوا = اس کا حکم بهی رمضان کے ساتھ فرض ہوا یعنی ہجرت کے دوسرے سال مدینہ منوره میں
صدقہ فطر کا مقصد وحکمت = صدقۂ فطر ہر وہ مال ہوتا ہے جسے مسلمان عید کے دن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے اپنے مال میں سے محتاجوں کیلئے نکالتے ہیں اوراس سے اس کے روزہ میں پیدا شدہ خلل جیسے لغویات یا فحش بات کی تلافی مقصود ہوتی ہے عن ابن عباس رضي الله عنه فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طُهرةً للصائم من اللَّغو والرفث وطُعمةً للمساكين من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن أدّاها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات. أخرجه أبو داود وابن ماجة والدار قطني والحاكم وصححه . حضرت ابن عباس رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے صدقہ فطر فرض فرمایا تاکہ روزه دار فضول اور نازیبا اور بُری باتوں سے پاک ہوجائے اور مسکینوں کو (کم ازکم عید کے دن اچها کهانا پینا) میسر آجائے جس نے اس کو عید کی نماز سے پہلے اداء کیا تو وه ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وه صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے .اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر کے واجب ہونے کے دو مقصد ہیں (ایک) روزه کی کوتاہیوں کی تلافی (دوم) امت کے مسکینوں کے لیئے عید کے دن رزق کا انتظام کرنا اور یہ دونوں مقصد جب ہی حاصل ہوں گے کہ ہم صدقہ فطر کی اہمیت وحکم جاننے کے بعد بخل سے کام نہ لیں بلکہ کهلے دل سے خوشی خوشی اس کو اداء کریں ایک روایت میں ہے کہ آج کے دن مساکین کو ادهر ادهر پهرنے سے اورسوال کرنے سے غنی کرو وفي رواية « أغنوهم عن الطواف في هذا اليوم ».أخرج هذه الرواية ابن عدي والدارقطني والبيهقي والحاكم وابن زنجويه « في الأموال » وابن حزم جميعهم من طريق أبي معشر عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما وفي آخره « أغنوهم في هذا اليوم » أو « أغنوهم (يعني المساكين) من طواف هذا اليوم » كما هو لفظ الحاكم والبيهقي.
صدقہ فطرکا ثبوت = قرآن مجید کے عموم سے اور صریح حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے قرآن مجید کے عموم سے جیسے قول باری تعالی قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى . بے شک بھلا ہوا اُس کا جو سنورا (یعنی ظاہری وباطنی حسّی ومعنوی نجاستوں سے پاک ہوا اور اپنے قلب وقالب کو عقائد صحیحہ اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ سے آراستہ کیا) اورلیا اُس نے نام اپنے رب کا پھر نماز پڑھی (یعنی پاک و صاف ہو کر تکبیر تحریمہ میں اپنے رب کا نام لیا۔ پھر نماز پڑھی اور بعض سلف نے کہا کہ تَزَکیّٰ "زکوٰۃ" سے ہے جس سے مراد یہاں "صدقہ الفطر" ہے اور وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ سے تکبیرات عید مراد ہیں اور فَصَلّٰی میں نماز عید کا ذکر ہے یعنی عید کے دن اوّل "صدقہ الفطر" پھر تکبیریں پھر نماز والظاہر ہوالاوّل . تفسیرعثمانی . امام بغوی نے اپنی تفسیر میں حضرت أبي سعيد الخدري سے نقل سے کیا کہ اس سے مراد صدقة الفطر ہے ، اور حضرت عمر بن عبد العزيز رحمہ الله جب عید کے دن لوگوں کو منبر پر خطبہ دیتے تو فرماتے کہ صدقة الفطر نماز سے پہلے ادا کرو کیونکہ الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى. وقال البغوي فی تفسیره : وقال آخرون هو صدقة الفطر روي عن أبي سعيد الخدري في قوله قد أفلح من تزكى قال أعطى صدقة الفطر . وذكر اسم ربه فصلى أي وذكر ربه فصلى قيل الذكر تكبيرات العيد والصلاة صلاة العيد وقيل الصلاة هاهنا الدعاء .تفسير البغوي . وكان عمر بن عبد العزيز يخطب الناس على المنبر يقول قدموا صدقة الفطر قبل الصلاة فإن الله يقول قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى. أحكام القرآن لابن العربي.اور بہت ساری احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے مثلا عن نافع عن عبد الله بن عمرأن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين حر أو عبد أو رجل أو امرأة صغير أو كبير صاعا من تمر أو صاعا من شعير . سنن النسائي.وقال الامام يحيي بن شرف أبو زكريا النووي رحمه الله :اختلف الناس في معنى ( فرض ) هنا فقال جمهورهم من السلف والخلف معناه ألزم وأوجب فزكاة الفطر فرض واجب عندهم لدخولها في عموم قوله تعالى وآتوا الزكاة . وقال بعض أهل العراق وبعض أصحاب مالك وبعض أصحاب الشافعي وداود في آخر أمره إنها سنة ليست واجبة وقال أبو حنيفة هي واجبة ليست فرضا بناء على مذهبه في الفرق بين الواجب والفرض .والصواب أنها فرض واجب . شرح النووي على مسلم .
صدقہ فطر کن پر واجب ہے؟ = جس شخص میں تین شرطیں پائی جائیں اس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔ (1) مسلمان ہو کافر پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ فرض زكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين الخ (2) آزاد ہو غلام پر صدقہ فطر واجب نہیں۔ (3) اپنے قرضے اور اصل ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات کے علاوہ نصاب کا مالک ہو لہذا اس شخص پر جو قرض اور حوائج اصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ مندرجہ ذیل چیزیں حوائج اصلیہ میں داخل ہیں.(1) اس کا گھر(2) گھر کے سازوسامان (3) استعمال اور پہننے کے کپڑے(4) اس کی سواری جیسے آج کل کے زمانہ میں گاڑی وغیره (5) وہ ساز وسامان جس سے وہ اپنے حصول معاش میں مدَد لیتا ہے وغیره ذالک
مسئلہ= صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے نصاب پر سال کا گذرنا شرط نہیں ہے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ فَقَالَ أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ (دار قطني زكاة الفطر ) مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سال گذرنے کی شرط لگائے بغیر صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا اس لیے فقہاءِ کرام صدقہ فطر کے وجوب کے لیے مذکورہ شرط نہیں لگاتے ہیں
مسئلہ= صدقہ فطر کے وجوب کیلئے عید کے دن طلوع فجر کے وقت نصاب کا مالک ہونا شرط ہے .وَبِهِ تَبَيَّنَ أَنَّ الْمُرَادَ مِنْ قَوْلِهِ صَدَقَةُ الْفِطْرِ أَيْ صَدَقَةُ يَوْمِ الْفِطْرِ فَكَانَتْ الصَّدَقَةُ مُضَافَةً إلَى يَوْمِ الْفِطْرِ فَكَانَ سَبَبًا لِوُجُوبِهَا .بدائع الصنائع
مسئلہ= صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے بالغ یا عاقل ہونا شرط نہیں بلکہ اگربچہ اور مجنون بھی نصاب کے مالک ہوں تو ان کے مال سے صدقہ فطر نکالا جائے۔ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ . دار قطني زكاة الفطر
صدقہ فطر کس کی طرف سے نکالا جائے گا؟
درج ذیل افراد کی جانب سےصدقۂ فطر نکالنا ضروری ہے۔
اپنی جانب سے۔ اپنے چھوٹے محتاج بچوں کی طرف سے۔ ہاں اگر وہ مالدار ہوں تو صدقہ فطر انہی کے مال سے نکالا جائے مسئلہ: شوہر پر ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے صدقہ فطر نکالے لیکن اگر بیوی پر احسان کرے تو جائز ہے اسی طرح باپ پر اپنے بڑے باشعور بچوں کی جانب سے صدقہ فطر نکالنا واجب نہیں لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو جائز ہے ہاں اگر اولاد محتاج و مجنون ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب ہے۔
صدقہ فطر کی مقدار= وہ چیزیں جن کا صدقہ فطر کے حوالہ سے نصوص میں ذکر آیا ہے چار ہیں1) گیہوں (2) جَو (3) کھجور (4) مُنَقّٰی (کشمش)
مسئلہ: صدقۂ فطر ایک فرد کی طرف سے گیہوں یا آٹا یا اس کے ستو سے آدھا صاع یا کھجور یا منقّٰی یا جومیں سے ایک صاع ہے۔ اور جو شخص دوسرے غلوں سے صدقہ فطر نکالنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے لیکن اس پر ضروری ہے گیہوں میں سے آدھا اور جَووغیرہ میں سے ایک صاع کے برابر مقدار نکالے۔ مسئلہ: صدقہ فطر کی قیمت کو نقدی کی شکل میں نکالنا بھی جائز ہے ، بلکہ یہ بہتر ہے اس لئے کہ اس میں فقیروں کیلئے زیادہ نفع ہے۔مسئلہ: صدقہ فطر ایک فرد کی طرف سے کئی مسکینوں کو دینا جائز ہے اس طرح کئی لوگوں کی طرف سے ایک مسکین کو دینا بھی جائز ہے۔مسئلہ: صدقہ فطر کے مصارف بعینہٖ زکوۃ کے مصارف ہیں جن کے سلسلہ میں آیت کریمہ میں نص وارد ہوئی ہے
مسئله = صدقہِ فطر واجب ہونے کا سبب خود اس کی ذات اور وہ لوگ ہیں جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے اور وہ ان پر کامل ولایت رکھتا ہے پس صدقه فطراپنی طرف سے ادا کرنا واجب ہے اگر کسی شخص نے کسی عذرسے یا بلاعذر روزے نہ رکھے ہوں تب بھی اس پر صدقہِ فطر ادا کرنا واجب ہے اوراس کے نابالغ بچوں اور بچیوں کی طرف سے بھی اس پر واجب ہے لیکن اگرنابالغ بچہ خود مالدار ہو تو اس کے مال میں سے صدقه فطر واجب ہو گا کم عقل دیوانہ اور مجنون کا بھی وہی حکم ہے جو نابالغ بچے کا ہے یعنی اس کی طرف سےباپ صدقه فطر ادا کرے
مسئله = بیوی کا صدقه فطر خاوند پر واجب نہیں ہے بالغ اولاد کا نفقہ بھی باپ پر واجب نہیں اگر بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سےاور جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے ان سب کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیرصدقه فطر دے دیا تو ادا ہو جائے گا اِسی پر فتویٰ ہے کیونکہ عادتاً اجازت موجود ہے اگرچہ نیت کے بغیر فطرہ ادا نہیں ہوتا لیکن اس صورت میں حکماً نیت موجود ہے
مسئله = اپنی عیال اور اہل نفقہ کےعلاوہ کسی اور کی طرف سے فطرہ دینا ان کی اجازت سے جائز ہے اجازت کے بغیر جائز نہیں پس اگر عورت نے اپنے خاوند کی طرف سے اس کی اجازت کے بغیر فطرہ ادا کر دیا تو جائز نہیں ہےاپنے دادا دادی نانا نانی پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کی طرف سے صدقه فطر دینا واجب نہیں ہے اور اپنے ماں باپ کا فطرہ دینا بھی واجب نہیں اگرچہ انکا نفقہ ان کے ذمہ ہو کیونکہ ان پر اس کو ولایت نہیں ہے جیسا کہ بڑی اولاد پرنہیں ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی فقیر اور دیوانہ ہو تو اس کا صدقه اس پر واجب ہو گا
مسئله = اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقه فطردینا اس پر واجب نہیں اگرچہ ان کا نفقہ اس کے ذمہ ہو کیونکہ اس کو ان پرولایت حاصل نہیں ہے اور صدقہِ فطر واجب ہونے کو لئے اس شخص پر ولایت کاملہ حاصل ہونا اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار ہونا ضروری ہے
مسئله = اسی طرح دادا کےذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہے جب کہ ان کا باپ مفلس ہو اورزندہ ہو اور اگر مفلس باپ فوت ہو چکا ہو تو اس میں اختلاف ہے ظاہر الروایت کے بموجب اس صورت میں بھی دادا کے ذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہےاور امام حسن رحمه الله کی روایت میں واجب ہے
مسئله = صدقه فطر عیدالفطر کے روز صبحِ صادق طلوع ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے پس جو شخص اس سے پہلے مر جائے اس پر صدقه فطر واجب نہیں ہو گا اور جو شخص اس دن کی طلوع فجر کے بعد مرے تو اس پر صدقه فطر واجب ہوگا اسی طرح جو بچہ طلوع فجر سے پہلے پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تواس پر صدقه فطر واجب ہو گا اور جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تو اس پر صدقه فطر واجب نہ ہو گا اور اسی طرح اگر فقیراس دن کی طلوع فجر سے پہلے مالدار ہو جائے یا مالدار آدمی طلوع فجرکے بعد فقیر ہو جائے تو اس پر صدقه فطر واجب ہو گا اس کے برعکس اگر مالدار طلوع فجر سے پہلے فقیر ہو جائے یا فقیر طلوع فجر کے بعد مالدار ہو جائے تو اس پرصدقه فطر واجب نہیں ہو گا
مسئله = عید الفطر کا دن آنے سے پہلے صدقہ ادا کر دیں تو جائز ہے اور یہ عیدالفطر سے پہلے دینے کا حکم مطلق ہے اس میں مدت کی مقدار کی کوئی تفصیل نہیں ہے اس لئے خواہ رمضان المبارک میں دیا جائے یا اس سے پہلے دیدیا جائے ہر وقت جائز ہے یہی صحیح و مختار ہے بعض فقہاء نے اس بات کی تصحیح کی ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو جائے اس میں پیشگی صدقہِ فطردینا جائز ہےاس سے پہلے نہیں دونوں قول صحیح ہیں اور مفتیٰ بہ ہیں لیکن پہلاقول ظاہرالروایت ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور دوسرے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور عمل کے لئے یہی مناسب ہے عیدالفطر کے دن کسی وقت بھی اداکر دیگا تو وہ ادا کرنے والا ہو گا قضا کرنے والا نہیں ہو گا اگر عید کا دن گزرگیا اور کسی شخص نے فطرہ ادا نہیں کیا تو صحیح یہ ہے کہ اس سے ساقط نہیں ہو گا بلکہ اس کا دینا واجب رہے گا لیکن یومِ فطر کے بعد اس کا ادا کرنا بعض فقہاء کے نزدیک قضاء کہلائے گا اور بعض نے اس کو ترجیح دی ہے اوربعض فقہاء کے نزدیک عمر بھر میں جب بھی ادا کرے گا ادا ہی کہلائے گا کیونکہ ان کے نزدیک تاخیر سے ادا کرنا یعنی عمر میں ادا کر دینا واجب ہے بعض نےاس کو ترجیح دی ہے اور زیادہ راجح بھی یہی ہے
مسئله = صدقہِ فطر ادا کرنے کا مستحب وقت یہ ہے کہ عید الفطر کے روز طلوع فجر کے بعد عیدگاہ کو جانے سے پہلے صدقہِ فطر ادا کر دیں اور اس سے تاخیرکرنا مکروہِ تنزیہی ہے
مسئله = صدقہِ فطر چار چیزوں گیہوں جو کھجور اور کشمش میں سے ادا کرناواجب ہے یعنی وزن مقرَرہ کے حساب سے دینے کے لئے یہ چار چیزیں ہی منصوص علیہ ہیں فطرہ کی مقدار گیہوں میں نصف صاع اور جو و کھجور میں ایک صاع ہے کشمش میں اختلاف ہے صحیح اور مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ ایک صاع دی جائے گیہوں و جو کے آٹے اور ستوں کا وہی حکم ہے جو خود اُن کاہے گیہوں میں جَو وغیرہ ملے ہوئے ہوں تو غلبہ کا اعتبار ہو گا پس اگر گیہوں غالب ہو گی تو نصف صاع دیا جائے گا مذکورہ چار منصوص چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری جنس سے صدقہ فطر ادا کیا جائے مثلاً چاول، جوار، باجرہ وغیرہ دیا جائے تو اشیائے منصوصہ مذکورہ میں سے کسی ایک چیز کی قیمت کےبرابر ہونا چاہئے مثلاً چاول وغیرہ دے تو جس قدر قیمت میں نصف صاع گیہوں آتے ہوں یا ایک صاع جَو آتے ہوں اتنی قیمت کے چاول وغیرہ دے سکتا ہے اوراگر وہاں گندم و جَو و کھجور اور کشمش نہ ہوتے ہوں تو وہاں سے زیادہ قریبی جگہ میں جہاں ہوتے ہوں وہاں کی قیمت معتبر ہو گی گیہوں یا جو کی روٹی صدقہِ فطر میں وزن سے دینا جائز نہیں بلکہ قیمت کے اعتبار سے دے گا تو جائزہو گا یہی اصح ہے، اگر منصوص علیہ یعنی چاروں مذکورہ اجناس میں سےکسی ایک کی قیمت ادا کرے تو یہ بھی جائز ہے بلکہ عین اس چیز کے دینے سےاس کی قیمت کا دینا افضل ہے اسی پر فتویٰ ہے( انگریزی سیر کے وزن سے جوکہ اسی تولہ ہوتا ہے اور ہند و پاکستان میں رائج ہے ایک صاع تقریباً ساڑھےتین سیر کا اور نصف صاع پونے دو سیر کا ہوتا ہے یہی مفتیٰ بہ ہے بہتر یہ ہے کہ احتیاطاً گیہوں دو سیر اور جو چار سیر دیدئے جائیں)
مسئله = صدقہِ فطر کے مصارف عامل کے سوا وہی ہیں جو زکوة کے ہیں ذمی کافرکو صدقہِ فطر دینے میں اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ جائز و مکروہ ہے اورمسلمان فقیر کو دینا اولیٰ ہے ایک شخص کا صدقہِ فطر بعض کے نزدیک ایک ہی شخص کو دینا واجب ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ متعدِد شخصوں کو ایک ایک شخص کا فطرہ دینا جائز ہے یہی مذہب ہے متعدِد شخصوں کا فطرہ کسی ایک مسکین کو دینا بھی جائز ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ (والمعنى أنه قال للناس) فِي آخِرِ رَمَضَانَ أَخْرِجُوا صَدَقَةَ صَوْمِكِمْ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ (أي حنطة وبه قال أبو حنيفة خلافا للثلاثة ويؤيده حديث معاوية حيث قال في خطبته بالمدينة : أَرَى نِصْفَ صَاعٍ مِنْ حِنْطَةٍ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ والظاهر أن هذا مرفوع حكما ويحتمل كونه من اجتهاده والله أعلم ) عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ . رواه أبو داود والنسائي
فتاوی دارالعلوم دیوبند ج 6 پر لکها ہے کہ صدقہ فطر کی مقدار پونے دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت ادا کرنے سے صدقہ فطر ادا ہوجائے گا
صدقہ فطر کا مصرف = اس کا مصرف وہی ہے عامل کے سوا جو زكوة کا ہے یعنی جہاں زكوة دینی جائز ہے وہاں صدقہ فطر دینا بهی جائز ہے اور جہاں زكوة دینی ناجائز ہے وہاں صدقہ فطر دینا بهی ناجائز ہے . ومصرف هذه الصدقة ما هو مامصرف الزكوة . عالمگيری
صدقہ فطر کی ادائیگی کا مستحب وقت = صدقہ فطر ادا کرنے کا مستحب وقت یہ ہے کہ عید الفطر کے روز طلوع فجر کے بعد عیدگاہ کو جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کر دیں اور یہ بہت زیاده فضیلت کی بات ہے عید کی نماز کے بعد بهی دے سکتے ہیں لیکن عید کے دن سے زیاده تاخیر مکروہِ تنزیہی اور خلاف سنت ہے لیکن پهر بهی ادا کرنا ضروری ہے اور رمضان کا چاند نظر آنے کے بعد رمضان میں ہی صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے لیکن رمضان سے پہلے ادا نہ کرے . والمستحب للناس ان يخرجوا الفطرة بعد طلوع الفجر يوم الفطر قبل الخروج الى المصلى كذا في الجوهرة النيرة . عالمگيری . وَيُسْتَحَبُّ إخراجها قبل الخروج إلى المصلى بعد طلوع فجر الفطر عملا بأمره وفعله عليه الصلاة والسلام . رد المحتار على الدر المختار( وصح أداؤها إذا قدمه على يوم الفطر أو أخره ) اعتبارا بالزكاة والسبب موجود إذ هو الرأس ( بشرط دخول رمضان في الأول ) أي مسألة التقديم ( هو الصحيح ) وبه يفتى جوهرة وبحر عن الظهيرية لكن عامة المتون والشروح على صحة التقديم مطلقا وصححه غير واحد ورجحه في النهر ونقل عن الولوالجية أنه ظاهر الرواية .قلت فكان هو المذهب. رد المحتار
مسئله = جس طرح مرد اگر مال دار ہوتو اس پر صدقہ فطر واجب ہے اسی طرح عورت اگر مال دار ہوتو اس پر بهی واجب ہے مثلا اس کے پاس زیور وغیره ہو جو نصاب کے برابر ہوتو اس پر اپنی طرف سے صدقہ فطر واجب ہے
مسئله = جس آدمی پر صدقہ فطر واجب ہے اس کو اپنے نابالغ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالنا واجب ہے . وتجب عن نفسه وطفله الفقیر کذا فی الکافی . عالمگیری . ویُخرج عن اولاده الصغار. هدایه
مسئله = مال دار عورت پراپنا صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے لیکن اس پر کسی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں ہے نہ بچوں کی طرف سے نہ شوہر کی طرف سے نہ ماں باپ کی کی طرف سے . والأصل ان صدقة الفطر متعلقة بالولاية والمؤنة الخ عالمگيری . صدقہِ فطر واجب ہونے کا سبب خود اس کی ذات اور وہ لوگ ہیں جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے اور وہ ان پر کامل ولایت رکھتا ہے
مسئله = بیوی کا صدقه فطر خاوند پر واجب نہیں ہے بالغ اولاد کا صدقه فطر بھی باپ پر واجب نہیں لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو جائز ہے اگر بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سےاور جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے ان سب کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیرصدقه فطر دے دیا تو ادا ہو جائے گا اِسی پر فتویٰ ہے کیونکہ عادتاً اجازت موجود ہے اگرچہ نیت کے بغیر فطرہ ادا نہیں ہوتا لیکن اس صورت میں حکماً نیت موجود ہے ہاں اگر اولاد محتاج ومجنون ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب ہے. وتجب عن نفسه وطفله الصغير ولا يؤدي عن زوجته ولا عن أولاده الكبار وان كانوا في عياله ولو أدى عنهم أو عن زوجته بغير أمرهم أجزاهم استحسانا كذا في الهداية .عالمگيری
مسئله = اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقه فطردینا اس پر واجب نہیں اگرچہ ان کا نفقہ اس کے ذمہ ہو کیونکہ اس کو ان پرولایت حاصل نہیں ہے اور صدقہِ فطر واجب ہونے کو لئے اس شخص پر ولایت کاملہ حاصل ہونا اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار ہونا ضروری ہے
مسئله = اسی طرح دادا کےذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہے جب کہ ان کا باپ مفلس ہو اورزندہ ہو اور اگر مفلس باپ فوت ہو چکا ہو تو اس میں اختلاف ہے ظاہر الروایت کے بموجب اس صورت میں بھی دادا کے ذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہےاور امام حسن بن زياد رحمه الله کی روایت میں واجب ہے
مسئله = فطره کی رقم مسجد مدرسہ ہسپتال کی تعمیر یاراستہ بنانے وغیره میں دینا جائز نہیں ہے ولا يصرف الى بناء نحو مسجد كبناء القناطر والسقايات واصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه . شامي
مسئله = صدقه فطر عیدالفطر کے روز صبحِ صادق طلوع ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے پس جو شخص اس سے پہلے مر جائے یا فقیر ہوجائے تو اس پر صدقه فطر واجب نہیں ہو گا اور جو شخص اس دن کی طلوع فجر کے بعد مرے تو اس پر صدقه فطر واجب ہوگا . فمن مات قبل ذالك لم تجب عليه الصدقة .عالمگيری
مسئله = اسی طرح جو بچہ صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا یا صبح صادق کے وقت پیدا ہوا تو اس کی طرف سے صدقه فطر ادا کرنا اس کے مال دار باپ پر واجب ہے . ومن ولد قبله وجبت .عالمگيری
مسئله = جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تو اس پر صدقه فطر واجب نہیں ہے ومن ولد بعده لم تجب .عالمگيری
مسئله = صدقہ فطر میں قیمت دینا زیاده افضل ہے . ( ودفع القيمة ) أي الدراهم ( أفضل من دفع العين على المذهب ) المفتى به جوهرة وبحر عن الظهيرية وهذا في السعة أما في الشدة فدفع العين أفضل كما لا يخفى . رد المحتار على الدر المختار
مسئله = ایک اگر کسی کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے تو اجازت لینا یا دینا ضروری ہے . ولا يجوز ان يُعطي عن غير عياله الا بأمره كذا في المحيط . عالمگيری
مسئله = اگر کوئی شخص کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکهہ سکے تو اس پر بهی صدقه فطر ادا کرنا واجب ہے . ثم رأيت في البدائع ما يشعر بذلك حيث قال وكذا وجود الصوم في شهر رمضان ليس بشرط لوجوب الفطرة حتى إن من أفطر لكبر أو مرض أو سفر يَلْزَمُهُ صدقة الفطر لأن الأمر بأدائها مطلق عن هذا الشرط اهـ فافهم . رد المحتار
مسئله = صدقہ فطر ادا ہونے کے لیے مال کا باقی رہنا بھی شرط نہیں مال ہلاک ہو جانے کے بعد بھی واجب رہے گا ساقط نہ ہوگا بخلاف زکوٰۃ وعشر کہ یہ دونوں مال ہلاک ہو جانے سے ساقط ہو جاتے ہیں ۔( فلا تسقط ) الفطرة وكذا الحج ( بهلاك المال بعد الوجوب ) كما لا يبطل النكاح بموت الشهود .الدر المختار
والله تعالی أعلم وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين
صدقہ فطر کے مسائل واحکام
صدقہ فطر کی تعریف = فطر کا لفظ افطار سے ہے یعنی روزه افطار کرنے کے معنی میں ہے اور صدقہ فطر کو زكاة الفطر اس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ رمضان کے روزے پورے ہونے کے بعد دیا جاتا ہے اور زكاة الفطر اور صدقة الفطر یہ دونوں نام نصوص سے ثابت ہیں اور فطر کی طرف اس کی اضافت إضافة الشيء إلى سببه کی قبیل سے ہے یعنی اس کے وجوب کا سبب رمضان کا فطر ہے اور رمضان کے روزے ختم ہونے کے بعد جو عید آتی ہے اس کو عید الفطر کہا جاتا ہے اور صدقہ فطر اکثر کے نزدیک فرض ہے اور حنفیہ کے واجب ہے کیونکہ ان کے یہاں فرض و واجب کے معنی میں تهوڑا فرق ہے لیکن یہ فرق صرف اعتقادی ہے عملا کوئی فرق نہیں ہے
صدقہ فطر کب فرض ہوا = اس کا حکم بهی رمضان کے ساتھ فرض ہوا یعنی ہجرت کے دوسرے سال مدینہ منوره میں
صدقہ فطر کا مقصد وحکمت = صدقۂ فطر ہر وہ مال ہوتا ہے جسے مسلمان عید کے دن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے اپنے مال میں سے محتاجوں کیلئے نکالتے ہیں اوراس سے اس کے روزہ میں پیدا شدہ خلل جیسے لغویات یا فحش بات کی تلافی مقصود ہوتی ہے عن ابن عباس رضي الله عنه فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طُهرةً للصائم من اللَّغو والرفث وطُعمةً للمساكين من أداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن أدّاها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات. أخرجه أبو داود وابن ماجة والدار قطني والحاكم وصححه . حضرت ابن عباس رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے صدقہ فطر فرض فرمایا تاکہ روزه دار فضول اور نازیبا اور بُری باتوں سے پاک ہوجائے اور مسکینوں کو (کم ازکم عید کے دن اچها کهانا پینا) میسر آجائے جس نے اس کو عید کی نماز سے پہلے اداء کیا تو وه ایک قبول ہونے والا صدقہ ہے اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو وه صدقوں میں سے ایک صدقہ ہے .اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر کے واجب ہونے کے دو مقصد ہیں (ایک) روزه کی کوتاہیوں کی تلافی (دوم) امت کے مسکینوں کے لیئے عید کے دن رزق کا انتظام کرنا اور یہ دونوں مقصد جب ہی حاصل ہوں گے کہ ہم صدقہ فطر کی اہمیت وحکم جاننے کے بعد بخل سے کام نہ لیں بلکہ کهلے دل سے خوشی خوشی اس کو اداء کریں ایک روایت میں ہے کہ آج کے دن مساکین کو ادهر ادهر پهرنے سے اورسوال کرنے سے غنی کرو وفي رواية « أغنوهم عن الطواف في هذا اليوم ».أخرج هذه الرواية ابن عدي والدارقطني والبيهقي والحاكم وابن زنجويه « في الأموال » وابن حزم جميعهم من طريق أبي معشر عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما وفي آخره « أغنوهم في هذا اليوم » أو « أغنوهم (يعني المساكين) من طواف هذا اليوم » كما هو لفظ الحاكم والبيهقي.
صدقہ فطرکا ثبوت = قرآن مجید کے عموم سے اور صریح حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے قرآن مجید کے عموم سے جیسے قول باری تعالی قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى . بے شک بھلا ہوا اُس کا جو سنورا (یعنی ظاہری وباطنی حسّی ومعنوی نجاستوں سے پاک ہوا اور اپنے قلب وقالب کو عقائد صحیحہ اخلاق فاضلہ اور اعمال صالحہ سے آراستہ کیا) اورلیا اُس نے نام اپنے رب کا پھر نماز پڑھی (یعنی پاک و صاف ہو کر تکبیر تحریمہ میں اپنے رب کا نام لیا۔ پھر نماز پڑھی اور بعض سلف نے کہا کہ تَزَکیّٰ "زکوٰۃ" سے ہے جس سے مراد یہاں "صدقہ الفطر" ہے اور وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ سے تکبیرات عید مراد ہیں اور فَصَلّٰی میں نماز عید کا ذکر ہے یعنی عید کے دن اوّل "صدقہ الفطر" پھر تکبیریں پھر نماز والظاہر ہوالاوّل . تفسیرعثمانی . امام بغوی نے اپنی تفسیر میں حضرت أبي سعيد الخدري سے نقل سے کیا کہ اس سے مراد صدقة الفطر ہے ، اور حضرت عمر بن عبد العزيز رحمہ الله جب عید کے دن لوگوں کو منبر پر خطبہ دیتے تو فرماتے کہ صدقة الفطر نماز سے پہلے ادا کرو کیونکہ الله تعالی ارشاد فرماتے ہیں قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى. وقال البغوي فی تفسیره : وقال آخرون هو صدقة الفطر روي عن أبي سعيد الخدري في قوله قد أفلح من تزكى قال أعطى صدقة الفطر . وذكر اسم ربه فصلى أي وذكر ربه فصلى قيل الذكر تكبيرات العيد والصلاة صلاة العيد وقيل الصلاة هاهنا الدعاء .تفسير البغوي . وكان عمر بن عبد العزيز يخطب الناس على المنبر يقول قدموا صدقة الفطر قبل الصلاة فإن الله يقول قد أفلح من تزكى وذكر اسم ربه فصلى. أحكام القرآن لابن العربي.اور بہت ساری احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے مثلا عن نافع عن عبد الله بن عمرأن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين حر أو عبد أو رجل أو امرأة صغير أو كبير صاعا من تمر أو صاعا من شعير . سنن النسائي.وقال الامام يحيي بن شرف أبو زكريا النووي رحمه الله :اختلف الناس في معنى ( فرض ) هنا فقال جمهورهم من السلف والخلف معناه ألزم وأوجب فزكاة الفطر فرض واجب عندهم لدخولها في عموم قوله تعالى وآتوا الزكاة . وقال بعض أهل العراق وبعض أصحاب مالك وبعض أصحاب الشافعي وداود في آخر أمره إنها سنة ليست واجبة وقال أبو حنيفة هي واجبة ليست فرضا بناء على مذهبه في الفرق بين الواجب والفرض .والصواب أنها فرض واجب . شرح النووي على مسلم .
صدقہ فطر کن پر واجب ہے؟ = جس شخص میں تین شرطیں پائی جائیں اس پر صدقہ فطر واجب ہوتا ہے۔ (1) مسلمان ہو کافر پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ فرض زكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين الخ (2) آزاد ہو غلام پر صدقہ فطر واجب نہیں۔ (3) اپنے قرضے اور اصل ضروریات اور اہل و عیال کی ضروریات کے علاوہ نصاب کا مالک ہو لہذا اس شخص پر جو قرض اور حوائج اصلیہ سے زائد نصاب کا مالک نہ ہو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ۔ مندرجہ ذیل چیزیں حوائج اصلیہ میں داخل ہیں.(1) اس کا گھر(2) گھر کے سازوسامان (3) استعمال اور پہننے کے کپڑے(4) اس کی سواری جیسے آج کل کے زمانہ میں گاڑی وغیره (5) وہ ساز وسامان جس سے وہ اپنے حصول معاش میں مدَد لیتا ہے وغیره ذالک
مسئلہ= صدقہ فطر واجب ہونے کے لئے نصاب پر سال کا گذرنا شرط نہیں ہے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ قَالَ خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم النَّاسَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ فَقَالَ أَدُّوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ قَمْحٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ (دار قطني زكاة الفطر ) مذکورہ حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سال گذرنے کی شرط لگائے بغیر صدقۂ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا اس لیے فقہاءِ کرام صدقہ فطر کے وجوب کے لیے مذکورہ شرط نہیں لگاتے ہیں
مسئلہ= صدقہ فطر کے وجوب کیلئے عید کے دن طلوع فجر کے وقت نصاب کا مالک ہونا شرط ہے .وَبِهِ تَبَيَّنَ أَنَّ الْمُرَادَ مِنْ قَوْلِهِ صَدَقَةُ الْفِطْرِ أَيْ صَدَقَةُ يَوْمِ الْفِطْرِ فَكَانَتْ الصَّدَقَةُ مُضَافَةً إلَى يَوْمِ الْفِطْرِ فَكَانَ سَبَبًا لِوُجُوبِهَا .بدائع الصنائع
مسئلہ= صدقہ فطر واجب ہونے کیلئے بالغ یا عاقل ہونا شرط نہیں بلکہ اگربچہ اور مجنون بھی نصاب کے مالک ہوں تو ان کے مال سے صدقہ فطر نکالا جائے۔ عَنْ كُلِّ حُرٍّ وَعَبْدٍ وَصَغِيرٍ وَكَبِيرٍ . دار قطني زكاة الفطر
صدقہ فطر کس کی طرف سے نکالا جائے گا؟
درج ذیل افراد کی جانب سےصدقۂ فطر نکالنا ضروری ہے۔
اپنی جانب سے۔ اپنے چھوٹے محتاج بچوں کی طرف سے۔ ہاں اگر وہ مالدار ہوں تو صدقہ فطر انہی کے مال سے نکالا جائے مسئلہ: شوہر پر ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کی طرف سے صدقہ فطر نکالے لیکن اگر بیوی پر احسان کرے تو جائز ہے اسی طرح باپ پر اپنے بڑے باشعور بچوں کی جانب سے صدقہ فطر نکالنا واجب نہیں لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو جائز ہے ہاں اگر اولاد محتاج و مجنون ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب ہے۔
صدقہ فطر کی مقدار= وہ چیزیں جن کا صدقہ فطر کے حوالہ سے نصوص میں ذکر آیا ہے چار ہیں1) گیہوں (2) جَو (3) کھجور (4) مُنَقّٰی (کشمش)
مسئلہ: صدقۂ فطر ایک فرد کی طرف سے گیہوں یا آٹا یا اس کے ستو سے آدھا صاع یا کھجور یا منقّٰی یا جومیں سے ایک صاع ہے۔ اور جو شخص دوسرے غلوں سے صدقہ فطر نکالنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے لیکن اس پر ضروری ہے گیہوں میں سے آدھا اور جَووغیرہ میں سے ایک صاع کے برابر مقدار نکالے۔ مسئلہ: صدقہ فطر کی قیمت کو نقدی کی شکل میں نکالنا بھی جائز ہے ، بلکہ یہ بہتر ہے اس لئے کہ اس میں فقیروں کیلئے زیادہ نفع ہے۔مسئلہ: صدقہ فطر ایک فرد کی طرف سے کئی مسکینوں کو دینا جائز ہے اس طرح کئی لوگوں کی طرف سے ایک مسکین کو دینا بھی جائز ہے۔مسئلہ: صدقہ فطر کے مصارف بعینہٖ زکوۃ کے مصارف ہیں جن کے سلسلہ میں آیت کریمہ میں نص وارد ہوئی ہے
مسئله = صدقہِ فطر واجب ہونے کا سبب خود اس کی ذات اور وہ لوگ ہیں جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے اور وہ ان پر کامل ولایت رکھتا ہے پس صدقه فطراپنی طرف سے ادا کرنا واجب ہے اگر کسی شخص نے کسی عذرسے یا بلاعذر روزے نہ رکھے ہوں تب بھی اس پر صدقہِ فطر ادا کرنا واجب ہے اوراس کے نابالغ بچوں اور بچیوں کی طرف سے بھی اس پر واجب ہے لیکن اگرنابالغ بچہ خود مالدار ہو تو اس کے مال میں سے صدقه فطر واجب ہو گا کم عقل دیوانہ اور مجنون کا بھی وہی حکم ہے جو نابالغ بچے کا ہے یعنی اس کی طرف سےباپ صدقه فطر ادا کرے
مسئله = بیوی کا صدقه فطر خاوند پر واجب نہیں ہے بالغ اولاد کا نفقہ بھی باپ پر واجب نہیں اگر بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سےاور جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے ان سب کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیرصدقه فطر دے دیا تو ادا ہو جائے گا اِسی پر فتویٰ ہے کیونکہ عادتاً اجازت موجود ہے اگرچہ نیت کے بغیر فطرہ ادا نہیں ہوتا لیکن اس صورت میں حکماً نیت موجود ہے
مسئله = اپنی عیال اور اہل نفقہ کےعلاوہ کسی اور کی طرف سے فطرہ دینا ان کی اجازت سے جائز ہے اجازت کے بغیر جائز نہیں پس اگر عورت نے اپنے خاوند کی طرف سے اس کی اجازت کے بغیر فطرہ ادا کر دیا تو جائز نہیں ہےاپنے دادا دادی نانا نانی پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کی طرف سے صدقه فطر دینا واجب نہیں ہے اور اپنے ماں باپ کا فطرہ دینا بھی واجب نہیں اگرچہ انکا نفقہ ان کے ذمہ ہو کیونکہ ان پر اس کو ولایت نہیں ہے جیسا کہ بڑی اولاد پرنہیں ہے لیکن اگر ان میں سے کوئی فقیر اور دیوانہ ہو تو اس کا صدقه اس پر واجب ہو گا
مسئله = اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقه فطردینا اس پر واجب نہیں اگرچہ ان کا نفقہ اس کے ذمہ ہو کیونکہ اس کو ان پرولایت حاصل نہیں ہے اور صدقہِ فطر واجب ہونے کو لئے اس شخص پر ولایت کاملہ حاصل ہونا اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار ہونا ضروری ہے
