یہ 28مارچ 1961ء تھا۔ ضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کے نواحی گاؤں 111/7R میں حاجی فتح محمد کے گھر ایک نومولود بچے نے آنکھ کھولی، اس بچے کا نام’’ محمداعظم‘‘ تجویز ہوا۔ یہی بچہ آگے چل کر’’ محمد اعظم طارق‘‘ کہلایا اور بلاشبہ لاکھوں سنیوں کے دلوں کی دھڑکن قرار پایا۔ تحفظ ناموسِ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے وابستہ افراد کی آرزوؤں کا مرکز، چاہتوں کا محور، اکابرین کی آنکھوں کا تارا، بوڑھوں کا سہارا، ماؤں کا بیٹا، بہنوں کا ویر، جسے دیکھ کر ضعیف العمر، جواں، بچے سبھی پکار اُٹھتے تھے’’سنیوں کا وزیراعظم، طارق اعظم طارق اعظم‘‘!
آپ رحمۃ اللہ علیہ 1976ء تک اپنے آبائی دینی ادارے ’’انوارالاسلام‘‘ میں رہ کر عصری تعلیم پرائمری کے ساتھ ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرچکے تھے۔ 1977ء میں ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ابتدائی فارسی اور مڈل تک تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ چیچہ وطنی کے دینی ادارے تجوید القرآن میں عربی، فقہ، حدیث، فلسفہ، منطق کے حصول کی خاطر داخلہ لیا۔ 1980ء میں جامعہ عربیہ چنیوٹ میں داخل ہوئے، یہاں عالم عربی اور فاضل عربی کا کورس مکمل کیا۔ مدرسہ عربیہ نعمانیہ کمالیہ میں فقہ، حدیث، ادب، علم الکلام کی تمام بڑی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ 1984ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے دورہ حدیث کیااور سند فراغت حاصل کی۔ ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
کراچی میں رہ کر ہی جامعہ محمودیہ کے صدر مدرس و ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات پیش کیں۔ خطابت کا آغاز جامع مسجد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ناگن چورنگی کراچی سے کیا۔ آپ کی شادی فروری 1979ء میں دورانِ تعلیم ہی کردی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں اور چار ہی بیٹیوں سے نوازا۔
یہ 1984ء کی بات ہے۔ آپ تعلیم سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ حقوق اہل سنت والجماعت کے لئے ’’جمعیت نوجوانانِ اہل سنت‘‘ کے نام سے متحرک ہوئے۔ اس جماعت کے اغراض و مقاصد بھی قریباً وہی تھے جو سپاہِ صحابہ رض کے تھے۔ 6 ستمبر 1985ء کو مولانا حق نواز جھنگوی شہید رحمۃ اللہ علیہ نے سپاہِ صحابہ رض کی بنیاد رکھی تو آپ ان سے بے حد متاثر ہوئے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپریل 1987ء میں باقاعدہ طور پر سپاہِ صحابہ سے وابستہ ہونے کا اعلان کردیا۔ ابتدأ میں کراچی اورپورے سندھ میں آپ نے اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوایا۔ امیر عزیمت مولانا حق نواز جھنگوی کی شہادت کے بعد اگرچہ مولانا محمد اعظم طارق کو مرکزی ڈپٹی سیکرٹری منتخب کرلیا گیا تھا، تاہم ان کی تنظیمی سرگرمیوں کا مرکز و محور کراچی ہی رہا۔
10جنوری 1991ء کو سپاہِ صحابہ کے نائب سربراہ اور ایم این اے مولانا ایثار القاسمی کو جھنگ میں شہیدکردیا گیا، ان کی جانشینی کے لئے 20جنوری 1991ء کو جامعہ فرقانیہ کوہاٹی بازار راولپنڈی میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مولانا محمد اعظم طارق اور علامہ علی شیر حیدری کا نام سامنے آیا، دونوں حضرات نے اپنا اپنا ووٹ ایک دوسرے کے حق میں استعمال کیا،تاہم قرعہ انتخاب ’’جبل استقامت‘‘ کے حق میں نکل آیا۔ مولانامحمد اعظم طارق نے ساتھ ہی یہ شرط عائد کردی کہ مجھے کراچی چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ لیکن بعد کے حالات اور جھنگ کے احباب کی محبت نے کراچی چھوڑنے پر مجبور کردیا اور یوں پھر جھنگ کے ہوکر ہی رہ گئے!
مولانا محمد اعظم طارق نے 4مارچ 1992ء میں قومی و صوبائی اسمبلی جھنگ کا الیکشن حکومتی پریشر اور سرکاری وزرأ کی جھنگ میں آمد کے باوجود بڑی آسانی سے جیت کر دنیائے رافضیت کو حیران کردیا۔ قومی اسمبلی میں آپ کی پہلی تقریر اس قدر پُرجوش اور مؤثر تھی کہ ارکانِ اسمبلی ایک ایک جملے پر ڈیسک بجارہے تھے جبکہ حکومتی وزرأ انگشتِ بدنداں رہ گئے!
مولانا محمد اعظم طارق کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ آپ ک شب و روز مشن تحفظ ناموسِ صحابہ کے لئے وقف تھے۔ مصائب و آلام کی وادیاں ان کے عزمِ مصمم کے سامنے گردِ سفر تھیں۔ جو لوگ مولانا محمد اعظم طارق کے ساتھ محو سفر رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ آپ کس قدر تکمیل مشن کے لئے بے تاب تھے۔ ان کا جرم بس یہی تھا کہ وہ صحابہ کرام کے سچّے سپاہی تھے۔ اس جرم کی پاداش میں سالہا سال پس دیوارِ زنداں رہنا پڑا، دشمنانِ صحابہ نے آپ پر قاتلانہ حملوں کی انتہا کردی لیکن آپ کے موقف میں رتی برابر فرق نہ آیا۔ آپ صحابہ کرام کے دشمنوں کو للکارتے، جھاڑتے، لتاڑتے، شیروں کی طرح گرجتے، برستے، بجلی کی طرح دشمنوں پر کڑکتے ہوئے آقائے نامدار حضرت محمدمصطفی کی مقدس، مطہر اور پاکیزہ جماعت صحابہ کرامؓ کا دفاع کرتے ہوئے شہادت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز ہوگئے