[/quote]
حضرت مولانا فیض الحسن سہارنپوری
غیرمنقسم ہندوستان میں عربی شعروادب کے پہلے ادیب اورسب سے پہلے عربی اخبار’’شفأ الصدور’’کے بانی ومدیراوراورینٹل کالج لاہورکے پروفیسر،محدث کبیرحضرت مولاناخلیل احمدمحدث سہارنپوری ،سرسیداحمدخان،شبلی نعمانی جیسی عبقری ہستیوں کے استاذ،قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی کے استاذ،سیدالطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی کے خلیفہ اورمظاہرعلوم سہارنپورکے سرپرست تھے۔غایت محنت ومشقت کے بعداورتنکے تنکے چننے اورچگنے کے بعدیہ سطورقلم بندکی جاسکی ہیں۔پاکستانی احباب کی نظرسے اگران پرکوئی مضمون یاکتاب نظرسے گزری ہوتورہنمائی فرماکرممنوں فرمائیں۔(ناصرالدین مظاہری)
حضرت مولانا فیض الحسن ابن علی بخش،ابن خدابخش ،ابن قلندر بخش،ابن شرف الدین،ابن غلام مصطفی ،ابن عبد الواحد، ابن عبد الحفیظ حنفی،چشتی،قرشی سہارنپورمیں۱۲۳۲ھ مطابق ۱۸۱۶ئ کوپیداہوئے ۔
حفظ کلام اللہ اورابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت مولانا علی بخش اورسہارنپورکے کئی قابل ترین حضرات سے حاصل کی۔
اس کے بعد رام پور اسٹیٹ پہنچ کر حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی اور مولانا عبد الرحیم ابن حاجی محمدہزاروی(متوفی ۱۲۳۴ھ) اوررام پور کے مدرسہ عالیہ کے اساتذہ کرام سے علی وجہ الدرجات بلاغت ومعانی،منطق اورفلسفہ وغیرہ علوم کی تحصیل کی۔پھر دہلی میںحضرت شاہ ابوسعید عمری دہلوی متوفی ۱۲۵۰ھ )سے حدیث وتفسیر پڑھی ۔
دہلی ہی میں مشہور ومعروف طبیب،حکیم عماد الدین صاحبؒ سے طب یونانی بھی پڑھی، تفسیر وحدیث فقہ وفتاوی ، عروض، منطق وفلسفہ ،بدیع وبیان وادب میں خاص دسترس حاصل تھی ،آپ ادب عربی میں یدطولیٰ رکھتے تھے،اُردو،عربی اورفارسی کے قادرالکلام شاعرونثرنگارتھے۔
اُردو شاعری کا فن اور کمال حضرت موصوف نے مفتی صد الدین آزردہؔؒ، اما م بخش صہبائی،حکیم مومن خان مومنؔ،مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ اورشیخ محمد ابراہیم خاں ذوقؔ وغیرہم کی مجالس سے حاصل کیا۔
علامہ اقبالؒ جیسے عظیم ترین ،فصیح وبلیغ شاعر کی زبان پروقتاً فوقتاً حضرت موصوف کے اشعار جاری رہتے تھے اور بعض مرتبہ اقبال مرحوم اپنی مجلس میں خصوصیت سے تذکرہ کرتے اور خوب مدح سرائی فرماتے تھے۔
بیعت وارادت کا تعلق حضرت حاجی امداداللہ تھانوی مہاجر مکی ؒسے تھا،پیرومرشد سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ صاحب تھانوی مہاجرمکی نوراللہ مرقدہ سے بہت زیادہ محبت اور الفت تھی چنانچہ ارواح ثلثہ میں ہے کہ
’’اُن(مولانا فیض الحسن صاحبؒ)کو حاجی(امداداللہ )صاحبؒ کے ساتھ اس قدرمحبت تھی کہ ان کانام آنے سے روتے تھے حضرت حاجی صاحب کی تعریف میں ان کے بڑے جلے بھنے دوہرے ہیں‘‘(ارواح ثلثہ ص :۳۷۳)
حضرت مولانا فیض الحسن صاحبؒ نے حضرت حاجی امداداللہ صاحبؒ سے بیعت ہونے کے وقت کہاتھا کہ دوشرطوں کے ساتھ بیعت ہوتا ہوں(۱)کبھی نذرانہ نہیں دونگا(۲)کبھی خط نہ بھیجوں گا ۔حضرت حاجی صاحب ؒنے فرمایا کہ اس سے بھی زیادہ شرطیں کروتو وہ بھی منظور ہیں ‘‘(ارواح ثلثہ ص ۲۷۳)
دہلی میں علوم وفنون سے فارغ ہونے کے بعداپنا مشغلہ تعلیم وتعلم بنایا اور علوم نبوت ،ادب عربی اورشعر وانشاء سے اشتیاق ودلچسپی رکھنے والے آپؒ کے علم وفضل سے مستفیدہونے لگے۔
حضرت موصوف گرچہ دیگر علوم وفنون میں جیدا لاستعداد اور استحضار کامل رکھتے تھے،حتی کہ آپؒ کی جوشہرت عربی ادب وشاعری میں ہوئی وہ مستغنی عن التعارف ہے۔آپ ؒ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شعبہ عربی کے سب سے پہلے پروفیسر تھے۔
۱۸۷۰ء میں علی گڑھ سے لاہور کا سفر طے کیا ،وہاں آپ کے علم وفضل کا بہت چرچا ہوا حتی کہ آپ کے ادیبانہ کلام،شاعرانہ ذوق،محدثانہ اور مفسرانہ طرز تکلم کو دیکھ کر ڈاکٹر لائٹنر بہت متاثر ہوئے ۔
چونکہ ڈاکٹر لائیٹنر ازحد متاثر ہوگئے تھے،اسی بناء پر ان کا فوراً اورینٹل کالج لاہور کے’’شعبہ عربی‘‘میں تقررکرلیا پھر کچھ دن بعد شعبہ عربی کا صدر الصدور منتخب کردیا۔
لاہور میں موصوف کا قیام ’’بھاٹی دروازے‘‘کے اندر’’بازارحکیمانہ‘‘میں رہا ،تقریباً ۱۷ سال عربی ادب کی تعلیم سے طلبہ اور عوام وخواص کو مستفید فرماتے رہے۔
حضرت مولانا فیض الحسن کو دینی مدارس ،بالخصوص مظاہرعلوم سہارنپوراور دارالعلوم دیوبند سے بے پناہ تعلق تھا،چنانچہ حضرت مولانانے اپنی کتاب فیضی شرح دیوان حماسہ کے پیش لفظ میں صراحت کے ساتھ تحریرفرمایاہے کہ
’’کان فی نفسی من احب المدارس الاسلامیۃ لاسیّما السّہارنفور یۃ والدیوبندیۃ وقاہما اللّٰہ فقمت مشمر ا عن کل ساق الجد‘‘(فیضی :مطبوعہ مکتبہ نولکشورلاہور)
اسی الفت اورمحبت کی بناء پر آپ جب بھی سہارنپور تشریف لاتے تو مظاہرعلوم میں ضرور قدم رنجہ فرماتے اور تمام رجسٹروں کا بالا ستیعاب معائنہ کرتے، کبھی کبھی طلبہ کا امتحان بھی لیتے تھے،چنانچہ حضرت مولانا احمد علی ؒ کے بعد آپؒ باقاعدہ مدرسہ کے رکن منتخب ہوگئے اور اس طرح ان کی رکنیت اور سرپرستی سے بہت حد تک مولانا احمد علیؒکا خلاء پُر ہوگیا۔
۱۲۹۷ھ میں مظاہرعلوم کے جو حضرات رکن منتخب ہوئے ان میں آپؒ بھی تھے۔
مظاہرعلوم سہارنپورکے بقا اوراستحکام کے لئے تن،من دھن کی بازی لگا دی اور دامے،درمے قدمے ،سخنے مدرسہ کی مددکرنااپنے لئے لازم سمجھ لیا،مشقتیں برداشت کیں،حتی کہ بھاولپور اور رنگون تک کے پُرمشقت اسفار مدرسہ کی خاطر کئے عوام سے چندہ کی درخواست کی۔
مدرسہ کے مہتمم مالیات حضرت حافظ فضل حق صاحبؒ کے انتقال کے بعد ’’مہتمم مالیات‘‘کے تقررکامسئلہ پیش آیا تو حضرت مولانا فیض الحسن ؒ نے اپنی مؤمنانہ فراست اور عارفانہ بصیرت سے حضرت حاجی الٰہی بخشؒ کونہایت موزوں سمجھاچنانچہ حاجی الٰہی بخش کو’’مہتمم مالیات‘‘کا عہدہ سپردکیاگیا(رودادمظاہرعلوم۱۳۲۱ھ)
آپ کے شاگردوں کی بڑی تعدادہے جن میں سے چندیہ ہیں ۔
حضرت مولانا خلیل احمد انبہٹویؒ،حضرت مولانا حمید الدین فراہیؒ،حضرت مولانا احمد الدین لاہوریؒ،مولانا محمد عرفان ٹونکیؒ، مولانا محمد خان غریب سہارنپوریؒ،مولانا سید محمد علی مونگیریؒ(بانی ندوۃ العلماء لکھنؤ،مولانا سید نذیر احمدؒ بسوانی،مولانا سید حسین احمد ترمذیؒ،مولانا سید احمدؒ خاں (بانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)،مولانا آل حسنی امروہویؒ،مولانا ڈپٹی نجف علی سہارنپوریؒ،مولانا عبد الجبار عمرپوریؒ،قاری ظفیر الدین لاہوریؒ،مولانا اسماعیل علی گڑھیؒ۔
۷۰سال کی عمر پاکربارہ جمادی الاولی ۱۳۰۴ھ مطابق ۱۸۸۶ء (تأسیس مظاہرعلوم کے مکمل ۲۰سال بعد) راہی دارالبقاء ہوئے ،مولانا موصوف کی نعش لاہور سے سہارنپور لائی گئی، یہیں نماز جنازہ پڑھی گئی اورقبرستان گوٹے شاہ سے ملحق تدفین عمل میں آئی۔تدفین کے بعدآپ کی قبرمبارک سے کافی دنوں تک خوشبومحسوس کی جاتی رہی ۔
مؤرخ اسلام حضرت علامہ شبلی نعمانی ؒ نے اپنے استاذحضرت مولانا فیض الحسن ؒکے سانحۂ ارتحال پر خاص عالم تأثرمیں پُردرد وپُراَثر مرثیہ لکھا جس کے چند اشعار یہ ہیں۔
دریں آشوب غم عذرم بنہ گرنالہ زن گریم
جہانے راجگرخوں شد ہمیں تنہانمی گریم
بہ تحسین صبوری چند بفریبی مرا ناصح
دمے بگذار تا در ماتم فیض الحسن گریم
بہ مرگش علم وفن درنالہ بامن ہم نوا باشد
ہنر برخویش گرید چومن برخیشتن گریم
گہے خود بہ برہم گشتن بزم ہنر نالم
گہے بے خویش ہر روز سیاہ علم وفن گریم
حضرت مولانا سید سلمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے انتقال پراپنے تاثرات کااظہارکرتے ہوئے فرمایاتھاکہ
’’حضرت مولانا فیض الحسن صاحبؒ کا بڑا فیض یہ ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے عربی ادب میں انقلاب پیدا کردیا اور متاخرین سے ہٹاکر قدیم شعراء ادب کی طرف متوجہ کیاآپ ؒ اس پایہ کے ادیب تھے کہ خاک ہندنے صدیوں میں شاید کوئی اتنابڑا امام الادب پیداکیا ہو‘‘۔
آپ کی چنداہم علمی تصانیف میںایام عرب،حل ابیات بیضاوی،تعلیقات جلالین ،تحفۂ صدیقہ،ضوء المشکوٰۃ، قرابادین، فیضیہ،فیضی،فیض القاموس،ریاض الفیض،وسیلۃ الظفر،حاشیہ قاموس،حاشیہ العقدالثمین،حاشیہ دیوان حسّان،دیوان الفیض، سنین اسلام ، نسیم فیض،روضۂ فیض،مثنوی صبح عید، اوس وخزرج وغیرہ قابل ذکرہیں۔
آپ نے ایک طویل عرصہ تک عربی زبان میں ماہنامہ ’’شفاء الصدور‘‘بھی جاری کیاجواہل علم میں بہت مقبول تھا،اسی طرح رسالہ’’ گلدستہ‘‘ بھی جاری فرمایاتھا۔