مسلک اہلحدیث اور سلسلہ بیعت و ارادت

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
مسلک اہلحدیث اور سلسلہ بیعت و ارادت

مسلک اہلحدیث اور سلسلہ بیعت و ارادت
:۔مسلک اہلحدیث کے متعلق جہاں دیگر ابہام پائے جاتے ہیں،ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلک اہلحدیث میں بیعت وارادت کا سلسلہ نہیں پایا جاتاہے،گو کہ اس عہد میںیہ حقیقت موجود ہے ،مگر اکابرینؒ اس الزام سے کلی طور پر بری الذمہ ہیں ،بلکہ ان کے ہاں یہ سلسلہ بیعت وارادت ایک معمول سا نظرآتا ہے،کسی زمانے میں خاندان غزنوی اور لکھوی بیعت سلوک اور تزکیہ نفس کی تعلیم وتربیعت کے لئے بہت مقبول و معروف تھے۔
۔اور یہ بیعت و ارادت اتنی عام تھی ،کہ مشہور سوانح نگارمولانامحمد اسحاق بھٹی فرماتے ہیں۔
’’ بیعت واردات کا یہ سلسلہ اہلحدیث حضرات میں بھی ایک عرصہ تک جاری رہا۔مولانا سید داؤد غزنویؒ کے جد امجد سید عبداللہ غزنویؒ کو ’’ عبدللہ صاحب‘ ‘ کہا جاتا تھا،انکے حالات اپنے فقہا ء ہند کی نویں جلد میں ( جو تیرھویں صدی ہجری کے علماء و فقہاء کے واقعات و کوائف پر مشتمل ہے) تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔مولانا محی الدین عبدالرحمٰن لکھویؒ ( مولانا محی الدین لکھویؒ کے جد محترم) نے غزنی جاکر ان سے بیعت کی تھی وہ غزنی سے ہجرت کرکے امر تسر کے قریب بستی’’ خیر دین‘‘ میں تشریف لائے تو میرے دادا(میاں محمد) کے حقیقی چچا میاں امام الدین اور ہماری برادری کے ایک بزرگ حاجی نور الدین بیعت کیلئے انکی خدمت میں گئے تھے، لیکن حضرت عبداللہ فارسی اور عربی بولتے تھے،یا پشتو میں بات کرتے تھے ،اور
یہ حضرت انکی بات نہیں سمجھ پاتے تھے،اس لئے انکے حلقہ بیعت میں شامل نہ ہو سکے،اور پھر انکے مرید و مبائع مولانا محی الدین عبدالرحمنؒ لکھوی سے بیعت کر لی ،حضرت عبدللہ صاحب کے صاحب زادگان گرامی حضرت الامام مولانا عبدالجبار غزنوی(جو مولانا داؤد غزنوی کے والد مکرم تھے) اور مولانا عبد الواحد غزنویؒ جو مولانا داؤد غزنویؒ حقیقی چچا تھے،لوگوں سے بیعت لیتے تھے،اور ہمارے لاقے اور خاندان کے بعض لوگ ان سے بیعت ہوتے تھے۔ مولانا معین الدین لکھوی کے والد محترم حضرت حضرت مولانا صوفی محمد علی لکھوی جلیل القدر عالم تھے، اگر ان سے کوئی شخص بیعت کرنا چاہتا تھا،وہ اپنے حلقہ بیعت میں شامل کر لیتے تھے۔
ضلع فیروزپور میں ایک گاؤں ’’ چھنیاں والی ‘‘ تھا،جس میں نہایت متقی بزرگ مولانا کمال الدین قیام فرما تھے،جو مسلکاً اہلحدیث تھے اور ڈوگر برادری سے تعلق رکھتے تھے، اور اس نواح میں مرجع خلائق تھے۔لوگ ان سے بیعت ہوتے تھے،اس فقیر کو چھوٹی عمر میں انکے حلقہ بیعت میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی، ان سے بھی لوگ بیعت ہوتے تھے،اس گنہگار کو بھی انھی سے بیعت کا شرف حاصل ہوا تھا۔یہ آزادی سے کئی سال پہلے کی باتیں ہیں‘‘
( ہفت اقلیم از محمد اسحاق بھٹی ص۴۸۴تا۴۸۶)حضرت مولانا سید عبداللہ غزنویؒ کے فرزند ارجمند سید عبدالجبار غزنویؒ نے بیعت والہام کے موضعوں پر ایک رسالہ ’’ اثبات الالھام والبیعۃ‘‘ تصنیف فرمایا تھا،مسلک اہلحدیث کے مشہور عالم و ولی اللہ مولا نا غلام رسول ؒ قلعوی (متوفی ۱۸۷۴) نے حضرت سیدامیرؒ (کوٹھا شریف) کے دست مبارک پر اصول طریقت کیلئے بیعت ہوئے تھے،اور سید امیرؒ شاہ اسماعیل شہیدؒ کے پیر ومرشد سید احمد شہیدؒ سے تربیعت یافتہ تھے۔تصوف و سلوک کے موضعوع پرسیدؒ کی’ ’صراطِ مستقیم‘‘مشہور ومعروف کتاب ہے۔ سیدعبداللہ غزنویؒ بھی سید امیرؒ سے بیعت شدہ تھے،ان حضرات کی آپس میں بے حد محبت و عقیدت اور موافقت تھی۔مولاناغلام نبی سوہدریؒ مسلک اہلحدیث کے صاحب کشف وکرامات بزرگ گزرے ہیں۔آپ مشہور عالم دین مولانا عبدالمجید سوہدریؒ کے جد امجد تھے،مولانا غلام نبی الربانی سوہدریؒ نے سید میاں نذیر حسین دہلوی ؒ سے سند احادیث حاصل کی اور حصول طریقت کیلئے مرتسر جاکرسید عبداللہ غزنویؒ کی خدمت میں حاضری دی اور انکے دائرہ بیعت و ارادت میں شریک ہوئے،اور وہاں تین ماہ مسلل قیام فرما منازل سلوک طے فرمائے ۔ مولا نا غلام الربانیؒ سوہدری کا شمار مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے معاصرین میں ہوتا ہے۔مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ۱۸۷۱ میں حج بیت اللہ کیلئے روانہ ہوئے تو اپنے دونوں بیٹوں (مولانا عبدالقادر ؒ اور مولانا عبدالعزیزؒ ) کیلئے وصیت لکھی،جس میں حصول بیعت وتصوف کیلئے خصوصی نصیحت کی۔فرماتے ہیں
’’وصیت کرتا ہوں کہ تمام کاموں پر علم دینی (یعنی) تفسیر،حدیث ،فقہ ،سیرت اور تصوف کو اولیں اہمیت دے،اور ہمت کرکے اسکی طرف متوجہ ہوں ،بلخصوص محدثین کی ہم نشینی اختیار کر ے(یاد رکھیں) کہ اہل حدیث ہی اہل اللہ ہیں،علوم دینی سے فراغت کے بعد کسی کامل و اکمل کے ہاتھ پر بیعت کریں،ہمارے علم کے مطابق اس عہد میں حضرت عبداللہ غزنویؒ جیسا کوئی نہیں،ان کی صحبت کیمیاء ہے،اور کامل ومکمل پیر ہیں۔عبدالقادر ترجمعہ قران انہی سے شروع کرے،اورعبدالعزیز انہی سے بسم اللہ کا آغاز کرے،کیوں کہ میرے عقیدے کی روح سے وہ حضرت جنید ؒ کے مثل اور حضرت با یزیدؒ کی ماند ہیں رحمہ اللہ علیہم
(یاد رکھیں) کوئی مدح کرنے والا انکے خصائص کا احاطہ نہیں کر سکتا ،اگرچہ مدح کرنے میں وہ سب پر سبقت لے گیا ہو،بس اتنی بات ہی کافی ہے ،اگر چہ میں کھوٹا سامان ہوں،لیکن انکے خریداروں کی قطار میں کھڑا ہوں،چاہیے کہ ملحدوں ،زندیقوں اور ان لوگوں کی مجلسوں میں نہ بیٹھیں جو شریعت محمدیﷺ کے بال بھر بھی مخالف ہوں ۔اولیاء اور عامل صوفیاء کے بارے میں حسنِ عقیدت رکھیں امام شعرانی ؒ نے فرمایا ہے،
ایا ک و لحوم الا ولیاء فانھا مسمومتہ
’’ اپنے آپکو اولیاء اللہ کی گوشت خوری سے بچاؤ۔یہ زہریلے گوشت ہیں،یعنی ان کی غیبت نہ کرو،جہاں تک ممکن ہو،انکے ساتھ نیک گمان رکھو‘‘
( تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی ص ۴۵۹)شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ اور بیعت و ارشاد:۔تذکرہ غلام رسول ؒ قلعوی اور سید عبد اللہؒ غزنوی علم حدیث میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ سے فیض یافتہ تھے۔حضرت سیدنذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی مبارک سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ آپ سے اقتباسِ علم کے بعد سید عبداللہ غزنویؒ سے بیعت ہوا کرتے تھے اس ضمن میں ایک واقعہ بھی ملتا ہے کہ
’’مولوی شاہ ممتاز الحق صاحب مرحوم صاحب جب حضرت مولانا عبداللہ صاحب غزنوی کے حضور میں بغرضِ بیعت و ارشاد حاضر ہوئے تو عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ تم دہلی جاکر وہاں رہو اور شرفِ صحبت شیخ سے مستفید ہوکر ان سے اجازت لیکر یہاں آؤ،چانچہ ایسا ہی ہوا،وہ دہلی آئے اور یہاں بہت دنوں تک رہئے،پھر جب میاں صاحب کے حظ کے ساتھ امر تسر پہنچے،تب عبداللہ صاحب نے ان سے بیعت لی اور مسترشدین میں اپنے داخل کیا‘‘
( الحیات بعد الممات ص۱۳)
اکابرین اہلحدیث کا احسان وسلوک" زیرطبع سے ایک اقتباس
 

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
حسن خان نے کہا ہے:
بہت مفید پوسٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تو علماء اھل حدیث تصوف کا مخالف ہیں
تھوڑے بہتے لوگ اب بھی ہیں جو تصوف سے تعلق رکھتے ہیں،اکثریت انکی اب منکر ہے،لیکن اکابرین اہلحدیث اور آج کے اہلحدیث میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
 

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
کیا اکابرین اہلحدیث صوفی تھے ؟


اس سے سے پہلے کہ اس موضعوع کو مزید آگے چلایا جائے میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ مسلک اہلحدیث کا امتیاز پاک و ہند میں رکھنے والے اور اس مسلک کی اشاعت اور تدوین کرنے والے اگر تمام نہیں تو اکثریت صوفی تھی اور ان میں سے اکثر حضرات کا طریق نقشبدیہ تھا مگر وائے حسرت کہ آج اسی مسلک سے منسوب لوگ سب سے زیادہ صوفیاء عظام کی توہین اور نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں،اکثر صوفیاء عظام کے متعلق افراط و تفریط پر مبنی کتب اسی مسلک کی طرف سے شائع کی جاتی ہیں ،حتی کہ ان لوگوں نے شاہ ولی اللہ ؒ اور مجدد الف ثانیؒ کو بھی نہیں بخشا البتہ جو صوفیاء عظام اس مسلک کے تھے ان حضرات پر ان لوگوں کا قلم خاموش ہے ،مگرالبتہ اکابرین اہلحدیث کی تصوف وسلوک کی کتب اور تعلق کو چھپایا ضرور جاتا ہے،آیئے " کابرین اہلحدیث کا احسان و سلوک " سے ایک جائزہ لیتے ہیں۔
علم تصوف وسلوک ایک حقیت ہے ،اور کسی بھی حقیقت سے کوئی بھی منصف مزاج اور سلیم الفطرت شحص انکار نہیں کر سکتا۔علم سلوک کی اہمیت وافادیت اس قدر مسلمہ ہے کہ امت میں بڑے بڑے نامور لوگوں نے اسکو احتیار کیا ہے،اور اس دور سے پہلے امت میں کوئی ایسا گروہ پیدا نہیں ہوا ،جو مطلق تصوف کا انکاری ہو،مگر اس قحط الرجال کے دور میں ایسے ناعاقبت اندیش لوگ موجود ہیں جو نہ صرف علم سلوک سے انکاری ہیں بلکہ ان مقدس ہستیوں کوبرا بھلا کہنے سے بھی نہیں چونکتے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس چیز کی جتنی زیادہ اہمیت ہوتی ہے،وہ شئے اتنی ہی نایاب ،اور اسکی نقل بھی اتنی ہی عام ہوتی ہے،تصوف وسلوک کے معاملہ میں بھی یہی کچھ ہو۔ یہ جتنی نایاب اور عظیم دو لت تھی،اتنی ہی اسکی نقل بھی تیار ہوئی،اس لیے ہر عہد میں جہاں علماء نے تصوف وسلوک کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا،وہاں پر تصوف و سلوک کے نام پر پیدا ہونے والی بدعات وخرافات کا بھی سختی سے رد کیا۔
تصوف اسلامی کی اصل دشمن غیر مسلم قوتیں ہیں جو کہ اس بات کو اچھی ظرح جانتی ہیں،کہ اگر تصوف اسلامی عالم اسلام میں رائج ہو گیا تو پھر یہ سویا ہوا شیر بیدار ہو جائے گا،اس لیے باقاعدہ جس طرح نقلی علماء تیار ہوئے،بالکل اسی طرح نقلی صوفیاء بھی تیار ہوئے،اور پھر انکے مقابلے میں ایسے لوگ کھڑے ہوئے ، جو اصل اور نقل میں فرق نہیں کر سکتے تھے،پھر ایسے نا معقول لوگ بلا دھڑک تصوف اسلامی پر بھی لعن طعن کرتے ہیں،اور یوں تصوف اسلامی کو عوام ں پنپنے سے روکنے کی لاحاصل سعی کرتے ہیں۔
مسلک اہلحدیث اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے اس پراوپگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہوا،اور اس عہد کی نئی پود تونہ صرف تصوف سلوک سے نابلد ہے،بلکہ تصوف اسلامی کی سخت مخالف بھی ہے،اور افسوس یہ ہے کہ یہ مخالفت کوئی علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ جہالت پر ہے،ورنہ اس عہد میں جسے ہم مسلک اہلحدیث کہتے ہیں،اگر اس مسلک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اکابرین اہلحدیثؒ کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے،جو اپنے وقت کے صاحب کشف وکرامات اور صاحب نسبت صوفی بزرگ تھے۔
