اورمیں مرگیا:(سلیم رؤف)

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
میراایک پسندیدہ مضمون جو اہمیت نافعیت اورافادیت سے بھرپورہے
اورمیں مرگیا
مضمون نگار:سلیم رؤف

’’مقام عبرت ہے ان لوگوں کیلئے جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو نہ صرف پس پشت ڈالتے ہیں بلکہ الٹا مذاق اڑاتے ہیں اورآخرت کی زندگی انہیں قطعاً یاد نہیں ،اگر اسی حالت میں انہیں موت نے آگھیراتو اللہ نہ کرے کہ کسی کاانجام اس شخص جیسا ہو ۔‘‘
میرا بچپن نادانیوں میں گزر گیا ، جب سے ہوش سنبھالااپنے بڑوں کی طرح دنیا کے پیچھے بھاگتا رہا ، مجھے غرض دولت سے تھی ، چاہے حلال طریقے سے آئے یا حرام ،سودی لین دین ، کرکٹ میچوں پر شرطیں ،پرائزبانڈ، لاٹری اوررشوت کی کمائی نے دنوں میں مجھے کروڑپتی بنادیا ، اتنی دولت اکٹھی کی کہ خود مجھے اندازہ نہیں ، ہر قسم کا نیا فیشن میرے گھر میں آتا ،ہائی فائی ،ٹی وی،ڈھیر ساری فلمیں،ڈش ،غرض کہ ایسی کوئی نحوست نہ تھی جو میرے گھر میں موجود نہ ہو،رات کو فیملی سمیت کم از کم ایک فلم دیکھ کر سونا ہرروزکا معمول تھا ،جو کوئی مہمان گھرآتامیںبڑے فخر سے چھوٹی بیٹی کو آواز دیتا ،بیٹی ! ذر اانکل اورآنٹی کو ڈانس تو کرکے دکھاؤ ، دوسرے بچے بھی ڈراموں اورفلموں کے مختلف کرداروں کی نقلیں اتارنے میں بڑے ماہر تھے ، مختلف قسم کے ڈائیلاگ ان کو خوب یاد تھے ، جھوم جھوم کر گانے سناتے اوراچھی کارکردگی پر انعام پاتے ۔
گھر میں گیٹ پر نمایاں لکھا تھا ’’ ھذا من فضل ربی‘‘اکثرمیرے ذہن میں آتا کہ شیطان میرے بارے میں کیا سوچتا ہوگا کہ دولت اکٹھی کرنے کے سارے گُرمیں نے سکھائے ،پھر اسی کمائی سے اتنا عالیشان گھر بنا اوراب اتنے بے وفا نکلے کہ اس پر لکھوادیا ’’ھذا من فضل ربی ‘‘۔
انتظامیہ سے ٹھیک ٹھاک مراسم کی وجہ سے کوئی مجھے پوچھنے والا نہ تھا ، میر اشمار شہر کے چند ایک شرفاء میں ہوتا ، اتنی دولت ہونے کے باوجود ساری عمر مجھے حج کی سعادت نصیب نہ ہوسکی ، اکثر لوگ مجھے صاحب کہہ کرپکارتے ، میرے ہاں اکثر مجمع سا لگا رہتا ، اونچی آواز میں ایک دوسرے کو گالی دینا تو عام معمول تھا اوراس شورشرابے سے پورا محلہ تنگ تھا ،خصوصاً اگر پڑوس میں کوئی بیمار ہوتا مگر کسی کو میرے خلاف بات کرنے کی جرأت نہ تھی ، محلہ کی مسجد میں میرا آنا جانا بس عید کے روز ہی تھا ۔
دنیاوی باتیں کرتے کرتے میں تھکتا نہیں تھا ،میری زبان قینچی کی طرح چلتی تھی مگر بد قسمتی سے میری زبان اللہ اوراس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کرنے کے معاملہ میں بالکل گونگی تھی ، کبھی کسی داڑھی والے کا سامنا ہوتا تو نہ جانے کیوں طبیعت مچلنے لگتی ، خوب بحث ومباحثہ ہوتا اوراکثر باتوں میں میرے دلائل کچھ اس قسم کے ہوتے ۔
٭نماز :صوفی صاحب یہ تو فارغ لوگوں کا کام ہے ، ابھی تو بڑی عمر پڑ ی ہے ،ابھی ٹانگیںساتھ دے رہی ہیں ، جب ٹانگیں کام کرنا چھوڑجائیںگی تو پھر مسجد اورتسبیح ہی رہ جائے گی ۔
٭روزہ :روزے رکھیں غریب لوگ ،جن کے پاس کھانے پینے کیلئے کچھ نہیں ،ہم تو کھاتے پیتے لوگ ہیں ۔
٭زکو ۃ :یہ تو ٹیکس کی ایک قسم ہے اور وہ ہم حکومت کو دے رہے ہیں ۔
٭داڑھی :حضرت جی !یہ کوئی عمر ہے داڑھی رکھنے کی ؟ کیوں شادی کی مارکیٹ میں میرا ریٹ ڈاؤن کررہے ہو،مجھے ابھی چاچاجی …بابا جی نہیں کہلوانا ۔
٭پردہ :پردہ تو دل کا ہوتا ہے تم لوگوں کی اپنی نیت میں فتور ہوتا ہے ۔
٭صدقہ:اللہ چاہتا تو غریبوں کو خود کھلادیتا جنہیں اللہ نہیں دیتا ہم کیوں دیں ؟
٭آخرت :چھوڑوجی !یہ سب مولویوں کی گھڑی ہوئی باتیں ہیں خوامخواہ ڈراتے رہتے ہیں وہ جہاں کس نے دیکھا ہے ہاں !اگر ایسا کوئی چکرہواتوچونکہ مجھے یہاں بہت کچھ ملا ہے آگے جاکر بھی میرے پاس بہت کچھ ہوگا ۔ پھر میںنے کوئی اکیلے مرنا ہے ، جہاںسب ہوں گے میں بھی چلاجاؤں گا ،چار دن کی زندگی ہے ،خوب عیاشی کے ساتھ گزارو۔
وقت گزرتا گیا ،لاپرواہی دن بدن بڑھتی گئی ، ایک دن اچانک میرے وجود نے کام کرنا چھوڑدیا ، یک لخت ایسی حالت ہوگئی کہ صرف ایک گلاس پانی مانگنے کے لئے مجھے پورے جسم کی قوت صرف کرنا پڑی ۔
اگلے ہی لمحے ڈاکٹروں کی پوری ٹیم میرے گر د موجود تھی ، میرے کانوں میں آواز پڑی ، دل کا شدید دورہ ہے، بس دعا کیجئے ،یہ سنتے ہی مجھ پر کیا گذری ، یہ میں ہی جانتا ہوں ، یا میرے اللہ ! اس وقت مجھے پتا چلا کہ میں کتنی بکواس کیا کر تاتھا کہ مو سیقی روح کی غذا ہے اورگانے بجانے سے روح کو سکون ملتا ہے ، آج تو مجھے اس سکون کی بہت ضرورت تھی ، آج میرا دل گاناسننے کو کیوں نہیں چاہ رہا تھا ؟
مجھے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کے ایک ایئر کنڈیشنڈکمرے میں لاکر ڈال دیا گیا ، میں بستر ِ مرگ پر پڑا چھت کو گھوررہا تھا ، حیرانی کی بات ہے کہ اس وقت چھت ایک بہت بڑی سکرین تھی اوراس پر میری گھناؤ نی زندگی کی پوری فلم چل رہی تھی ، چھوٹے بڑے سبھی گناہ بہت صاف نظر آرہے تھے ، آہ ! کیسی عجیب فلم تھی ؟ میں گناہ کرتاتو دروازے بند کرلیتا کہ کوئی دیکھ نہ لے ، افسوس یہ نہ سوچا کہ ایک ذات ایسی بھی ہے جو میری ایک ایک حرکت کو دیکھ رہی ہے ، میری بد بختی کہ فرش والوںسے مجھے اتنی شرم آتی رہی اورعرش والے سے مجھے کبھی شرم نہ آئی ، آہ ! کتنا بے شرم تھا میں ، اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اے بد بخت انسان ! اللہ تعالیٰ کی ہستی کس قدر صابر ہے کہ تیری مسلسل بد اعمالیوں اورسیاہ کاریوں پر اس ذات نے کتنا صبر کیا اورتو ایسا ظالم تھا کہ اتنی مہلت دئے جانے کے باوجود اپنی جان پر ظلم کرتا رہا ، اپنی اسی بھیانک فلم میں الجھا ہوا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میر ے گرد لاالہ الا اللّٰہ کا ورد ہورہا ہے ،پھر اچانک کلمے کے ورد میں تیزی آگئی ، حیرت ہے جب میں گانے سنتا تو بے اختیار میری زبان حرکت کرتی ، ساتھ ساتھ میں بھی گنگناتا تھا مگر آج میرے چاروں طرف ایک ہی جملے کا ورد ہورہا تھا مگربڑی کوشش کے باوجود میر ی زبان سے ایک لفظ جاری نہ ہوسکا ۔
مجھے محسوس ہوا جیسے مجھے ابلتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا گیا ہو جیسے تلوار سے میرے جسم کے ٹکڑے کرنا شروع کردئے گئے ہوں،جیسے زندہ بکری کی کھال اتاری جارہی ہو جیسے بیلنے میں گنے کے ساتھ مجھے بھی ڈال دیا گیاہوجیسے ریل کی پٹری پر میر اسر رکھ کر اوپر سے ٹرین گزاردی گئی جیسے زندہ چڑیا کو آگ پر بھونا جارہا ہو ،جیسے میرے جسم کے چپے چپے پر ڈرل مشین سے سوراخ کئے جارہے ہوں جیسے ایک کانٹے دار ٹہنی کو میرے اندر داخل کرکے یک دم باہر کھینچ لیا گیا ہو ،اللہ کی قسم !اگر موت کی اس تلخی کا جانوروں کو پتہ چل جاتا تو دنیا والوکوئی تندرست جانور تمہیں کھانے کو نہ ملتا ۔
میں بہت چلایا ،بہت واویلا کیا ، اللہ کا واسطہ دے کر منتیں کرتا رہا کہ آج چھوڑدو ،میں بہت نیک ہوجاؤ ں گا، آئندہ گناہ کے قریب نہیں پھٹکوں گا ،نہیںچھوڑوں گاآج سے نماز ،نہیں سنوں گا آج سے گانے ،نہیں دیکھوںگا فلمیں،ہائے میرے اللہ !ہائے ماں !کاش تونے مجھے جنا ہی نہ ہوتا ، کیا ہوگیا ہے مجھے ، آج تو میرا مال بھی میرے کام کا نہیں رہا ،کہاں مرگئے کارندے ،کہاں گئے تعلقات ،کہاں گیاموبائل پر باربار میوزک کا بجنا ۔
اچانک ملک الموت کی دہشت ناک آواز میرے کانوں میں گونجی جس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ، ’’نکل اے خبیث روح ! اپنے خبیث بدن سے ،نکل ! آج تو بہت قابل مذمت ہے ،کھولتے ہوئے پانی ، پیپ،زقوم اورطرح طرح کے عذابو ںکی تجھے خوشخبری ہو ‘‘۔اف میرے اللہ ! کیا ہر بدکار کی روح اسی طرح نکلتی ہے ؟ اس وقت میں اتنی تکلیف محسوس کررہا تھا کہ جیسے کسی نے باریک سا کپڑا کانٹے دار ٹہنیوںپر ڈال کر زور سے اپنی طرف کھینچا ہو، اس طرح میرا سا را بدن تار تار ہوگیا،پہلے پاؤں ٹھنڈے ہوئے ،پھر پنڈلیاںاورآہستہ آہستہ پورا بدن ٹھنڈا ہوگیا……اورمیں مرگیا ۔
ملک الموت نے میری روح کھینچ کر نکالی ، (جیسے گرم سلاخ ،گیلی اون میں رکھ کر کھینچی گئی ہو )اسی وقت آسمان سے سیاہ چہرے والے فرشتے اترے ،انہو ں نے پلک جھپکنے میں میری روح کو پکڑااورایک گندے سے ٹاٹ میں لپیٹ دیا جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھا ، (ایک وقت تھا کہ میں گھر سے بہترین سوٹ اعلیٰ قسم کی خوشبو لگاکر نکلتا اورجس گلی سے گزرتا ،پتہ چلتا کہ فلاں صاحب گزرے ہیں مگر آج مجھ میں سے اس قدر بدبو آرہی تھی کہ جیسے کئی جانوروںکی لاشیں کسی جگہ اکٹھی پڑی ہوں )فرشتے میری روح کو لے کر آسمان کی طرف چڑھنا شروع ہوگئے ،وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے وہ پوچھتے یہ خبیث روح کس کی ہے ؟ وہ کہتے فلاں بن فلاں کی ،وہ بہت برے طریقے سے میرا نام بتلارہے تھے جس طرف سے گزرہوا ان گنت فرشتوں کی آواز یں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں ،لعنت ہو،لعنت ہو ،لعنت ہو۔
آسمانِ دنیا پر پہنچ کر فرشتوں نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا مگر دروازہ نہ کھولا گیا ، آواز آئی اس قسم کے لوگوں کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اورنہ ہی اس قسم کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، ان کا جنت میں جانا اتنا ہی محال ہے جتنا سوئی کے ناکے میں اونٹ کا داخل ہونا پھر میری روح نیچے پھینک دی گئی ادھر دنیا میں جامع مسجد کے بڑے بڑے اسپیکروں سے میرے جنازے کا اعلان ہورہا تھا ،وہ مسجد کہ جس کے بارے میںپہلے بتاچکا ہوں کہ ساری عمر مجھے کم ہی داخلہ نصیب ہوا مگر نہ جانے کیوں آج عجیب قسم کے تعریفی کلمات کے ساتھ میرے جنازے کا بار بار اعلان ہورہا تھا اورہر مرتبہ مجھے حاجی صاحب کہہ کر پکار اگیا ،زندگی میں جب کسی کے مرنے کا اعلان ہوتا تو میں ہنستے ہوئے کہتا، لوجی آج ایک اورصاحب آؤٹ ہوگئے لیکن یہ بات میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھی کہ اسی اسپیکرپر کبھی میرے جنازے کا اعلان ہوگا ۔
میری آنکھیں بند کردی گئی اورجبڑوں پر کپڑا باندھ دیا گیا ، میری بد قسمتی کہ روتے روتے کچھ نے ماتم کرنا شروع کردیا اورکچھ نے بال نوچنے شروع کردئے (مگر بعد میں عذاب مجھے بھگتناپڑا )اسی دوران عصر کی اذان ہوئی ، گھر میں عورتوں کاہجوم اورباہر مردوں کا ،لیکن افسوس ! شاید ہی کسی نے نماز پڑھی ہو ،میں نے چیخ کر کہا ، اوغافلو!مجھے چھوڑدومیں تو اپنے انجام کو پہنچ چکا ہوں ،تم اپنی فکر کرو ،نماز کا وقت جارہا ہے مگر اتنے شورشرابے میں میری کون سنتا۔
میری لاش کے گرد گھروالو ں اوررشتہ داروں کا ایک ہجوم تھا ، میرا ایک ہاتھ چھوٹی بیٹی نے اوردوسرا ہاتھ بڑی بیٹی نے اپنے اپنے گالوںسے لگارکھا تھا ،پاؤںکو بیٹوں نے ،اپنے بازؤں سے جکڑاہوا تھا ، میری بیوی باربارمیرے چہرے کو دیکھ رہی تھی ،میری ماں میرے چہرے پر ہاتھ پھیرر ہی تھی ،آخری مرتبہ میری ماں نے میرے ماتھے کو چوما اورپھر ایک گہما گہمی سی ہوگئی ، کوئی کفن خریدنے کے لئے کہہ رہا تھا تو کوئی قبر کھودنے کے لئے ، لائٹ کا بندوبست کرنے اورکوئی غسل دینے والے کو بلانے کے لئے ۔
غسل دینے کے لئے مسجدسے مولوی صاحب کو بلایا گیا ، انہوں نے مجھے تختے پر لٹاکرآہستہ آہستہ میرے پیٹ کو دبانا شروع کیا تاکہ کوئی گندگی وغیرہ ہوتو نکل جائے پھر انہوں نے اپنے ہاتھ پر کپڑے کا لفافہ باند ھ کر غسل کی نیت کی اورمیری شرم گاہ دھوئی ،نجاست صاف کی، پھر ہاتھ سے لفافہ اتار کر مجھے نماز کے وضو کی طرح وضو کرایا اورپھر میرے جسم پر پانی ڈالا ، اوپر سے شروع کیا اورنیچے کو لے گئے ،تین بار ایسا ہی کیا ، یہ وہی مولوی صاحب تھے جن کا زندگی میں اکثر میں مذاق اڑایا کرتا تھا اورکبھی اپنے قریب نہیں پھٹکنے نہیں دیا ، مگر آج وہی میرے کام آرہے تھے ،میرے گھر والوں نے کفن کے طورپر ریشمی کڑھائی والا لباس مجھے پہنادیا اورپھر مجھ بدنصیب پر انتہائی قیمتی پرفیوم کابھرپورچھڑکاؤ کیاگیا ،ان عقل کے اندھوں کو کیا پتہ کہ ابھی میرے ساتھ کیا بیتی ہے ؟ اگر میں بتانے کے قابل ہوتا کہ فرشتوں نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا تو اللہ کی قسم سب میری میت کو چھوڑکر بھاگ جاتے ، اوراپنی اپنی فکر میں لگ جاتے ،اسی دوران میرا چھوٹا بیٹا بھاگ کر ایک فوٹو گرافر کو لے آیا جو بڑی پھرتی سے میری تصویریںکھینچ رہا تھا پھر ویڈیووالے آگئے ، انہیں دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ مجھے ریشمی لباس کیوںپہنایا گیا ،لوگ اپنی اپنی فلم بنوانے کے لئے اندازبدل بدل کر میری چارپائی کے گرد گھوم رہے تھے ۔
پروگرام کے مطابق جنازے کا وقت ہوگیا ،آوازیں آنا شروع ہوگئیں ’’دیر ہورہی ہے جی ‘‘جنازہ اٹھانے کی دیر تھی کہ عورتوں کی چیخوں کی آواز سے سارا محلہ دہل کر رہ گیا ،میرے بیوی بچے چارپائی سے لپٹ گئے ،بڑی مشکل سے مجھے باہر نکالا گیا ،چار آدمیوں نے میری چارپائی کو کندھوںپر اٹھالیا ،سڑک پر پہنچے تو سارے دوکاندار کھڑے ہوکر افسوس کا اظہار کرنے لگے ، کچھ لوگ آگے ٹریفک کنٹرول کررہے تھے ،لوگوںکے قدموں کی چاپ سے میں نے اندازہ لگایا کہ لاکھوں کا مجمع ہے ،افسوس ! کسی متقی ،پرہیزگار،تہجد گذار،غریب آدمی کاجنازہ ہوتا تو پچاس آدمی بھی اکٹھے نہ ہوتے ۔
جنازہ گاہ میں عجیب منظر تھا ،کچھ لوگ میرے وہاںپہنچنے سے پہلے ہی موجود تھے جو سیاسی اورکاروباری گپیںہانک رہے تھے ،آواز آئی سب آگئے ہیں جی ،صفیں درست کی گئیں ،اتنے میں میرے بڑے بیٹے نے رسم پوری کرنے کیلئے آہستہ سے آواز نکالی جو شاید پہلی صف والے بھی ٹھیک طرح سے نہ سن سکے ہوں گے ’’بھائیو! اگر کسی کا قرض میرے باپ کے ذمہ ہوتو وہ بعد میں مجھ سے رابطہ کرسکتا ہے ‘‘۔اگر امام صاحب کو میرے قرض کے بارے میں علم ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ میری نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیتے ،امام صاحب نے اللہ اکبر کہاہی تھا کہ ایک شخص کی زوردار آئی ،’’ٹھہروجی !کچھ لوگ اورآگئے ہیں ‘‘۔
بہرحال اما م صاحب نے ہاتھ باند ھ لئے ،افسوس اتنے بڑے مجمع میں چندایک ہوں گے جنہیں نماز جنازہ آتی ہو،ورنہ اس معاملہ میں سبھی میرے بھائی نظر آرہے تھے اورمارے شرم کے دائیں بائیں نظر یں گھمارہے تھے جیسے کچھ پڑھنے کی کوشش کررہے ہوں،چار تکبیرکہہ کر سلام پھیر لیا گیااورمیرے ان بھائیوں کی جان میں جان آئی چونکہ ہر میت کے ساتھ میں بھی ایسا ہی کرتا تھا ،آج میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا ، میرے جنازے میں بہت سی ایسی ہستیاں موجود تھیں کہ اگر میرے ساتھ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھادی جاتی تو بہتر ہوتا ۔
آخری دیدار کے لئے میرے منھ سے چادر ہٹائی گئی ،بڑی بے ڈھنگی سی قطار میں سبھی میرا منھ دیکھ کر آگے بڑھنے لگے ،کوئی اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا ،کوئی منہ اوپر کرکے ہاتھ جوڑتا ،کسی کی آواز آئی یا اللہ ! معاف کردے ،اورکوئی میرے بیٹوںکو ڈھونڈرہا تھا ،تاکہ اپنی حاضری لگواسکیں،پھر مجھے کندھوں پر اٹھاکر سب نے میری قبر کی طرف (جو پہلے تیار تھی )چلنا شروع کردیا ،پھولوں کی دوکان سے کچھ نے گلاب کے ہار لئے اورکچھ پتیاںلفافے میں ڈال کر لے آئے ،مجھے قبرمیں اتار کرے میرے اوپر مٹی ڈالی جانے لگی ،میرے بعض ’’خیرخواہ‘‘ساتھ والی قبروں کی مٹی بھی مجھ پر ڈال رہے تھے ، اس طرح مجھے منوںمٹی تلے دبادیا گیا ،سب اپنے اپنے گھروںکو چلے گئے ،ہر طرف خاموشی چھاگئی ،میں جوتیوںکی آواز سن رہا تھا ، میں سمجھا کہ جتنی سزا ملنی تھی مل چکی ،اب قبر میں آرام سے پڑا رہوں گامگریہ بات میرے وہم وگمان میںبھی نہ تھی کہ اب ایک مستقل عذاب سے پالا پڑنے والا ہے ،ایسا دردناک عذاب کہ اللہ کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے ،میر ی قبرکے باہر گلاب کی خوشبودار اگر بتیوںکی لپٹیںاورگیلی مٹی کی اپنی ایک مہک تھی مگر قبر میں میراجی گھبرارہا تھا ۔
قبر نے عجیب طریقے سے میرے ساتھ شکوہ کیا ’’اے غافل انسان ! تو دنیا میں مگن تھا مگر کوئی دن ایسانہیںگزرا جس دن میں نے تجھے آواز نہ دی ہو کہ میںوحشت کا گھر ہو ں،میںتنہائی کا گھرہوں،میں خاک کا گھر ہوں ،میں کیڑو ں کا گھر ہوں ،جتنے لوگ میری پشت پرچلتے تھے میرے نزدیک ان سب سے زیادہ قابلِ نفرت تو تھا ، آج میں تجھ پر حاکم بنادی گئی ہوں اورتو میری طرف مجبورکردیا گیا ہے تو دیکھے گا میں تیرے ساتھ کیا سلوک کرتی ہوں ‘‘۔
آناً فاناً سیاہ رنگ کے دو فرشتے میری قبر میں آدھمکے ، انہوں نے مجھے اٹھاکر بٹھادیا (نہ پوچھواس وقت میری حالت کیا تھی ،میں تھرتھرکانپ رہا تھا )وہ انتہائی غضب ناک لہجے میںبولے’’مَن رَّبکم ‘‘حیرانی کی بات یہ ہے کہ زندگی میں شاید کبھی میں نے کوئی قرآنی آیات یا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سنی ہو لیکن مجھے عربی صحیح سمجھ میں آرہی تھی کہ یہ پوچھ رہے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ عجیب خبط سوار ہوا مجھ پر کہ میں نے جواب دینے کی بجائے عجب قسم کی بڑیں مارنا شروع کردیں ،جیسے شیطان نے کسی کو چھوکر باؤلا کردیا ہو،’’باہ باہ میں نہیں جانتا ‘‘ پھر مزید سختی سے بولے ’’تیرا دین کیا ہے ؟‘‘دوبارہ میں نے وہی جواب دیا ،انتہائی غضب ناک ہوکر بولے ’’کون ہیںیہ جن کو تیری طرف بھیجا گیا ‘‘قسمت کھوٹی اس مرتبہ بھی میری زبان سے وہی الفاظ جاری ہوئے ، آسمان سے آواز آئی کہ ’’یہ جھوٹا ہے ‘‘’’اس کا بسترآگ کابچھادو‘‘’’اسے آگ کا لبادہ پہنادو ‘‘اس کے لئے دوزخ کی طرف ایک دروازہ کھول دو‘‘
یہ آواز آنے کی دیر تھی کہ اسی وقت میری قبر میں لواورگرمی آنا شروع ہوگئی اورقبر اتنی تنگ ہوگئی کہ میری پسلیاںایک دوسرے میں گھس گئیں ،پھر کیا سناؤں ایک اندھا اوربہرہ فرشتہ میری قبر پر مسلط کردیا گیا جس کے ہاتھ میں لوہے کا ایک گرز تھا ، اس نے اس گرزسے مجھے مارنا شروع کیا اوراتنا مارا کہ میری چیخوںکی آوازجنو ں اورانسانوںکے علاوہ ارد گرد کی باقی تمام چیزیں سن رہی تھیں ۔
بھائیواوربہنو !اگر تمہیں پتہ چل جائے کہ مجھے اس وقت کتنی تکلیف ہوئی تو اللہ کی قسم تم لوگ اپنے مردے دفنانا چھوڑدو ۔
بھائیواوربہنو !یہاں میں نے بہت کچھ برداشت کیا اوراب بھی کررہا ہوں مگر ایک بات جو اس سزا سے زیادہ اذیت ناک دکھائی دے رہی ہے وہ یہ کہ اے اللہ ! قیامت کے روز یہ ذلیل ومکروہ چہرہ لے کرکس طرح تیرے حضورحاضری دوں گا ،اپنے جرائم کا تجھے کیا جواب دوں گا ؟ قبر میں تو کوئی دیکھنے والا نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے مگر میدانِ حشر میں توساری امتیں ہوگی ، سارے انبیاء کرام ہوں گے اورخصوصاً سروردوجہا ں ، سیدالاولین والآخرین جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ہو ں گے ، کیا سوچیں گے میرے بارے میں ؟
کاش ! کوئی بہن یا بھائی میرا یہ پیغام میری اولاد کو بھی پہنچادے کہ آؤاپنے بد نصیب باپ کی انگاروں سے بھری ہوئی قبر دیکھو ،میرے بچو ! میری قبر میں بہت سے سانپوںنے مجھے گھیر رکھا ہے ، جو سارادن میرے بدن کو نوچتے رہتے ہیں ،میرے بیٹو!میری قبر پر ایک بارتو آکر دیکھو اگر تمہیں یہاں آنے کی فرصت نہیں تومیرے چھوڑے ہوئے مال میں سے کچھ صدقہ کردو ،یہ بھی نہیںتو ایک مسکین کی ایک التجا ہے کہ میرے ذمہ عبدالرحمن کی رقم ہے جس کا تمہیں علم ہے ،کم از کم اس کا کچھ کردو ،برخوردار ! ابھی تک تم نے اس سے رابطہ نہیں کیا ، تمہیں یاد ہوگا کہ تم نے جنازہ گاہ میں اعلان بھی کیا تھا ،عبد الرحمن نے اس وقت مناسب نہ سمجھا کہ رقم کے بارے میں تم سے بات کر ے ، اس کی شرافت دیکھو کہ رقم کے مطالبے کیلئے آج تک تمہارے دروازے پر نہیں آیا ، اللہ کے واسطے !کم از کم وہی حساب چکادو ،میںیہاں بہت بے بس ہوں،اللہ کے واسطے ! کم زاکم وہی حساب چکادو ، میں یہاں بہت بے بس ہوں ،چیک بک سیف میں پڑی رہ گئی اورآتے وقت تم نے میری راڈوکی گھڑی ،سونے کی انگوٹھی ،لاکٹ ،بٹوا سب کچھ نکال لیا حتی کہ میرے کپڑے تک اتارلیجئے ،اب یہاںکیا ہے میرے پاس ؟کل جب وہ مجھ سے مانگے گا تو کہاں سے دوں گا ؟نیکیاں تو پہلے ہی میرے پاس نہیں کہ اسے دے کر راضی کرلوں ، اب لگتا ہے کہ اس کے گناہ بھی مجھ پر لاد دئے جائیں گے ۔
بیٹا!کتنے دکھ کی بات ہے کہ قرضہ ادا کرنے کی تمہیں توفیق نہ ہوئی مگر میرے چالیسویںپر تم نے کئی لاکھ خرچ کرڈالے ،اتنے بڑے بڑے لوگوںکو اکٹھاکرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیا ضرورت تھی اخبارات میں تصویر اورخبر لگوانے کی ،کیا ضرورت تھی دعوتی کارڈچھپوانے کی ؟روسٹ مرغ ،پائے ،بریانی ،میٹھے چاول ،فیرنی ، پھلوںکی ڈشیںاورسوٹ وغیرہ لائنوںمیں سجاکر ،ویڈیوبنواتے ہوئے تمہیں شرم نہ آئی اورپھرڈوب مرنے کا مقام تھا جب بھانڈشامیانے ،دیگیںاوراتنا بڑامجمع دیکھ کرمخصوص آواز نکالتے ہوئے پنڈال میں آگئے ،وہ تو ایک صاحب نے عقل مندی کی کہ جلدی سے آگے بڑھ کر انہیں بتلایا کہ شادی کی تقریب نہیں بلکہ حاجی صاحب کا چالیسواں ہے مگر وہ بھی آخر بھانڈ تھے جاتی دفعہ کہنے لگے ما شاء اللہ حاجی صاحب کے چالیسویں کا یہ حال ہے تو شادی پر کیا طوفان برپا ہوا ہوگا ۔‘‘
میرے بچو! جب تم گھر میں (جسے میں اپنا سمجھتا تھا )زورزورسے قہقہے لگاتے ہوتو اللہ کی قسم مجھے یہاں بہت تکلیف ہوتی ہے ،اتنے لچراورفحش قسم کے گانوںکی آوازیںاس گھر سے بلند ہوتی ہیں کہ اللہ کی پناہ ، اگر گانے بجانے کے بغیر تمہاری گزر نہیں ہوتی تو کم ازکم آواز ہی آہستہ رکھاکرو،اوریہ میرے مرنے کے بعد نئی کار، نئی موٹرسائیکل ،کیا سوچتے ہوں گے محلہ والے ؟تمہارے سامنے تو کچھ نہیں کہتے ،مگر سارامحلہ کہتا ہے کہ باپ کے مرنے پر جشن منارہے ہیں ،میرے بچو!میں جانتا ہوں کہ تمہاراوقت بہت قیمتی ہے ،بس آخری بات اس کے بعد کچھ نہیںکہوں گا بیٹا !اپنی ماں اوربہنوںسے کہنا کہ اللہ سے ڈریں،چند دن بھی ان سے صبر نہ ہوسکا ،خوب بناؤ سنگھار کرکے اتنے چمکیلے بھڑکیلے لباس پہن کر اور کھلے بالوں کے ساتھ بے پردہ باہر آنا جانا چھوڑدیں ،کیوں کرتے ہویہ سب کچھ ،کیوں اذیت دیتے ہومجھے ؟یقین مانو یہ سب کچھ کرتے تم ہو مگر مگر بھگتنا مجھے پڑتا ہے ،میری سزا میںاضافہ ہوتا ہے ، کیوں کرتے ہواس طرح ؟آخر میں تمہارا باپ ہوں،جو سلوک تم میرے ساتھ کررہے ہواس طرح تو کوئی شریف ہمسایہ بھی نہیں کرتا ، تم میری اولاد ہو،باپ سمجھ کر نہیں تو کم از کم ایک ہمسائے جتنی حیثیت تو دے دو ،زندگی میں تم ابا جان ،اباجان کہتے نہیں تھکتے تھے، تمہیں ہی پالنے کیلئے حرام کماتا رہا ،آج کیا ہوگیا ہے مجھے ؟یہی ناںکہ یہاں میرے پاس دولت نہیں ہے ،تمہارا ستیاناس ،ڈرائنگ روم میں میری اتنی بڑی تصویر ہار ڈال کر سجارکھی ہے ، کس کو دکھانے کیلئے ؟ جاؤ میں تمہیں جائیداد سے عاق کرتا ہوں ، اللہ تم جیسی اولاد کسی کو نہ دے ۔
خیر! اس میں میر ا قصوربھی ہے ،میں نے اولاد کے لئے سب کچھ کیا مگر ان کی تربیت کے لئے کچھ نہ کیا ، میں کہتا تھا کہ بچے بڑے ہوکر کیا کہیں گے کہ ہمارے باپ نے ہمارے لئے کوئی جائیداد بھی نہیں بنائی ،افسوس ! اگر ان کی تربیت اللہ اوراس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرتا تو آج یہی اولاد میرے لئے صدقہ جاریہ ہوتی ، اس وقت اگر کوئی کہتا کہ اپنی اولاد کو قرآن کی تعلیم بھی دلواؤ تو میں کہتا ، میں نے انہیں افسر بنانا ہے ’’ملا ‘‘نہیں بنانا ،افسوس اچھے افسر تو بن گئے مگر اچھے مسلمان نہ بن سکے یا کم از کم ایک بیٹی کی اچھی تربیت کردیتا تو شاید میرے لئے جنت میں داخلے کا ذریعہ بن جاتی ،مگر اب پچھتانے سے کیا فائدہ ،یہ تو ظاہرہے کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے ،مجھ جیسے ماں باپ کے نافرمان کا یہی حال ہونا چاہیے ۔
بھائیو اوربہنو ! بس آخری بات میرے زخمی اورلرزتے ہوئے ہاتھ دیکھو ، اب اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ میرے انجام سے عبرت حاصل کرو، بڑھاپا آنے سے پہلے جوانی میں کچھ کرلو ،بیماری آنے سے پہلے تندرستی میں کچھ کرلو ،تنگی میں آنے سے پہلے خوشحالی میں کچھ کرلو ،مصروفیت آنے سے پہلے فرصت میں کچھ کرلو ، اورموت آنے سے پہلے زندگی میں کچھ کرلو ،ورنہ میری طرح پچھتاؤگے ،بہت پچھتاؤگے ……مجھے اب امید کی ایک ہی کرن نظر آتی ہے کہ میری باتیں سن کر کسی بہن یا بھائی نے اللہ کے خوف سے صرف ایک آنسو بہادیا اورسچی توبہ کرلی تو نہ جانے کیوں میرادل گواہی دیتا ہے کہ ایسے ایک فرد کی بدولت اللہ میری قبر کو ٹھنڈی کردے گا ،میرا عذاب ٹل جائے گا ،میری قبر تاحدِنگاہ کشادہ کردی جائے گی ،مجھے جنتی خوشبوئیںآئیں گی میری قبر میں جنتی بستربچھ جائے گا ،مجھے جنتی لباس پہنادیا جائے گا اورکہا جائے گا سوجا جس طرح دلہن سوتی ہے ۔
بھائیواوربہنو ! ترس کھاؤ اس بد نصیب بھائی پر ،اللہ کے واسطے سستی نہ کرنا ،ابھی سے یہاں آنے کی تیاری شروع کردو ،مجھے مرے ہوئے کئی سال گزرگئے ہیں مگر جان نکلتے وقت جو تکلیف ہوئی آج بھی محسوس کررہاہوں ،اب تو دل سے ایک ہی دعانکلتی ہے کہ پروردگار! مجھ جیسے انجام سے ہر مسلمان مرد اورعورت کو محفوظ فرما،ان کی قبراورحشر کی منزلیں آسان فرما………آمین
[/size]
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اچانک ملک الموت کی دہشت ناک آواز میرے کانوں میں گونجی جس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ، ’’نکل اے خبیث روح ! اپنے خبیث بدن سے ،نکل ! آج تو بہت قابل مذمت ہے ،کھولتے ہوئے پانی ، پیپ،زقوم اورطرح طرح کے عذابو ںکی تجھے خوشخبری ہو ‘‘۔اف میرے اللہ ! کیا ہر بدکار کی روح اسی طرح نکلتی ہے ؟ اس وقت میں اتنی تکلیف محسوس کررہا تھا کہ جیسے کسی نے باریک سا کپڑا کانٹے دار ٹہنیوں پر ڈال کر زور سے اپنی طرف کھینچا ہو، اس طرح میرا سا را بدن تار تار ہوگیا،پہلے پاؤں ٹھنڈے ہوئے ،پھر پنڈلیاںاورآہستہ آہستہ پورا بدن ٹھنڈا ہوگیا……اورمیں مرگیا ۔

موت دے یا رب مجھے اسلام پر ۔۔۔۔۔۔۔۔اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ کر
یا الٰہی مجھ کو تنہا تو نہ چھوڑ۔۔۔۔۔۔۔۔اور بے وارث اکیلا تو نہ چھوڑ
ساتھ برکت کے مجھے یارب اتار۔۔۔۔۔۔۔۔دے مجھے عزت نہ کر رسوا وخوار​
 

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
موت دے یا رب مجھے اسلام پر ۔۔۔۔۔۔۔۔اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ کر
یا الٰہی مجھ کو تنہا تو نہ چھوڑ۔۔۔۔۔۔۔۔اور بے وارث اکیلا تو نہ چھوڑ
ساتھ برکت کے مجھے یارب اتار۔۔۔۔۔۔۔۔دے مجھے عزت نہ کر رسوا وخوار
آمین ثم آمین یا رب العٰلمین
 

بنت حوا

فعال رکن
وی آئی پی ممبر
موت دے یا رب مجھے اسلام پر ۔۔۔۔۔۔۔۔اور مجھ کو صالحوں کے ساتھ کر
یا الٰہی مجھ کو تنہا تو نہ چھوڑ۔۔۔۔۔۔۔۔اور بے وارث اکیلا تو نہ چھوڑ
ساتھ برکت کے مجھے یارب اتار۔۔۔۔۔۔۔۔دے مجھے عزت نہ کر رسوا وخوار
آمین ثم آمین یا رب العٰلمین
 
Top