مسئله = اسی طرح دادا کےذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہے جب کہ ان کا باپ مفلس ہو اورزندہ ہو اور اگر مفلس باپ فوت ہو چکا ہو تو اس میں اختلاف ہے ظاہر الروایت کے بموجب اس صورت میں بھی دادا کے ذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہےاور امام حسن رحمه الله کی روایت میں واجب ہے
مسئله = صدقه فطر عیدالفطر کے روز صبحِ صادق طلوع ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے پس جو شخص اس سے پہلے مر جائے اس پر صدقه فطر واجب نہیں ہو گا اور جو شخص اس دن کی طلوع فجر کے بعد مرے تو اس پر صدقه فطر واجب ہوگا اسی طرح جو بچہ طلوع فجر سے پہلے پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تواس پر صدقه فطر واجب ہو گا اور جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تو اس پر صدقه فطر واجب نہ ہو گا اور اسی طرح اگر فقیراس دن کی طلوع فجر سے پہلے مالدار ہو جائے یا مالدار آدمی طلوع فجرکے بعد فقیر ہو جائے تو اس پر صدقه فطر واجب ہو گا اس کے برعکس اگر مالدار طلوع فجر سے پہلے فقیر ہو جائے یا فقیر طلوع فجر کے بعد مالدار ہو جائے تو اس پرصدقه فطر واجب نہیں ہو گا
مسئله = عید الفطر کا دن آنے سے پہلے صدقہ ادا کر دیں تو جائز ہے اور یہ عیدالفطر سے پہلے دینے کا حکم مطلق ہے اس میں مدت کی مقدار کی کوئی تفصیل نہیں ہے اس لئے خواہ رمضان المبارک میں دیا جائے یا اس سے پہلے دیدیا جائے ہر وقت جائز ہے یہی صحیح و مختار ہے بعض فقہاء نے اس بات کی تصحیح کی ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو جائے اس میں پیشگی صدقہِ فطردینا جائز ہےاس سے پہلے نہیں دونوں قول صحیح ہیں اور مفتیٰ بہ ہیں لیکن پہلاقول ظاہرالروایت ہے اور اس میں زیادہ وسعت ہے اور دوسرے قول میں احتیاط زیادہ ہے اور عمل کے لئے یہی مناسب ہے عیدالفطر کے دن کسی وقت بھی اداکر دیگا تو وہ ادا کرنے والا ہو گا قضا کرنے والا نہیں ہو گا اگر عید کا دن گزرگیا اور کسی شخص نے فطرہ ادا نہیں کیا تو صحیح یہ ہے کہ اس سے ساقط نہیں ہو گا بلکہ اس کا دینا واجب رہے گا لیکن یومِ فطر کے بعد اس کا ادا کرنا بعض فقہاء کے نزدیک قضاء کہلائے گا اور بعض نے اس کو ترجیح دی ہے اوربعض فقہاء کے نزدیک عمر بھر میں جب بھی ادا کرے گا ادا ہی کہلائے گا کیونکہ ان کے نزدیک تاخیر سے ادا کرنا یعنی عمر میں ادا کر دینا واجب ہے بعض نےاس کو ترجیح دی ہے اور زیادہ راجح بھی یہی ہے
مسئله = صدقہِ فطر ادا کرنے کا مستحب وقت یہ ہے کہ عید الفطر کے روز طلوع فجر کے بعد عیدگاہ کو جانے سے پہلے صدقہِ فطر ادا کر دیں اور اس سے تاخیرکرنا مکروہِ تنزیہی ہے
مسئله = صدقہِ فطر چار چیزوں گیہوں جو کھجور اور کشمش میں سے ادا کرناواجب ہے یعنی وزن مقرَرہ کے حساب سے دینے کے لئے یہ چار چیزیں ہی منصوص علیہ ہیں فطرہ کی مقدار گیہوں میں نصف صاع اور جو و کھجور میں ایک صاع ہے کشمش میں اختلاف ہے صحیح اور مفتیٰ بہ قول یہ ہے کہ ایک صاع دی جائے گیہوں و جو کے آٹے اور ستوں کا وہی حکم ہے جو خود اُن کاہے گیہوں میں جَو وغیرہ ملے ہوئے ہوں تو غلبہ کا اعتبار ہو گا پس اگر گیہوں غالب ہو گی تو نصف صاع دیا جائے گا مذکورہ چار منصوص چیزوں کے علاوہ اگر کسی دوسری جنس سے صدقہ فطر ادا کیا جائے مثلاً چاول، جوار، باجرہ وغیرہ دیا جائے تو اشیائے منصوصہ مذکورہ میں سے کسی ایک چیز کی قیمت کےبرابر ہونا چاہئے مثلاً چاول وغیرہ دے تو جس قدر قیمت میں نصف صاع گیہوں آتے ہوں یا ایک صاع جَو آتے ہوں اتنی قیمت کے چاول وغیرہ دے سکتا ہے اوراگر وہاں گندم و جَو و کھجور اور کشمش نہ ہوتے ہوں تو وہاں سے زیادہ قریبی جگہ میں جہاں ہوتے ہوں وہاں کی قیمت معتبر ہو گی گیہوں یا جو کی روٹی صدقہِ فطر میں وزن سے دینا جائز نہیں بلکہ قیمت کے اعتبار سے دے گا تو جائزہو گا یہی اصح ہے، اگر منصوص علیہ یعنی چاروں مذکورہ اجناس میں سےکسی ایک کی قیمت ادا کرے تو یہ بھی جائز ہے بلکہ عین اس چیز کے دینے سےاس کی قیمت کا دینا افضل ہے اسی پر فتویٰ ہے( انگریزی سیر کے وزن سے جوکہ اسی تولہ ہوتا ہے اور ہند و پاکستان میں رائج ہے ایک صاع تقریباً ساڑھےتین سیر کا اور نصف صاع پونے دو سیر کا ہوتا ہے یہی مفتیٰ بہ ہے بہتر یہ ہے کہ احتیاطاً گیہوں دو سیر اور جو چار سیر دیدئے جائیں)
مسئله = صدقہِ فطر کے مصارف عامل کے سوا وہی ہیں جو زکوة کے ہیں ذمی کافرکو صدقہِ فطر دینے میں اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ جائز و مکروہ ہے اورمسلمان فقیر کو دینا اولیٰ ہے ایک شخص کا صدقہِ فطر بعض کے نزدیک ایک ہی شخص کو دینا واجب ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ متعدِد شخصوں کو ایک ایک شخص کا فطرہ دینا جائز ہے یہی مذہب ہے متعدِد شخصوں کا فطرہ کسی ایک مسکین کو دینا بھی جائز ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ (والمعنى أنه قال للناس) فِي آخِرِ رَمَضَانَ أَخْرِجُوا صَدَقَةَ صَوْمِكِمْ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الصَّدَقَةَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ (أي حنطة وبه قال أبو حنيفة خلافا للثلاثة ويؤيده حديث معاوية حيث قال في خطبته بالمدينة : أَرَى نِصْفَ صَاعٍ مِنْ حِنْطَةٍ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ والظاهر أن هذا مرفوع حكما ويحتمل كونه من اجتهاده والله أعلم ) عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوكٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ . رواه أبو داود والنسائي
فتاوی دارالعلوم دیوبند ج 6 پر لکها ہے کہ صدقہ فطر کی مقدار پونے دو سیر گیہوں یا اس کی قیمت ادا کرنے سے صدقہ فطر ادا ہوجائے گا
صدقہ فطر کا مصرف = اس کا مصرف وہی ہے عامل کے سوا جو زكوة کا ہے یعنی جہاں زكوة دینی جائز ہے وہاں صدقہ فطر دینا بهی جائز ہے اور جہاں زكوة دینی ناجائز ہے وہاں صدقہ فطر دینا بهی ناجائز ہے . ومصرف هذه الصدقة ما هو مامصرف الزكوة . عالمگيری
صدقہ فطر کی ادائیگی کا مستحب وقت = صدقہ فطر ادا کرنے کا مستحب وقت یہ ہے کہ عید الفطر کے روز طلوع فجر کے بعد عیدگاہ کو جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کر دیں اور یہ بہت زیاده فضیلت کی بات ہے عید کی نماز کے بعد بهی دے سکتے ہیں لیکن عید کے دن سے زیاده تاخیر مکروہِ تنزیہی اور خلاف سنت ہے لیکن پهر بهی ادا کرنا ضروری ہے اور رمضان کا چاند نظر آنے کے بعد رمضان میں ہی صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے لیکن رمضان سے پہلے ادا نہ کرے . والمستحب للناس ان يخرجوا الفطرة بعد طلوع الفجر يوم الفطر قبل الخروج الى المصلى كذا في الجوهرة النيرة . عالمگيری . وَيُسْتَحَبُّ إخراجها قبل الخروج إلى المصلى بعد طلوع فجر الفطر عملا بأمره وفعله عليه الصلاة والسلام . رد المحتار على الدر المختار( وصح أداؤها إذا قدمه على يوم الفطر أو أخره ) اعتبارا بالزكاة والسبب موجود إذ هو الرأس ( بشرط دخول رمضان في الأول ) أي مسألة التقديم ( هو الصحيح ) وبه يفتى جوهرة وبحر عن الظهيرية لكن عامة المتون والشروح على صحة التقديم مطلقا وصححه غير واحد ورجحه في النهر ونقل عن الولوالجية أنه ظاهر الرواية .قلت فكان هو المذهب. رد المحتار
مسئله = جس طرح مرد اگر مال دار ہوتو اس پر صدقہ فطر واجب ہے اسی طرح عورت اگر مال دار ہوتو اس پر بهی واجب ہے مثلا اس کے پاس زیور وغیره ہو جو نصاب کے برابر ہوتو اس پر اپنی طرف سے صدقہ فطر واجب ہے
مسئله = جس آدمی پر صدقہ فطر واجب ہے اس کو اپنے نابالغ لڑکے اور لڑکی کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالنا واجب ہے . وتجب عن نفسه وطفله الفقیر کذا فی الکافی . عالمگیری . ویُخرج عن اولاده الصغار. هدایه
مسئله = مال دار عورت پراپنا صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے لیکن اس پر کسی طرف سے ادا کرنا واجب نہیں ہے نہ بچوں کی طرف سے نہ شوہر کی طرف سے نہ ماں باپ کی کی طرف سے . والأصل ان صدقة الفطر متعلقة بالولاية والمؤنة الخ عالمگيری . صدقہِ فطر واجب ہونے کا سبب خود اس کی ذات اور وہ لوگ ہیں جن کا نان نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے اور وہ ان پر کامل ولایت رکھتا ہے
مسئله = بیوی کا صدقه فطر خاوند پر واجب نہیں ہے بالغ اولاد کا صدقه فطر بھی باپ پر واجب نہیں لیکن اگر وہ ان پر احسان کرے تو جائز ہے اگر بالغ اولاد اور بیوی کی طرف سےاور جن کا نفقہ اس کے ذمہ ہے ان سب کی طرف سے ان کی اجازت کے بغیرصدقه فطر دے دیا تو ادا ہو جائے گا اِسی پر فتویٰ ہے کیونکہ عادتاً اجازت موجود ہے اگرچہ نیت کے بغیر فطرہ ادا نہیں ہوتا لیکن اس صورت میں حکماً نیت موجود ہے ہاں اگر اولاد محتاج ومجنون ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر نکالنا واجب ہے. وتجب عن نفسه وطفله الصغير ولا يؤدي عن زوجته ولا عن أولاده الكبار وان كانوا في عياله ولو أدى عنهم أو عن زوجته بغير أمرهم أجزاهم استحسانا كذا في الهداية .عالمگيری
مسئله = اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور اپنے دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقه فطردینا اس پر واجب نہیں اگرچہ ان کا نفقہ اس کے ذمہ ہو کیونکہ اس کو ان پرولایت حاصل نہیں ہے اور صدقہِ فطر واجب ہونے کو لئے اس شخص پر ولایت کاملہ حاصل ہونا اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار ہونا ضروری ہے
مسئله = اسی طرح دادا کےذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہے جب کہ ان کا باپ مفلس ہو اورزندہ ہو اور اگر مفلس باپ فوت ہو چکا ہو تو اس میں اختلاف ہے ظاہر الروایت کے بموجب اس صورت میں بھی دادا کے ذمہ پوتوں کا صدقه فطر واجب نہیں ہےاور امام حسن بن زياد رحمه الله کی روایت میں واجب ہے
مسئله = فطره کی رقم مسجد مدرسہ ہسپتال کی تعمیر یاراستہ بنانے وغیره میں دینا جائز نہیں ہے ولا يصرف الى بناء نحو مسجد كبناء القناطر والسقايات واصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه . شامي
مسئله = صدقه فطر عیدالفطر کے روز صبحِ صادق طلوع ہونے کے بعد واجب ہوتا ہے پس جو شخص اس سے پہلے مر جائے یا فقیر ہوجائے تو اس پر صدقه فطر واجب نہیں ہو گا اور جو شخص اس دن کی طلوع فجر کے بعد مرے تو اس پر صدقه فطر واجب ہوگا . فمن مات قبل ذالك لم تجب عليه الصدقة .عالمگيری
مسئله = اسی طرح جو بچہ صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا یا صبح صادق کے وقت پیدا ہوا تو اس کی طرف سے صدقه فطر ادا کرنا اس کے مال دار باپ پر واجب ہے . ومن ولد قبله وجبت .عالمگيری
مسئله = جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہوا یا کوئی کافر مسلمان ہوا تو اس پر صدقه فطر واجب نہیں ہے ومن ولد بعده لم تجب .عالمگيری
مسئله = صدقہ فطر میں قیمت دینا زیاده افضل ہے . ( ودفع القيمة ) أي الدراهم ( أفضل من دفع العين على المذهب ) المفتى به جوهرة وبحر عن الظهيرية وهذا في السعة أما في الشدة فدفع العين أفضل كما لا يخفى . رد المحتار على الدر المختار
مسئله = ایک اگر کسی کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرے تو اجازت لینا یا دینا ضروری ہے . ولا يجوز ان يُعطي عن غير عياله الا بأمره كذا في المحيط . عالمگيری
مسئله = اگر کوئی شخص کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکهہ سکے تو اس پر بهی صدقه فطر ادا کرنا واجب ہے . ثم رأيت في البدائع ما يشعر بذلك حيث قال وكذا وجود الصوم في شهر رمضان ليس بشرط لوجوب الفطرة حتى إن من أفطر لكبر أو مرض أو سفر يَلْزَمُهُ صدقة الفطر لأن الأمر بأدائها مطلق عن هذا الشرط اهـ فافهم . رد المحتار
مسئله = صدقہ فطر ادا ہونے کے لیے مال کا باقی رہنا بھی شرط نہیں مال ہلاک ہو جانے کے بعد بھی واجب رہے گا ساقط نہ ہوگا بخلاف زکوٰۃ وعشر کہ یہ دونوں مال ہلاک ہو جانے سے ساقط ہو جاتے ہیں ۔( فلا تسقط ) الفطرة وكذا الحج ( بهلاك المال بعد الوجوب ) كما لا يبطل النكاح بموت الشهود .الدر المختار
والله تعالی أعلم وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين