پوری زندگی کے مسائل کا حل صرف ایک حدیث میں !!!

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
imagehost




imagehost
 

حافظ رحمانی

وفقہ اللہ
رکن
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس طرح کی غیر مشهور احادیث پیش کرنے سے پہلے علماء سے تحقیق کرنی چائیے ، مذکوره بالا حدیث (مسند الإمام أحمد) میں نہیں ہے ، اور نہ حدیث کی دیگر معروف کتابوں سنن ومسانيد وغیره میں ہے ، بلکہ صرف (كنز العمال) میں ہے ، لیکن (كنز العمال ) میں بهی بلا سند اور بلا حوالہ موجود ہے ، اور (كنز العمال ) میں صحیح وحسن وضعيف ومنكر وموضوع ہرقسم کی احادیث موجود ہیں ، جیسا کہ اهل علم خوب جانتے ہیں ، اور بلا ثبوت کسی حدیث کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کرنے کے بارے سخت وعید آئی ہے ، لهذا ہر مسلمان کو اس معاملہ میں سخت احتیاط کرنی چائیے .. شکریہ
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبر کاتہ

جناب آپ یہ کتنے یقین سے کہ سکتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ھے حالانکہ میں نے کئی علماء سے اس حدیث کو سنا ھے اس لیے یہاں شئیر کیا اور اس حدیث کو جید علماء سے سنا ھے اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو میں شئیر کبھی نا کرتا میں یہ یقین سے نہیں کہ سکتا کہ اس کا حوالہ غلط ھے یا صحیح ہے میں نے اس لیے اس کو یہاں شئیر کیا کیونکہ میں کافی علماء سے اس حدیث کو سن چکا ہوں اور جب بھی کوئی عالم حدیث بیان کرتا ھے تو ساتہ یہ بھی بتاتا ھے کہ یہ ضعیف ھے یا نہیں اس کی سند ھے یا ہیں جن علماء سے اس حدیث کو سنا انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث ضعیف ھے یا نہیں سند سے ھے یا نہیں اس بارے میں بالکل نہیں جانتا رہی بات کنزالعمال کی تو اس میں سے اکثر علماء حدیثیں سناتے ہیں بعض اوقات اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ھے (یقین سے نہیں کہ سکتا ہو سکتا ھے یہ بات میں نے کسی اور جگہ پڑھی ہو) صوفی سرور صاحب جامعہ اشرفیہ والے ان کے بیٹے مولانا عتیق الرحمن صاحب ایک رسالہ نکالتے ہیں ماہنامہ علم و عمل جس کی سرپرستی خود حضرت صوفی صاحب فرماتے ہیں شاید اس میں بھی میں نے یہ حدیث پڑھی اور اکثر میں یہ حدیث پڑھ چکا ہوں اور یہ لوگ عام چھاپتے بھی ہیں اگر اس حدیث میں کچھ ہوتا تو علماء اس کی اصلاح کرتے لیکن آج تک کسی عالم کو نہیں دیکھا ایسا کرتے رہی بات اس حدیث کی تو یہاں کافی علماء مفتیان اکرام موجود ہیں وہ میری رہنمائی فرمائیں

اگر ان باتوں سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت میں صرف اپنی اصلاح چاہتا ہوں اور یہ چند سوال زہن میں آئے تو کردیے تاکہ میری اصلاح ہو سکے
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
(كنز العمال) میں ہے ، لیکن (كنز العمال ) میں بهی بلا سند اور بلا حوالہ موجود ہے ، اور (كنز العمال ) میں صحیح وحسن وضعيف ومنكر
بھائی حافظ رحمانی صاحب

کنزالعمال ۔۔ حدیث ہی کی کتاب ہے حوالہ تو ہو۔۔ گیا ۔۔۔۔۔۔ آپ اس حدیث پر تبصرہ فر مائیں آیا یہ منکر ہے کیونکہ سنن کی کتب میں بھی احادیث ضعیف وصحیح وحسن سب موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس پر تبصرہ فر مادیں اس کی کیا پوزیشن ہے
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
حافظ رحمانی نے کہا ہے:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس طرح کی غیر مشهور احادیث پیش کرنے سے پہلے علماء سے تحقیق کرنی چائیے ، مذکوره بالا حدیث (مسند الإمام أحمد) میں نہیں ہے ، اور نہ حدیث کی دیگر معروف کتابوں سنن ومسانيد وغیره میں ہے ، بلکہ صرف (كنز العمال) میں ہے ، لیکن (كنز العمال ) میں بهی بلا سند اور بلا حوالہ موجود ہے ، اور (كنز العمال ) میں صحیح وحسن وضعيف ومنكر وموضوع ہرقسم کی احادیث موجود ہیں ، جیسا کہ اهل علم خوب جانتے ہیں ، اور بلا ثبوت کسی حدیث کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کرنے کے بارے سخت وعید آئی ہے ، لهذا ہر مسلمان کو اس معاملہ میں سخت احتیاط کرنی چائیے .. شکریہ

[/quote

کنزالعمال ۔۔ حدیث ہی کی کتاب ہے حوالہ تو ہو۔۔ گیا ۔۔۔۔۔۔ آپ اس حدیث پر تبصرہ فر مائیں آیا یہ منکر ہے کیونکہ سنن کی کتب میں بھی احادیث ضعیف وصحیح وحسن سب موجود ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ اس پر تبصرہ فر مادیں اس کی کیا پوزیشن ہے
 

حافظ رحمانی

وفقہ اللہ
رکن
بسم الله الرحمن الرحيم
والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين إلى يوم الدين

میرے محترم بهائی
پہلی بات تو یہ ہے کہ میں بے فائده بحث ومباحثہ نہیں کرتا ، البتہ بحیثیت ایک طالب علم علمی ومفید مباحثہ ومکالمہ پسند کرتا ہوں ، کیونکہ یہ علم میں ترقی اور معلومات میں اضافے کا باعث ہے ، باقی مذکوره بالا حدیث کے بارے جو میں نے اپنی ناقص معلومات کی روشنی میں رائے پیش کی ہے ، اس کا جواب آپ نے اپنی معلومات کی روشنی میں دے دیا

چند مزید باتیں عرض کرتا ہوں
1 = آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اس کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے ( ایک دیہاتی حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ....الخ ) یعنی حدیث کے شروع میں سند نہیں ہے حتی کہ صحابی کا نام بهی نہیں ہے کہ کون صحابی اس کا راوی ہے ؟
2 = حدیث کے آخر میں ( كنز العمال، اور مسند الإمام أحمد ) کا حوالہ دیا گیا ، جس پر میں نے کہا کہ ( مسند الإمام أحمد ) میں یہ حدیث موجود نہیں ہے ، لہذا آپ خود یا کسی عالم سے پوچھ کر ( مسند الإمام أحمد ) سے بحوالہ پیش کردیں ، تاکہ میری اصلاح ہوجائے ، یا پهر آپ کا یہ حوالہ غلط ہے
3 = میں نے کہا کہ یہ حدیث (كنز العمال ) میں بلا سند اور بلا حوالہ موجود ہے ، یعنی جس شخص نے اس حدیث کو روایت کیا اس نے سند ذکر نہیں کی ، یعنی اپنے مشائخ کے نام ذکر نہیں کیے ، اور وه خود بهی مجہول ہے اور حدیث کی سند بهی مجہول ہے
4 = آپ نے کہا کہ : (میں کافی علماء سے اس حدیث کو سن چکا ہوں کسی نے اس کو ضعیف وموضوع نہیں کہا ، اور اس حدیث کو جید علماء سے سنا ہے اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو میں شئیر کبھی نہ کرتا....الخ )
محترم بهائی آپ علماء سے اس حدیث کے بارے خصوصی استفسار کرلیں کہ اس حدیث کا درجہ کیا ہے ؟ اور پهر ان کی تحقیق یہاں پیش کردیں ، تو ان شاء الله میرے سمیت سب کو فائده ہوگا
والله تعالی اعلم
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم

جناب رحمانی صاحب میں خود ایک دین کا طالب علم ہوں اور علماء کے طبقہ سے تعلق رکھتاہوں میں بحث میں نہیں جانا چاہتا تھا میں صرف اپنی اصلاح چاہتا تھا جب یہ حدیث میں نے عام چھپی ہوئی دیکھی اور سنا تو یہاں شئیر کردیا تاکہ ہمارا فائدہ ہو سکے جب آپ نے نکتہ اعتراض اٹھایا تو میری ذہن میں چند سوال آئے تھے تو میں نے آپ سے کردیے میں نے یہ سوال بطور اصلاح کیے تھے نہ کہ بحث کے لیے اور یہ بھی علماء کا فورم ہیں یہاں اکثر تعداد میں علماء اکرام اور مفتیان عظام موجود ہیں اور اسی طرح جناب حسن خان صاحب نے آپ سے سوال کیے لیکن آپ نے ان کا جواب نہیں دیا البتہ یہ بتائیں اس حدیث پر عمل کریں یا نہیں اگر کوئی اس پر عمل کر رہا ہو تو اس کو روکا جائے یا عمل کرنے دیا جائے کیونکہ میں نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے بھت سے لوگوں کو دیکھا ھے یا ان کو اس عمل سے روک دیں اور یہ بھی بتادیں اور آپ نے اوپر عرض کیا (اور بلا ثبوت کسی حدیث کو رسول الله صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب کرنے کے بارے سخت وعید آئی ہے ، لهذا ہر مسلمان کو اس معاملہ میں سخت احتیاط کرنی چائیے .. شکریہ) تو اس لحاظ سے ہم عمل تو نہیں کرسکتے اور یہ حدیث بھی بلاثبوت ھے آپ کے بقول ویسے کنزالعمال بھی ایک حدیث ہی کی کتاب ہے اس میں سے علماء احادیث سناتے بھی ہیں اور اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں تو آپ کے لحاظ سے یہ کیاھے

برائے مہربانی میری اصلاح فرمادیں شکریہ
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
ماشا ء اللہ ۔ ۔ اس علمی بحث میں سب کو حصہ لینا چاہئے
ہمارا مقصد سیکھنا سکھانا ہے نا کہ کسی کو نیچا دکھانا
 

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
مجھے اس حدیث کی تلاش کرنے پر ““ هذا الحديث مكذوب على النبي صلى الله عليه وسلم““

کا علم ملا ہے ۔۔۔

واللہ اعلم .

http://ejabat.google.com/ejabat/thread?tid=6c66cbaf9aba5263


بحثت عن الحديث فوجدت أنه موضوع
ولا يجوز رواية الحديث المكذوب عن النبي صلى الله عليه وسلم والدليل

قال صلى الله عليه وسلم "من حدث عني بحديث يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين" رواه مسلم .

وعلى المسلم أن يتأكد من ثبوت ما ينسب إلى النبي صلى الله عليه وسلم لأنه يقول صلى الله عليه وسلم : ‏كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ . رواه مسلم .






ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں ایسا سچا ایمان اور یقین دے
کہ جس میں کسی قسم کا شک نہ ہو
اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے ۔
اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور
صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین۔۔۔۔

واللہ اعلم .
 

حافظ رحمانی

وفقہ اللہ
رکن
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه أما بعد

جزاك الله
یہ میرے تبصره کی ایک تصدیق ہے ، کہ یہ موضوع حدیث ہے ، اورعلم اصول حدیث کی اصطلاح میں (موضوع حدیث) سے مراد وہ حدیث ہوتی ہے جو وضع کی ہوئی جھوٹی اور بناوٹی اورمن گهڑت ہو۔ لہذا اس طرح کی حدیث کا بیان کرنا جائز نہیں ہے ، ہاں صرف مسلمانوں کو خبردار کرنے کی غرض سے بیان کرنا جائز ہے ، اور پهر اس طرح کی حدیث کو (پوری زندگی کے مسائل کا حل صرف ایک حدیث میں) کے عنوان سے پیش کرنا تو قطعا صحیح نہیں ہے

ضعیف حدیث پرعمل کا حکم
بخلاف ضعیف حدیث کے کہ فضائل اعمال اور ترغيب وترهيب کے باب میں اس کا بیان کرنا اور عمل کرنا جائز ہے ، امام مُحي الدین النووي الشافعي رحمه الله نے اپنی بہت ساری کتب میں تمام محدثين وفقهاء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ فضائلُ الأعمال اور ترغيب وترهيب میں " ضعیف حدیث " کولینا اوراس پرعمل کرنا جائزہے ، امام نووي شافعي رحمه الله نے یہ بات اپنی کتب (الروضه) اور (الإرشاد) اور (التقريب) اور (الأذكار) وغیره میں نقل کی ہے ، اور یہی امام نووي رحمه الله کا مذهب ہے ، اور اسی طرح کی تصریح دیگرکبارائمہ حدیث نے بهی کی ہے
والله أعلم
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم

جس حدیث کا لنک اضوا جی نے دیا ھے اس کو دیکھیں پہلے

وهل يجوز الاستشهاد به من أجل الدعوة الى فضائل الأعمال؟
نص الحديث:
عن خالد بن الوليد رضي الله عنه قال :

جاء أعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : يا رسول الله جئت أسألك عما يغنيني في الدنيا و الآخرة .

قال له صلى الله عليه و سلم : سل عما بدا لك .

قال : أريد أن أكون أعلم الناس . قال صلى الله عليه و سلم اتق الله تكن أعلم الناس .

قال : أريد أن أكون أغنى الناس . قال صلى الله عليه و سلم : كن قانعاً تكن أغنى الناس

قال : أحب أن أكون أعدل الناس . قال صلى الله عليه و سلم : أحب للناس ما تحب لنفسك تكن أعدل الناس .

قال : أحب أن أكون خير الناس .قال صلى الله عليه و سلم : كن نافعاً للناس تكن خير الناس .

قال : أحب أن أكون أخص الناس إلى الله . قال صلى الله عليه و سلم : أكثر من ذكر الله تكن أخص الناس إلى الله

قال : أحب أن يكمل إيماني .قال صلى الله عليه و سلم : حسن خلقك يكمل إيمانك

قال : أحب أن أكون من المحسنين قال صلى الله عليه و سلم : أعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك تكن من المحسنين .

قال : أحب أن أكون من المطيعين قال صلى الله عليه و سلم : أد فرائض الله تكن من المطيعين .

قال : أحب أن ألقي الله نقياً من الذنوب قال صلى الله عليه و سلم : اغتسل من الجنابة متطهراً تلقى الله نقياً من الذنوب .

قال : أحب أن أحشر يوم القيامة في النور قال صلى الله عليه و سلم : لا تظلم نفسك و لا تظلم أحداً تحشر يوم القيامة في النور .

قال : أحب أن يرحمني ربي يوم القيامة قال صلى الله عليه و سلم : ارحم نفسك و ارحم عباده يرحمك ربك يوم القيامة .

قال : أحب أن تقل ذنوبي قال صلى الله عليه و سلم : أكثر من الاستغفار تقل ذنوبك .

قال : أحب أن أكون أكرم الناس قال صلى الله عليه و سلم : لا تشك من أمرك شيئاً إلى الخلق تكن أكرم الناس .

قال : أحب أن أكون أقوى الناس قال صلى الله عليه و سلم : توكل على الله تكن أقوى الناس .

قال : أحب أن يوسع الله على في الرزق قال صلى الله عليه و سلم : أدم على الطهارة يوسع الله عليك في الرزق .

قال : أحب أن أكون من أحباب الله و رسوله قال صلى الله عليه و سلم : أحب ما أحبه الله و رسوله تكن من أحبابهما .

قال : أحب أن أكون آمناً من سخط الله يوم القيامة .

قال صلى الله عليه و سلم : لا تغضب على أحد من خلق الله تكن آمناً من سخط الله يوم القيامة .

قال : أحب أن تستجاب دعوتي قال صلى الله عليه و سلم : اجتنب أكل الحرام تستجب دعوتك .

قال : أحب أن لا يفضحني ربي يوم القيامة قال صلى الله عليه و سلم : احفظ فرجك من الزنا كي لا يفضحك ربك يوم القيامة .

قال : أحب أن يسترني ربي يوم القيامة قال صلى الله عليه و سلم : استر عيوب إخوانك يسترك الله يوم القيامة .

قال : ما الذي ينجي من الذنوب ؟ أو قال من الخطايا قال صلى الله عليه و سلم : الدموع و الخضوع و الأمراض .

قال : أي حسنة أفضل عند الله تعالى ؟ قال صلى الله عليه و سلم : حسن الخلق و التواضع و الصبر على البلاء .

قال : أي سيئة أعظم عند الله تعالى ؟ قال صلى الله عليه و سلم : سوء الخلق و الشح المطاع .

قال : ما الذي يسكن غضب الرب في الدنيا و الآخرة ؟ قال صلى الله عليه و سلم : الصدقة الخفية و صلة الرحم .

قال : ما الذي يطفيء نار جهنم يوم القيامة ؟ قال صلى الله عليه و سلم : الصبر في الدنيا على البلاء و المصائب .

قال الإمام المستغفري ما رأيت حديثاً أجمع و أشمل لمحاسن الدين و أنفع من هذا الحديث الذي جمع فأوعى .

رواه الإمام أحمد بن حنبل



اس حدیث کے شروع میں شروع میں “عن خالد بن الوليد رضي الله عنه قال“ کا لفظ موجود ھے اور آپ کے بقول اس حدیث کی سند نہیں ھے اس حدیث میں تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ثابت ھے اور دورسرا آپ کا اعتراض تھا یہ حدیث مسند احمد میں نہیں ھے غور فرمائیں اس حدیث کے آخرمیں “ رواه الإمام أحمد بن حنبل “ کو حوالہ بھی موجود ھے اور آپ نے اس حدیث کو وضع کیا ہوا کہا یعنی من گھٹرت اور جھوٹی پر یہاں تو معاملہ اور ھے اس حدیث کے شروع میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا حوالہ موجود ھے اس لحاظ سے تو اس حدیث تو صحیح ہونا چاہیے آپ نے کہا اس حدیث کو بیان کرنا جائز نہیں پر کیوں حضرت خالد بن ولید سے سند موجود ھے تو پہر جائز کیوں نہیں
پہر آپ ضعیف حدیث کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرما رھے ہیں کہ ضعیف کو لینا اور اس پر عمل کرنا جائز ھے تو پہر اس حدیث کو آپ “موضوع حدیث“ کیسے کہ سکتے ہیں اور آپ نے فرمایا (پوری زندگی کے مسائل کا حل صرف ایک حدیث میں) اگر آپ دیکھیں تو اس حدیث میں پوری زندگی کے مسائل کا حل موجود ھے تو پہر یہ کہنا جائز کیوں نہیں
 

