حضرت مولاناسیدوقارعلی بجنوریؒ
یہ دنیانام ہے چل چلاؤکا،دوام اوراستمرارتوصرف ذات باری تعالیٰ کوحاصل ہے،ماضی قریب میں ہمارے اکابرعلماء اس تسلسل کے ساتھ رخصت پذیرہوئے ہیں جن کی ترتیب کایادرکھنابھی مشکل ہوگیاہے۔
ابھی دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی خورشیدعالمؒکی جدائی کازخم تازہ اورنامورعالم حضرت مولانامحمدابوبکرغازی پوریؒ کی رحلت کاعنوان ذہن ودماغ سے ختم بھی نہ ہواتھاکہ سرزمین بجنورکی نامورہستی،مظاہرعلوم (وقف) کی قدیم وبرگزیدہ شخصیت،مفتی سعیداحمدپالن پوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبنداورمولانامحمدیونس شیخ الحدیث مظاہرعلوم سہارنپورکے استاذگرامی ،علم المیراث(فن فرائض)کے جلیل القدر استاذحضرت مولاناسیدوقارعلی بجنوریؒ بھی آج ۱۱؍فروری ۲۰۱۲ء کی صبح تقریباً۱۱بجے انتقال فرماگئے۔
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سووہ بھی خموش ہے
مولاناموصوف علم وفن ،تقویٰ وتدین،زہدوورع،اخلاق ومروت اورمختلف خوبیوں کے مالک تھے ،آپ حضرت مولاناشاہ عبدالقادررائے پوریؒکے دست حق پرست پربیعت ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒکے پروردہ،حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒکے منظورنظراورفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے دست وبازوتھے۔
ولادت :
۱۳۵۴ھ میں موصوف کی ولادت اپنے آبائی وطن دھام پور میں ہوئی والد بزرگوار کا نام حافظ سید انظار علی تھاجوکاروبار تعمیرسے وابستہ تھے بعد میں دہرہ دون منتقل ہوگئے تھے ۔
تعلیم:
ابتدائی تعلیم شرح جامی تک اپنے وطن دھام پور ضلع بجنور کے مدرسہ حسینیہ میں حضرت مولانا حافظ قاری عبد الرحیم ؒ (مجاز طریقت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی ؒ)سے حاصل کی ۔مختصرالمعانی سے دورۂ حدیث شریف اوراس کے بعد مختلف علوم وفنون کی تکمیل مظاہرعلوم سہارنپور میں کی، آپ کو اپنے جملہ اساتذۂ کرام سے خاص تعلق رہا، اورآپ کے اساتذہ کرام کی بھی خاص توجہ رہی خصوصاً امورِ مدرسہ کے حل وعقد،نصب وعزل میں حضرت شیخ الحدیث ؒکے نہایت معتمد رہے ،حضرت مولانا محمد اسعد اللہؒ کی بھی خاص شفقت رہی، چنانچہ جب مولانا تعلیم سے فارغ ہوکراپنے وطن جانے لگے تو حضرت مولانامحمداسعداللہؒنے برجستہ اپنے قلبی تعلق کااظہار بوقت رخصت یوں فرمایا ؎
آج رخصت وقارتم ہوگے
ہم کو داغِ مفارقت دوگے
فراغت:
مظاہرعلوم سہارنپورسے شعبان المعظم ۱۳۷۵ھ میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے اور دورۂ حدیث شریف کے تمام طلبہ میں مولانا سب سے فائق وممتاز رہے۔
بیعت:
بیعت واسترشاد کاتعلق حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے رہا،چنانچہ اپنے شیخ ومرشد کے بتائے ہوئے معمولات وتسبیحات کی پابندی تہجد اور باوضومطالعہ وسبق کا اہتمام ہمیشہ رہا بعد میں استفادہ حضرت شاہ عبد العزیز گمتھلویؒ ،حضرت مولانا محمداسعد اللہ ؒاور حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاؒ سے بھی رہا۔
راقم الحروف نے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکواپنی مجلس میں کہتے ہوئے سناتھاکہ مولاناوقارعلی صاحب نمازتہجدکابہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اورغالباًچالیس سال میں ایک دفعہ بھی آپ کی نمازتہجدقضانہیں ہوئی ہے۔اسی طرح ایک عمدہ عادت ہمہ وقت باوضورہناتھی،آپ ہمیشہ ہی باوضورہتے تھے اورکبھی کبھی وضوپروضوبھی فرمالیاکرتے تھے، شایدان ہی صفات اورخصوصیات کی وجہ سے حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم تھے پوریؒنے ایک دفعہ فرمایاتھا کہ ’’مولانا وقاری علی صاحب اسلاف کانمونہ ہیں‘‘
ملازمت وتدریس:
مؤرخہ ۶؍شوال المکرم ۱۳۷۷ھ سے مدرسِ عربی کے عہدہ پر مظاہرعلوم میں تقرر ہوا چنانچہ ابتدائی کتب نحووصرف اورمنطق وفلسفہ ،معانی وادب ،فقہ واصول فقہ کی انتہائی کتابیں مسلسل زیردرس رہیں اور تفسیروحدیث کی کتابیں بھی پڑھائیں۔سراجی کی تدریس کا سلسلہ مشکوٰۃ شریف پڑھنے ہی کے زمانہ سے شروع ہوگیا تھا جوانتقال سے کچھ سال پہلے تک جاری رہا جس کی مجموعی مدت نصف صدی (تقریباً پجاس سال) ہوتی ہے۔آپ نے دورۂ حدیث شریف کی بھی بعض کتابیں طحاوی شریف وغیرہ کامیابی کیساتھ پڑھانے کاشرف حاصل کیا۔
خاص اساتذہ عظام:
حضرت مولانا منظوراحمد خاں ؒ،مناظر اسلام حضرت مولانا محمداسعد اللہ رامپوریؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلویؒ،حضرت علامہ صدیق احمد فاروقی کشمیری،حضرت مولانا مفتی سعیداحمد اجراڑویؒ،حضرت مولانا امیر احمدکاندھلویؒ،حضرت مولانا اکبرعلی سہارنپوریؒ،حضرت مولانا قاری محمد سلیمان دیوبندی،حضرت مولانا ظریف احمدؒ،حضرت مولانا ظہورالحسن ؒ جیسی باکمال ہستیاں مولاناسیدوقارعلیؒکے اہم اساتذہ میں شمارہوتی ہیں۔
حضرت مولانا جامعہ مظاہرعلوم کے مدرسِ اعلیٰ اورمسلم استاذ الفرائض ہونے کے باوجود ازراہِ تواضع وانکساری، استفادۃً حضرت مولانا مفتی مظفرحسین صاحب ؒ کے درس ترمذی شریف میں بھی ایک سال شریک ہوئے ۔دورانِ درس ایسے علمی وتحقیقی اشکالات پیش کرتے کہ جن کو سن کر حضرت مفتی صاحبؒ متحیر ومتعجب ہوجاتے ایک دفع مفتی صاحبؒنے دریافت فرمایا کہ یہ اشکالات آپ کہاں سے لاتے ہیں ؟ مولانا نے عرض کیا کہ حضرت مولانا منظوراحمد خانصاحبؒ کو حاشیہ عبد الحکیم سیال کوٹی پورا ازبرتھا، ان میں سے بعض اشکالات وہیں کے ہیں اوربعض خود میرے ہوتے ہیں،واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا موصوف اپنے زمانۂ تدریس میں نہایت تحقیق وتدقیق اورشرح وبسط سے کماحقہٗ کتاب پڑھاتے تھے ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدیونس جونپوری،شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری،شیخ الحدیث جناب مفتی عبد اللہ مظاہریؔ ہانسوٹ،خادم القرآن حضرت مولاناغلام محمدوستانوی،حضرت مولانامحمدسعیدی ناظم ومتولی مظا ہرعلوم وقف، حضرت مولاناسید حبیب احمد باندوی، شیخ الحدیث مولانا رئیس الدین بجنوریؒ وغیرہ اہم علماء وفضلاء حضرت مولاناسیدوقارعلیؒکے نامورتلامذہ میں سے ہیں۔
مولاناگزشتہ کئی سال سے ضعف ونقاہت اورمختلف امراض واسقام کاشکاررہ کر۱۱؍فروری ۲۰۱۲ء کی صبح تقریباً۱۱؍بجے انتقال فرماگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔تمام حضرات سے ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کی اپیل ہے۔
یہ دنیانام ہے چل چلاؤکا،دوام اوراستمرارتوصرف ذات باری تعالیٰ کوحاصل ہے،ماضی قریب میں ہمارے اکابرعلماء اس تسلسل کے ساتھ رخصت پذیرہوئے ہیں جن کی ترتیب کایادرکھنابھی مشکل ہوگیاہے۔
ابھی دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی خورشیدعالمؒکی جدائی کازخم تازہ اورنامورعالم حضرت مولانامحمدابوبکرغازی پوریؒ کی رحلت کاعنوان ذہن ودماغ سے ختم بھی نہ ہواتھاکہ سرزمین بجنورکی نامورہستی،مظاہرعلوم (وقف) کی قدیم وبرگزیدہ شخصیت،مفتی سعیداحمدپالن پوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبنداورمولانامحمدیونس شیخ الحدیث مظاہرعلوم سہارنپورکے استاذگرامی ،علم المیراث(فن فرائض)کے جلیل القدر استاذحضرت مولاناسیدوقارعلی بجنوریؒ بھی آج ۱۱؍فروری ۲۰۱۲ء کی صبح تقریباً۱۱بجے انتقال فرماگئے۔
داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سووہ بھی خموش ہے
مولاناموصوف علم وفن ،تقویٰ وتدین،زہدوورع،اخلاق ومروت اورمختلف خوبیوں کے مالک تھے ،آپ حضرت مولاناشاہ عبدالقادررائے پوریؒکے دست حق پرست پربیعت ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒکے پروردہ،حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒکے منظورنظراورفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکے دست وبازوتھے۔
ولادت :
۱۳۵۴ھ میں موصوف کی ولادت اپنے آبائی وطن دھام پور میں ہوئی والد بزرگوار کا نام حافظ سید انظار علی تھاجوکاروبار تعمیرسے وابستہ تھے بعد میں دہرہ دون منتقل ہوگئے تھے ۔
تعلیم:
ابتدائی تعلیم شرح جامی تک اپنے وطن دھام پور ضلع بجنور کے مدرسہ حسینیہ میں حضرت مولانا حافظ قاری عبد الرحیم ؒ (مجاز طریقت شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی ؒ)سے حاصل کی ۔مختصرالمعانی سے دورۂ حدیث شریف اوراس کے بعد مختلف علوم وفنون کی تکمیل مظاہرعلوم سہارنپور میں کی، آپ کو اپنے جملہ اساتذۂ کرام سے خاص تعلق رہا، اورآپ کے اساتذہ کرام کی بھی خاص توجہ رہی خصوصاً امورِ مدرسہ کے حل وعقد،نصب وعزل میں حضرت شیخ الحدیث ؒکے نہایت معتمد رہے ،حضرت مولانا محمد اسعد اللہؒ کی بھی خاص شفقت رہی، چنانچہ جب مولانا تعلیم سے فارغ ہوکراپنے وطن جانے لگے تو حضرت مولانامحمداسعداللہؒنے برجستہ اپنے قلبی تعلق کااظہار بوقت رخصت یوں فرمایا ؎
آج رخصت وقارتم ہوگے
ہم کو داغِ مفارقت دوگے
فراغت:
مظاہرعلوم سہارنپورسے شعبان المعظم ۱۳۷۵ھ میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئے اور دورۂ حدیث شریف کے تمام طلبہ میں مولانا سب سے فائق وممتاز رہے۔
بیعت:
بیعت واسترشاد کاتعلق حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوریؒ سے رہا،چنانچہ اپنے شیخ ومرشد کے بتائے ہوئے معمولات وتسبیحات کی پابندی تہجد اور باوضومطالعہ وسبق کا اہتمام ہمیشہ رہا بعد میں استفادہ حضرت شاہ عبد العزیز گمتھلویؒ ،حضرت مولانا محمداسعد اللہ ؒاور حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاؒ سے بھی رہا۔
راقم الحروف نے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒکواپنی مجلس میں کہتے ہوئے سناتھاکہ مولاناوقارعلی صاحب نمازتہجدکابہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اورغالباًچالیس سال میں ایک دفعہ بھی آپ کی نمازتہجدقضانہیں ہوئی ہے۔اسی طرح ایک عمدہ عادت ہمہ وقت باوضورہناتھی،آپ ہمیشہ ہی باوضورہتے تھے اورکبھی کبھی وضوپروضوبھی فرمالیاکرتے تھے، شایدان ہی صفات اورخصوصیات کی وجہ سے حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم تھے پوریؒنے ایک دفعہ فرمایاتھا کہ ’’مولانا وقاری علی صاحب اسلاف کانمونہ ہیں‘‘
ملازمت وتدریس:
مؤرخہ ۶؍شوال المکرم ۱۳۷۷ھ سے مدرسِ عربی کے عہدہ پر مظاہرعلوم میں تقرر ہوا چنانچہ ابتدائی کتب نحووصرف اورمنطق وفلسفہ ،معانی وادب ،فقہ واصول فقہ کی انتہائی کتابیں مسلسل زیردرس رہیں اور تفسیروحدیث کی کتابیں بھی پڑھائیں۔سراجی کی تدریس کا سلسلہ مشکوٰۃ شریف پڑھنے ہی کے زمانہ سے شروع ہوگیا تھا جوانتقال سے کچھ سال پہلے تک جاری رہا جس کی مجموعی مدت نصف صدی (تقریباً پجاس سال) ہوتی ہے۔آپ نے دورۂ حدیث شریف کی بھی بعض کتابیں طحاوی شریف وغیرہ کامیابی کیساتھ پڑھانے کاشرف حاصل کیا۔
خاص اساتذہ عظام:
حضرت مولانا منظوراحمد خاں ؒ،مناظر اسلام حضرت مولانا محمداسعد اللہ رامپوریؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلویؒ،حضرت علامہ صدیق احمد فاروقی کشمیری،حضرت مولانا مفتی سعیداحمد اجراڑویؒ،حضرت مولانا امیر احمدکاندھلویؒ،حضرت مولانا اکبرعلی سہارنپوریؒ،حضرت مولانا قاری محمد سلیمان دیوبندی،حضرت مولانا ظریف احمدؒ،حضرت مولانا ظہورالحسن ؒ جیسی باکمال ہستیاں مولاناسیدوقارعلیؒکے اہم اساتذہ میں شمارہوتی ہیں۔
حضرت مولانا جامعہ مظاہرعلوم کے مدرسِ اعلیٰ اورمسلم استاذ الفرائض ہونے کے باوجود ازراہِ تواضع وانکساری، استفادۃً حضرت مولانا مفتی مظفرحسین صاحب ؒ کے درس ترمذی شریف میں بھی ایک سال شریک ہوئے ۔دورانِ درس ایسے علمی وتحقیقی اشکالات پیش کرتے کہ جن کو سن کر حضرت مفتی صاحبؒ متحیر ومتعجب ہوجاتے ایک دفع مفتی صاحبؒنے دریافت فرمایا کہ یہ اشکالات آپ کہاں سے لاتے ہیں ؟ مولانا نے عرض کیا کہ حضرت مولانا منظوراحمد خانصاحبؒ کو حاشیہ عبد الحکیم سیال کوٹی پورا ازبرتھا، ان میں سے بعض اشکالات وہیں کے ہیں اوربعض خود میرے ہوتے ہیں،واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا موصوف اپنے زمانۂ تدریس میں نہایت تحقیق وتدقیق اورشرح وبسط سے کماحقہٗ کتاب پڑھاتے تھے ۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدیونس جونپوری،شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری،شیخ الحدیث جناب مفتی عبد اللہ مظاہریؔ ہانسوٹ،خادم القرآن حضرت مولاناغلام محمدوستانوی،حضرت مولانامحمدسعیدی ناظم ومتولی مظا ہرعلوم وقف، حضرت مولاناسید حبیب احمد باندوی، شیخ الحدیث مولانا رئیس الدین بجنوریؒ وغیرہ اہم علماء وفضلاء حضرت مولاناسیدوقارعلیؒکے نامورتلامذہ میں سے ہیں۔
مولاناگزشتہ کئی سال سے ضعف ونقاہت اورمختلف امراض واسقام کاشکاررہ کر۱۱؍فروری ۲۰۱۲ء کی صبح تقریباً۱۱؍بجے انتقال فرماگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔تمام حضرات سے ایصال ثواب اور دعاء مغفرت کی اپیل ہے۔