[size=xx-large]
مساوات
[/size]
یَااَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَفسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنھَا زَوجَھَا وَبَثَّ مِنھُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَّنِسَائً۔
اے لوگو!ڈرواپنے رب سے جس نے تم کوپیدا کیا ایک جان سے اوراسی سے اس کاجوڑا بنایا اور ان دونوںسے بہت سے مرد اورعورت دنیامیں پھیلادئے ۔
اسلام نے کسی انسان کو بحیثیت انسان کمتر نہیں بنایا ہے ،اس کا دوٹوک فیصلہ ہے کہ ہر انسان ایک انسان (آدم)سے پیداہوااورآدم مٹی سے پیدا کئے گئے ،اس لئے کسی کو کسی پر فوقیت نہیں،انسانوں میں قوم ،نسل،قبیلہ، وطن ،زبان کا جو فرق رکھاگیاہے وہ محض تعارف کے لئے ہے نہ کہ کسی تفریق کے لئے ہے ۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ۔
یَااَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّاخَلَقنٰکُم مِّن ذَکَرٍوَّاُنثٰی وَجَعَلنَاکُم شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا۔اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَ اللّٰہِ اَتقَاکُم۔ (سورہ حجرات)
اے انسانو!تم سب کوہم نے ایک مردو عورت سے پیدا کیا ہے اورتمہارے اندرقبیلہ اورخاندان صرف اس لئے بنایا ہے کہ ایک دوسرے کوپہچان سکو،تمہارے اندرسب سے عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگارہی۔
یعنی جو سب سے زیادہ حقوق اللہ اورحقوق العبادکاپابندہووہی نائب الٰہی ہونے کی حیثیت سے سب کا امیر اورحکمراں ہے ،اب اگر وہ عجمی ہے تو عربی کو اس کے دست حق پرست پر بیعت کرنی ہوگی اوراگر وہ غلام زاد ہ ہے تو ایک سیدزادہ کو بھی اس کے پرچم تلے آناہوگا ۔سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کاصاف اعلان ہے ۔
لَافَضل لعربی علی عجمی ولالعجمی علی عربی ،لافضل لاحمر علی اسود ولالاسودعلی احمر۔
نہ عرب کو فضیلت ہے عجم پر اورنہ عجم کو عرب پر ،نہ گورے کو کسی کالے پر اورنہ کسی کالے کو کسی گورے پر… اس لئے کہ
کلکم ابناء آدم وآدم من تراب …تم سب آدم زاد ہواورآدم مٹی زاد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرارضی اللہ عنہاکو مخاطب کرکے فرمایا۔
یا فاطمۃ بنت ممحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سلینی ماشئت من المال لا اغنی من اللّٰہ شیئاً۔
اے فاطمہ بنت محمد!تم مجھ سے میرا مال جس قدرچاہے لو لے لیکن میں تم کوخداکے عداب سے نہیںبچاسکتا۔(بخاری )
یعنی میدان محشرمیں نسب کام نہ آئیگا،وہاں انسان کے اپنے اعمال کام آئیں گے جیساکہ ارشاد ربانی ہی۔
وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًایَّرَہ۔ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ۔
جوذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اس کا اجرپائے گا اورجو ذرہ بھر برائی کرے گاوہ اس کااجرپائے گا۔
اسلا م کی اس بنیادی تعلیم کااثریہ ہے کہ آفتاب رسالت کے چھپ جانے کے بعد حضرت علیؓ کے ہوتے ہوئے بلا امتیازنسب ونسل مسلسل تین خلیفہ منتخب ہوئے ،اورپھر حضرت علیؓ اس کے بعداس وقت تک ہرہرپہلوسے اپناکرشمہ دکھاتی رہی کہ مسلمانوں کی قیادت اورامامت میںدنیائے اسلام کے کسی بھی عرب اورعجم ، سیاہ وسفید وغیرہ کے لایعنی امتیازات نہیں دیکھے ،نہ سلطنت کی حکمرانی میں ،نہ علوم دینی کی امامت میں ،نہ تقویٰ اورطہار ت کی بلندی میں۔
کردی غلام صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس کی قیادت سے کس کو انکارہوا ،امام الوقت امام ابوحنیفہؒ کو امام الفقہ ہونے میں کس نے شک کیا،امام بخاریؒ کو امام الحدیث ہونے میں کس کو کلام ہے ،شیخ جیلانیؒ کو قطب الاقطاب ماننے میں کس نے جھجھک محسوس کی ۔
تاریخ اسلام کاایک ایک ورق ہمارے اس دعو ے کی کھلی دلیل ہے یعنی فضیلت کامعیار،نسل ورنگ اورزبان اوروطن نہیں بلکہ تقویٰ کی اخلاقی صفت ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کو رذیل اوراپنے کو بالاتر سمجھتا تھا ،حالانکہ اصل چیز جس کی بنیادپر ایک شخص کو دوسرے شخص پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا ہو اور برائیوںسے بچنے والا ہو اورنیکی اورپاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو ۔ایساآدمی خواہ کسی نسل ،کسی قوم اورکسی ملک سے تعلق رکھتا ہو ،اپنی ذاتی خوبی کی بناء پر قابل قدر ہے ۔
اورجس کاحال اس کے بر عکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجہ کاانسان ہے چاہے اونچی برادری میںپیدا ہواہو،کالاہو یاگورا ،مشرق میںپیدا ہو ا ہو یا مغرب میں۔
فتح مکہ کے بعد طواف کعبہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تقریرفرمائی تھی اس میں فرمایاشکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کاعیب اوراس کاتکبردور کردیا ہے ،لوگوتم انسان بس دوہی حصوں میں تقسیم ہوئے ہو (۱)نیک اور پرہیزگارجو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے (۲)فاجراورشقی جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے ۔
اسی نظریے پر اسلام نے دنیابھرکے انسانوںمیں صرف ایک تفریق کو باقی رکھا اوروہ تھی ایمان اورکفر کی تفریق ،جو انسان بھی خواہ وہ کسی مسلک ،کسی قوم ،کسی رنگ سے تعلق رکھتا ہواورخواہ وہ کوئی زبان بولتا ہو ،اللہ کی توحید کو اس طرح مان لے ،جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسانی کے لئے اللہ تعالیٰ کاآخری رسول اورقرآن کو آخری کتاب تسلیم کرے اورآخرت پر ایمان لے آئے ،وہ مؤمن ہے ،مؤمنوں کابھائی ہے ،جماعت مومنین کاایک رکن ہے ،امت مسلمہ کا ایک فرد ہے اورمسلم معاشرے میں اس کے حقوق ہرلحاظ سے مساوی ہیں ۔
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایاتھا جودنیائے انسانیت کے لئے آخری پیغام ہے ۔
لوگو!خبر داررہو تم سب کا ایک ہی خدا ہے ،کسی عربی کو کسی عجمی پر ،کسی عجمی کوکسی عربی پر ،کسی گورے کو کسی کالے پر ،کسی کالے کو کسی گورے پرکوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ،مگر تقویٰ کے اعتبارسے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگارہو ،بتاؤ میں نے تمہیں ساری بات پہنچادی ہے لوگوں نے عرض کیا ہاں !اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ پ نے فرمایاجولوگ موجود ہیں وہ ا ن لوگوںتک یہ بات پہنچادیںجو موجود نہیں ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے اس اصول کی تبلیغ کی تو عرب کے قبیلے تلملااٹھے ،ہزاروںبرس سے اس کاپورااجتماعی نظام قبائلیت ہی پر مبنی تھا اورہرقبیلہ دوسرے قبیلہ پر جو فخراورناز اس پر جتاتاتھا کہ اس کے آباء واجداد نے فلاں فلاں کام انجام دئے ہیں ،انہوں نے دیکھا کہ ان کے درمیان ایک ایسی دعوت اٹھ رہی ہے جو قبائلیت کی جڑ ہی کاٹ دے رہی ہے جو ہر قوم ہرقبیلے کے اندرسے آدمی نکال نکال کر ایک مستقل جماعت الگ نام سے بنارہی ہے جو نہ قوم جانتی ہے نہ قبیلہ،بلکہ ایک عقیدے پر عالمگیراخوت اوررفاقت کی بنیادرکھ رہی ہے ،جو فخروشرف کے سارے قدیم تصورات کاخاتمہ کرکے رذیل اورشریف سب کو برابرکئے دے رہی ہے تو ان کے لئے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا۔
اس عظیم معاشرتی انقلاب کو ہضم کرنا ان کے بس میں نہ رہا ،ان لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ اس کلی کو ابتداء ہی سے مسل ڈالا جائے تاکہ اس کے کلی، پھول اورپھول سے گلدستہ بننے کی نوبت ہی نہ آسکے ،لیکن جن لوگوں کو خدانے عقل سلیم عطا کی تھی اورجن کے قلوب تعصبات کی آلائش سے پاک تھے انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس میںاتحادعرب کارازپنہاںہے جس کی برکتوںسے اقوام عالم کو ایک لڑی میں پرویاجاسکتا ہی۔
زمانہ قدیم سے آج تک ہردورمیں انسان بالعموم وسیع المفہوم انسانیت کو نظر اندازکرکے اپنے گرد چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے ،جس کے اندر پیداہونے والوںکو اپنا اور باہرپیدا ہونے والوںکو غیر قرار دیا ہے ، چنانحہ اس نظریے کی کوکھ سے شودرکے عقیدے نے جنم لیا جس کی روسے برہمن کی بالادستی قائم کی گئی اوراپنے بنائے ہوئے پیمانوںکے مطابق اونچی ذات والوں کے مقابلہ میں تمام انسان نیچ اورناپاک ٹھہرائے گئے اورشودروںکو انتہائی پستی کے گڑھے میں ڈھکیل دیا گیا ۔
اسی ذہنیت نے نفرت ،عداوت ،تحقیر،تذلیل اورظلم وستم کی بد ترین شکلیںاختیار کی ہیںاس کے لئے فلسفے گڑھے گئے ہیں ۔مذاہب ایجاد کئے گئے ہیں ،قوانین بنائے گئے ہیں ہیں ۔اخلاقی اصول وضع کئے گئے ۔ قوموںاورسلطنتوںنے اس کو اپنامستقل مسلک بناکر صدیوں اس پر عمل درآمد کیا ہے ۔
یہودیوں نے اسی بنیاد پر بنی اسرائیل کو چیدہ مخلوق بلکہ ابن اللہ ٹھہرایااوراپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائلیوں کے حقوق اوررتبے کو اسرائیلیوںسے فروتر رکھا ۔
یوروپ کے لوگوں نے بر اعظم امریکہ میں گھس کر انڈین نسل کیساتھ جو سلوک کیا اورایشیا اورافریقہ کی کمزورقوموں پر اپنا تسلط قائم کرکے جو برتاؤان کے ساتھ کیا اس کی تہہ میںکبھی یہ تصور کا رفرمارہا کہ اپنے وطن اوراپنی قوم کی سرحدوںسے باہرہونے والوںکی جان ،مال ،آبروان پر مباح ہے اورانہیں حق پہونچتا ہے کہ ان کو لوٹیں،غلام بنائیں ،اورضرورت پڑے تو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔
مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لئے درندہ بناکررکھ دیا ہے ،ان کی بدترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوںمیں دیکھی جاچکی ہیں ،خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت کا تصورپچھلی جنگ عظیم میںجو کرشمے دکھاچکاہے انہیں نگاہ میں رکھاجائے تو آدمی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم اورتباہ کن گمراہی ہی۔
ہندوستان میں غیر مسلموںکی اکثریت ہے ،ان کے یہاں مساوات کانام ونشان نہیں اوراونچے لوگوں میں کمتری اوربرتری کاپورانظام مذہبی بنیادوںپر قائم ہے ۔
یہی تصورہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ،چنانچہ مسلم معاشرے میںبرتری ،کمتری اوراونچ نیچ رائج ہے اورپوری قوت کے ساتھ اس پر عمل ہورہا ہے ،آج برادرانہ تعصبات اتنے زیادہ ہیں کہ غیر مسلم معاشرہ توکیاہندومعاشرہ میں اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،نفرت کی خلیج ایک عرصہ درازسے قائم ہے اوردن بدن اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔
علماء کرام کا یہ فرض منصبی ہے کہ برادرانہ تعصب اورنفرت کے عقیدے کے خلاف کھل کر آواز بلند کریں اوراسلامی مساوات کے عملی نمونے اسلاف امت کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے پیش کریںتاکہ مظلوم اورکچلے ہوئے طبقات اسلام کی آغوش میں پناہ لے کرفلاح دارین پاسکیں
یَااَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَفسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنھَا زَوجَھَا وَبَثَّ مِنھُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَّنِسَائً۔
اے لوگو!ڈرواپنے رب سے جس نے تم کوپیدا کیا ایک جان سے اوراسی سے اس کاجوڑا بنایا اور ان دونوںسے بہت سے مرد اورعورت دنیامیں پھیلادئے ۔
اسلام نے کسی انسان کو بحیثیت انسان کمتر نہیں بنایا ہے ،اس کا دوٹوک فیصلہ ہے کہ ہر انسان ایک انسان (آدم)سے پیداہوااورآدم مٹی سے پیدا کئے گئے ،اس لئے کسی کو کسی پر فوقیت نہیں،انسانوں میں قوم ،نسل،قبیلہ، وطن ،زبان کا جو فرق رکھاگیاہے وہ محض تعارف کے لئے ہے نہ کہ کسی تفریق کے لئے ہے ۔جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ۔
یَااَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّاخَلَقنٰکُم مِّن ذَکَرٍوَّاُنثٰی وَجَعَلنَاکُم شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا۔اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَ اللّٰہِ اَتقَاکُم۔ (سورہ حجرات)
اے انسانو!تم سب کوہم نے ایک مردو عورت سے پیدا کیا ہے اورتمہارے اندرقبیلہ اورخاندان صرف اس لئے بنایا ہے کہ ایک دوسرے کوپہچان سکو،تمہارے اندرسب سے عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگارہی۔
یعنی جو سب سے زیادہ حقوق اللہ اورحقوق العبادکاپابندہووہی نائب الٰہی ہونے کی حیثیت سے سب کا امیر اورحکمراں ہے ،اب اگر وہ عجمی ہے تو عربی کو اس کے دست حق پرست پر بیعت کرنی ہوگی اوراگر وہ غلام زاد ہ ہے تو ایک سیدزادہ کو بھی اس کے پرچم تلے آناہوگا ۔سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کاصاف اعلان ہے ۔
لَافَضل لعربی علی عجمی ولالعجمی علی عربی ،لافضل لاحمر علی اسود ولالاسودعلی احمر۔
نہ عرب کو فضیلت ہے عجم پر اورنہ عجم کو عرب پر ،نہ گورے کو کسی کالے پر اورنہ کسی کالے کو کسی گورے پر… اس لئے کہ
کلکم ابناء آدم وآدم من تراب …تم سب آدم زاد ہواورآدم مٹی زاد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرارضی اللہ عنہاکو مخاطب کرکے فرمایا۔
یا فاطمۃ بنت ممحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سلینی ماشئت من المال لا اغنی من اللّٰہ شیئاً۔
اے فاطمہ بنت محمد!تم مجھ سے میرا مال جس قدرچاہے لو لے لیکن میں تم کوخداکے عداب سے نہیںبچاسکتا۔(بخاری )
یعنی میدان محشرمیں نسب کام نہ آئیگا،وہاں انسان کے اپنے اعمال کام آئیں گے جیساکہ ارشاد ربانی ہی۔
وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًایَّرَہ۔ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہ۔
جوذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اس کا اجرپائے گا اورجو ذرہ بھر برائی کرے گاوہ اس کااجرپائے گا۔
اسلا م کی اس بنیادی تعلیم کااثریہ ہے کہ آفتاب رسالت کے چھپ جانے کے بعد حضرت علیؓ کے ہوتے ہوئے بلا امتیازنسب ونسل مسلسل تین خلیفہ منتخب ہوئے ،اورپھر حضرت علیؓ اس کے بعداس وقت تک ہرہرپہلوسے اپناکرشمہ دکھاتی رہی کہ مسلمانوں کی قیادت اورامامت میںدنیائے اسلام کے کسی بھی عرب اورعجم ، سیاہ وسفید وغیرہ کے لایعنی امتیازات نہیں دیکھے ،نہ سلطنت کی حکمرانی میں ،نہ علوم دینی کی امامت میں ،نہ تقویٰ اورطہار ت کی بلندی میں۔
کردی غلام صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس کی قیادت سے کس کو انکارہوا ،امام الوقت امام ابوحنیفہؒ کو امام الفقہ ہونے میں کس نے شک کیا،امام بخاریؒ کو امام الحدیث ہونے میں کس کو کلام ہے ،شیخ جیلانیؒ کو قطب الاقطاب ماننے میں کس نے جھجھک محسوس کی ۔
تاریخ اسلام کاایک ایک ورق ہمارے اس دعو ے کی کھلی دلیل ہے یعنی فضیلت کامعیار،نسل ورنگ اورزبان اوروطن نہیں بلکہ تقویٰ کی اخلاقی صفت ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کو رذیل اوراپنے کو بالاتر سمجھتا تھا ،حالانکہ اصل چیز جس کی بنیادپر ایک شخص کو دوسرے شخص پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا ہو اور برائیوںسے بچنے والا ہو اورنیکی اورپاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو ۔ایساآدمی خواہ کسی نسل ،کسی قوم اورکسی ملک سے تعلق رکھتا ہو ،اپنی ذاتی خوبی کی بناء پر قابل قدر ہے ۔
اورجس کاحال اس کے بر عکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجہ کاانسان ہے چاہے اونچی برادری میںپیدا ہواہو،کالاہو یاگورا ،مشرق میںپیدا ہو ا ہو یا مغرب میں۔
فتح مکہ کے بعد طواف کعبہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تقریرفرمائی تھی اس میں فرمایاشکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کاعیب اوراس کاتکبردور کردیا ہے ،لوگوتم انسان بس دوہی حصوں میں تقسیم ہوئے ہو (۱)نیک اور پرہیزگارجو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے (۲)فاجراورشقی جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے ۔
اسی نظریے پر اسلام نے دنیابھرکے انسانوںمیں صرف ایک تفریق کو باقی رکھا اوروہ تھی ایمان اورکفر کی تفریق ،جو انسان بھی خواہ وہ کسی مسلک ،کسی قوم ،کسی رنگ سے تعلق رکھتا ہواورخواہ وہ کوئی زبان بولتا ہو ،اللہ کی توحید کو اس طرح مان لے ،جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسانی کے لئے اللہ تعالیٰ کاآخری رسول اورقرآن کو آخری کتاب تسلیم کرے اورآخرت پر ایمان لے آئے ،وہ مؤمن ہے ،مؤمنوں کابھائی ہے ،جماعت مومنین کاایک رکن ہے ،امت مسلمہ کا ایک فرد ہے اورمسلم معاشرے میں اس کے حقوق ہرلحاظ سے مساوی ہیں ۔
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایاتھا جودنیائے انسانیت کے لئے آخری پیغام ہے ۔
لوگو!خبر داررہو تم سب کا ایک ہی خدا ہے ،کسی عربی کو کسی عجمی پر ،کسی عجمی کوکسی عربی پر ،کسی گورے کو کسی کالے پر ،کسی کالے کو کسی گورے پرکوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ،مگر تقویٰ کے اعتبارسے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگارہو ،بتاؤ میں نے تمہیں ساری بات پہنچادی ہے لوگوں نے عرض کیا ہاں !اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ پ نے فرمایاجولوگ موجود ہیں وہ ا ن لوگوںتک یہ بات پہنچادیںجو موجود نہیں ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے اس اصول کی تبلیغ کی تو عرب کے قبیلے تلملااٹھے ،ہزاروںبرس سے اس کاپورااجتماعی نظام قبائلیت ہی پر مبنی تھا اورہرقبیلہ دوسرے قبیلہ پر جو فخراورناز اس پر جتاتاتھا کہ اس کے آباء واجداد نے فلاں فلاں کام انجام دئے ہیں ،انہوں نے دیکھا کہ ان کے درمیان ایک ایسی دعوت اٹھ رہی ہے جو قبائلیت کی جڑ ہی کاٹ دے رہی ہے جو ہر قوم ہرقبیلے کے اندرسے آدمی نکال نکال کر ایک مستقل جماعت الگ نام سے بنارہی ہے جو نہ قوم جانتی ہے نہ قبیلہ،بلکہ ایک عقیدے پر عالمگیراخوت اوررفاقت کی بنیادرکھ رہی ہے ،جو فخروشرف کے سارے قدیم تصورات کاخاتمہ کرکے رذیل اورشریف سب کو برابرکئے دے رہی ہے تو ان کے لئے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا۔
اس عظیم معاشرتی انقلاب کو ہضم کرنا ان کے بس میں نہ رہا ،ان لوگوں نے فیصلہ کرلیا کہ اس کلی کو ابتداء ہی سے مسل ڈالا جائے تاکہ اس کے کلی، پھول اورپھول سے گلدستہ بننے کی نوبت ہی نہ آسکے ،لیکن جن لوگوں کو خدانے عقل سلیم عطا کی تھی اورجن کے قلوب تعصبات کی آلائش سے پاک تھے انہوں نے محسوس کرلیا کہ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جس میںاتحادعرب کارازپنہاںہے جس کی برکتوںسے اقوام عالم کو ایک لڑی میں پرویاجاسکتا ہی۔
زمانہ قدیم سے آج تک ہردورمیں انسان بالعموم وسیع المفہوم انسانیت کو نظر اندازکرکے اپنے گرد چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے ،جس کے اندر پیداہونے والوںکو اپنا اور باہرپیدا ہونے والوںکو غیر قرار دیا ہے ، چنانحہ اس نظریے کی کوکھ سے شودرکے عقیدے نے جنم لیا جس کی روسے برہمن کی بالادستی قائم کی گئی اوراپنے بنائے ہوئے پیمانوںکے مطابق اونچی ذات والوں کے مقابلہ میں تمام انسان نیچ اورناپاک ٹھہرائے گئے اورشودروںکو انتہائی پستی کے گڑھے میں ڈھکیل دیا گیا ۔
اسی ذہنیت نے نفرت ،عداوت ،تحقیر،تذلیل اورظلم وستم کی بد ترین شکلیںاختیار کی ہیںاس کے لئے فلسفے گڑھے گئے ہیں ۔مذاہب ایجاد کئے گئے ہیں ،قوانین بنائے گئے ہیں ہیں ۔اخلاقی اصول وضع کئے گئے ۔ قوموںاورسلطنتوںنے اس کو اپنامستقل مسلک بناکر صدیوں اس پر عمل درآمد کیا ہے ۔
یہودیوں نے اسی بنیاد پر بنی اسرائیل کو چیدہ مخلوق بلکہ ابن اللہ ٹھہرایااوراپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائلیوں کے حقوق اوررتبے کو اسرائیلیوںسے فروتر رکھا ۔
یوروپ کے لوگوں نے بر اعظم امریکہ میں گھس کر انڈین نسل کیساتھ جو سلوک کیا اورایشیا اورافریقہ کی کمزورقوموں پر اپنا تسلط قائم کرکے جو برتاؤان کے ساتھ کیا اس کی تہہ میںکبھی یہ تصور کا رفرمارہا کہ اپنے وطن اوراپنی قوم کی سرحدوںسے باہرہونے والوںکی جان ،مال ،آبروان پر مباح ہے اورانہیں حق پہونچتا ہے کہ ان کو لوٹیں،غلام بنائیں ،اورضرورت پڑے تو صفحہ ہستی سے مٹادیں۔
مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لئے درندہ بناکررکھ دیا ہے ،ان کی بدترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوںمیں دیکھی جاچکی ہیں ،خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت کا تصورپچھلی جنگ عظیم میںجو کرشمے دکھاچکاہے انہیں نگاہ میں رکھاجائے تو آدمی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم اورتباہ کن گمراہی ہی۔
ہندوستان میں غیر مسلموںکی اکثریت ہے ،ان کے یہاں مساوات کانام ونشان نہیں اوراونچے لوگوں میں کمتری اوربرتری کاپورانظام مذہبی بنیادوںپر قائم ہے ۔
یہی تصورہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ،چنانچہ مسلم معاشرے میںبرتری ،کمتری اوراونچ نیچ رائج ہے اورپوری قوت کے ساتھ اس پر عمل ہورہا ہے ،آج برادرانہ تعصبات اتنے زیادہ ہیں کہ غیر مسلم معاشرہ توکیاہندومعاشرہ میں اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا ،نفرت کی خلیج ایک عرصہ درازسے قائم ہے اوردن بدن اس میں اضافہ ہورہا ہے ۔
علماء کرام کا یہ فرض منصبی ہے کہ برادرانہ تعصب اورنفرت کے عقیدے کے خلاف کھل کر آواز بلند کریں اوراسلامی مساوات کے عملی نمونے اسلاف امت کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے پیش کریںتاکہ مظلوم اورکچلے ہوئے طبقات اسلام کی آغوش میں پناہ لے کرفلاح دارین پاسکیں