عارفین نے ایک ایرانی بادشاہ کا واقعہ تحریرفرمایاہے کہ اس کی زبان سے ایک مرتبہ ایک مصرع نکل گیا ع۔دُرابلق کسے کم دیدہ موجود
کہ چت کبرا موتی کسی نے بہت کم دیکھا ہے ،اس نے اپنے ملک کے نامور شعراء کو جمع کیا اوراس پر مصرع ثانی لگانے کی پیش کش کی ،تمام شعرا نے بڑا ذہن کھپایامگروہ مصرعِ ثانی لگانے میں ناکام رہے چونکہ یہ بھی وقت وقت کی بات ہوتی ہے ،ذہن نہیں چلتا اورکبھی ذہن بڑی سرعت سے مائل ہوجاتا ہے ہمارے ہندوستان میں غالب ،بڑے اہم شاعروں میں سے ہیں ،استادشاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے ،ایک مرتبہ ان کے گھر ،ان کی عدم موجودگی میں کچھ شعراء تشریف لائے ،مرزا غالب اسد اللہ کی ملکہ گھر پر تھی جو اپنے قدوقامت کے اعتبارسے کچھ لانبی تھی ،ایک شاعر پکاراٹھے
ع۔ طولِ شبِ فراق سے دوہاتھ بڑی ہے
اس مصرع میں غالب کی ملکہ کی برائی تھی ،اسی درمیان غالب بھی تشریف لے آئے انہوں نے اس پر گرہ لگائی۔
ع۔ وہ زلفِ مسلسل جو ترے رخ پہ پڑی ہے
ایک مرتبہ اکبر نے اپنے دربارمیں شعراء کو جمع کیا ،ان کو انعام واکرام بھی دیا ،اسی دوران ایک درمیانی شاعربھی اکبر کے یہاں حاضر ہوا ،راستہ میں فیضیؔ سے اس کی ملاقات ہوئی ،فیضیؔ نے پوچھا تم کونسا شعر بناکرلے جارہو۔اس نے کہا ،ایک مصرع ہی بنا ہے دوسرا پن نہیں پایا ہے ۔
املی کا پتہ، سبج (سبز)
ابجد ،حطی ہبج (ہوز)
خوش خوش دربار میںگیا اوریہ شعر پڑھا ۔
اکبر نے کہا ،چودھری صاحب پہلا مصرع تو بہت اچھا ہے مگر دوسرا ٹھیک نہیں ،تو وہ دیہاتی فیضیؔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا یہ بیڑ ا غرق اس نے کیا ہے اوردربارقہقہہ زار بن گیا ۔
تو ایرانی بادشاہ کے شعراء جب کامیاب نہ ہوپائے تو اس نے ہندستان میں عالمگیرکو لکھا کہ اس کادوسرا مصرع بنوادیجئے ،یہاں کے شعراء نے بھی کوشش کی مگروہ بھی کامیاب نہ ہوسکے ،بادشاہ کی ایک بیٹی ،مخفی جن کا تخلص تھا،اس نے والد گرامی کی پریشانی دیکھ کر معلوم کیا کہ کیا معاملہ ہی؟ اس نے کوشش کی اوروہ کامیاب ہوگئی
دُرابلق کسے کم دیدہ موجود
مگراشک بتانِ سرمہ آلود
کہ چت کبرا گھوڑاکسی نے بہت کم دیکھاہے مگر نازنینوں کی سرمہ آلودآنکھوں سے ٹپکنے والا آنسوکہ وہ سرمہ کی سیاہی اورآنکھ کے پانی کی وجہ سے چت کبرا ہوجاتا ہے اورآنسوکو موتی سے تشبیہ دی ہی۔بادشاہ بہت خوش ہوا اورایرانی بادشاہ کو لکھ بھیجا …ایرانی بادشاہ کی مسرت کا کیاپوچھنا …اس نے فوراً اپنا قاصد ہندوستان بھیجا اوردرخواست کی کہ اپنے ملک کے اس شاعر کو ایران بھیج دیجئے ہم اس کو ایوارڈ دینا چاہتے ہیں ،اس کا اعزازکرنا چاہتے ہیں،بادشاہ کو بڑی تشویش ہوئی کیونکہ لڑکیوں کو پردہ میں رکھنے کا مزاج تھا اورعورت پردہ ہی کی چیزبھی ہے ،اسی لئے قرآن پاک نے اکثراحکامات میں اسے مردوں ہی کے تابع بنایا ہے اوراس کے نام کا اعلان کرنے سے بھی بہت پرہیز کیا ہے ،قرآنی مزا ج بھی اس کو پردہ میں رکھنے کا ہے اوراسی گھر کے چہاردیواری میں رہنے کی تاکید ہے ،اگر بدرجۂ مجبوری اسے باہرآنا بھی پڑے تو چادر میں لپٹ کر باپردہ ہوکر باہرنکلنے کے احکامات ہیں ، اسی لئے اس کا زور سے بولنا بھی منع ہے ،شریعت ایک لمحہ کیلئے اسے الگ نہیں ہونے دیتی ہے ،حج جیسا اہم فریضہ جو سراسرمقدس ہے اور مقامات حج کا ماحول ،ایمانی وعرفانی ہے وہاں بھی تنہا عورت کاجانا ممنوع ہے اوراسی میں عورت کی بھلائی ہے ،خیرخواہی ہی۔
مگر اس وقت مغرب زدہ عورتوں کو چھوڑدیجئے ،ہمای مشرقی بہنوں کویہ اسلامی اصول پسند نہیں ،وہ خود بازاروں سے سامان لارہی ہیں تمام اسفار خو د طے کررہی ہیں اورگھر کی زندگی کو چھوڑکر وہ بھی مردوں کے دوش بدوش باہر نکل آئیں ۔پردہ صرف برائے نام رہ گیا ،وہ بھی جاننے والوں سے ورنہ بازاروں میں وہ جس طرح کامظاہرہ کرتی ہیں وہ قابل افسوس ،لائق لعنت وملامت ہے ،اکبر نے صحیح ترجما نی کی تھی ۔ ؎
بے پردہ جو نظرآئیں کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت خوبی سے گڑگیا
پوچھاجو ان سے پردہ تمہارا کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
اسی لئے عورت اپنا ایک ممتا کا،ایک بہترمربیہ کا اورایک مثالی ماں کا کردار اداکرنے میںکامیاب نہیں ہے یہ ہمارا ،ہماری تہذیب کا بہت بڑا خسارہ ہے اوراس نام پر جو عورت کو نسوانیت سے بیزارکرتی ہو وہ تعلیم ہو ، تہذیب ہو یا کسی بھی طرح کی ترقی ہو ،سب بیکارہے ،اللہ تعالیٰ اقبال کو جزائے خیر دے ۔ ؎
جس علم کی تاثیر زن ہوتی ہو نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
عالمگیر کی بیٹی نے جب اپنے والد کا اضطراب وبے چینی دیکھی ،باغیرت بیٹی نے ،ایک شعر لکھا اوردرخواست کی کہ ایرانی قاصد کو یہ شعر دیدیجئے وہ شعر تھا ؎
درسخن من مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل
ہرکہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا
کہ میں اپنے شعر میں اس طرح چھپی ہوئی ہوں جیسے پھول کی پتی میں خوشبو ہوتی ہے جو مجھے دیکھنا چاہے وہ میرے کلام ،میری سخن اورمیری بات میں مجھے دیکھ سکتا ہی۔
اللہ تعالیٰ کوبھی جو انسان دیکھنا چاہے وہ اس کے کلام (قرآن پاک )کی تلاوت کرے ،اسی میں اللہ تعالیٰ چھپاہوا ہے اورانسان کو اس میں اللہ ملے گا ۔
مختصر یہ کہ قرآن پاک ایک بندہ ٔ مومن کی غذا ہے جس کے بنا و ہ رہ ہی نہیں سکتا ہے اوردنیا و آخرت میں وہ جو کچھ بھی کرسکتا ہے اسی کو اپنائے ،اس کی تلاوت کا ذوق پیدا کری، اس کی آیات میں تدبر وتفکرکرے اوراس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو
کہ چت کبرا موتی کسی نے بہت کم دیکھا ہے ،اس نے اپنے ملک کے نامور شعراء کو جمع کیا اوراس پر مصرع ثانی لگانے کی پیش کش کی ،تمام شعرا نے بڑا ذہن کھپایامگروہ مصرعِ ثانی لگانے میں ناکام رہے چونکہ یہ بھی وقت وقت کی بات ہوتی ہے ،ذہن نہیں چلتا اورکبھی ذہن بڑی سرعت سے مائل ہوجاتا ہے ہمارے ہندوستان میں غالب ،بڑے اہم شاعروں میں سے ہیں ،استادشاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے ،ایک مرتبہ ان کے گھر ،ان کی عدم موجودگی میں کچھ شعراء تشریف لائے ،مرزا غالب اسد اللہ کی ملکہ گھر پر تھی جو اپنے قدوقامت کے اعتبارسے کچھ لانبی تھی ،ایک شاعر پکاراٹھے
ع۔ طولِ شبِ فراق سے دوہاتھ بڑی ہے
اس مصرع میں غالب کی ملکہ کی برائی تھی ،اسی درمیان غالب بھی تشریف لے آئے انہوں نے اس پر گرہ لگائی۔
ع۔ وہ زلفِ مسلسل جو ترے رخ پہ پڑی ہے
ایک مرتبہ اکبر نے اپنے دربارمیں شعراء کو جمع کیا ،ان کو انعام واکرام بھی دیا ،اسی دوران ایک درمیانی شاعربھی اکبر کے یہاں حاضر ہوا ،راستہ میں فیضیؔ سے اس کی ملاقات ہوئی ،فیضیؔ نے پوچھا تم کونسا شعر بناکرلے جارہو۔اس نے کہا ،ایک مصرع ہی بنا ہے دوسرا پن نہیں پایا ہے ۔
املی کا پتہ، سبج (سبز)
ابجد ،حطی ہبج (ہوز)
خوش خوش دربار میںگیا اوریہ شعر پڑھا ۔
اکبر نے کہا ،چودھری صاحب پہلا مصرع تو بہت اچھا ہے مگر دوسرا ٹھیک نہیں ،تو وہ دیہاتی فیضیؔ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا یہ بیڑ ا غرق اس نے کیا ہے اوردربارقہقہہ زار بن گیا ۔
تو ایرانی بادشاہ کے شعراء جب کامیاب نہ ہوپائے تو اس نے ہندستان میں عالمگیرکو لکھا کہ اس کادوسرا مصرع بنوادیجئے ،یہاں کے شعراء نے بھی کوشش کی مگروہ بھی کامیاب نہ ہوسکے ،بادشاہ کی ایک بیٹی ،مخفی جن کا تخلص تھا،اس نے والد گرامی کی پریشانی دیکھ کر معلوم کیا کہ کیا معاملہ ہی؟ اس نے کوشش کی اوروہ کامیاب ہوگئی
دُرابلق کسے کم دیدہ موجود
مگراشک بتانِ سرمہ آلود
کہ چت کبرا گھوڑاکسی نے بہت کم دیکھاہے مگر نازنینوں کی سرمہ آلودآنکھوں سے ٹپکنے والا آنسوکہ وہ سرمہ کی سیاہی اورآنکھ کے پانی کی وجہ سے چت کبرا ہوجاتا ہے اورآنسوکو موتی سے تشبیہ دی ہی۔بادشاہ بہت خوش ہوا اورایرانی بادشاہ کو لکھ بھیجا …ایرانی بادشاہ کی مسرت کا کیاپوچھنا …اس نے فوراً اپنا قاصد ہندوستان بھیجا اوردرخواست کی کہ اپنے ملک کے اس شاعر کو ایران بھیج دیجئے ہم اس کو ایوارڈ دینا چاہتے ہیں ،اس کا اعزازکرنا چاہتے ہیں،بادشاہ کو بڑی تشویش ہوئی کیونکہ لڑکیوں کو پردہ میں رکھنے کا مزاج تھا اورعورت پردہ ہی کی چیزبھی ہے ،اسی لئے قرآن پاک نے اکثراحکامات میں اسے مردوں ہی کے تابع بنایا ہے اوراس کے نام کا اعلان کرنے سے بھی بہت پرہیز کیا ہے ،قرآنی مزا ج بھی اس کو پردہ میں رکھنے کا ہے اوراسی گھر کے چہاردیواری میں رہنے کی تاکید ہے ،اگر بدرجۂ مجبوری اسے باہرآنا بھی پڑے تو چادر میں لپٹ کر باپردہ ہوکر باہرنکلنے کے احکامات ہیں ، اسی لئے اس کا زور سے بولنا بھی منع ہے ،شریعت ایک لمحہ کیلئے اسے الگ نہیں ہونے دیتی ہے ،حج جیسا اہم فریضہ جو سراسرمقدس ہے اور مقامات حج کا ماحول ،ایمانی وعرفانی ہے وہاں بھی تنہا عورت کاجانا ممنوع ہے اوراسی میں عورت کی بھلائی ہے ،خیرخواہی ہی۔
مگر اس وقت مغرب زدہ عورتوں کو چھوڑدیجئے ،ہمای مشرقی بہنوں کویہ اسلامی اصول پسند نہیں ،وہ خود بازاروں سے سامان لارہی ہیں تمام اسفار خو د طے کررہی ہیں اورگھر کی زندگی کو چھوڑکر وہ بھی مردوں کے دوش بدوش باہر نکل آئیں ۔پردہ صرف برائے نام رہ گیا ،وہ بھی جاننے والوں سے ورنہ بازاروں میں وہ جس طرح کامظاہرہ کرتی ہیں وہ قابل افسوس ،لائق لعنت وملامت ہے ،اکبر نے صحیح ترجما نی کی تھی ۔ ؎
بے پردہ جو نظرآئیں کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت خوبی سے گڑگیا
پوچھاجو ان سے پردہ تمہارا کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
اسی لئے عورت اپنا ایک ممتا کا،ایک بہترمربیہ کا اورایک مثالی ماں کا کردار اداکرنے میںکامیاب نہیں ہے یہ ہمارا ،ہماری تہذیب کا بہت بڑا خسارہ ہے اوراس نام پر جو عورت کو نسوانیت سے بیزارکرتی ہو وہ تعلیم ہو ، تہذیب ہو یا کسی بھی طرح کی ترقی ہو ،سب بیکارہے ،اللہ تعالیٰ اقبال کو جزائے خیر دے ۔ ؎
جس علم کی تاثیر زن ہوتی ہو نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
عالمگیر کی بیٹی نے جب اپنے والد کا اضطراب وبے چینی دیکھی ،باغیرت بیٹی نے ،ایک شعر لکھا اوردرخواست کی کہ ایرانی قاصد کو یہ شعر دیدیجئے وہ شعر تھا ؎
درسخن من مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل
ہرکہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا
کہ میں اپنے شعر میں اس طرح چھپی ہوئی ہوں جیسے پھول کی پتی میں خوشبو ہوتی ہے جو مجھے دیکھنا چاہے وہ میرے کلام ،میری سخن اورمیری بات میں مجھے دیکھ سکتا ہی۔
اللہ تعالیٰ کوبھی جو انسان دیکھنا چاہے وہ اس کے کلام (قرآن پاک )کی تلاوت کرے ،اسی میں اللہ تعالیٰ چھپاہوا ہے اورانسان کو اس میں اللہ ملے گا ۔
مختصر یہ کہ قرآن پاک ایک بندہ ٔ مومن کی غذا ہے جس کے بنا و ہ رہ ہی نہیں سکتا ہے اوردنیا و آخرت میں وہ جو کچھ بھی کرسکتا ہے اسی کو اپنائے ،اس کی تلاوت کا ذوق پیدا کری، اس کی آیات میں تدبر وتفکرکرے اوراس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو