احساس ذمہ داری
ناصرالدین مظاہری
ناصرالدین مظاہری
حالات کی یکسانیت،زندگی کی گہماگہمی،موجوں کے تموج،سمندروں کے مدوجزر،آسمان کی بدلتی رنگت، کہکشاؤں کی گردشیں،شمس وقمرکاطلوع وغروب،بچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپااورپھردرپیش لمباسفر، حالات کی ناموافقت ،ماحول کی عدم یکسانیت الغرض یہ سب دنیاوی زندگی کے چندایسے مناظرہیں جس سے کائنات کی بے ثباتی کاہمہ وقت استحضاررہتاہے ،کل تک جولوگ مسندنشین اورگدی نشین تھے آج کئی من مٹی کے نیچے اپنے اعمال کی خوبی وخامی کے ساتھ موجودہیں۔کل تک جن کاطوطی بولتاتھا،جن کے ناموں کی گونج ہرپردۂ سماعت سے ٹکرایاکرتی تھی،جن کے نغمات کی شیرینی وحلاوت سے لوگ جھوم جھوم جاتے تھے آج خودعبرت وبصیرت کا’’مرقع‘‘بن چکے ہیں۔
روئے زمین پربسنے والی سبھی چیزیںدوام سے ماورا،استمرارسے پرے اورہمیشگی سے محروم ہیں، صرف ایک ذات ہی توایسی ہے جس پرفنایت طاری نہیں ہوگی،جو موت سے مستثنیٰ ہے،جوادباروتنزل سے محفوظ ہے اوروہ ہے احکم الحاکمین جس نے آسمان سے نیچے اورآسمان سے اوپرکی تمام چیزیں کچھ ایسے اندازمیںبنائی ہیں کہ اس میں کوئی تغیر وتبدل،کمی وزیادتی،تقدیم وتاخیربغیراس کی منشاء ومرادکے نہیں ہوسکتی،سورج کامشرق سے نکلنا،چاندکامغرب سے نظرآنا،ہواؤں کی رفتار،موجوں کے تموج اورکونین کے رازہائے سربستہ چیخ چیخ کراللہ تعالیٰ کی شا ن الوہیت و وحدانیت اورشان قہاریت وجباریت کوبیان کررہی ہیں اورپھرایک وقت وہ بھی آنے والاہے جب احکم الحاکمین ’’لمن الملک الیوم‘‘ارشادفرمائیں گے اوربڑے بڑے سورما ،فراعنہ اورشاہان دنیاکی گردنیں اپنے اعمال کی نحوست اورسیاہی کے سبب جھکی ہوئی ہوں گی،طلاقت لسانی کے بڑے بڑے پیکر،زبان وبیان کے ماہرین سب کی بولتی بندہوجائے گی اورپھراللہ تعالیٰ خودہی ارشادفرمائیں گے ’’للہ الواحدالقہار‘‘۔
یہ زمین جس پرآج ہم بستے ہیں ہزاروں سال سے ہمارے ہی جیسے انسان بستے چلے آرہے ہیں ،اقوام وملل، ادیان ومذاہب،شریعت وقوانین،اصول وضابطے کسی نہ کسی شکل میں ہرزمانہ میں موجودرہے ہیں ،نیکوں اورنیکوکاروں سے یہ دنیاخالی نہیں رہی ،اسی طرح بدی اوربدکاربھی شروع ہی سے موجودہیں،مگرنیکی پرظلم کی حکومت یاقانون پرجرم کی بالادستی کبھی قائم نہیں ہوئی،نیک لوگ ہردورمیں مکرم ومحترم رہے ہیں اورنیکوکاروں کے ذریعہ ہی دنیامیں نیکی اورشرافت کے اثرات محسوس کئے جاتے رہے ہیں۔
امربالمعروف اورنہی عن المنکرکافریضہ بھی تقریباً ہردورمیں اپنایاجاتارہالیکن آج اس سلسلہ میں مبالغہ اورغلوکی حدتک جوبے اعتدالی ہمارے درمیان درآئی ہے اس سلسلہ میں ضرورت میں چندمعروضات پیش خدمت ہیں ۔
دعوت کے اسلامی طریقے
حقیقت یہ ہے کہ جس دین اور مذہب کا قانون انسانی ذہن کی اختراع نہ ہو بلکہ مالک ارض وسماء کی جانب سے ملاہو، اس قانون میں ایسا نقص بھلا کیوں کر ہوسکتاہے کہ فطرف انسانی کی اس میں رعایت نہ کی گئی ہو۔اسلا م ایک ایسا واضح اور بین مذہب ہے کہ اس کو قبول کرنے کے لئے دل ودماغ کا صاف ہونا ہی کافی ہے ۔
خدائی معرفت کے حصول کا تعقل دل سے ہے، جسے اطاعت وبندگی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ زور وزبردستی سے اجتناب اور حکمت و موعظت کا راستہ اختیار کرنے کی تعلیمات موجود ہیں۔
اد ع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلہم بالتی ہی احسن ( النحل ۱۲۵)
آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلائیے اور ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بحث کیجئے۔
اس آیت میں دعوت دین کے لئے تین چیزوں کا ذکر ہے۔(۱)حکمت(۲)موعظت(۳)مجادلہ
حکمت:اس کلام ہدایت کا نام ہے جو انسان کے دل میں اترجائے۔(روح المعانی)
موعظت :کسی خیر خواہی کی بات کو اس طرح کہنے کا نام ہے کہ اس سے مخاطب کا دل قبولیت کے لئے نرم ہوجائے، مثلاً قبول کرنے کے فوائد اور نہ کرنے کے مفاسد ذکر کئے جائیں۔(قاموس،مفردات،راغب)
جادل: مجادلہ سے مشتق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت دین میں اگر کبھی بحث ومباحثہ کی نوبت آجائے تو اس میں بھی لطف اور نرمی اختیار کی جائے اور دلائل ایسے پیش کئے جائیں،جنہیں مخاطب آسانی سے سمجھ سکے۔
روح المعانی کی تحقیق کے مطابق اصول دعوت اصل میں دوچیزیں ہیں، حکمت اور موعظت۔تیسری چیز ’مجادلہ‘ اصول دعوت میں داخل نہیں، البتہ کبھی اس کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔
مختصر یہ کہ قرآن کریم میں دعوت ِدین کے جو اصول ہیں وہ صرف دو ہی ہیں:
حکمت اور موعظت۔ جبرواکراہ تلوار کی جھنکار میں دین کی دعوت کا کوئی تصور نہیں ہے۔پھر بھلا یہ کیسے کہا جاسکتاہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا بڑا رول ہے۔
یہ تواسلام ہی کی عظمت وشان ہے کہ اس نے برائیوں نے نبردآماہونے کے لئے بھی احسن طریقہ اختیار کرنے کے لئے کہا ہے:
لا تستوی الحسنۃ ولاالسیئۃ ادفع بالتی ہی احسن فاذالذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم (حم سجدہ)
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی توآپ نیک برتائو سے (بدی کو) ٹال دیاکیجئے ،پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیسے کوئی دلی دوست ہوتاہے۔
اس آیت میں داعی اسلام کے لئے ہدایت ہے کہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے،بلکہ احسن طریق سے دفع کرے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ حکم ہے کہ جو شخص تم پر غصہ کا اظہار کرے تم اس کے مقابلہ میں صبر سے کام لو اورجہالت سے پیش آنے والوں کے ساتھ حلم وبربادری کا معاملہ کرو اور ستانے والوں کو معاف کردو۔
ظاہر ہے کہ انسان کے دلوں کو فتح کرنے کا اس سے زیادہ موثر طریقہ اور کیا ہوسکتاہے آخر اسی قرآنی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ داعیان ِاسلام کا قدم جس سرزمین پر پڑا وہاں مذہب اسلام کو خوب فروغ ملا۔مثال کے طور پر ہندوستان ہی کو دیکھاجائے کہ یہاں غوری وغزنوی کی تلوار کے سایہ میں لوگ حلقہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے ہیں، بلکہ خواجہ اجمیری ؒ جیسے بزرگوں کی پاکیزہ زندگی سے متاثر ہوکر لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔اگر دعوت اسلامی میں شمشیر کی ذراسی بھی گنجائش ہوتی تو مسلمانوں کی آٹھ سوسالہ حکومت کے باوجود یہاں غیر مسلم نظر نہیں آتے۔
مسلم حکمرانوں نے پورے کروفر اور مضبوطی وپختگی کے ساتھ متحدہ ہندوستان پر اتنی طویل حکومت کی، پھر بھی مسلمان اقلیت ہی میں رہے۔(اسلام اوردہشت گردی)
دین اسلام کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں چند طبقات بطورخاص اپنی اپنی وسعت وہمت کے مطابق مصروف عمل ہیں۔
پہلاطبقہ:مدارس وجامعات
یہ طبقہ مغلیہ سلطنت کے سقوط وانحطاط کے بعداسلامی تشخص اورتحفظ کی خاطرسرگرم عمل ہوااوردیکھتے ہی دیکھتے چپہ چپہ پراسلامی قلعہ اوردینی مراکزقائم کردئے گئے۔
ان مدارس اورجامعات میں پڑھنے والے بچوں اوربچیوں نے معاشرہ کی اصلاح اورصالح معاشرہ کی تشکیل میں جوکارہائے نمایاں انجام دئے اس کی ایک زریں تاریخ ہے۔
دوسراطبقہ:دعوت وتبلیغ
دعوت وتبلیغ کادوسرانام امربالمعروف اورنہی عن المنکرہے،دین اسلام کایہ شعبہ اپنی اہمیت،نافعیت اورافادیت میں پہلے طبقہ سے بھی زیادہ حیثیت کاحامل ہے۔اس شعبہ نے یوں توہردورمیں عملی وقلمی جوکارنامے انجام دئے اوراسلام کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں جواثرات وثمرات صاحبان دانش وبینش محسوس کررہے ہیں اس سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
تیسراطبقہ:دعاۃ ومبلغین
دعاۃ ومبلغین نے بھی ہردورمیں اسلام اورمسلمانوں کوایک پلیٹ فارم پرمتحداورایک نقطۂ اتحاد پرمتفق کرنے کی کوششیں کی ہیں۔اگرکہاجائے تومبالغہ نہ ہوگاکہ اس طبقہ نے اپنی بصیرت وفراست اورزوربیانی سے وہ وہ کارنامے انجام دئے ہیں جوتیروتفنگ اورمحاذجنگ سے بھی ممکن نہیں تھے،قوموں کے دماغوں پراس طبقہ کاقبضہ رہاہے،اقوام وملل نے اپنے دعاۃ ومبلغین کی باتوں کوہردورمیں دھیان اورگیان سے سنااوران پرعمل کیاہے،افواہوں کے بازاراورمیدان کارزارمیں اس طبقہ نے ہردورمیں اپنے جوہردکھلائے ہیں،میدان جنگ کانقشہ پلٹنے اورمفتوح فوجوں میں نئی زندگی،نیاجوش اورنیاجذبہ پیداکرنے میں بھی اس طبقہ کی نظیرنہیں ملتی،جب حالات یکسربدل گئے تھے،جب فاتح قوم کاسینہ فخرسے تن چکاتھا،جب شکست وہزیمت کااحساس مفتوح قوم میں پختہ ہوچکاتھاایسے وقت میں اگرکسی طبقہ نے بزوربازونہیں بزورزبان فاتح کومفتوح ہونے پرمجبورکردیاتھاتویہی طبقہ تھاجس میں زبان زورخطباء ،دانش ورمبلغین اوربلندپایہ شعراء سبھی داخل ہیں،اس طبقہ نے مثبت کام بھی کئے ہیں اوربعض ایسے منفی اموربھی اس طبقہ سے سرزدہوئے ہیں جس سے اس طبقہ کی گردنیں خجلت وندامت کے باعث جھک جاتی ہیں۔
آج بھی اپنی افادیت اورنافعیت میں یہ طبقہ کل کی طرح سب سے زیادہ بہتراورسودمندثابت ہوتاہے بشرطیکہ اسلام کے ان اصولوں کوحرزجان بنائے رکھاجائے جوہمارے لئے ہی وضع ہوئے ہیں۔
صحافت ونشریات:
مدارس وجامعات،دعوت وتبلیغ اوردعاۃ ومبلغین کے علاوہ ایک اہم ذریعہ خدمت دین مبین کاصحافت اورذرائع ابلاغ ہیں جس میں الیکٹرانک میڈیااورپرنٹ میڈیادونوں شامل ہیں ۔
قرطاس وقلم کی اہمیت اورنافعیت بھی ہردورمیں مسلم رہی ہے،یہ شعبہ گھربیٹھے لوگوں کونہ صرف دین کی بنیادی معلومات فراہم کرتاہے بلکہ تازہ ترین معلومات،خبریں،حوادث اورحالات سے بھی باخبرکرتاہے۔اس شعبہ کوہرمذہب،ہرملک اورہرطبقہ نے بالخصوص اہمیت دی ہے،قوموں کے رخ کوموڑنے میں اس شعبہ نے ہمیشہ ناقابل فراموش کرداراداکیاہے،اجتماعیت،شیرازہ بندی،اتحادواتفاق اورمسلم امت کوایک پلیٹ فارم پرلانے کی کوششیں اورحکمتیں جب جب اخلاص کے ساتھ اس شعبہ نے انجام دی ہیں عروج وارتقاء سے قوم مسلم ہمکنارہوئی ہے۔
ضرورت ہے کہ قوم مسلم کی اجتماعیت کے لئے پوری دنیاکااسلامی میڈیا’’اجتماعی ‘‘طورپرکوسعی وکوشش کرے کیونکہ انفرادیت نے نہ توکبھی لائق ذکرکارنامہ انجام دیاہے اورنہ ہی قوموں کے ذہنوں کواپنی جانب موڑنے میں کامیابی مل سکی ہے۔
اقبال مرحوم نے فرمایاتھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کاشغر
نیل کے ساحل سے لے کرتابخاک کاشغر