حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ
ناصرالدین مظاہری
بہ ذکرش صبح ماسینا بہ فکرش شام ماایمن
مراصبحیست وہم شامے خوشاصبحے خوشاشامے
بہ عنوان نفس رنجے زغیبم می رسدامّا
بہ ہرفرمان غیبم می رسد از دوست پیغامے
ناصرالدین مظاہری
بہ ذکرش صبح ماسینا بہ فکرش شام ماایمن
مراصبحیست وہم شامے خوشاصبحے خوشاشامے
بہ عنوان نفس رنجے زغیبم می رسدامّا
بہ ہرفرمان غیبم می رسد از دوست پیغامے
نظافت اور نفاست کے پیکردلنواز،نہ کم سخن نہ بسیارگو،سخن سنج،سخن فہم،سخن داں،فقہ ،تفسیر،حدیث، معانی،مضامین،انشا’ادب،فصاحت،بلاغت،صرف ،نحو،منطق اورفلسفہ کے ساتھ ساتھ تحریروقلم کے میدان میں ماہر،قوت فیصلہ ،قوت ارادی اور مستحکم طبیعت کے مالک ،کوئی بزم ہو،کوئی انجمن ،کوئی مجلس ،کوئی محفل ہرجگہ اپنی شخصیت اور اپنی ذات میں ممتاز،اپنے معاصرین میں لائق عزت واحترام ،عظیم نسبتوں اور جلیل سندوں کے حامل،ہوشمند،ہوشیار،حاضرجواب،ادیب ابن ادیب، درس نظامی کی ہرکتاب ان کے لئے ہاتھ کی چھڑی بلکہ جیب کی گھڑی کے مانند،جدیدعربی ادب کے جیدالاستعدادعالم،صاحب کشف بزرگ حضرت مولاناشاہ عبداللیف ؒ(مقیم حال لال کنواں دہلی)فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ،ادیب بے مثال حضرت مولانااطہرحسینؒ اور حضرت اقدس حافظ محمدظفرسہارنپوری مدظلہ کے خلیفہ ومجاز،شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسین ؒ کے فرزندارجمند اورفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کے جانشین، مظاہرعلوم (وقف)سہارنپورکے ناظم ومتولی حضرت مولانا محمد سعیدی مدظلہ العالی کااگرتعارف کیاجائے توغالب دہلوی کی زبان میں صرف اتناہی کہناکافی ہوگاکہ
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلاؤ! کہ ہم بتلائیں کیا؟
۱۳۸۹ھ میں آپ کی ولادت ہوئی ’’فرحت اثر‘‘تاریخی نام ہے،لیکن ’’محمد‘‘کے نام سے عالم میں شہرت پائی اوراپنے جدبزرگوارحضرت مولانامفتی سعیداحمداجراڑویؒ کے نام نامی سے انتساب کرتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ ‘‘سعیدی‘‘کااضافہ کیا۔
ابتدائی تعلیم گھر کے ماحول میں اورحفظ قرآن کریم مدرسہ مظاہر علوم (وقف ) کے مکتب خصوصی ( سہ دری جنوبی مسجد دفتر مدرسہ قدیم) میں ہوئی( یہی وہ تاریخی سہ دری ہے جہاں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ،شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسین اورادیب دوراں حضرت مولانامحمداللہ ؒجیسی عبقری شخصیتوں نے حضرت اقدس حافظ عبدالکریم مرزاپوریؒکے حلقۂ درس میں زانوئے تلمذطے کیاتھا)حفظ قرآن کے بعد عربی اورفارسی کی ابتدائی کتابیں مختلف حضرات سے پڑھیں جس میں بڑا حصہ اپنے والد بزرگوارحضرت مولانااطہر حسینؒ سے پڑھا ، آپ کے والدماجدؒ نے آپ کی تعلیم مروجہ نصاب تعلیم سے بے نیاز ہوکراپنے مجوزہ نصاب تعلیم کے مطابق تجویزکرایاجس کا آغازندوۃ العلماء اب میں موجودبعض کتب سے ہوااورنہ صرف مختصرمدت میں تعلیمی سفرطے کرادیابلکہ استعداد سازی پر خصوصی توجہ مبذول فرمائی ،یہی وجہ ہے کہ آپ کو عربی ادب کاخصوصی ملکہ حاصل ہے۔
۱۰؍شوال ۱۴۰۶ھ بابت ۱۴۰۷ھ مطابق ۱۸؍جون۱۹۸۶ء میںمختصرالمعانی،ہدایہ اولین،مقاما ت حریری، اور نورالانوارکا امتحان دیکردوبارہ اسی جماعت میں داخل ہوکرمذکورہ بالاکتب سمیت سبعہ معلقہ پڑھیں۔
۱۴۰۸ ھ میں جلالین،ہدایہ ثالث،مشکوۃشریف،مقدمہ مشکوۃ،شرح نخبۃ الفکرپڑھ کرامتحان سالانہ میں کامیابی حاصل کی۔
۱۴۰۹ ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھ کراعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔
آپ نے ۱۴۰۹ ھ میں دورہ ٔ حدیث پڑھاہے ،قارئین کی اطلاع کے لئے یہ وضاحت نہایت ضروری ہے کہ مظاہرعلوم سہارنپورکواسی سال بدنظروں کی بدنظری کا سامناکرناپڑا اور مدرسہ کے ایک بڑے احاطہ دارالطلبہ جدیدپرمخالفین وقف نے قبضہ کرلیا،چونکہ غاصب ٹولہ کے ساتھ حضرت شیخ الحدیثؒ کی بابرکت نسبت لگی ہوئی تھی اس لئے مدرسہ کے بعض اہم اساتذہ بھی غلط فہمی اورنسبتوں کی بنیادپر حق اور حقائق کا ساتھ نہ دیکر غاصبوں اور قابض افرادکے ہمنواہوکریہاں سے چلے گئے اس اچانک حادثہ سے درس نظامی بالخصوص دورۂ حدیث شریف کے باقیماندہ اکثرکتابوں کے اسباق فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے شبانہ روزمحنت سے ختم کرائے اور پھر الحمدللہ خالی جگہوں پر لائق اساتذہ کا تقررہوا۔ان سطورکے ذکر سے مقصدہماراصرف یہ ہے کہ حضرت مولانامحمدسعیدی صاحب کے اساتذہ حدیث میں ایک ایک کتاب کے دودونام آنے پر قارئین کو خلجان محسوس نہ ہواور حقیقت واقعہ ان کے پیش نظررہے۔
آپ نے بخاری شریف جلداول کاکچھ حصہ حضرت مولانامحمد یونس صاحب مدظلہ سے اور جلداول کا باقیماندہ حصہ فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین ؒ سے ،بخاری شریف جلدثانی حضرت مولاناعلامہ رفیق احمد بھینسانویؒسے،مسلم شریف کا کچھ حصہ حضرت مولانامحمد یونس صاحب مدظلہ سے اورباقی ماندہ حصے کے علاوہ مسلم جلدثانی مکمل اورترمذی مع شمائل ،ابن ماجہ ،موطاامام مالک ؒ،موطاامام محمدؒاورطحاوی شریف فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین ؒ سے،ابوداؤدشریف اورنسائی شریف کا کچھ حصہ حضرت مولانامحمد عاقل صاحب مدظلہ سے اورہردوکتابوں کا باقی حصہ حضرت مفتی مظفرحسین ؒ سے پڑھاہے۔
۱۴۰۹ ھ کے سالانہ امتحان میںپوری جماعت میںاول نمبر سے کامیاب ہوکراہم اور وقیع کتابوں کے علاوہ منجانب مدرسہ نقد انعام سے بھی سرفرازہوئے، آپ نے مجموعی طورپر ایک سوترانوے نمبرات حاصل کئے۔
آپ کے دورۂ حدیث کے خصوصی رفقاء میں حضرت مولانامفتی عبدالحسیب اعظمی استاذمظاہرعلوم( وقف) مولانالئیق احمد اعظمی استاذبیت العلوم سرائے میراعظم گڑھ،مولانامحمد عیسیٰ بجنوری امام وخطیب جامع مسجد ومہتمم جامعہ اشرف العلوم نجیب آباداورمولاناخلیل احمد دیوااستاذفلاح دارین ترکیسرگجرات قابل ذکرہیں۔
مظاہرعلوم( وقف )سہارنپورمیں آپ کے اساتذہ میںحضرت مولاناسیدوقارعلی صاحب مدظلہ، حضرت مولانامحمد یعقوب صاحب صدرمدرس مدرسہ اورحضرت مولانامحمد قاسم صاحب خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہیں۔
مظاہرعلوم( وقف )سہارنپورسے فراغت کے بعد دارالعلو م دیوبند میں بھی داخلہ لیا لیکن تعلیمی سلسلہ وقف دارالعلوم میں جاری رکھا ،وہاںسے ۱۰ ۱۴ھ میں دورہ ٔ حدیث شریف کی تکمیل کی ۔
تدریس
فراغت کے بعد دارالعلوم شاہ بہلول سہارنپورمیں استاذمقررہوئے یہاں مختصرمدت تعلیم دینے کے بعدمدرسہ عبد الرب دہلی میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
مختلف علمااور مقتدرشخصیات کے پیہم اصرارپرفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے ۱۴۱۲ھ میں مظاہرعلوم( وقف )سہارنپورمیں بحیثیت استاذدرجہ ابتدائی عربی میںتقررفرمالیا،آپ کی صلاحیتوں اور درسی کمالات کی بنیادپر ۱۴۲۲ھ مطابق ۱۲؍اپریل ۲۰۰۱ء میں درجہ ابتدائی عربی سے درجہ وسطیٰ میں منتقل ہوئے۔
انتظامی ذمہ داریاں:
۱۴۲۳ھ میں آپ کیلئے ارباب مدرسہ نے تجویز کیاکہ صبح کے چوتھے گھنٹہ میں امور نظامت میں حضرت فقیہ الاسلامؒ کا تعاون کیا کریں ۔
اجلاس شوریٰ مورخہ۳۰؍جمادی الاولیٰ ۱۴۲۴ھ میں حضرات اراکین شوریٰ نے آپ کو نائب ناظم بنادیا۔
اسی سال ۲۸؍رمضان ۱۴۲۴ھ کوفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒ انتقال فرماگئے تونمازجنازہ سے چندمنٹ قبل لاکھوں کے مجمع نے اعلان کرکے آپ کو فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒکاجانشین بنالیا۔جس کی توثیق معزماراکین شوریٰ نے اپنے اجلاس منعقدہ ۷؍شوال ۱۴۲۴ھ میں فرمادی۔
اس اجلاس کے موقعہ پرجو تجویز پاس ہوئی اس کا متن درج ذیل ہے۔
’’مورخہ ۲۸؍رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ مطابق ۲۴؍نومبر ۲۰۰۳ء کو جماعت اہل حق کیلئے ایک بڑا المیہ پیش آیا کہ حضرت اقدس مولانا مفتی مظفر حسین رحمۃ اللہ علیہ نے داعی ٔ اجل کو لبیک کہا اوررفیق اعلیٰ سے جا ملے ،رب کریم اعلیٰ علیین میںان کو مقام کریم عطا فرمائے ۔آمین
یہ حادثہ تما م علماء حق کیلئے ایک غیر معمولی صدمہ اورغم ہے کہ جس میں وقت کی ایک عظیم صاحب علم وتقویٰ شخصیت مدرسہ مظاہر علوم وقف کے اکابر واسلاف کی متوکلانہ روایات کی امین ذات والا صفات سے محرومی پر پوری جماعت اورمجلس شوریٰ اوراساتذہ ٔ کرام وطلبۂ عزیزاورعامۃالمسلمین کوجو گہرا صدمہ پہنچاہے اس پر مجلس شوریٰ دلی رنج وغم کا اظہار کرتی ہے اورحضرتؒ کے لئے دعائے مغفرت کے ساتھ پسماندگان کے لئے صبر جمیل اوراجر جزیل کے لئے دعا گوہے ۔
مدرسہ مظاہر علوم( وقف) سہارنپور کی سابقہ روایات کے مطابق یہ طریقہ رہا ہے کہ جو شخص نائب ناظم کے عہدہ پر فائز ہوتا رہا ہے وہی شخص عہدۂ نظامت پر فائز ہوتا ہے چونکہ حضرت اقدس مفتی مظفر حسین نوراللہ مرقدہٗ کا انتقال پرملال ۲۸؍رمضان المبارک ۱۴۲۴ھ مطابق ۲۴؍نومبر ۲۰۰۳ئ کو ہوگیا ہے ۔
جناب مولانا محمد صاحب مدظلہ ٗ عہدہ ٔ نائب نظامت پر کام کررہے ہیںسابقہ روایات کے مطابق جناب مولانا محمد صاحب ناظم ومتولی مدرسہ ہوگئے ہیں،جملہ شرکاء مجلس شوریٰ اس امر کی تصدیق وتوثیق کرتے ہیں کہ مدرسہ مظاہر علوم (وقف)کے ناظم ومتولی جناب مولانا محمد صاحب مدظلہٗ ہیںاورحضرت مفتی صاحب کے جانشین ہیں اوربحیثیت جانشین جناب مولانا محمد صاحب کو جملہ کاروائی سرکاری وغیر سرکاری مقدمات وغیرہ میں بحیثیت ناظم ومتولی مدرسہ مظاہر علوم (وقف)سہارنپوراوراس سے متعلقہ جملہ اوقاف میں درخواست پیش کرنے کا حق حاصل ہے ۔
مجلس شوریٰ اس پر غیرمعمولی طورپر مسرت وخوشی کااظہار کرتی ہے کہ الحمد للہ جناب مولانا محمد صاحب کی نظامت وتولیت مدرسہ مظاہر علو م وقف سہارنپورکے بارے میںحضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ کی نمازجنازہ سے قبل ملک گیر پیمانہ پر حاضرین نے خوش دلی سے تائید کرکے اس مسئلہ کواوراس فیصلہ کو غیر معمولی طورپروقیع اورمتفق علیہ بنادیا ہے جو ان شاء اللہ مستقبل میں مدرسہ مظاہر علوم وقف کی عالمی عظمت کیلئے مفید تر ثابت ہوگا۔‘‘
حضرت مولانا محمد سالم قاسمی حضرت مولانا مفتی عبد القیوم رائے پوری
حضرت مولانا محمد عبد اللہ مغیثی حضرت مولانا سید حبیب احمد باندوی
حدیث نبوی سے خصوصی شغف
حدیث اور علم حدیث سے علماء مظاہرعلوم کو شروع ہی سے خصوصی مناسبت رہی ہے،علماء مظاہرعلوم کے وہ کارنامے جو انہوں نے حدیث کے سلسلہ میں انجام دئے اگر ان پر خامہ فرسائی کی جائے تو مستقل کتاب تیارہوسکتی ہے۔
آپ کے جدمحترم حضرت مولانامفتی سعیداحمد اجراڑویؒ نے مظاہرعلوم میںاپنے تابناک دورمیں دیگر تدریسی،انتظامی اورفقہی خدمات کے علاوہ سنن ترمذی شریف دس سال سے زائدعرصہ تک پڑھائی تھی اور آپ کادرس ترمذی دوردورتک مشہورومعروف تھا۔
حضرت مولانامفتی سعیداحمد اجراڑویؒ کے بعدآپ کے خلف اکبرفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے دیگر کتب حدیث کامعیاری اور مثالی درس دینے کے ساتھ ساتھ تقریباًچالیس سال تک ترمذی شریف کا عالی شان درس اپنے والدبزرگوارکے انداز،اسلوب اورفقہی بصیرت سے اس انداز میں دیاکہ شایدچشم فلک آپ کے بعد آپ کے اندازکادرس ترمذی دیکھنے سے محروم رہ جائے۔(راقم السطورکو بھی الحمدللہ حضرت فقیہ الاسلامؒ سے ترمذی شریف جلداول پڑھنے کا شرف حاصل ہے)
حضرت فقیہ الاسلام ؒکے بعدآپ کے برادرخوردیعنی حضرت مولانامحمد سعیدی مدظلہ کے والدماجدنے بھی احادیث کے سلسلہ میںمختلف تصنیفی کارناموں کے علاوہ شمائل ترمذی شریف کادرس کئی سال تک دیاتھا۔(راقم السطورنے بھی الحمدللہ حضرت شیخ الادب ؒسے شمائل ترمذی شریف پڑھی ہے)
مذکورہ بالاتفصیلات کی روشنی میں یہ حقیقت عیاں ہوچکی ہے کہ خانوداۂ سعیدی میں حدیث اور درس حدیث کا بابرکت سلسلہ نہایت قدیم ہے یہی وجہ ہے کہ فقیہ الاسلام حضرت مفتی صاحبؒ کے انتقال کے فوراًبعدنظامت عظمیٰ کی مسندسنبھالتے ہی ترمذی شریف کا سبق آپ کے سپردہوا،کیونکہ آپ نہ صرف اس کے بجاطورپرمستحق اور لائق تھے بلکہ مظاہرعلوم کی یہ شاندارتاریخ بھی رہی ہے کہ اس کے نظماء گرامی کتابی صلاحیت اور درسی مہارت میں نہایت ہی ممتازاورفائق رہے ہیں۔
حضرت مولاناسعادت علی(بانی ٔ مظاہر)حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوری ؒ،حضرت مولاناعنایت الٰہی سہارنپوریؒ،حضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوریؒ،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ،مناظراسلام حضرت مولانامحمد اسعداللہ رام پوریؒ اورفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین نوراللہ مراقدہم تک یہ شاندارروایت رہی ہے کہ ان حضرات نے انتظامی مصروفیات کے ساتھ ساتھ حدیث شریف کی اہم ترین کتابوں کا بھی درس دیا۔
ماضی کی روایاتنیزصاحب ِتذکرہ کی استعداداورصلاحیت کی بنیادپر ترمذی شریف کامعرکۃ الآراء سبق آپ کے سپردہوااور کیاہی خوب سپردہوا،آپ کادرس ترمذی بہت ہی کم مدت میں طلبہ میں مقبول ہوچکاہے۔ اللہ تعالیٰ مزیدترقیات عطافرمائے۔
مولانامحمد ریاض الحسن نے اپنے ایک مضمون میںحدیث شریف سے آپ کی مناسبت ومہارت کے بارے میںلکھاتھا کہ
’’آپ کوعلم حدیث سے خصوصی مناسبت اورشوق ہے بندہ کو بعض ایسے قدیم اساتذۂ حدیث کے بارے میں علم ہے جنہوں نے اپنے علمی تصنیفی کا موں میں مولانا موصوف سے رجوع کیا اورآپ کے ذریعہ ان کو بہت سی اہم اغلاط پر تنبہ ہو ا ،جس سے ان کی تالیف وتصنیف کے اعتبار میں اضافہ ہوا۔اسی شوق وعظمت کی برکت ہے کہ جہاں آپ کوفقیہ الاسلام حضرت اقدس مفتی مظفر حسین صاحب ودیگراساتذۂ مظاہر پھر اساتذہ ٔ دارالعلوم وقف سے اجازت حدیث حاصل ہے وہیں آپ کی ایک عالی سند حدیث ہے جس میں امام بخاری ؒ تک بارہ واسطے ہیں‘‘۔
بارہ واسطوں والی سندجس کا تذکرہ ابھی گزرامناسب سمجھتاہوں کہ اسے بھی پیش کردیاجائے ،حضرت ناظم صاحب مدظلہ اپنی سندحدیث بطور تحدیث باالنعمۃ خودان الفاظ میں تحریرکی ہے۔
’’ولی طرق عدیدۃ عالیۃ واعلی الطرق منھا ما فیہ اثناعشر واسطۃ بینی وبین الامام الھمام البخاری رحمہ اللّٰہ فانا اروی جمیع صحیحہ عن مولانا زید الفاروقی المجددی الدھلوی عن الحافظ عبدالحی الکتّانی عن المعمر احمد السویدی عن السیّدمرتضی الزبیدی عن المعمرالشیخ محمد بن محمد سنۃ العمری الفلّانی عن الشیخ أبی الوفاء احمد بن محمد العجلی الیمنی عن مفتی مکۃ قطب الدین محمد بن احمد النھروالی عن الشیخ نورالدین ابی الفتوح احمد بن عبد اللّٰہ بن ابی الفتوح الطاؤسی عن بابا یوسف الھروی المعروف بسیصدسالہ عن الشیخ محمد بن شاذ بخت الفرغانی عن ابی لقمان یحیٰ بن عمار الختلانی عن محمد بن یوسف الفربری عن أمیرالمومنین فی الحدیث ابی عبد اللّٰہ محمّد بن اسمٰعیل البخاری النیسافوری رحمہ اللّٰہ وھذاغایۃ فی العلو ولایوجد مثلھا الیوم وھو کفی لی ابتھاجاً وفخراً فالحمد للّٰہ الکبیروھوعلی کل شیء قدیر ‘‘۔
حضرت مولانا زیدفاروقی مجددی دہلویؒ حضرت مرزامظہرجان جاناں ؒ کے سلسلہ کے صاحب کشف بزرگ تھے۔جن سے حضرت ناظم صاحب مدظلہ کو صحاح ستہ میں اجازت حاصل ہے۔
حضرت ناظم صاحب مدظلہکے والدبزرگوارحضرت مولانااطہرحسینؒ نے اپنے بعض ملفوظات میں خود اس حقیقت کا اعتراف کیاہے کہ حضرت مولانا زیدفاروقی مجددی دہلویؒ سے مذکورہ سندحاصل کرنے کی میں نے بھی کوشش کی تھی مگرمجھے نہیں مل سکی البتہ مولوی محمدسلمہ کو حضرت مولانازیدفاروقیؒ سے یہ عالی سندمرحمت فرمادی۔
مذکورہ عالی سندکے علاوہ اوربھی متعددصاحبان علم وفضل سے آپ کو اجازت حدیث حاصل ہے۔چنانچہ فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمودحسن گنگوہیؒ،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدیونس صاحب مدظلہ ،محترم مولاناسیدمحمدعاقل صاحب مدظلہ اور جناب مولاناسیدمحمدسلما ن صاحب سہارنپوری کے علاوہ مندرجہ بالاسند عالی بھی ہے جو صرف بارہ واسطوں سے مسند ہندحضرت امام بخاریؒسے مل جاتی ہے ۔
اجازت بیعت وارشاد
آپ نے سب سے پہلے محی السنۃ حضرت مولاناشاہ ابرارالحق نوراللہ مرقدہ سے بیعت توبہ کی درخواست کی لیکن حضرت محی السنۃ ؒ نے آپ کی صالحیت،خاندانی نجابت،اپنے استاذحضرت مولانامفتی سعید احمد اجراڑویؒ کی نسبت ،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒ سے قریبی عزیزداری اور شیخ الادب حضرت مولانااطہرحسین ؒ کی فرزندی کے پیش نظرباقاعدہ بیعت کرلیا،حالانکہ اس وقت حضرت محی السنۃ ؒ ازخودبیعت کرنے کا سلسلہ موقوف کرچکے تھے اوراگربیعت ہونے کی کوئی شحض فرمائش کرتاتو اپنے مخصوص خلفا اورمجازین سے رجوع کامشورہ دیتے تھے۔حضرت محی السنۃ ؒ آپ سے بہت محبت فرماتے تھے،اپنی حیات میں مظاہرعلوم( وقف)کے سلسلہ میں بعض اہم معلومات بھی بذریعہ مکتوب گرامی حاصل کی تھیں،خودمولانامحمد سعیدی صاحب کو بھی اپنے بزرگوں سے فطری محبت ورثہ میں ملی ہے۔آپ کے والدماجدحضرت مفتی سعیداحمد اجراڑویؒ حضرت تھانویؒ سے بیعت تھے جبکہ حضرت اقدس حافظ حسین احمد صاحبؒاجراڑوی (مریدخاص حضرت گنگوہیؒ)سے نہایت عقیدتمندانہ اور شاگردانہ تعلق تھا۔آپ کے تایاابَّافقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ حضرت مولانامحمد زکریاؒکاندھلویؒ کے دست حق پرست بیعت اورمناظراسلام حضرت مولاناشاہ محمداسعداللہ ؒکے مجازبیعت وخلافت تھے ،آپ کے والدماجدحضرت مولانااطہرحسینؒ کوحضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ گہری عقیدت اورحضرت مصلح الامت مولانا الشاہ وصی اللہ ؒ سے قلبی مناسبت تھی لیکن بیعت کا تعلق ان دونوں حضرات میں سے کسی سے قائم نہ ہوسکا،البتہ بیعت وارشاد کی اجازت حضرت حاجی محمد احمد جعفری الہ آبادیؒ ،مولانا محمود صاحب پٹھیڑوی مدظلہ، مفتی مظفر حسین اجراڑویؒ حضرت مولانا عبداللطیف نلہیڑوی مدظلہ سے تھی۔
آپ کوفقیہ الاسلام حضرت اقدس مفتی مظفر حسین نوراللہ مرقدہٗ نے یکم شعبان ۱۴۱۵ھ کواجازت بیعت مرحمت فرمائی ،والدماجدؒنے ،حضرت حافظ ظفراحمد سہارنپوری مدظلہ نے اورحضرت مولانا شاہ عبد اللطیف مدظلہ نے بھی خلعت خلافت مرحمت فرمائی ۔
حضرت مولانامحمدسعیدی مدظلہ نے میرے پوچھنے پر بتایاکہ والدماجد حضرت مولانا اطہر حسینؒنے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒکے انتقال پرملال کے فوراًخلافت عنایت فرمائی تھی، اوریہ دلنواز خبرشایدبہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ موصوف حضرت مولاناحکیم محمد اخترمدظلہ ( کراچی)سے بھی بیعت ہیں۔ اِس بیعت سے متعلق حضرت حکیم صاحب مدظلہ کی تحریرپرتنویرراقم السطورنے خوددیکھی ہے۔
حج بیت اللّٰہ:
حضرت مولانامحمد سعیدی صاحب مدظلہ ۱۴۲۵ھ میں حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوچکے ہیں۔
تحریری ذوق:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتابی صلاحیت کے ساتھ قلمی صلاحتیوں سے نوازاہے،آپ کے بعض مضامین آئینہ ٔ مظاہرعلوم،ماہنامہ دارالعلوم دیوبنداور ملک کے مختلف رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔
عربی سے اردواور اردوسے عربی ترجمہ میں بھی آپ کو کمال حاصل ہے۔اس کے علاوہ آپ بقدرضرورت انگریزی اورہندی لکھنے اورسمجھنے پر بھی قادرہیں۔
آپ نے ’’ملفوظات فقیہ الاسلام ‘‘کو مدلل کرنے میں اپنے والدماجدحضرت مولانااطہرحسینؒ کا بھرپور تعاون کیاتھا۔اس کے علاوہ تصنیف وتالیف کا بھی آپ کو ستھراذوق ملاہے ،چنانچہ ماہنامہ آئینہ مظاہرعلوم کے حضوصی شمارہ’’ فقیہ الاسلام نمبر‘‘کی ترتیب،تہذیب،تذہیب اورتنقیح وتصحیح میں جہاں آپ کے والدماجدؒنہ احقر کا تعاون فرمایاوہیں آپ نے بھی دلچسپی کے ساتھ ایک ایک مضمون پر نظرثانی فرماکرمکررات کو حذف،زوائدسے پاک،مبالغہ آرائی اورخواہ مخواہ کی لفاظی کودرست کرنے میں بھرپورتعاون فرمایاتھا۔اسی طرح آئینہ مظاہرعلوم نے جب حضرت مولاناشاہ ابرارالحقؒ کے بارے میں ’’محی السنۃ نمبر‘‘شائع کیاتو اس میں بھی مکمل تعاون فرمایا۔اس کے علاوہ آئے دن نئی نئی کتابوںاوررسالوں پرتقریظات لکھنے کا سلسلہ الحمدللہ مسلسل جاری ہے۔ آپ نے فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ کے لئے بھی مختلف کتابوں پر تقریظات لکھی تھیں اور آپ کی تحریرات پر حضرت علیہ الرحمۃ کو پورااعتمادتھا۔
حضرت مولانااطہرحسینؒ کے ملفوظات طیبات جو ’’بزم اطہر‘‘کے نام سے ان کی حیات میں ہی شائع ہوگئے تھے ان کے جامع اور مرتب بھی آپ ہی تھے۔
غرض آپ ’’الولد سرلابیہ‘‘کا مصداق ہیں۔اور آپ کے لئے صرف اتناہی کہناکافی ہوگا۔
بالائے سرش زہوشمندی
می تافت ستارۂ بلندی
می تافت ستارۂ بلندی
Last edited by a moderator: