تاریخ سہارنپور
سہارنپور: برصغیرکاوہ تاریخی ضلع ہے جس نے ملک کے نشیب وفرازاورتاریخ وتمدن کے کئی دوردیکھے ہیں،جس کی گودمیں دیوبند،نانوتہ،گنگوہ،تھانہ بھون،رائے پور،جھنجھانہ،جلال آباد، انبہٹہ، پھلت، باغپت، بڑوت اورشاملی جیسی تاریخی بستیاں واقع ہیں،ان ہی بستیوں سے اسلام کی ہزاروں اولوالعزم ہستیوں کی تاریخ جڑی ہوئی ہی،حضرت مولاناشاہ ولی اللہ محدث دہلوی،حضرت مولانامملوک العلی نانوتوی ،حضرت میانجی نورمحمدجھنجھانوی،حضرت مولاناسعادت علی فقیہ سہارنپوری،حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی، حضرت گنگوہی،حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی،حضرت مولانااحمدعلی محدث سہارنپوری، شیخ المشائخ حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوری،حضرت مولاناذوالفقارعلی دیوبندی اوربھی ہزاروں نامی گرامی ہستیوں نے اسی سہارنپوراوراس کے نواح میں علم وعرفان کے ایسے چشمے جاری وساری فرمائے جومرورایام اورگردش لیل ونہارکے باجودالحمدللہ نہ توخشک ہوئے،نہ ہی وہ شجرہائے سایہ دارپژمردہ ہوئے،جس آب وتاب کے ساتھ اس کی خشت اول رکھی گئی تھی بحمداللہ اسی شان وشوکت کے ساتھ آج بھی یہ علاقہ، عالم اسلام کواسلامی نوراورقرآنی تعلیمات سے بقعۂ نوربنائے ہوئے ہے۔
ذیل میں سہارنپوراور اس کے تہذیبی ارتقاکی مجملاًکچھ ایسی اہم معلومات قسط وارپیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں جوتاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں اورتاریخی میدان میں تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے نہایت قیمتی ’’سوغات‘‘ ہے۔
یہ معلومات یکجاطورپراب تک اشاعت کے مرحلہ سے نہیں گزری ہیں۔اس لئے قارئین سے التماس ہے کہ آپ حضرات اپنی مخصوص فائل بناکرمحفوظ کرتے رہیں اورمجھے اپنے مفیدونیک مشوروں سے نوازتے بھی رہیں۔اورمرتب کے حق میں دعاخیرکرتے رہیں۔
ذیل میں سہارنپوراور اس کے تہذیبی ارتقاکی مجملاًکچھ ایسی اہم معلومات قسط وارپیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں جوتاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں اورتاریخی میدان میں تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے نہایت قیمتی ’’سوغات‘‘ ہے۔
یہ معلومات یکجاطورپراب تک اشاعت کے مرحلہ سے نہیں گزری ہیں۔اس لئے قارئین سے التماس ہے کہ آپ حضرات اپنی مخصوص فائل بناکرمحفوظ کرتے رہیں اورمجھے اپنے مفیدونیک مشوروں سے نوازتے بھی رہیں۔اورمرتب کے حق میں دعاخیرکرتے رہیں۔
(محمدعثمان قاسمی )
بازگشت
(قسط اول)
زیرنظر کتابچہ میرے دیرینہ محترم وبزرگ ہم نشین ٹھیکیدار زندہ حسن جن کے ساتھ چل کر میں نے کچھ سیکھاہی ہے وہ بڑے محرک مزاج اورفکر وذہن کے اعتبار سے بھی حددرجہ مخلص انسان تھے،ان کے مزاج میں ہلچل رہتی تھی جو انہیں کچھ نہ کچھ کرتے رہنے پر ابھارتی رہتی تھی، کسی بھی کام کیلئے جس قدر وسائل درکار ہوتے تھے وہ انہیں دستیاب نہیں تھے جس قدر بھی ان کے ذاتی وسائل تھے اس سے آگے قدم نہ اٹھاسکے۔ وہ سیاسی اعتبار سے بھی بڑے سرگرم اورمخلص ترین شخص تھے۔وہزندگی بھر ایک ہمہ جہت اخلاص پر مبنی فکر ونظر کا مجسمہ ہے، جہاں کہیں ان قدروں کی موجودگی کا ادراک ہوجاتا وہ اس طرف دوڑ پڑتے تھے۔
راقم الحروف کے بڑے بھائی محترم ضیاء الاسلام صاحب جو تحصیل سہارنپور میں امین رہے اور بعد میں نائب تحصیلداری سے ریٹائر ہوئے ان کے بڑے گہرے اور قریبی تعلقات رہے۔ ان کی وجہ سے ان کا میرے گھر آجانا لگا رہتا تھا جس سے مجھے بھی ان سے قربت کا موقعہ ملا۔ وہ اس وقت زندگی کی لگ بھگ 6دہائیاں گذار چکے تھے۔ بہت سے امور پر ان سے بات ہوتی اور ملاقات رہتی۔ وہ بڑا سیاسی ذہن رکھتے تھے۔ لیکن جو ان کی زبان پر ہوتا وہ ہی بس ان کے دل میں ہوتا تھا وہ سیاسی مصلحت کوشی کو سیدھے منافعت کا نام دیتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر کسی کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل پاتے تھے۔ وہ اپنے گذشتہ واقعات اور خود پر گذرے حوادثات بھی بتایا کرتے تھے۔
زیر نظر کتابچہ کا تذکرہ تو اپنوں نے زندگی میں کئی بار کیا۔اور اس کا مسودہ بھی مجھے دکھایا تھا جو اس موجودہ مسودہ سے کافی زیادہ تھا۔ وہ اپنی زندگی کے دیگر مسائل میں بھی الجھے رہتے تھے۔ ان کا مزاج سیاسی اورسماجی کشمکش نے بے طرح الجھا دیا تھا۔ مگر ان میں کام کرنے کا جذبہ اوربے پناہ تڑپ رہتی تھی۔اس کتابچہ کاعنوان انہوں نے شاید اپنے ذاتی کشاکش کے ہجوم میں رکھ دیا۔ (سہارنپور کا سیاسی پیش منظر) اور پھر وقت نے ان کو اس پر دوبارہ غور کرنے کی مہلت نہیں دی۔ اور وہ عمرفتہ کی بے وفائی کا شکار ہوگئے۔ کئی بار انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میری بہت سی تحریریں اور مرتب شدہ مسودہ اچانک آئی مشکلوں اور حادثوں میں ضائع ہوگئے اور وقت نے ان پر مزید کام کرنے کا موقعہ نہ دیا۔ انہوں نے بہت سے مضامین اپنے دوسروں کے فرضی نام سے بھی شائع کرائے جس کا اجمالاً تذکرہ انہوں نے زیرنظر کتابچہ میں بھی کیا ہے۔انہیں پڑھتے رہنے اور مطالعہ کا بھی بے حد جنون تھا وہ ایک صحافی کی خوبیوں کے بھی حامل رہے۔ انہوں نے ایک اپنی ذاتی ڈائری بھی مجھے دکھائی تھی جس میں تاریخی حوالوں کے ساتھ بے حد قیمتی معلومات درج کی گئی تھیں۔ وہ سیاسی نظریات کے اعتبار سے بھی کافی کلاسیکل ذہن اور فکر کے حامل تھے۔ ان کی فکر اور سوچ ایمانداری کے اعتبار سے بالکل بے لچک تھی۔ وہ ابن الوقتی کو سیاسی فریب کا نام دیتے تھے۔ وہ سچ کو بے دریغ سچ اور فریب زدہ سیاست سے خضرت کی حد تک فاصلہ اور دوری رکھتے تھے۔ اورایسے سب ہی لوگوں سے اپنے ہوں یا پرائے دوری بنائے رکھنا ضروری سمجھتے تھے یہ ان کا ایک مزاج تھا۔
غالباً ۱۹۴۷ئ میں روڑکیلا، جمشیدپور، رانچی میں زبردست مسلم کش فسادات نے ہندوستان کے بہت سے دانشوروں کو سوچنے اور مل بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ اور اسی زمانے میں بیت المقدس پریہودیوں نے قبضہ غاصبانہ کرلیا تھا اس حادثہ جانکاہ نے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا۔ ان عبرت ناک حادثوں نے ذہن وفکر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اور ایک نمبر سیاسی تنظیم مسلم مجلس مشاورت قائم کی گئی۔ جس کے صدر ڈاکٹر سید محمود صدر بنائے گئے۔ یہ عظیم شخصیت قانون ساتھ اسمبلی کے بھی ممبر رہے اور پرانے گاندھی وادی کانگرہی تھے۔
اور یوپی کی حد تک ایک سیاسی تنظیم ’’مسلم مجلس‘‘ کے نام سے عالم اسلام کی عظیم اور نامور شخصیت محترم مولانا علی میاں ندوی کے ایماء اور مشورہ اور خواہش پر بنائی گئی۔ جس کے صدر یوپی کے مشہور معالج محترم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی صاحب مرحوم بنائے گئے اور جلدی اس کے اثرات ہندوستان گیر ہونے لگے۔ اس وقت مسلم مجلس کے ضلع کے ضدر محترم ٹھیکیدار زندہ حسن صاحب گھانوی بنائے گئے۔ راقم الحروف بھی سہارنپور سیکٹر میں مسلم مجلس کا ایک ذمہ دار رہا۔ اس وقت کے حالات کی تفصیل اس درجہ ہے کہ اس مختصر سے مضمون میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت اس مختصر کتاب کے مختلف اندراجات پر اظہار رائے کرنی ہے۔ جہاں انہوں نے سہارنپور کے بارے میں پرانی معلومات فراہم کیں ہیں ان کو تاریحی تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ ارو نہ ہی ان سے کوئی تاریخی روشنی اخذ ہوسکتی ہے۔ تاریخ تو ایک طویل ترین اور تحقیقی سفر ہوتا ہے، البتہ اس کتاب کے اندراجات اور واقعات سے سہارنپور کی تاریخی عظمت ایک حد متعین ہوسکتی ہے۔ مصنف کتاب کا شاید اس کتاب کی ترتیب سے یہ مقصد نہ ہو کرتاریخ لکھنے کی اسپرٹ پیدا کرنا ہو ان کے مافی ضمیر سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے سہارنپور کی سرزمین کا جائے وقوع تاریخ کی روشنی میں یہاں سے گذرنے والے قافلے اور ان کے تاثرات جو انہوں نے دیکھے سنے اور پرکھے۔ ان پر ایک دوکے محترم زندہ حسن صاحب مرحوم نے اپنے بکھرے پھیلے افکار کو اس کتاب میں جمع کر تاریخ کے مطالعے کرنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔
سہارنپور کا جائے وقوع تاریخ کے گزرنے والے قافلہ جو یہاں سے گذرے انہوں نے بھی رحم سمجھا ہے۔ مغرب میں سہارنپور، ہریانہ کی سرحد پر واقع ہے۔ شمال میں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیس سے ملا ہوا ہے یہاں کی آب وہوا۔ ارو خاص طور پر یہاں کا پانی اپنے اندر ایک کشمکش اور کیف رکھتا ہے۔ اسی علاقہ سے گنگا اور جمنا جیسے دریا نکلتے ہیں۔
زندہ حسن صاحب جدید طرز زندگی اور جدید رجحانات اور معلومات سے ہم آہم آہنگ ہونے کا بھی بھرپور اور مخلصانہ جذبہ تھا وہ کہتے تھے کہ ہمارا ایک طبقہ علوم عصر اور سائنسی علوم سے جبریہ فاصلہ اُٹھانے پر لگا ہے جس کا انجام اچھا نہیں نظر آتا۔ آگے چل کر جب لوگ موجود علوم وفنون سے آگاہ ہوجائیں گے وہ اپنے بزرگوں کے مخموریوں اور محدود افکار ونظریات سے باغی ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بہت برا ہوگا اور بڑے جذبہ میں کئے کہ وقت کے تقاضوں سے مستقل باغی رہنا اور بدلتی ہوئی دنیا کی انگنائیوں سے آنکھیں موند لینا کوئی اچھی علامت نہیں ہوسکتی۔ اور کہئے کہ ہسپانیہ اور اندلس کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ جب تک وہاں مسلم حکمراں رہے تو کوئی وہاں وقت کے موجودہ علوم وفنون دین اسلام کی قدروں کے ساتھ پروان چڑھتے رہے۔ اور جب ان کی حکومت ختم ہوئی اور ان پر زوال مسلط ہوگیا تو ان پر ہر طرح کا زوال آگیا۔ اور وہ سب علوم مغربی طاقتیں اٹھا کر وہاں کی گئی۔ اور آچ ان کی راہنمائی سے ہی عروج کے آسمان پر بیٹھی نہیں۔
آج کی دنیا کی رفتار پر غور وفکر کرنا ہماری اپنی ذاتی ضرورت کے مترادف ہے۔ اور اس پر ایک تحریکی شدت اور تسلسل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
زندہ حسن صاحب ذہنی طور پر جس قدر مضطرب المزاج تھے ان کی فکر بہت دوررس تھی وہ اپنی آنکھیں آمین پوش اور محدود نہیں رکھتے تھے۔ وہ سیاسی طور پر بھی ایک مشنری رجحان کے آدمی تھے۔ وہ جلدی سے کسی سیاسی رہنما سے متاثر نہیں ہوتے تھے وہ اپنے پیش کروں کی چالوں سے بھرپور طور پر واقف اور شناسا تھے اور کہا کرتے کہ سچ جب میرے سامنے ہوتا ہے اور فریبوں سے بھرپور لوگوں کی باتیں جب ابھرتی ہیں تو میرا خون کھول اُٹھتا ہے اور آپے سے باہر ہوجاتے تھے۔ ان میں ایک خاص وصف یہ تھا کہ جب وہ کسی کو سچ اور جھوٹ کے معاملے میں پرکھ لیتے تھے تو پھر ہر کام اور ہر قدم اس کے ساتھ گذارنے کو آمادہ ہوجاتے۔ اسی کرب اور کیفیت مزاج کے ساتھ ان کو فریدی صاحی اچھے لگے تھے۔ اور تن من دھن کے ساتھ وہ زندگی بھر ان کے ساتھ وابستہ رہے ڈاکٹر فریدی کے انتقال نے ان کو پھر بوجھل کردیا تھا۔ پھر انہوں نے سیاسی طور پر طے کرلیا تھا کہ اب وہ سیاست سے خود کو دور رکھیں گے اب مسلمانوں کو ایسا لیڈر، صاحب علم وبصیرت اور صاحب حیثیت رہنما نہیں ملے گا۔ اور بے حد روئے اور کہا کہ ہم لوگ بے حد بدقسمت ہیں کہ ہم نے اس لیڈر کو بھی کھوکر چھوڑا……!
خدا کرے یہ کتابچہ لوگوں میں مطالعہ کا احساس پیدا کرسکے۔ اور مزید استفادہ کی راہ دکھائے اور ایک آئینہ بن سکے وقت گذر رہا ہے اور گذرتا ہی رہے گا اور اپنی گردآلود اور ایک دبیز چادر حقائق وحالات پر ڈالتا رہے گا اور سچائی اور دورتر چلی جائے گی۔ یہ عزیزم آفتاب میاں کی اپنے والد بزرگوار کے تئیں ایک مخلصانہ محنت اور لگن ہے، جو اپنے والد کی باقیات کو منظر عام پر لانے کیلئے سرگرمِ عمل ہوئے اللہ کرے یہ تاریخی اشارات اور میلانات ذہن وفکر بھی تجسس اور تلاش جذبہ کو فروغ دے سکیں اور پروان چڑھا سکیں۔ اور قبول عام کی سند پاسکیں۔ اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ بخشے۔ آمین والسلام
راقم الحروف کے بڑے بھائی محترم ضیاء الاسلام صاحب جو تحصیل سہارنپور میں امین رہے اور بعد میں نائب تحصیلداری سے ریٹائر ہوئے ان کے بڑے گہرے اور قریبی تعلقات رہے۔ ان کی وجہ سے ان کا میرے گھر آجانا لگا رہتا تھا جس سے مجھے بھی ان سے قربت کا موقعہ ملا۔ وہ اس وقت زندگی کی لگ بھگ 6دہائیاں گذار چکے تھے۔ بہت سے امور پر ان سے بات ہوتی اور ملاقات رہتی۔ وہ بڑا سیاسی ذہن رکھتے تھے۔ لیکن جو ان کی زبان پر ہوتا وہ ہی بس ان کے دل میں ہوتا تھا وہ سیاسی مصلحت کوشی کو سیدھے منافعت کا نام دیتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر کسی کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل پاتے تھے۔ وہ اپنے گذشتہ واقعات اور خود پر گذرے حوادثات بھی بتایا کرتے تھے۔
زیر نظر کتابچہ کا تذکرہ تو اپنوں نے زندگی میں کئی بار کیا۔اور اس کا مسودہ بھی مجھے دکھایا تھا جو اس موجودہ مسودہ سے کافی زیادہ تھا۔ وہ اپنی زندگی کے دیگر مسائل میں بھی الجھے رہتے تھے۔ ان کا مزاج سیاسی اورسماجی کشمکش نے بے طرح الجھا دیا تھا۔ مگر ان میں کام کرنے کا جذبہ اوربے پناہ تڑپ رہتی تھی۔اس کتابچہ کاعنوان انہوں نے شاید اپنے ذاتی کشاکش کے ہجوم میں رکھ دیا۔ (سہارنپور کا سیاسی پیش منظر) اور پھر وقت نے ان کو اس پر دوبارہ غور کرنے کی مہلت نہیں دی۔ اور وہ عمرفتہ کی بے وفائی کا شکار ہوگئے۔ کئی بار انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میری بہت سی تحریریں اور مرتب شدہ مسودہ اچانک آئی مشکلوں اور حادثوں میں ضائع ہوگئے اور وقت نے ان پر مزید کام کرنے کا موقعہ نہ دیا۔ انہوں نے بہت سے مضامین اپنے دوسروں کے فرضی نام سے بھی شائع کرائے جس کا اجمالاً تذکرہ انہوں نے زیرنظر کتابچہ میں بھی کیا ہے۔انہیں پڑھتے رہنے اور مطالعہ کا بھی بے حد جنون تھا وہ ایک صحافی کی خوبیوں کے بھی حامل رہے۔ انہوں نے ایک اپنی ذاتی ڈائری بھی مجھے دکھائی تھی جس میں تاریخی حوالوں کے ساتھ بے حد قیمتی معلومات درج کی گئی تھیں۔ وہ سیاسی نظریات کے اعتبار سے بھی کافی کلاسیکل ذہن اور فکر کے حامل تھے۔ ان کی فکر اور سوچ ایمانداری کے اعتبار سے بالکل بے لچک تھی۔ وہ ابن الوقتی کو سیاسی فریب کا نام دیتے تھے۔ وہ سچ کو بے دریغ سچ اور فریب زدہ سیاست سے خضرت کی حد تک فاصلہ اور دوری رکھتے تھے۔ اورایسے سب ہی لوگوں سے اپنے ہوں یا پرائے دوری بنائے رکھنا ضروری سمجھتے تھے یہ ان کا ایک مزاج تھا۔
غالباً ۱۹۴۷ئ میں روڑکیلا، جمشیدپور، رانچی میں زبردست مسلم کش فسادات نے ہندوستان کے بہت سے دانشوروں کو سوچنے اور مل بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ اور اسی زمانے میں بیت المقدس پریہودیوں نے قبضہ غاصبانہ کرلیا تھا اس حادثہ جانکاہ نے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا۔ ان عبرت ناک حادثوں نے ذہن وفکر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اور ایک نمبر سیاسی تنظیم مسلم مجلس مشاورت قائم کی گئی۔ جس کے صدر ڈاکٹر سید محمود صدر بنائے گئے۔ یہ عظیم شخصیت قانون ساتھ اسمبلی کے بھی ممبر رہے اور پرانے گاندھی وادی کانگرہی تھے۔
اور یوپی کی حد تک ایک سیاسی تنظیم ’’مسلم مجلس‘‘ کے نام سے عالم اسلام کی عظیم اور نامور شخصیت محترم مولانا علی میاں ندوی کے ایماء اور مشورہ اور خواہش پر بنائی گئی۔ جس کے صدر یوپی کے مشہور معالج محترم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی صاحب مرحوم بنائے گئے اور جلدی اس کے اثرات ہندوستان گیر ہونے لگے۔ اس وقت مسلم مجلس کے ضلع کے ضدر محترم ٹھیکیدار زندہ حسن صاحب گھانوی بنائے گئے۔ راقم الحروف بھی سہارنپور سیکٹر میں مسلم مجلس کا ایک ذمہ دار رہا۔ اس وقت کے حالات کی تفصیل اس درجہ ہے کہ اس مختصر سے مضمون میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس وقت اس مختصر کتاب کے مختلف اندراجات پر اظہار رائے کرنی ہے۔ جہاں انہوں نے سہارنپور کے بارے میں پرانی معلومات فراہم کیں ہیں ان کو تاریحی تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ ارو نہ ہی ان سے کوئی تاریخی روشنی اخذ ہوسکتی ہے۔ تاریخ تو ایک طویل ترین اور تحقیقی سفر ہوتا ہے، البتہ اس کتاب کے اندراجات اور واقعات سے سہارنپور کی تاریخی عظمت ایک حد متعین ہوسکتی ہے۔ مصنف کتاب کا شاید اس کتاب کی ترتیب سے یہ مقصد نہ ہو کرتاریخ لکھنے کی اسپرٹ پیدا کرنا ہو ان کے مافی ضمیر سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے سہارنپور کی سرزمین کا جائے وقوع تاریخ کی روشنی میں یہاں سے گذرنے والے قافلے اور ان کے تاثرات جو انہوں نے دیکھے سنے اور پرکھے۔ ان پر ایک دوکے محترم زندہ حسن صاحب مرحوم نے اپنے بکھرے پھیلے افکار کو اس کتاب میں جمع کر تاریخ کے مطالعے کرنے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے۔
سہارنپور کا جائے وقوع تاریخ کے گزرنے والے قافلہ جو یہاں سے گذرے انہوں نے بھی رحم سمجھا ہے۔ مغرب میں سہارنپور، ہریانہ کی سرحد پر واقع ہے۔ شمال میں اتراکھنڈ اور ہماچل پردیس سے ملا ہوا ہے یہاں کی آب وہوا۔ ارو خاص طور پر یہاں کا پانی اپنے اندر ایک کشمکش اور کیف رکھتا ہے۔ اسی علاقہ سے گنگا اور جمنا جیسے دریا نکلتے ہیں۔
زندہ حسن صاحب جدید طرز زندگی اور جدید رجحانات اور معلومات سے ہم آہم آہنگ ہونے کا بھی بھرپور اور مخلصانہ جذبہ تھا وہ کہتے تھے کہ ہمارا ایک طبقہ علوم عصر اور سائنسی علوم سے جبریہ فاصلہ اُٹھانے پر لگا ہے جس کا انجام اچھا نہیں نظر آتا۔ آگے چل کر جب لوگ موجود علوم وفنون سے آگاہ ہوجائیں گے وہ اپنے بزرگوں کے مخموریوں اور محدود افکار ونظریات سے باغی ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بہت برا ہوگا اور بڑے جذبہ میں کئے کہ وقت کے تقاضوں سے مستقل باغی رہنا اور بدلتی ہوئی دنیا کی انگنائیوں سے آنکھیں موند لینا کوئی اچھی علامت نہیں ہوسکتی۔ اور کہئے کہ ہسپانیہ اور اندلس کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ جب تک وہاں مسلم حکمراں رہے تو کوئی وہاں وقت کے موجودہ علوم وفنون دین اسلام کی قدروں کے ساتھ پروان چڑھتے رہے۔ اور جب ان کی حکومت ختم ہوئی اور ان پر زوال مسلط ہوگیا تو ان پر ہر طرح کا زوال آگیا۔ اور وہ سب علوم مغربی طاقتیں اٹھا کر وہاں کی گئی۔ اور آچ ان کی راہنمائی سے ہی عروج کے آسمان پر بیٹھی نہیں۔
آج کی دنیا کی رفتار پر غور وفکر کرنا ہماری اپنی ذاتی ضرورت کے مترادف ہے۔ اور اس پر ایک تحریکی شدت اور تسلسل کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
زندہ حسن صاحب ذہنی طور پر جس قدر مضطرب المزاج تھے ان کی فکر بہت دوررس تھی وہ اپنی آنکھیں آمین پوش اور محدود نہیں رکھتے تھے۔ وہ سیاسی طور پر بھی ایک مشنری رجحان کے آدمی تھے۔ وہ جلدی سے کسی سیاسی رہنما سے متاثر نہیں ہوتے تھے وہ اپنے پیش کروں کی چالوں سے بھرپور طور پر واقف اور شناسا تھے اور کہا کرتے کہ سچ جب میرے سامنے ہوتا ہے اور فریبوں سے بھرپور لوگوں کی باتیں جب ابھرتی ہیں تو میرا خون کھول اُٹھتا ہے اور آپے سے باہر ہوجاتے تھے۔ ان میں ایک خاص وصف یہ تھا کہ جب وہ کسی کو سچ اور جھوٹ کے معاملے میں پرکھ لیتے تھے تو پھر ہر کام اور ہر قدم اس کے ساتھ گذارنے کو آمادہ ہوجاتے۔ اسی کرب اور کیفیت مزاج کے ساتھ ان کو فریدی صاحی اچھے لگے تھے۔ اور تن من دھن کے ساتھ وہ زندگی بھر ان کے ساتھ وابستہ رہے ڈاکٹر فریدی کے انتقال نے ان کو پھر بوجھل کردیا تھا۔ پھر انہوں نے سیاسی طور پر طے کرلیا تھا کہ اب وہ سیاست سے خود کو دور رکھیں گے اب مسلمانوں کو ایسا لیڈر، صاحب علم وبصیرت اور صاحب حیثیت رہنما نہیں ملے گا۔ اور بے حد روئے اور کہا کہ ہم لوگ بے حد بدقسمت ہیں کہ ہم نے اس لیڈر کو بھی کھوکر چھوڑا……!
خدا کرے یہ کتابچہ لوگوں میں مطالعہ کا احساس پیدا کرسکے۔ اور مزید استفادہ کی راہ دکھائے اور ایک آئینہ بن سکے وقت گذر رہا ہے اور گذرتا ہی رہے گا اور اپنی گردآلود اور ایک دبیز چادر حقائق وحالات پر ڈالتا رہے گا اور سچائی اور دورتر چلی جائے گی۔ یہ عزیزم آفتاب میاں کی اپنے والد بزرگوار کے تئیں ایک مخلصانہ محنت اور لگن ہے، جو اپنے والد کی باقیات کو منظر عام پر لانے کیلئے سرگرمِ عمل ہوئے اللہ کرے یہ تاریخی اشارات اور میلانات ذہن وفکر بھی تجسس اور تلاش جذبہ کو فروغ دے سکیں اور پروان چڑھا سکیں۔ اور قبول عام کی سند پاسکیں۔ اللہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ بخشے۔ آمین والسلام
راقم الحروف
ظہیر الاسلام ظہیرؔ اسعدی سہارنپور
(جاری)
ظہیر الاسلام ظہیرؔ اسعدی سہارنپور
(جاری)