تفہیم القرآن اور تفسیر باالرائے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآَنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آَيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (187
تمہارے لئے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے ۔وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ میں خیانت کر رہے تھے ۔مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے در گذر فر مایا ۔) اب تم اپنی بیوی کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائز کر دیا ہے اسے حاصل کرو(۱۹۱) اور نیز راتوں کو کھاؤ پیو(۱۹۲) (تفہیم القرآن پارہ ۲ سورہ بقرہ آیت ۱۸۷
حاشیہ (۱۹۱)ابتدا میں اگر چہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے ، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لئے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے ۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی ۔اس لئے اللہ تعالی نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فر مائی اور پھر ارشاد فر مایا کہ یہ فعل تمہارے لئے جائز ہے ۔ لہذا اب اسے برا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب وضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو۔
حاشیہ ۱۹۲اس بارے میں لوگ ابتدا غلط فہمی میں تھے ۔کس کا خیال تھا کہ عشا کی نماز کے پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے ۔ جہاں سو گیا ، پھر دو بارہ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا ۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اٹھاتے تھے۔اس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے ۔اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک ر ات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کیلئے آزادی دے دی گئی۔
تفسیر ابن کثیر:أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ:روزےکی راتوں میں اپنی بیویوں سےملنا تمہارے لئے حلال کی گیا ۔وہتمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ۔تمہاری پوشیدہ خیانتوں اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا ہے۔
حاشیہ ابن کثیر: رمضان المبارک میں کھانے پینے اور جماع کا مسئلہ (آیت نمبر ا۸۷) ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا،پینا ،جماع کرنا عشا کی نماز تک جائز تھا اگر کوئی شخص اس سے پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہو گیا ۔اس میں صحابہ کرام کو قدر مشقت ہوئی جس پر رخصت کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے۔ هذه رخصة من الله تعالى للمسلمين، ورفع لما كان عليه الأمر في ابتداء الإسلام، فإنه كان إذا أفطر أحدهم إنما يحل له الأكل والشرب والجماع إلى صلاة العشاء، أو ينام قبل ذلك، فمتى نام أو صلى العشاء حرم عليه الطعام والشراب والجماع إلى الليلة القابلة، فوجدوا من ذلك مشقة كبيرة، (تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ)
حضرت ابو قیس صرمہ بن ابی انس انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھیتی کاکام کر کے شام کو گھر آئے ۔ بیوی سے کہا کچھ کھانے کو ہے ؟ جواب ملا کچھ نہیں ۔میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں تو وہ گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی ۔ جب آکر دیکھا تو بڑا افسو س کیا کہ اب یہ رات اور پھر دوسرا دن بھوکے پیٹوں سے کیسے گزرے گا ۔ جب آدھا دن ہوا تو حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو گئے ۔حضور ﷺ کے پاس ان کا ذکر ہوا تو اس وقت یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صاابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ایک رویت میں ہے کہ یہ قصور کئی حضرات سے ہو گیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔جنہوں نے عشا کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کرلی تھی ، پھر دوباری دربار نبور میں شکایتیں ہوئی اور ئی رحمت کی آیت نازل ہوئی۔(ابن کثیر)

حدثنـي موسى بن هارون، قال: ثنا عمرو بن حماد، قال: ثنا أسبـاط، عن السدي، قال: كتب علـى النصارى رمضان، وكتب علـيهم أن لا يأكلوا ولا يشربوا بعد النوم ولا ينكحوا النساء شهر رمضان، فكتب علـى الـمؤمنـين كما كتب علـيهم، فلـم يزل الـمسلـمون علـى ذلك يصنعون كما تصنع النصارى، حتـى أقبل رجل من الأنصار يقال له أبو قـيس بن صرمة، وكان يعمل فـي حيطان الـمدينة بـالأجر، فأتـى أهله بتـمر، فقال لامرأته: استبدلـي بهذا التـمر طحيناً فـاجعلـيه سخينة لعلـي أن آكله، فإن التـمر قد أحرق جوفـي، فـانطلقت فـاستبدلت له، ثم صنعت، فأبطأت علـيه فنام، فأيقظته، فكره أن يعصي الله ورسوله، وأبى أن يأكل، وأصبح صائماً فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بـالعشي، فقال: " ما لك يا أبـا قَـيْسِ أَمْسَيْتَ طَلِـيحاً " ، فقصّ علـيه القصة. وكان عمر بن الـخطاب وقع علـى جارية له فـي ناس من الـمؤمنـين لـم يـملكوا أنفسهم فلـما سمع عمر كلام أبـي قـيس رهب أن ينزل فـي أبـي قـيس شيء، فتذكر هو، فقام فـاعتذر إلـى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إنـي أعوذ بـالله إنـي وقعت علـى جاريتـي، ولـم أملك نفسي البـارحة فلـما تكلـم عمر تكلـم أولئك الناس، فقال النبـيّ صلى الله عليه وسلم: " ما كُنْتَ جَدِيراً بِذَلِكَ يَا ابْنَ الـخَطَّاب " ، فنسخ ذلك عنهم، فقال: { أُحِلَّ لَكُمْ لَـيْـلَةَ الصيّامِ الرَّفَثُ إلـى نِسائِكُمْ هُنَّ لِبـاسٌ لَكُمْ وأنْتُـمْ لِبـاسٌ لَهُنَّ، عَلِـمَ اللَّهُ أنَّكُمْ كُنْتُـمْ تَـخْتَانُونَ أنْفُسَكم } يقول: إنكم تقعون علـيهن خيانة، { فَتابَ عَلَـيْكُمْ وَعَفَـا عَنْكُمْ فـالآنَ بـاشرُوهُنَّ وَابْتَغُوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ } يقول: جامعوهن ورجع إلـى أبـي قـيس فقال: { وكُلُوا وَاشْرَبُوا حتـى يَتَبَـيَّنَ لَكُمُ الـخَيْطُ الأبْـيَضُ مِنَ الـخَيْطِ الأسْوَدِ مِنَ الفَجْرِ }.
جامع البیان فی تفسیر القرآن طبری))
{ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصّيَامِ ٱلرَّفَثُ } بمعنى الإفضاء { إِلَىٰ نِسَائِكُمْ } تفسیر جلالین :بالجماع، نزل نسخاً لما كان في صدر الإسلام من تحريمه وتحريم الأكل والشرب بعد العشاء { هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ } كناية عن تعانقهما أو احتياج كل منهما إلى صاحبه { عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ } تخونون { أَنفُسَكُمْ } بالجماع ليلة الصيام وقع ذلك لعمر وغيره واعتذروا إلى النبي صلى الله عليه وسلم { فَتَابَ عَلَيْكُمْ } قبل توبتكم { وَعَفَا عَنكُمْ فَٱلْئَٰنَ } إذ أُحل لكم { بَٰشِرُوهُنَّ } جامعوهن { وَٱبْتَغُواْ } اطلبوا { مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْ } أي أباحه من الجماع أو قدره من الولد

ترجمہ:تمہارے لئے روزہ کی رات میں مشغول رہنا حلال کر دیا گیا ہے ( رفث بمعنیٰ افضا ۔ کنایہ جماع سے ہیں ) تمہاری بیویوں سے ) جماع کے ساتھ ابتدائے اسلام میں صحبت ، کھانے پینے سے عشا کے بعد جو ممانعت ہوئی تھی اس کو منسوخ کرتے ہوئے فر مایا جارہا ہے) کیونکہ وہ بمنزلہ اوڑھنے بچھامے کے ہیں اور تم ان کے لئے بمنزلہ اوڑھنے بچھانے کے ہو ( یہ کنایہ ہے دونوں کے معانقہ یا ایک دوسرے کی طرف ضرورت مند ہونے سے ) اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر تھی کہ تم خیانت کے گناہ میں خود کو مبتلا کر رہے تھے ( روزوں کی رات میں جماع کر کے ۔حضرت عمر وغیرہ اس میں مبتلا ہو چکے تھے اور آنحضرت سے معتذر ہوئے ) خیر اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فر مائی ( تمہاری توبہ قبول فر مالی )اور تم سے گناہ دھو دیا ۔( کمالین)
تفسیر درمنثور:امام اوکیع ،عبد بن حمید ، بخاری ، ابوداؤد، ترمذی ،النحاس ( الناسخ میں ) ،ابن جریر ،ابن المنذر اور بیہقی نے سنن میں حضرت البرا بن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے فر ماتے ہیں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جب کوئی شخص روزہ رکھتا پھر افطاری کے وقت افطار سے پہلے سوجاتا تو وہ رات اور دن کے وقت کچھ نہ کھاتا حتیٰ کی دوسرے دن کی شام ہوجاتی۔قیس بن صرمۃ الانصاری نے روزہ رکھا تھا وہ سارا دن اپنی زمین میں محنت مذدوری کرتے ،شام کے وقت گھر آئے بیوی سے پوچھا ترے کھانا ہے ؟بیوی نے کہا نہیں لیکن میں تمہاے لئے کھانا ابھی تلاش کرتی ہوں ۔حضرت قیس پر نیند غالب آگئی اور آپ سو گئے بیوی جب کھانا لے کر آئی تو وہ سو چکے تھے ۔ بیوی نے کہا تمہارے لئے خسارہ ہو تم سو گئے ہو؟ دوسرے دن جب آدھا دن گذرا تو بھوک کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہوگئی ۔یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا گیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہو ئی ،لوگ اس کے نزول سے بہت خوش ہوئے (در منثور )
وقد أخرج البخاري، وأبو داود، والنسائي، وغيرهم عن البراء بن عازب؛ قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائماً، فحضر الإفطار، فنام قبل أن يفطر لم يأكل ليلته، ولا يومه حتى يمسي، وإن قيس بن صِرْمَة الأنصاري كان صائماً، فكان يومه ذلك يعمل في أرضه، فلما حضر الإفطار أتى امرأته فقال: هل عندك طعام؟ قالت لا، ولكن أنطلق، فأطلب لك، فغلبته عينه، فنام، وجاءت امرأته، فلما رأته نائماً قالت: خيبة لك أنمت؟ فلما انتصف النهار غُشِي عليه، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت هذه الآية: { أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصّيَامِ } إلى قوله: { مِنَ ٱلْفَجْرِ } ففرحوا بها فرحاً شديداً. وأخرج البخاري أيضاً من حديثه قال: لما نزل صوم شهر رمضان كانوا لا يقربون النساء رمضان كله، فكان رجال يخونون أنفسهم، فأنزل الله: { عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَكُمْ } الآية. وقد روى في بيان سبب نزول هذه الآية أحاديث عن جماعة من الصحابة نحو ما قاله البراء(فتح القدیر شوکانی)
كان الرجل إذا أمسى حل له الأكل والشرب والجماع إلى أن يصلي العشاء الآخرة أو يرقد، فإذا صلاها أو رقد ولم يفطر حرم عليه الطعام والشراب والنساء إلى القابلة، ثم إنّ عمر رضي الله عنه واقع أهله بعد صلاة العشاء الآخرة، فلما اغتسل أخذ يبكي ويلوم نفسه، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم وقال: يا رسول الله، إني أعتذر إلى الله وإليك من نفسي هذه الخاطئة،وأخبره بما فعل، فقال عليه الصلاة والسلام: «ما كنت جديراً بذلك يا عمر» فقام رجال فاعترفوا بما كانوا صنعوا بعد العشاء، فنزلت. وقرىء: «أحلّ لكم ليلة الصيام الرفث»، أي أحلّ الله. وقرأ عبد الله: «الرفوث»، وهو الإفصاح بما يجب أن يكنى عنه، كلفظ النيك، وقد أرفث الرجل. وعن ابن عباس رضي الله عنه أنه أنشد وهو محرم (الکشاف)
روى أبو داود عن ٱبن أبي لَيْلَى قال وحدّثنا أصحابنا قال: وكان الرجل إذا أفطر فنام قبل أن يأكل لم يأكل حتى يصبح، قال: فجاء عمر فأراد ٱمرأته فقالت: إني قد نمت؛ فظن أنها تعتلّ فأتاها. فجاء رجل من الأنصار فأراد طعاماً فقالوا: حتى نسخّن لك شيئاً فنام؛ فلما أصبحوا أُنزلت هذه الآية، وفيها { أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْ }. وروى البخاريّ عن البراء قال: كان أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائماً فحضر الإفطار فنام قبل أن يُفطِر لم يأكل ليلته ولا يومه حتى يُمْسِي، وأن قَيْس بن صِرْمة الأنصاري كان صائماً ـ وفي رواية: كان يعمل في النخيل بالنهار وكان صائماً ـ فلما حضر الإفطار أتى ٱمرأته فقال لها: أعندك طعام؟ قالت لا، ولكن أنطلقُ فأطلب لك؛ وكان يومه يعمل، فغلبته عيناه، فجاءته ٱمرأته فلما رأته قالت: خَيْبةً لك! فلما ٱنتصف النهار غُشِيَ عليه؛ فذُكر ذلك للنبيّ صلى الله عليه وسلم فنزلت هذه الآية { أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْ } ففرحوا فرحاً شديداً (قرطبی)
مودودی صاحب کے حاشیہ میں خاص طور سے دو باتیں قابل تو جہ ہیں (۱)ابتدا میں اگر چہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے ، (۲)اس بارے میں لوگ ابتدا غلط فہمی میں تھے ۔کس کا خیال تھا کہ عشا کی نماز کے پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے ۔ جہاں سو گیا ، پھر دو بارہ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا۔
حالانکہ اکابر امت کی تشریح سے یہ بات صاٖف عیاں ہےکہ مودودی صاحب نے تساہل سے کام لیا اورحضرات صحابہ رضوان اللہ علیہ پر اتہام کیا ہے جبکہ نہ یہ حضرات کسی غلط فہمی میں مبتلا تھے نہ ہی حکم کے سلسلے میں متردد تھےنعوذ با اللہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی فرضیت کا حکم سنادیااور احکام ومسائل سے اجتناب فر مایاجس کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ بقول مودودی صاحب“اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی“کے ارتکاب تک پہونچنے والے تھے استغفر اللہ ثم استغفر اللہ ۔ اب اسکو تفسیر بالرائے نہ کہیں تو کیا کہیں۔











 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
حالانکہ اکابر امت کی تشریح سے یہ بات صاٖف عیاں ہےکہ مودودی صاحب نے تساہل سے کام لیا اورحضرات صحابہ رضوان اللہ علیہ پر اتہام کیا ہے ۔جبکہ نہ یہ حضرات کسی غلط فہمی میں مبتلا تھے نہ ہی حکم کے سلسلے میں متردد تھےنعوذ با اللہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی فرضیت کا حکم سنادیااور احکام ومسائل سے اجتناب فر مایاجس کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ بقول مودودی صاحب“اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی“کے ارتکاب تک پہونچنے والے تھے استغفر اللہ ثم استغفر اللہ ۔ اب اسکو تفسیر بالرائے نہ کہیں تو کیا کہیںجزاک اللہ بہت مفید پوسٹ ہے
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
جناب مودودی صاحب نے یہی کام کیا ہے کہ ہر موقع پر اپنی عقل کو ترجیع دی ہے ۔ اور صحابہ کرام کے بارے میں ایسی زبان استعمال کی ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ نیم رافضی تھے
 

sherazi

وفقہ اللہ
رکن
احمدقاسمی نے کہا ہے:
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآَنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آَيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (187
تمہارے لئے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے ۔وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ میں خیانت کر رہے تھے ۔مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے در گذر فر مایا ۔) اب تم اپنی بیوی کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائز کر دیا ہے اسے حاصل کرو(۱۹۱) اور نیز راتوں کو کھاؤ پیو(۱۹۲) (تفہیم القرآن پارہ ۲ سورہ بقرہ آیت ۱۸۷
حاشیہ (۱۹۱)ابتدا میں اگر چہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے ، لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لئے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے ۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی ۔اس لئے اللہ تعالی نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فر مائی اور پھر ارشاد فر مایا کہ یہ فعل تمہارے لئے جائز ہے ۔ لہذا اب اسے برا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب وضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو۔
حاشیہ ۱۹۲اس بارے میں لوگ ابتدا غلط فہمی میں تھے ۔کس کا خیال تھا کہ عشا کی نماز کے پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے ۔ جہاں سو گیا ، پھر دو بارہ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا ۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اٹھاتے تھے۔اس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے ۔اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک ر ات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کیلئے آزادی دے دی گئی۔
تفسیر ابن کثیر:أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ:روزےکی راتوں میں اپنی بیویوں سےملنا تمہارے لئے حلال کی گیا ۔وہتمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ۔تمہاری پوشیدہ خیانتوں اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا ہے۔
حاشیہ ابن کثیر: رمضان المبارک میں کھانے پینے اور جماع کا مسئلہ (آیت نمبر ا۸۷) ابتدائے اسلام میں یہ حکم تھا کہ افطار کے بعد کھانا،پینا ،جماع کرنا عشا کی نماز تک جائز تھا اگر کوئی شخص اس سے پہلے سوگیا تو اس پر نیند آتے ہی حرام ہو گیا ۔اس میں صحابہ کرام کو قدر مشقت ہوئی جس پر رخصت کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اور آسانی کے احکام مل گئے۔ هذه رخصة من الله تعالى للمسلمين، ورفع لما كان عليه الأمر في ابتداء الإسلام، فإنه كان إذا أفطر أحدهم إنما يحل له الأكل والشرب والجماع إلى صلاة العشاء، أو ينام قبل ذلك، فمتى نام أو صلى العشاء حرم عليه الطعام والشراب والجماع إلى الليلة القابلة، فوجدوا من ذلك مشقة كبيرة، (تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ)
حضرت ابو قیس صرمہ بن ابی انس انصاری رضی اللہ عنہ دن بھر کھیتی کاکام کر کے شام کو گھر آئے ۔ بیوی سے کہا کچھ کھانے کو ہے ؟ جواب ملا کچھ نہیں ۔میں جاتی ہوں اور کہیں سے لاتی ہوں تو وہ گئیں اور یہاں ان کی آنکھ لگ گئی ۔ جب آکر دیکھا تو بڑا افسو س کیا کہ اب یہ رات اور پھر دوسرا دن بھوکے پیٹوں سے کیسے گزرے گا ۔ جب آدھا دن ہوا تو حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ بھوک کے مارے بے ہوش ہو گئے ۔حضور ﷺ کے پاس ان کا ذکر ہوا تو اس وقت یہ آیت اتری اور مسلمان بہت خوش ہوئے ۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ صاابہ رضی اللہ عنہم رمضان بھر عورتوں کے پاس نہیں جاتے تھے لیکن بعض لوگوں سے کچھ ایسے قصور بھی ہو جایا کرتے تھے جس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ایک رویت میں ہے کہ یہ قصور کئی حضرات سے ہو گیا تھا جن میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔جنہوں نے عشا کی نماز کے بعد اپنی اہلیہ سے مباشرت کرلی تھی ، پھر دوباری دربار نبور میں شکایتیں ہوئی اور ئی رحمت کی آیت نازل ہوئی۔(ابن کثیر)

حدثنـي موسى بن هارون، قال: ثنا عمرو بن حماد، قال: ثنا أسبـاط، عن السدي، قال: كتب علـى النصارى رمضان، وكتب علـيهم أن لا يأكلوا ولا يشربوا بعد النوم ولا ينكحوا النساء شهر رمضان، فكتب علـى الـمؤمنـين كما كتب علـيهم، فلـم يزل الـمسلـمون علـى ذلك يصنعون كما تصنع النصارى، حتـى أقبل رجل من الأنصار يقال له أبو قـيس بن صرمة، وكان يعمل فـي حيطان الـمدينة بـالأجر، فأتـى أهله بتـمر، فقال لامرأته: استبدلـي بهذا التـمر طحيناً فـاجعلـيه سخينة لعلـي أن آكله، فإن التـمر قد أحرق جوفـي، فـانطلقت فـاستبدلت له، ثم صنعت، فأبطأت علـيه فنام، فأيقظته، فكره أن يعصي الله ورسوله، وأبى أن يأكل، وأصبح صائماً فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم بـالعشي، فقال: " ما لك يا أبـا قَـيْسِ أَمْسَيْتَ طَلِـيحاً " ، فقصّ علـيه القصة. وكان عمر بن الـخطاب وقع علـى جارية له فـي ناس من الـمؤمنـين لـم يـملكوا أنفسهم فلـما سمع عمر كلام أبـي قـيس رهب أن ينزل فـي أبـي قـيس شيء، فتذكر هو، فقام فـاعتذر إلـى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إنـي أعوذ بـالله إنـي وقعت علـى جاريتـي، ولـم أملك نفسي البـارحة فلـما تكلـم عمر تكلـم أولئك الناس، فقال النبـيّ صلى الله عليه وسلم: " ما كُنْتَ جَدِيراً بِذَلِكَ يَا ابْنَ الـخَطَّاب " ، فنسخ ذلك عنهم، فقال: { أُحِلَّ لَكُمْ لَـيْـلَةَ الصيّامِ الرَّفَثُ إلـى نِسائِكُمْ هُنَّ لِبـاسٌ لَكُمْ وأنْتُـمْ لِبـاسٌ لَهُنَّ، عَلِـمَ اللَّهُ أنَّكُمْ كُنْتُـمْ تَـخْتَانُونَ أنْفُسَكم } يقول: إنكم تقعون علـيهن خيانة، { فَتابَ عَلَـيْكُمْ وَعَفَـا عَنْكُمْ فـالآنَ بـاشرُوهُنَّ وَابْتَغُوا ما كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ } يقول: جامعوهن ورجع إلـى أبـي قـيس فقال: { وكُلُوا وَاشْرَبُوا حتـى يَتَبَـيَّنَ لَكُمُ الـخَيْطُ الأبْـيَضُ مِنَ الـخَيْطِ الأسْوَدِ مِنَ الفَجْرِ }.
جامع البیان فی تفسیر القرآن طبری))
{ أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصّيَامِ ٱلرَّفَثُ } بمعنى الإفضاء { إِلَىٰ نِسَائِكُمْ } تفسیر جلالین :بالجماع، نزل نسخاً لما كان في صدر الإسلام من تحريمه وتحريم الأكل والشرب بعد العشاء { هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ } كناية عن تعانقهما أو احتياج كل منهما إلى صاحبه { عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ } تخونون { أَنفُسَكُمْ } بالجماع ليلة الصيام وقع ذلك لعمر وغيره واعتذروا إلى النبي صلى الله عليه وسلم { فَتَابَ عَلَيْكُمْ } قبل توبتكم { وَعَفَا عَنكُمْ فَٱلْئَٰنَ } إذ أُحل لكم { بَٰشِرُوهُنَّ } جامعوهن { وَٱبْتَغُواْ } اطلبوا { مَا كَتَبَ ٱللَّهُ لَكُمْ } أي أباحه من الجماع أو قدره من الولد

ترجمہ:تمہارے لئے روزہ کی رات میں مشغول رہنا حلال کر دیا گیا ہے ( رفث بمعنیٰ افضا ۔ کنایہ جماع سے ہیں ) تمہاری بیویوں سے ) جماع کے ساتھ ابتدائے اسلام میں صحبت ، کھانے پینے سے عشا کے بعد جو ممانعت ہوئی تھی اس کو منسوخ کرتے ہوئے فر مایا جارہا ہے) کیونکہ وہ بمنزلہ اوڑھنے بچھامے کے ہیں اور تم ان کے لئے بمنزلہ اوڑھنے بچھانے کے ہو ( یہ کنایہ ہے دونوں کے معانقہ یا ایک دوسرے کی طرف ضرورت مند ہونے سے ) اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر تھی کہ تم خیانت کے گناہ میں خود کو مبتلا کر رہے تھے ( روزوں کی رات میں جماع کر کے ۔حضرت عمر وغیرہ اس میں مبتلا ہو چکے تھے اور آنحضرت سے معتذر ہوئے ) خیر اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فر مائی ( تمہاری توبہ قبول فر مالی )اور تم سے گناہ دھو دیا ۔( کمالین)
تفسیر درمنثور:امام اوکیع ،عبد بن حمید ، بخاری ، ابوداؤد، ترمذی ،النحاس ( الناسخ میں ) ،ابن جریر ،ابن المنذر اور بیہقی نے سنن میں حضرت البرا بن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے فر ماتے ہیں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے جب کوئی شخص روزہ رکھتا پھر افطاری کے وقت افطار سے پہلے سوجاتا تو وہ رات اور دن کے وقت کچھ نہ کھاتا حتیٰ کی دوسرے دن کی شام ہوجاتی۔قیس بن صرمۃ الانصاری نے روزہ رکھا تھا وہ سارا دن اپنی زمین میں محنت مذدوری کرتے ،شام کے وقت گھر آئے بیوی سے پوچھا ترے کھانا ہے ؟بیوی نے کہا نہیں لیکن میں تمہاے لئے کھانا ابھی تلاش کرتی ہوں ۔حضرت قیس پر نیند غالب آگئی اور آپ سو گئے بیوی جب کھانا لے کر آئی تو وہ سو چکے تھے ۔ بیوی نے کہا تمہارے لئے خسارہ ہو تم سو گئے ہو؟ دوسرے دن جب آدھا دن گذرا تو بھوک کی وجہ سے ان پر غشی طاری ہوگئی ۔یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر کیا گیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہو ئی ،لوگ اس کے نزول سے بہت خوش ہوئے (در منثور )
وقد أخرج البخاري، وأبو داود، والنسائي، وغيرهم عن البراء بن عازب؛ قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائماً، فحضر الإفطار، فنام قبل أن يفطر لم يأكل ليلته، ولا يومه حتى يمسي، وإن قيس بن صِرْمَة الأنصاري كان صائماً، فكان يومه ذلك يعمل في أرضه، فلما حضر الإفطار أتى امرأته فقال: هل عندك طعام؟ قالت لا، ولكن أنطلق، فأطلب لك، فغلبته عينه، فنام، وجاءت امرأته، فلما رأته نائماً قالت: خيبة لك أنمت؟ فلما انتصف النهار غُشِي عليه، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت هذه الآية: { أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصّيَامِ } إلى قوله: { مِنَ ٱلْفَجْرِ } ففرحوا بها فرحاً شديداً. وأخرج البخاري أيضاً من حديثه قال: لما نزل صوم شهر رمضان كانوا لا يقربون النساء رمضان كله، فكان رجال يخونون أنفسهم، فأنزل الله: { عَلِمَ ٱللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تَخْتانُونَ أَنفُسَكُمْ } الآية. وقد روى في بيان سبب نزول هذه الآية أحاديث عن جماعة من الصحابة نحو ما قاله البراء(فتح القدیر شوکانی)
كان الرجل إذا أمسى حل له الأكل والشرب والجماع إلى أن يصلي العشاء الآخرة أو يرقد، فإذا صلاها أو رقد ولم يفطر حرم عليه الطعام والشراب والنساء إلى القابلة، ثم إنّ عمر رضي الله عنه واقع أهله بعد صلاة العشاء الآخرة، فلما اغتسل أخذ يبكي ويلوم نفسه، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم وقال: يا رسول الله، إني أعتذر إلى الله وإليك من نفسي هذه الخاطئة،وأخبره بما فعل، فقال عليه الصلاة والسلام: «ما كنت جديراً بذلك يا عمر» فقام رجال فاعترفوا بما كانوا صنعوا بعد العشاء، فنزلت. وقرىء: «أحلّ لكم ليلة الصيام الرفث»، أي أحلّ الله. وقرأ عبد الله: «الرفوث»، وهو الإفصاح بما يجب أن يكنى عنه، كلفظ النيك، وقد أرفث الرجل. وعن ابن عباس رضي الله عنه أنه أنشد وهو محرم (الکشاف)
روى أبو داود عن ٱبن أبي لَيْلَى قال وحدّثنا أصحابنا قال: وكان الرجل إذا أفطر فنام قبل أن يأكل لم يأكل حتى يصبح، قال: فجاء عمر فأراد ٱمرأته فقالت: إني قد نمت؛ فظن أنها تعتلّ فأتاها. فجاء رجل من الأنصار فأراد طعاماً فقالوا: حتى نسخّن لك شيئاً فنام؛ فلما أصبحوا أُنزلت هذه الآية، وفيها { أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْ }. وروى البخاريّ عن البراء قال: كان أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائماً فحضر الإفطار فنام قبل أن يُفطِر لم يأكل ليلته ولا يومه حتى يُمْسِي، وأن قَيْس بن صِرْمة الأنصاري كان صائماً ـ وفي رواية: كان يعمل في النخيل بالنهار وكان صائماً ـ فلما حضر الإفطار أتى ٱمرأته فقال لها: أعندك طعام؟ قالت لا، ولكن أنطلقُ فأطلب لك؛ وكان يومه يعمل، فغلبته عيناه، فجاءته ٱمرأته فلما رأته قالت: خَيْبةً لك! فلما ٱنتصف النهار غُشِيَ عليه؛ فذُكر ذلك للنبيّ صلى الله عليه وسلم فنزلت هذه الآية { أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ ٱلصِّيَامِ ٱلرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَآئِكُمْ } ففرحوا فرحاً شديداً (قرطبی)
مودودی صاحب کے حاشیہ میں خاص طور سے دو باتیں قابل تو جہ ہیں (۱)ابتدا میں اگر چہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے ، (۲)اس بارے میں لوگ ابتدا غلط فہمی میں تھے ۔کس کا خیال تھا کہ عشا کی نماز کے پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے ۔ جہاں سو گیا ، پھر دو بارہ اٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا۔
حالانکہ اکابر امت کی تشریح سے یہ بات صاٖف عیاں ہےکہ مودودی صاحب نے تساہل سے کام لیا اورحضرات صحابہ رضوان اللہ علیہ پر اتہام کیا ہے جبکہ نہ یہ حضرات کسی غلط فہمی میں مبتلا تھے نہ ہی حکم کے سلسلے میں متردد تھےنعوذ با اللہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ کی فرضیت کا حکم سنادیااور احکام ومسائل سے اجتناب فر مایاجس کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ بقول مودودی صاحب“اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت ان کے اندر پرورش پاتی رہے گی“کے ارتکاب تک پہونچنے والے تھے استغفر اللہ ثم استغفر اللہ ۔ اب اسکو تفسیر بالرائے نہ کہیں تو کیا کہیں۔












جزاک اللہ
 
Top