حافظ رحمانی

وفقہ اللہ
رکن
محترم بهائی

جو لنک اضوا جی نے دیا ہے ، اس کو میں نے بغور پڑها ، اور ان کا شکریہ بهی ادا کیا ، کیونکہ اس لنک میں موجود مقالہ میں میرے موقف کی سو فیصد تائید ہے ، باقی مجهے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عربی زبان پر بالکل دسترس نہیں رکهتے والله اعلم ، کیونکہ جو لمبی عبارت آپ نے اس لنک سے پیش کی ہے ، وه تو دراصل اس حدیث کی عبارت کو پیش کرکے اس کی حقیقت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے ، نیچے کی عبارات میں اس سوال کا جواب موجود ہے ، جو آپ نے پڑها نہیں یا آپ سمجهے نہیں .والله اعلم
آپ نے کہا ( غور فرمائیں اس حدیث کے آخرمیں “ رواه الإمام أحمد بن حنبل “ کو حوالہ بھی موجود ھے اور آپ نے اس حدیث کو وضع کیا ہوا کہا الخ ) . میرے بهائی یہ کوئی حوالہ نہیں ہے بلکہ یہ سوال میں موجود الفاظ ہیں یعنی اس حدیث کو " مسند احمد " کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے ، اب اس کا جواب اسی مقالہ میں یہ دیا گیا ، خوب غور سے پڑهیں
عزو الحديث إلى مسند الإمام أحمد بن حنبل لا يصح أبدا ، بل لا يصح في أي كتاب من كتب الإمام أحمد الأخرى .
یعنی اس حدیث کو " مسند الإمام أحمد بن حنبل " کی طرف منسوب کرنا قطعا صحیح نہیں ہے ، بلکہ امام احمد کی کسی بهی کتاب کی طرف منسوب کرنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ ان کی کتب میں یہ حدیث نہیں ہے
آپ نے کہا ( اس حدیث کے شروع میں شروع میں “عن خالد بن الوليد رضي الله عنه قال“ کا لفظ موجود ھے اور آپ کے بقول اس حدیث کی سند نہیں ھے اس حدیث میں تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ثابت ھے) میرے بهائی آپ نے حدیث کی جو جو عبارت اردو میں پیش کی ہے اس میں کسی صحابی کا ذکر نہیں تها ، لہذا میری بات درست تهی ، آپ نے اس لنک میں “ عن خالد بن الوليد رضي الله عنه “ دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ یہ حدیث کی سند ہے ، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے ، اور اس مقالہ میں بهی تقریبا یہی بات لکهی ہے ،
لم يذكر لنا المستغفري رجال السند من عند شيخه أبي حامد المصري إلى خالد بن الوليد لكي يُحكم عليهم من كلام أئمة الجرح والتعديل .
یعنی أبو حامد المصري نے اس حدیث کو راویوں کا ذکر کیے بغیر خالد بن الوليد رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے
اور یہی بات میں پہلے عرض چکا ہوں
الله تعالی ہمیں اپنے صحیح وحق بات سمجهنے اورقبول کرنے اور اس پرعمل کی توفیق دے . وصلى الله وسلم على سيدنا محمد وآله وصحبه اجمعین
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ

شکریہ رحمانی بھائی آپ کا اصل میں میرے کمپیوٹر میں کچھ برابلم آرہی ھے جس کی وجہ سے میں مکمل صفحہ نہ پڑھ سکا عربی کے اکثر الفاظ آگے پیچھے تھے جس کی وجہ سے مجھے سمجھنے میں غلطی ہوئی اب بھی میری طرف الفاظ درست نہیں آرھے

باقی بحث کا مطلب یہ تھا یہ میں اپنی اصلاح کرسکوں میں خود دین کا طالب علم ہوں اس لیے میرے ذہن میں کافی اشکالات آئے ہیں جو اب تک دور نہیں ہوئے انشاءاللہ میں اپنے بھائیوں سے بات کروں گا اگر میں یہاں بات کرتا گیا تو بھت لمبی ہو جائے گی بحث اس لیے آپ کا بھت شکریہ کہ آپ نے اپنے اندازے کے مطابق مجھے سمجھانے کی بھر پور کوشش کی جس پر میں آپ کا بے حد مشکور ہوں

اللہ آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ
 

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ہم نے اپنے اکابر علماء و مشائخ سے یہ حدیث سنی ہے اور اُن کی کتابوں میں بھی دیکھی ہے اور اس حدیث کے اقتباسات بھی مختلف تحریروں و تقریروں میں دیکھے سنے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے اکابر پر مکمل یقین ہے جو متبعِ سنت تھے اور ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات میں زندگی کے ہر رُخ سے متعلق رہنمائی ملتی ہے، واقعی یہ بہت جامع ہے۔
 
Top