عشقِ مجازی و عشقِ حقیقی

محمد ارمغان

وفقہ اللہ
رکن
ایک دفعہ مجنوں ایک جگہ پر بیٹھا لیلیٰ لیلیٰ کر رہا تھا۔ لیلیٰ نے اپنے خادم کو دُودھ دے کر بھیجا کہ مجنوں کو پہنچا آؤ۔ ایک شخص نے دیکھا کہ مجنوں کے لیے دُودھ جا رہا ہے، راستہ میں بناوٹی مجنوں بن کر بیٹھ گیا۔ خادم نے مجنوں سمجھ کر اس کو ہی دُودھ دے دیا اور اس نے پی لیا۔ خادم جب واپس پہنچا، تو لیلیٰ نے پوچھا: کیا ہوا؟ اس نے کہا مجنوں کو دے دیا اور اس نے پی لیا۔ دوسری دفعہ پھر بھیجا، پھر وہی بناوٹی مجنوں پی گیا۔ تیسرے دِن بھی وہی پی گیا۔ لیلیٰ نے سوچا کہ امتحان لینا چاہیے۔ چنانچہ خادم کو چُھری اور گلاس دے کر بھیجا اور کہا کہ جاؤ، مجنوں سے کہنا کہ لیلیٰ بیمار ہے اور حکیم نے کہا ہے کہ مجنوں کا خون پئے گی تو صحت یاب ہو گی، لہٰذا لیلیٰ کو خون کی ضرورت ہے۔ اب خادم نے اس سے جا کر کہا۔ اس نے کہا کہ بھائی! میں تو دُودھ پینے والا مجنوں ہوں، خون دینے والا مجنوں نہیں، وہ تو جنگل میں بیٹھا ہے۔
چنانچہ خادم اصل مجنوں کے پاس پہنچا، تو اس نے فوراً اپنے بدن پر چاقو چلایا، لیکن خون نہیں نکلا۔ کیونکہ لیلیٰ کے عشق میں اس کے بدن کا سارا خون ختم ہو گیا تھا۔ ؎
عشق مولیٰ کے کم از عشق لیلیٰ بود
کوئے گشتن بہراو اولیٰ بود​
ف: عشقِ مجازی کا یہ حال ہے تو عشقِ حقیقی کا کیا کہنا۔ اصل محبت تو اللہ کی ہے وہی حاصل کرنی چاہیے۔ ؎
عشقِ مجازی درحقیقت ہے فِسق، بقولِ عارف
عشقِ حقیقی سے ہوتا انساں خدا کا مقبول عارف​
 
Top