حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری کا کمالِ تقویٰ :
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلوی کی آپ بیتی سے اقتتباس
حضرت اقدس شیخ المشائخ المحدثین مولانا الحاج احمد علی صاحب محدث سہارنپوری بخاری، ترمذی کتب حدیث کے محشی اور مشہور عالم محدث ہیں۔ جب مظاہر علوم کی قدیم تعمیر کے چندہ کے سلسلہ میں کلکتہ تشریف لے گئے کہ وہاں مولانا کا اکثر قیام رہا ہے اوروہاں کے لوگوں سے وسیع تعلقات تھے تو مولانا مرحوم نے سفرسے واپسی پراپنے سفر کی آمد وخرچ کا مفصّل حساب مدرسہ میں داخل کیا، تو وہ رجسٹر میں نے خود پڑھا۔ اس میں ایک جگہ لکھا تھا کہ کلکتہ میں فلاں جگہ میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تھا۔ اگر چہ وہاں چندہ خوب ہوا، لیکن میری سفر کی نیت دوست سے ملنے کی تھی، چندہ کی نہیں تھی اسلئے وہاں کی آمدورفت کا اتنا کرایہ حساب سے وضع کرلیا جائے۔
حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی کا بے حد احتیاط رکھنا:
حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی قدس سرہٗ جو گویا مظاہر علوم کے بانی ہیں، کایہ معمول میری جوانی میں عام طور سے مشہور اورلوگوں کو معلوم تھا کہ مدرسہ کے اوقات میںجب کوئی مولانا قدس سرہ ٗ کا عزیزذاتی ملاقات کے لئے آتاتو اس سے باتیں شروع کرتے وقت گھڑی دیکھ لیتے اورواپسی پر گھڑی دیکھ حضرت کی کتاب میں ایک پرچہ رکھا رہتا تھا۔ اس پر تاریخ وار ان منٹوں کا اندراج فرمالیتے تھے، اورماہ کے ختم پر ان کو جمع فرماکر اگر نصف یوم سے کم ہوتا تو آدھ روزکی رخصت اوراگرنصف یوم سے زائد ہوتا تو ایک یوم کی رخصت مدرسہ میں لکھوادیتے، البتہ اگر کوئی فتویٰ وغیرہ پوچھنے آتا تھا یا مدرسہ کے کسی کام آتا تو اس کا اندراج نہیں فرماتے تھے۔
حضرت سہارنپوریؒ کا تنخواہ لینے سے انکار: حضرت اقدس سیّدی مولانا خلیل احمد صاحب نوراللہ مرقدہٗ جب یک سالہ قیام حجاز کے بعد آخر ۳۴ھ میں مظاہر علوم میں واپس تشریف لائے تو میرے والد حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب نور اللہ مرقدہٗ کا شروع ذیقعدہ میں انتقال ہوچکا تھا۔ حضرت نے مدرسہ سے تنخواہ لینے سے یہ تحریر فر ماکر انکار کردیا تھا کہ میں ابنے ضعف وپیری کی وجہ سے کئی سال سے مدرسہ کا کام پورا نہیں کرسکتا، لیکن اب تک مولانا محمد یحییٰ صاحب میری نیابت میں دورہ کے اسباق پڑھاتے تھے اور تنخواہ نہیںلیتے تھے، وہ میرا ہی کام سمجھ کر کرتے تھے۔ اورمیں مدرسہ کی تعلیم کا پورا کام نہیں کرسکتا، اسلئے قبولِ تنخوا ہ سے معذور ہوں۔ اس پرحضرت اقدس شاہ عبد الرحیم صاحب نوراللہ مرقدہٗ سے بڑی طویل تحریرات ہوئیں۔ حضرت رائے پوری نے لکھا کہ آپ کے وجود کی مدرسہ کو سخت ضرورت ہے۔آپ کے وجود سے مدرسہ کا سارا نظام باحسن وجوہ قائم ہے، اسلئے آپ کو مدرسہ اب تعلیم کی تنخواہ نہیں دے گا بلکہ ناظم مدرسہ کی تنخواہ دے گا۔ حضرت کے مدرسہ میں تشریف نہ رکھنے سے مدرسہ کا سخت نقصان ہے۔ حضرت تھانوی نو ر اللہ مرقدہٗ نے حضرت رائے پوری کی بڑی تائید فرمائی۔ اس پرحضرت سہارن پوری نے تنخواہ لینی قبول فرمائی۔
اس سے قبل کا قصّہ تو بہت ہی مشہور ہے کہ حضرت سہارنپوری کی تنخواہ چالیس تھی اورعرصہ تک یہی رہی، اورجب بھی ممبران مدرسہ کی طرف سے حضرت کی ترقی کا مسئلہ پیش ہوتا تو حضرت ارشاد فرماتے کہ میری حیثیت سے یہ بھی زائد ہے، مگر جب ماتحت مدرسین کی تنخواہ چالیس تک پہنچ گئی تو ممبران نے اصرا کیا کہ آپ کی وجہ سے نیچے کے مدرسین کی تنخواہ رک جائے گی کہ صدر مدرس سے دوسروں کی تنخواہ بڑھ جائے۔اس پرحضرت نے اضافہ قبول فرمایا۔
حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کے متعلق بھی اس نوع کا قصّہ معروف ہے کہ حضرت نے پچاس سے زیادہ کے اضافہ کو قبول نہیں فرمایا۔ لیکن عرصہ کے بعد اسی اشکال کی وجہ سے حضرت نو ر اللہ مرقدہٗ نے اضافہ قبول فرمالیا۔
حضرت سہارنپوریؒ کا مدرسہ کی اشیاء کو استعمال نہ کرنا :
میں نے خود تو یہ واقعہ نہیں دیکھا مگر دو واسطوں سے سنا ہے کہ حضرت اقدس سہارنپوری کی خدمت میں ایک صاحب عزیزوں میں سے جو بڑے رتبہ کے آدمیوں میں سے تھے، ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ حضرت سبق پڑھا رہے تھے۔ اختتامِ سبق تک تو حضرت نے توجہ بھی نہیںفرما ئی۔ ختم سبق کے بعد حضرت ان کے پاس تشریف لائے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ حضرت اسی جگہ تشریف رکھیں۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ مدرسہ نے یہ قالین اسباق پڑھانے کے لئے دیا ہے ذاتی استعمال کے لئے نہیں دیا۔ اس لئے اس قالین سے علیٰحدہ بیٹھ گئے۔ البتہ یہ واقعہ میرا ہمیشہ کا دیکھا ہوا ہے کہ مدرسہ قدیم ( دفتر مدرسہ) میں حضرت کی ہمیشہ دو چار پائی رہتی تھیں۔ ان ہی پرحضرت آرام فرماتے تھے، ان ہی پر بیٹھتے تھے۔ مدرسہ کی اشیاء کو میں نے استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
مہتمم اور مدرسین مظاہر علوم جلسہ کے موقع پر بھی اپنے گھر کا کھانا کھاتے تھے: مظاہر علوم کا جب سالانہ جلسہ ہوتا تھا۔ میںنے اکابر مدرسین وملازمین میں سے کبھی کسی کو جلسہ کے کھانے یا چائے یا پان کو کھاتے نہیں دیکھا۔ جملہ مدرسین حضرات اپنا اپنا کھانا کھاتے تھے، جب بھی وقت ملے۔ البتہ حضرت قدس سرہٗ مدرسہ کے خصوصی مہمانوں کے ساتھ کھاتے تھے۔ لیکن حضرت کے مکان سے دس بارہ آدمیوں کا کھا نا آتا تھا جو متفرق مہمانوں کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا۔ اسی میںسے حضرت نوش فرماتے تھے،مدرسہ کی کوئی چیز کھاتے نہیں دیکھا۔ مولانا عنایت الٰہی صاحب مہتم مدرسہ دو شب وروز مدرسہ کے اندررہتے اور ظہر کے وقت یا رات کے بارہ بجے اپنے دفتر کے کونے میں بیٹھ کر ٹھنڈا اورمعمولی کھانا تنہا کھالیتے تھے۔ مولانا ظہور الحق صاحب مدرس مدرسہ اس زمانہ میں مطبخ طعام کے منتظم ہوتے تھے اور چوبیس گھنٹے مطبخ کے اندر رہتے تھے، لیکن سالن چاول وغیرہ کا نمک کسی طالب علم سے چکھواتے تھے خود نہیں چکھتے تھے۔ جب وقت ملتا اپنے گھر جاکر کھانا کھا آتے۔ اسی طرح سے دیگر اکابر مدرسین کو میں نے کوئی شے مدرسہ کی چکھتے نہیںدیکھا۔ ان سب احتیاط کے باوجود حضرت سہارنپوری قدس سرہٗ جب ۴۴ھ میں مستقل قیام کے اردہ سے حجاز تشریف لے گئے تو اپنا ذاتی کتب خانہ یہ فرماکر مدرسہ کے اندر وقف کرگئے تھے، کہ نہ معلوم مدرسہ کے کتنے حقوق ذمّہ رہ گئے ہوں گے۔
حضرت مولانا محمد یحییٰ صاحب کا حمام مدرسہ کے قریب رکھ کر سالن گرم کرنا اور اس کا معاوضہ ادا کرنا: میرے والد صاحب قدس سرہٗ کے زمانے میں مدرسہ کا مطبخ جاری نہیں ہوا تھا۔ نہ مدرسہ کے قریب کسی طباخ کی دکان تھی۔ گھر والوں کے نہ ہونے کے زمانے میں جامع مسجد کے قریب ایک طباخ کی دکان تھی جس کا نام اسماعیل تھا۔ اس کے یہاں سے کھانا آیا کرتا تھا۔سردی کے زمانے میں وہاں سے آتے آتے خصوصاً شام کو ٹھنڈا ہوجاتا تھا، تو سالن کے برتن کو مدرسہ کے حمام کے سامنے اندرنہیں بلکہ باہر رکھوادیتے تھے۔اس کی تپش سے وہ تھوڑی دیر میں گرم ہوجاتا تھا، تو یہ فرما کر دو تین روپے ہر ماہ چندہ کے اندرداخل فرمایا کرتے تھے کہ مدرسہ کی آگ سے انتفاع ہوا ہے۔ تنخواہ تو میرے والد صاحب نور اللہ مرقدہٗ نے اپنے سات سالہ قیام مدرسہ میں کبھی لی ہی نہیں۔
مولانا عنایت الٰہی مہتمم مدرسہ ذاتی ضرورت کے لئے مدرسہ کا قلمدان استعمال نہ فرماتے: حضرت مولانا الحاج عنایت الٰہی صاحب مہتمم مدرسہ، اللہ ان کو بہت ہی بلند درجے عطا فرمائے، مدرسہ کے مہتمم بھی تھے، مفتی بھی تھے، اورعدالتی تمام کاروبار ان کے ہی ذمّہ تھے۔ اوراس معنٰی کر محصل چندہ شہر بھی تھے کہ محصل چندہ شہر جب کسی کے متعلق یہ کہتا کہ فلاںصاحب نے چندہ نہیں دیا، دو مرتبہ جا چکا ہوں تو حضرت مہتمم صاحب اپنے گھر آتے یا جاتے اس کے گھر جاتے اور خوشامد فرماتے کہ تمہارا چندہ نہیں آیا ان کی خوبیوں کا بیان تو اس مختصر تحر یر میں آنہیں سکتا۔ لیکن دفتر کے اندران کے پاس دو قلمدان رہتے تھے۔ ایک ذاتی ایک مدرسہ کا۔ ذاتی قلمدان میں کچھ ذاتی کاغذ رہتے۔ اپنے گھر کوئی ضروری پرچہ بھیجنا ہوتا تو اپنے قلمدان سے لکھتے تھے، مدرسہ کے قلمدان سے کبھی نہیں لکھتے تھے۔ گرمیوں میںسات بجے کے قریب اورسردیوں میں آٹھ بجے کے قریب آتے اورعصر کے بعد واپس تشریف لے جاتے۔ ساری دوپہر کام کرتے اور آتے ہوئے اہل چندہ کے گھر ہوتے ہوئے آتے۔ لیکن حضرت سہارنپوری نور اللہ مرقدہٗ نے ایک مرتبہ دوسرے ملازمین کی ترقی کے ساتھ یہ کہہ کر ان کی ترقی روک دی تھی کہ مدرسہ کے اندردیر سے تشریف لاتے ہیں۔ میں نے ہر چند عرض کیا کہ حضرت چھ گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ بار بار سفارش اوراصرار بھی کیا لیکن حضرت فرماتے رہے کہ مدرسہ کے اوقات کی پابندی ملازم کے لئے ضروری ہے۔
حضرت مہتمم صاحب کی پنشن کا واقعہ: حضرت مہتمم صاحب کی جدوجہد اورجانفشانی، ہمہ تن مدرسہ کے امور میں اشتغال اتنے کثیر واقعات ہیں جو اس قابل تھے کہ ان کی مکمل سوانح لکھی جاتی۔آخر زمانۂ حیات میں امراض کی کثرت اور ضعف کی وجہ سے میں نے یہ تجویز پیش کی کہ حضرت مہتمم صاحب کی پنشن ہوجائے۔ مہتمم صاحب مدرسہ کے ابتدائی قیام کے وقت میں ابتدائی طالب علموں میں تھے۔ اس کے بعد معین مدرس ہوئے اورترقی فرماتے فرماتے مدرس دوم تک پہنچے۔ دورے کے اسباق بھی اس زمانے میں مرحوم کے یہاں ہوئے۔ ۲۳ھ سے باوجود مرحوم کے شدید انکار کے بضرورت مدرسہ مہتمم مقرر ہوئے، اوراسی عہدے پر ۴۷ھ ۲۰؍ جمادی الثانیہ کو انتقال ہوا، غفر اللہ لہ۔ اخیرزمانہ میں ضعف وپیری کے علاوہ شدید امراض کا ابتلا رہا۔ صبح کو ڈولی میں بیٹھ کر مدرسہ آتے اوربعد عصرڈولی میں بیٹھ کر واپس تشریف لے جاتے۔ اس مشقت کو دیکھ کر مجھے ترس آتا تھا۔ میں نے تفصیلی حالات لکھ حضرات سرپرستان مدرسہ کی خدمت میں مرحوم کی خدمات جلیلہ کے پیش نظر خصوصی طور پر پنشن کی تجویز پیش کی تھی۔ حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سرپرست مدرسہ نے یہ تحریر فرمایا کہ مدرسہ کے موجودہ چندہ سے پنشن جائز نہیں ہے۔ اس کے لئے آپ ایک مستقل مد قائم کرکے چندہ کریں، اس میں سے پنشن دی جاسکتی ہے۔ مہتمم صاحب کے متعلق جو لکھا وہ بالکل صحیح ہے، میں اس سے زیادہ واقف ہوں۔ ان کے لئے جو تم مناسب سمجھو تنخواہ تجویز کرکے مخصوص احباب سے چندہ مقرر کرالو۔ پانچ روپیہ ماہانہ میں اپنی ذ۱ت سے دوں گا۔
حضرت سہارنپوریؒ کا اساتذہ کے اسباق کی نگرانی کرنا:
حضرت سہارن پوری نوراللہ مرقدہٗ کو اس کا بہت اہتمام تھا کہ مدرسین اسباق کے اوقات کی بہت پابندی فرماویں۔حضرت کا قانون یہ تھا کہ گھنٹے کے پانچ منٹ بعد فوراً سبق شروع ہوجائے اس سے پہلے شروع نہ ہو، اورگھنٹے سے پانچ منٹ پہلے سبق ختم ہوجائے تاکہ طلباء کو ایک درس گاہ سے دوسری درس گا ہ جانے میں دقّت نہ ہو اورسبق کا حرج نہ ہو۔ اس کے خلاف اگر کسی مدرس کی شکایت ہوتی تو حضرت کے یہاںسے مدرس سے جواب طلب ہوتا۔ حضرت قدس سرہٗ کا رعب جملہ مدرسین پر اتنا زیادہ تھا کہ بجائے سخت لفظ کہنے کے صرف پوچھ لینا ہی مدرس کے لئے کافی تھا۔ حضرت نور اللہ مرقدہٗ کو اس کا بھی بہت اہتمام تھا کہ اسباق اعتدال سے ہوں۔ حضرت اس کے نہایت شدید مخالف تھے کہ شروع میں لمبی چوڑی تقریریں ہوں اورآخر میں کتاب رمضانی تراویح کی طرح سے جلد جلد پڑھائی جائے۔ اس کی شکایت پربڑے سے بڑے مدرس کو بھی تنبیہ سے گریز نہیں فرماتے تھے۔ اسی نظریہ کے ماتحت اور حضرت قدس سرہٗ کے آخری سہ سالہ زمانۂ تعلیم کے نقشوں کے موافق وہ نقشۂ تعلیم تیار کیا گیا جو عرصہ سے مدرسہ مظاہرعلوم میں معمول بہ ہے۔ حضرت نوراللہ مرقدہٗ کے یہاں تعلیم کی نگرانی کا بھی ایک خاص معمول تھا۔ جب طلباء کی طرف سے کسی مدرس کی شکایت گذرتی تو حضرت قدس سرہٗ کی اپنی سہ دری میں جہاں حضرت تشریف فرما ہوتے تھے، عین سبق کے وقت مدرس کے پاس یہ پیام پہنچتا کہ فلاں سبق گھنٹہ کے نیچے ہوگا۔ یہ ایک اصطلاحی لفظ اس زمانہ میں بن گیا تھا۔ جس کی شرح یہ ہے کہ حضرت کی سہ دری میں ایک گھنٹہ لٹکا ہوا تھا جو آج بھی ہے۔ مدرس گھنٹہ کے نیچے بیٹھتا اور طلباء جن کی جماعت اس وقت چھوٹی ہوتی تھی مدرس کے تینوں طرف۔ اورحضرت قدس سرہٗ اپنی جگہ حجرہ کے سامنے تشریف فرمارہتے، اورپورے گھنٹہ وہاں سبق ہوتا، اورحضرت ساکت سنتے رہتے۔ سبق کے بعد اس وقت حضرت کچھ نہ فرماتے۔ اس کے بعد اگر طلباء کی شکایت صحیح ہوتی اورمعمولی ہوتی تو مدرس کو تنبیہ فرماتے۔ اوراگر شدید ہوتی تو دو چار روز کے بعد وہ سبق دوسرے مدرس کے یہاں منتقل کردیتے۔ اوراگر طلبہ کی شکایت غلط ہوتی تو معمولی پر سرغنوں کا کھانا بند، اوراگر سخت ہوتی تو ان کا اخراج فرمادیتے۔ اس کا اثر ہمیشہ یہ رہا کہ مدرسین کو فکر رہتا کہ نہ معلوم سبق کب گھنٹہ کے نیچے پڑھانا پڑجائے۔ اورطلبہ کو بھی شکایت کے اندر بہت غوروفکر کی ضرورت ہوتی کہ اگر حضرت کے نزدیک شکایت غلط ہوئی تو کھانا بند ہوجانا معمولی بات ہے اوراخراج کا امکان۔ اس کے علاوہ حضرت قدس سرہٗ کا یہ بھی معمولی تھا کہ خصوصی مہمانوں کو مدرسہ دکھلانے کے لئے خود تشریف لے جاتے اور مہمان کو درس گاہ کے سامنے گشت کراتے ہوئے جس درس گاہ کے سامنے دل چاہے دس پندرہ منٹ کھڑے رہتے۔ اس ناکارہ کو گھنٹے والے قصّے سے تو کبھی سابقہ نہیں پڑا لیکن دوسرے مرحلہ سے بارہا گذرنا پڑا۔ اس ناکارہ کو اپنی جوانی میں بخار وغیرہ امراض کی وجہ سے سبق ناغہ کرنے کی عادت نہیں تھی۔ ایک دفعہ مشکوٰۃ شریف کا سبق نہایت شدت بخار کے اندر پڑھا رہا تھا مصرّاۃ کی بحث تھی اور میں اپنے بخار کے دوران میں زوروں پر تھا اس زمانہ کے سفیر ہند مقیم جدّہ مدرسہ میں تشریف لائے۔ حضرت ان کو مدرسہ دکھلانے خود تشریف لے گئے اور دارالحدیث کے سامنے جہاں مشکوٰۃ ہورہی تھی تقریباً پندرہ منٹ سے زیادہ قیام فرمایا، مجھے حضرت کے کھڑا ہونے کا بالکل علم نہ ہوسکا۔ دفعۃً حضر ت قدس سرہٗ پرنظر پڑی اورزبان لڑکھڑا گئی اورحضرت فوراً آگے بڑھ گئے۔ بعد میں طلبہ نے بتلایا کہ حضرت تقریباً پندرہ منٹ سے کھڑے تھے۔
۱۱- اس ناکارہ کی ابتدائی مدرسی کے زمانے میں مظاہر علوم کا کوئی طالب علم اخبار دیکھنا جانتا ہی نہ تھا۔ دارالعلوم کے بھی دو چار طالب علموں کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا کہ اخبار کیا چیز ہے۔ اس زمانے میں ہم لوگوں کے تفریحی معمولات اکابر سلسلہ کی کتب بینی تھی۔ حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی، حضرت شیخ الہند، حضرت سہارنپوری، حضرت تھانوی کی تصانیف گویا ہم لوگوں کے لئے اخبار تھے۔ عام طور سے مدرسین اوراوپر کے طلباء کے شوق وذوق ان اکابر کی کتابوں کا مطالعہ تھا۔ اب اس مبارک مشغلہ کی بجائے اخبارات، لغویات دوستوں کا مشغلہ رہ گیا ع
’’ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بہ کجا ‘‘