فتح مکہ کے بعد جب حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ چلے آئے تو مسجد نبوی کے پاس حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا گھر بنایا گیا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کے صحن کی طرف تھا جس کو خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصب کرایا تھا جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ارادہ کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی وہ جگہ جو مسجد کے ساتھ ہی ہے اس کو بھی مسجد نبوی میں داخل کیا جائے اور اسی خیال سے انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے پرنالہ کو جو مسجد میں گرتا تھا ان کی اجازت کے بغیر نکال ڈالا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو اس سے رنج اور صدمہ پہنچا اس جھگڑے کے فیصلہ کے لئے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کو جج مقرر کیا گیا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے دونوں کو اپنے مکان پر بلوایا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے ایک خط کھینچا تھا وہیں میں نے اپنا مکان بنایا اور وہ پرنالہ جس کو عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے توڑ ڈالا ہے یہ وہ پرنالہ ہے جس کو میں نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک کندھوں پر کھڑے ہو کر قائم کیا تھا اب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو گرادیا ہے اور میرے مکان کو مسجد میں داخل کرنا چاہئتے ہیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا مجھ کو اسی طرح کا ایک واقعہ معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت داؤد علیہ السلام نے جب بیت المقدس بنانے کا ارادہ فرمایا تو اس جگہ دویتیموں کا ایک گھر تھا حضرت داؤد علیہ السلام نے وہ گھر خریدنا چاہا مگر دونوں نے بیچنے سے انکار کردیا آخر ان پر دباؤ بھی ڈالا گیا اور زیادہ قیمت کا لالچ بھی دیا گیا لڑکے راضی ہوگئے مگر اس قدر زیادہ مانگتے تھا کہ حضرت داؤد علیہ السلام زیادہ سمجھ کر کوئی فیصلہ نہ کر سکتے تھے آخر اللہ تعالی نے وحی بھیجی کہ جو قیمت تم ان کو دیتے ہو اگر وہ ایسی چیز ہے کہ تم اس کا مالک اپنے آپ کو سمجھ رہے ہو تو خیر تمہاری مرضی اور اگر وہ قیمت اور وہ چیز ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہے تو ان کو اس قدر دو کہ وہ راضی ہوجائیں تاکہ جو ہمارے نام کا گھر ہے وہ ہر قسم کے تشدد ظلم جبرو ناانصافی سے بالا تر ہو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ تقریر سن کر کہا کوئی اور بھی ہے جو یہ بتلائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی ارشاد فرمایا تھا جیسا کہ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ابی بن کعب رضی اللہ تعالہ عبنہ نے انصار کی ایک جماعت کو بلوایا اور جب انہوں نے تصدیق کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا خدا کی قسم تمہارا پرنالہ جس مقام سے میں نے گرایا تھا اسی جگہ قائم کروں گا اور اس طرح کہ تمہارے دونوں قدم میرے کاندھوں پر ہوں گے چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کاندھوں پر چڑھ کر اس پرنالہ کو بدستور اپنی جگہ قائم کیا پرنالہ جب قائم ہوگیا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا چوں کے ثابت ہو چکا ہے کہ پرنالہ میرا ہی ہے اس لئے اب میں اپنی خوشی سے نہ صرف پرنالہ دوبارہ گرادیتا ہو بلکہ سارا مکان بھی اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اس اجازت کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس مکان کو مسجد نبوی میں داخل کرلیا
(سیرت العباس۔1(119۔۔120۔۔121۔۔
اسلام کے پہلے دور میں اس قسم کی مثالیں جابجا قائم تھیں جس کا نتیجہ یہ تھا کہ امن وامان عام تھا جب سے بے انصافی اور بے ایمانی عام ہوئی تو معاشرہ میں خوف ودہشت نے ڈیرہ جمالیا قوت اور طاقت نے کمزوروں اور ناداروں کا جینا مشکل کردیا ہے اللہ تعالی پھر سے انصاف کا دور دورہ فرمائے اور ہمیں تمام حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین
(سیرت العباس۔1(119۔۔120۔۔121۔۔
اسلام کے پہلے دور میں اس قسم کی مثالیں جابجا قائم تھیں جس کا نتیجہ یہ تھا کہ امن وامان عام تھا جب سے بے انصافی اور بے ایمانی عام ہوئی تو معاشرہ میں خوف ودہشت نے ڈیرہ جمالیا قوت اور طاقت نے کمزوروں اور ناداروں کا جینا مشکل کردیا ہے اللہ تعالی پھر سے انصاف کا دور دورہ فرمائے اور ہمیں تمام حق داروں کو ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین