محروم عمل ملاح

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
’’محروم عمل ملاحوںمیں طاقت ہے نہ بل ہمت ہے نہ دم ‘‘

ناصرالدین مظاہری

میں کسی اورکو الزام نہیں دے سکتا
اپنی تاریخ کو خود قتل کیا ہے میں نے
تونے جس زہر سے بچنے کی ہدایت کی تھی
اپنے ہاتھوں سے وہی زہر پیا ہے میں نے
دل کی دنیا ہے تصاویر بتاںسے آباد
صرف ہونٹوںسے ترانام لیا ہے میں نے
کھاچکی زنگ مرے ذوق عمل کی شمشیر
راستہ خود ہی تباہی کو دیا ہے میں نے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے والہانہ عقیدت ومحبت اوران کے دین قیم کیلئے جاں نثاری ایمان کا ایک جزو ہے ، مسلمان من حیث القوم ایک دھاگے ،ایک تار بلکہ ایک بدن کی طرح ہیں ۔المسلمون کرجل واحد ان اشتکیٰ عینہ اشتکیٰ کلہ، وان اشتکیٰ راسہ اشتکیٰ کلہ(رواہ مسلم)
یہودی اورعیسائی جو آپس میںایک دوسرے کے جانی دشمن تھے (حالانکہ یہودی اندرخانہ اب بھی عیسائیوں کے ازلی دشمن ہیں) لیکن اسلام کی تیز رفتارترقی ،حلقہ بگوشِ اسلام ہونے والوں کی کثرت…یہودی تہذیب پر اسلام کے بڑھتے ہوئے اثرات …مسلم داعیان اوردانشوران کی دعوتی وتبلیغی خدمات… اورقلمی جہاد نے دنیا پرجو گہری چھاپ چھوڑی ہے اس سے یہ ازلی دشمن آپس کی رقابتوں، عداوتوںاوررنجشوں کو ’’بظاہر‘‘ بھلاکر شیروشکر ہوگئے … یہودی آواز پر عیسائیت لبیک کہتے ہوئے ہر قسم کے جانی ،مالی ،اقتصادی،انفرادی، اجتماعی اورجنگی تعاون کا یقین دلاتے ہوئے خود بھی میدان میں آگئی …یہودی لابی اپنی فطری خباثتوں،منصوبہ بند سازشوں اور خاموش حکمت عملی سے ہر قسم کے کام لیتی اورنکالتی رہی …عیسائی لابی جسے صرف دولت اورظاہری قوت پر یقین ہے وہ کھلونا بنی رہی … دنیا کے طول وعرض میںیہودی لابی عیسائیت کے ذریعہ اپنے مقاصد کی تکمیل اور’’عظیم تر اسرائیل کی تعمیر‘‘میںمنظم طریقہ سے لگی رہی …بالآخرعرب کے سینہ میں’’اسرائیلی خنجر‘‘ پیوست کردیا …لبنان ، مصر،فلسطین اورشام جیسے ممالک کو اپنی بڑی املاک سے ہاتھ دھوناپڑا …برطانیہ اورامریکہ نے عرب کے درمیان عرب ہی کی سرزمین پر اسرائیل کے ناپاک وجود کوتسلیم کرلیا …اس غاصبانہ قبضہ سے عربوں میں اضطراب کی لہر پیدا ہوئی … اسلامی درد اور فکر وتڑپ نے مسلمانوں کویہودی عزائم سے بچنے اور ارض مقدس کوآزاد کرانے پر مجبور کیاتواس ’’غاصب‘‘ نے سینہ زوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض چند گھنٹوں میں مصر کو تہہ وبالا کرڈالا …لبنان اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکا …شام اورفلسطین شروع ہی سے اس شیطان صفت یہودی لابی کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے رہے (اورآج بھی یہ سلسلہ جاری ہے )فلسطین میں جبراً در اندازی، وہاں پر غیر قانونی مکانات کی تعمیر ،عربوں کو ان کے مکانات وجائداد سے بے دخلی اورمجبوراً نقل مکانی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اوریہودی پوری ڈھٹائی کے ساتھ اَرض مقدس پر قابض ہوتے چلے جارہے ہیں… لیکن ؎
جتنی جتنی ستم یار سے کھاتا ہے شکست
دل جواں اورجواں اورجواں ہوتا ہے
یہودی پہلے پہل ہماری چشم پوشی ،مصلحت اندیشی ،موقع شناسی اورحکمت عملی سے فیضیاب ہوئے …بڑی آہستگی ،خاموشی ،رازداری اورمنصوبہ بندی کے ساتھ ارض مقدس میں عبادت وزیارت یاتجارت اورسیر وسیاحت کے بہانے قابض ہوتے چلے گئے …نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود ہمیںذلت وخواری اورمجبور ی وبے کسی کے ساتھ یا تو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی یا یہودیوں کے ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑا …یا اپنی غیرت وحمیت کو قربان کرکے بے عزتی وبے غیرتی کا سامنا کرنا پڑا …قبلۂ اول ہمارے سجدوں کو ترس گیا…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کی سب سے پہلی منزل ہمارے وجود سے خالی ہوتی چلی گئی … صلیبیوں،صلیب پرستوںاورمنکرین مسیح ومحمداپنی منصوبہ بندیوں کے ساتھ ہمیں بے دست وپا کرتے رہے … ہماری عزتیں پامال ہوئیں…عفت وعصمت کے جنازے نکالے گئے …خون مسلم پانی کی طرح بہایا گیا … مسلمانوںپرظلم وستم کے نئے نئے طریقے آزمائے گئے اورتمرد وسرکشی کا سلسلہ جو فلسطین سے چلا تھا پوری دنیا میں پھیل گیا …چیچنیامیں مسلمانوں کا قتل عام …روس میں وحشت وبربریت کی داستانِ دل خراش …کوسومیںبنت حوا کی عزتوں سے کھلواڑ…سربی درندو ں کی کہانی … نائیجریاکی سفاکی اورمسلم کش فسادات …بوسنیا کی تباہی وبربادی … ۷۵؍ہزارسے زائد مسلم لڑکیوں کی آبروریزی ……اقوام متحدہ کی کھلی ہوئی منافقت ……الجزائرمیں اسلام پسندوں کا قلع قمع…اسلامی عبادت گاہوں کے تقدس کی پامالی …برما کے مسلمانوں کی نسل کشی …بلغاریہ میں مسلمانوں کا قتل عام … ۲۰۰؍کے قریب مسجدو ں کی ڈسکوڈانس کلب میں تبدیلی…۹؍لاکھ مسلمانوں کواپنے اسلامی نام بدلنے پر مجبور کرنا…… یوگو سلاویہ کے اہل ایمان کو قتل کرنا …مساجد کو نذرِ آتش کرنا …انڈونیشیامیں بوسنیاکی کہانی کا دہرانا…۲۵؍ہزار مسلمانوں کا قتل …فلپائن ،البانیہ ،عراق ،افغانستان ،سوڈان ،صومالیہ ،یوگنڈا ،کمبوڈیا، کموچیا، اوگادین اور لائبیریاکے مسلمانوں کی تباہی وبربادی کے بعد یہ ظالم اورناپاک خونی پنجے ،ایران اورشام کی طرف بڑھ رہے ہیں ؎
دریائے سکون وراحت میں طوفان ہزاروں آئیں گے
ہستی کے مسرت خانوں پر تیغوں کے الم لہرائیں گے
ماں باپ کی آنکھوں کے آگے اولاد کے سر کٹ جائیں گے
اَرباب وطن کے سینوں میںدل لرزیںگے تھرائیں گے
ان مشکلات وپریشانیوں کا ازالہ اورناگفتہ بہ مراحل ومسائل سے نپٹنے کا حل پیش کرنے سے ہمارے قائدین ورہبران قوم عاجز وقاصر نظر آتے ہیں ،بالخصوص تنظیم اسلامی کانفرنس کے سربراہوں کی خاموشی صرف اس بات کاپتہ دیتی ہے ؎
کتاب کفر در بغل خدا کا نام برزباں
یہ زہد ہے تو الحذر یہ دین ہے تو الاماں
دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں ؎
طوفاں ہیں کہ ٹوٹے پڑتے ہیں کشتی ہے کہ ڈوبی جاتی ہے
محروم عمل ملاحوںمیں طاقت ہے نہ بل ہمت ہے نہ دم
اگرہم دست وبازوپر انحصار کے بجائے کشتی کے چپو پرقانع ہوجائیںاگر اپنی دنیا آ پ پیدا کرنے کے بجائے اغیار کے در پر سر تسلیم خم کرنے لگیں ،اگر قوت ارادی کو کام میں نہ لاکر مصلحت پسندی کا مظاہر ہ کرنے لگیں ،اگر اپنی غیرت وحمیت اورعفت وعصمت کی پامالی کو دوسروں کے سر منڈھنے لگیں ،زبان کو بولنے ، ہاتھوں کو ہلانے اورپیروں کو چلنے پر تیار نہ کرسکیں تو اسلام کی سربلندی ،ایمان کی باد بہاری ،دین وشریعت کے عروج وارتقاء کی ضمانت کیونکر دی جاسکتی ہے ؟ ؎
عروج سے بہرہ ور نہ ہوگی کبھی حیات منافقانہ
زباں پہ اسلام کا وظیفہ مگر خیالات کافرانہ
اسلامی ممالک کے مصلحت اندیش سربراہان قوم …تنظیم اسلامی کانفرنس کے بے زبان قائدین … قدرتی وسائل پر ناگ بن کر بیٹھنے والے زعماء ملت …سب کو اس بات کا فکر ہے کہ’’ صاحب بہادر امریکہ‘‘ ہم سے ناراض نہ ہوجائے …عراق اورکویت جنگ کی آڑ میںبیشتر عرب ممالک میں امریکی افواج کا تسلط … عراق میں اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کوداخلے کی کھلی اجازت …افغانستان میںشمالی اتحاد کے ذریعہ طالبان حکومت کے درمیان خانہ جنگی اورشمالی اتحاد کی ہر ممکن مدد…محض ایک امریکی جھڑکی پر لیبیا کا اپنا ایٹمی فارمولہ ہوائی جہاز میں بھر کر امریکہ بھیج دینا … عربوں کا امریکی افواج پر اعتماد کرلینا اورڈالروں میںان کامکمل صرفہ برداشت کرنا … پاکستان کا متزلزل رویہ اورایران کااقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے لئے سہولتوں کا فراہم کرنا … یہ اوراس قسم کی سینکڑوں مجرمانہ غلطیاں … ہمارے مسلم قائدین …موقع بہ موقع… کرتے چلے آئے ہیں چنانچہ جنگل کی آگ کے مانندیکے بعددیگرے اپنی غلطیوں کاخمیازہ بھگتنے کا سلسلہ ہنوزجاری ہے ۔
انفرادی طاقت کوئی معنی نہیں رکھتی …اجتماعیت ہی اس مشکل کا کامیاب حل ہے …اگر جملہ اسلامی ممالک متحد ہوکراس صہیونی سیلاب کوروکیں تو کامیاب ہوسکتے ہیں …لیکن بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر ایک میدان میں کودنے کی سوچتا ہے تو خود ہمارے درمیان موجود اسرائیلی اوریہودی ایجنٹ اس کی اطلاع پیشگی پہنچاچکے ہوتے ہیں … اسرائیل فلسطین جنگ …اسرائیل لبنان جنگ …اسرائیل شام جنگ اوراسرائیل مصر جنگ میںیہی ہوا ہے اور آج بھی مسلمانوں کے اہم اداروں اورفعال ومتحرک تنظیموںمیںیہودیوں کے ایجنٹ ہر جگہ موجود ہیں۔فیاأسفا ؎
گل چینوں کا شکوہ بے جا، صیادوں کا ذکر فضول
میرے چمن کے مالی عامرؔ صیدِ نفاق باہم ہیں
بالفاظ دیگر ؎
بہت ستم زدہ ہوں میں خود اپنے برگ وبار سے
حقیقتاً حریف ہیں نہ بجلیاں نہ آندھیاں
اگر ہم اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں، اگر ہم گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی کو بہتر سمجھتے اور جیناچاہتے ہیں تو ہمیں باہمی نفاق ،اندرونی کدورتوں ،ذاتی رنجشوں اوررقابتوںکی خلیج کو پاٹنا ہوگا ؎
بڑھنا ہے اگر اس میداں میں ہر غم کو بھلا کر آگے بڑھ
ایمان ویقیں کو قسمت کی تحریر بناکر آگے بڑھ
آہنگ نفس سے غلغلۂ تکبیر اٹھاکر آگے بڑھ
اپنے ہی دھڑکتے سینہ پر ایک زخم لگاکر آگے بڑھ
وہ نعرہ لگاتو میداں میں شیروں کے بھی سینے پھٹ جائیں
ہرجنبش چشم ابروسے شیطان کے لشکر کٹ جائیں
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
معاشرہ کے بگاڑمیں موبائل فون کا حصہ

معاشرہ کے بگاڑمیں موبائل فون کا حصہ
ناصرالدین مظاہری

سائنس اورجدید ٹکنالوجی کے اس دورمیں جہاںعلمی ،دینی ،تعلیمی ،تجارتی ،معاشی ،صنعتی اورسائنسی ایجادا ت واکتشافات میں زبردست ترقیات ہوئی ہیں،وہیں ٹکنالوجی اوراقتصادی خوش حالی وفارغ البالی نے بھی اپناایک مقام اورمخصوص شناخت بنالی ہے ،ماضی کے پچاس سالوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ،اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ،خوبصورت ترین مکانوں،بنگلوں،کوٹھیوںاورکشادہ دالان وگیرج ،مہنگی کاروں اورگاڑیوں،فلک بوس عمارتوں،ہواؤںسے باتیں کرتے ہوئے فضاؤںمیں تیرنے والے جہازوں، دورمار میزائیلوں،راکٹوں، وی سی آراورڈش انٹیناسے گزرکرفحش اورمکروہ سی ڈیز(C.D.)اورایٹم بم ،انٹرنیٹ اورکمپیوٹرسسٹم سے بھی آگے بڑھ کرپیجر،سیلولر،فون اوراب موبائل نے تہذیب جدید پروہ اثر ڈالا ہے کہ اس کے مسموم اورمکدرماحول سے قدیم تہذیب بھی متأثرہوئے بغیرنہ رہ سکی۔
موبائل فون امراء ،رؤساء ،وزراء اورساہوکاروںسے گزرکر عام انسانوںبلکہ مزدورپیشہ طبقات میں بڑیتیزی اوربرق رفتاری کے ساتھ داخل ہورہا ہے ۔
موبائل کمپنیاںاپنی تجارتوںکو چمکانے اوردوکان کو بڑھانے کیلئے ماحول اورتہذیب کو گندی ، عریاں، فحش، اورشرمناک مناظرسے آلودہ کرنے میںایک دوسرے کومات اورشکست دینے کے لئے بے چین وبے قرارہیں ، عام گذرگاہوں،پارکوں،ہوٹلوں،پبلک جگہوں،چوراہوںاورنمایاںمقاما ت ہوائی اڈوں،بس اسٹیشنوں اور ریلوے اسٹیشنوںکو بھی ایسے شرمناک مناظرسے نہیں بخشا گیا ہے ،فحش تصاویروالے موبائل سیٹ ، انٹرنیٹ سے جڑے ہوئے موبائل کنکشن اورانٹرنیٹ کے ذریعہ پوری دنیامیں پھیلنے والی بے حیائی وبے شرمی سے ہر سنجیدہ فرد بے چین اورپریشان ہے ۔
موبائل کی ایجاداورہر کس وناکس تک اس کی رسائی نے معاشرت پر بڑا گہرا اثر چھوڑا ہے اورجدیدتہذیب اورکالج کی مخلوط تعلیم نے تو سونے پہ سہاگہ کاکام کیا ہے ،اب والدین کے ساتھ ساتھ لڑکوںاورلڑکیوںبلکہ چھوٹے بچوںکے پاس بھی موبائل پہنچ چکا ہے ۔
ماضی قریب میں گھرمیں اگرفون کی گھنٹی بجتی تھی تو اس کو کسی عورت یا گھر کی لڑکی نہیں اٹھاسکتی تھی کیونکہ اس وقت تک عورت کی قدرومنزلت تھی ،اس کاوقار ودبدبہ تھا ،اس کی عفت وعصمت کا احساس موجزن تھا اوراس کی آوازکو بھی ’’عورت ‘‘سمجھاجاتاتھا لیکن آزادیٔ نسواںکے فریب ،تہذیب جدیدکے مسموم ماحول ،کالج کی مخلوط تعلیم اوراخلاق سوزکتابوں،رسالوںاورمیگزینوںکی بدولت ؎
جو بدنامی جنوں سے ذوق کی ہے
تو شہرت بھی تری نسبت سے ہوگی
اورحضرت اکبر الہ آبادی مرحوم کی زبان میں ؎
شمشیر زن کو اب نئے سانچے میں ڈھالئے
شمشیر کو چھپائیے زن کو نکالئے
حجاب ونقاب ،عفت وحیا اورشرم وجھجھک رخصت شد،احباب ہوں ،اغیارہوں،اپنے ہوں، پرائے ہوںکسی سے بھی گفتگومیں نہ تو شرعی حدودوقیودرہیںنہ ہی باتوںمیں سختی ودرشتی رہی ،لگاوٹ ،پیار،تواضع وانکسارسے باتیںکرنا ترقی کی معراج سمجھا اورتصورکیاجانے لگا اوراس آزادی کو ملکی وقومی ضرورت سمجھ کر اپنے ذہن ودل کو فریب دیا جاتا رہا ہے ؎
کس طرح پردے میں رہے اے شیخ عورت اک طرف
سارے خیالات اک طرف ،ملکی ضرورت اک طرف
مشرق کے واعظ اک طرف،مغرب کی زینت اک طرف
عقلی دلیلیںاک طرف اوردل کی رغبت اک طرف
سنجیدہ فکر اور شعوررکھنے والے بڑوں ،بزرگوںکی طرف سے نئی نسلوںکو اگر کچھ اخلاقی باتیں بتلائی اورگُرکی باتیں سکھائی جاتی ہیں تو نئی نسل ان ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے الٹے ان کا مضحکہ اڑاتی ہے کیونکہ وہ جس تہذیب میں پلے اوربڑھے ہیں وہاںکا ماحول یہی تھا وہاں کی تعلیم یہی ہے کہ ؎
لطف امروز اورہے اور فکر فردا اور ہے
راہ دنیا اورہے اور راہ عقبی اور ہے
نوجوانوں سے بزرگوں کو نہ کیوں ہو اختلاف
چشم بینا اور ہے چشم تماشہ اور ہے
مغربی تہذیب کی مخلوط تعلیم نے اسلامی تہذیب وتمدن پر زبردست حملہ کیا ہے ،عوام الناس کے ساتھ ساتھ سنجیدہ وباشعورطبقہ اورپڑھا لکھا حلقہ بھی ’’دام ہم رَنگ زمیں‘‘ہوکرہواؤںکے دوش پراڑاجارہا ہے ،زبان میں تبدیلی ، لباس میں تغیر،اخلاق وعادات میں فرق اوررہن سہن میں تفاوت سے کس کو انکارہوسکتا ہے ،اپنے رکھ رکھاؤمیں تبدیلی ،گھروں میںڈِش انٹینااورٹی وی وغیرہ کے وجود کو یہ کہہ کرخود فریبی میں مبتلاہوا جارہا ہے کہ ’’بچے مانتے نہیں‘‘لیکن یہ تشنہ جواب کیا آخرت میں بھی کام دے سکے گا ؟اکبر الہ آبادی نے بہت خوب فرمایا تھا ؎
مغربی ذوق ہے اور وضع کی پابندی بھی
اونٹ پر چڑھ کر تھیٹر کو چلے ہیں حضرت
حضرت اکبر نے اپنی دوراندیشی سے عہد حاضر کی ترقی کے پیچھے تنزل کی لہریں،پھولوں میںموجودکانٹوںکی چبھن ،احباب کے مغربی چلن اورکردارکی پستی میں انسانی گرفتاری کو دیکھ کر بہت پہلے فرمادیا تھا کہ ؎
پھولوں میں بھی کانٹوں کی چبھن دیکھ رہا ہوں
احباب کا موجودہ چلن دیکھ رہا ہوں
کردار کی پستی میں گرفتار ہے انساں
ڈھلتے ہوئے سورج کی کرن دیکھ رہا ہوں
زنا،شراب ،نغمہ ورقص ،عیش ونشاط ،ٹیلی ویژن ،ڈش انٹینا،ٹی وی ،وی سی آر،ریڈیو،آڈیو،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے شانہ بشانہ موبائل کی ہولناکیاںاورہلاکت آفرینیاںاپنی منزلوںکو تجاوزکرچکی ہیں ۔
اب موبائل فون صرف بات کرنے کا ایک آلہ نہیں بلکہ بیک وقت فون بھی ہے ،کیمرہ بھی ،ریڈیوبھی ہے ، ایف ایم بھی ہے ،آرورلڈبھی ہے ،انٹرنیٹ سسٹم بھی ،ڈاک بھی ہے اورمکاتبت ومراسلت کا ذریعہ بھی ،ٹی وی بھی ہے اورڈائری بھی ،گھڑی بھی ہے اورالارم بھی ،ریمائنڈربھی ہے ،کیلکولیٹربھی ،ٹیپ ریکارڈبھی ہے اورکھلونا بھی ،غرض انسانی طبائع کو جس چیزسے دلچسپی ہواس کاسامان ایک چھوٹے سے موبائل میں فراہم ہے ؎
ابر بہار قوس و قزح سرخیٔ شفق
سب جلوہ زا ہیں زہرہ نگاروں کے شہر میں
موبائل کمپنیاںبھی طرح طرح سے نئی نسلوںکو گمراہ کررہی ہیں ،مثال کے طورپر ایک لوکل موبائل کمپنی ہے ہچ(Hutch)جس کی طرف سے جاری کتاب(Book) میں ایک میزپرایک لڑکے اورایک لڑکی کو بالکل خاموش بیٹھے دکھایاگیا ،دونوںایک دوسرے سے بات کرنے میں حجاب محسوس کررہے ہیں لیکن موبائل کمپنی سبق دے رہی ہے کہ یہ جھجھک موبائل ختم کرسکتا ہے، اس لئے کہ وہاںآمناسامنا نہیں ہوگااوربہتر طورپرایک دوسرے کو رام کہانی سنائی جاسکتی ہے گویا ؎
میرے بھی قدم بہکے بہکے ،ان کی بھی نظر بہکی بہکی
دونوں کو محبت ہے لیکن اقرار محبت کون کرے
اور
دُور رہ کر بھی میسر ہے ہمیں قرب جمال
ان کے زانو پر ہی سرہو یہ ضروری تو نہیں
ایک اورکمپنی آئیڈیا(Idia)ہے جس نے پورے ملک میںایک فحش تصویرشائع کی ہے جس میںایک تندرست مرد اوردبلی عورت کو ایک میزپربیٹھے دکھایا گیا ہے ،دونوںکے درمیان حجاب اورجھجھک کا منظر دکھایا گیا ہے پھر دوسرے منظر میںقربت بڑھی ہے اورتیسرے میں وہی فحش حرکات وسکنات یعنی بوس وکنار۔اس فحش تصویرسے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ موبائل فون کا استعمال شرم وحیا ء کو ختم کردیتا ہے یادوسرے لفظوں میں بالکل بے شرم بنادیتا ہے ؎
دشمن لگاہے حسن بہاراں کی تاک میں
گلشن کے راستوں کو ذرا دیکھتے رہو
لسان العصر حضرت اکبرالہ آبادی کی زبان میں ؎
اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کا
طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا
اورذوق کیفی کے بقول
فطرت صیاد کا ہے یہ تقاضا طائرو
آج ہے دانہ جہاں، کل دام ہونا چاہئے
حجاب حسن کا اٹھنا ہوسمندوں کی جنت ہے
مگر ہم با اصولوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
ان کمپنیوںنے اپنی زہرناکی اوراس قسم کے فحش اشتہارات پر ہی قناعت نہیں کی بلکہ اپنے متعلقہ دفتروں اور برانچوںمیں بھی جدید تعلیم یافتہ لڑکیوںکوملازم رکھا ،استقبالیہ پر انہیں کو مقرر کیا ،دفتر میں نوواردکی رسائی ونارسائی کے لئے وہی مقررہیں،دفتروں میں آنے والے فون کو بھی وہی اٹھاتی ہیں ،
مردوںسے بغیرحجاب ونقاب کے گفتگوکا فریضہ بھی وہی انجام دیتی ہیں اورتہذیب جدید نے اسی کوآزادی ٔ نسواں قرار دیا ہے گویا ؎
شیطان نے ترکیب تنزل کی نکالی
ان لوگوں کو تم شوق ’’ترقی‘‘ کا دلادو
اس بے پردگی ،بیباک گفتگواور ناز وانداز کا کرشمہ گزشتہ سال یہاں سہا رنپور میں پیش آیا کہ ایر ٹیل کمپنی میں کام کر نے والی ایک لڑکی اپنے کسی آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی۔
ایسے شرمناک واقعات اورلوکل کمپنیوںکی طرف سے فحش اشتہارات کے لئے ہماری حکومت بھی مجرم ہے جس کی آنکھوں کے سامنے یہ سارے کھیل کھیلے جارہے ہیں ،سادہ لوح عوام،سنجیدہ طبقات ،معصوم بچے اورجوان سبھی ان اشتہارات سے متاثرہورہے ہیں اورحکومت محض ’’ٹیکس‘‘کے حصو ل اور’’جلب منفعت ‘‘کیلئے اپنی آنکھیںبند کئے ہوئے ہے ۔اورانسانیت پکاررہی ہے ؎
جادو نہ جگاؤ رہنے دو ،فتنے نہ اٹھاؤ رہنے دو
اب تاب نہیں نظارے کی،جلوے نہ دکھاؤ رہنے دو
دوسرے لفظوں میں یوں کہاجاسکتا ہے ؎
چراغوں کو نہ روشن کیجئے شہر خموشاں میں
سکوں سے سونے والوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
حکومت کو فوری طور پر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ جب پانی سرسے اونچا ہو جائے گا،جب ہر جیب ٹی وی روم اور اسٹوڈیو گھرہو جائے گی،تو پھر اس پر روک لگانا اور بند باندھنا ناممکن ہو جائیگا۔
حضرت مولانا محمد اسرا رالحق صاحب قاسمی(خلیفہ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین نوراللہ مرقدہ) نے اس جانب ارباب حکومت کو توجہ دلاتے ہو ئے لکھا ہے کہ
’’اب ایسے موبائل فون آگئے ہیںکہ جن میں ویڈیو ریکارڈنگ ہو تی ہے ،ہندستانی ارباب حکومت بہت دیر سے جاگتے ہیں،چین اور جاپان جو فی الواقع ایسی اشیاء کے موجد مانے جاتے ہیں ،اس طرح کی پر تعیش اشیاء کے منفی اثرات کا پہلے ہی نوٹس لے لیا ہے،مثال کے طور پر چین میں اس طرح کے موبائل پر ہوٹلوں اور سوئمنگ پول کے پاس پابندی لگی ہو ئی ہے ،جاپان میں تو ایسی پابندی دس سال سے لگی ہو ئی ہے ،مگر ہندستان میں ابھی اس موضوع پر بحث بھی شروع نہیں ہو ئی ہے‘‘
افضل ضیاء شہزادہ صاحب نے اخبارمشرق ۳؍اپریل ۲۰۰۵ء کے شمارہ میں’’شامت اعمال ما صورت نادرگرفت ‘‘کیعنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جس میں موبائل کی ہیبت ناکیوںکا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ ۔
اب تو ایسے موبائل فون آگئے ہیں جن میں کیمرہ اورویڈیوریکارڈنگ ہوتی ہے ،اس موبائل فون نے حالیہ دنوں میں کافی تباہی مچائی ہے ،اس سے جہاں ایک طرف لڑکے اپنی گرل فرینڈزاورعاشق اپنی معشوقاؤںکی ننگی اورعریاں تصویریں کھینچ کر بلیک میل
کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف اس سے لوگوں کی نجی زندگیوں پر تانک جھانک کیلئے دریچوں کا کام لیاجارہا ہے ‘‘
موبائل فون میں اگر یہ موازنہ کیاجائے کہ اس کے فوائد زیادہ ہیں یا نقصانات تو آدمی یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اس کے فوائد سے کہیں زیادہ نقصانات ہیں ،روپئے پیسے کی ناقدری ،فضول خرچیوںکی کثرت ، ایکسیڈنٹ کے آئے دن واقعات ،اغوا اورزناکاری کی بڑھتی ہوئی واردات ،عشق ومحبت کے لئے ہری جھنڈی ، رنگین اورسنگین تصویریں اوران کی ارسال وترسیل ،فحش اورگندے پیغامات (Massages)جھوٹ کی نئی نئی شکلیںاوراس کی کثرت ،دھوکہ ،فریب ، سازونغمات ،رنگین وسادہ فلمیں،فلمی ستاروںکی شرمناک تصویریں،گانوںاورمزامیرکی بھرمار،موبائل گھنٹیوںکے پس پردہ ہرکس وناکسکے کانوںتک گانوں کی رسائی ، موبائل سیٹ پر ایف ایم آر ورلڈ،انٹرنیٹ اورخبروں،سماچاروںکی سہولت اوران جیسی دیگر واہیات وخرافات سے مالامال موبائل فون نے بڑی برق رفتاری کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے اورتعجب یہ ہے کہ مذکورہ خرافات خواہش مندوں کو بالکل مفت مہیا کی جاتی ہیں ؎
جب حجابوںمیں پنہاں تھا حسن بتاں، بت پرستی کابھی ایک معیار تھا
اب تو ہر موڑپر بت ہی بت جلوہ گر ،اب کہاں تک بتوں کوخدا مانئے
گانوں کو سننااورسنانا ناجائز اورحرام ہے ،چاہے اس کے سازوآوازکو کتنا ہی بدل دیاجائے ،احادیث میں گانے بجانے والے سامانوں طبلہ وسارنگی،باجاوطنبورا ،ستاروبانسری تک کی ممانعت فرمائی گئی ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس ایک بچی لائی گئی جو گھنگروپہنے ہوئے تھی وہ گھنگروبجتے تھے تو آپ نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس نہ لاؤجب تک کہ اس کے گھنگرونہ کاٹ دو،اس لئے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں گھنٹی بجتی ہو۔
موبائل فون ،ٹیلی فون ،درودیوار سے مربوط گھنٹیاں،گاڑیوں کے سائرن ،گاڑیوں کی واپسی کے وقت بجنے والے میوزک ،گھڑیوں کے الارم ،میوزک اورسازوالے کارڈنیزسازوالی ٹافیاںاوراس قسم کا ہروہ سامان جس میںگانے یا میوزک کی آوازیں آتی ہوں ان کااستعمال صریح طورپرغلط ہے ۔
مفتیان کرام نے دیواروں سے ایسی گھنٹیوں کو بھی استعمال کرنے سے منع کیا ہے جس میں ’’اللہ اکبر‘‘یا ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘یا ’’برائے مہربانی دروازہ کھولئے ‘‘جیسی آوازیں آتی ہوںاس لئے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے پاک نام کا غلط جگہ استعمال ہوا تو دوسری طرف نسوانی آواز کے باعث ممنو ع قرار دیا گیا ہے۔
بچوں کے کھیلوں ،بائک وسائیکلوںاوران کے دیگر سامانوں میں بھی ایسی آوازیں فٹ کردی گئی ہیں جس سے گانے بجانے کی آواز یں آتی ہیں ان سے بھی بچنا اوراپنے معصوم بچوں کوبچانا ضروری ہے اورمجبوری کے درجہ میںایسی گھنٹیوں سے مربوط تاروںکو کاٹایا سیلو ں کو نکالاجاسکتا ہے جس پر ہرشخص قادر ہے اس کے باوجود اگر
اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو عذر گناہ بدتر از گناہ کامرادف ہوگا۔
موبائل کمپنیا ں عموماً غیر مسلم افراد کی ہیں ،جن میں بدھ مت بھی ہیں عیسائی بھی ، یہودی بھی ہیں اورہندوبھی۔ اس لئے ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ موبائل سیٹ میں گانوں اورسازوآوازکونہ فٹ کریں یہ توقع ہی فضول ہے البتہ ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاسکتی ہے کہ رنگین گھنٹیوں کے ساتھ سادہ اورسنجیدہ گھنٹیاںبھی رکھی جائیں اوربزرگو ں کی مجلسوں ،بابرکت جگہوں ،مسجدوں ودرسگاہوں اورخانقاہوں وغیرہ میں پہنچنے سے پہلے اپنے فون کو بند کرلیاجائے تاکہ ایسی جگہوں کا تقدس پامال نہ ہونے پائے اوران کا وقاربرقرار رہے ۔
اپنے فون کی طرح گاڑیوں کے ہارن وغیرہ کو بھی بدلا جاسکتا ہے ،صرف توجہ کی ضرورت ہے ،سب کچھ ممکن ہے لیکن ع۔ توہی اگر نہ چاہے بہانے ہزا ر ہیں
کوشش کی جائے کہ اپنی اولادبالخصوص بچیوں اورعورتوں کوموبائل کی اس وبا سے دوررکھاجائے کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ،نوجوان نسلوں کے اخلاق کو بربا د وتباہ کرنے میںموبائل کا بہت زیادہ دخل ہے ۔
گذشتہ دنوںدہلی کے ایک بڑے کالج میںایک طالب علم (Student)نے ایک طالبہ کی فحش اورشرمناک تصاویرکھینچ کررنگین فلم بنادی تھی جس پر میڈیا نے بہت زیادہ آوازے کسے ،حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی بھرپورکوششیں کیں،اس لئے کالج میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات ،مدرسوں اوراسکولوں میں زیر تعلیم بچوں نیزگاڑی ڈارئیوروں کے لئے بھی موبائل بہت مہلک ثابت ہوا ہے ،طلبہ کی زیادہ تر توجہ موبائل پر مرکوز ہوکر رہ جاتی ہے ، تعلیم کاستیا ناس ہوجاتا ہے ،اسی طرح موبائل فون کے باعث آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔
سائنسی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات پایہ ثبوت کوپہنچ چکی ہے کہ موبائل فون منشیات کی طرح صحت کے لئے بھی نقصان دہ ہے اورمستقل ۱۵سال تک استعمال کرنے سے دماغ میں ٹیومر(رسولی)کے ہونے کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔اس کے علاوہ موبائل فو ن کی شعائیںبھی بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں ،گذشتہ دنوںبنکاک میںموبائل فون میں دھماکہ ہونے کے سبب ایک صارف بری طرح زخمی ہوگیا تھاجس کی خبر کامتن درج ذیل ہے ۔
بنکاک :۱۴؍مارچ (آئی اے این ایس)تھائی لینڈ میں نوکیاکے موبائل کااستعمال کرنے والا ایک صارف ہینڈ سیٹ میں دھماکہ کے سبب پوری طرح زخمی ہوگیا تھا،اب اس صارف نے اس کیلئے دنیا کی سب سے بڑی موبائل فون بنانے والی کمپنی نوکیا پر25ہزارڈالر(تقریباً دس لاکھ پچاس ہزارروپے)کا دعوی کرتے ہوئے مقدمہ دائر کردیا ہے ۔چینی خبر رساں ایجنسی ژنہوانے بتایا کہ پراسیت نامی شخص کے موبائل فون میںاس وقت دھماکہ ہوا جب وہ ہائی پاور والے بجلی کے تاروں کے پاس کام کررہا تھا اس وقت موبائل اس کی قمیص کی اوپرکی جیب میںتھا اچانک موبائل فون میں گھنٹی بجی اوراس کے فوراً بعد اس میں دھماکہ ہوگیا اس دھماکہ کے سبب پراسیت کاجسم بری طرح جل گیا تھا اوراس کے بائیں پیر کی چار انگلیاں بھی کاٹنی پڑی تھیں۔(راشٹریہ سہارا ۔۱۵؍مارچ ۲۰۰۵ئ)
اس کے علاوہ ذہنی اوراعصابی تناؤ،نیند کے اوقات میں تبدیلی ،دماغی خلیات کو نقصان ،سامنے کی جیب میں رکھنے سے براہ راست دل پر اثر،پینٹ کے پیچھے والی جیب میں موبائل رکھنے سے ۳۰فیصد مادہ منویہ کے جراثیم میں کمی ، حافظہ کی کمزوری ،نسیان ،قوت فکر کا متاثر ہونااوراس قسم کے دیگر امراض کے پیدا ہونے کا قوی اندیشہ اورخدشہ ہے ۔
صحت کے عالمی مرکزی اداروں،حکومت اورسنجیدہ فکر رکھنے والوںکوموبائل کے ذریعہ پھیلنے والی بیماریوں کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے ،دوسری طرف تہذیب ومعاشرت کے علمبرداروں ،اصلاح معاشرہ کا فریضہ انجام دینے والوں اورامر بالمعروف اورنہی عن المنکرکی خدمت کرنیوالوں کو بھی فوری طورپراس جانب بھرپورتوجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
 
Top