یہ جو تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
جانے کس بات پر اکٹھے ہیں
کیدو کل کہ رہا تھا رانجھے سے
عشق اُلو ہے ، لوگ پٹھے ہیں
جتنے بیمار ہیں سیاست کے
کھاتے پیتے ہیں ، ہٹے کٹے ہیں
پاپولر شاعروں کی بات نہ کر
اُن کے انگور سخت کھٹے ہیں
ایک شاعر کے گھر کا فرنیچر
تین دریاں ہیں ، چار پھٹے ہیں
بیویوں کے سروں کی چادر میں
شوہروں کے کفن کے لٹھے ہیں
چٹ پٹی ، چُلبلی کو بے بے نے
بھیجے لاہور سے دوپٹے ہیں
میں ترا میر ، تو مرا غالب
شاعروں کے یہ وٹے سٹّے ہیں
ٹ نما ٹھ کا فرق نا معلوم
ہم نے الفاظ چُن کے رٹّے ہیں
ویگنوں میں لدے ہوئے مسعود
میرے شعروں کے ساٹھ گٹھے ہیں
مسعود مُنّور