شاہ ولی اللہ کے متصوفانہ افکار کا تحقیقی جائزہ

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
شاہ ولی اللہ کے متصوفانہ افکار کا تحقیقی جائزہ
پیشکش مجلہ خیابان پشاور جامعہ پشاور
حسین محمد قریشی​
Abstract
As an eminent scholar, well composed personality and pioneer figure in the renaissance of Islam during era 18th Century, Shah Wali Ullah (1703-1762) contribution in a big way which has its own significant weight age would be remembered for ever in the heart of the true Muslim. In present article lights has been thrown on Shah Wali Ullah’s point of view regarding “THASAUF”. Its essence, historical background, characteristics of “Shakh-e-Thariqth”. A Curriculum of “SALUKE”, as defined and recommended by worthy Shah Wali Ullah for their followers has been elaborated. By practicing the teaching of “TASAUF”, what salient effects take place in the inner psyche of Human beings? What kind of behavior constitutes and how creates self reliance and discipline in the life of “SALIK” ? So, the confusion in Integration between the “SHARIATH” and “TARIQATH” solved in very sophisticated way and results have compiled.
نابغہ عصر مفکرِ اسلام شاہ ولی اللہ (ولادت ۱۰ فروری ۱۷۰۳ء وفات اگست ۱۷۶۲ء) اپنے عہد اٹھارویں صدی عیسوی کے مجدد کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، ایک جید عالم دین، ایک باکمال فقیہہ، ایک دانش مند سیاسی مدبر کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ ایک عارف صوفی اور فلسفی کے طور پر ان کی علمی حیثیت یاد رکھی جائیگی۔ آزادی ہند کے سلسلہ میں دوسرے مجاہدینِ ملت اور آزادی کےسپوتوں کے مساعی کے علاوہ شاوہ ولی اللہ کے علمی و عملی مساعی کو نمایاں دخل رہا ہے۔ (۱)
پاکستان ایک نظریاتی ملک کی حیثیت سے اسلام اور جاملین اسلام کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ رکھتا ہے، اس رشتہ کی بقاء سے اس ملک کا استحکام ہے اور یہی نظریہ اس کی پہچان ہے، تخلیقِ پاکستان کے پس منظر میں اس نظریہ کی آبیاری جن حضرات نے کی، ان میں دوسرے زعماءِ ملت کے علاوہ صوفیاء کی خاموش جدوجہد کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے، ماضی میں صوفیاء کی خاصی تعداد اس حوالے سے بطورِ دلیل پیش کی جاسکتی ہے، ماضی قریب میں اس حوالے سے علامہ اقبال نے جن شخصیات کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے۔ ان میں سے شیخ احمد سرہندی م ۱۶۲۴ء، سلطان محی الدین اورنگزیب م ۱۷۰۷ء اور شاہ ولی اللہ شامل ہیں۔ علامہ کا یہ بھی لکھنا ہے، تصوف جیسی علمی قدر اٹھارویں صدی میں ہر قسم کے آمیزش سے محفوظ رہی ہے، اگر اس وقت کے علمی اشخاص ان کی حفاظت میں تساہل سےکام لیتے تو اسلامی فلسفہ یقیناً ہندو تہذیب کے زیرِ اثر آتا۔ (۲)
