نام ونسب: ۔نام ، احمد ۔کنیت ، ابو جعفر ۔والد کا نام ، محمد ہے ۔سلسلہ نسب یوں ہے ۔ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبد الملک بن سلمہ بن سلیم بن سلیمان بن جواب ازدی حجری
نسبت :طحاوی مصری حنفی ۔
ازد یمن کا ایک طویل الذیل قبیلہ ہے اور حجر اسکی ایک شاخ ہے ۔حجر نام کے تین قبائل تھے ۔ حجر بن وحید ۔حجر ذی اعین ۔حجر ازد ۔اور ازد نام کے بھی دو قبیلے تھے ، ازدحجر ۔ازد شنو ہ ۔ لہذا امتیاز کیلئے آپکے نام کے ساتھ دونوں ذکر کر کے ازدی حجری کہا جاتا ہے ۔آپکے آبا واجداد فتح اسلام کے بعد مصر میں فروکش ہوگئے تھے لہذا آپ مصر ی کہلائے ۔
ولادت وتعلیم وتربیت:امام طحاوی کی پیدائش کب ہوئی اس بارے میں کئی قول ہیں لیکن حافظ عبدالقادرقرشی نے الجواہرالمنیفہ میں خود امام طحاوی کاقول نقل کیاہے ''ابوسعید بن یونس نے کہامجھ سے امام طحاوی نے بیان کیا کہ ''میری پیدائش 239ہجری میں ہوئی''۔امام طحاوی کی پیدائش کے بارے میں ابن عساکر نے پوری تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھاہے جب کہ اس کے مقابل دوسرامشہور قول یہ ہے کہ امام طحاوی کی ولادت 229ہجری کو ہوئی ہے اوراس کی جانب اپنارجحان امام زاہد الکوثری نے الحاوی فی سیرة الطحاوی میں ظاہر کیاہے۔
تعلیم وتربیت:امام طحاوی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔خود امام طحاوی کے والد ادب وشاعری میں ممتاز مقام رکھتے تھے اوران کی والدہ جوامام مزنی کی ہمشیرہ تھیں وہ خود بھی بڑی فقیہہ اورعالمہ تھیں امام سیوطی نے ان کا ذکر مصر کے شافعی فقہاء میں کیاہے۔ایسے علمی گھرانے میں آنکھیں کھولنے والابچہ اگرآگے چل کرنامور محدیث ومجتہد بنے تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔امام طحاوی نے فطری طورپر ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی اوریہ ہونابھی چاہئے کہ کیونکہ جب گھر میں کنواں موجود ہوتوباہر سے پانی لانے کے تکلف کی کیاضرورت !
ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کرنے کے علاوہ امام طحاوی امام ابوزکریا یحیی بن محمد بن عمروس سے مزید تعلیم حاصل کی انہی کے پاس قرآن حفظ کیا ۔امام مزنی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے فقہاء شافعیہ میں ان کا بڑامقام ومرتبہ ہے اوریہ کہاجائے توبے جانہ ہوگا کہ امام شافعی کے بعد ان کی علمی وراثت اورجانشینی انہی کے سپرد ہوئی تھی اورامام شافعی کے تلامذہ میں ان کا ممتاز مقام تھا۔امام طحاوی نے فقہ اورحدیث کی تحصیل امام مزنی سے کی۔امام طحاوی امام مزنی کے حلقہ درس سے کتنے عرصہ وابستہ رہے کتب تراجم میں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی لیکن اتناضرور ہے کہ امام مزنی کے حلقہ درس کو جب انہوں نے چھوڑاتو اس وقت وہ بالغ نظرعالم اورصحیح وسقیم میں امتیاز حاصل کرچکے تھے
عموماًعلمائے اسلام کا طریقہ کار رہاہے کہ انہوں نے حصول علم کی خاطر اسفار کئے ہیں لیکن علماء اسلام میں بعض ایسے بھی ملتے ہیں کہ وہ مجمع علماء میں پیداہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ سفر کے تگ ودو اور علمی اسفار کی ضرورت پیش نہیں آئی۔انہی میں سے ایک امام طحاوی بھی ہیں۔ علمی گھرانے میں پیداہوئے ۔امام مزنی ان کے ماموں تھے اس کے علاوہ مصر اس وقت اجلہ علماء کا مرکز تھا لہذا اس کی ضرورت نہ تھی کہ وہ دیگر علماء سے جاکر تحصیل علم کریں ہاں جو محدثین واجلہ علماء مصرآتے تھے ان سے ضرور تحصیل علم کرتے تھے۔اس کے باوجود امام طحاوی کاطرز یہ تھا کہ وہ جہاں کہیں گئے وہاں کے علماء سے استفادہ کیا چنانچہ امام طحاوی جب شام ،بیت المقدس ،عسقلان وغیرہ گئے توانہوں نے اس سفر کے ذریعہ وہاں کے علماء سے استفادہ کیا اوربطور خاص شام میں انہوں نے قاضی القضاۃ ابوحازم سے استفادہ کیااوران سے فقہ وحدیث دونوں حاصل کیا۔
شافعی سے حنفی ہونے کی وجہ
اس سلسلے میں بہت سے لوگوں نے رنگ آمیزی کی ہے اوررائی کو پربت بنانے کی کوشش کی ہے۔امام طحاوی کی سیرت پر امام زاہد الکوثری نے ایک کتاب لکھی ہے۔''الحاوی فی سیرۃ الطحاوی''اس کتاب میں انہوں نے کئی اقوال نقل کرکے ان پرتنقید کی ہے اورآخر میں یہ رائے اختیار کی ہے کہ امام مزنی خود بھی امام ابوحنیفہ اوران کے اجلہ تلامذہ امام ابویوسف وامام محمد کی کتابیں زیر مطالعہ رکھتے تھے اوراستفادہ کرتے تھے اوریہی ان کے شافعی سے حنفی ہونے کی وجہ بنی۔لیکن یہ کوئی قوی وجہ نہیں ہے آخرامام شافعی بھی امام محمد کی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے اورویسے بھی علم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کوئی بھی کسی کی بھی کتاب سے استفادہ کرسکتاہے۔میرے خیال میں تواس مسئلہ کا قول فیصل یہ ہے جوخود امام طحاوی سے منقول ہے کہ
قال ابوسلیمان بن زبر قال لی الطحاوی :اول من کتبت عنہ الحدیث المزنی ،واخذت بقول الشافعی فلماکان بعد سنین قدم احمد بن ابی عمران قاضیاعلی مصر فصحبتہ واخذت بقولہ(سیراعلام النبلاء جلد 15/29،تحقیق شعیب الارنؤط ،ابراہیم الزیبیق)
سلیمان بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے امام طحاوی نے بیان کیا میں نے اولاًامام مزنی سے حدیثیں لکھی اورامام شافعی کے قول کو اختیار کیاچند سالوں کے بعد جب احمد بن ابی عمران قاضی بن کر مصرآئے تو میں ان کی شاگردی اختیار کی اوران کے قول کو اختیار کیا۔امام طحاوی کا یہ اعتراف بتارہاہے کہ ان کا شافعیت سے حنفیت کی جانب انتقال کسی جذباتی فیصلہ کاردعمل نہ تھا بلکہ تحقیق اورتدقیق سے اٹھایاگیاقدم تھا۔پہلے خاندانی اثرات اورمصر کے ماحول کے تحت شافعی مسلک اختیار کیا لیکن جب وہاں قاضی ابوعمران آئے اوران کے ساتھ رہ کرآپ نے احناف کے اصول ودلائل کو سمجھاتوآپ کو یہ زیادہ مناسب اوربہترلگااورآپ نے اس کو اختیار کیا۔
امام طحاوی کے شیوخ واساتذہ:
امام طحاوی کے شیوخ واساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جیساکہ حافط عبدالقادرالقرشی نے لکھاہے کہ امام طحاوی کے شیوخ واساتذہ پر ایک مستقل جزء کچھ لوگوں نے لکھاہے۔ لیکن جن لوگوں سے امام طحاوی نے بطور خاص حدیث کی تحصیل کی ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں ہے۔
ابراہیم بن ابی دائود سلیمان بن دائود الاسدی ،احمد بن شعیب بن علی النسائی صاحب السنن ،احمد بن ابی عمران القاضی،اسحاق بن ابراہیم بن یونس البغدادی،اسماعلی بن یحیی المزنی ،بحربن نصر بن سابق الخولانی،بکار بن قیبہ بن البصری القاضی،یونس بن عبدالاعلی الصدفی۔اس کے علاوہ بھی ان کے شیوخ کی ایک طویل فہرست ہے جس کا ذکر کرنایہاں تطویل سے خالی نہ ہوگا۔اہل علم مزید معلومات کیلئے الحاوی فی سیرۃالطحاوی للکوثری،اورنخب الافکار للعینی وغیرہ کی جانب رجوع کرسکتے ہیں۔
شاگرد وتلامذہ:
انسان ایک زمانہ میں طالب علم ہوتاہے اوروقت گزرنے کے ساتھ اس کے جوہر کھلتے چلے جاتے ہیں اورتشنگان علم پروانہ وارہجوم کرکے اسی سے فیضیاب ہوتے ہیں یہ طریقہ ابتدائے دور سے ہی چلاآرہاہے۔ امام طحاوی کی علمی شہرت جب دور دور تک پھیل گئی توپھر تشنگان علم اورعلم حدیث وفقہ کے شائقین نے دوردراز سے آپ کی جانب رجوع کیااورآپ کی شاگردی اختیار کی۔
امام طحاوی کے شاگردوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے اوراس کو بھی ایک مستقل جزء میں چند حضرات نے جمعہ کیاہیجیساکہ حافظ عبدالقادرالقرشی نے الجواہر المضیئہ میں کہاہے ان کے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست یہاں ذکر کرنامضمون کی طوالت کا موجب ہوگااس لئے اسے نظراندازکرتے ہوئے چند اسماء ذکر کئے جاتے ہیں۔
احمد بن ابراہیم بن حماد
احمد بن محمد بن منصور الانصاری الدامغانی
عبدالرحمن بن احمد بن یونس المورخ
سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی ابوالقاسم صاحب المعاجم
عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی ابواحمد صاحب کتاب الکامل فی الجرح والتعدیل
علی بن احمد الطحاوی
عبیداللہ بن علی الدائودی ابوالقاسم شیخ اہل الظاہر فی عصرہ،محمد بن عبداللہ بن احمد بن زبر ابوسلیمان الحافظ
محمد بن جعفربن الحسین البغدادی المعروف بغندرالحافظ المفید
قہ وحدیث میں مقام ومرتبہ :
ابن یونس تاریخ العلماء المصریین میں کہتے ہیں''کان الطحاوی ثقۃ ثبتا فقیھا عاقلالم یخلف مثلہ''
ابن عبدالبر کہتے ہیں ''کان من اعلم الناس بسیرالکوفیین واخبارھم وفقھھم مع مشارکتہ فی جمیع مذاہب الفقہائ''وہ کوفہ کے مجہتدین اوراہل علم کی سیرت اوران کے حالات اوران کی اجتہادی آراء سے سب سے زیادہ واقف تھے اسی کے ساتھ ساتھ ان کو تمام مذاہب کے فقہاء اوران کی اجتہادی آراء سے بھی گہری واقفیت تھی۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔''الامام العلامۃ الحافظ الکبیر ،محدث الدیار المصریہ وفقیہھہ،''امام ،علامہ،بڑے حافظ،مصر کے محدث اورفقیہہ تھے۔
ابن تغری بردی کہتے ہیں۔
''امام عصرہ بلامدافعۃ فی الفقہ والحدیث واختلاف العلماء والاحکام واللغۃ والنحو،وصنف المصنفات الحسان''
بغیرکسی قیل وقال کے اپنے زمانہ کے فقہ،حدیث،علماء کے اختلاف،احکام ،لغت اورنحو کے امام تھے اوران کی اچھی تصنیفات ہیں۔
حافظ بدرالدین عینی لکھتے ہیں۔
اما الطحاوی فانہ مجمع علیہ فی ثقتہ ودیانتہ وامانتہ وفضلہ التامۃویدہ الطولی فی الحدیث وعللہ وناسخہ ومنسوخہ ولم یخلفہ فی ذلک احد ولقد اثنی علیہ السلف والخلف''
بہرحال امام طحاوی توان کے ثقاہت ،دیانت امانت اورحدیث ،علل ناسخ ومنسوخ میں یدطولی اورفضیلت تامہ پر علماء کا اتفاق ہے۔اوراس بارے میں کوئی ان جیسانہیں ہوا۔اورسبھی نے چاہے وہ ان کے معاصرمحدثین ہویابعد میں آنے والے ان کی تعریف وتوصیف کی ہے۔
حافظ سمانی کہتے ہیں ''کان الطحاوی ثقۃ ثبتاً''طحاوی ثقہ اورثبت تھے۔حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں۔وھواحدالثقات الاثبات والحفاظ الجھابذۃ،طحاوی ثقہ اورثبت محدثین اورنامور حفاظ حدیث میں سے ایک تھے۔
مشہور مورخ الصفدی لکھتے ہیں''کان ثقۃ نبیلاً فقیھا عاقلا لم یخلف بعدہ مثلہ ''وہ ثقہ،معزز،ثبت فقیہہ اورعاقل تھے ان کے بعد ان جیسا(جامع کمالات)کوئی ان کا جانشیں نہیں ہوا''
اب آخر میںحافظ بدرالدین عینی کا ہی ایک قول نقل کرکے اس باب کو ختم کرتاہوں ورنہ ان کے فضائل ومناقب پر توپوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
ولقد اثنی علیہ کل من ذکرہ من اہل الحدیث والتاریخ کالطبرانی وابی بکر الخطیب وابی عبیداللہ الحمیدی والحافظ ابن عساکر وغیرہم من المتقدمین والمتاخرین کالحافظ ابی الحجاج المزی،والحافظ الذہبی وعمادالدین ابن کثیر وغیرہم من اصحاب التصانیف
امام طحاوی کی تعریف وتوصیف محدثیں اورمورخین میں سے ہرایک نے کی ہے جیسے کہ امام طبرانی ،خطیب بغدادی، ابوعبداللہ الحمیدی ،حافظ ابن عساکر اوراس کے علاوہ متقدمین میں سے دوسرے حضرات اورمتاخرین میں سے حافظ مزی،حافظ ذہبی،حافظ ابن کثیراوردوسرے صاحبانِ تصانیف وتالیف
تصنیفات وتالیفات
امام طحاوی کا ان علماء میں شمار ہوتاہے جن کو فطری طورپر تصنیف وتالیف کا ذوق تھایہی وجہ ہے کہ امام طحاوی کی تمام تصنیفات مین ایک خاص طرز،ترتیب اورحسن نظرآتاہے اوریہ ایک ذوق ہے جو فطری طورپر کسی کسی کو ودیعت ہواکرتاہے ورنہ بہت ساری ایسی بھی کتابیں ہوتی ہیں جو ہیں توبیش قیمت لیکن چونکہ اس کے مصنف کے اندر تصنیف وتالیف کاذوق نہیں تھالہذا جب کتاب لکھی تو بہت سارے ابواب ومسائل میں خلط ملط کردیااورقاری بے چارہ حیران ہے کہ یاتو پوری کتاب پڑھے یاپھر پوری کتاب سے ہاتھ دھولے۔
امام طحاوی کی تصنیفات وتالیفات میں کچھ ایسی ہیں جو مطبوعہ یامخطوطہ کی شکل میں موجود ہیں اوربعض ایسی ہیں جو زمانہ کے دست برد سے ضائع ہوگئیں یامفقود الخبرہیں ان کے بارے میں کسی کو تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے مستقبل میں پردہ غیب سے کیاظہور میں آتاہے کس کو خبرہے سوائے ذات واحد ولاشریک کے۔
مطبوعہ یامخطوطہ
احکام القرآن الکریم
یہ کتاب تاحال طبع نہیں ہوئی ہے۔ اس کا ایک مخطوطہ ترکی کے مکتبہ وزیر کبری میں رقم 814میں موجود ہے۔
اختلاف العلماء
یہ بہت بڑی کتاب ہے اورجیساکہ امام طحاوی کے سوانح نگاروں نے ذکر کیاہے یہ کتاب تقریبا 130جلدوں میں ہے مگر افسوس کہ اس کتاب کاکوئی اتاپتہ نہیں ہے اس کتاب کا جواختصار حافظ ابوبکر الجصاص الرازی نے کیاہے وہی دستیاب ہے اس کتاب کا نسخہ مکتبہ جاراللہ ولی الدین استانبول اوردارالکتب المصریہ میں موجود ہے۔
التسویۃ بین حدثناواخبرنا
ایک چھوٹاسارسالہ ہے جس میں علم حدیث کی ایک خاص اصطلاح حدثنااوراخبرنا کے بارے میں بحث کی گئی ہے کئی مرتبہ طبع ہوچکی ہے۔
الجامع الکبیر فی الشروط
اس کتاب کے نسخہ ہیں جو برلین رقم 41-42،قاہرہ اول 3/102،قاہرہ ثانی 456/1اورشہید علی باشا رقم 881-882میں موجود ہے۔یہ کتاب مکمل طورپر ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے مثلا اذکار الحقوق والرہون اورکتاب الشفعہ شائع ہوچکی ہے۔
السنن الماثورہ
یہ امام ابوجعفر الطحاوی کی وہ روایتیں ہیں جوانہوں نے اپنے ماموں امام مزنی سے امام شافعی کے واسطے سے سنی ہیں اس کو سنن شافعی بھی کہاجاتاہے۔حال میں خلیل ابراہیم ملاخاطر کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔
شرح معانی الآثار
یہ امام طحاوی کی سب سے مایہ ناز کتاب ہے جس میں انہوں نے احادیث احکام پر بحث کی ہے۔یہ بھی کئی مرتبہ شائع ہوچکی ہے اوراہل علم کی آنکھوں کا سرمہ ہے۔
صحیح الآثار
یہ کتاب تاحال طبع نہیں ہوسکی ہے لیکن اس کا نسخہ مکتبہ بانتہ میںموجود ہے۔
الشروط الصغیر
عراق کے دیوان الاوقاف احیاء التراث الاسلامی کی جانب سے دکتور روحی اوزجان کی تحقیق سے مطبع العانی سے شائع ہوچکی ہے۔
العقیدۃالطحاویہ
امام طحاوی نے شروع میں بیان کیاہے اس میں وہ عقائد ہین جو امام ابوحنیفہ امام ابویوسف اورامام محمد سے منقول وماثور ہیں۔یہ بھی امام طحاوی کی مایہ ناز کتابوں میں سے ہے اورکئی مرتبہ طبع ہوچکی ہے اوراس کے بہت سارے شروح لکھے گئے ہیں۔
مختصرالطحاوی(الاوسط)
یہ کتاب فقہ میں ہے اور اولا لجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد دکن سے علامہ ابوالوفاء الافغانی کی تحقیق سے شائع ہوئی تھی بعد کو قاہرہ سے مطبع دارالکتاب العربی سے شائع ہوئی اس پر بھی بہت ساری شرحیں لکھی گئی ہیں۔
مشکل الآثار (فی اختلاف الحدیث)ا
س کتاب کے تین مخطوطے پائے ہیں۔ ایک برلین میں دوسرا رامپور میں اورتیسرا مکتبہ فیض اللہ استانبول میں۔یہ کتاب دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد دکن الھند نے شائع کی تھی اوریہ کتاب صرف آدھی شائع ہوئی جوکہ تقریبا چارجلدوں میں ہے ۔اس کے بعد دوبارہ یہ کتاب مشہور محقق علامہ شعیب الارنوئوط کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے جزاہ اللہ خیرا۔اس کا بھی کئی حضرات نے ایک اختصار کیاہے جن میں سے ایک یوسف بن موسی ابوالمحاسن الحنفی ہیں یہ اختصار حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے۔
امام طحاوی کی مفقود کتابیں۔
احکام القِران(اکثرلوگ غلطی یہ کرتے ہیں کہ امام طحاوی کی احکام القرآن اوراحکام القِران دونوں کو ایک یااس کے بجائے اس کو اوراس کے بجائے اس کو سمجھ لیتے ہیں اس کا خیال رہے دونوں الگ الگ کتابیں ہیں۔
اخبارابی حنیفۃ واصحابہ (اومناقب ابی حنیفہ)
کاش یہ کتاب اگر کہیں سے منظرعام پرآئے توامام ابوحنیفہ کے فضائل وکمالات پر ایک عمدہ اوربہترین دستاویز ثابت ہوگی
اختلاف الروایات علی مذہب الکوفیینکتاب الاشربۃ
التاریخ الکبیر (عجیب ماجرا ہے کہ یہ کتاب جوکہ تاریخ میں لکھی گئی تھی وہ بھی مفقود الخبر ہے لیکن اس کتاب سے اس ن کے شاگرد اورمورخ ابن یونس نے بہت استفادہ کیاہے اورجگہ جگہ اس کاحوالہ بھی دیاہے۔
الحکایات والنوادر،حکم ارض مکہ،الردعلی ابی عبید فیمااخطاء فیہ فی کتاب النسب،الرد علی الکرابیسی (نقض کتاب المدلسین علی الکرابیسی)،الرد علی عیسی بن ابان(خطاءالکتب،الرزیۃ،شرح الجامع الصغیر،شرح الجامع الکبیر،الشروط الاوسط،الشروط الکبیر ،الفرائض،قسم الفی والغنائم ،المختصرالکبیر،المختصرالص غیر،النحل واحکامھا وصفاتھا واجناسھا وماورد فیہا من خبر،النوادرالفقیھۃ،الوصای ا
مام طحاوی پر اعتراضات :
امام طحاوی پرکچھ محدثین نے اپنے فہم اورمعلومات کے بقدر اعتراض کیاہے اوریہ تقریباہرایک کے ساتھ ہواہے۔امام بخاری پر خلق قرآن کا الزام لگا،دوجلیل القدر محدثین نے ان کو متروک قراردیا،مسلمہ بن قاسم نے ان پر ابن مدینی کے کتاب العلل کے سرقہ اورچوری کاالزام لگایا۔لیکن یہ وقت اورزمانہ ہے جو ان سب شکوک وشبہات کے پردے پھاڑ کر اصل حقیقت سامنے لے آتی ہے۔ہم اس بحث میں امام طحاوی پر کئے جانے والے اعتراض کا پرکھیں گے اورجانچیں گے کہ یہ یہ اعتراض کچھ وزنی بھی ہیں یاپادرہواہیں۔
تعصب:
امام طحاوی پرکئے جانے والے اعتراض میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے احناف کے لئے تعصب سے کام لیاہے اوراس کیلئے حدیث میں خواہ مخواہ تاویلیں کی ہیں اورصحیح حدیث کو ضعیف اورضعیف حدیث کو محض قراردیاہے محض مسلک احناف کی تائید کیلئے۔
یہ الزام میرے محدود علم میں سب سے پہلے حافظ بیہقی نے لگایاانہوں نے کہا
حین شرعت فی کتابی ھذا جاء نی شخص میں اصحابی بکتاب لابی جعفر الطحاوی ،فکم من حدیث ضعیف فیہ صححہ لاجل رایہ وکم من حدیث صحیح ضعفہ لاجل رایہ ''جب میں نے اپنی کتاب شروع کرنے کاارادہ کیاتوایک شخص میرے شاگردوں میں سے ابوجعفرالطحاوی کی کتاب لایا(جب میں نے اسے دیکھاتوپایا)کہ کتنی ہی ضعیف حدیثیں ہیں جس کو اس نے صحیح قراردیاہے اورکتنی ہی صحیح حدیثیں جس کو اس نے ضعیف قراردیامحض اپنی رائے کے اثبات کیلئے۔
حافظ بیہقی کی تنقید کابہترجواب حافظ عبدالقادرالقرشی الحنفی الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنیفہ کے مولف نے بہترطورپر دیاہے مناسب ہے کہ اسے یہاں نقل کیاجائے۔حافظ عبدالقادرالقرشی لکھتے ہیں۔
''خدا کی پناہ اس بات سے کہ امام طحاوی ایساکریں۔ بیہقی نے جس کتاب کی جانب اشارہ کیاہے وہ شرح معانی الآثار ہے اس کے بعد انہوں نے بیان کیاہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شیخ حافظ علاء الدین ابن الترکمانی الماردینی کے حکم پر شرح معانی لآثار کی احادیث کی تخریج کی ہے اس کے بعد کہاخدا کی قسم میں نے اس کتاب میں ایساکچھ نہیں پایا جس کا بہیقی نے ذکر کیاہے اوربیہقی کے اعتراض پر ہمارے شیخ نے توجہ کی اوربیہقی کی کتاب السنن الکبیر پر ایک عظیم کتاب لکھی اوراس میں واضح کیاکہ بیہقی نے امام طحاوی پر جواعتراض کیاہے اس کے وہ خود مرتکب ہوئے بایں طور کہ ایک حدیث ذکر کرتے ہیں جو ان کے مسلک کی مستدل ہوتی ہے اوراس کی سند میں کوئی ضعیف راوی ہوتاہے تواس کی توثیق کرتے ہیں اورایک حدیث جوہماری مسلک کی مستدل ہوتی اس میں اسی راوی جس کی وہ توثیق کرچکے ہیں اس کی تضعیف کرتے ہیں اوریہ بیشتر جگہ پر ہے اوراس عمل کے درمیان یعنی ایک ہی راوی کی توثیق اورتضعیف کے درمیان صرف دویاتین ورق کا فاصلہ ہوتاہے یہ کتاب لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے اگراس بارے میں کسی کو شک ہے تووہ یہ کتاب دیکھ کر اپنے شک کو دور کرسکتاہیے ہمارے شیخ کی یہ کتاب بہت عظیم ہے اگرپہلے کے حفاظ نے اسے دیکھاہوتاتویقیناان کی زبان چوم لیتے۔۔۔۔امام قرشی کہتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ امام شافعی کا ہرایک پر احسان ہے اوربیہقی کا امام شافعی پر احسان ہے جس شخص نے بھی یہ مقولہ کہاہے خدا کی قسم اسے امام شافعی کے علوم ان کی عظمت کا کچھ بھی پتہ نہیں۔(الجواہر المضیئہ431)
نائب شیخ الاسلام ترکی شیخ زاہد الکوثری فرماتے ہیں اگرچہ حافظ بیہقی نے یہ امام طحاوی پر یہ طعن کرکے خود کو نقصان پہنچا لیکن اس سے ایک گونہ فائدہ بھی ہواکہ اس کی وجہ سے حافظ علاء الدین ابن الترکمانی کی یہ عظیم کتاب وجود میں آئی ہے جو انتہائی نافع ہے۔
اسی قسم کاایک الزام مسلمہ بن قاسم القرطبی نے لگایاچنانچہ انہوں نے اپنی کتاب ''الصلۃ''میں امام طحاوی کے بارے میں لکھا
''کان ثقۃ جلیل القدر ،فقیہ البدن،عالماباختلاف العلمائ،بصیراًبالتصنیف،وک ان یذھب مذھب ابی حنیفۃ وکان شدید العصبیۃ فیہ،وقال عنہ ابوبکر محمد بن معاویہ بن الاحمر القرشی''وکان یذھب مذھب ابی حنیفہ لایری حقافی خلافہطحاوی حدیث میں جلیل القدر،فقہ فقیہ النفس،علماء کے اختلاف سے آگاہ،تصنیف کے طرزواداسے آشناتھے۔اوروہ ابوحنیفہ کے مذہب کی جانب مائل تھے اوراس میں سخت متعصب تھے۔ابوبکر محمد بن معاویہ بن الاحمرالقرشی نے کہاکہ وہ ابوحنیفہ کے مذہب کی جانب مائل تھے اوراس کے خلاف حق سمجھتے ہی نہیں تھے۔
مسلمہ بن قاسم القرطبی نے بھی امام طحاوی پر تعصب کا الزام لگایاہے لیکن افسوس کہ خود ان کی ذات معرض تنقید ہے اورحافظ حاذہبی نے سیراعلام النبلاء میں جوان کا تذکرہ لکھاہے اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ اس لائق نہیں کہ ان کی تنقید پر کچھ بھی توجہ دی جائے۔ یہی مسلمہ بن قاسم ہیں جنہوں نے امام بخاری پر بھی الزام لگایاہے کہ انہوں نے علی بن مدینی کی کتاب العلل چرائی تھی اوراس سے اپنی کتاب الصحیح تیار کی ہے جیساکہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں امام بخاری کے ترجمہ میں لکھاہے ۔
جہاں تک ابن احمر کی تنقید کاسوال ہے تواس کی غلطی ہراس شخص پر ظاہر ہوجائے گی جس نے امام طحاوی کی تصنیفات کاکچھ بھی مطالعہ کررکھاہو۔ابن احمرکایہ کہناکہ امام طحاوی مسلک احنا ف کے خلاف حق سمجھتے ہی نہیں تھے صراحتا اوربداہتاًغلط ہے۔
جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جس شخص نے بھی امام طحاوی کی کتابوں کادقت نظر اورگہرائی کے ساتھ مطالعہ کیاہوگا وہ جانتاہے کہ امام طحاوی نے کتنے مقامات امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ احناف کی مخالفت کی ہے۔اورجہاں بھی جوبھی قول اختیار کیاہے تو وہ اپنے اجتہاد کی بدولت نہ کسی کے تعصب میں اورنہ کسی کی تقلید میں ۔
خود امام طحاوی نے ایک مرتبہ قاضی ابوعبید سے جب بحث کررہے تھے دوران بحث امام طحاوی نے کچھ کہاتو قاضی ابوعبید نے کہایہ توامام ابوحنیفہ کا قول نہیں ہے امام طحاوی نے جواب دیا کہ کیاامام ابوحنیفہ نے جوکچھ کہامیں ان تمام کاقائل ہوں۔قاضی ابوعبید نے کہاکہ میں توتمہیں ابوحنیفہ کا مقلد سمجھ رہاتھا امام طحاوی نے جواب دیاکہ تقلید تومتعصب ہی کرتاہے اس پر قاضی ابوعبید نے اضافہ یایاپھرغبی(جاہل)
اس واقعہ میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام طحاوی نے کس طرح سے صاف اورواشگاف الفاظ میں کہاہے کہ تقلید تومتعصبوں کاکام ہے یعنی جولوگ اجتہاد کے لائق ہوکر بھی کسی کی تقلید کریں تویہ صرف کسی کے تعصب میں ہی ہوسکتاہے۔اب اس کے باوجود ان پر مسلک احناف کے تعصب کاالزام لگایاجائے یہ کتنے افسوس اورحیرت کی بات ہے۔
خود امام طحاوی نے شرح معانی الآثار کے مقدمہ میں اس کتاب کے لکھنے کی جووضاحت کی ہے اس سے بھی صاف پتہ چلتاہے کہ انہوں نے اس کتاب میں اپنے اجتہاد پرعمل کیاہے اورجس قول کو کتاب وسنت سے زیادہ قریب دیکھااوراسی کو اختیار کیاہے نہ کہ امام ابوحنیفہ یادیگرائمہ احناف کی تقلید اورتعصب میں۔خود شرح معانی الآثار میں غوروفکرکیاجائے تومتعددمقامات پرانہوں نے ائمہ احناف سے اختلاف کیاہے۔اس کے باوجود ان پر عصبیت کاالزام لگایاجاتاہے۔
کتاب الشروط امام طحاوی کی مفقود کتابوں میں سے ہیں لیکن اس کے کچھ اجزاء دستیاب ہوئے ہیں جوشائع ہوچکے ہیں۔ کتاب الشروط کے مقدمہ میں امام طحاوی واشگاف اورعلی الاعلان لکھتے ہیں۔
قد وضعت ھذاالکتاب علی الاجتہاد منی لاصابۃ ماامراللہ عزوجل بہ من الکتاب بین الناس بالعدل علی ذکرت فی صدرھذاالکتاب مماعلی الکاتب بین الناس وجعلت ذلک اصنافا ،ذکرت فی کل صنف فیہااختلاف الناس فی الحکم فی ذلک ،وفی رسم الکتاب فیہ وبینت حجۃ کل فریق منھم وذکرت ماصح عندی من مذاھبھم وممارسموابہ کتبھم فی ذلک واللہ اسالہ التوفیق فانہ لاحول ولاقوۃ الابہ(مقدمہ کتاب الشروط1/21،بحوالہ مقدمہ مشکل الآثارلشعیب الارنوئوط،ص61)
امام طحاوی نے کتنے صاف اورصریح اندازمیں اعلان کردیاہے کہ وہ جوکچھ بھی لکھیں گے وہ ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی ہوگااوردلائل کی روسے وہ جوبات راجح ہوگی وہ اسی کواختیار کریں گے اوریہ صرف ان کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اس پرعمل بھی کیاہے۔چنانچہ وہ مقامات جہاں جہاں انہوں نے امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ احناف سے الگ اپنی رائے اختیار کی ہے اس کیلئے اسی کتاب کے درج ذیل صفحات کو دیکھئے
کتاب الشروط2/189،2/214-215،2/259،2/262-264،3/131-132،4/202،4/233-236اور4/301-303۔
امام طحاوی شاگرد ہیں قاضی ابوخازم کے اور وہیں شاگرد ہیں امام عیسی بن ابان کے اور اور شاگرد ہیں امام محمد کے۔اس طرح دیکھاجائے تو عیسیٰ بن ابان امام طحاوی کے استاد کے استاد ہیں ۔لیکن جب انہوں نے عیسی ابن ابان کے رد میں خود ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا''الرد علی عیسی بن ابان''امام طحاوی نے حق کی وضاحت کی خاطر اپنے شیخ کے شیخ پر رد کرنے سے گریز نہیں کیالیکن اس کے باوجود بھی اگرکوئی امام طحاوی پر مسلک احناف کے حق میں تعصب کاالزام لگاتاہے تواس پر سوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے جیساکہ ایک عربی شاعر نے کہاہے
ولیس یصح فی الاذہان شی ء
اذااحتاج النہارالی دلیل
یاجیساکہ شیخ سعدی نے کہاہے
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
قرص آفتاب راچہ گناہ
علم حدیث میں عدم رسوخ
یہ الزام بھی اولاامام طحاوی پر حافظ بیہقی نے ہی لگایاہے چنانچہ وہ وہ کہتے ہیں
ان علم الحدیث لم یکن من صناعۃ ابی جعفر،وانمااخذ الکلمۃ بعد الکلمۃ من اھلہ ،ثم لم یحکمھا ویتھمہ بتسویۃ الاخبار علی مذہبہ ،وتضعیف مالاحیلۃ لہ فیہ بما لایضعف بہ،والاحتجاج بماہوضعیف عندہ غیرہ(معرفۃ السنن ولآثار1/353)
علم حدیث ابوجعفر(امام طحاوی) کا فن نہیں تھاانہوں نے یکے بعد دیگر محدثین سے کچھ حدیثیں سن رکھی تھیں پھراس فن میں وہ پختہ نہیں ہوئے ۔
اس کتاب میں دیکھاجاسکتاہے کہ حافظ بیہقی نے امام طحاوی پر کتناسخت اورسنگین الزام لگایاہے اورکس طرح انہوں نے امام طحاوی کو محدثین کی صف سے ہی نکال کو فن حدیث مبتدیوں کی صف میں لاکھڑاکردیاہے۔
اسی قسم کا الزام لیکن نسبتاً ہلکا ابن تیمیہ نے لگایاہے ۔ابن تیمیہ کاالزام ذکر کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس الزام کا پس منظربیان کردیاجائے۔ ایک شیعہ عالم ابن مطہر نے حضرت علی کے فضائل ومناقب پر ایک کتاب لکھی اوراپنی اوراپنی جماعت کے طرز پر دیگر صحابہ کرام کو طعن وتنقید کا نشانہ بنایااس کے دفاع میں ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی جس میں ابن مطہر پر رد کیا۔دوران بحث ایک حدیث ردشمس والی آئی ،اس حدیث کی امام طحاوی نے تصحیح کی ہے اورکہاہے کہ یہ حدیث صحیح یاحسن ہے۔اس پر ابن تیمیہ نے امام طحاوی کے بارے میں کہا
''لیست عادتہ نقد الحدیث کنقد اہل العلم ،ولہذا روی فی شرح معانی الآثار الاحادیث المختلفہ،وانما رجح مایرجحہ منہا فی الغالب من جہۃ القیاس الذی رآہ حجۃ ویکون اکثر ہ مجروحا من جہۃ الاسناد ولایثبت فا نہ لم یکن لہ معرفۃبالاسناد کمعرفۃ اہل العلم بہ وان کان کثیرالحد یث فقہیاعالما''
ان کی عادت (طحاوی )کی عادت نقد حدیث میں محدثین کے نقد کی طرح نہیں ہے اوراسی وجہ شرح معانی الآثار میں مختلف احادیث کی روایت کرکے ایک دوسرے پر محض قیاس کی بناء پر ترجیح دیا اورجس حدیث کو وہ دیگر احادیث پر ترجیح دیتے ہیں وہ سند کے اعتبار سے اکثرمجروح ہوتی ہے اورثابت نہیں ہوتی ہے اورطحاوی کواسناد کی معرفت محدثین کے طرز پر نہیں تھی اگرچہ وہ فی نفسہ کثیرالحدیث اورفقیہہ ہیں۔
حافظ بیہقی اورابن تیمیہ کی اس نقد کاجواب تویہ ہے کہ جب دیگر محدثین عظام نے عام طورپر انہیں بلندپایہ محدث تسلیم کیاہے توپھرایک دوحضرات کے شذوذ اوررائے عام سے ہٹ کر الگ رائے رکھنے سے کیاہوتاہے ؟
اس بارے میں محدثین کی تصریحات ایک بار پھر بیان کرتاہوں
ابن تغری بردی کہتے ہیں۔
''امام عصرہ بلامدافعۃ فی الفقہ والحدیث واختلاف العلماء والاحکام واللغۃ والنحو،وصنف المصنفات الحسان''
''الامام العلامۃ الحافظ الکبیر ،محدث الدیار المصریہ وفقیہھہ،''امام ،علامہ،بڑے حافظ،مصر کے محدث اورفقیہہ تھے۔
حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں۔وھواحدالثقات الاثبات والحفاظ الجھابذۃ،طحاوی ثقہ اورثبت محدثین اورنامور حفاظ حدیث میں سے ایک تھے۔
حافظ ابن حجر (انباء الغمر1/62)میں ابن رافع السلامی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔والانصاف ابن رافع اقرب الی وصف الحفظ علی طریقۃاہل الحدیث من ابن کثیر لعنایتہ بالعوالی والاجزاء والوفیات والمسموعات،دون ابن کثیر،وابن اکثیر اقرب الی الوصف بالحفظ علی طریقۃ الفقہاء لمعرفتہ بالمتون الفقیھیۃوالتفسیریۃ دون ابن رافع،فیجمع منھما حافظ کامل ،وقل من جمعھمابعد اہل العصرالاول کابن خزیمۃ ،والطحاوی
اس کے علاوہ اوربھی دیگر علماء کے امام طحاوی کی تعریف وتوصیف میں بیانات ہیں لیکن میں اس کو چھوڑ کر آگے بڑھتاہوں کیونکہ حافظ بیہقی کا یہ الزام اتناغلط ہے کہ اس پر کسی توجہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ علم حدیث میں امام طحاوی جلالت شان مسلم ہے جیساکہ ان کی تصنیفات بذات خود اس پر شاہد عدل ہیں اوردیگر محدثین ومورخین کے بیانات اس حقیقت اورزیادہ واضح کرتے ہیں۔
ابن تیمیہ نے امام طحاوی پر جواعتراض کیاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ فی نفسہ اگرچہ وہ محدث اورفقیہہ ہیں لیکن حدیث کے علل واسناد پر ان کی نگاہ کمزور ہے ۔ابن تیمیہ کی طبعیت میں تھوڑاتشدد اورسختی ہے اوراسی کی جانب حافظ ذہبی نے بھی ان الفاظ میں اشارہ کیاہے۔
فانہ کان مع سع علمہ وفرط شجاعتہ وسیلان ذہنہ ،وتعظیمہ لحرمات الدین بشرامن البشر،تعتریہ حد فی البحث وغضب وشطط للخصم،تزرع لہ عداو فی النفوس،(الدررالکامنہ لحافظ ابن حجر1/176)
اسی کے ساتھ ان کی دوسری عادت کو بھی نگاہ میں رکھئے کہ جب وہ کسی کی تردید پر آمادہ ہوتے ہیں توان پر تردید ہی غالب ہوتی ہے۔اوراس ضمن میں بسااوقات وہ حقائق کو بھی نظرانداز کرجاتے ہیں اسی کی طرف حافظ ابن حجر لسان المیزان میں اشارہ کیاہے چنانچہ حافظ ابن حجرکہتے ہیں۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،وکم من مبالغۃ لتوھین کلام الرافضی ادتہ احیانا الی تنقیص علی(لسان المیزان316/6)
اوراسی کی جانب اشارہ کیاہے علامہ انورشاہ کشمیری نے فیض الباری میں ایمان کی بحث میں کہ جب ابن تیمیہ کسی کی تردید کرتے ہیں توان پر رد ہی غالب ہوتاہے۔اس کے علاوہ یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کا ساراغصہ محض اس بات پر ہے کہ امام طحاوی نے ردشمس والی حدیث کی تحسین یاتصحیح کی ہے۔اس میں شک نہیں کہ رد شمس والی حدیث ضعیف ہے لیکن محض ایک یاچند حدیثوں کو دیکھ کر اگرکسی کے بارے میں رائے قائم کرنا صحیح ہوگا توپھرحضرت ابن تیمیہ بھی اس کی زد میں ہوں گے۔
ابن تیمیہ کایہ کہنا کہ امام طحاوی احادیث کے سند اوررواۃ کے احوال جاننے میں کمزورتھے بے بنیاد بات ہے ۔اس کی پہلی دلیل تویہ ہے کہ خود ابن تیمیہ نے ایک مجرد کلام کیاہے اوراس کی کوئی دلیل وشواہد پیش نہیں کئے ۔دوسرے امام طحاوی نے کرابیسی کی رد پر نقض کتاب المدلسین علی الکرابیسی کے نام سے جوکتاب لکھی ہے وہ خود یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ علل حدیث میں امام طحاوی کوکتنا درک اوررسوخ تھا۔ پھرکیایہ بات بجائے خود حیرت کی نہیں کہ امام طحاوی کے اساتذہ میں ایک امام نسائی بھی ہیں اورامام نسائی کی جلالت شان یہ ہے کہ ان کے بارے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں علم حدیث میں ان کا مقام ومرتبہ امام مسلم سے زیادہ اوربڑاہے اوران کا شاگرد ایساہو کہ اسے حدیث کی اسناد کا پتہ نہ ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امام طحاوی کا فن حدیث اورفقہ دونوں میں مقام ومرتبہ ابن تیمیہ سے بدرجہا بلند ہے اورحضرت ابن تیمیہ نے امام طحاوی پر یہ کلام کرکے خود کو ہی نقصان پہنچایاہے ورنہ جس نے بھی ان کی تصنیفات کا مطالعہ کیاہے وہ جانتاہے کہ علم اسناد میں بھی ان کو کتنا درک اوررسوخ حاصل تھا۔علم حدیث میں امام طحاوی کے مقام ومرتبہ پر دکتور عبدالمجید محمود عبدالمجید نے اپنے(ماجستیر) ایم اے کے مقالہ الامام الطحاوی واثرہ فی الحدیث میں بہت اچھی بحث کی ہے۔اس کتاب کی شیخ شعیب الارنوئوط نے بھی تعریف وتوصیف کی ہے چنانچہ وہ شرح مشکل الآثار کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
ابوجعفرالطحاوی واثرہ فی الحدیث ،الدکتور عبدالمجید محمود وھذاالکتاب من اجود ماکتب عن الامام الطحاوی ،والفصل الذی خصہ بالدفاع عن الامام الطحاوی والرد علی منتقدیہ واثبت فیہ انہ امام فی الحدیث فصل نفیس تلمح من خلال سطورہ العل ۃاللہ خیرالجزاء
جاری ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کیلئے قتل ہوجائے وہ شہید ہے اصل الفاظ ہیں'' من قتل دون مالہ فھو شہید ''امام طحاوی کی کچھ جائیداد تھی جس کو ابن طولون نے غلط طورپر حکومتی تصرف میں لے لیاتھا امام طحاوی نے اس بارے میں ابن طولون سے براہ راست بات کی اوراپنے تمام دلائل سامنے رکھے۔ ابن طولون کوئی جاہل اورناخواندہ نہیں تھا اس بارے میں اس کاجوموقف تھا اس نے بھی کھل کر پیش کیا لیکن امام طحاوی کے دلائل اتنے قوی تھے کہ اس نے آخر میں کہاکہ مجھے یہ تومعلوم ہوگیاہے کہ اس جائیداد میں تمہاراحق ہے لیکن مجھے تم تین دن کی مہلت دو اگراس بیچ کوئی ایسی بات نہ ہوگئی جس میں میراموقف مضبوط ہوتاہوتومیں تمہاری جائیداد واپس کردوں گا۔امام طحاوی اس کے بعد واپس آگئے۔لیکن بعد کی روائید بھی امام طحاوی ہی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ابن طولون نے حاضرین سے کہاکہ ایک شخص جس کی حجت واضح ہوچکی پھراس کا حق لوٹانے میں آنا کانی کیسی’ یہ توبہت بری بات ہوگی۔ اوراپنے موقف کے استدلال میں ایک حدیث بھی پیش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے۔
''ان اللہ لایقدس امۃ لایوخذ الحق لضیعفھا من قویھا(اس حدیث کے بارے میں شعیب الارنوئوط کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے)اورامام طحاوی کوان کے جائیداد کا پروانہ لکھ دیا۔
علماء کاادب واحترام:علماء حق کاادب واحترام ارشاد رسول کے بموجب واجب اورضروری ہے یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی کی زندگی میں علماء کاادب واحترام نمایاں طورپر نظرآتاہے اوراس کی سب سے نمایاں مثال اپنے استاد قاضی ابوخازم کے ساتھ پیش آنے والاواقعہ ہے۔واقعہ یوں ہے کہ جب ابن طولون نے ایک ہاسپٹل بنے کاارادہ کیاتواس نے ہاسپٹل اورمسجد عتیق کیلئے کچھ جائیداد وقف کرنے کاارادہ کیا۔اوراس کیلئے اس نے دمشق کے قاضی ابوخازم کو دستاویز لکھنے کی ہدایت کی۔جب دستاویز تیار ہوکر آگئی تو ابن طولون نے دستاویز اورشروط لکھنے والے علماء کوجمع کیاتاکہ وہ اس میں مزید غوروفکر کرلیںکہ کہیں کوئی اس میں خلل تونہیں رہ گیاہے۔علماء شروط نے دیکھااوراس کو صاد کردیالیکن امام ابوجعفر نے اس کو دیکھا(وہ ان کی نوجوانی کا وقت تھا)انہوں نے فرمایا اس میں غلطی ہے۔علماء شروط نے کہاکہ کیاغلطی ہے بیان کریں،امام طحاوی نے انکارکردیا ۔یہ خبراحمد بن طولون کو پہنچی اس نے امام طحاوی کو بلوایااورکہاکہ اگرتم نے میرے قاصدوں کو غلطی نہیں بتائی تواب مجھے بتائو۔ امام طحاوی نے عرض کیا میں ایسانہیں کرسکتا۔اس نے پوچھا کیوں۔امام طحاوی نے جواب ابوخازم صاحب علم ہیں ہوسکتاہے کہ مجھ کو ہی غلط فہمی ہوئی ہواوردرست بات ابوخازم کی ہی ہو۔ابن طولون کو یہ بات بہت اچھی لگی اوراس نے اجازت دی کہ دمشق جاکر ابوخازم سے براہ راست بات چیت کرلیں۔ جب امام طحاوی ابوخازم کے پا س پہنچے اوراس دستاویز کی غلطی بیان کی توابوخازم نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔امام طحاوی جب لوٹ کر مصر آئے اورابن طولون کے پاس حاضرہوئے اوراس نے پوری روداد دریافت کیا توامام طحاوی نے پردہ پوشی سے کام لیتے ہوئے کہا۔درست بات ابوخازم کی ہی تھی اورمیں نے اپنے سابقہ قول سے رجوع کرلیاہے اوردونوں کے درمیان جوکچھ ہواتھااس پرپردہ ڈال دیا۔یہ بات ابن طولون کو بہت اچھی لگی۔(مقدمہ مشکل الآثار،تحقیق شعیب الارنوئوط ،صفحہ59)
ذراغورکریں بظاہر یہ واقعہ بہت چھوٹا ہے لیکن بباطن بہت بڑاہے۔انسان کاحال تویہ ہے کہ اگراس پر یہ واضح ہوجاتاہے کہ وہ غلط ہے پھر بھی حجتیں اورتاویلیں تلاش کرتاہے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ امام طحاوی کو معلوم ہے کہ ابوخازم سے دستاویز کی شرائط لکھنے میں غلطی ہوئی ہے اس کے باوجود پردہ پوشی کرتے ہیں اوربالمشافہ بات چیت کرتے ہیں اورابوخازم کو بھی اپنی غلطی کااعتراف ہے اس کے باوجود امام طحاوی اس کو اپنی غلطی بناکر ابوخازم کاپردہ رکھتے ہیں۔اس میں کس قدرایثار،للہیت اورخلوص ہے۔
وسعت ظرف :قاضی ابوعبیدکوامام طحاوی نے اپنے کارندوں کاحساب کتاب پرآمادہ کیاجس کی وجہ سے کارندے اوراہلکار بھڑک گئے اورانہوں نے قاضی ابوعبید کو امام طحاوی کے تعلق سے جھوٹی شکایتیں کرکرکے اتنابدظن کیاکہ وہ امام طحاوی کے مخالف ہوگئے لیکن خداکاکرنا ایساہواکہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد قاضی ابوعبید معزول کردیئے گئے ۔امام طحاوی کے صاحبزادے اپنے والد کو قاضی ابوعبید کے معزولی کی خوشخبری دینے آئے توامام طحاوی نے جھڑک دیا اورکہایہ خوشی کانہیں تعزیت کا مقام ہے اب میں علم کی باتیں اورعلمی مذاکرے کس کے ساتھ کروں گا۔
زہد وقناعت:ایک بار امیر مصرتکین الخزرجی امام طحاوی کے پاس آئے اوراتنامتاثرہوئے کہ امیرنے کہاکہ میں اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کردیناچاہتاہوں۔امام طحاوی نے شادی سے انکارکردیا۔ پھراس نے پوچھاکہ کیاآپ کو مال وغیرہ کی ضرورت ہے امام طحاوی نے فرمایا نہیں۔پھراس نے کہاکہ اآپ کہیں تومیں آپ کے نام کوئی جاگیر لکھ دوں۔امام طحاوی نے انکار کردیا۔اس نے کہاکہ توپھرآپ ہی کچھ بیان کریں کہ جس کو میں پوراکروں۔امام طحاوی نے فرمایاکہ کیاتم میری باتوں پر عمل کروگے اس نے اقرارکیاکہ ہاں عمل کروں گا۔امام طحاوی نے فرمایا اپنے دین کی حفاظت کرو،تاکہ وہ تمہارے پاس باقی رہے اورموت سے پہلے پہلے اپنی خلاصی کی کوشش کرو،اوربندگان خداپر ظلم سے گریز کرو،کہاجاتاہے کہ امام طحاوی کی اس نصیحت کے بعد اس نے اہل مصر پر ظلم کرنابند کردیا۔تحفتہ الاحباب بحوالہ الحاوی فی سیرۃ الطحاوی صفحہ 25-26
جامع کمالات:امام طحاوی کی سیرت میں ایک وصف جو نمایاں طورپر نظرآتاہے وہ ان کا جامع کمالات ہونا ہے۔ امام طحاوی مختلف علوم فنون میں مہارت اوررسوخ رکھتے تھے۔ایک طرف اگروہ قرآن کریم کے بلندپایہ مفسر تھے تودوسری طرف وہ حدیث میں عالی مقام محدث تھے اسی کے ساتھ فقہ میں وہ اجتہاد کا مقام رکھتے تھے۔تاریخ نگاری میں بھی ان کا بلند مقام ہے اوربعد کے مورخین نے ان کی التاریخ الکبیر سے بہت استفادہ کیاہے۔ان سب علوم وفنون میں کامل دستگاہ کے ساتھ ساتھ امام طحاوی نحوی،لغوی بھی تھے اورعقل وفہم میں انتہائی ممتاز مقام رکھتے تھے۔اوراس کے ساتھ قضاء کی ذمہ داریاں نبھانا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام علوم وفنون ایسے ہیں کہ اگرایک شخص ہی ان میں سے کسی ایک فن کے حصول میں اپنی زندگی لگادے تو بھی کم ہے چہ جائیکہ مختلف علوم وفنون میں امامت کا درجہ حاصل کرنا۔لیکن جب اللہ کسی پر اپنافضل کرناچاہتاہے تو اس کیلئے تمام دشواریوں کو آسان کردیتاہے۔
کان الطحاوی رحمہ اللہ حافظا لکتاب اللہ ،عارفاباحکامہ ومعانیہ وبمااثر عن الصحابة والتابعین من تفسیر آیة واسباب نزولہ،لہ ثقافة ممتازة بعلم القراء ات ،حافظاللحدیث ،واسع المعرفة بطرقہ ومتونہ،وعللہ،واحوال رجالہ،ذاحظ کبیرمن العلم بلسان العرب،ومواقع کلامھا وسعة لغتھا واستعاراتھا ومجازھا،وعموم لفظ مخاطبتھا وخصوصہ،وسائر مذاھبھا،واسع الاطلاع علی مذاہب الصحابة والتابعین،والائمة الاربعة المتبوعین،وغیرھم من الائمة المجتہدین کابراہیم النخعی،وعثمان البتی،والثوری،واللیث بن سعد،وابن شبرمہ،وابن ابی لیلیٰ،والحسن بن حی،بارعا فی علم الشروط والوثائق،وکانت لہ شخصیة مستقلة فی البحث،لایقلد احدا لافی الاصول ولافی الفروع ،فھو یدور مع الحق الذی اداہ الیہ اجتھادہ،(مقدمہ مشکل الآثار شعیب الارنوئوط ص 56)
نوٹ: یہ مضمون مرتب کیاگیاہے کہ سیر اعلام النبلاء،البدایہ والنھایہ،مقدمہ شرح مشکل الآثارللشیخ شعیب الارنوط،تحفۃ الاخیار بشرح بترتیب شرح مشکل الآثار،مقدمہ مختصر اختلاف العلماءلدکتور عبداللہ نذیراحمد،لسان المیزان للحافظ ابن حجر الجواہرالمضیئۃ فی طبقات الحنفیہ ،الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للعلامۃ الکوثری سے ۔کسی بھی مقام کے اشکال کیلئے ان کتابوں کی جانب رجوع کیاجاسکتاہے بالخصوص شرح مشکل الآثار اورمختصر اختلاف العلماء اورالحاوی فی سیرۃ الطحاوی سے زیادہ استفادہ کیاگیاہے۔واللہ اعلم بالصواب
نسبت :طحاوی مصری حنفی ۔
ازد یمن کا ایک طویل الذیل قبیلہ ہے اور حجر اسکی ایک شاخ ہے ۔حجر نام کے تین قبائل تھے ۔ حجر بن وحید ۔حجر ذی اعین ۔حجر ازد ۔اور ازد نام کے بھی دو قبیلے تھے ، ازدحجر ۔ازد شنو ہ ۔ لہذا امتیاز کیلئے آپکے نام کے ساتھ دونوں ذکر کر کے ازدی حجری کہا جاتا ہے ۔آپکے آبا واجداد فتح اسلام کے بعد مصر میں فروکش ہوگئے تھے لہذا آپ مصر ی کہلائے ۔
ولادت وتعلیم وتربیت:امام طحاوی کی پیدائش کب ہوئی اس بارے میں کئی قول ہیں لیکن حافظ عبدالقادرقرشی نے الجواہرالمنیفہ میں خود امام طحاوی کاقول نقل کیاہے ''ابوسعید بن یونس نے کہامجھ سے امام طحاوی نے بیان کیا کہ ''میری پیدائش 239ہجری میں ہوئی''۔امام طحاوی کی پیدائش کے بارے میں ابن عساکر نے پوری تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھاہے جب کہ اس کے مقابل دوسرامشہور قول یہ ہے کہ امام طحاوی کی ولادت 229ہجری کو ہوئی ہے اوراس کی جانب اپنارجحان امام زاہد الکوثری نے الحاوی فی سیرة الطحاوی میں ظاہر کیاہے۔
تعلیم وتربیت:امام طحاوی کا تعلق ایک علمی گھرانے سے تھا۔خود امام طحاوی کے والد ادب وشاعری میں ممتاز مقام رکھتے تھے اوران کی والدہ جوامام مزنی کی ہمشیرہ تھیں وہ خود بھی بڑی فقیہہ اورعالمہ تھیں امام سیوطی نے ان کا ذکر مصر کے شافعی فقہاء میں کیاہے۔ایسے علمی گھرانے میں آنکھیں کھولنے والابچہ اگرآگے چل کرنامور محدیث ومجتہد بنے تواس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔امام طحاوی نے فطری طورپر ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کی اوریہ ہونابھی چاہئے کہ کیونکہ جب گھر میں کنواں موجود ہوتوباہر سے پانی لانے کے تکلف کی کیاضرورت !
ابتدائی تعلیم اپنے والدین سے حاصل کرنے کے علاوہ امام طحاوی امام ابوزکریا یحیی بن محمد بن عمروس سے مزید تعلیم حاصل کی انہی کے پاس قرآن حفظ کیا ۔امام مزنی کا نام محتاج تعارف نہیں ہے فقہاء شافعیہ میں ان کا بڑامقام ومرتبہ ہے اوریہ کہاجائے توبے جانہ ہوگا کہ امام شافعی کے بعد ان کی علمی وراثت اورجانشینی انہی کے سپرد ہوئی تھی اورامام شافعی کے تلامذہ میں ان کا ممتاز مقام تھا۔امام طحاوی نے فقہ اورحدیث کی تحصیل امام مزنی سے کی۔امام طحاوی امام مزنی کے حلقہ درس سے کتنے عرصہ وابستہ رہے کتب تراجم میں اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی لیکن اتناضرور ہے کہ امام مزنی کے حلقہ درس کو جب انہوں نے چھوڑاتو اس وقت وہ بالغ نظرعالم اورصحیح وسقیم میں امتیاز حاصل کرچکے تھے
عموماًعلمائے اسلام کا طریقہ کار رہاہے کہ انہوں نے حصول علم کی خاطر اسفار کئے ہیں لیکن علماء اسلام میں بعض ایسے بھی ملتے ہیں کہ وہ مجمع علماء میں پیداہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ سفر کے تگ ودو اور علمی اسفار کی ضرورت پیش نہیں آئی۔انہی میں سے ایک امام طحاوی بھی ہیں۔ علمی گھرانے میں پیداہوئے ۔امام مزنی ان کے ماموں تھے اس کے علاوہ مصر اس وقت اجلہ علماء کا مرکز تھا لہذا اس کی ضرورت نہ تھی کہ وہ دیگر علماء سے جاکر تحصیل علم کریں ہاں جو محدثین واجلہ علماء مصرآتے تھے ان سے ضرور تحصیل علم کرتے تھے۔اس کے باوجود امام طحاوی کاطرز یہ تھا کہ وہ جہاں کہیں گئے وہاں کے علماء سے استفادہ کیا چنانچہ امام طحاوی جب شام ،بیت المقدس ،عسقلان وغیرہ گئے توانہوں نے اس سفر کے ذریعہ وہاں کے علماء سے استفادہ کیا اوربطور خاص شام میں انہوں نے قاضی القضاۃ ابوحازم سے استفادہ کیااوران سے فقہ وحدیث دونوں حاصل کیا۔
شافعی سے حنفی ہونے کی وجہ
اس سلسلے میں بہت سے لوگوں نے رنگ آمیزی کی ہے اوررائی کو پربت بنانے کی کوشش کی ہے۔امام طحاوی کی سیرت پر امام زاہد الکوثری نے ایک کتاب لکھی ہے۔''الحاوی فی سیرۃ الطحاوی''اس کتاب میں انہوں نے کئی اقوال نقل کرکے ان پرتنقید کی ہے اورآخر میں یہ رائے اختیار کی ہے کہ امام مزنی خود بھی امام ابوحنیفہ اوران کے اجلہ تلامذہ امام ابویوسف وامام محمد کی کتابیں زیر مطالعہ رکھتے تھے اوراستفادہ کرتے تھے اوریہی ان کے شافعی سے حنفی ہونے کی وجہ بنی۔لیکن یہ کوئی قوی وجہ نہیں ہے آخرامام شافعی بھی امام محمد کی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے اورویسے بھی علم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کوئی بھی کسی کی بھی کتاب سے استفادہ کرسکتاہے۔میرے خیال میں تواس مسئلہ کا قول فیصل یہ ہے جوخود امام طحاوی سے منقول ہے کہ
قال ابوسلیمان بن زبر قال لی الطحاوی :اول من کتبت عنہ الحدیث المزنی ،واخذت بقول الشافعی فلماکان بعد سنین قدم احمد بن ابی عمران قاضیاعلی مصر فصحبتہ واخذت بقولہ(سیراعلام النبلاء جلد 15/29،تحقیق شعیب الارنؤط ،ابراہیم الزیبیق)
سلیمان بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھ سے امام طحاوی نے بیان کیا میں نے اولاًامام مزنی سے حدیثیں لکھی اورامام شافعی کے قول کو اختیار کیاچند سالوں کے بعد جب احمد بن ابی عمران قاضی بن کر مصرآئے تو میں ان کی شاگردی اختیار کی اوران کے قول کو اختیار کیا۔امام طحاوی کا یہ اعتراف بتارہاہے کہ ان کا شافعیت سے حنفیت کی جانب انتقال کسی جذباتی فیصلہ کاردعمل نہ تھا بلکہ تحقیق اورتدقیق سے اٹھایاگیاقدم تھا۔پہلے خاندانی اثرات اورمصر کے ماحول کے تحت شافعی مسلک اختیار کیا لیکن جب وہاں قاضی ابوعمران آئے اوران کے ساتھ رہ کرآپ نے احناف کے اصول ودلائل کو سمجھاتوآپ کو یہ زیادہ مناسب اوربہترلگااورآپ نے اس کو اختیار کیا۔
امام طحاوی کے شیوخ واساتذہ:
امام طحاوی کے شیوخ واساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جیساکہ حافط عبدالقادرالقرشی نے لکھاہے کہ امام طحاوی کے شیوخ واساتذہ پر ایک مستقل جزء کچھ لوگوں نے لکھاہے۔ لیکن جن لوگوں سے امام طحاوی نے بطور خاص حدیث کی تحصیل کی ان کا مختصر تذکرہ ذیل میں ہے۔
ابراہیم بن ابی دائود سلیمان بن دائود الاسدی ،احمد بن شعیب بن علی النسائی صاحب السنن ،احمد بن ابی عمران القاضی،اسحاق بن ابراہیم بن یونس البغدادی،اسماعلی بن یحیی المزنی ،بحربن نصر بن سابق الخولانی،بکار بن قیبہ بن البصری القاضی،یونس بن عبدالاعلی الصدفی۔اس کے علاوہ بھی ان کے شیوخ کی ایک طویل فہرست ہے جس کا ذکر کرنایہاں تطویل سے خالی نہ ہوگا۔اہل علم مزید معلومات کیلئے الحاوی فی سیرۃالطحاوی للکوثری،اورنخب الافکار للعینی وغیرہ کی جانب رجوع کرسکتے ہیں۔
شاگرد وتلامذہ:
انسان ایک زمانہ میں طالب علم ہوتاہے اوروقت گزرنے کے ساتھ اس کے جوہر کھلتے چلے جاتے ہیں اورتشنگان علم پروانہ وارہجوم کرکے اسی سے فیضیاب ہوتے ہیں یہ طریقہ ابتدائے دور سے ہی چلاآرہاہے۔ امام طحاوی کی علمی شہرت جب دور دور تک پھیل گئی توپھر تشنگان علم اورعلم حدیث وفقہ کے شائقین نے دوردراز سے آپ کی جانب رجوع کیااورآپ کی شاگردی اختیار کی۔
امام طحاوی کے شاگردوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے اوراس کو بھی ایک مستقل جزء میں چند حضرات نے جمعہ کیاہیجیساکہ حافظ عبدالقادرالقرشی نے الجواہر المضیئہ میں کہاہے ان کے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست یہاں ذکر کرنامضمون کی طوالت کا موجب ہوگااس لئے اسے نظراندازکرتے ہوئے چند اسماء ذکر کئے جاتے ہیں۔
احمد بن ابراہیم بن حماد
احمد بن محمد بن منصور الانصاری الدامغانی
عبدالرحمن بن احمد بن یونس المورخ
سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی ابوالقاسم صاحب المعاجم
عبداللہ بن عدی بن عبداللہ الجرجانی ابواحمد صاحب کتاب الکامل فی الجرح والتعدیل
علی بن احمد الطحاوی
عبیداللہ بن علی الدائودی ابوالقاسم شیخ اہل الظاہر فی عصرہ،محمد بن عبداللہ بن احمد بن زبر ابوسلیمان الحافظ
محمد بن جعفربن الحسین البغدادی المعروف بغندرالحافظ المفید
قہ وحدیث میں مقام ومرتبہ :
ابن یونس تاریخ العلماء المصریین میں کہتے ہیں''کان الطحاوی ثقۃ ثبتا فقیھا عاقلالم یخلف مثلہ''
ابن عبدالبر کہتے ہیں ''کان من اعلم الناس بسیرالکوفیین واخبارھم وفقھھم مع مشارکتہ فی جمیع مذاہب الفقہائ''وہ کوفہ کے مجہتدین اوراہل علم کی سیرت اوران کے حالات اوران کی اجتہادی آراء سے سب سے زیادہ واقف تھے اسی کے ساتھ ساتھ ان کو تمام مذاہب کے فقہاء اوران کی اجتہادی آراء سے بھی گہری واقفیت تھی۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔''الامام العلامۃ الحافظ الکبیر ،محدث الدیار المصریہ وفقیہھہ،''امام ،علامہ،بڑے حافظ،مصر کے محدث اورفقیہہ تھے۔
ابن تغری بردی کہتے ہیں۔
''امام عصرہ بلامدافعۃ فی الفقہ والحدیث واختلاف العلماء والاحکام واللغۃ والنحو،وصنف المصنفات الحسان''
بغیرکسی قیل وقال کے اپنے زمانہ کے فقہ،حدیث،علماء کے اختلاف،احکام ،لغت اورنحو کے امام تھے اوران کی اچھی تصنیفات ہیں۔
حافظ بدرالدین عینی لکھتے ہیں۔
اما الطحاوی فانہ مجمع علیہ فی ثقتہ ودیانتہ وامانتہ وفضلہ التامۃویدہ الطولی فی الحدیث وعللہ وناسخہ ومنسوخہ ولم یخلفہ فی ذلک احد ولقد اثنی علیہ السلف والخلف''
بہرحال امام طحاوی توان کے ثقاہت ،دیانت امانت اورحدیث ،علل ناسخ ومنسوخ میں یدطولی اورفضیلت تامہ پر علماء کا اتفاق ہے۔اوراس بارے میں کوئی ان جیسانہیں ہوا۔اورسبھی نے چاہے وہ ان کے معاصرمحدثین ہویابعد میں آنے والے ان کی تعریف وتوصیف کی ہے۔
حافظ سمانی کہتے ہیں ''کان الطحاوی ثقۃ ثبتاً''طحاوی ثقہ اورثبت تھے۔حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں۔وھواحدالثقات الاثبات والحفاظ الجھابذۃ،طحاوی ثقہ اورثبت محدثین اورنامور حفاظ حدیث میں سے ایک تھے۔
مشہور مورخ الصفدی لکھتے ہیں''کان ثقۃ نبیلاً فقیھا عاقلا لم یخلف بعدہ مثلہ ''وہ ثقہ،معزز،ثبت فقیہہ اورعاقل تھے ان کے بعد ان جیسا(جامع کمالات)کوئی ان کا جانشیں نہیں ہوا''
اب آخر میںحافظ بدرالدین عینی کا ہی ایک قول نقل کرکے اس باب کو ختم کرتاہوں ورنہ ان کے فضائل ومناقب پر توپوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
ولقد اثنی علیہ کل من ذکرہ من اہل الحدیث والتاریخ کالطبرانی وابی بکر الخطیب وابی عبیداللہ الحمیدی والحافظ ابن عساکر وغیرہم من المتقدمین والمتاخرین کالحافظ ابی الحجاج المزی،والحافظ الذہبی وعمادالدین ابن کثیر وغیرہم من اصحاب التصانیف
امام طحاوی کی تعریف وتوصیف محدثیں اورمورخین میں سے ہرایک نے کی ہے جیسے کہ امام طبرانی ،خطیب بغدادی، ابوعبداللہ الحمیدی ،حافظ ابن عساکر اوراس کے علاوہ متقدمین میں سے دوسرے حضرات اورمتاخرین میں سے حافظ مزی،حافظ ذہبی،حافظ ابن کثیراوردوسرے صاحبانِ تصانیف وتالیف
تصنیفات وتالیفات
امام طحاوی کا ان علماء میں شمار ہوتاہے جن کو فطری طورپر تصنیف وتالیف کا ذوق تھایہی وجہ ہے کہ امام طحاوی کی تمام تصنیفات مین ایک خاص طرز،ترتیب اورحسن نظرآتاہے اوریہ ایک ذوق ہے جو فطری طورپر کسی کسی کو ودیعت ہواکرتاہے ورنہ بہت ساری ایسی بھی کتابیں ہوتی ہیں جو ہیں توبیش قیمت لیکن چونکہ اس کے مصنف کے اندر تصنیف وتالیف کاذوق نہیں تھالہذا جب کتاب لکھی تو بہت سارے ابواب ومسائل میں خلط ملط کردیااورقاری بے چارہ حیران ہے کہ یاتو پوری کتاب پڑھے یاپھر پوری کتاب سے ہاتھ دھولے۔
امام طحاوی کی تصنیفات وتالیفات میں کچھ ایسی ہیں جو مطبوعہ یامخطوطہ کی شکل میں موجود ہیں اوربعض ایسی ہیں جو زمانہ کے دست برد سے ضائع ہوگئیں یامفقود الخبرہیں ان کے بارے میں کسی کو تاحال کوئی اطلاع نہیں ہے مستقبل میں پردہ غیب سے کیاظہور میں آتاہے کس کو خبرہے سوائے ذات واحد ولاشریک کے۔
مطبوعہ یامخطوطہ
احکام القرآن الکریم
یہ کتاب تاحال طبع نہیں ہوئی ہے۔ اس کا ایک مخطوطہ ترکی کے مکتبہ وزیر کبری میں رقم 814میں موجود ہے۔
اختلاف العلماء
یہ بہت بڑی کتاب ہے اورجیساکہ امام طحاوی کے سوانح نگاروں نے ذکر کیاہے یہ کتاب تقریبا 130جلدوں میں ہے مگر افسوس کہ اس کتاب کاکوئی اتاپتہ نہیں ہے اس کتاب کا جواختصار حافظ ابوبکر الجصاص الرازی نے کیاہے وہی دستیاب ہے اس کتاب کا نسخہ مکتبہ جاراللہ ولی الدین استانبول اوردارالکتب المصریہ میں موجود ہے۔
التسویۃ بین حدثناواخبرنا
ایک چھوٹاسارسالہ ہے جس میں علم حدیث کی ایک خاص اصطلاح حدثنااوراخبرنا کے بارے میں بحث کی گئی ہے کئی مرتبہ طبع ہوچکی ہے۔
الجامع الکبیر فی الشروط
اس کتاب کے نسخہ ہیں جو برلین رقم 41-42،قاہرہ اول 3/102،قاہرہ ثانی 456/1اورشہید علی باشا رقم 881-882میں موجود ہے۔یہ کتاب مکمل طورپر ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے مثلا اذکار الحقوق والرہون اورکتاب الشفعہ شائع ہوچکی ہے۔
السنن الماثورہ
یہ امام ابوجعفر الطحاوی کی وہ روایتیں ہیں جوانہوں نے اپنے ماموں امام مزنی سے امام شافعی کے واسطے سے سنی ہیں اس کو سنن شافعی بھی کہاجاتاہے۔حال میں خلیل ابراہیم ملاخاطر کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔
شرح معانی الآثار
یہ امام طحاوی کی سب سے مایہ ناز کتاب ہے جس میں انہوں نے احادیث احکام پر بحث کی ہے۔یہ بھی کئی مرتبہ شائع ہوچکی ہے اوراہل علم کی آنکھوں کا سرمہ ہے۔
صحیح الآثار
یہ کتاب تاحال طبع نہیں ہوسکی ہے لیکن اس کا نسخہ مکتبہ بانتہ میںموجود ہے۔
الشروط الصغیر
عراق کے دیوان الاوقاف احیاء التراث الاسلامی کی جانب سے دکتور روحی اوزجان کی تحقیق سے مطبع العانی سے شائع ہوچکی ہے۔
العقیدۃالطحاویہ
امام طحاوی نے شروع میں بیان کیاہے اس میں وہ عقائد ہین جو امام ابوحنیفہ امام ابویوسف اورامام محمد سے منقول وماثور ہیں۔یہ بھی امام طحاوی کی مایہ ناز کتابوں میں سے ہے اورکئی مرتبہ طبع ہوچکی ہے اوراس کے بہت سارے شروح لکھے گئے ہیں۔
مختصرالطحاوی(الاوسط)
یہ کتاب فقہ میں ہے اور اولا لجنۃ احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد دکن سے علامہ ابوالوفاء الافغانی کی تحقیق سے شائع ہوئی تھی بعد کو قاہرہ سے مطبع دارالکتاب العربی سے شائع ہوئی اس پر بھی بہت ساری شرحیں لکھی گئی ہیں۔
مشکل الآثار (فی اختلاف الحدیث)ا
س کتاب کے تین مخطوطے پائے ہیں۔ ایک برلین میں دوسرا رامپور میں اورتیسرا مکتبہ فیض اللہ استانبول میں۔یہ کتاب دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباد دکن الھند نے شائع کی تھی اوریہ کتاب صرف آدھی شائع ہوئی جوکہ تقریبا چارجلدوں میں ہے ۔اس کے بعد دوبارہ یہ کتاب مشہور محقق علامہ شعیب الارنوئوط کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے جزاہ اللہ خیرا۔اس کا بھی کئی حضرات نے ایک اختصار کیاہے جن میں سے ایک یوسف بن موسی ابوالمحاسن الحنفی ہیں یہ اختصار حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے۔
امام طحاوی کی مفقود کتابیں۔
احکام القِران(اکثرلوگ غلطی یہ کرتے ہیں کہ امام طحاوی کی احکام القرآن اوراحکام القِران دونوں کو ایک یااس کے بجائے اس کو اوراس کے بجائے اس کو سمجھ لیتے ہیں اس کا خیال رہے دونوں الگ الگ کتابیں ہیں۔
اخبارابی حنیفۃ واصحابہ (اومناقب ابی حنیفہ)
کاش یہ کتاب اگر کہیں سے منظرعام پرآئے توامام ابوحنیفہ کے فضائل وکمالات پر ایک عمدہ اوربہترین دستاویز ثابت ہوگی
اختلاف الروایات علی مذہب الکوفیینکتاب الاشربۃ
التاریخ الکبیر (عجیب ماجرا ہے کہ یہ کتاب جوکہ تاریخ میں لکھی گئی تھی وہ بھی مفقود الخبر ہے لیکن اس کتاب سے اس ن کے شاگرد اورمورخ ابن یونس نے بہت استفادہ کیاہے اورجگہ جگہ اس کاحوالہ بھی دیاہے۔
الحکایات والنوادر،حکم ارض مکہ،الردعلی ابی عبید فیمااخطاء فیہ فی کتاب النسب،الرد علی الکرابیسی (نقض کتاب المدلسین علی الکرابیسی)،الرد علی عیسی بن ابان(خطاءالکتب،الرزیۃ،شرح الجامع الصغیر،شرح الجامع الکبیر،الشروط الاوسط،الشروط الکبیر ،الفرائض،قسم الفی والغنائم ،المختصرالکبیر،المختصرالص غیر،النحل واحکامھا وصفاتھا واجناسھا وماورد فیہا من خبر،النوادرالفقیھۃ،الوصای ا
مام طحاوی پر اعتراضات :
امام طحاوی پرکچھ محدثین نے اپنے فہم اورمعلومات کے بقدر اعتراض کیاہے اوریہ تقریباہرایک کے ساتھ ہواہے۔امام بخاری پر خلق قرآن کا الزام لگا،دوجلیل القدر محدثین نے ان کو متروک قراردیا،مسلمہ بن قاسم نے ان پر ابن مدینی کے کتاب العلل کے سرقہ اورچوری کاالزام لگایا۔لیکن یہ وقت اورزمانہ ہے جو ان سب شکوک وشبہات کے پردے پھاڑ کر اصل حقیقت سامنے لے آتی ہے۔ہم اس بحث میں امام طحاوی پر کئے جانے والے اعتراض کا پرکھیں گے اورجانچیں گے کہ یہ یہ اعتراض کچھ وزنی بھی ہیں یاپادرہواہیں۔
تعصب:
امام طحاوی پرکئے جانے والے اعتراض میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے احناف کے لئے تعصب سے کام لیاہے اوراس کیلئے حدیث میں خواہ مخواہ تاویلیں کی ہیں اورصحیح حدیث کو ضعیف اورضعیف حدیث کو محض قراردیاہے محض مسلک احناف کی تائید کیلئے۔
یہ الزام میرے محدود علم میں سب سے پہلے حافظ بیہقی نے لگایاانہوں نے کہا
حین شرعت فی کتابی ھذا جاء نی شخص میں اصحابی بکتاب لابی جعفر الطحاوی ،فکم من حدیث ضعیف فیہ صححہ لاجل رایہ وکم من حدیث صحیح ضعفہ لاجل رایہ ''جب میں نے اپنی کتاب شروع کرنے کاارادہ کیاتوایک شخص میرے شاگردوں میں سے ابوجعفرالطحاوی کی کتاب لایا(جب میں نے اسے دیکھاتوپایا)کہ کتنی ہی ضعیف حدیثیں ہیں جس کو اس نے صحیح قراردیاہے اورکتنی ہی صحیح حدیثیں جس کو اس نے ضعیف قراردیامحض اپنی رائے کے اثبات کیلئے۔
حافظ بیہقی کی تنقید کابہترجواب حافظ عبدالقادرالقرشی الحنفی الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنیفہ کے مولف نے بہترطورپر دیاہے مناسب ہے کہ اسے یہاں نقل کیاجائے۔حافظ عبدالقادرالقرشی لکھتے ہیں۔
''خدا کی پناہ اس بات سے کہ امام طحاوی ایساکریں۔ بیہقی نے جس کتاب کی جانب اشارہ کیاہے وہ شرح معانی الآثار ہے اس کے بعد انہوں نے بیان کیاہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شیخ حافظ علاء الدین ابن الترکمانی الماردینی کے حکم پر شرح معانی لآثار کی احادیث کی تخریج کی ہے اس کے بعد کہاخدا کی قسم میں نے اس کتاب میں ایساکچھ نہیں پایا جس کا بہیقی نے ذکر کیاہے اوربیہقی کے اعتراض پر ہمارے شیخ نے توجہ کی اوربیہقی کی کتاب السنن الکبیر پر ایک عظیم کتاب لکھی اوراس میں واضح کیاکہ بیہقی نے امام طحاوی پر جواعتراض کیاہے اس کے وہ خود مرتکب ہوئے بایں طور کہ ایک حدیث ذکر کرتے ہیں جو ان کے مسلک کی مستدل ہوتی ہے اوراس کی سند میں کوئی ضعیف راوی ہوتاہے تواس کی توثیق کرتے ہیں اورایک حدیث جوہماری مسلک کی مستدل ہوتی اس میں اسی راوی جس کی وہ توثیق کرچکے ہیں اس کی تضعیف کرتے ہیں اوریہ بیشتر جگہ پر ہے اوراس عمل کے درمیان یعنی ایک ہی راوی کی توثیق اورتضعیف کے درمیان صرف دویاتین ورق کا فاصلہ ہوتاہے یہ کتاب لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے اگراس بارے میں کسی کو شک ہے تووہ یہ کتاب دیکھ کر اپنے شک کو دور کرسکتاہیے ہمارے شیخ کی یہ کتاب بہت عظیم ہے اگرپہلے کے حفاظ نے اسے دیکھاہوتاتویقیناان کی زبان چوم لیتے۔۔۔۔امام قرشی کہتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ امام شافعی کا ہرایک پر احسان ہے اوربیہقی کا امام شافعی پر احسان ہے جس شخص نے بھی یہ مقولہ کہاہے خدا کی قسم اسے امام شافعی کے علوم ان کی عظمت کا کچھ بھی پتہ نہیں۔(الجواہر المضیئہ431)
نائب شیخ الاسلام ترکی شیخ زاہد الکوثری فرماتے ہیں اگرچہ حافظ بیہقی نے یہ امام طحاوی پر یہ طعن کرکے خود کو نقصان پہنچا لیکن اس سے ایک گونہ فائدہ بھی ہواکہ اس کی وجہ سے حافظ علاء الدین ابن الترکمانی کی یہ عظیم کتاب وجود میں آئی ہے جو انتہائی نافع ہے۔
اسی قسم کاایک الزام مسلمہ بن قاسم القرطبی نے لگایاچنانچہ انہوں نے اپنی کتاب ''الصلۃ''میں امام طحاوی کے بارے میں لکھا
''کان ثقۃ جلیل القدر ،فقیہ البدن،عالماباختلاف العلمائ،بصیراًبالتصنیف،وک ان یذھب مذھب ابی حنیفۃ وکان شدید العصبیۃ فیہ،وقال عنہ ابوبکر محمد بن معاویہ بن الاحمر القرشی''وکان یذھب مذھب ابی حنیفہ لایری حقافی خلافہطحاوی حدیث میں جلیل القدر،فقہ فقیہ النفس،علماء کے اختلاف سے آگاہ،تصنیف کے طرزواداسے آشناتھے۔اوروہ ابوحنیفہ کے مذہب کی جانب مائل تھے اوراس میں سخت متعصب تھے۔ابوبکر محمد بن معاویہ بن الاحمرالقرشی نے کہاکہ وہ ابوحنیفہ کے مذہب کی جانب مائل تھے اوراس کے خلاف حق سمجھتے ہی نہیں تھے۔
مسلمہ بن قاسم القرطبی نے بھی امام طحاوی پر تعصب کا الزام لگایاہے لیکن افسوس کہ خود ان کی ذات معرض تنقید ہے اورحافظ حاذہبی نے سیراعلام النبلاء میں جوان کا تذکرہ لکھاہے اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ اس لائق نہیں کہ ان کی تنقید پر کچھ بھی توجہ دی جائے۔ یہی مسلمہ بن قاسم ہیں جنہوں نے امام بخاری پر بھی الزام لگایاہے کہ انہوں نے علی بن مدینی کی کتاب العلل چرائی تھی اوراس سے اپنی کتاب الصحیح تیار کی ہے جیساکہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں امام بخاری کے ترجمہ میں لکھاہے ۔
جہاں تک ابن احمر کی تنقید کاسوال ہے تواس کی غلطی ہراس شخص پر ظاہر ہوجائے گی جس نے امام طحاوی کی تصنیفات کاکچھ بھی مطالعہ کررکھاہو۔ابن احمرکایہ کہناکہ امام طحاوی مسلک احنا ف کے خلاف حق سمجھتے ہی نہیں تھے صراحتا اوربداہتاًغلط ہے۔
جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جس شخص نے بھی امام طحاوی کی کتابوں کادقت نظر اورگہرائی کے ساتھ مطالعہ کیاہوگا وہ جانتاہے کہ امام طحاوی نے کتنے مقامات امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ احناف کی مخالفت کی ہے۔اورجہاں بھی جوبھی قول اختیار کیاہے تو وہ اپنے اجتہاد کی بدولت نہ کسی کے تعصب میں اورنہ کسی کی تقلید میں ۔
خود امام طحاوی نے ایک مرتبہ قاضی ابوعبید سے جب بحث کررہے تھے دوران بحث امام طحاوی نے کچھ کہاتو قاضی ابوعبید نے کہایہ توامام ابوحنیفہ کا قول نہیں ہے امام طحاوی نے جواب دیا کہ کیاامام ابوحنیفہ نے جوکچھ کہامیں ان تمام کاقائل ہوں۔قاضی ابوعبید نے کہاکہ میں توتمہیں ابوحنیفہ کا مقلد سمجھ رہاتھا امام طحاوی نے جواب دیاکہ تقلید تومتعصب ہی کرتاہے اس پر قاضی ابوعبید نے اضافہ یایاپھرغبی(جاہل)
اس واقعہ میں دیکھاجاسکتاہے کہ امام طحاوی نے کس طرح سے صاف اورواشگاف الفاظ میں کہاہے کہ تقلید تومتعصبوں کاکام ہے یعنی جولوگ اجتہاد کے لائق ہوکر بھی کسی کی تقلید کریں تویہ صرف کسی کے تعصب میں ہی ہوسکتاہے۔اب اس کے باوجود ان پر مسلک احناف کے تعصب کاالزام لگایاجائے یہ کتنے افسوس اورحیرت کی بات ہے۔
خود امام طحاوی نے شرح معانی الآثار کے مقدمہ میں اس کتاب کے لکھنے کی جووضاحت کی ہے اس سے بھی صاف پتہ چلتاہے کہ انہوں نے اس کتاب میں اپنے اجتہاد پرعمل کیاہے اورجس قول کو کتاب وسنت سے زیادہ قریب دیکھااوراسی کو اختیار کیاہے نہ کہ امام ابوحنیفہ یادیگرائمہ احناف کی تقلید اورتعصب میں۔خود شرح معانی الآثار میں غوروفکرکیاجائے تومتعددمقامات پرانہوں نے ائمہ احناف سے اختلاف کیاہے۔اس کے باوجود ان پر عصبیت کاالزام لگایاجاتاہے۔
کتاب الشروط امام طحاوی کی مفقود کتابوں میں سے ہیں لیکن اس کے کچھ اجزاء دستیاب ہوئے ہیں جوشائع ہوچکے ہیں۔ کتاب الشروط کے مقدمہ میں امام طحاوی واشگاف اورعلی الاعلان لکھتے ہیں۔
قد وضعت ھذاالکتاب علی الاجتہاد منی لاصابۃ ماامراللہ عزوجل بہ من الکتاب بین الناس بالعدل علی ذکرت فی صدرھذاالکتاب مماعلی الکاتب بین الناس وجعلت ذلک اصنافا ،ذکرت فی کل صنف فیہااختلاف الناس فی الحکم فی ذلک ،وفی رسم الکتاب فیہ وبینت حجۃ کل فریق منھم وذکرت ماصح عندی من مذاھبھم وممارسموابہ کتبھم فی ذلک واللہ اسالہ التوفیق فانہ لاحول ولاقوۃ الابہ(مقدمہ کتاب الشروط1/21،بحوالہ مقدمہ مشکل الآثارلشعیب الارنوئوط،ص61)
امام طحاوی نے کتنے صاف اورصریح اندازمیں اعلان کردیاہے کہ وہ جوکچھ بھی لکھیں گے وہ ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی ہوگااوردلائل کی روسے وہ جوبات راجح ہوگی وہ اسی کواختیار کریں گے اوریہ صرف ان کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اس پرعمل بھی کیاہے۔چنانچہ وہ مقامات جہاں جہاں انہوں نے امام ابوحنیفہ اوردیگر ائمہ احناف سے الگ اپنی رائے اختیار کی ہے اس کیلئے اسی کتاب کے درج ذیل صفحات کو دیکھئے
کتاب الشروط2/189،2/214-215،2/259،2/262-264،3/131-132،4/202،4/233-236اور4/301-303۔
امام طحاوی شاگرد ہیں قاضی ابوخازم کے اور وہیں شاگرد ہیں امام عیسی بن ابان کے اور اور شاگرد ہیں امام محمد کے۔اس طرح دیکھاجائے تو عیسیٰ بن ابان امام طحاوی کے استاد کے استاد ہیں ۔لیکن جب انہوں نے عیسی ابن ابان کے رد میں خود ایک کتاب لکھی جس کا نام رکھا''الرد علی عیسی بن ابان''امام طحاوی نے حق کی وضاحت کی خاطر اپنے شیخ کے شیخ پر رد کرنے سے گریز نہیں کیالیکن اس کے باوجود بھی اگرکوئی امام طحاوی پر مسلک احناف کے حق میں تعصب کاالزام لگاتاہے تواس پر سوائے اس کے کیاکہاجاسکتاہے جیساکہ ایک عربی شاعر نے کہاہے
ولیس یصح فی الاذہان شی ء
اذااحتاج النہارالی دلیل
یاجیساکہ شیخ سعدی نے کہاہے
گرنہ بیند بروز شپرہ چشم
قرص آفتاب راچہ گناہ
علم حدیث میں عدم رسوخ
یہ الزام بھی اولاامام طحاوی پر حافظ بیہقی نے ہی لگایاہے چنانچہ وہ وہ کہتے ہیں
ان علم الحدیث لم یکن من صناعۃ ابی جعفر،وانمااخذ الکلمۃ بعد الکلمۃ من اھلہ ،ثم لم یحکمھا ویتھمہ بتسویۃ الاخبار علی مذہبہ ،وتضعیف مالاحیلۃ لہ فیہ بما لایضعف بہ،والاحتجاج بماہوضعیف عندہ غیرہ(معرفۃ السنن ولآثار1/353)
علم حدیث ابوجعفر(امام طحاوی) کا فن نہیں تھاانہوں نے یکے بعد دیگر محدثین سے کچھ حدیثیں سن رکھی تھیں پھراس فن میں وہ پختہ نہیں ہوئے ۔
اس کتاب میں دیکھاجاسکتاہے کہ حافظ بیہقی نے امام طحاوی پر کتناسخت اورسنگین الزام لگایاہے اورکس طرح انہوں نے امام طحاوی کو محدثین کی صف سے ہی نکال کو فن حدیث مبتدیوں کی صف میں لاکھڑاکردیاہے۔
اسی قسم کا الزام لیکن نسبتاً ہلکا ابن تیمیہ نے لگایاہے ۔ابن تیمیہ کاالزام ذکر کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس الزام کا پس منظربیان کردیاجائے۔ ایک شیعہ عالم ابن مطہر نے حضرت علی کے فضائل ومناقب پر ایک کتاب لکھی اوراپنی اوراپنی جماعت کے طرز پر دیگر صحابہ کرام کو طعن وتنقید کا نشانہ بنایااس کے دفاع میں ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی جس میں ابن مطہر پر رد کیا۔دوران بحث ایک حدیث ردشمس والی آئی ،اس حدیث کی امام طحاوی نے تصحیح کی ہے اورکہاہے کہ یہ حدیث صحیح یاحسن ہے۔اس پر ابن تیمیہ نے امام طحاوی کے بارے میں کہا
''لیست عادتہ نقد الحدیث کنقد اہل العلم ،ولہذا روی فی شرح معانی الآثار الاحادیث المختلفہ،وانما رجح مایرجحہ منہا فی الغالب من جہۃ القیاس الذی رآہ حجۃ ویکون اکثر ہ مجروحا من جہۃ الاسناد ولایثبت فا نہ لم یکن لہ معرفۃبالاسناد کمعرفۃ اہل العلم بہ وان کان کثیرالحد یث فقہیاعالما''
ان کی عادت (طحاوی )کی عادت نقد حدیث میں محدثین کے نقد کی طرح نہیں ہے اوراسی وجہ شرح معانی الآثار میں مختلف احادیث کی روایت کرکے ایک دوسرے پر محض قیاس کی بناء پر ترجیح دیا اورجس حدیث کو وہ دیگر احادیث پر ترجیح دیتے ہیں وہ سند کے اعتبار سے اکثرمجروح ہوتی ہے اورثابت نہیں ہوتی ہے اورطحاوی کواسناد کی معرفت محدثین کے طرز پر نہیں تھی اگرچہ وہ فی نفسہ کثیرالحدیث اورفقیہہ ہیں۔
حافظ بیہقی اورابن تیمیہ کی اس نقد کاجواب تویہ ہے کہ جب دیگر محدثین عظام نے عام طورپر انہیں بلندپایہ محدث تسلیم کیاہے توپھرایک دوحضرات کے شذوذ اوررائے عام سے ہٹ کر الگ رائے رکھنے سے کیاہوتاہے ؟
اس بارے میں محدثین کی تصریحات ایک بار پھر بیان کرتاہوں
ابن تغری بردی کہتے ہیں۔
''امام عصرہ بلامدافعۃ فی الفقہ والحدیث واختلاف العلماء والاحکام واللغۃ والنحو،وصنف المصنفات الحسان''
''الامام العلامۃ الحافظ الکبیر ،محدث الدیار المصریہ وفقیہھہ،''امام ،علامہ،بڑے حافظ،مصر کے محدث اورفقیہہ تھے۔
حافظ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں۔وھواحدالثقات الاثبات والحفاظ الجھابذۃ،طحاوی ثقہ اورثبت محدثین اورنامور حفاظ حدیث میں سے ایک تھے۔
حافظ ابن حجر (انباء الغمر1/62)میں ابن رافع السلامی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔والانصاف ابن رافع اقرب الی وصف الحفظ علی طریقۃاہل الحدیث من ابن کثیر لعنایتہ بالعوالی والاجزاء والوفیات والمسموعات،دون ابن کثیر،وابن اکثیر اقرب الی الوصف بالحفظ علی طریقۃ الفقہاء لمعرفتہ بالمتون الفقیھیۃوالتفسیریۃ دون ابن رافع،فیجمع منھما حافظ کامل ،وقل من جمعھمابعد اہل العصرالاول کابن خزیمۃ ،والطحاوی
اس کے علاوہ اوربھی دیگر علماء کے امام طحاوی کی تعریف وتوصیف میں بیانات ہیں لیکن میں اس کو چھوڑ کر آگے بڑھتاہوں کیونکہ حافظ بیہقی کا یہ الزام اتناغلط ہے کہ اس پر کسی توجہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ علم حدیث میں امام طحاوی جلالت شان مسلم ہے جیساکہ ان کی تصنیفات بذات خود اس پر شاہد عدل ہیں اوردیگر محدثین ومورخین کے بیانات اس حقیقت اورزیادہ واضح کرتے ہیں۔
ابن تیمیہ نے امام طحاوی پر جواعتراض کیاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ فی نفسہ اگرچہ وہ محدث اورفقیہہ ہیں لیکن حدیث کے علل واسناد پر ان کی نگاہ کمزور ہے ۔ابن تیمیہ کی طبعیت میں تھوڑاتشدد اورسختی ہے اوراسی کی جانب حافظ ذہبی نے بھی ان الفاظ میں اشارہ کیاہے۔
فانہ کان مع سع علمہ وفرط شجاعتہ وسیلان ذہنہ ،وتعظیمہ لحرمات الدین بشرامن البشر،تعتریہ حد فی البحث وغضب وشطط للخصم،تزرع لہ عداو فی النفوس،(الدررالکامنہ لحافظ ابن حجر1/176)
اسی کے ساتھ ان کی دوسری عادت کو بھی نگاہ میں رکھئے کہ جب وہ کسی کی تردید پر آمادہ ہوتے ہیں توان پر تردید ہی غالب ہوتی ہے۔اوراس ضمن میں بسااوقات وہ حقائق کو بھی نظرانداز کرجاتے ہیں اسی کی طرف حافظ ابن حجر لسان المیزان میں اشارہ کیاہے چنانچہ حافظ ابن حجرکہتے ہیں۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،وکم من مبالغۃ لتوھین کلام الرافضی ادتہ احیانا الی تنقیص علی(لسان المیزان316/6)
اوراسی کی جانب اشارہ کیاہے علامہ انورشاہ کشمیری نے فیض الباری میں ایمان کی بحث میں کہ جب ابن تیمیہ کسی کی تردید کرتے ہیں توان پر رد ہی غالب ہوتاہے۔اس کے علاوہ یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کا ساراغصہ محض اس بات پر ہے کہ امام طحاوی نے ردشمس والی حدیث کی تحسین یاتصحیح کی ہے۔اس میں شک نہیں کہ رد شمس والی حدیث ضعیف ہے لیکن محض ایک یاچند حدیثوں کو دیکھ کر اگرکسی کے بارے میں رائے قائم کرنا صحیح ہوگا توپھرحضرت ابن تیمیہ بھی اس کی زد میں ہوں گے۔
ابن تیمیہ کایہ کہنا کہ امام طحاوی احادیث کے سند اوررواۃ کے احوال جاننے میں کمزورتھے بے بنیاد بات ہے ۔اس کی پہلی دلیل تویہ ہے کہ خود ابن تیمیہ نے ایک مجرد کلام کیاہے اوراس کی کوئی دلیل وشواہد پیش نہیں کئے ۔دوسرے امام طحاوی نے کرابیسی کی رد پر نقض کتاب المدلسین علی الکرابیسی کے نام سے جوکتاب لکھی ہے وہ خود یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ علل حدیث میں امام طحاوی کوکتنا درک اوررسوخ تھا۔ پھرکیایہ بات بجائے خود حیرت کی نہیں کہ امام طحاوی کے اساتذہ میں ایک امام نسائی بھی ہیں اورامام نسائی کی جلالت شان یہ ہے کہ ان کے بارے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں علم حدیث میں ان کا مقام ومرتبہ امام مسلم سے زیادہ اوربڑاہے اوران کا شاگرد ایساہو کہ اسے حدیث کی اسناد کا پتہ نہ ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ امام طحاوی کا فن حدیث اورفقہ دونوں میں مقام ومرتبہ ابن تیمیہ سے بدرجہا بلند ہے اورحضرت ابن تیمیہ نے امام طحاوی پر یہ کلام کرکے خود کو ہی نقصان پہنچایاہے ورنہ جس نے بھی ان کی تصنیفات کا مطالعہ کیاہے وہ جانتاہے کہ علم اسناد میں بھی ان کو کتنا درک اوررسوخ حاصل تھا۔علم حدیث میں امام طحاوی کے مقام ومرتبہ پر دکتور عبدالمجید محمود عبدالمجید نے اپنے(ماجستیر) ایم اے کے مقالہ الامام الطحاوی واثرہ فی الحدیث میں بہت اچھی بحث کی ہے۔اس کتاب کی شیخ شعیب الارنوئوط نے بھی تعریف وتوصیف کی ہے چنانچہ وہ شرح مشکل الآثار کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
ابوجعفرالطحاوی واثرہ فی الحدیث ،الدکتور عبدالمجید محمود وھذاالکتاب من اجود ماکتب عن الامام الطحاوی ،والفصل الذی خصہ بالدفاع عن الامام الطحاوی والرد علی منتقدیہ واثبت فیہ انہ امام فی الحدیث فصل نفیس تلمح من خلال سطورہ العل ۃاللہ خیرالجزاء
جاری ہے
اخلاق واوصاف:
جرات وحق گوئی: ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اگرانسان ن نے علم نافع سیکھاہے تو وہ اسے آخرت کی جانب راغب کرتی ہے اورحکام وامراء کے بارے میں حق گوئی پر آمادہ کرتی ہے اوریہ چیز امام طحاوی کی زندگی میں واضح طورپر نظرآتی ہے ان کی زندگی کے کئی واقعات ایسے ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ حق بات کہنے میں وہ کبھی پیچھے نہیں رہے اوربلاکسی خوف اورتردد کے انہوں نے حق گوئی کافریضہ اداکیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جو شخص اپنے مال کی حفاظت کیلئے قتل ہوجائے وہ شہید ہے اصل الفاظ ہیں'' من قتل دون مالہ فھو شہید ''امام طحاوی کی کچھ جائیداد تھی جس کو ابن طولون نے غلط طورپر حکومتی تصرف میں لے لیاتھا امام طحاوی نے اس بارے میں ابن طولون سے براہ راست بات کی اوراپنے تمام دلائل سامنے رکھے۔ ابن طولون کوئی جاہل اورناخواندہ نہیں تھا اس بارے میں اس کاجوموقف تھا اس نے بھی کھل کر پیش کیا لیکن امام طحاوی کے دلائل اتنے قوی تھے کہ اس نے آخر میں کہاکہ مجھے یہ تومعلوم ہوگیاہے کہ اس جائیداد میں تمہاراحق ہے لیکن مجھے تم تین دن کی مہلت دو اگراس بیچ کوئی ایسی بات نہ ہوگئی جس میں میراموقف مضبوط ہوتاہوتومیں تمہاری جائیداد واپس کردوں گا۔امام طحاوی اس کے بعد واپس آگئے۔لیکن بعد کی روائید بھی امام طحاوی ہی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ابن طولون نے حاضرین سے کہاکہ ایک شخص جس کی حجت واضح ہوچکی پھراس کا حق لوٹانے میں آنا کانی کیسی’ یہ توبہت بری بات ہوگی۔ اوراپنے موقف کے استدلال میں ایک حدیث بھی پیش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے۔
''ان اللہ لایقدس امۃ لایوخذ الحق لضیعفھا من قویھا(اس حدیث کے بارے میں شعیب الارنوئوط کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے)اورامام طحاوی کوان کے جائیداد کا پروانہ لکھ دیا۔
علماء کاادب واحترام:علماء حق کاادب واحترام ارشاد رسول کے بموجب واجب اورضروری ہے یہی وجہ ہے کہ امام طحاوی کی زندگی میں علماء کاادب واحترام نمایاں طورپر نظرآتاہے اوراس کی سب سے نمایاں مثال اپنے استاد قاضی ابوخازم کے ساتھ پیش آنے والاواقعہ ہے۔واقعہ یوں ہے کہ جب ابن طولون نے ایک ہاسپٹل بنے کاارادہ کیاتواس نے ہاسپٹل اورمسجد عتیق کیلئے کچھ جائیداد وقف کرنے کاارادہ کیا۔اوراس کیلئے اس نے دمشق کے قاضی ابوخازم کو دستاویز لکھنے کی ہدایت کی۔جب دستاویز تیار ہوکر آگئی تو ابن طولون نے دستاویز اورشروط لکھنے والے علماء کوجمع کیاتاکہ وہ اس میں مزید غوروفکر کرلیںکہ کہیں کوئی اس میں خلل تونہیں رہ گیاہے۔علماء شروط نے دیکھااوراس کو صاد کردیالیکن امام ابوجعفر نے اس کو دیکھا(وہ ان کی نوجوانی کا وقت تھا)انہوں نے فرمایا اس میں غلطی ہے۔علماء شروط نے کہاکہ کیاغلطی ہے بیان کریں،امام طحاوی نے انکارکردیا ۔یہ خبراحمد بن طولون کو پہنچی اس نے امام طحاوی کو بلوایااورکہاکہ اگرتم نے میرے قاصدوں کو غلطی نہیں بتائی تواب مجھے بتائو۔ امام طحاوی نے عرض کیا میں ایسانہیں کرسکتا۔اس نے پوچھا کیوں۔امام طحاوی نے جواب ابوخازم صاحب علم ہیں ہوسکتاہے کہ مجھ کو ہی غلط فہمی ہوئی ہواوردرست بات ابوخازم کی ہی ہو۔ابن طولون کو یہ بات بہت اچھی لگی اوراس نے اجازت دی کہ دمشق جاکر ابوخازم سے براہ راست بات چیت کرلیں۔ جب امام طحاوی ابوخازم کے پا س پہنچے اوراس دستاویز کی غلطی بیان کی توابوخازم نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔امام طحاوی جب لوٹ کر مصر آئے اورابن طولون کے پاس حاضرہوئے اوراس نے پوری روداد دریافت کیا توامام طحاوی نے پردہ پوشی سے کام لیتے ہوئے کہا۔درست بات ابوخازم کی ہی تھی اورمیں نے اپنے سابقہ قول سے رجوع کرلیاہے اوردونوں کے درمیان جوکچھ ہواتھااس پرپردہ ڈال دیا۔یہ بات ابن طولون کو بہت اچھی لگی۔(مقدمہ مشکل الآثار،تحقیق شعیب الارنوئوط ،صفحہ59)
ذراغورکریں بظاہر یہ واقعہ بہت چھوٹا ہے لیکن بباطن بہت بڑاہے۔انسان کاحال تویہ ہے کہ اگراس پر یہ واضح ہوجاتاہے کہ وہ غلط ہے پھر بھی حجتیں اورتاویلیں تلاش کرتاہے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ امام طحاوی کو معلوم ہے کہ ابوخازم سے دستاویز کی شرائط لکھنے میں غلطی ہوئی ہے اس کے باوجود پردہ پوشی کرتے ہیں اوربالمشافہ بات چیت کرتے ہیں اورابوخازم کو بھی اپنی غلطی کااعتراف ہے اس کے باوجود امام طحاوی اس کو اپنی غلطی بناکر ابوخازم کاپردہ رکھتے ہیں۔اس میں کس قدرایثار،للہیت اورخلوص ہے۔
وسعت ظرف :قاضی ابوعبیدکوامام طحاوی نے اپنے کارندوں کاحساب کتاب پرآمادہ کیاجس کی وجہ سے کارندے اوراہلکار بھڑک گئے اورانہوں نے قاضی ابوعبید کو امام طحاوی کے تعلق سے جھوٹی شکایتیں کرکرکے اتنابدظن کیاکہ وہ امام طحاوی کے مخالف ہوگئے لیکن خداکاکرنا ایساہواکہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد قاضی ابوعبید معزول کردیئے گئے ۔امام طحاوی کے صاحبزادے اپنے والد کو قاضی ابوعبید کے معزولی کی خوشخبری دینے آئے توامام طحاوی نے جھڑک دیا اورکہایہ خوشی کانہیں تعزیت کا مقام ہے اب میں علم کی باتیں اورعلمی مذاکرے کس کے ساتھ کروں گا۔
زہد وقناعت:ایک بار امیر مصرتکین الخزرجی امام طحاوی کے پاس آئے اوراتنامتاثرہوئے کہ امیرنے کہاکہ میں اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کردیناچاہتاہوں۔امام طحاوی نے شادی سے انکارکردیا۔ پھراس نے پوچھاکہ کیاآپ کو مال وغیرہ کی ضرورت ہے امام طحاوی نے فرمایا نہیں۔پھراس نے کہاکہ اآپ کہیں تومیں آپ کے نام کوئی جاگیر لکھ دوں۔امام طحاوی نے انکار کردیا۔اس نے کہاکہ توپھرآپ ہی کچھ بیان کریں کہ جس کو میں پوراکروں۔امام طحاوی نے فرمایاکہ کیاتم میری باتوں پر عمل کروگے اس نے اقرارکیاکہ ہاں عمل کروں گا۔امام طحاوی نے فرمایا اپنے دین کی حفاظت کرو،تاکہ وہ تمہارے پاس باقی رہے اورموت سے پہلے پہلے اپنی خلاصی کی کوشش کرو،اوربندگان خداپر ظلم سے گریز کرو،کہاجاتاہے کہ امام طحاوی کی اس نصیحت کے بعد اس نے اہل مصر پر ظلم کرنابند کردیا۔تحفتہ الاحباب بحوالہ الحاوی فی سیرۃ الطحاوی صفحہ 25-26
جامع کمالات:امام طحاوی کی سیرت میں ایک وصف جو نمایاں طورپر نظرآتاہے وہ ان کا جامع کمالات ہونا ہے۔ امام طحاوی مختلف علوم فنون میں مہارت اوررسوخ رکھتے تھے۔ایک طرف اگروہ قرآن کریم کے بلندپایہ مفسر تھے تودوسری طرف وہ حدیث میں عالی مقام محدث تھے اسی کے ساتھ فقہ میں وہ اجتہاد کا مقام رکھتے تھے۔تاریخ نگاری میں بھی ان کا بلند مقام ہے اوربعد کے مورخین نے ان کی التاریخ الکبیر سے بہت استفادہ کیاہے۔ان سب علوم وفنون میں کامل دستگاہ کے ساتھ ساتھ امام طحاوی نحوی،لغوی بھی تھے اورعقل وفہم میں انتہائی ممتاز مقام رکھتے تھے۔اوراس کے ساتھ قضاء کی ذمہ داریاں نبھانا ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام علوم وفنون ایسے ہیں کہ اگرایک شخص ہی ان میں سے کسی ایک فن کے حصول میں اپنی زندگی لگادے تو بھی کم ہے چہ جائیکہ مختلف علوم وفنون میں امامت کا درجہ حاصل کرنا۔لیکن جب اللہ کسی پر اپنافضل کرناچاہتاہے تو اس کیلئے تمام دشواریوں کو آسان کردیتاہے۔
لیس علی اللہ المستنکر
ان یجمع العالم فی واحد
اس مقام پر مناسب معلوم ہوتاہے کہ شیخ شعیب الارنوئوط نے امام طحاوی کے جامع کمالات ہونے کے بارے میں جولکھاہے اسے اختصار کے ساتھ نقل کردیاجائے۔ان یجمع العالم فی واحد
کان الطحاوی رحمہ اللہ حافظا لکتاب اللہ ،عارفاباحکامہ ومعانیہ وبمااثر عن الصحابة والتابعین من تفسیر آیة واسباب نزولہ،لہ ثقافة ممتازة بعلم القراء ات ،حافظاللحدیث ،واسع المعرفة بطرقہ ومتونہ،وعللہ،واحوال رجالہ،ذاحظ کبیرمن العلم بلسان العرب،ومواقع کلامھا وسعة لغتھا واستعاراتھا ومجازھا،وعموم لفظ مخاطبتھا وخصوصہ،وسائر مذاھبھا،واسع الاطلاع علی مذاہب الصحابة والتابعین،والائمة الاربعة المتبوعین،وغیرھم من الائمة المجتہدین کابراہیم النخعی،وعثمان البتی،والثوری،واللیث بن سعد،وابن شبرمہ،وابن ابی لیلیٰ،والحسن بن حی،بارعا فی علم الشروط والوثائق،وکانت لہ شخصیة مستقلة فی البحث،لایقلد احدا لافی الاصول ولافی الفروع ،فھو یدور مع الحق الذی اداہ الیہ اجتھادہ،(مقدمہ مشکل الآثار شعیب الارنوئوط ص 56)
نوٹ: یہ مضمون مرتب کیاگیاہے کہ سیر اعلام النبلاء،البدایہ والنھایہ،مقدمہ شرح مشکل الآثارللشیخ شعیب الارنوط،تحفۃ الاخیار بشرح بترتیب شرح مشکل الآثار،مقدمہ مختصر اختلاف العلماءلدکتور عبداللہ نذیراحمد،لسان المیزان للحافظ ابن حجر الجواہرالمضیئۃ فی طبقات الحنفیہ ،الحاوی فی سیرۃ الطحاوی للعلامۃ الکوثری سے ۔کسی بھی مقام کے اشکال کیلئے ان کتابوں کی جانب رجوع کیاجاسکتاہے بالخصوص شرح مشکل الآثار اورمختصر اختلاف العلماء اورالحاوی فی سیرۃ الطحاوی سے زیادہ استفادہ کیاگیاہے۔واللہ اعلم بالصواب