اکابرین اہلحدیثؒ کے ساتھ ایک بڑی زیادتی یہ ہوئی کہ اولاً تو انکی سوانحیات مرتب نہیں ہوئی ہیں ،اور جو مرتب کی گئی ہیں ،ان میں اکابرین اہلحدیثؒ کا جو تعلق تصوف وسلوک کیساتھ تھا ،اسے نہ صرف مبہم کر کے پیش کیا گیا،بلکہ ایک حد تک تو اسے پس پردہ کر دیا گیا ہے،اور یوں نئی پود کے پاس افراط وتفریط پر مبنی مولانا کیلانی صاحب کی’’ شریعت وطریقت ‘‘ تو آ گئی،مگر اکابرین ؒ کا تصوف اسلامی نہ آ سکا۔
عموماً علمی حلقوں میں یہ بات کہیں جاتی ہے کہ اکا برین اہلحدیث کا جو تعلق تصوف سلوک کیساتھ تھا ،وہ آج کے سلفی حضرات سے مخدوش ہو چکا ہے،گو کہ اس بات میں حقیقت ضرور ہے مگر پوری طرح اس بات سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ روحانیت کا یہ سلسلہ اہل حدیث حضرات میں آج بھی کہیں کہیں ٹمٹماتا ہوا نظر آتا ہے معروف سوانح نگار مولا نا محمد اسحاق بھٹی نے ’’ تذکرہ مولاناغلام رسول قلعویؒ ‘‘ میں مولانا ابو الکلام احمد دہلوی کے ایک مکتوب کا ذکر کیا ہے،مولانا ابو الکلام احمد دہلوی صاحب دہلی میں رہتے ہیں ،استاذ الاساتذہ ہیں ،اور پرانے لوگوں میں سے ہیں ،اس خط میں تصوف کے متعلق مولانا ابو الکلام احمد دہلو ی صاحب لکھتے ہیں
’’سلفیوں کی بابت دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہوائی ہے،کہ انھیں علمِ باطنی میسر نہیں ،وہ اہل ظواہر ہیں،طریقت نہیں جانتے ،صرف شریعت سے واقف ہیں ۔واشگافانہ الفاظ میں کہوں تو انکے نزدیک یہ لوگ تصوف سے نابلد ہیں ،میرا ارادہ ہے کہ ان خطوط کو شائع کر دوں(مولانا غلام رسول قلعویؒ کے مکتوبات کی طرف اشارہ ہے انشاء اللہ اپکے مکتوبات بھی پیش کیے جائے گے ۔ابن محمد جی) اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ لکھوں تا کہ دنیا با خبر ہو جائے کہ اہلحدیث کے یہاں علم طریقت و تصوف ہے،مگر وہ مبنی بر کتاب وسنت ہے ،اور اہل حدیث کو مطعون کرنے والوں کو بتایا جائے کہ
لذتِ بادہ ناصح کیا جانے
ہائے کم بخت تو نے پی ہی نہیں
ہمارے علم طریقت کی چاشنی کتاب وسنت کے مخلوطہ سے وجود میں آئی ، اوروں کے یہاں انحراف ہے اور زیع وضلالت۔ہداہم اللہ للصراط امستقیم۔(تذکرہ غلام رسول قلعوی صفحہ ۴۸)
اسی مکتوب پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں
’’مولانا ابولکلام احمد نے اہل حدیث کے علم تصوف اور علم طریقت کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے،وہ بالکل صیح ہے،اس باب میں مولانا کے جذبات قابل قدر ہیں ،انھیں اس موضعوں پر کھل کر لکھنا چاہئے،اور اہل حدیث علماء کی کرامات اور انکی قبولیت دعا کے واقعات کی تفصیل بیان کرنی چاہئے، اس سلسلے میں بہت عرصہ ہوا مولانا عبدالمجید سوہدریؒ مرحوم مغفور نے کچھ کام کیا تھا،( بھٹی صاحب کا یہ اشارہ کرامات اہلحدیث کی طرف ہے اور یہ وہی کتاب جو اس فورم کی لائبریری " کتاب وسنت " میں موجود تھی مگر کسی انجانے خوف سے اسکا لنک ڈیلیٹ کر دیا گیا،حلانکہ اس کتاب میں تو صرف کرانات تھی اور کرامات کے بر حق ہونے سے انکار کرنا سوئے جہالت اور ضد کے کچھ بھی نہیں۔ابن محمد جی)اور بڑی عمدگی سے بعض اہلحدیث علمائے کرام کی کرامتوں کاتذکرہ فرمایاتھا،اصحابِ کرامات علمائے اہلحدیث کی اس فہرست میں انھوں نے حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ ،مولاناغلام رسول قلعویؒ اور قاضی سیلمان منصورپوری رحہم اللہ کے اسمائے گرامی درج فر مائے ہیں۔
(نوٹ بیعت و اردات کا سلسلہ جاری ہے جلد ہی مزید اکابرین اہلحدیثؒ کا تعلق بیعت و ارشاد مبنی مراسلہ پیش کیا جائے گا)
 

qureshi

وفقہ اللہ
رکن
"اکابرین اہلحدیث کا احسان وسلوک سے زیر طبع ٗ " سے اقتباس
کچھ اہلحدیث اکابرینؒ کا تذکرہ میں نے پہلے مراسلے میں بھی کیا ہے ،مزید پیش خدمت ہے ،امید سلفی احباب کی تشفی ہو چکی ہو گئی ۔میں یہاں پر اپنے اہلحدیث دوستوں سے درخواست کروں گا کی اکابرین ؒ کا جو تعلق تصوف کیساتھ تھا یا انکی تصنیفات آپکے علم ہوں تو اس خاکسار ضرور
حضرت مولانا قاضی سیلمان منصور پوریؒ اور اور اخذ سلوک:۔سیرت النبیﷺ پر لکھی جانے والی شہرہ آفاق کتاب ’’ رحمۃ اللعٰلمینﷺ ‘‘ کے مصنف قاضی سیلمان منصور پوریؒ مسلکاً اہلحدیث تھے ،آپ نے حدیث اور تصوف کی سند اپنے حضرت دادا جانؒ سے حاصل کی تھی ،آپکا شمار صاحب کشف و کرامات اولیا ٗ اللہ میں ہوتا ہے۔آپ کو مولا نا عبدالحمید سوہدری ؒ سے بھی ایک خاص روحانی تعلق تھا (کرامات اہلحدیث صفحہ ۷۰)
مولانا فیض محمد خان بھوجیانیؒ اور نسبت و ارادت:۔مولانا فیض محمد خان ؒ بھوجیانی مسلک اہلحدیث ممتاز علماء میں سے تھے ،آپ کا ورع وتقوی متقدمین کی مثل تھا،آپ مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی ؒ کے اساتذہ میں سے تھے،خود عطا اللہ حنیف ؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ متاثر مولانا فیض محمد خانؒ سے ہوا ہوں،مولانا فیض محمد خان ؒ مولانا سید عبد الجبار ؒ کے فیض یافتہ اور ارشد تلامذہ میں سے تھے ’’اشاعت خاص ہفت روزہ الاعتصام بیاد مولا نا عطا اللہ حنیف بھوجیانی ؒ ‘‘ میں اپکے قدرے تفصیلی حالات لکھے گئے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیاء اہلحدیث رتبہ ومقام میں صوفیاءحناف کی ماند تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ؒ اور اظہار ارادت ونسبت :۔مولانا ابولکلام آزاد ؒ نسبت مجددی پر اپنے دلی جذبات پر اظہار اس طرح فرماتے ہیں:۔
’ ’ یہی نسبت اور ارادت کی ایک دولت ہے ،جو شاہدہم بے مائیگان او ر تہی دست راہ کیلئے توشہ آخرت اور وسیلہ نجات ثابت ہو ،اگر اسکے دامن تک ہا تھ نہ پہنچ سکے ،تو اسکے دوستوں کا دامن تو پکڑ سکتے ہیں،اللہ اس راہ میں اثبات وا ستقامت وزرعی عطا فرمائے ،اور اسکے دوستوں کی محبت و ارادت سے ہمارے قلوب ہمیشہ معمور اور آباد رکھے۔
( تذکرہ، ص ۲۵۵،۲۵۶ مطبوعہ لاہور مزید بحوالہ سیرت مجدد الف ثانیؒ )
دج بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے آپکی نسبت وطریق السلوک نقشبندیہ تھا۔
فاضل جلیل حضرت مولانا سید نواب صدیق حسن خا ن ؒ اور اظہار نسبت و ارادت:۔آپ فرماتے ہیں:۔
’ ’ اگر چہ میں صوفیاء کے تمام طرق کو موصل الی اللہ سمجھتا ہوں ،اور جملہ طرق کے مشائخ کو مانتا ہوں ،لیکن میرے آبا ؤ اجداد ،استاتذہ، اور مشائخ کا طریقہ نقشبندیہ ہے گو اور طرق کی بھی اجازت حاصل تھی ‘‘
مزید فرماتے ہیں:۔
’ ’ میں سلوک سبیل علم میں اپنے باپ ،انکے مشائخ اور اپنے مشائخ اور اپنے شیوخ علم کے طریقہ پر چل رہا ہوں‘ ‘
مولاناغلام نبی الربانی سوہدریؒ اور بیعت و ارادت:۔حضرت مولانا غلام نبی سوہدری مسلک اہلحدیث کے صاحب کشف وکرامات بزرگ گزرے ہیں۔آپ مشہور عالم دین مولانا عبدالمجید سوہدریؒ کے جد امجد تھے،مولانا غلام نبی الربانی سوہدریؒ نے سید میاں نذیر حسین دہلوی ؒ سے سند احادیث حاصل کی اور حصول طریقت کیلئے مرتسر جاکرسید عبداللہ غزنویؒ کی خدمت میں حاضری دی اور انکے دائرہ بیعت و ارادت میں شریک ہوئے،اور وہاں تین ماہ مسلل قیام فرما منازل سلوک طے فرمائے ۔ آپ نے پیر میر حیدر وزیر آبادی سے بھی اخذسلوک کیا اوراس بات کاتذکر آپ کے پوتے مولانا ادریس فاروقیؒ نے ’’کرامات اہلحدیث‘‘ میں کیا ،اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ’’ بزرگان علوی و سوہدری ‘‘میں اسکا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ مولا نا غلام الربانیؒ سوہدری کا شمار مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے معاصرین میں ہوتا ہے۔
میاں صدر الدین بھوجیانیؒ اوبیعت وارادت:۔میاں صدرالدین بھوجیانیؒ مسلک اہلحدیث کے مشہور ومعروف عالم حضرت مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانیؒ کے والد گرامی تھے۔آپ ؒ کے پوتے حافظ احمد شاکر اپنے خا ندانی حالات میں لکھتے ہیں :۔
’’مولانا فیض اللہ اور میاں صدرالدینؒ نے امرتسر جا کر حضرت امام عبدالجباربن حضرت عبداللہ رحم اللہ کے دست حق پرست پر توبہ و ہدایت کی بیعت کر لی۔
"دادا جان ہمارے خاندان کے پہلے خوش نصیب انسان تھے ، جنہوں نے دعوت توحید کو قبول کیا،اور امام عبدالجبارؒ سے فیض پایااور حاندان کیلئے مشعلِ راہ بنے۔"
اہم اعلان

انشاءاللہ جلد ہی اصل اور اہم بات کہ اکابرین اہلحدیث کا طریق السلوک کیا تھا ؟ یعنی وہ ذکر کیسے کرتے تھے جس کو صوفیاء کے نزدیک "اشغال " کہا جاتا ہے،جیسے پاس انفاس وغیرہ نیز ان اکابرین اہلحدیث کی مجالس ذکر کی ہیت وغیرہ کیا ہوتی تھی،اور ان مجالس سے ذاکرین کے قلوب پر کیا اثر پڑتا تھا؟ پیش کیا جائے گایعنی
"اکابرین اہلحدیث کا طریق السلوک

انتظار فرمائیں
 

سیفی خان

وفقہ اللہ
رکن
qureshi نے کہا ہے:
"اکابرین اہلحدیث کا احسان وسلوک سے زیر طبع ٗ " سے اقتباس
کچھ اہلحدیث اکابرینؒ کا تذکرہ میں نے پہلے مراسلے میں بھی کیا ہے ،مزید پیش خدمت ہے ،امید سلفی احباب کی تشفی ہو چکی ہو گئی ۔میں یہاں پر اپنے اہلحدیث دوستوں سے درخواست کروں گا کی اکابرین ؒ کا جو تعلق تصوف کیساتھ تھا یا انکی تصنیفات آپکے علم ہوں تو اس خاکسار ضرور
حضرت مولانا قاضی سیلمان منصور پوریؒ اور اور اخذ سلوک:۔سیرت النبیﷺ پر لکھی جانے والی شہرہ آفاق کتاب ’’ رحمۃ اللعٰلمینﷺ ‘‘ کے مصنف قاضی سیلمان منصور پوریؒ مسلکاً اہلحدیث تھے ،آپ نے حدیث اور تصوف کی سند اپنے حضرت دادا جانؒ سے حاصل کی تھی ،آپکا شمار صاحب کشف و کرامات اولیا ٗ اللہ میں ہوتا ہے۔آپ کو مولا نا عبدالحمید سوہدری ؒ سے بھی ایک خاص روحانی تعلق تھا (کرامات اہلحدیث صفحہ ۷۰)
مولانا فیض محمد خان بھوجیانیؒ اور نسبت و ارادت:۔مولانا فیض محمد خان ؒ بھوجیانی مسلک اہلحدیث ممتاز علماء میں سے تھے ،آپ کا ورع وتقوی متقدمین کی مثل تھا،آپ مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی ؒ کے اساتذہ میں سے تھے،خود عطا اللہ حنیف ؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ متاثر مولانا فیض محمد خانؒ سے ہوا ہوں،مولانا فیض محمد خان ؒ مولانا سید عبد الجبار ؒ کے فیض یافتہ اور ارشد تلامذہ میں سے تھے ’’اشاعت خاص ہفت روزہ الاعتصام بیاد مولا نا عطا اللہ حنیف بھوجیانی ؒ ‘‘ میں اپکے قدرے تفصیلی حالات لکھے گئے ہیں،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیاء اہلحدیث رتبہ ومقام میں صوفیاءحناف کی ماند تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد ؒ اور اظہار ارادت ونسبت :۔مولانا ابولکلام آزاد ؒ نسبت مجددی پر اپنے دلی جذبات پر اظہار اس طرح فرماتے ہیں:۔
’ ’ یہی نسبت اور ارادت کی ایک دولت ہے ،جو شاہدہم بے مائیگان او ر تہی دست راہ کیلئے توشہ آخرت اور وسیلہ نجات ثابت ہو ،اگر اسکے دامن تک ہا تھ نہ پہنچ سکے ،تو اسکے دوستوں کا دامن تو پکڑ سکتے ہیں،اللہ اس راہ میں اثبات وا ستقامت وزرعی عطا فرمائے ،اور اسکے دوستوں کی محبت و ارادت سے ہمارے قلوب ہمیشہ معمور اور آباد رکھے۔
( تذکرہ، ص ۲۵۵،۲۵۶ مطبوعہ لاہور مزید بحوالہ سیرت مجدد الف ثانیؒ )
دج بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے آپکی نسبت وطریق السلوک نقشبندیہ تھا۔
فاضل جلیل حضرت مولانا سید نواب صدیق حسن خا ن ؒ اور اظہار نسبت و ارادت:۔آپ فرماتے ہیں:۔
’ ’ اگر چہ میں صوفیاء کے تمام طرق کو موصل الی اللہ سمجھتا ہوں ،اور جملہ طرق کے مشائخ کو مانتا ہوں ،لیکن میرے آبا ؤ اجداد ،استاتذہ، اور مشائخ کا طریقہ نقشبندیہ ہے گو اور طرق کی بھی اجازت حاصل تھی ‘‘
مزید فرماتے ہیں:۔
’ ’ میں سلوک سبیل علم میں اپنے باپ ،انکے مشائخ اور اپنے مشائخ اور اپنے شیوخ علم کے طریقہ پر چل رہا ہوں‘ ‘
مولاناغلام نبی الربانی سوہدریؒ اور بیعت و ارادت:۔حضرت مولانا غلام نبی سوہدری مسلک اہلحدیث کے صاحب کشف وکرامات بزرگ گزرے ہیں۔آپ مشہور عالم دین مولانا عبدالمجید سوہدریؒ کے جد امجد تھے،مولانا غلام نبی الربانی سوہدریؒ نے سید میاں نذیر حسین دہلوی ؒ سے سند احادیث حاصل کی اور حصول طریقت کیلئے مرتسر جاکرسید عبداللہ غزنویؒ کی خدمت میں حاضری دی اور انکے دائرہ بیعت و ارادت میں شریک ہوئے،اور وہاں تین ماہ مسلل قیام فرما منازل سلوک طے فرمائے ۔ آپ نے پیر میر حیدر وزیر آبادی سے بھی اخذسلوک کیا اوراس بات کاتذکر آپ کے پوتے مولانا ادریس فاروقیؒ نے ’’کرامات اہلحدیث‘‘ میں کیا ،اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ’’ بزرگان علوی و سوہدری ‘‘میں اسکا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ مولا نا غلام الربانیؒ سوہدری کا شمار مولانا غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے معاصرین میں ہوتا ہے۔
میاں صدر الدین بھوجیانیؒ اوبیعت وارادت:۔میاں صدرالدین بھوجیانیؒ مسلک اہلحدیث کے مشہور ومعروف عالم حضرت مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانیؒ کے والد گرامی تھے۔آپ ؒ کے پوتے حافظ احمد شاکر اپنے خا ندانی حالات میں لکھتے ہیں :۔
’’مولانا فیض اللہ اور میاں صدرالدینؒ نے امرتسر جا کر حضرت امام عبدالجباربن حضرت عبداللہ رحم اللہ کے دست حق پرست پر توبہ و ہدایت کی بیعت کر لی۔
"دادا جان ہمارے خاندان کے پہلے خوش نصیب انسان تھے ، جنہوں نے دعوت توحید کو قبول کیا،اور امام عبدالجبارؒ سے فیض پایااور حاندان کیلئے مشعلِ راہ بنے۔"
اہم اعلان

انشاءاللہ جلد ہی اصل اور اہم بات کہ اکابرین اہلحدیث کا طریق السلوک کیا تھا ؟ یعنی وہ ذکر کیسے کرتے تھے جس کو صوفیاء کے نزدیک "اشغال " کہا جاتا ہے،جیسے پاس انفاس وغیرہ نیز ان اکابرین اہلحدیث کی مجالس ذکر کی ہیت وغیرہ کیا ہوتی تھی،اور ان مجالس سے ذاکرین کے قلوب پر کیا اثر پڑتا تھا؟ پیش کیا جائے گایعنی
"اکابرین اہلحدیث کا طریق السلوک

انتظار فرمائیں

بالکل جناب ۔ ۔۔ ہم منتظر ہیں
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وقعی سناٹا طاری ہے۔
گڑ بھری ہنسیا نہ نگلتے بنے نہ اگلتے بنے
ع:مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی میری۔

شکریہ قریشی صاحب
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
بہت شکریہ
قریشی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں جب گلے کو دباؤ گے تو سانس تو رکے گی نا ۔۔۔
یہ جواب نہیں دیں گے بلکہ بات کو گول کرنے کی کوشش کریں گے اور کر سکتے ہیں اس کے علاوہ کچھ بھی ندارد
شاید ان ہی کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا
نہ خنج اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
 
Top