لہٰذا تصوف ایک اہم قدر کےطور پر اسلامی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ تصوف کیا ہے؟ کیا پیغمبر علیہ السلام کے عہد میں تصوف کا وجود تھا؟ شاہ ولی اللہ تصوف کا تاریخی پس منظر کیا بیان کرتے ہیں؟ کیا تصوف تمدنی علائق کو ترک کرکے مخصوص وضع کی زندگی ؟ اگر تصوف باطنی صفائی کا نام ہے تو اس کا شریعت جو ظاہری احکام کی پیروی سے عبارت ہے، کے ساتھ کیسے ربط جوڑا جاسکتا ہے؟ شاہ صاحب سالکین کے لئے کیا نصابِ سلوک تجویز کرتے ہیں؟ المختصر اس تحقیقی مضمون میں تصوف سے متعلق شاہ ولی اللہ کی مخصوص نظر اور اُٹھائے گئے سوالات کا محققانہ جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔
تصوف کی حقیقت انسان کی نفسی قوتوں کو بیدار کرکے اُسے اوجِ کمال پر پہنچانا ہے۔ انسان کی نفسی قوتیں بے پناہ تغیر کا باعث ہیں، انسان کی لامحدود قوتیں عالمِ افاق کی بجائے جب صرف نفسِ انسانی کو اپنی تحقیق و تسخیر و تسخیر کا مرکز بناتی ہیں، تو اس کی وجہ سے اس پر زندگی کے وہ مافوق الادراک حقائق منکشف ہو جاتے ہیں، جن کی وسعتوں اور گہرائیوں کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ شاہ ولی اللہ کی نظر میں تصوف کا ایک مقصد انسان کے لطائف و ملکات کو بیدار کرنا ہے یہ اعمال کی روح ہے، وہ تصوف سے مقصود احکامِ الہٰی کی تعمیل کے نتیجہ میں چار اُم الا خلاق طہارت، اخبات، سماحت اور عدالت کی صفات سے انسانی نفس کو مزین کرنا اور ان کے اضداد یعنی حدث و خُبث، استکبار، خود غرضی اور ظالم سے گلو خلاصی پانا قرار دیتے ہیں، چونکہ تصوف سے مقصد اعلٰی اخلاق کی تشکیل ہے، اس لئے صوفیاء کی کتب میں اخلاقیات ہی کو تصوف کہا گیا ہے۔
امام الہند نے اپنی کُتب میں تصوف و احسان کے بارے میں قدرے وسعت سے لکھا ہے، اپنی شہرہ آفاق کتاب حجتہ اللہ البالغہ جو شاہ صاحب کی (Magnum Opus) ہے، کو گوانہوں نے اصلاً شریعت کے اسرار و حِکم، مقاصد و اغراض احادیث کی توضیح میں لکھی تھی، تاہم اس کی دوسری جلد کے آغاز میں ارکانِ اسلام نماز، زکٰوۃ، روزہ اور حج میں سے ہر ایک کی حقیقت اور بھر پور حکمتِ تشریع بیان کرنے کے بعد مبحث فی ابواب من الاحسان کی ذیل میں انہوں نے تصوف کے مسائل کا بھر پور احاطہ کیا ہے، شاہ صاحب عام صوفیاء کی طرح طریقت کو شریعت کا تابع سمجھتے ہیں اور احکامِ الہٰی کی بجا آوری کے نتیجہ میں باطنی کیفیات و نتائج کو احسان و تصوف ہی قرار دیتے ہیں۔ (۳)
الغرض تصوف سے متعلق متعین کردہ مباحث کا شاہ صاحب کی نظر میں احاطہ کرنا مقصود ہے، تاہم باضابطہ طور پر آغازِ بحث سے پہلے شاہ صاحب کا اس موضوع سے متعلق کُتب کا تعارف اور خود تصوف کی حقیقت سے متعلق اہل فن کی آراء سے واقفیت برمحل ہے۔
شاہ صاحب کی تصوف پر مشتمل کُتب:
تصوفانہ فلسفہ کے موضوع پر شاہ صاحب کی جن پانچ کتابوں کو اساسی اہمیت حاصل ہے، وہ درج ذیل ہیں:
(۱) القول الجمیل (۲) الطاف القدس جی معرفتہ الطائف النفس (۳) سطعات (۴) ھمعات (۵) لمحات۔
سالک جب تصوف کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو ذکر و اذکار اور وظائف کا پورا پروگرام "القول الجمیل" پیش کرتی ہے، گویا "القول الجمیل" سالک کے لئے قوعد طریقت یعنی ان دعوات و اعمال پر مشتمل رسالہ ہے، جس کی روشنی میں انسان تصوف کی منزل کو پاسکتا ہے، یہ رسالہ سالک کا دستور العمل ہے۔
عالَم صغیر یعنی انسان کا اصطلاحی نام سِر ہے، لہٰذا شاہ صاحب نے الطاف فی معرفتہ لطائف النفس "لطیفہ عقل، لطیفہ قلب، لطیفہ نفس، روح، سِر، خفی، اخفی، حجر بہت وانا کی حقیقت میں لکھی ہے۔ امام الہند نے ان لطائف ظاہر و باطنہ کی تہذیب کے طریقے بیان کئے ہیں اور یہ بیان کیا ہے کہ انسان کی اندرونی نفسی قوتوں یعنی عقل، ارادہ اور تدبیر نفس پر سلوک کا کیا اثر پڑتا ہے اور ایک قوت دوسری قوت سے کس طرح پھوٹ کر نکلتی ہے۔ ایک مسلمان کو جس طرح ظاہر شریعت کی پابندی کرنی ضروری ہے، اس طرح باطنی تصفیہ و تحلیہ بھی تکمیل انسانیت کے لیے ناگزیر ہے، الغرض الطاف القدس کا موضوع لطائف کی حقیقت کا بیان ہے۔
صوف کی آخری منزل یا ایک ترقی یافتہ دماغ کو سلوک کا منتہٰی یعنی نوع انسانی کے موطن "حظیرۃ القدس" سے تعلق کے عمیق مسئلہ کو سمجھانے کے لئے آپ نے اپنی مایہ ناز کتاب "سطعات" تحریر فرمائی، یہ کتاب نفسی تکمیل کے ارتقاء سے متعلق منفرد بحث پر مشتمل ہے، سطعات فارسی زبان میں ہے اس کتاب میں تجلی الٰہی، تنزلات ستہ کے علاوہ "وجود" سے متعلق بحث شامل ہے۔
اس طرح تاریخِ تصوف کے ابتدائی دور میں جو بڑے سالک و صوفی گذرے ہیں، مثلاً بایزید بسطامی ۲۶۱ءھ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی ۲۹۷ھ اور آخری دور میں شیخ عبدالقادر جیلانی، حضرت شاہ معین الدین چشتی اور حضرت بہاوالدین نقشبندی رحمہم اللہ تعالٰی نے تصوف و سلوک کو کن خطوط پر استوار کیا؟ اور ان کی صحبت سے کامل کس طرح پیدا ہوئے؟ بالفاظِ دیگر تصوف کے فلسفہ تاریخ پر مبنی دستاویز شاہ صاحب کی کتاب "ھمعات" کی شکل میں موجود ہے، یہ تاریخ تصوف کے مستور گوشوں کو سر عام لاتی ہے۔
اسلامی تصوف کا تقابلی رنگ کیا ہے؟ اسی طرح تصوف کی عقلی تو جیہہ کیا ہے؟ ایک صوفی اسلامی تصوف کے فلسفے کو پُرانی یونانی اور ہندی حکماءِ انسانیت کے اصولوں پر کیسے تفوق و برتری ثابت کرسکتا ہے؟ اس حوالہ سے شاہ صاحب نے "لمحات" لکھی یہ کتاب اپنے موضوع پر مجہتدانہ مقالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
بظاہر تصوف کے موضوع پر شاہ ولی اللہ کی کُتب کا تعارف تشنہ رہ جائیگا، اگر اس کا تذکرہ نہ ہو کہ ان مذکورہ پانچوں کتابوں کی تمہید شاہ صاحب کے پوتے شاہ اسمٰعیل شہید م ۱۸۳۱ء نے "العبقات" کے نام سے لکھی جو درحقیقت علمِ فلسفہ و تصوف اور حکمتِ الٰہیہ کے مسائل و مباحث کا بیش بہا ذخیرہ ہے، یہ مجموعہ جہاں الٰہیاتی مسائل و فلسفہ کے حوالہ سے ادق ترین کاوش ہے اور اس میں جہاں "وجود" اور دوسری ماورء الطبعیاتی تحقیقات کا احاطہ کیا گیا ہے، وہاں یہ انسانی فکر و نظر کی گُتھیاں سلجھانے والی کتاب بھی ہے، اس کتاب میں ولی اللہ کی زبان بولتی نظر آتی ہے، علاوہ ازیں امام الھند نے متصوفین کے طریق کی تفصیل پر مشتمل" الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ "لکھی، جبکہ اپنے والد ماجد اور چچا کی سوانح حیات، جس کو شاہ صاحب کے فلسفہ تصوف کی روح کہنا چاہیے "انفاس العارفین" قلم بند کی، "شاہ ولی اللہ کی نادر مکتوبات" مرتبہ مولانا نسیم احمد امروھوی بھی موضوع (تصوف) پر ایک وقیع کاوش ہے۔
تصوف چونکہ ایک ذوقی و کیفی طرزِ فکر سے بڑھ کر طریقہ حیات ہے، اس لئے اس کی تعریفات میں تنوع کا پایا جانا ایک لازمی عمل ہے، تاہم تصوف کی تعریفات کے نتیجہ میں قدرِ مشترک کے طور پر ان امور کو ڈھونڈ نکالا جاسکتا ہے، جن پر تصوف کی عمارت استوار ہے۔
 
Top