خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
ناصرالدین مظاہری
سلسلۂ تھانوی کے زاہدشب زندہ دار،فکر رشیدوخلیل واشرف اورسعیدی کا درّ شاہوار،تقویٰ وتدین ، عبادت وریاضت ،توکل وقناعت اوراخلاص وللہیت کا شاہکار،عظیم تعلیمی ،تربیتی ،دعوتی ،تبلیغی ،روحانی اورعرفانی ادارہ مظاہر علوم سہارنپورکے ہونہارقابل فخرفرزندحضرت مولانا مفتی سعید احمداجراڑوی کے لخت جگر،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریامہاجر مدنی اورمناظر اسلام حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رام پوری کے منظورنظر،فقیہ الاسلام حضرت مولانا شاہ مفتی مظفر حسین ؒ کے برادراصغر اورمظاہر علوم (وقف)کے موجودہ ناظم ومتولی حضرت مولانا محمدسعیدی مدظلہ کے والدبزرگوارادیب الہندحضرت مولانا اطہر حسین اجراڑوی ۲۶؍جمادی الاخریٰ ۱۴۲۸ھ م ۱۲؍جولائی ۲۰۰۷ء جمعرات کیشب فجر سے قبل مولائے حقیقی سے جاملے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ؎ناصرالدین مظاہری
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
حضرت مولانااطہر حسین ؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ،علوم عالیہ وآلیہ پریکساںدرک رکھنے والے جید عالم دین تھے ،عظیم علمی وروحانی خانوادہ کے چشم وچراغ ہونے کے باوصف وہ روحانیت اورللہیت کے خدا معلوم کتنے سمندرپئے ہوئے تھے ،سلوک اورتصوف ان کی گھٹی میں سمایا ہوا تھا ،آپ تفسیر وحدیث، فقہ ومنطق ، ہیئت وریاضی ،طب وحکمت ،تاریخ وفلسفہ ،بلاغت ومعانی ،بدیع وبیان اورادب عربی کے شناورتھے ۔
ذی قعدہ ۱۳۵۲ھ جمعرات کی شب میںسہارنپورمیں پیدا ہوئے،والد ماجد حضرت مولانا مفتی سعیداجراڑوی ؒ نے اطہر حسین نام تجویز فرمایا ،چار سال کی عمر میں دینی تعلیم میں لگائے گئے ،والد ماجد حضرت مفتی سعید احمد صاحب ؒ نے قرآن مجید حفظ شرو ع کرایا البتہ تکیل حضرت حافظ عبد الکریم مرزاپوریؒ کے پاس بارہ سال کی عمر میںکی ۔
درس نظامی کے ابتدائی درجات کی اہم ترین کتابیں حضرت والد ماجد اوربرادرِ اکبرفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین ؒ سے پڑھنے کے بعد ۱۵؍شوال المکرم ۱۳۶۸ھ م ۱۱؍اگست ۱۹۵۹ء میں پندرہ سال کی عمر میں مظاہر علوم میں داخل ہوئے اورپہلے سال شرح جامی ،کنز الدقائق ،اصول الشاشی،قطبی ،میر قطبی ،تلخیص المفتاح پڑھ کر دوسرے سال ۱۳۷۰ھ میںمختصر المعانی ،سلم العلوم ،شرح وقایہ ،نورالانوار،ہدیہ سعیدیہ ،مقدمہ جزری اوررشیدیہ پڑھیں۔
۱۳۷۱ھ میںجلالین ،ہدایہ اولین ،مقامات حریری ،شاطبی ،سراجی ،سبعہ معلقہ اور۱۳۷۲ھ میںبیضاوی ، ہدایہ ثالث ،دیوانِ متنبی ،مشکوۃ ،مقدمہ مشکوۃ ،شرح نخبۃ الفکر ،عروض المفتاح ،کشاف،حماسہ اورمدارک پڑھنے کے بعد ۱۳۷۳ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھا ۔
آ پ نے بخاری شریف اورابوداؤد شریف شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریامہاجر مدنی ؒ سے مسلم شریف حضرت مولانا منظوراحمد خان سہارنپوری ؒ سے،طحاوی شریف مناظر اسلام حضرت محمد اسعد اللہ رام پوریؒ سے ،ترمذی مع شمائل ،در مختار،رسم المفتی اپنے والدماجد سے پڑھیں ۔
آپ کے دورۂ حدیث شریف کے خاص رفقاء میں حضرت مولانامفتی عبد العزیزرائے پوری ؒ،حضرت مولانا محمد الیاس بجنوری،حضرت مولانا مفتی منظوراحمد جون پوری ،حضرت مولانا محمدموسیٰ برمی اورحضرت مولانا محمد یوسف برمی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔
۲۰؍سال کی عمر میںجس وقت مظاہر علوم میں بیضاوی وغیرہ کے طالب علم تھے ،آ پ کے والد بزرگوار نے مشہور عالم دین مولانا عبد الاول راسخ قاسمی اجراڑوی ؒ کی صاحبزادی سے نکاح طے فرمادیا تھا ۔
۱۲؍شعبان ۱۳۷۲ھ مطابق ۶؍اپریل ۱۹۵۴ء کومولانا مفتی سعید احمد اجراڑوی ؒ کی قیادت اورمحترم حاجی محمدعرفان عرف حاجی منی کی معیت میںصرف تین افرا د پر مشتمل مختصر اورسادہ بارات اجراڑہ کیلئے روانہ ہوئی۔
اجراڑہ کے معروف مدرسہ جامعہ گلزارحسینیہ کا سالانہ اجلاس تھا ،اکابر علماء وصلحاء جلوہ افروز تھے ،شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی ؒنے نکاح پڑھایا ،مہر فاطمی مقررکیا اورخود اپنے دست مبارک سے چھوارے لٹاکر سنت نبوی کو زندہ فرمایا ۔
دورۂ حدیث شریف کے بعد ۱۳۷۴ھ میں درجہ فنون میںداخل ہوکر ملا حسن ،رسم المفتی ،میبذی ،در مختار، ملاجلال ،توضیح وتلویح،مسلم الثبوت ،شرح عقائد مع خیالی اورہدایہ رابع پڑھ کرفار غ ہوئے ۔
فراغت کے فوراً بعد ۱۳۷۵ھ میں معین مدرس مقررہوئے اور۱۳۷۷ھ میںمستقل استا ذ عربی مقر ر کئے گئے ۔
یوں تو درس نظامی کی تقریباً ساری کتب کے پڑھانے کا ملکہ ومہارت رکھتے تھے لیکن عربی ادب بالخصوص قدیم عربی پر جس قدر گہری بصیرت اوردرک تھا اس کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کی بعض عربی تحریرات کو پڑھ کر نامور عالم دین اورعربی ادب کے معروف ادیب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اوراپنی خصوصی مجلس میںفرمایا کہ تعجب ہے ! اس جدید دورمیںقدیم عربی ادب کااتنا بڑا عالم موجود ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قیافہ اور تعبیرات کا بھی علم عطافرمایاتھا،کشف وکرامات کے توسیکڑوں واقعات عوام وخواص کی زبان زدہیں،حاضرجوابی اوردانائی وفطانت میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔
آپ کے اساتذہ خصوصاً شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ ،حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رام پوریؒ ، فقیہ اعظم حضرت مفتی جمیل احمد تھانویؒاورمفتی ٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ جیسے اساطین علم نے بھی بعض علمی سلسلہ میںآپ سے رجوع کیا ہے اورآپ کے جواب باصواب پراعتماد فرمایا ہے ۔
مظاہر علوم کی تاریخ ،شخصیات ،حالات وشؤن،مزاج ومذاق ،مسلک وروایات اوراس کے اقدار کے مکمل پاسدا ر تھے ،انہیں جس قدر اپنی مادر علمی سے لگاؤ اورمحبت تھی اس کی نظیر میں نے بہت کم دیکھی ۔
اپنے اکابر واسلاف خاص کر حکیم الامت مجد د الملت حضر ت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی تعلیمات کے عاشق تھے ،ہم لوگوں کو حضرت تھانویؒ کی کتابوں،مواعظ وملفوظات اورقلمی تبرکات کے پڑھنے کا حکم عموماًدیتے رہتے تھے ۔چنانچہ کبھی کبھی فرماتے تھے کہ
’’حضرت اقدس مولانا تھانوی ؒ کے بارے میںان کے ملفوظات اوردیگر مختلف ارشاد ات تصنیفات وتالیفات دیکھنے اورپڑھنے کے بعد میرادلی تأثر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم وعقل دونوں کو آپ کیلئے اس درجہ رام فرمادیا تھا کہ یو ں محسوس ہوتا ہے کہ گویا دونوں میں سے ہر ایک آپ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ملتجی ہے کہ حضرت مجھے اختیار فرمالیں اورحضرت اپنے منشاء کے مطابق جس کو چاہتے ہیں اختیار فرمالیتے ہیں ۔
آپ نے حضرت تھانویؒ کے مواعظ وملفوظات کے بارے میں اپنا ایک تاثراس طرح ذکرفرمایاکہ
’’حضرت تھانویؒ کے ملفوظات کوعقیدت کے ساتھ پڑھنے سے عقل کا انجلاہوتاہے، دینی فہم بڑھتی ہے،تفقہ رونماہوتاہے اور قاری کا ایسا مزاج بن جاتاہے کہ اگرکوئی مسئلہ پیش آجائے جس کا حکم معلوم نہ ہوتب بھی ذہن نقطۂ استقامت سے نہیں ہٹتا‘‘
زہد وقناعت کی تصویرمجسم ،صبر ورضا کے پیکر،خلوص وایثارکے کوہِ گراں،عبادت وریاضت میں بے مثال ، ذکروتلاوت میں لاثانی اورآہِ سحرگاہی میں اپنی مثال آپ تھے ،آپ کی زاہدانہ زندگی ،فقیرانہ شان ،سادہ اوربے تکلف غذا ولباس کو دیکھ کر اکابر کی یادتازہ ہوتی تھی ،آپ کے پرنورچہرے کو دیکھ کر حقیقت میں خدا یاد آتا تھا ؎
خدا یاد آئے جن کو دیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل سبحانی
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
تقویٰ کی زندگی گزارتے تھے اورہر کسی کو متقیانہ زندگی بسر کرنے کی ہدایت فرماتے تھے ،دفتر مدرسہ قدیم کی سہ دری میں پوری زندگی تعلیم دیتے رہے لیکن کبھی بھی مسجدکا پنکھا استعمال نہ کیا،مشکوک اورمشتبہ مال سے ہمیشہ اجتناب کیا ،اپنے بچوںکو بھی اپنے نقش قدم پر چلنے کاخو گر بنایا،مجلسی زندگی سے ہمیشہ کنارہ کش رہے ، بھیڑبھاڑ،دھینگامشتی ،ہٹو بچو ،شوروشغب اورجلسے جلوس سے آپ ہمیشہ بچتے تھے ،انشاء وادب اردو ،عربی اورفارسی نظم ونثرپر یکساںقدر ت رکھتے تھے لیکن تقریراوراسٹیج کے لئے آپ نے خود کو کبھی تیار نہ کیا ۔
سلوک وتصوف سے انہیں عشق تھا ،فقربوذرکی شان نمایا ں تھی ،دولت وثروت کو کبھی پسندنہ کیا ،اپنے والد کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے رکھا اور حب مال وحب جاہ سے نفرت کرتے رہے ۔
اسفارسے بھی آپ کو طبعی طورپرنفرت تھی لیکن مظاہر علوم کے لئے ابتدائی تدریس کے دور میں بعض ملکی اسفاربھی فرمائے ،اخیر عمر میں دو ایک بار شدید اصر ار وتقاضوں کی بناء پر برما بھی تشریف لے گئے ۔
قرآن کریم کی تلاوت کا کثرت سے معمول تھا ،میں نے فرصت کے لمحات میں آپ کو عموماً قرآن کریم کی تلاوت کرتے دیکھا ہے ،ذکر وعبادت آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی ،فرض نمازیں،تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کامعمول تھا اس کے علاوہ تہجد،چاشت ،اوابین ،اشراق ،صلوۃ التسبیح حتی کہ تحیۃ الوضو،تحیۃ المسجد،صلوۃ الحاجۃ اوردعا ومناجات بھی پابندی کے ساتھ فرماتے تھے ۔
عارفانہ اشعار بہت درد اورتڑپ کے ساتھ پڑھتے تھے ،عربی اشعارکے پڑھنے کا اندازواسلوب بڑا والہانہ ہوتا تھا ۔ارد و ادب کو وہ تیسرا درجہ دیتے تھے جب کہ عربی ادب کو اولیت اورفارسی ادب کو ثانوی درجہ دیتے تھے ۔
مقامات حریری ،دیوان متنبی ،سبعہ معلقہ کے اکثرحصے انہیں زبانی یاد تھے اوران کتابوں کادرس دینے کا قدیم سے معمول تھا ۔
آپ نے فتاویٰ کی بھی مشق کی تھی اوردو بار رسم المفتی اوردر مختار پڑھ کر اپنی فقہی بصیرت کو جلا واستحکام بخشا تھا ،فقہ وفتاویٰ پر آپ بڑی نظر رکھتے تھے ،حنفی مسلک کے جزئیات پر بھی اورمبادیات فقہ پر بھی دسترس حاصل تھی ۔
فتاویٰ مظاہر علوم کی جلد اول جو حضرت فقیہ الاسلام مفتی مظفرحسین صاحب نے اپنے دورِ اہتمام میں شائع کرائی تھی ،موصوف نے غائرانہ مطالعہ فرماکر تصحیح وترتیب میں اہم کردار ادا فرمایا ،اسی طرح اپنے والد ماجد کے وہ فتاویٰ جو مظاہر علوم سے جاری ہوئے ان کی ترتیب جدید ،تنقیح وتخریج اورتعلیق وتحقیق میں بھی آپ کی محنت شاقہ کا بڑا حصہ ہے ۔
’’فقیہ الاسلام نمبر ‘‘جو مظاہر علوم (وقف)کے علمی دینی ترجمان ماہنامہ آئینۂ مظاہر علوم کا خصوصی شمارہ ہے اورتقریباً ۵۰صفحات پرمشتمل ہے اس کی ترتیب ودرستگی اورتصحیح میں خصوصی دلچسپی فرمائی ۔
آپ ؒ کی پہلی اولادزبیدہ کی ولادت ۵؍صفر۱۳۷۷ھ م ۲؍ستمبر۱۹۵۷ء یکشنبہ کو ہوئی (حضرت مدنی ؒ ،حضرت مفتی سعید احمداجراڑوی اورحافظ حسین احمد اجراڑوی کا سن وفات بھی یہی ہے )۔
آپ کے دو صاحبزادے محترم مولانامحمد سعیدی مد ظلہ العالی اورعزیزی مولوی احمد یوشع سلمہ اللہ اورتین صاحبزادیاںہیں جن میں سے پہلی اولاد یعنی زبیدہ کا وصال رمضان ۱۴۹۴ھ میںہوگیا تھا باقی دو صاحبزادیاں بالترتیب مولانا محمد یعقوب بلند شہری اورقاری شکیل احمدصاحبان سے منسوب ہیں۔
مولانا نے تین بار حج بیت اللہ کیا ہے ،پہلا حج ۱۹۹۳ء میں اپنے داماد مولانا محمدیعقوب صاحب کے ہمراہ ، دوسرا حج ۲۰۰۵ء میں ۲۱؍افراد پر مشتمل کارواں کے ہمرا ہ اورآخری حج ۲۰۰۶ء میںکیا ۔
مظاہر علوم کی ۵۳؍سالہ خدمات میں اہل مدرسہ کو کبھی آپ نے کسی شکایت کاموقع نہیںدیا نیز آپ نے اپنے والد ماجد کی وصیت کے مطابق کبھی کسی کتاب کے پڑھانے اورتنخواہ کے بڑھانے کی درخواست نہیں دی اسی طرح آپ نے مظاہرعلوم کے ضابطہ وقانون کے باوجودکبھی رخصتوں کامعاوضہ نہیں لیا۔
ہدایا اورتحائف کے قبول کرنے میں بہت محتاط تھے ۔ گرم مزاجی اورسختی مشہور تھی لیکن راقم الحروف نے بریشم کی طرح نرم ہی پایا ،بہت شفقت فرما تے تھے ،کبھی کبھی نقدہدیہ بھی عنایت فرماتے تھے لیکن اصولوں کو بڑے پابند تھے اوربے اصولی کو ناپسند فرماتے تھے ،آپ نے ۷۶؍سال کی عمر پائی (آپ کے برادر اکبراورمشفق استا ذ ومربی فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفرحسین ؒ نے بھی ۷۶؍سال کی عمر پائی تھی )پیرانہ سالی کے علاوہ کوئی مرض نہیں تھا،انتقال سے ایک دن پہلے بھی باقاعدہ اسباق پڑھائے ،عصر کے وقت سرمیں درد محسوس ہوا اوریہی درد چند گھنٹوں کے بعد دماغی رگ پھٹنے کاباعث ہوابالآخرخانوادۂ سعیدی کا یہ ضوفشاں ستار ہ جو ۷۶؍سال سے پہلے طلوع ہوا تھا غروب ہوگیا ؎
وہی چراغ بجھا جس کی لَو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
قبرستان حاجی شاہ کمال الدین کے وسیع میدان میں آپ کے فرزنددل بنداورجانشین فقیہ الاسلام حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی اورحضرت فقیہ الاسلام کے جوارمیںتدفین عمل میں آئی۔
ع۔خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
پسماندگان میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ دو بیٹے دو بیٹیاںہزاروں شاگردانِ باصفا اوردرجنوں تالیفات وتصنیفات بطوریادگار چھوڑی ہیں ۔ ؎
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب ِ خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہوجائے