شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی
مظاہرعلوم کے امتیازات اوراختصاصات میں سے یہ بھی ہے کہ الحمدللہ یہاں دورۂ حدیث شریف شروع ہی سے پڑھایا جاتا ہی،چنانچہ حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒ،حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ،حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھیؒ،حضرت مولاناثابت علی پورقاضویؒ،حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ، حضرت مولانامحمداسعداللہ رام پوریؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ،حضرت مولانامفتی سعیداحمد اجراڑو یؒ، حضرت مولانامفتی مظفرحسین اجراڑویؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیونس جون پوری مدظلہ،حضرت مولاناعلامہ رفیق احمدبھیسانویؒ، حضرت مولانامحمدعثمان غنی اورحضرت مولانارئیس الدین بجنوری وغیرہ نے اپنے اپنے عہدزریں میں بخاری شریف کے کل یاجزکادرس دیااورحدیث شریف کی شاندار خدمت انجام دے کرمظاہرعلوم کا نام نامی روشن فرمایاہے۔
لیکن ’’شیخ الحدیث‘‘کاعہدہ اوراصطلاح سب سے پہلے ۶۴۳۱ھ میں قائم ہوئی اورقطب العالم حضرت مولانا محمدزکریامہاجرمدنیؒ، مظاہرعلوم کے شیخ الحدیث قرارپائی،اس لئے ذیل کی سطورمیں ’’شیوخ حدیث‘‘کاتذکرہ ٔ عالی بھی آپؒ ہی کی ذات گرامی سے شروع کیاجارہاہی۔
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندہلویؒبن مولانامحمدیحی ؒبن مولانامحمداسمعیلؒ بن حکیم غلام حسینؒ بن کریم بخشؒ بن مولاناحکیم غلام محی الدینؒ بن مولانامحمدساجدؒبن مولانافیض محمدؒبن مولاناشاہ محمدشریفؒ بن مولانامحمداشرفؒ بن مولاناشیخ جمال محمدشاہؒ بن شیخ نورمحمدؒ(عرف بابن شاہ)بن مولانابہاء الدینؒ بن مولاناشیخ محمدؒبن مولاناکریم الدین مذکرؒبن امام تاج مذکرؒبن امام حاج مذکرؒبن حضرت قاضی ضیاء الدین سنامی ؒ سرزمین اولیاء (کاندھلہ) کے متوطن ، زہدوورع،علوم واعمال،فضل وکمال ، معرفت ربانی اورتزکیہ وتجلیہ کے سرچشمہ ٔ ہدایت تھی۔
۱۱رمضان المبارک ۵۱۳۱ھ بمقام کاندھلہ پیداہوئے ،ابتدائی تعلیم کے علاوہ ڈاکٹرعبدالرحمن صاحبؒ( جوحضرت گنگوہیؒکے خصوصی لوگوں میں سے تھے )کے پاس حفظ کلام اللہ مکمل کیا۔
پہلے آپ اپنے والدماجدکے ساتھ گنگوہ ہی میں رہے لیکن جولائی ۰۱۹۱ء میں آپ والدمحترم کے ساتھ سہارنپورتشریف لے آئے اورشوال ۸۲۳۱ھ میں مظاہرعلوم میں داخلہ لے کردوسری جماعت سے درس نظامی کی تعلیم شروع کی اورمسلسل سات سال تک مظاہرعلوم میں مختلف درجات کی کتب پڑھ کر۴۳۳۱ھ میں فارغ ہوئی۔اسی سال ۹ذیقعدہ ۴۳۳۱ھ میں آپ کے والدبزرگوارحضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ وصال فرماگئی۔
اپنے والدومربی شیخ کامل ، فقیہ دہراورمحدث دوراں حضرت مولانامحمدیحییٰ نوراللہ مرقدہ کی زیرسرپرستی اپنی تعلیم کی ابتداء کی،حفظ کلام اللہ اور ابتدائی تعلیم کے بعدمظاہرعلوم سہارنپورمیں داخلہ لیااورکئی سال تک مختلف درجات کی تعلیم حاصل کرکے ۳۳۳۱ھ میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئی۔
فراغت کے بعد۵۳۳۱ھ میں مظاہرعلوم میں تدریس کی خدمت کاموقع ملا،اس وقت آپؒ تمام اساتذہ میں سب سے کم عمرتھے لیکن اپنی خدادادلیاقت اورصلاحیت کے باعث بہت جلدمظاہرعلوم کے منتہی اساتذہ میں شمار کئے جانے لگی۔
آپ نے اپنے استاذومرشدشیخ العرب والعجم حضرت مولاناخلیل احمدانبہٹویؒ کے حکم پرصرف ۶۲سال کی عمرمیں سب سے پہلی باربخاری شریف کادرس دیا۔
تقریباً ۵۳سال تک ابوداؤدشریف اور بخاری جلداول کا درس آپ سے متعلق رہا،بخاری جلدثانی آپؒ کے استاذشیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبداللطیف پورقاضویؒکے پاس زیردرس تھی اور ۳۷۳۱ھ میں جلدثانی بھی آپ کے پاس منتقل ہوگئی اور۵۷۳۱ھ سے صرف بخاری شریف کی تدریس آپ سے متعلق رہ گئی (اس طویل ترین دورتدریس میں دوسری کتب احادیث ترمذی، مسلم،شمائل ترمذی اورمشکوٰۃوغیرہ کے پڑھانے کابھی موقع ملا)
آپ کے والدماجدحضرت اقدس مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒچونکہ حضرت گنگوہیؒکے خادم اورخصوصی شاگردتھے اسی طرح حضرت شیخ الحدیث ؒکے استاذومربی حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ بھی حضرت گنگوہیؒ کے اجل خلیفہ تھے اس لئے ایسے بابرکت ماحول کااثرحضرت شیخ الحدیثؒ پرآناضروری تھاچنانچہ حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ کے مبارک ہاتھوں پربیعت ہوئے اوران ہی کے مجازہوکرعالم اسلام کو اپنی روحانی وعرفانی خدمات سے روشن ومنورفرمایا۔
حضرت سہارنپوریؒ جب ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپؒبحیثیت خادم ساتھ گئے اورحضرت کے آرام وراحت ،علمی وتصنیفی امورکوبحسن وخوبی انجام دیا۔
۸۸۳۱ھ میں نزول ماء (موتیابند)کی شکایت پیداہوئی توتدریس کاسلسلہ موقوف فرمادیاالبتہ تصنیفی مشغلہ جاری رکھا۔ حدیث نبوی سے خاص طورپرعشق تھایہی وجہ ہے کہ آپ کی تدریسی وتصنیفی خدمات میں حدیث شریف کی خدمات کا دائرہ سب سے زیادہ وسیع ہی۔
حب نبوی بلکہ عشق نبوی میں پورے طورپرسرشارہونے کی وجہ سے ہروقت یہی خواہش رہتی کہ کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیارمدینہ منورہ مسکن ہوکراسی سرزمین پاک میں آخری آرام گاہ مل جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنااورآرزوکوپورافرمادیااور آپ مدینہ منورہ ہجرت فرماگئی۔وہاں بھی تصنیفی اورروحانی مشغلہ جاری رکھا،خلق کثیرنے آپ سے استفادہ کیا۔
آپ کے اعمال جلیلہ اور بیشمار قربانیوںکو جوعلم ودین کیلئے انجام دیں وہ اس قدرممتاز اور ہمہ گیرہیں کہ ان کے تعارف کی ضرورت نہیںہی۔۴۲مئی ۲۸۹۱ء کوانتقال فرمایااورجنت البقیع مدینہ منورہ میں تدفین عمل میں آئی۔
سینکڑوں علمی وتحقیقی تصنیفات وتالیفات،تراجم وحواشی آپ نے تحریرفرمائی،اصلاح امت اورترغیب اعمال کے سلسلہ میں آپ نے ایک بے نظیرکتاب تصنیف فرمائی جوپہلے ’’تبلیغی نصاب‘‘کے نام سے طبع ہوتی تھی اوربعدمیں ’’فضائل اعمال‘‘کے نام سے شائع ہونے لگی۔یہ کتاب سینکڑوں زبانوں میں ترجمہ ہوکرشائع ہوچکی ہے اوربقول مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ ’’قرآن کریم کے بعدسب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہی‘‘
اسی طرح حدیث کی نامورکتاب’’مؤطاامام مالک‘‘کی بے نظیراوربسیط شرح’’اوجزالمسالک‘‘کے نام سے تحریرفرمائی جس نے علمی دنیابالخصوص اہل عرب میں ہیجان پیداکردیااوربڑے بڑے عربی علماء نے اس کتاب مستطاب کی تعریف وتحسین فرمائی۔چنانچہ مالکی مسلک کے ایک عربی عالم نے یہ کتاب پڑھ کہابرجستہ کہاتھا’’ھذاالمصنف حنف المؤطا‘‘اس مصنف نے تومؤطاکوحنفی بنادیاہی۔
شیخ سیدعلوی مالکی استاذحرم محترم مکۃ المکرمۃ کاتأثرتھاکہ’’متقدمین میں بھی اس کتاب کی نظیرنہیں ملتی‘‘
حضرت مولاناعبدالماجددربادیؒ نے صدق جدیدمیں تحریرفرمایاتھاکہ
’’یہ شرح لغت،فقہ،اختلاف مذہب ،رجال،روایت کے تمام اطراف پرحاوی ہے اورتحقیق کاکوئی پہلونہیں چھوڑتی،جوشخص ایک اسی کتاب کوتوجہ کے ساتھ پڑھ لے کہناچاہئے کہ اس کی نظراجمالاً سارے ذخیرۂ احادیث پرحاوی ہوجائے گی ‘‘
آپ کے خلفاء اورشاگردان باصفامیں بعض حضرات چندے آفتاب اورچندے ماہتاب ہیں۔
لیکن ’’شیخ الحدیث‘‘کاعہدہ اوراصطلاح سب سے پہلے ۶۴۳۱ھ میں قائم ہوئی اورقطب العالم حضرت مولانا محمدزکریامہاجرمدنیؒ، مظاہرعلوم کے شیخ الحدیث قرارپائی،اس لئے ذیل کی سطورمیں ’’شیوخ حدیث‘‘کاتذکرہ ٔ عالی بھی آپؒ ہی کی ذات گرامی سے شروع کیاجارہاہی۔
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندہلویؒبن مولانامحمدیحی ؒبن مولانامحمداسمعیلؒ بن حکیم غلام حسینؒ بن کریم بخشؒ بن مولاناحکیم غلام محی الدینؒ بن مولانامحمدساجدؒبن مولانافیض محمدؒبن مولاناشاہ محمدشریفؒ بن مولانامحمداشرفؒ بن مولاناشیخ جمال محمدشاہؒ بن شیخ نورمحمدؒ(عرف بابن شاہ)بن مولانابہاء الدینؒ بن مولاناشیخ محمدؒبن مولاناکریم الدین مذکرؒبن امام تاج مذکرؒبن امام حاج مذکرؒبن حضرت قاضی ضیاء الدین سنامی ؒ سرزمین اولیاء (کاندھلہ) کے متوطن ، زہدوورع،علوم واعمال،فضل وکمال ، معرفت ربانی اورتزکیہ وتجلیہ کے سرچشمہ ٔ ہدایت تھی۔
۱۱رمضان المبارک ۵۱۳۱ھ بمقام کاندھلہ پیداہوئے ،ابتدائی تعلیم کے علاوہ ڈاکٹرعبدالرحمن صاحبؒ( جوحضرت گنگوہیؒکے خصوصی لوگوں میں سے تھے )کے پاس حفظ کلام اللہ مکمل کیا۔
پہلے آپ اپنے والدماجدکے ساتھ گنگوہ ہی میں رہے لیکن جولائی ۰۱۹۱ء میں آپ والدمحترم کے ساتھ سہارنپورتشریف لے آئے اورشوال ۸۲۳۱ھ میں مظاہرعلوم میں داخلہ لے کردوسری جماعت سے درس نظامی کی تعلیم شروع کی اورمسلسل سات سال تک مظاہرعلوم میں مختلف درجات کی کتب پڑھ کر۴۳۳۱ھ میں فارغ ہوئی۔اسی سال ۹ذیقعدہ ۴۳۳۱ھ میں آپ کے والدبزرگوارحضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ وصال فرماگئی۔
اپنے والدومربی شیخ کامل ، فقیہ دہراورمحدث دوراں حضرت مولانامحمدیحییٰ نوراللہ مرقدہ کی زیرسرپرستی اپنی تعلیم کی ابتداء کی،حفظ کلام اللہ اور ابتدائی تعلیم کے بعدمظاہرعلوم سہارنپورمیں داخلہ لیااورکئی سال تک مختلف درجات کی تعلیم حاصل کرکے ۳۳۳۱ھ میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئی۔
فراغت کے بعد۵۳۳۱ھ میں مظاہرعلوم میں تدریس کی خدمت کاموقع ملا،اس وقت آپؒ تمام اساتذہ میں سب سے کم عمرتھے لیکن اپنی خدادادلیاقت اورصلاحیت کے باعث بہت جلدمظاہرعلوم کے منتہی اساتذہ میں شمار کئے جانے لگی۔
آپ نے اپنے استاذومرشدشیخ العرب والعجم حضرت مولاناخلیل احمدانبہٹویؒ کے حکم پرصرف ۶۲سال کی عمرمیں سب سے پہلی باربخاری شریف کادرس دیا۔
تقریباً ۵۳سال تک ابوداؤدشریف اور بخاری جلداول کا درس آپ سے متعلق رہا،بخاری جلدثانی آپؒ کے استاذشیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبداللطیف پورقاضویؒکے پاس زیردرس تھی اور ۳۷۳۱ھ میں جلدثانی بھی آپ کے پاس منتقل ہوگئی اور۵۷۳۱ھ سے صرف بخاری شریف کی تدریس آپ سے متعلق رہ گئی (اس طویل ترین دورتدریس میں دوسری کتب احادیث ترمذی، مسلم،شمائل ترمذی اورمشکوٰۃوغیرہ کے پڑھانے کابھی موقع ملا)
آپ کے والدماجدحضرت اقدس مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒچونکہ حضرت گنگوہیؒکے خادم اورخصوصی شاگردتھے اسی طرح حضرت شیخ الحدیث ؒکے استاذومربی حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ بھی حضرت گنگوہیؒ کے اجل خلیفہ تھے اس لئے ایسے بابرکت ماحول کااثرحضرت شیخ الحدیثؒ پرآناضروری تھاچنانچہ حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ کے مبارک ہاتھوں پربیعت ہوئے اوران ہی کے مجازہوکرعالم اسلام کو اپنی روحانی وعرفانی خدمات سے روشن ومنورفرمایا۔
حضرت سہارنپوریؒ جب ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپؒبحیثیت خادم ساتھ گئے اورحضرت کے آرام وراحت ،علمی وتصنیفی امورکوبحسن وخوبی انجام دیا۔
۸۸۳۱ھ میں نزول ماء (موتیابند)کی شکایت پیداہوئی توتدریس کاسلسلہ موقوف فرمادیاالبتہ تصنیفی مشغلہ جاری رکھا۔ حدیث نبوی سے خاص طورپرعشق تھایہی وجہ ہے کہ آپ کی تدریسی وتصنیفی خدمات میں حدیث شریف کی خدمات کا دائرہ سب سے زیادہ وسیع ہی۔
حب نبوی بلکہ عشق نبوی میں پورے طورپرسرشارہونے کی وجہ سے ہروقت یہی خواہش رہتی کہ کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیارمدینہ منورہ مسکن ہوکراسی سرزمین پاک میں آخری آرام گاہ مل جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنااورآرزوکوپورافرمادیااور آپ مدینہ منورہ ہجرت فرماگئی۔وہاں بھی تصنیفی اورروحانی مشغلہ جاری رکھا،خلق کثیرنے آپ سے استفادہ کیا۔
آپ کے اعمال جلیلہ اور بیشمار قربانیوںکو جوعلم ودین کیلئے انجام دیں وہ اس قدرممتاز اور ہمہ گیرہیں کہ ان کے تعارف کی ضرورت نہیںہی۔۴۲مئی ۲۸۹۱ء کوانتقال فرمایااورجنت البقیع مدینہ منورہ میں تدفین عمل میں آئی۔
سینکڑوں علمی وتحقیقی تصنیفات وتالیفات،تراجم وحواشی آپ نے تحریرفرمائی،اصلاح امت اورترغیب اعمال کے سلسلہ میں آپ نے ایک بے نظیرکتاب تصنیف فرمائی جوپہلے ’’تبلیغی نصاب‘‘کے نام سے طبع ہوتی تھی اوربعدمیں ’’فضائل اعمال‘‘کے نام سے شائع ہونے لگی۔یہ کتاب سینکڑوں زبانوں میں ترجمہ ہوکرشائع ہوچکی ہے اوربقول مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ ’’قرآن کریم کے بعدسب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہی‘‘
اسی طرح حدیث کی نامورکتاب’’مؤطاامام مالک‘‘کی بے نظیراوربسیط شرح’’اوجزالمسالک‘‘کے نام سے تحریرفرمائی جس نے علمی دنیابالخصوص اہل عرب میں ہیجان پیداکردیااوربڑے بڑے عربی علماء نے اس کتاب مستطاب کی تعریف وتحسین فرمائی۔چنانچہ مالکی مسلک کے ایک عربی عالم نے یہ کتاب پڑھ کہابرجستہ کہاتھا’’ھذاالمصنف حنف المؤطا‘‘اس مصنف نے تومؤطاکوحنفی بنادیاہی۔
شیخ سیدعلوی مالکی استاذحرم محترم مکۃ المکرمۃ کاتأثرتھاکہ’’متقدمین میں بھی اس کتاب کی نظیرنہیں ملتی‘‘
حضرت مولاناعبدالماجددربادیؒ نے صدق جدیدمیں تحریرفرمایاتھاکہ
’’یہ شرح لغت،فقہ،اختلاف مذہب ،رجال،روایت کے تمام اطراف پرحاوی ہے اورتحقیق کاکوئی پہلونہیں چھوڑتی،جوشخص ایک اسی کتاب کوتوجہ کے ساتھ پڑھ لے کہناچاہئے کہ اس کی نظراجمالاً سارے ذخیرۂ احادیث پرحاوی ہوجائے گی ‘‘
آپ کے خلفاء اورشاگردان باصفامیں بعض حضرات چندے آفتاب اورچندے ماہتاب ہیں۔