شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنی
مظاہرعلوم کے امتیازات اوراختصاصات میں سے یہ بھی ہے کہ الحمدللہ یہاں دورۂ حدیث شریف شروع ہی سے پڑھایا جاتا ہی،چنانچہ حضرت مولانامحمدمظہرنانوتویؒ،حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوریؒ،حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھیؒ،حضرت مولاناثابت علی پورقاضویؒ،حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ،حضرت مولاناعبداللطیف پورقاضویؒ، حضرت مولانامحمداسعداللہ رام پوریؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ،حضرت مولانامفتی سعیداحمد اجراڑو یؒ، حضرت مولانامفتی مظفرحسین اجراڑویؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیونس جون پوری مدظلہ،حضرت مولاناعلامہ رفیق احمدبھیسانویؒ، حضرت مولانامحمدعثمان غنی اورحضرت مولانارئیس الدین بجنوری وغیرہ نے اپنے اپنے عہدزریں میں بخاری شریف کے کل یاجزکادرس دیااورحدیث شریف کی شاندار خدمت انجام دے کرمظاہرعلوم کا نام نامی روشن فرمایاہے۔
لیکن ’’شیخ الحدیث‘‘کاعہدہ اوراصطلاح سب سے پہلے ۶۴۳۱ھ میں قائم ہوئی اورقطب العالم حضرت مولانا محمدزکریامہاجرمدنیؒ، مظاہرعلوم کے شیخ الحدیث قرارپائی،اس لئے ذیل کی سطورمیں ’’شیوخ حدیث‘‘کاتذکرہ ٔ عالی بھی آپؒ ہی کی ذات گرامی سے شروع کیاجارہاہی۔
ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمد زکریا کاندہلویؒبن مولانامحمدیحی ؒبن مولانامحمداسمعیلؒ بن حکیم غلام حسینؒ بن کریم بخشؒ بن مولاناحکیم غلام محی الدینؒ بن مولانامحمدساجدؒبن مولانافیض محمدؒبن مولاناشاہ محمدشریفؒ بن مولانامحمداشرفؒ بن مولاناشیخ جمال محمدشاہؒ بن شیخ نورمحمدؒ(عرف بابن شاہ)بن مولانابہاء الدینؒ بن مولاناشیخ محمدؒبن مولاناکریم الدین مذکرؒبن امام تاج مذکرؒبن امام حاج مذکرؒبن حضرت قاضی ضیاء الدین سنامی ؒ سرزمین اولیاء (کاندھلہ) کے متوطن ، زہدوورع،علوم واعمال،فضل وکمال ، معرفت ربانی اورتزکیہ وتجلیہ کے سرچشمہ ٔ ہدایت تھی۔
۱۱رمضان المبارک ۵۱۳۱ھ بمقام کاندھلہ پیداہوئے ،ابتدائی تعلیم کے علاوہ ڈاکٹرعبدالرحمن صاحبؒ( جوحضرت گنگوہیؒکے خصوصی لوگوں میں سے تھے )کے پاس حفظ کلام اللہ مکمل کیا۔
پہلے آپ اپنے والدماجدکے ساتھ گنگوہ ہی میں رہے لیکن جولائی ۰۱۹۱ء میں آپ والدمحترم کے ساتھ سہارنپورتشریف لے آئے اورشوال ۸۲۳۱ھ میں مظاہرعلوم میں داخلہ لے کردوسری جماعت سے درس نظامی کی تعلیم شروع کی اورمسلسل سات سال تک مظاہرعلوم میں مختلف درجات کی کتب پڑھ کر۴۳۳۱ھ میں فارغ ہوئی۔اسی سال ۹ذیقعدہ ۴۳۳۱ھ میں آپ کے والدبزرگوارحضرت مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒ وصال فرماگئی۔
اپنے والدومربی شیخ کامل ، فقیہ دہراورمحدث دوراں حضرت مولانامحمدیحییٰ نوراللہ مرقدہ کی زیرسرپرستی اپنی تعلیم کی ابتداء کی،حفظ کلام اللہ اور ابتدائی تعلیم کے بعدمظاہرعلوم سہارنپورمیں داخلہ لیااورکئی سال تک مختلف درجات کی تعلیم حاصل کرکے ۳۳۳۱ھ میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ ہوئی۔
فراغت کے بعد۵۳۳۱ھ میں مظاہرعلوم میں تدریس کی خدمت کاموقع ملا،اس وقت آپؒ تمام اساتذہ میں سب سے کم عمرتھے لیکن اپنی خدادادلیاقت اورصلاحیت کے باعث بہت جلدمظاہرعلوم کے منتہی اساتذہ میں شمار کئے جانے لگی۔
آپ نے اپنے استاذومرشدشیخ العرب والعجم حضرت مولاناخلیل احمدانبہٹویؒ کے حکم پرصرف ۶۲سال کی عمرمیں سب سے پہلی باربخاری شریف کادرس دیا۔
تقریباً ۵۳سال تک ابوداؤدشریف اور بخاری جلداول کا درس آپ سے متعلق رہا،بخاری جلدثانی آپؒ کے استاذشیخ الاسلام حضرت مولاناسید عبداللطیف پورقاضویؒکے پاس زیردرس تھی اور ۳۷۳۱ھ میں جلدثانی بھی آپ کے پاس منتقل ہوگئی اور۵۷۳۱ھ سے صرف بخاری شریف کی تدریس آپ سے متعلق رہ گئی (اس طویل ترین دورتدریس میں دوسری کتب احادیث ترمذی، مسلم،شمائل ترمذی اورمشکوٰۃوغیرہ کے پڑھانے کابھی موقع ملا)
آپ کے والدماجدحضرت اقدس مولانامحمدیحییٰ کاندھلویؒچونکہ حضرت گنگوہیؒکے خادم اورخصوصی شاگردتھے اسی طرح حضرت شیخ الحدیث ؒکے استاذومربی حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ بھی حضرت گنگوہیؒ کے اجل خلیفہ تھے اس لئے ایسے بابرکت ماحول کااثرحضرت شیخ الحدیثؒ پرآناضروری تھاچنانچہ حضرت مولاناخلیل احمدمہاجرمدنیؒ کے مبارک ہاتھوں پربیعت ہوئے اوران ہی کے مجازہوکرعالم اسلام کو اپنی روحانی وعرفانی خدمات سے روشن ومنورفرمایا۔
حضرت سہارنپوریؒ جب ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپؒبحیثیت خادم ساتھ گئے اورحضرت کے آرام وراحت ،علمی وتصنیفی امورکوبحسن وخوبی انجام دیا۔
۸۸۳۱ھ میں نزول ماء (موتیابند)کی شکایت پیداہوئی توتدریس کاسلسلہ موقوف فرمادیاالبتہ تصنیفی مشغلہ جاری رکھا۔ حدیث نبوی سے خاص طورپرعشق تھایہی وجہ ہے کہ آپ کی تدریسی وتصنیفی خدمات میں حدیث شریف کی خدمات کا دائرہ سب سے زیادہ وسیع ہی۔
حب نبوی بلکہ عشق نبوی میں پورے طورپرسرشارہونے کی وجہ سے ہروقت یہی خواہش رہتی کہ کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیارمدینہ منورہ مسکن ہوکراسی سرزمین پاک میں آخری آرام گاہ مل جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنااورآرزوکوپورافرمادیااور آپ مدینہ منورہ ہجرت فرماگئی۔وہاں بھی تصنیفی اورروحانی مشغلہ جاری رکھا،خلق کثیرنے آپ سے استفادہ کیا۔
آپ کے اعمال جلیلہ اور بیشمار قربانیوںکو جوعلم ودین کیلئے انجام دیں وہ اس قدرممتاز اور ہمہ گیرہیں کہ ان کے تعارف کی ضرورت نہیںہی۔۴۲مئی ۲۸۹۱ء کوانتقال فرمایااورجنت البقیع مدینہ منورہ میں تدفین عمل میں آئی۔
سینکڑوں علمی وتحقیقی تصنیفات وتالیفات،تراجم وحواشی آپ نے تحریرفرمائی،اصلاح امت اورترغیب اعمال کے سلسلہ میں آپ نے ایک بے نظیرکتاب تصنیف فرمائی جوپہلے ’’تبلیغی نصاب‘‘کے نام سے طبع ہوتی تھی اوربعدمیں ’’فضائل اعمال‘‘کے نام سے شائع ہونے لگی۔یہ کتاب سینکڑوں زبانوں میں ترجمہ ہوکرشائع ہوچکی ہے اوربقول مفتی محمدتقی عثمانی مدظلہ ’’قرآن کریم کے بعدسب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہی‘‘
اسی طرح حدیث کی نامورکتاب’’مؤطاامام مالک‘‘کی بے نظیراوربسیط شرح’’اوجزالمسالک‘‘کے نام سے تحریرفرمائی جس نے علمی دنیابالخصوص اہل عرب میں ہیجان پیداکردیااوربڑے بڑے عربی علماء نے اس کتاب مستطاب کی تعریف وتحسین فرمائی۔چنانچہ مالکی مسلک کے ایک عربی عالم نے یہ کتاب پڑھ کہابرجستہ کہاتھا’’ھذاالمصنف حنف المؤطا‘‘اس مصنف نے تومؤطاکوحنفی بنادیاہی۔
شیخ سیدعلوی مالکی استاذحرم محترم مکۃ المکرمۃ کاتأثرتھاکہ’’متقدمین میں بھی اس کتاب کی نظیرنہیں ملتی‘‘
حضرت مولاناعبدالماجددربادیؒ نے صدق جدیدمیں تحریرفرمایاتھاکہ
’’یہ شرح لغت،فقہ،اختلاف مذہب ،رجال،روایت کے تمام اطراف پرحاوی ہے اورتحقیق کاکوئی پہلونہیں چھوڑتی،جوشخص ایک اسی کتاب کوتوجہ کے ساتھ پڑھ لے کہناچاہئے کہ اس کی نظراجمالاً سارے ذخیرۂ احادیث پرحاوی ہوجائے گی ‘‘
آپ کے خلفاء اورشاگردان باصفامیں بعض حضرات چندے آفتاب اورچندے ماہتاب ہیں۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
مولانامحمدیونس مدظلہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدیونس مدظلہ​
حضرت مولانامحمدیونس صاحب دامت برکاتہم ابن جناب شبیراحمدصاحب ؒ۵۲رجب المرجب ۵۵۳۱ھ مطابق ۲اکتوبر۷۳۹۱ء شنبہ کے دن جون پور(یوپی)کے ایک گاؤں میں پیداہوئے ،والدہ ماجدہ کاانتقال ایسے وقت میں ہواجب آپ صرف ۵سال ۰۱ماہ کے تھے (سرکاردوعالم صلی اللہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا جب انتقال ہواتواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک بھی تقریباً یہی تھی)
ابتدائی تعلیم علاقہ کے مکاتب میں حاصل کی ،فارسی سے سکندرنامہ تک اورابتدائی عربی سے مختصرالمعانی،مقامات حریری،شرح وقایہ،نورالانوارتک کی تعلیم مدرسہ ضیاء العلوم مانی پور جون پورمیں حاصل کی،اکثرکتابیں حضرت مولاناضیاء الحقؒ اورحضرت مولاناعبدالحلیم ؒسے پڑھیں۔
۵۱شوال ۷۷۳۱ھ ۵مئی ۸۵۹۱ء دوشنبہ کو مظاہرعلوم حاضرہوئے اورفقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کومختصرالمعانی ،شرح وقایہ ،قطبی،مقامات حریری، نورالانوارکاامتحان دیکرکامیابی حاصل کی۔
آپ نے پہلے سال ۸۷۳۱ھ میں جلالین ،ہدایہ اولین،میبذی اورسراجی وغیرہ سے اپنی تعلیم کاآغاز کیا ۔
۹۷۳۱ھ میں بیضاوی شریف،میرقطبی،ہدایہ ثالث ،مشکوٰۃ،مقدمہ مشکوٰۃ،شرح نخبۃ الفکر،سلم العلوم اورمدارک پڑھیں۔
۰۸۳۱ھ میںبخاری شریف،مسلم شریف،ترمذی شریف،طحاوی شریف،نسائی شریف،ابودؤدشریف،ابن ماجہ شریف، مؤطاامام محمدؒ،مؤطاامام مالکؒ اورشمائل ترمذی پڑھ کرپوری جماعت میں سب سے اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوئی۔
آپؒ نے بخاری شریف شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒسی،ابوداؤدشریف حضرت مولانا محمداسعد اللہ ناظم مظاہرعلوم سی،مسلم شریف حضرت مولانامنظوراحمدخانؒ سے اورترمذی ونسائی حضرت مولاناامیراحمدکاندھلویؒ سے پڑھیں۔
دورۂ حدیث شریف کے رفقاء میں حضرت مولاناسیدمحمدعاقل سہارنپوری مدظلہ،حضرت مولاناشجاع الدین حیدرآبادی،حضرت مولانااجتباء الحسن کاندھلوی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہیں۔
مظاہرعلوم کے زمانۂ طالب علمی میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ ناظم مظاہرعلوم نے آپ کی سرپرستی اورکفالت فرمائی،شفقت وکرم کاوہ معاملہ جوایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ رکھتاہے حضرت مفتی صاحبؒنے آپ کے ساتھ فرمایاجس کا تذکرہ خودحضرت شیخ مدظلہ کبھی کبھی خصوصی مجلسوں میں فرماتے رہتے ہیں۔
فراغت کے بعدبھی حضرت مفتی صاحبؒنے آپ کے تقرراورترقی میں اپنی شفقتوں اورنوازشوں سے مالامال رکھا، چنانچہ مظاہر علوم وقف سہارنپورکے قدیم ریکارڈ کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم ۱۸۳۱ھ بمشاہرہ ۷روپے عارضی معین مدرس بنائے گئے اوریکم ربیع الثانی ۲۸۳۱ھ کو مستقل استاذہوگئے اوریکم شوال ۴۸۳۱ھ کوبمشاہرہ ساٹھ روپے مدرس وسطیٰ بنائے گئے ۔
۴۸۳۱ھ میں جب آپؒ کے استاذحضرت مولاناامیراحمدکاندھلویؒ کا وصال ہوگیاتوحضرت شیخ الحدیث مدظلہ استاذحدیث بنادئے گئی۔پوری تفصیل حضرت شیخ مدظلہ کے قلم سے آپ بھی پڑھتے چلیں۔
’’ذی الحجہ ۴۸۳۱ھ میں حضرت استاذی مولاناامیراحمدصاحب نوراللہ مرقدہ کے انتقال ہوجانے کی وجہ سے مشکوٰۃ شریف استاذی مفتی مظفرحسین ناظم اعلیٰ مظاہرعلوم کے یہاں سے منتقل ہوکر آئی جوباب الکبائرسے پڑھائی پھرآئندہ سال شوال ۵۸۳۱ھ میں مختصرالمعانی ،قطبی،شرح وقایہ مشکوٰۃشریف مکمل پڑھائی اورشوال ۶۸۳۱ھ میں ابوداؤدشریف،نسائی شریف، نورالانوارزیرتعلیم رہیں اورشوال ۷۸۳۱ھ سے مسلم نسائی،ابن ماجہ مؤطین زیردرس رہیں، اس کے بعدشوال ۸۸۳۱ھ میں بخاری شریف ومسلم شریف وہدایہ ثالث پڑھائی‘‘ (الیواقیت الغالیۃص ۹۱و۰۲)
آپ بچپن ہی سے نیک وصالح ہیں اس لئے حضرات اساتذہ کی دعاؤں اورتوجہات کا خصوصی مرکزرہی،چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒ نے آپ کو بیعت فرمایاتو۵محرم الحرام ۶۹۳۱ھ کومناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہؒ ؒنے خلافت عطا فرمائی اورفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین نوراللہ مرقدہ گویاباپ کے درجہ میں رہے اورآپ کی ہرممکن راحت کاخیال فرمایا۔
حضرت شیخ مدظلہ کی سعادت اورخوش نصیبی کی معراج یہ ہے کہ تقریباً پچاس سال سے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کررہے ہیں،اس طویل عرصہ میں فضلاء مظاہرعلوم کی وہ تعدادجنہوں نے آپ کے سامنے زانوے تلمذتہہ کیاہے وہ ہزارہا ہزارہیں جن میں سے بعض تومرکزی اداروں میں شیوخ حدیث اوراعلیٰ مرتبوں پر فائزہیں۔
حدیث کی خدمت اوراحادیث کے سلسلہ میںآپ کی معلومات کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے جس کا اندازہ صرف اسی سے کیا جاسکتاہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا بھی بعض علمی سوالات آپ سے کرتے تھی،حضرت مولاناعلی میاں ندوی، حضرت مولاناعبیداللہ بلیاویؒ اورخداجانے کتنے اعاظم رجال نے تحقیقی سلسلہ میں آپ سے رجوع کیاہی۔گویاآپ معرفت متون حدیث واسماء رجال کی شناخت بن چکے ہیں اورمظاہرعلوم سہارنپورکاوہ تفوق جواس کو حدیث کے سلسلہ میں حاصل ہے اس کو تمام اقداروروایات کے ساتھ برقراررکھاہی۔
تقویٰ اورپرہیزگاری میں بھی آپ مثالی شخصیت کے حامل ہیں ،مظاہرعلوم کے خلفشارکے بعدسے آپ نے تنخواہ لینی متروک فرمادی ہے ،اس کے علاوہ اپنی مادرعلمی کووقتاً فوقتاًنادرونایاب قیمتی کتابیں بھی مرحمت فرماتے رہتے ہیں۔فللّٰہ الحمد
اسی طرح حضرت والامدظلہ نے اپناوہ بیش قیمت مکان جومحلہ اسلام آباد(نزدمظفریہ شاخ)میں واقع ہے وہ بھی آپ نے مظاہرعلوم وقف کو وقف فرمادیاہی۔
eملک وبیرون ملک کے مختلف علماء کبارنے آپ سے وقتاًفوقتاًجوعلمی سوالات کئے اورآپ نے ان کے محققانہ جوابات تحریرفرمائے وہ تمام جوابات کاپیوں کی شکل میں محفوظ تھی،اللہ تعالیٰ نے بعض صاحبان علم کواس کی توفیق عطافرمائی کہ انہوں نے ان علمی شہ پاروں کو یکجامرتب ومدون کرکے شائع کردیاچنانچہ جناب مولانامحمدایوب سورتی کی کوششوں سے یہ بیش قیمت مجموعہ’’الیواقیت الغالیہ فی تخریج احادیث العالیہ‘‘کے نام سے دوجلدوں میں شائع ہوچکاہے اورجناب مفتی محمدزیدکانپوری کی کوششوں سے فن کے اعتبارسے الگ الگ اجزاء شائع ہورہے ہیں اس سلسلہ میں’’ نوادرالحدیث‘‘کے نام سے ایک جزء شائع ہوچکاہی۔
اس کے علاوہ کئی مفیدتالیفات اورتقاریرشائع ہوچکی ہیں جن میں ’’تخریج احادیث مجموعہ چہل حدیث‘‘’’فیوض سبحانی‘‘وغیرہ شائع ہوچکی ہیں۔
بہت سے علمی شہ پارے ہنوزپردۂ خفامیں ہیں جن میں سے مقدمہ ہدایہ،سوانح حضرت عبداللہ بن زبیرؓ،مقدمہ بخاری،الیواقیت واللٰالی،جزء حیات الانبیاء،تخریج احادیث اصول الشاشی،مقدمہ مشکوٰۃ،مقدمہ ابوداؤد،جزء معراج،جزء المحراب،جزء رفع الیدین،جزء قراء ت،ارشادالقاصدالی ماتکررفی البخاری واسنادواحد،قابل ذکر ہیں ۔
تعلیم وتعلم کے بابرکت سلسلہ کے علاوہ بیعت وارشادکامبارک سلسلہ بھی جاری ہے اورملک وبیرون ملک کی بعض اہم مقتدرشخصیات آپ کے ذریعہ سلوک کی منزلیں طے کررہی ہیں۔اللّٰہم زِدفَزِد
اللہ تعالیٰ اس رجل عظیم کاسایہ درازفرمائے اوردارین میں اعلیٰ مقام اورقرب خاص سے نوازی۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانا علامہ محمد عثمان غنی

حضرت مولانا علامہ محمد عثمان غنی​
حضرت مولانا علامہ محمد عثمان غنی مدظلہ اپنے وطن چلمل بیگوسرائے بہار میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم علاقے کے بعض مدارس میں حاصل کرکے بنگلہ دیش چلے گئے جہاں آپ کے والد بزرگوار کاروباری سلسلے میں مقیم تھے ۔
بنگلہ دیش میں آپ نے تعلیم بھی حاصل کی اوروالد صاحب کے کاروبار میں ہاتھ بھی بٹایا۔
۶۴۹۱ء میں آپ اپنے نوساتھیوں کے ساتھ دارالعلوم دیوبندپہنچے ،حضرت مولانا حبیب اللہ صاحبؒ نے امتحان داخلہ لیا اپنے تمام ساتھیوں میں صرف آپ کامیاب ہوئے ۔
دارالعلوم دیوبند میں آپ نے پانچ سال تک تعلیم حاصل کی اور۰۵۹۱ء میں فارغ ہوئے ،آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمد مدنی ؒسے بخاری شریف اورترمذی اول ،شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ سے ترمذی شریف جلد ثانی اورابو داؤ د شریف ،شمائل اورہدایہ ثالث ،حضرت مولانا علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ سے مسلم ،ہدایہ رابع ،حضرت مولانا عبدالجلیل ؒسے میبذی اورمیر قطبی اورحضرت مولانا عبد الخالق سے مشکوۃ ،حسامی ،توضیح وتلویح پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔
۵۵۹۱ء میں مدرسہ رشید العلوم چتر ا میں مسلم اورترمذی کا درس دیا پھر مدرسہ حسینیہ گریڈیہہ اورمدرسہ حسینیہ ڈیگھی بھاگل پور میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
۳۶۹۱ء میں مدرسہ عالیہ فرفرہ ضلع ہگلی میں بارہ سال تک خدمت حدیث میں مشغول رہے پھر دارالعلوم تاراپورگجرات تشریف لے گئے اوریکسوئی کے ساتھ حدیث کی خدمت میں مشغول ہوگئے ۔
دارالعلوم تاراپورمیں کئی سال بخاری شریف وترمذی وغیرہ کادرس دیا ۔آپ کو فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین ؒ سے ذہنی عقیدت ،قلبی محبت اورفکری مناسبت تھی اس لئے گجرات میں خدمت حدیث انجام دینے کیساتھ حضرت فقیہ الاسلام سے گاہے گاہے شرف ملاقات وزیارت کیلئے حاضر ہوتے رہتی،تمنا بھی آپ کی یہی ہوتی کہ مفتی صاحب کی خدمت میں زیادہ دیر رہ کر اکتساب فیض کیا جائے چنانچہ۹شوال المکرم ۹۰۴۱ھ میں حضرت فقیہ الاسلام نے آپ کو حکم دیا کہ گجرات سے مظاہر علوم آجاؤ، یہ سننا تھا کہ آپ کی گویا مانگی مراد پوری ہوگئی ،آپ نے حکم کی فوری تعمیل کی اورمظاہر علوم کی اُس مسند حدیث کو زینت بخشی جس کو محدث کبیر حضر ت مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوریؒ ،حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوریؒ ،حضرت مولانا عبد اللطیف پورقاضویؒ اورحضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریا صاحب مہاجر مدنیؒ جیسی بے شمار شخصیات نے اپنے علوم وفیوض اورافکارو تجلیات سے بقعہ ٔ نوربنایا تھا۔
علامہ صاحب نے اپنا اصلاحی تعلق شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ سے استوار کیا اوران سے بیعت بھی ہوئی،۱۱شعبان ۶۰۴۱ھدوشنبہ بعد نمازعشاء فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسینؒ نے آپ کو خلعت خلافت عطا فرمائی اوراس طرح حضرت علامہ صاحب سلسلہ مدنی وتھانوی کے حسین روحانی سنگم بن گئے ۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
درجنوں علمی کتابیں آپ کے قلم سے نکلی ہیں لیکن تیر ہ جلدوں پر مشتمل بخاری شریف کی اردو شرح ’’نصر الباری ‘‘کو علمی طبقہ میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اورہند وپاک وبنگلہ دیش سے بیک وقت جس کثرت سے شائع ہورہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ’’ نصر الباری‘‘ دورحاضر میں اردو کی سب سے مقبول شرح ہے ۔
اسی طرح اس کتاب کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ اردو زبان میں بخاری کی پہلی مکمل شرح ہے اس سے پہلے اردو کی مکمل شرح بخاری نہیں تھی ۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
حضرت مولانارئیس الدین

حضرت مولانارئیس الدین​

آپ کے والدکانام الحاج جمیل الدین ؒ ہے ، یکم ربیع الثانی ۳۷۳۱ھ مطابق ۸دسمبر۳۵۹۱ء کوموضع تھے پورضلع بجنورمیں پیداہوئے ۔
uابتدائی دینی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی اور۷۱سال کی عمر میں۴۱شوال المکرم ۰۹۳۱ھ مطابق ۴۱دسمبر ۰۷۹۱ء کو مظاہر علوم میں پہنچ کرحضرت مولانامحمداللہ مرحوم کو بحث فعل ،قدوری ،شرح تہذیب اوراصول الشاشی کا امتحان دیکر کامیاب ہوئے ،مظاہر علوم میںپہلے سال بحث اسم ،قطبی تصدیقات ،کنز الدقائق ،نورالانوار،ترجمہ قرآن کریم ،تعلیم المتعلم وغیرہ سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اوردرجہ بہ درجہ تعلیم پاکر۳۹۳۱ھ میںمشکوۃ ،جلالین ،ہدایہ وغیرہ پڑھ کر۴۹۳۱ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھااورامتحان سالانہ میں کامیابی پردُررفرائد،تقریربخاری،تاریخ مظاہرجلد دوم اور دعوت اسلام نامی کتب بطورانعام حاصل کیں۔
آپ کے دورہ ٔ حدیث شریف کے خصوصی رفقاء میں حضرت مولانا محمد قاسم سہارنپوریؒ،حضرت مولانا محمد انورگنگوہی، حضرت مولانا نجم الحسن تھانوی اورحضرت مولانا احمدمرتضیٰ ہزاریباغی قابل ذکر ہیں۔
آپ کوحدیث شریف سے خصوصی مناسبت ہی،احادیث کے سلسلہ میں آپ کی معلومات کادائرہ بھی الحمدللہ قابل رشک ہی،اسماء رجال اوررواۃ پرآپ کی گرفت مثالی ہی۔
آپ بچپن ہی سے نیک وصالح ہیں چنانچہ صرف ۵۲سال کی عمرمیں مناظراسلام حضرت مولاناشاہ محمداسعداللہؒنے آپ کو خلعت خلافت واجازت سے نوازکرآپ کی سعادت مندی اورنیک بختی پرمہرلگادی تھی۔
بزرگوں کی نظراورخدمت سے ہی علم کاحصول ہوتاہی، اُن ہی کی جوتیوں کوسیدھاکرنے سے مراتب بلندہوتے ہیں،حضرت مولانارئیس الدین مظاہری اس قول کا صحیح مصداق ہیں ،آپ نے مناظراسلام حضرت مولاناشاہ محمداسعداللہؒ کی خوب خدمت کی اور دعائیں لیتے رہے ،ان ہی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ آپ ۴۰۴۱ھ سے مسلسل حدیث شریف کی تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں چنانچہ آپ کی خدمت حدیث کا دائرہ دودہائیوں سے بھی متجاوزہوچکاہے ،اس عرصہ میں علماء وفضلاء کی بڑی تعدادنے آپ سے اکتساب علم کرکے دینی خدمات میں مصروف ہیں۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒسے خصوصی تعلق زمانۂ طالب علمی ہی سے تھااورحضرت مفتی صاحبؒ مولانا موصوف کی علمیت ولیاقت سے بخوبی واقف تھے اسی لئے ۱۱۴۱ھ میں مظاہرعلوم میں استاذحدیث کے عہدۂ جلیلہ پرآپ کاتقررہوگیا۔اورمسلم شریف،ابوداؤدشریف وغیرہ کے اسباق آپ سے متعلق ہوئی۔
آپ نے مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ میں تقریباً سات سال تک ترمذی شریف کا درس دیاتھااورمظاہرعلوم میں بھی ترمذی شریف جلدثانی کی تدریس آپ سے متعلق ہوئی(پہلی جلدحضرت فقیہ الاسلام ؒخودپڑھاتے تھے )لیکن ۵۱۴۱ھ میں حضرت فقیہ الاسلام ؒموضع نردھنہ ضلع مظفرنگرمیں تہجدکی نمازکیلئے وضوبناکرجیسے ہی اٹھے توچکرآگیا اور زینوں پرگرپڑے ، سرمیں شدید چوٹیں آئیں،آپریشن وغیرہ کے مرحلہ سے گزرناپڑا(اس علاج ومعالجہ کے درمیانی عرصہ میں آپ نے ترمذی جلداول کادرس بھی دیا)اورکچھ عرصہ کے بعددونوں جلدیں آپ یہاں زیردرس رہیں۔تادم تحریربخاری شریف جلدثانی اورترمذی شریف جلداول آپ کے زیردرس ہیں اورارباب مدرسہ کی جانب سے نیابت شیخ الحدیث کاعہدہ پیش کئے جانے کے واوجودآپ نے یہ عہدہ قبول نہیں کیا۔
بہرحال حدیث شریف سے خصوصی مناسبت اورقلبی لگاؤکے باعث طلبہ میں آپ کا درس خاصامقبول رہا چنانچہ آپ کی درسی تقریرکے مجموعہ کی دوجلدیں ’’انتہاب المنن‘‘کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔اسی طرح کئی چھوٹے چھوٹے کتابچے ’’اسلامی تاریخ ‘‘’’نکات وجواہر‘‘وغیرہ شائع ہوکر قبو ل ہوچکے ہیں۔




 
Top