تاریخ سہارنپور

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
تاریخِ سہارنپور​
(قسط دوم)​
یوں تو طالب علمی کے زمانے ہی سے مجھے قصے، کہانیوں، تاریخی اور سوانح عمریوں کے مطالعہ کرنے کا شوق تھا اور عمر کے بڑھتے رہنے کے ساتھ ساتھ میرے ذوق وشوق کے مطالعہ میں اور اضافہ ہوتا رہا ۱۹۲۵ء میں ایک ناگہانی واقعہ کے پیش آجانے پر مجھ کو ترک وطن کرنا پڑا تقریباً دس گیارہ مہینے شہر کپورتھلہ میں رہنے کے بعد مجھ کو شہر پٹیالہ میں قیام کرنا پڑا۔ یہاں میں اپنے ایک محسن اکبر شیخ عبدالکریم مرحوم کلاتھ مرچنٹ کے کارندے کے طور پر اپنے فرائض کو نبھاتا رہا۔ شیخ صاحب کپورتھلا، پٹیالہ اور نابھہ ریاستوں کے درباری توتھے ہی مگر مذکورہ ریاستی حکومتوں کے کئی ایک محکموں کو کپڑا سپلائی کرنے کے ٹھیکیدار بھی تھے کم وبیش ایک سال تک میں اپنے فرصت کے وقت ریاست کی سینٹرل اسٹیٹ لائبریری پٹیالہ میں اخبار پڑھنے جاتا رہا اس زمانے میں ایک طرف ہندوستان کے اکثریتی فرقہ نے مہاتما گاندھی جی کی رہنمائی میں ہندوستان کو حکومت برطانیہ کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے عدم تشدد کی تحریک چلا رکھی تھی دوسری جانب ہندی مسلمان مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں ہندی مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ بنا نے کیلئے مسلم لیگ کے گرد جمع ہورہے تھے۔
اس لائبریری میں دوسرے اخباروں کے علاوہ لاہور سے شائع ہونے والے دو روزنامے ’’زمیندار‘‘ اور ’’احسان‘‘ بھی آتے تھے اخبار زمیندار کے مالک مولانا ظفر علی خاں مرحوم خود اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار (زمیندار) احرار جمعیۃ علماء اور کانگریس کی پالیسیوں کا ترجمان اور معاون تھا۔ احسان اخبار مسلم لیگ کی پالیسیوں کو پیش کرتا اور عام مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے لانے میں سرگرم عمل تھا ان دنوں لائبریری میں مجھ کو چار پانچ تاریخی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا یہ کتابیں پٹیالہ، نابھہ اور جیند کی ریاستوں کے بارے میں لکھی ہوئی تھیں میں نے ان کتابوں سے سرہند سے متعلق واقعات کے کچھ اقتباسات اکھٹے کئے اور ان سے ایک مضمون تیار کیا اس مضمون کو میں نے مولانا ظفر علی خاں کو اپنی عاجزانہ درخواست کے ساتھ اشاعت کیلئے ارسال کیا اور مولانا سے اپنے مضمون کی اصلاح واشاعت کے لئے بھی عاجزانہ خواہش کا اظہار کیا میں نے اس مضمون پر ہر اضافہ، ترمیم وتنسیخ کو قابل قبول تسلیم کئے جانے کو بھی لکھا مولانا مرحوم نے یہ مضمون اپنے صاحبزادے اختر علی خان مرحوم کی صواب دید پر چھوڑ دیا تھا اور مولانا اختر علی خاں نے کچھ الفاظ کی تبدیلی کے بعد اسے شائع کردیا راقم الحروف چونکہ اس زمانے میں گمنامی کی زندگی بسر کررہا تھا اس لئے مضمون کو میں نے اپنے کرم فرما شیخ عبدالکریم کے نام سے شائع کرایا تھا۔ اس کے ضائع ہوجانے کے بعد میں نے اپنے دوستوں اور حلقہ نشینوں کو مذکورہ مضمون پڑھوا کر ان کے تاثرات معلوم کئے ان کی پسندیدگی اور مضمون کی اشاعت سے میرے ذوق تالیف میں جان پڑگئی اس طرح میرا حوصلہ بڑھا اور مضامین کی تالیف میں میرا شوق عشق میں بدل گیا اس ذوق مطالعہ اور شوق تالیف کے نتیجہ میں نارنول، سنام، پٹیالہ، سمانہ اور سنور کے سیاسی پس منظر پر میں نے مضامین لکھ کر شائع کرائے ان مضامین کو میں سید زیڈ، ایچ، عبدالکریم کے فرضی نام سے شائع کراتا تھا ان مضامین میں سب سے یادگاری مضمون سنام سے مسلمانوں کی وابستگی میں نے ذاتی طور پر مولانا اختر علی خاں سے لاہور میں ان کے دفتر میں ملاقات کی اس طرح مذکورہ مضمون کی اشاعت سے خود اعتمادی پیدا ہوگئی۔
۱۹۳۹ء کے دوران میں نے ریاست پٹیالہ کی مکمل جامع تاریخ لکھنے کا مستحکم ارادہ کیا اور اس سلسلہ میں میں کئی فارسی، اُردو اور انگریزی کتابوں کا مطالعہ کیا اور کتنے ہی ریاستی باشندوں کی زبانی قصوں اور کہانیوں کو ضبط تحریر میں لایا گیا چنانچہ تاریخی واقعات کے اقتباسات قصوں اور کہانیوں کو محفوظ کرکے میں نے تاریخ ریاست پٹیالہ کو جنوری ۱۹۴۰ء میں مکمل کرلیا میں اس مسودے کی اصلاح کسی قلم کار، ادیب یا مصنف سے کرانا چاہتا تھا چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے میری نظر انتخاب جناب غلام بھیک نیرنگ صاحب مرحوم رئیس انبالہ پر پڑی۔ نیرنگ صاحب اینڈین مسلم لیگ کے مقتدر لیڈروں میں شمار ہوتے تھے فروری ۱۹۴۰ء کے پہلے ہفتہ میں پٹیالہ میں مسلم لیگ کا جلسہ ہونے والا تھا اس جلسہ میں نیرنگ صاحب کے علاوہ خطیبہ ہند زہرہ سخن سیدہ بیگم سردار اختر مرحومہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا یہ خطیبہ کے علاوہ مضمون نگار اور شاعرہ بھی تھیں جلسہ کے اختتام پر نیرنگ صاحب میرے ہمراہ شیخ صاحب کے مکان پرآئے صبح کو ناشتہ کے دوران میں نے ان کو اپنا مسودہ پیش کرکے ترمیم وتنسیخ وتصحیح کی خواہش ظاہر کی میں نے روزنامہ زمیندار میں شائع شدہ سابقہ مضامین بھی نیرنگ صاحب کو دکھلائے انہوں نے مجھ سے مسودہ لے لیا اور انبالہ جاکر مسودے کو پڑھ کر واپس کرنے کا وعدہ کیا تقریباً ایک ماہ کے بعد نیرنگ صاحب اپنے کسی ذاتی کام کے لئے پٹیالہ آئے لیکن مسودہ کو ساتھ لانا بھول گئے۔ مجھ کو دیکھتے ہی انہوں نے اپنی بھول پر نہایت ہی افسوس ظاہر کیا انبالہ واپس جاکر انہوں نے اصلاح شدہ مضمون کے ساتھ اپنا ایک ہدایتی اور ہنمایانہ خط بھی بذریعہ ڈاک ارسال کیا میں اس مسودے کو تاریخ ریاست پٹیالہ کے نام سے شائع کرانے کا متمنی تھا مگر مالی کمزوری میری اس راہ میں رکاوٹ بنی رہی مجبوراً میں نے ایک شب میں اپنے ایک محسن اور کرم فرما شیخ عبدالکریم کی کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ریاست پٹیالہ کے درباری اور ٹھیکیدار کی حیثیت سے ریاست میں ہی نہیں بلکہ آس پاس بھی جانے پہنچانے جاتے ہیں آپ اپنے کو ایک مصنف اور ادیب کی حیثیت سے بھی پیش کیجئے اس پر وہ ہنس دئیے اور کہا سید صاحب آپ تو اس دریا کو پار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ جس کے کنارے بیٹھ کر میں نے کبھی دوچلو پانی بھی نہیں پیا۔ شیخ صاحب کو میں اخبار زمیندار کے وہ چھ شمارے بھی دکھلائے جن میں ریاست پٹیالہ کے چھ قصبوں کے سیاسی اور فوجی حالات وواقعات ان کے مفروضہ نام سے شائع ہوچکے تھے میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے ترک وطن، گمنامی اور خاص مصلحت کی بناء پر سید زیڈ ایچ عبدالکریم کے مفروضہ نام سے ان مضامین کو شائع کرایا تھا اس بات کے کھل جانے پر وہ حیرت زدہ رہ گئے اور مسکرادئیے فوراً ہی میں نے اپنا اصلاح شدہ مسودہ اور نیرنگ صاحب کا وہ ہدایتی اور رہنمایانہ خط شیخ صاحب کے سامنے پیش کیا جو انہوں نے اس کتاب کے بارے میں مجھ کو لکھا تھا اس گفتگو کے دوران محترم شیخ صاحب نے نیم دلی سے شائع کرانے کا وعدہ کیا ان دنوں سردار لیاقت علی حیات خاں ریاست پٹیالہ کے وزیر اعظم تھے شیخ صاحب ان سے متعارف اور واقف تھے چنانچہ ان سے شیخ صاحب نے مسودہ لے کر بابا آلاسنگھ کے نام سے منسوب کرکے شائع کرانے اور مہاراجہ یادوندرسنگھ پٹیالہ کے جنم دن پر اجراء کرنے کی ہدایت کی اس کتاب کا پیش لفظ جناب غلام بھیک نیرنگ صاحب نے لکھا اور پیش لفظ میں سید زیڈ، ایچ کی جدوجہد اور معاونت کو مستحسن قرار دیا تھا۔
چنانچہ ۱۹۴۰ء؁ کے دوران سردار لیاقت علی حیات محل وزیر اعظم پٹیالہ نے مہاراجہ یادوندرسنگھ ہی سے ان کے جنم دن پر اس کتاب کا اجراء کرایا مہاراجہ کے اس جشن ولادت پر شرکاء نے تقریباً دوتین سو کتابیں اسی وقت خرید لیں ۱۹۷۷ء کے دوران میں ضلع سہارنپور مسلم مجلس کا صدر تھا اس زمانے میں جنتا پارٹی کی حکومت مرکز (دہلی) میں قائم ہوچکی تھی جنتا پارٹی میں مسلم مجلس بھی ایک (ایک سیاسی پارٹی تھی جس کے بانی وصدر محترم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی تھے یہ پارٹی مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؔ ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی تجویز پر قائم ہوئی تھی) معاون کے طور مرکزی حکومت میں شریک کار تھی صوبائی چناؤ کیلئے تیاریاں جاری تھیں۔ شیخ ذوالفقار اللہ ویسٹرن کورٹ نے نئی دہلی میں اترپردیس کے ضلع صدور کی میٹنگ بلائی تھی مجھ کو بھی اس میٹنگ میں شریک ہونے کا دعوت نامہ ملا میں اس میٹنگ میں شریک ہونے اور ایک دوسرے مشورے کی غرض سے میٹنگ کے انعقاد سے دوروز پہلے ہی ویسٹ نظام الدین اولیاء میں اپنے رشتہ دار بابو آفتاب احمد کے یہاں پہنچ گیا تھا وقت گذارنے اور تاریخی مطالعہ کے شوق کو پورا کرنے کی خاطر میں سروے آف انڈیا کی لائبریری میں گیا مجھ کو لائبریری میں چمبر آف پرنسز (ایوان شہزادگان) انگریزی زبان میں چھپی کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا اگلے روز مجھ کو ایک دوسری انگریزی کتاب Historical Relation of Roheelan Afgano کو پڑھنے کا بھی موقع ہاتھ آیا اس کتاب میں شہر سہارنپور کا کئی جگہ ذکر آیا میں نے اسی دن تاریخ سہارنپور لکھنے کا ارادہ کرلیا اس ارادے کو پورا کرنے کیلئے مجھ کو الہ آباد، رامپور (سابق ریاست) دہلی، چنڈی گڑھ اور پٹیالہ کی سرکاری لائبریریوں میں سیکڑوں ایسی تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑا جن میں سہارنپور کے واقعات کا ضبط تحریر میں لائے جانے کا امکان تھا اگر چہ میں نے حتی المقدور جدوجہد کرکے تفتیش تمام اور تشخص کی اعانت سے سہارنپور سے متعلقہ حادثات وواقعات اور دوسرے تاریخی مواد کو اکٹھا کرنے پر سات سال صرف کئے کتنی ہی چھوٹی موٹی اور مندرجہ ذیل کتابوں کے پڑھنے اور مطالعہ اور ان کے اقتباسات وواقعات کو ترتیب دے کر میں نے سہارنپور کا سیاسی منظر کتاب تیاری کی پھر بھی ہوسکتا ہے کہ اور بھی ایسے تاریخی حالات واقعات جو اس کتاب کی زینت بن سکتے تھے میری نظر اوجھل رہ گئے ہوں ویسے میں نے کوشش یہی کہ یہ کتاب اس موضع پر جامع مکمل اور یادگاری بن جائے میں قارئین اور واقعات نویسوں سے اس کی معافی چاہوں گا اور امید کرتا ہوں ناظرین میری سات سالہ مطالعہ اور کتابوں کی ورق گردانی کے نتیجہ میں جو کتاب پیش کی جارہی ہے اس کو پسند فرمائیں گے ان کتابوں کی اعانت اور مدد سے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے وہ یہ ہیں:​
۱) شمشیر خالصہ مصنف بھائی گیانی سنگھ گیانی
۲) ظفر نامہ تیموری خود نوشت (ترجمہ) اُردو،
مصنف مآثر عالمگیری، سعد خاں​
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

شکریہ۔۔۔۔۔ مقدمہ نے شوق کو بر انگیختہ کر دیا ۔عثمان صاحب اب اصل کتاب بھی شیئر کرنا شروع کردیں۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

میں بھی قاسمی صاحب اورارمغان صاحب کی تائیدکی تائیدکرتاہوں۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

یااللہ!جب تمہیداتنی لمبی ہے توکتاب کتنی طویل ہوگی۔خط کامضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر۔عثمان بھائی ایساکریں آپ پہلے کتاب پوسٹ کردیں بعدمیں تمہیداورپیش لفظ دیتے رہنا۔بے چینی اپنی انتہاکوپہنچ رہی ہے۔صبرکادامن چھوٹ رہاہے،ذراسی تفصیل دینے کے بعدلمبابریک آجاتاہے۔
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

عثمان بھائی!کیوں بے چینیوں اوربے قراریوں کوفزوں ترکررہے ہو،تاریخ سہارنپورکی اگلی قسطیں کہاں ہیں،پلیزجلدی پوسٹ فرمائیں ۔
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
تاریخ سہارنپور (قسط سوم)

تاریخِ سہارنپور
(قسط ۳)​
۳) تاریخ مبارک شاہی مصنف پیر معصوم (اُردو)
۴) تزک بابری خود نوشت (ترجمہ) اُردو
۵) تزک جہانگری خود نوشت فارسی
۶) شاہجہاں نامہ محمد صالح کمبوہ (محمد آمین)اُردو
۷) عالمگیر نامہ محمد ساقی، اُردو اور محمد کاظم فارسی
۸) طبقات اکبری سرورق ندارد (مصنف کا نام نہیں مل سکا)
۹) تاریخ قطب شاہی مصنف شاہ نور شاہ ایرانی
۱۰) اکبر نامہ مصنف حیدرمرزا
۱۱) تاریخ رامپور ریاست دونوں کتابوں کے پہلے کئی صفحات نہیں تھے
لہٰذا مصنّفین کے نام نہیں پائے گئے۔
۱۲) تاریخ سرمورریاست
۱۳) ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت مصنف مفتی شوکت علی فہمی ایڈیٹر دین دنیا دہلی
۱۴) تاریخ فیروز شاہی مصنف ضیاء الدین برنی
۱۵) تاریخ مغل سرجادوناتھ
۱۶) تاریخ ہند منشی نول کشور (لکھنؤ)
۱۷) آئینۂ اکبری سرورق نہ تھا
۱۸) ہندوستان پر مغلیہ حکومت مفتی شوکت علی فہمی ایڈیٹر دین ودنیا دہلی​
1) A Vorcage of east India-By Eord Terry Printed in London during 1655 A.D.
2) Historical Relation of Roheela Afgan By C.Hamllon Printed in London,during-1797 A.D.
3) History of Shah Alam By Capt. W.Franklin Printed calcutta during 1803 A.D.
4) Reports of East Yamuna Canal Ievels Printed in Agra during 1845 A.D.
5) History fo Sikhs By J.Canenghum Printed in London during 1858 A.D.
6) History of Maratha By C.Grant Duff. Printed in London during 1832 A.D.​
تاریخی کتابوں کے مطالعہ اور چشم دید ذاتی تجربات اور مشاہدات کے نتیجہ میں تین حقیقتیں میرے سامنے آئیں۔​
(۱) طاقتور، دولت مندیا صاحب منصب عام طور سے اپنے ماں جائے بھائی کو اپنا ہم درجہ بنتے دیکھنا گوارہ نہیں کرتا اور ایسا صاحب منصب بھائی افروز بھائی کی مخلصانہ پیشکش کو اپنے دباؤ کا نتیجہ تصور کرتا ہے طاقتور بھائی اپنے منصب کیلئے مزید طاقت حاصل کرنے کی خاطر اپنے بھائی اور بھتیجوں تک کو قتل کر ڈالتا ہے یہ بہیمانہ جرم کرکے گویا وہ اپنے باپ کی اولاد اول قابیل کی سنت پر عمل کرتا ہے اس سنت کی ادائیگی میں خصوصاً مسلمان صاحب اقتدار پیش رہتے آئے ہیں۔
(۲) کوئی حکمراں خواہ وہ کسی بھی دین ومذہب اور دھرم کا پیروکار ہو کسی ایسے عبادت خانہ کو توڑنے اور برباد کرنے سے گریز نہیں کرتا جو اس کے اقتدار سلطنت کیلئے اس کی نظر میں نقصان دہ بن رہا ہو۔ جہاں ہندوستان میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اورنگ زیب نے ایسے مندروں کو توڑا اور برباد کیا ہے وہاں جون ۱۹۸۴ء میں سکھوں کے سورن گوردوارہ امرتسر اور دوسرے کئی ایک گوردواروں میں سے اٹھنے والے مسئلوں کی بیخ کنی کرنے کی خاطر اندرا گاندھی مرحومہ وزیر اعظم ہند نے کارروائی کی خود اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ضرار کو آگ لگوادی تھی کیوں کہ اس مسجد میں مؤمن ومجاہد مسلمانوں کے خلاف منافق مسلمان منصوبہ بنایا کرتے تھے۔
(۳) گرونانک شاہ کی گدی کے پانچویں خلیفہ گروارجن سنگھ کے زمانۂ اقتدار سے آج تک سکھوں نے کسی مستحکم سلطنت قائم کرنے کیلئے منصوبہ بند جنگ نہیں لڑی بلکہ اس کے برخلاف سکھ فوجوں نے مغل بادشاہوں کے خلاف نفرت پیدا کرکے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کیں اور مغل صوبہ داروں، جاگیر داروں اور دوسرے منصب داروں کے خلاف قومی کارروائی کرکے مسجدوں کو آگ لگانا، مسلمان کا قتل کرنا، لوٹ مار کرکے ان کے گھروں کو جلانا اور عورتوں کی عصمت دری کرنے کا ایک معمول بنالیا تھا ان سکھ فوجیوں کو مسلمانوں سے ایسا نازیبا برتاؤ کرکے مسرت محسوس ہوتی تھی۔ پنجاب میں چار پانچ چھوٹی چھوٹی سکھ ریاستوں کا قیام سکھوں کی مشترکہ جنگ کا نتیجہ نہ تھیں بلکہ سکھوں کے ایک خاندان کی لٹیرانہ کارروائی کے نتیجہ میں غاصبانہ ریاستوں کا وجود عمل میں آگیا تھا۔
ہندوستان (بھارت اور پاکستان) پر مسلمانوں کی حکومت کی تفصیل یہ ہے۔
۱) محمود غزنوی کے حملے اور اسکے خاندان کا دور حکومت تقریباً دوسو سال ۹۸۴ء سے ۱۱۸۵ءتک
۲) شہاب الدین غوری کی حکومت -۳۱ سال ۱۱۷۰ء سے ۱۱۵۸ء تک
۳) غلامان خاندان کی حکومت- ۸۴ سال ۱۲۰۶ءسے ۱۲۹۰ء تک
۴) شاہان خلجی کی حکومت - ۳۱ سال ۱۲۹۰ءسے ۱۳۲۱ء تک
۵) شاہان تغلق کی حکومت- ۹۳ سال ۱۳۲۱ء سے ۱۴۱۴ء تک
۶) سیدوں کی حکومت- ۳۷سال ۱۴۱۴ء سے ۱۴۵۱ء تک
۷) شاہان لودھی پٹھانوں کی حکومت- ۷۵ سال ۱۴۵۱ء سے ۱۵۲۶ءتک
۸) شاہان مغلیہ کا پہلا دور حکومت- ۱۴سال ۱۴۲۶ء سے ۱۵۴۰ء تک
۹) سوری پٹھانوں کا دور حکومت- ۱۴ سال ۱۵۴۰ء سے ۱۵۵۴ء تک
۱۰) شاہان مغلیہ کا شاندار دور حکومت- ۱۵۳ سال ۱۵۵۴ء سے ۱۷۰۷ء تک
۱۱) شاہان مغلیہ کا زوال پذیر دور حکومت- ۵۵ سال ۱۷۰۷ء سے ۱۷۶۲ء تک
۱۲) شاہان مغلیہ کی آڑ میں انگریزوں کی حکومت- ۹۵ سال ۱۷۶۲ء سے ۱۸۵۷ء تک
۱۳) انگریزی بادشاہ کی بلاواسطہ حکومت- ۹۰ سال ۱۷۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک
۱۴) تقسیم شدہ ہندوستان یعنی بھارت پر کانگریس کی حکومت- ۱۹۴۷ء سے (تقریباً) جاری ہے۔
نوٹ: مغل بادشاہ جہاندار شاہ ۱۷۱۲ء - آصف الدولہ اسد خاں اور اس کے بیٹے ذوالفقار کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ۱۷۱۳ء میں فرخ سیر مغل بادشاہ سید عبداللہ اور سید حسن علی خاں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا، ۱۷۱۹ء میں مغل بادشاہ شمش الدین۔​
سہارنپور کا سیاسی پس منظر​
یوں تو سہارنپور کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے اس شہر کو آباد ہوئے تقریباً ساڑھے چھ سو سال ہی گذرے ہیں۔ اس کی تاریخ کو چند سطروں میں لکھا جاسکتا ہے۔ مگر جس جگہ یہ شہر آباد ہے اس کی مذہبی ہے، سیاسی اور اقتصادی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی دریائے گنگ وجمن، گنگا وجمنا کا یہ دوآبی علاقہ (سہارنپور) اپنی زرخیزی اور پانی کی فراہمی کے باعث روز اول ہی سے ہندوستان کے حکمرانوں کی خواہش حکمرانی کا شکار رہا ہے کیوں کہ اس علاقہ کی غلہ اور چارہ کی پیداواری بہتات اور افراط نے حکمرانوں کیلئے غلہ اور چارے کے گودام کا کام دیا ہے اس جگہ پر پورے سال بہنے والی ڈھمولہ اور پاؤں دھوئی وہ ندیوں کا سنگم ہے، یہ دونوں ندیاں بڑے سے بڑے قافلے اور لشکر کو خاطر خواہ پانی فراہم کرتی رہی ہیں اسی وجہ سے اس جگہ کو لشکروں اور قافلوں کے ٹھہرنے کیلئے نہایت مورزوں ومناسب اور پسند کیا جاتا تھا کتنے ہی سلطانوں اور بادشاہوں نے اس میدان پر اپنی فوجوں کو کچھ عرصہ ٹھہرا کر پہاڑی جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کی سیاسی حرکتوں پر کڑی نظر رکھی دہلی اور شوالک پہاڑوں گنگا اور جمنا پار والے علاقوں کیلئے یہ نہایت اہم تجارتی منڈی بنی رہی کیوں کہ گنگا اور جمنا کا پانی علی الترتیب ہردوار موضع دمجھیڑہ اور بوڑیہ کے گھاٹوں پر سوائے طغیانی کے دنوں کے ہمیشہ ہی پایاب رہا ہے۔ اسی وجہ سے پورے سال لشکر اور قافلے ان گھاٹوں سے گنگا اور جمنا کو آسانی سے پار کرلیا کرتے تھے۔​
(جاری)​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

ایک قسط کے بعداگلی قسط کی پوسٹنگ میں کہیں زیادہ وقفہ تونہیں ہوتا؟
میراخیال ہے کہ اتنے وقفہ اورسکتہ کی قرائے کرام نے قطعی اجازت نہیں ہے۔
روزآنہ ایک قسط کااوسط توہوناہی چاہئے عثمان صاحب۔ورنہ ایک کام کریں پوری کتاب مجھے عنایت فرمادیں میں خودپڑھ لوں گااورپھرآپ اپناکام جاری رکھیں۔
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

تاریخِ سہارنپور
قسط ۴
اب سے تقریباً چھ ہزار سال پہلے کے حالات کا کوئی تاریخی مواد پورے ہندوستان کا نہیں ملتا ہندوستان اور اس کے کچھ علاقوں کی وہ تاریخ ملتی ہے جو رام چندر جی کے زمانے سے تعلق رکھتی ہے تقریباً پانچ ہزار سال پہلے یہ علاقہ (سہارنپور) مغل خاندان کی حکومت میں شامل تھا اس زمانے میں آرین قوم کی پانچ حکومتیں اس ملک میں قائم تھیں ہستناپور میں کورووں کا راج تھا یہ ریاست گنگا کے کنارے دہلی اور مغرب کے علاقوں پر قائم تھی اس کے قریب دوسری ریاست پنچالوں کی تھی اس کو دارالسلطنت قنوج تھا تیسری بنارس کی حکومت پر کاشی نام کا حکمراں راج کرتا تھا کاشیوں کی حکومت کی بناء پر ہی اس کا نام کاشی پڑا۔ چوتھی ریاست اجودھیا کے نام سے ہستناپور اور بہار کے درمیان اودھ کے علاقہ پر تھی اس پر کوش قبیلے کے لوگوں کا راج تھا۔ پانچویں حکومت بنگال اور بہار کے شمالی علاقوں پر مشتمل تھی یہ ودیہا (وداہا) قبیلے کے لوگوں کی ملکیت تھی۔ کوشل قبیلے کی حکومت اب سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے نہایت آن بان شان سے قائم تھی اس حکومت کا راجہ اجودھیا میں رہا کرتا تھا۔ اس کا نام دشرتھ تھا اس کی پہلی بیوی سے دولڑکے رام چندر اور لکشمن تھے راجہ کی دوسری بیوی کیکئی کا راجہ دشرتھ پر بہت زیادہ اثر تھا رانی کیکئی اپنے لڑکے بھرت کو راج گدی دلانا چاہتی تھی مگر رواج کے مطابق راج گدی کے حقدار رام چندر جی تھیرانی کیکئی نے اپنی خواہش کو پورا کرنے کیلئے اپنے پتی رام دشرتھ پر زور ڈال کر رام چندر جی کو بن باس دینے کی تجویز پیش کی کیوں کہ اس کو یقین تھا کہ بارہ سال کے عرصہ کے اختتام سے پہلے ہی رام چندر کسی نہ کسی وجہ سے مر جائے گا اور بھرت کو راج گدی مل جائے گی راجہ دشرتھ نے اپنی رانی کیکئی کے اثر کو قبول کرکے رام چندر جی کو بارہ سال جنگل میں زندگی بسر کرنے کا حکم دیدیا ریاست کی رعایا نے راجہ دشرتھ کے اس حکم پر اپنی خفگی اور ناراضگی کا اظہار کیا۔ اگر رام چندر جی چاہتے تو رعایا کو اپنے ساتھ لے کر نہایت آسانی سے اپنے باپ سے راج گدی زبردستی چھین سکتے تھے۔ مگر اس نے اپنے باپ کے حکم کو بناچوں وچرا مان کر فرمانبرداری کا وہ ریکارڈ قائم کیا جس کی ہندوتاریخ میں دوسری مثال نہیں ملتی۔ رام چندر جی کے ماں جائے بھائی لکشمن نے بھی ماں کے پیٹ کے رشتے کی محبت کی نہ مٹنے والی مثال قائم کی جس وقت رام چندر جی اپنی بیوی سیتا کو ہمراہ لے کر بن باس کیلئے نکلے لکشمن بھی اپنا آرام تیاگ کر اپنے بھائی اور بھاوج کے دونفری قافلے میں شامل ہوگیا۔ غرض یہ تین آدمیوں کا قافلہ کافی عرصہ تک جنگلوں کی خاک چھانتا مصائب اور مشکلات سے شانہ بشانہ کندھا لڑاتا رہا۔اور یوں زندگی بسر کرتا رہا اس دور میں لنکا کا راجہ راون تھا اس کو رام چندر جی سے حسد تھا موقعہ پاکر راون سیتا کو زبردستی اغوا کرکے لنکا لے گیا اور کافی دنوں تک سیتا کو قید رکھا۔ رام چندر نے سیتا کو آزاد کرانے کیلئے پہاڑی لوگوں کی رضاکارانہ فوج تیار کی اور ایک پہاڑی راجہ ہنومان کی امداد سے لنکا پر حملہ کردیا ان کی فوجوں نے لنکا کو تاخت وتاراج کرڈالا اور سیتا کو راون کی قید سے آزاد کرالیا۔ رام چندر جی سیتا اور لکشمن کو ساتھ لے کوہ شوالک کی پہاڑیوں کی طرف چلے اور گنگا کے کنارے ہردوار (درہ کوہلہ) کے مقام پر اپنا ڈیرہ ڈالا۔ اس جگہ لکشمن نے خوشی منانے اور دل بہلانے کی خاطر ایک جھولا بنایا انہوں نے اس جھولے پر جھول کر اپنی آزادی اور خوشی کے گیت اور بھجن گاکر اپنے بھگوان کا شکر ادا کیا آج اسی جھولے کو لکشمن جھولا کے نام سے پکارتے ہیں اس زمانے کی ہندومذہب کی کتابوں سے ایسے واقعات اور اشارات ملتے ہیں جن کی بناء پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ کہ رام چندر جی اور ہنومان کی فوجوں نے لنکا آتے جاتے اس میدان میں جس پر آج سہارنپور آباد ہے، اپنے ڈیرے لگائے رکھے اور یہ تینوں انسانیت کے پیکر صبح وشام اس ندی میں جس کو پاؤں دھوئی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اشنان کرتے رہے چونکہ اس ندی کو رام چندر جی اور سیتا کے پاؤں دھونے کا کافی عرصہ شرف ملا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اسی فخر کی وجہ سے اس زمانے کے لوگوں نے اس ندی کو پاؤں دھوئی کا نام دیا ہو۔
مہابھارت کی وہ جنگ جس کو ہندوتاریخ میں بہت ہی اہمیت دی جاتی ہے یہ جنگ ہستناپور کی گدی کے دو دعویداروں کو رواورپانڈو کے درمیان لڑی گئی تھی یہ جنگ کوروکشیتر کے میدان میں اٹھارہ دن تک متواتر لڑی جاتی رہی۔ اور پہلے تین دنوں میں متواتر رات دن ۷۲ گھنٹے جنگ چلتی رہی۔ اس لڑائی میں بڑے بڑے بہادر اور سپہ سالار مارے گئے تھے ا س جنگ میں پانڈو کی حمایت ست سیاہ، مداوا، پنجابی، مگدھا، چیری اور بنارس کے راجہ کررہے تھے دوسری طرف کورو کی مدد پر کوشل (اودھ) وداہا (بہار) انگا (بھاگلپور) بنگا (بنگال) کالنکا (لڈیہ) سندھ، گندھر اور باکھا کے راجہ تھے اس طرح کورو کی طرف سے پانچ اور پانڈو کی حمایت میں نو راجہ لڑ رہے تھے ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ میں علاقائی تصور کار فرما تھا کیوں کہ ایک طرف تو شمالی ہندوستان اور دوسری طرف مشرقی ہندوستان کے راجہ جنگ میں کود پڑے تھے۔ جنگ میں کوروں کا سارا خاندان قتل ہوگیا تھے اور راجے گدی پر پانڈو کا قبضہ ہوگیا تھا لڑائی میں حصہ لینے کیلئے مذکورہ بالا راجاؤں نے اس جگہ (سہارنپور) پر اپنے لشکروں کو ٹھہرایا اور آرام کرنے کا موقعہ دیا۔ مہابھارت کی لڑائی کے تقریباً دوہزار سال بعد کے تاریخی حالات کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کہ کون کون سی حکومت بنی اور کس علاقہ پر قائم ہوئی مذکورہ جنگ سے پہلے کے زمانے کو ہندو تاریخوں میں مہابھارت کہا گیا ہے کیوں کہ اس زمانے میں آریہ قوموں کا تقریباً سارے ہندوستان پر تسلط تھا اور ویدک دھرم پورے عروج پر تھا۔ آرین قوموں کی ریاست پر برہمنوں کا پورا اثر تھا بلکہ میں تو کہوں گا کہ بالواسطہ برہمن ہی راج کررہے تھے اور برہمن پورے طور پر ہندوستان کے اصل مالکوں اور باشندوں کا دھرم کی آڑ میں استحصال کرنے میں لگے تھے۔
۳۴۰ء ق،م کے زمانے میں ریاست مگدھ کا ایک فرد جس کا نام چندرگپت تھا اس کی ماں موراہی ایک اچھوت عورت تھی اس بادشاہ کی اولاد موریہ کہلائی چندرگپت کو مگدھ کے راجہ مہاپدم نندنے اچھوت عورت کے پیٹ سے جنم لنے کے جرم میں کم عمری ہی کے زمانے میں جلا وطن کردیا تھا۔ اس جلاوطنی کے حکم میں بھی برہمن ازم کار فرما تھا۔چندرگپت نے جلاوطنی کے دوران پنجاب میں رہائش اختیار کرلی اس زمانے میں سکندر اعظم پنجاب کو فتح کرکے خراج وصول کررہا تھا سکندر کی موت اور چندرگپت موریہ چاؤنگ نامی برہمن کو کسی طرح سے اپنا معاون ومددگار بنانے میں کامیاب ہوگیا اس سیاسی چال سے اپنے اردگرد کافی فوج تیار کرلی اس فوج اور چاؤنگ برہمن کی مدد سے چںدرگپت موریہ ۳۲۱ سال قبل مسیح ساریے پنجاب پر قبضہ کرلیا اور چاؤنگ برہمن کو اپنا وزیر اعظم بنالیا پنجاب پر اپنے تسلط کو مضبوط بنانے کے بعد چندرگپت نے مہاراجہ پدم نند سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے مگدھ پر حملہ کردیا آخر راجہ پدم نند اس لڑائی میں ہار گیا اور چندر گپت موریہ نے مگدھ کی ریاست کو اپنی حکومت میں شامل کرلیا چندر گپت موریہ ہندوستان کا وہ پہلا ہندوراجہ ہے جس نے یونانیوں کی فوج کو جس کی سپہ سالاری سلوکس کررہا تھا شکست دی۔ اور غیر ہندولڑکی سے شادی کی جنرل سلوکس نے اپنی اس لڑکی کو قندھار کے علاقے جہیز میں دے دئیے تھے تاریخ شاہد ہے کہ چندرگپت موریہ کی فوجیں جمنا کو موضع دمجھیڑہ، بوڑیہ اور راج گھاٹ کے راستوں سے پاکر کرکے مگدھ پر حملہ آور ہوئی تھیں۔ موسم برسات کی وجہ سے ندی نالوں میں طغیافی آجانے سے چندرگپت نے اس میدان (سہارنپور) پر اپنی عارضی چھاؤں بنائی کیوں کہ اس کی فوجوں کو گنگا پار کرنے کیلئے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس کو ہر دوار کی مخالف سمت میں بڑھنے کیلئے بہت سی دشواریوں سے بچنے کیلئے تین دن اپنے لشکر کو اس جگہ (سہارنپور) پر ٹھہرانا پڑا تھا اس کی موت کے بعد اس کا بیٹا بندوسار پچیس سال تک اس وسیع سلطنت پر حکومت کرتا رہا اس کی موت کے بعد اس کا چھوٹا لڑکا اشوک وردھن گدی پر بیٹھا اس کی بابت کہا جاتا ہے کہ اس نے راج گدی حاصل کرنے کیلئے اپنے پتا بندوسار اپنے بڑے بھائی سوماسا اور دوسرے بھائیوں کو قتل کرڈالا تھا اس نے کس طرح گدی حاصل کی اس میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے۔ مگر راجہ اشوک وردھن نے جس قابلیت سے حکومت کی اس کی مثال ہندوتاریخ میں نہیں ملتی اس نے اپنی چالیس سالہ حکومت میں رعایا کی بہبودی اور خوش حالی کو اولین اہمیت دی ۲۶۱ سال ق،م، کے زمانے میں اس نے بہت بڑے لشکر سے اڑیسہ کی حکومت پر حملہ کرکے فتح کرلیا اور اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ آدمی قیدی بنائے گئے اور ایک لاکھ انسان قتل ہوگئے تھے اس خون انسانی کا اس کے دماغ پر ایسا اثر پڑا کہ اس کو جنگ سے نفرت ہوگئی مذکورہ جنگ میں ہوئی انسانی تباہی کا اس کو عمر بھر افسوس رہا۔ اس جنگ سے متاثر ہوکر اس نے قطعی اور آخری فیصلہ کرلیا کہ وہ کسی بھی حالت میں آئندہ جنگ نہیں کرے گا اور اپنی باقی زندگی خدمت خلق میں گذارے گا چونکہ بدھ مذہب راجہ اشوک کے نظریہ کے عین مطابق تھا۔ اس لئے اس نے بدھ مذہب کی پیروی کو پسند کرکے اختیار کیا اور بدھ مذہب کو اپنی سلطنت کا مذہب قرار دیا۔ اس نے بدھ مذہب کے مبلغون کو مصر، چین، جاپان، لنکا، شام، یونان اور کئی دوسرے ممالک میں تبلیغ کیلئے بھیجا ان مبلغوں نے نہایت لگن سے بدھ مذہب کے فلسفہ کا پرچار کیا۔ آج بھی دنیا بھر میں بدھ مذہب کے پیروکاروں کی تعداد تقریباً اسی، نوے کروڑ ہے۔ اس راجہ نے بدھ مذہب کی تشریح اور فلسفہ پر بیشمار کتابیں لکھوائیں۔ اس نے فوجداری اور دیوانی عدالتیں قائم کیں اس نے لاکھوں مسافر خانے، ہسپتال اور کنویں تعمیر کرائے۔ ایسے بیشمار مدرسے قائم کئے جن میں بدھ مذہب کی تعلیم دی جاتی تھی غرض راجہ اشوک وردھن کے زمانے کا ہندوستان ہر طرح قابل فخر تھا آج تک وہ ہندوستان کو امن وامان اور خوشحالی کا دور نصیب نہیں ہوسکا جو اس کے دور حکومت میں تھا مشہور سیاح فرشتہ کی نوشہ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چندرگپت کی افواج اور بدھ مذہب کے قافلوں نے کئی بار گنگا اور جمنا کو درہ کوہلہ اور بوڑیہ کے گھاٹوں سے پار کیا۔ اور ہندوستان سے باہر دوسرے ممالک میں جاتے رہے۔ چونکہ گنگا اور جمنا کا دوآبی میدان (سہارنپور) ہمیشہ ہی ایسے مذہبی، تجارتی اور فوجی قافلوں کے ٹھہرنے کیلئے نہایت آرام دہ رہا ہے۔ اس لئے یہ بات نہایت قابل یقین ہے کہ راجہ اشوک وردھن کی فوجوں اور بدھ مذہب کے مبلغوں نے اس میدان پر کئی بار اپنے ڈیرے ڈالے اور اپنی مسافرت کی تھکن کو دور کیا اس دوآبی وسیع میدان (سہارنپور) کا محل وقوع غلہ اور چارے کی افراط اور نہ ختم ہونے والا پانی کی فراہمی اس بات کی غمّازی کرتے ہیں کہ شاید ہی ہندوستان کا کوئی شہنشاہ ایسا ہو جس کی قوموں نے اس میدان کو اپنی عارضی چھاؤنی کے طور پر نہ استعمال کیا۔ میرے اس خیال ویقین کی تائید ایک مؤرخ جس کا نام کنگھم تھا کہ تحریر سے ہوتی ہے وہ لکھتا ہے کہ ’’کالسی اوردہرہ دون کی چتانوں کی کھدائی کے دوران چندرگپت خاندان کے حکمرانوں کے پتھروں پر لکھے اور کھدے حکم نامے اور اس کے بڑی تعداد میں برآمد ہوئے اس زمانے میں سہارنپور اور جگادھری کے علاقے بھی کالسی کے جاگیردار کے زیرنگیں تھے اور یہ جاگیردار موریہ خاندان کے راجاؤں کو خراج دیا کرتا تھا۔
فیروز شاہ تغلق شکار کھیلنے کا بہانہ بناکر کوہ شوالک کے راجاؤں، جاگیرداروں اور زمینداروں کی سیاست حرکات وسکنات کا مطالعہ کرنے اور ان کی فوجی طاقت کا اندازہ کرنے کیلئے یہاں آیا تھا شکار کھیلنے اور تفریح طبع کے دوران خضرآباد، تحصیل جگادھری ضلع انبالہ کے گاؤں کے نزدیک کے جنگل میں اس کو سونے کی لاٹ کھڑی دکھائی دی وہ اس سونے کی لاٹ کو اٹھاکر دہلی لے گیا اور اپنے خزانے میں جمع کرادیا کچھ مؤرخ اس بات سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ لاٹ سونے کی نہیں بلکہ لوہے کی تھی اور یہ لاٹ آج بھی قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام (مہرولی دہلی) کے ساتھ ہی نصب ہے ایک دوسرے انجینئر مسٹر کیپٹین کاٹلے (Captain Cautley) کو ۸۳۴ء کے دوران قصبہ بہٹ (سہارنپور) کے نزدیک کھدائی کرانے پر ایسے کھنڈرات اور سکے ملے جو بدھ مذہب کے راجاؤں کے زمانے کے تھے مسٹر کیپٹین کاٹلے اس زمانے میں نہر جمن شرقی (بڑی نہر سہارنپور) کا چیف انجینئر تھا۔
موریہ خاندان کی حکومت کے خاتمہ پر یہ سلطنت سنگا خاندان کے ہاتھ میں آئی اور پینتیس سال حکومت کرنے کے بعد ختم ہوگئی اس کے بعد یہی سلطنت کنو خاندان کو نصیب ہوئی اس خاندان کی حکومت کے بھی تاریخی حالات پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت کے حالات کو کسی نے قلمبند ہی نہیں کیا یا پھر کسی نے سنسکرت میں تاریخ کا ترجمہ اُردو، فارسی اور انگریزی میں کرنے کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس دور کے مدت کے بعد ایک چینی قبیلہ شاک پوچی جو کشان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہندوستان پر چڑھ آیا مگر یہ قبیلہ ہندوستان میں اپنی کوئی مضبوط حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا اور تھوڑے سے عرصے کے بعد اس قبیلے کی ۳۲۰ء میں چندرگپت ثانی پٹنہ میں گدی نشین ہوا اور ملک میں پھیلی بدامنی اور خانہ جنگی کو دبانے اور ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا اس خاندان کے تین راجاؤں نے سہارنپور کے پڑاؤ اپنی فوجی طاقتوں کا مظاہرہ کرکے شوالک پہاڑیوں کے راجاؤں اور بڑے زمیندار کو خراج ادا کرنے کیلئے رضامند کرلیا۔ یہ علاقے اس طرح سے چندرگپت اول کی سلطنت کا حصہ بن گئے۔ اس خاندان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد منگولیوں کی حکومت قائم ہوئی اس قوم کو تواریخی کتابوں میں ہن قوم لکھا گیا ہے۔ ہن قوم کی حکومت بھی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی۔ منگلور ضلع سہارنپور میں اس قوم کے راجہ منگل سین نے ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا اس راجہ کی فوج نے کئی بار اس دوآبے (سہارنپور) میدان میں اپنے خیمے گاڑے اور دہرہ دون، ٹملی اور جگادھری کے راجاؤں اور جاگیرداروں پر اپنا قومی، سیاسی دباؤ ڈالا مگر اس راجہ کو اپنے مقصد میں مکمل کامیابی نصیب نہ ہوئی اور اپنی گرتی ہوئی طاقت کو سنبھال نہ سکا۔
بدھ مذہب کے پیروکار راجہ ہرش وردھن کے دورحکومت میں ایک چینی سیاح ہوان سانگ ہندوستان آیا اور وہ یہاں ۶۴۵ء تک پندرہ سال مقیم رہا اس نے اپنے قیام کے دوران کے حالات میں لکھا ہے کہ سرسوہ (سرساوہ) سے پندرہ کوہ (کوس) پورب میں ایک پڑاؤ پر نمک اور درختوں کے گھروندوں کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے زمین کے اندر سے پہاڑیاں نکل آئی ہیں۔ یہ جانکاری اس بات کی دلیل ہے کہ سہارنپور کا پڑاؤ ایک بہت بڑی تجارتی منڈی رہا ہے اسی سیاح نے ہرش وردھن کو اپنے زمانے کا شہنشاہ قرار دیا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ بدھ مذہب کی ابتداء سے لے کر مہاراجہ ہرش وردھن کی وفات تک تقریباً بارہ سو سال کے زمانے میں ہندو مذہب بدھ مذہب کے سیلاب میں دبا پڑا رہا۔ بدھ مذہب برابر ترقی کرتا رہا۔
مہاراجہ ہرش وردھن کی وفات کے بعد راجپوتوں کو خوب عروج حاصل ہوا اور اس عروج میں برہمنوں نے اہم رول ادا کیا حقیقت میں برہمن ہی راجہ گیر تھے اس زمانے میں سہارنپور کا علاقہ میرٹھ کے راجہ کے زیرحکومت رہتا تھا۔ ۱۰۱۸ء میں محمود غزنوی نے راجپوت راجاؤں کے خلاف جنگ کی اور میرٹھ کے راجہ کو اپنا باج گذار بنالیا کشمیر کے راجہ کی رہنمائی اور امداد سے محمود غزنوی کی فوجیں کو شوالک کے پہاڑی جنگلات میں سفر کرتی ہوئی دریائے رام گنگا کے کنارے پر پہنچیں اور اس دریا کو پار کرکے بلندشہر اور میرٹھ کے راجاؤں پر حملہ آور ہوئیں میرٹھ کو فتح کرکے اور راجہ کو باج گذار بنانے کے بعد اس کی فوجوں نے دریائے گنگا کو درہ کوہلہ (ہریدوار) اور جمنا کو سرساوہ کے گھاٹ سے پار کیا تھا۔ اس سفر میں ان فوجوں نے فتح پور بھادوں اور سہارنپور کے پڑاؤ پر آرام کیا تھا۔
(جاری)​
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

تاریخِ سہارنپور
(قسط ۵)
شہاب الدین غوری کا سلسلہ نسب غور کے رئیس شنسب بن حریق سے ملتا ہے جو شروع میں بت پرست تھا لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور حکومت میں اس نے اسلام قبول کرلیا تھا لودھی اور سوری پٹھان بھی اس کی نسل سے ہیں۔ محمد بن سوری حاکم غور جس نے قرامطہ جماعت کا آلۂ کار بن کر محمود غزنوی کے خلاف بغاوت کردی تھی یہ بھی اسی شنسبی قبیلہ اور شہاب الدین غوری کے آبا واجداد میں سے تھا۔ شہاب الدین غوری ۱۱۷۱ء میں غزنی کے تخت پر بیٹھا اور ۱۱۷۵ء میں پہلی بار اس نے ہندوستان پر حملہ کیا اگر چہ اس حملے سے پہلے اور غزنوی حکومت کے زوال کے بعد ایک سو سال کا عرصہ ایسا گذرا جس کے تاریخی حالات تاریکی میں ہیں مگر اتنا پتہ ضرور ملتا ہے کہ راجپوت راجاؤں کی خانہ جنگی اور بدامنی نے ہندوستان کے ہندو راجاؤں کو کمزور کردیا تھا۔ شہاب الدین غوری نے دہلی، اجمیر، گجرات، بہار، اودھ اور بنگال کو فتح کرکے ۱۱۹۵ء میں قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کردیا۔ سہارنپور کا دو آبی علاقہ بھی قطب الدین ایبک کے زیرحکومت رہا۔ ۱۱۹۳ء میں شہاب الدین غوری نے کوروکشیتر کے میدان میں ہندوستان کے ڈیڑھ سو راجاؤں کی فوجوں کو کمر تور شکست دے کر اپنی حکومت قائم کی تھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ گھگڑقوم نے جو ایک لامذہب قوم تھی شہاب الدین کے دور حکومت میں اسلام قبول کرلیا تھا سلطان شہاب الدین نہایت بہادر اور فیاض انسان ہی نہ تھا بلکہ وہ نہایت عقل مند بادشاہ بھی تھا اس کو حاتم ہند کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ۱۲۰۶ء میں علیحدہ جماعت کے کچھ لوگوں نے رات کے وقت سلطان شہاب الدین غوری کو قتل کر ڈالا۔ اس کے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی مگر امراء اور وزراء نے اس کے بھتیجے سلطان محمد کو راج گدی پر بیٹھایا سلطان محمد نے اپنے تایا شہاب الدین غوری کے مقرر کردہ نائب قطب الدین ایبک کو ہندوستان کے خود مختار بادشاہ ہونے کی سند عطا کردی قطب الدین ایبک شہاب الدین غوری کا نہایت وفادار غلام تھا اس زمانے میں مسلمانوں میں غلاموں کا درجہ اولاد کے برابر ہوتا تھا۔ آقا اپنے غلاموں کی پرورش اپنی اولاد کی طرح کرتے تھے۔ اور اپنی لڑکیوں کے ساتھ ان غلاموں کی شادیاں کردینے کو قابل فخر اور کارِثواب سمجھتے تھے۔ سلطان قطب الدین ایبک ہندوستان کا وہ پہلا مسلمان بادشاہ ہوا ہے جس نے ہندوستان میں ایک آزاد مسلم سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے پہلے یہاں کی حکومت غزنی، بغداد اور دمشق کی ذیلی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اور ہندوستان کے سلطان حکمراں کو ہر پالیسی اختیار کرنے کیلئے بغداد، دمشق اور غزنی کے حکمران کا منھ تکنا پڑتا تھا۔ اس خاندان کے دس بادشاہوں نے ۱۲۰۶ء سے ۱۲۹۰ء تک حکومت کی یہ بادشاہ قطب الدین ایبک، آرام شاہ، شمس الدین، رکن الدین، رضیہ، سلطانہ، معزالدین، میرام شاہ، علاؤالدین سعود، سلطان ناصرالدین محمود، سلطان غیاث الدین بلبن اور سلطان معزالدین کے بقاد تھے۔
قطب الدین، ایبک نے سہارنپور کے علاقوں کو سیدھا دہلی کے صوبہ دار کے تحت کردیا تھا۔ ۱۲۱۷ء میں شمس الدین نے ایک فوج شوالک کے پہاڑی راجاؤں، جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے فتنہ فساد کو کچلنے کیلئے اور دبانے کیلئے بھی اس لشکر کے ایک حصہ کو اس جگہ (سہارنپور) کے میدان پر چار ماہ سترہ دن رہنا پڑا۔ باقی لشکروں کو دہرہ دون، سرمور اور بجنور کے علاقوں میں فوجی طاقت کی نمائش کرنے اور مناسب حسب حال فوجی کاروائی کرنے کیلئے بھیج دیا گیا ان لشکروں کے سپہ سالاروں کو ہدایت کی گئی کہ وقت ضرورت سہارنپور کی چھاؤنی سے کمک حاصل کریں۔ ان لشکروں نے مذکورہ علاقوں میں امن وامان قائم کردیا۔ ۱۳۵۳ء میں سلطان ناصرالدین محمود کی فوجوں نے جمناکوراج گھاٹ کے راستے سے عبور کیا اور یہ فوج دہرہ دون، مظفرنگر اور سہارنپور کے علاقوں میں گشت کرتی ہوئی گنگا دریا کو دریا کو درہ کوہلہ (ہریدوار) سے پار کرکے بدایوں پہنچی اس زمانے میں روہیل کھنڈ اور دوآبے میں بغاوت ہوئی اور فساد پھوٹ پڑا تھا سہارنپور اس زمانے میں سنبھل کے صوبیدار کے ماتحت تھا اور بغاوت کے زور پکڑ جانے کی وجہ سے وہ دہلی بھاگ گیا تھا تتلغ خاں جس نے دہرہ دون اور سرمور پر قبضہ کرلیا تھا۔ ۱۲۵۷ء میں سلطان نے سرمور پر حملہ کرکے واپس لے لیا اور اپنی فوج کو سہارنپور کے راستہ سے دہلی لے گیا غلام خاندان میں سلطان محمود ناصرالدین ایک ایسا بادشاہ ہوا ہے کہ جس نے اپنی زندگی کو ایک سال میں دو قرآن پاک اپنے ہاتھ سے لکھ کر ان کے ہدیہ سے اپنی زندگی بسر کرتا تھا اس کی بیوی گھر کا سب کام کاج خود اپنے ہاتھ سے کرتی تھی یہ بادشاہ نہایت رحم دل عبادت گذار اور درویش صفت انسان تھا اس کی بادشاہت کا سارا زمانہ بغاوتوں اور سرکشوں کے فسادات کو کچلنے پر صرف ہوا یہ بیس سال حکمت کرنے کے بعد وفات پاگیا۔
خاندان غلامان کی حکومت کے ختم ہوجانے پر اس سلطنت کی وارث خلجی خاندان بنا خلجی خاندان کے پانچ بادشاہوں (جلال الدین، قدر خاں، علاؤالدین، شہاب الدین، عمر اور قطب الدین مبارک شاہ) نے ۱۲۹۰ء سے ۱۳۲۱ء تک اکتیس سال حکومت کی ان میں سے سلطان جلال الدین نہایت ہی نیک دل خدا ترس اور فیاض طبیعت کا باشادہ تھا اس کے سینے میں ایک خاص دل تھا اس کی ہر وقت یہی کوشش رہتی تھی کہ اس کی رعایا خوش حالی اور امن وسکون کی زندگی بسر کرے اور کسی ایک کو بھی اس کی پالیسی اور کارگذاری سے اختلاف ہو نہ تکلیف پہنچے یہ نیک دل انسان اپنے بھتیجے علاؤالدین کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا اس کو قتل کرکے ۱۲۹۶ئ؁ میں علاؤ الدین خلجی تخت نشین ہوگیا گو علاؤالدین بھی نہایت ظالم جابر اور عیاش حکمراں گذرا ہے مگر دوسری طرف یہ نہایت بہادر سپہ سالار اور اعلیٰ درجہ کا منتظم بھی تھا اس نمک حرام نے اپنے چچا جلال الدین کو قتل کرنے پر ہی بس نہیں بلکہ اس کے خاندان پر بے پناہ مظام ڈھائے ۱۲۹۹ء تتلغ خاں خواجہ نے جو خراسان کا بادشاہ تھا دولاکھ فوج کی قیادت کرکے ہندوستان پر حملہ کردیا بادشاہ علاؤ الدین نے ظفرخاں کو تین لاکھ فوج دے کر مغلوں کا مقابلہ کرنے کو بھیجا آخر مغل فوج کی ہار ہوگئی اب تک دہلی پر مغلوں نے جتنے بھی حملے کئے تھے یہ ان کا سب سے بڑا حملہ تھا سلطان علاؤ الدین خلجی کے دماغ میں ایک نیا مذہب جار ی کرنے کا خبط سوار تھا یہ ان کا سب سے بڑا حملہ تھا سلطان علاؤالدین خلجی کے دماغ میں ایک نیامذہب جاری کرنے کا خبط سوار تھا وہ چاہتا تھا کہ وہ ایک ایسا بادشاہ ہو کہ جو سلیمان کی طرح جانوروں پر بھی حکومت کرے۔ خلجی خاندان کے بادشاہوں کے دور حکومت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ان کی حکومت کے دوران مغلوں نے پے در پے کئی حملے کئے مگر خلجیوں نے ان کے قدم یہاں جمنے نہیں دئیے میں علاؤالدین نے دیوگیر (دولت آباد) کے راجہ سے چھ سو من سونا، سات من موتی، دو من لعل یاقوت زمرد وغیرہ ایک ہزار من چاندی، چار ہزار ریشمی کپڑے کے تھان نذرانہ میں لئے تھے۔ علاؤالدین خلجی ہندوستان کی تاریخ میں پہلا مسلمان بادشاہ ہوا ہے جس نے خود اپنا اور اپنے لڑکے خضر خاں کا ہندو عورتوں سے نکاح کیا یہ ایک ایسا بہادر سپہ سالار اور مستقل مزاج حکمراں گذرا ہے کہ جس نے کبھی بھی ہار کا منھ نہیں دیکھا اس نے ہمالیہ سے راج کماری اور سندھ گجرات سے بنگال تک کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا تھا اور جاگیرداری کو یکسہ ختم کرکے تجارت پر اتنا سخت کنٹرول حاصل کرلیا تھا کہ عام آدمی تین چار روپیہ ماہوار میں آرام کی زندگی بسر کرلیتا تھا۔ ۱۳۰۵ء میں دو مغل سردار علی بیگ اور بترتارک کی چالیس ہزار کی گھوڑ سوار فوج کوہ ہمالیہ کے جنگلوں کو روندتی سفر کرتی ہوئی امروہہ تک جاپہنچی لیکن سلطان علاؤالدین خلجی نے اس فوج کو شکست دے کر دونوں سرداروں کو قید کرلیا اور پھر قتل کرڈالا سلطان علاؤالدین کے پاس تقریباً تیس لاکھ تربیت یافتہ فوج تھی اس کی فوج میں ترکی، ایرانی، افغانی، عربی، یونانی اور ہندوستانی سپاہی شامل تھے چونکہ یہ لشکر مختلف قوموں اور زبانوں کے فوجوں پر مشتمل تھا اور کوئی ایسی مخصوص زبان ان کو پڑھائی نہ جاتی تھی جس سے یہ آپس میں ایک دوسرے کی بات سمجھ اور سمجھا سکیں جب مذکورہ قوموں کا اختلاط شروع ہوا تو یہ لوگ پہلے تو اشاروں سے ایک دوسرے کو اپنا مطلب اور مقصد سمجھاتے رہے پھر آہستہ آہستہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ کا استعمال عمل میں آتا گیا۔ چنانچہ اس لشکر میں مختلف زبانوں کی ایک کھچڑی زبان کا وجود میں آنا فطری بات تھی جب یہ فوجی شہر میں اپنی ضروریات زندگی خریدنے جاتے تو اسی کھچڑی زبان کے کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ اور کچھ اشاروں سے اپنا کام چلانے پر قناعت کرتے آخر کار یہی لشکر زبان بازاری زبان بھی بن گئی یہ لشکری زبان ہی علاؤالدین کے فوجی سپاہیوں اور دکانداروں کے درمیان رابطہ کی زبان بن گئی چونکہ اس ملک ہندوستان پر ایرانی، افغانی اور عربی لوگ مدت سے حکومت کرتے چلے آرہے تھے اسی وجہ سے اس لشکری زبان کا عربی رسم الخط میں لکھا جانا قدرتی اور فطری بات تھی اسی زبان کو آج اُردو زبان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حضرت امیر خسروؒ نے اسی زبان میں ایسے مقبول عام گیت لکھے کہ جن کو آج بھی نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
۱۳۰۶ء میں ایک مغل سردار گنگ ساٹھ ہزار فوج کا لشکر لے کر ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ غازی الملک تغلق نے اس لشکر کو شکست دے کر مغل سردار کنگ کو گرفتار کرلیا اور ہاتھی کے پیروں کے نیچے ڈلواکر مارڈالا سلطان علاؤالدین ۱۳۱۶ء میں رات کے وقت اچانک مرگیا خلجیوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ان کی سلطنت شاہان تغلق کے ہاتھ آئی تغلق خاندان کے آٹھ بادشاہوں نے ۱۳۲۱ء سے ۱۴۱۴ء تک ترانوے سال تک حکومت کی اس سلطنت پر غیاث الدین تغلق سلطان سکندرشاہ تغلق نے حکومت کی!
تغلق خاندان کا پہلا بادشاہ غیاث الدین تغلق تھا یہ ایک سائیس کی نوکری سے ترقی کرکے اعلیٰ درجے کا سپہ سالار بن گیا تھا علاؤ الدین خلجی بادشاہ نے اس کی بہادری ہوشمندی سے متاثر ہوکر اس کو دیالپور کا گورنر مقرر کردیا تھا غیاث الدین نے مغلوں کی ایسی سرکوبی کی تھی کہ ان کے حوصلے پست ہوکر رہ گئے۔ علاؤا لدین کا یہ نہایت قابل اعتماد سپہ سالار تھا نمک حرام خسروخان کی بے وفائی جی وجہ سے خلجی خاندان کی حکومت دن بہ دن کمزور ہوتی گئی خسروخان نے اپنے کو بادشاہ بنانے کی خاطر شاہی خاندان کا بچہ بچہ قتل کرادیا تھا غیاث الدین کا لڑکا جو نہ جانے کسی طرح سے دہلی سے بھاگ کر اپنے باپ غیاث الدین گورنر دیالپور کے پاس چلا گیا اور وہاں سے دونوں باپ بیٹے نے ایک فوج لے کر دہلی پر حملہ کردیا انہوں نے خسروخاں کو شکست دے کر خلجی حکومت کے امراء وزراء سے کہا کہ جس کو تم لوگ چاہو اپنا بادشاہ یا امیر بنالو چونکہ خلجی خاندان کا ایک بھی بھی بچہ قتل ہونے سے نہیں بچا تھا اس لئے سب نے اتفاق رائے سے غیاث الدین کو ہی اپنا امیر چن لیا۔
غازی الملک ۱۳۲۱ء میں غیاث الدین تغلق کے نام سے تخت نشین ہوگیا ساڑھے تیرہ سال حکومت کرنے کے بعد یہ وفات پاگیا یہ ایک باشرع اعلیٰ درجہ کا منکسرالمزاج مسلمان بادشاہ تھا یہ معمولی سے معمولی سپاہی اور حکومت کے ملازم کے گھر پر جاکر مزاج پرسی کرتا اور ان کے حالات دریافت کرتا تھا ہر وقت رعایا کی خوش حالی کا دھیان رکھتا تھا۔ تغلق بادشاہوں میں دوسرا بادشاہ محمد تغلق شاہ جس کا اصل نام جونا خاں تھا بڑی اہم شخصیت اور پروقار خصلت کا مالک ہوا ہے۔
۱۳۲۹ء میں مغل سردار ترمش زین خاں ہمالیائی جنگلوں کے پرانے راستے سے اپنے لشکر کو گذارتا ہوا سہارنپور، دہرہ دون کو روندتا ہوا بدایوں تک جاپہنچا یہ خراسان کے بادشاہ تقلغ خاں خواجہ کا بھائی تھا محمدشاہ تغلق نے اس مغل سردار کو نقد سونا، چاندی اور جواہرات کی رشوت دے کر خراسان لوٹ جانے پر آمادہ کرلیا تھا محمدشاہ تغلق نے ۱۳۲۵ء سے ۲۰؍مارچ ۱۳۵۱ء تک ہندوستان پر حکومت کی اس نے اپنے بھائی سعود خاں کو قتل کراکر اس کی لاش کو بازار میں پھینکوادیا تھا اس کو خونریزی کا بہت ہی شوق تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس کی حکومت میں شاید ہی کوئی دن ایسا گذرا ہوکہ اس نے اپنے دروازے پر کسی کو قتل نہ کیا ہو یہ ہرہفتہ کسی نہ کسی مولوی، مفتی، صوفی اور قاضی کو قتل کرادیتا تھا یہ اپنے زمانے کا نہایت جابر اور ظالم بادشاہ گذرا ہے لیکن جہاں اس میں کئی عیوب تھے وہاں اس میں سینکڑوں اوصاف بھی تھے جہاں بھی کوئی بغاوت ہوتی یہ خود جاکر اس کو کچل دیتا تھا۔ اس کی مستقل مزاجی کا یہ حال تھا کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی اس کے ارادے کو بدل نہیں سکتی تھی اس کی فیاضی بھی حاتم طائی کی سی فیاضی تھی اس لئے بیماروں کیلئے کتنے ہی شفاخانے اور مسافروں کیلئے مسافر خانے تعمیر کرائے تھے یہ ماہر فن عالم اور فاضل کی قدر کرتا اور مالی امداد دے کر خوش حال اور مالا مال بنادیتا تھا یہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود روزہ اور نماز کا سخت پابند تھا باقاعدہ پانچوں وقت کی نماز ادا کرتا اس نے کبھی بھی کسی نشیلی چیز کو چھوا تک نہیں اور حرام کاری سے اس کو سخت نفرت تھی یہ علمی لحاظ سے فارسی اور عربی کا عالم اور اپنے زمانے کا بہترین خطاط تھایہ فارسی کا اعلیٰ پائے کا شاعر ہونے کے علاوہ فن طب کا بھی ماہر بھی تھا غرض یہ ایک ایسا عجوبۂ روزگار بادشاہ تھا جس میں سیکڑوں عیوب ہوتے ہوئے ہزاروں اوصاف بھی تھے جس جگہ آج سہارنپور آباد ہے یہاں تقریباً ۷۲۶ھ مطابق ۱۳۲۶ء میں حضرت شاہ ہارون چشتی کا ورود ہوا حضرت نے ایسی جگہ کو اپنا مسکن بنالیا ان کے روحانی فیض سے ان کو عوام میں مقبول اور قابل احترام بنادیا جیسا کہ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہے کہ اس جگہ (پڑاؤ) پر اندرون اور بیرون ملک سے بڑے بڑے تجارتی مذہبی اور فوجی قافلے آتے جاتے تھے ان قافلہ کے لوگوں کے ذریعہ حضرت شاہ ہارون چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے فیض کی دور دور تک شہرت پھیل گئی اور سلطان محمد شاہ تغلق کے کانوں میں بھی امراء وزراء اور دیگر درباریوں کی زبانی حضرت کے روحانی فیوض کی باتیں پہنچ گئی تھیں۔​
(جاری)​
 

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

بہت ہی قیمتی معلومات ہے ۔۔

تفصیلی شئیرنگ پر آپ کا بہت بہت شکریہ
جزاك الله خيراً
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

تاریخِ سہارنپور​
(قسط ۶)
۱۳۴۰ میں اپنی تخت نشینی کے پندرہ سال کے بعد محمد شاہ تغلق کو دیوگیر کی بغاوت جو اس کے بھانجے گرشاسپ نے کی تھی کو کچلنے کے بعد ہمالیائی اور کوہ شوالک کے راجاؤں، جاگیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کی سرکشی کی خبر لی یہ سرکشی اُس زمانے میں پیدا ہوئی تھی جب کہ سلطان محمد تغلق نے اپنے خزانے کو بھر کر پوری دنیا کا حکراں بن جانے کے خواب کو پورا کرنا چاہا تھا اس نے دو آبے (سہارنپور) دہرہ دون، مظفرنگر کے علاوہ پر چار گنا ٹیکس لگا دیا تھا پہاڑی راجاؤں، جاگیروں اور بڑے بڑے زمینداروں کو پرانے ٹیکس ہی ادا کرنے میں دشواری ہورہی تھی نئے مجوزہ ٹیکسوں کو بھلا یہ کیسے برداشت کرسکتے تھے چنانچہ ان لوگوں نے محمد شاہ تغلق کے خلاف ہنگامہ آرائی اور عدم تعاون کی تحریک چلادی اس سرکشی کو دبانے کیلئے محمد شاہ تغلق ایک فوج لے کر مظفرنگر اور سہارنپور کو ہوتا ہوا شوالک کی پہاڑیوں میں گھسا مگر عوام کے عدم تعاون سے اس کو اپنے مقصد میں ناکامی نصیب ہوئی، آخر اس کو بہت ہی نرم شرائط پر راجاؤں اور جاگیرداروں سے سمجھوتہ کرنا پڑا سمجھوتہ کرنے کے بعد محمد شاہ تغلق جمنا کے کنارے کنارے دہلی جانے کیلئے چل پڑا راستہ میں اس کو حضرت شاہ ہارون چشتی کے روحانی فیوض کی یاد آئی چنانچہ اس نے جمنا کے کنارے موضع قطب پور کے نزدیک ہی سے اپنی فوجوں کو سہارنپور کی طرف موڑ دیا اور شاہ ہارون چشتی کی خدمت میں حاضری دی تاریخی مبصرین کا خیال یہ ہے کہ محمد شاہ تغلق دنیا کا بادشاہ بن جانے کے حق میں حضرت میں سے دعا کرانے کی خاطر گیا تھا مگر شاہ صاحب نے اس پر کچھ ایسی توجہ ڈالی کہ محمد شاہ تغلق اپنے دل کی بات اپنی زبان پر نہ لاسکا اور سلام کرکے واپس خیمہ میں لوٹ آیا اگلے دن ۶؍ستمبر ۱۳۴۰ء جمعہ کے دن محمد شاہ تغلق اس آبادی کو شاہ ہارون کے نام سے منسوب کرنے کا افتتاح کیا اور شاہی کاغذات میں شاہ ہارون پور درج کرنے کا حکم دیا (شاہ ہارون پور) کے اس پڑاؤ کو دوآبی فیرود گاہ کے نام سے جانا جاتا تھا اس زمانے کی تواریخی کتابوں کے مطالعہ سے ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ اس میدان پر حضرت شاہ ہارون چشتی کا ورود ۷۲۶ھ مطابق ۱۳۲۵ء میں ہوا اگر چہ جمعہ کے دن ۵؍ستمبر ۱۳۴۰ء میں محمد شاہ تغلق نے اس بستی کو شاہ ہارون کے نام سے منسوب کیا میرے اس قیاس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ خواجہ فریدالدین کے صاحبزادے محمد سالار نے اس شہر کی تاریخ شہرپُر زیب (۷۲۶ھ) کہی ہے خواجہ فریدالدین مع اپنے اہل وعیال اس علاقہ میں رہا کرتے تھے سید سالار اپنے زمانے کا مشہور عالم گذرا ہے محمد شاہ تغلق کے کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس لئے بادشاہ اپنے چچا زاد بھائی ملک فیروز سے اولاد کی طرح محبت کرتا تھا محمد شاہ تغلق کی موت ٹھٹھ (سندھ) کے مقام پر ۲۰؍مارچ ۱۳۵۱ء کے دن واقع ہوگئی اس کے موت کے بعد سلطنت کے امرائ، وزرائ، سپہ سالاروں اور درباریوں نے متفقہ طور سے ملک فیروز سے تخت نشین ہونے کی التجاء کی پہلے تو ملک فیروز نے تخت نشین ہونے سے انکار کردیا مگر امراء سلطنت کے بہت زور دینے اور سلطنت کی مصلحت کی وجہ سے ملک فیروز راج گدی سنبھالنے کیلئے راضی ہوگیا تھا۔ چنانچہ ۲۳؍مارچ ۱۳۵۱ء کے دن فیروز شاہ تغلق کے لقب سے تخت نشین ہوگیا تخت نشین ہونے سے پہلے اس نے دو رکعت نفل نماز ادا کرکے خدا کے حضور میں گڑ گڑا کر اس کامیابی اور سرخروئی کے لئے دعا مانگی اور پھر محمد شاہ تغلق کی وفات کے ماتمی لباس پر ہی تخت نشینی کی پوشاہ اور سرپر تاج پہنا، گدی نشینی کے وقت امراء اور وزراء نے فیروز ملک کو ماتمی لباس اتار کر تاج شاہی سر پر رکھنے کی گذارش کی مگر فیروز ملک نے نہایت رقت آمیز لہجہ میں رو کر کہا کہ میں نے آپ کے پر خلوص اصرار اور اس مسلم سلطنت کی مصلحت کی بناء پر یہ تاج شاہی سر پر رکھا ہے، ورنہ بادشاہت میں میری دلچسپی نہیں ہے یہ ماتمی لباس تو اس شخص کا ہے جو میرا باپ بھی تھا اور محسن واستاذ بھی، آج اس دنیا میں میرا کوئی ناز بردار اور مشفق نہیں ہے۔ فیروز شاہ تغلق نہایت رحمدل بادشاہ تھا اس کو قتل انسانی سے سخت نفر تھی۔ سخت ضرورت کے پیش آجانے ہی پر یہ جنگ کرتا تھا ۱۳۷۹ء میں فیروز شاہ تغلق سہارنپور، انبالہ اور سمانہ میں متعین شاہی فوجوں کا معائنہ کرنے اور ان کی صلاحیت کا اندازہ کرنے کیلئے دورے پر نکلا اس دورے میں اس کو انتظامی اور سیاسی حالات کا علم حاصل کرنا تھا اس دورے میں فیروز شاہ تغلق نے جب کوہ شوالک میں شکار کھیلنے کو اپنے منصوبہ میں شامل کیا شکار کھیلنے کے منصوبہ کا بہانہ صرف پہاڑی راجاؤں کی سیاسی حرکتوں کی بابت جانکاری اور معلومات حاصل کرنا بھی تھا ان دنوں ان پہاڑیوں پر گینڈا بھی پایا جاتا تھا پہاڑی راجاؤں نے فیروز شاہ تغلق کا نہایت گرم جوشی سے استقبال اور معقول نذرانے بھی پیش کئے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ فیروز شاہ نے سہارنپور کے پڑاؤ (دوآبی فیرودگاہ) پر ایک فوجی لشکر مستقل طور سے رکھا ہوا تھا دوآبہ کے علاقوں (دہرہ دون، سہارنپور اور مظفرنگر) کے انتظام کی ذمہداری اس لشکر کے سپرد کی ہوئی تھی اور فیروز شاہ تغلق نے انبالہ اور سمانہ میں متعین فوجوں کو آپسی رابطہ قائم رکھنے کی سخت ہدایات دے رکھی تھی جب دوسری بار فیروز شاہ ۱۳۸۷ء میں شوالک کے پہاڑی جنگلوں میں گینڈے کا شکار کھیلنے آیا اس زمانے میں سہارنپور کے پڑاؤ پر اس کی دس ہزار فوج چھاؤنی بنائے ہوئے تھی اس جگہ کو چھانی بنانے میں پہاڑی علاقہ پر کڑی نظر رکھا اور بروقت فوجی کارروائی کرکے مخالف لوگوں کو سزا دینے کا مقصد کار فرما تھا چونکہ فیروز شاہ تغلق کی فوجوں نے کئی سال تک اس جگہ کو چھاؤنی کے طور پر استعمال کیا اس وجہ سے اس پڑاؤ (موجودہ گاندھی پارک) کو فیروزگاہ کے نام سے ۱۹۴۷ء تک پکارا جاتا رہا۔ ہندوستان کو آزادی ملنے کے بعد یہاں مہاتما گاندھی کا مجسمہ نصب کرکے اس میدان کو گاندھی پارک نام سے منسوب کردیا گیا ۱۳۸۷ء کے آخری دنوں میں اس نے اپنے جیتے جی ہی اپنے لڑکے محمد شاہ کو ناصرالدین محمدشاہ کے لقب سے تخت نشین کردیا اور خود یادِالٰہی میں مغشول ہوگیا۔ ناصرالدین محمد شاہ میں حکومت کرنے کی ذرہ بھر بھی صلاحیت نہ تھی اس کی حماقتوں کی وجہ سے اس کے چچا زاد بھائی ملک بہاؤالدین اور کمال الدین نے بغاوت کردی۔ مگر فیروز شاہ کی بروقت سیاسی چال نے اس بغاوت کو دبادیا اور ناصرالدین محمدشاہ بھاگ کر سرمور کے جنگلوں میں جا چھپا۔ ۱۳۹۸ء کے دوران امیر تیمور نے ہندوستان پر حملہ کرکے پشاور، پنجاب، ملتان کو روند کر دہلی پر قبضہ کرلیا یکم جنوری ۱۳۹۹ء کے دن یہ میرٹھ اور بلندشہر کے قلعوں کو فتح کرنے پر متوجہ ہوا ان قلعوں کو تسخیر کرنے کے بعد اس نے اپنی فوجوں کو دو حصوں میں میں تقسیم کردیا۔ ایک لشکر کی قیادت خود امیر تیمور کرتا دہرہ دون اور ہماچل کے جنگلوں میں سے ہوکر دیبالپور پہنچ گیا اور دوسرے لشکر کی قیادت اپنے پوتے پیرمحمد عرف جہاں شاہ کے سپرد کردی اور پیرمحمد کو ہدایت کی کہ وہ فوجی کارروائی کرتا ہوا اس سے دیبالپور آملے ان دونوں لشکروں نے گنگا کو درہ کوہلہ (ہردوار) کے راستہ سے پار کیا تھا پیرمحمد عرف جہاں شاہ فتح پور دمجھیڑہ اور بوڑیہ کے درمیان سے جمناپار لے کر گیا جمنا کو پار کرنے کے بعد اس نے لشکر کو ساڑھورہ اور انبالہ کے راستے سے گذارا۔ امیر تیمور نے دہرہ دون اور ہماچل اور اس کے پوتے پیرمحمد عرف جہاں شاہ نے دو آبے (سہارنپور) کے علاقوں میں خوب لوٹ مار کی اور دونوں دیبالپور میں جاملے امیر تیمور ہندوستان میں لوٹ کھسوٹ کرنے کے بعد اپنے وطن واپس چلا گیا۔
واپس جانے سے پہلے ۱۹؍مارچ ۱۳۹۹ء کو اس نے خضرخان کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کردیا تھا۔
امیرتیمور سادات خاندان کا بہت ہی احترام کرتا تھا اسی وجہ سے خضر خاں سادات کو اس نے اپنا نائب چنا تھا سید سادات حضرت جلال بخاری نے بھی اپنا ایسا ہی خیال ظاہر کیا ہے خضر خاں امیر تیمور کا نائب بن جانے کی وجہ سے ملتان، دیبالپور اور رامپور کا حاکم اعلیٰ بن گیا اور یہ ہندوستان میں قابل توجہ شخصیت بن کر ابھرا۔
۱۴۱۴ء میں پورے ملک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی اس بدنظمی اور بدامنی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خضرخاں نے امیر تیمور کے نام پر دہلی کی حکومت پر قبضہ کرلیا اور امیر تیمور کے نام کا خطبہ پڑھوایا اسی زمانے میں سادات فرقہ کے لوگ ضلع مظفرنگر کے ایک ہی علاقہ میں کسی طرح سے بارہ گاؤں میں آباد ہوگئے ان گاؤں میں سادات لوگوں کی غالب اقتداری حیثیت بن کر ابھری ان بارہ گاؤں کی سرحد میں ایک دوسرے گاؤں سے ملتی تھیں اسی وجہ سے مؤرخوں نے ان بارہ گاؤں کو سادات بارہ کا نام دیا ہے ان سادات خاندان کو فیروزشاہ کے گورنر خضرخاں سادات کے زمانے میں خوب عروج حاصل ہوا خضر خاں نے دہلی کی حکومت پر قبضہ جمانے کے بعد سید سالم کو سہارنپور کا منتظم مقرر کیا اور یہ علاقہ اس کوبخشش کردیا پھر اس کو ترقی دے کر سرہند کا گورنر بنادیا اور اپنے چچازاد بھائی فریدالدین خاں کو فریدالملک کا خطاب دے کر سہارنپور کا عامل مقرر کردیا۔
شاہ فیروز نے فریدالملک کو دوپرگنے بھی عطا کردئیے فریدالدین خاں عرف فریدالملک نہای ہی منکسر المزاج اور درویش صفت انسان تھا یہ ٹھاٹھ باٹ کی زندگی کو پسند نہیں کرتا تھا اسی وجہ سے یہ ایک معمولی سے مکان میں رہا کرتا تھا لیکن شاہی افسروں کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کیلئے اس نے کچی اینٹوں کا ایک محل بنوادیا تھا تاکہ دہلی اور دوسری جگہوں سے آنے جانے والے عہدیدار اس محل میں ٹھہر سکیں اور آرام کرنے کے قابل ہوسکیں سہارنپور شہر میں جس جگہ کچی اینٹوں کا محل بنا ہوا تھا اس محلہ کو آج مٹیا محل کے نام سے پکارا جاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیرشاہ سوری کی حکومت سے پیشتر اس شہر میں پختہ اینٹوں کا کوئی مکان تھا ہی نہیں۔ سید سالم نے سرہند سے لے کر امروہہ تک کے علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط بنالی تھی یہ سادات فرقہ کے لوگوں کو حکومت کے اندر اور باہر منافع بخش عہدے اور مواقع فراہم کرتا رہا۔
۱۴۳۰ء تک سیدسالم اس علاقہ کا گورنر بنارہا اس کی وفات کے بعد اس کی جائداد اس کے لڑکوں سعیدخاں اور شجاع الملک کو سونپ دی گئی انہوں نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کی اور یہ دونوں قید ہوگئے۔ سارک شاہ نے ان کی جائداد اور جاگیرداری کی زمین کو دشمن کی جائداد قرار دے کر بحق بادشاہ ضبط کرلیا۔
۱۴۲۷ء میں سہارنپور میں بسے سادات فرقہ کے لوگ بادشاہ مبارک شاہ کو اپنی وفاداری جتانا چاہتے تھے۔ مگر ان کے مخالفوں نے ان کی اس نمائش اور چال کو ناکام بناکر رکھ دیا اور سہارنپور کے شاہی منتظم کی اقربت حاصل نہ ہونے دی اور شاہی عہدیداروں کے نزدیک نہ آنے دیا۔ ۱۴۳۳ء میں سلطان محمدشاہ متبنّیٰ فرید خاں کا بیٹا اور خضرخاں کا پوتا حکمراں تھا یہ سید اس کے حمایتی بن گئے محمدشاہ نے ان سیدوں کی ضبط شدہ جائداد اور جاگیران سیدزادوں کو واپس کردی یہ لوگ اپنی اپنی جائدادوں کے پھر سے مالک بن گئے اس طرح سے یہ لوگ پھر ۱۴۵۱ء تک اپنی من مانی کرتے رہے اور ان کو اس علاقے پر ہر طرح سے برتری حاصل رہی سیدوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد ہندوستان کی حکومت کے وارث شاہانِ لودھی بنے لودھی خاندان کے تین بادشاہوں (بہلول لودھی، سلطان سکندر لودھی، سلطان ابراہیم لودھی) نے ۱۴۵۱ء سے ۱۴۲۶ء تک تقریباً پچھتّر سال ہندوستان پر حکومت کی سلطان بہلول لودھی نے اپنی تخت نشینی کے تقریباً ستائیس سال بعد سلطنت جونپور کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا ریاست جونپور گنگا جمنا کے درمیانی علاقہ میں شمال تک پھیلی ہوئی تھی اس کے دورِ حکومت میں ۱۴۷۸ء کے زمانے میں میں شہر سہارنپور کے ایک سید زمیندار نے اپنے باغ کے پاس خالی پڑی زمین پر ایک کالونی آباد کرکے شاہ بہلول، کے نام سے منسوب کردیا یہ جگہ اب بھی محلہ شاہ بہلول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں کے اہل سنت والجماعت کے مفکروں، دانشوروں اور سیاست دانوں نے نہایت ہوشمندی سے کام لے کر اس سید زادے کا اثر ورسوخ سلطان بہلول لودھی کے دربار میں نہ ہونے دیا سلطان بہلول لودھی اور سلطان سکندر شاہ لودھی نہایت ہی نیک دل، منکسرالمزاج حکمراں تھے سلطان سکندر شاہ لودھی کے زمانے کا سب سے اہم کارنامہ یہ ے کہ اس نے لوگوں کو فارسی پڑھا لکھا کر بادشاہت میں ملازمتیں عطاکیں اس نے فارسی پڑھنے لکھنے والے لوگوں کو مالی امداد دے کر حوصلہ افزائی کی ملک میں بہت سے ایسے مدارس قائم کئے جن میں لوگوں کو فارسی پڑھنا لکھنا سیکھنے کیلئے بھاری بھاری وظائف دئیے جاتے اور یہاں سے فارغ ہونے پر ان کو شاہی ملازمت میں ترجیح دی جاتی تھی چنانچہ کائستھ برادری نے خاص طور سے فارسی سیکھ کر حکومت میں بڑے بڑے عہدے حاصل کئے۔ لودھی خاندان کے بادشاہوں کے زمانے کی یہ بھی مخصوص قابل فخر بات ہے کہ ان کے دور حکومت میں روز مرہ کے کام میں آنے والی اشیاء زندگی کا بھاؤ نہایت مستحکم اور سستا رہا ان کی حکومت کی یہ بھی خصوصیت رعونت بھرے رویہ نے اس کے ہم قوم افغانوں کو ناراض اور بددل کردیا تھا۔ کچھ مؤرخوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ان ناراض افغانوں ہی نے بابر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی دعوت دی تھی ان کے دورِ حکومت کی فوجی حرکات وسکنات جو دوآبے (سہارنپور، مظفرنگر) کے علاقوں کیلئے عمل میں آئیں تاریخ میں مواد نہیں مل سکا۔ کہتے ہیں کہ:
۱۵۲۶ء میں بابر شاہ نے دولت خاں حاکم پنجاب، ابراہیم لودھی کے چچا زاد بھائی علاؤ الدین اور چتوڑ کے راجہ رانا سنگا کی دعوت پر ہندوستان پر حملہ کردیا۔ بابر کا ہندوستان پر یہ پانچواں حملہ تھا۔ اس حملے میں بابر نے پشاور، سرہند اور انبالہ پر قبضہ کرنے کے بعد اپنے لشکر کا پڑاؤ جمناکنارے پر سرساوہ سے مغرب کی طرف آرام کرنے اور لشکر کو آراستہ کرنے کی خاطر ڈال دیا تھا اس زمانے میں سہارنپور حاکم سرساوہ کے زیرانتظام تھا۔ بابر نے بلا کسی مزاحمت کے سرساوہ پر قبضہ کرلیا قبضہ کرنے کے بعد باہر گھوڑے پر سوار ہوکر سرساوہ کی گلیوں میں گھوما۔ ترویدی بیگ ککشال کو سرساوہ کا فوجدار اور منتظم مقرر کرکے اِندری (کرنال) کی طرف کوچ کرگیا اندری پر قبضہ کرنے کے بعد بابر پانی پت کے میدان جنگ کی طرف بڑھا چلا گیا پانی پت کے میدان جنگ میں ابراہیم لودھی کی فوجوں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا اس لڑائی میں بیشمار قتل انسانی ہوا اور اس عظیم قتل انسانی کی وجہ سے پانی کا میدان آسی زدہ مشہور ہوگیا تھا کسی سال تک یہ روایتی کہانی بنی رہی کہ اس میدان سے رات اور دوپہر کے وقت قتل کرو،بھاگو، پکڑو کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ اس جنگ میں کم وبیش پچاس ہزار آدمی قتل ہوگئے تھے میدان جنگ میں سلطان ابراہیم لودھی مارا گیا تھا اس کی لاش کو سب سے پہلے طاہرؔ تبریزؔ نے شناخت کیا تھا جس زمانے میں بہادر خاں عرف سلطان محمود لوہانی بہار پر حکومت کررہا تھا اس زمانے میں لوہانی پٹھانوں کی فوجی طاقت عروج پر تھی ان کی فوج طاقت کی وجہ سے لوہانی پٹھانوں کا اثر ورسوخ چاروں طرف بڑھتا چلا جارہا تھا اس زمانے میں شہر سہارنپور کے لوہانی سودا گر یہاں تجارت کی منڈی پر چھائے ہوئے تھے ان لوہانی سوداگروں کی بڑی بڑی دوکانیں اس بازار میں تھیں جس کو آج نخاسہ بازار کے نام سے پکارا جاتا ہے اس بازار کو لوہانی سوداگروں نے ہی بنایا تھا انہوں نے سلطان محمد لوہلانی حاکم بہار کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے متأثر ہوکر اپنے ہم قوم لوہانیوں کے ٹھہرنے کی سہلوت کیلئے ایک سرائے تعمیر کرائی کہتے ہیں کہ ۱۵۲۵ء اور ۱۵۳۱ء کے درمیان یہ سرائے تعمیر ہوئی اور اس سرائے میں بیک وقت پانچ سو آدمیوں کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی لوہانی سوداگر ۱۷۲۵ء تک جزوی طور پر اور اس بازار کے مالک بنے رہے۔ گو آج اس لوہانی سرائے کا کوئی کھنڈر دیکھنے کو نہیں ملتا مگر اس محلہ کو آج بھی لوہانی سرائے کے نام ہی سے جانا جاتا ہے۔ ۱۹۴۶ء کے زمانے میں انگریزی حکومت نے ہندوستان میں صوبائی الیکشن کرائے تھے یہ الیکشن فرقہ وارانہ نیابت کے تحت عمل میں آئے تھے اس عرصہ میں ایک دن مرحوم ومغفور چودھری رشید احمد قریشی میونسپل کمشنر نے دورانِ گفتگو بتلایا تھا کہ میں نے اپنے بزرگوں اور دوسرے بوڑھوں کی زبانی سنا ہے کہ یہاں پر دومنزلہ لوہانی سرائے محلہ چنور برداران کے جنوب میں بنی ہوئی تھی اور یہ سرائے موجودہ مشرقی چوک یعنی ٹاٹا کی دوکان سے میرے (چودھری صاحب) مکان کے چوک تک شرقاً غرباً پھیلی ہوئی تھی اور اس سرائے کے سامنے بہت سے سایہ دار درخت لگے ہوئے تھے مسافر لوگ اپنی سواری کے جانوروں کو ان درختوں کے سایہ میں باندھا کرتے تھے اور اس زمانے میں گندہ (کرگھی) نالے میں صاف ستھرا پانی ہمیشہ بہا کرتا تھا۔
شیرشاہ سوری بہار کے کمسن حکمراں جلال خاں کے یہاں ملازم تھا اور اس کا نگراں واتالیق بھی تھا لوہانی پٹھانوں نے اس کو بہار کے حکمراں کے دربار سے باہر نکال دیا ۱۵۲۶ء میں بابر اور ہمایوں نے جب آگرہ پر حملہ کیا گوالیار کا راجہ بکرماجیت ابراہیم لودھی کی حمایت میں لڑتا ہوا مارا گیا اور ہمایوں نے اس کے اہل وعیال کو قید کرلیا تھا بکرماجیت کے جانشین نے ہمایوں کو نذرانہ میں جو قیمتی جواہرات دئیے ان میں وہ تاریخی کوہِ نور ہیرا بھی تھا جو آج کل برطانیہ کے بادشاہ، کے تاج میں لگا ہوا ہے اس ہیرے کا وزن آٹھ مثقال (ایک مثقال ساڑھے چار ماشہ ہوتا ہے) تھا بابر کے زمانے میں نو مٹھی کا گز اور چالیس گز کی ایک جریب اور سوجریب کا ایک کوس پیمائش کیلئے مقرر تھا۔ ۴؍ربیع الاول ۹۳۵ھ مطابق ۱۵۲۸ء کے دن بابر بادشاہ نے چقماق بیگ کومذکورہ پیمائش حساب کے ذریعہ کامل سے آگرے کے درمیان کا فاصلہ ناپنے کیلئے مقرر کیا تھا اس زمانے میں بابر کی توپ تقریباً چھ سو قدیم تک کے فاصلہ پر مار کرتی تھی ۱۵۴۰ء کے دوران شیرشاہ سوری ہمایوں کو چونسہ اور قنوج کے قریب دریائے گنگا کے کنارے پے در پے شکست دے کر ہندوستان کا حکمراں بن گیا اور ہمایوں کو ہندوستان سے باہر بھاگ جانے پر مجبور کردیا۔
شیرشاہ سوری نے اس زمانے میں ناصر خاں عرف نصیر خاں کو سنبھل کا حاکم مقرر کیا تھا مگر سنبھل کی رعایا شیرشاہ سوری نے اس زمانے میں ناصر خاں عرف نصیر خاں کو سنبھل کا حاکم مقدار کرکے نصیر خاں کو اس کے ماتحت کردیا تھا ۱۵۴۵ء میں شیرشاہ وفا پاگیا سوری خاندان کے چار بادشاہوں (شیرشاہ، سلیم شاہ، فیروز شاہ اور مبازر خاں عرف محمد شاہ عادل) نے ۱۵۴۰ء سے ۱۵۵۴ء یعنی چودہ سال تک ہندوستان پر حکومت کی، فیروز شاہ سوری کو اس کے حقیقی ماموں مبازر خاں عرف محمد شاہ عادل نے اپنی بہن کی گود ہی میں قتل کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا شیرشا کی موت کے بعد حکومت میں تنزل آگیا تھا علاؤ الدین عرف عالم خاں میانہ نے بغاوت کرکے سارے دو آبے (مظفرنگر، سہارنپور اور دہرہ دون) کے علاقہ پر قابض ہوگیا تھا پھر اس نے جمنا کو بوڑیہ، دمجھیڑا کے گھاٹ سے پار کرکے انبالہ اور روپڑ کو فتح کرکے سرہند پر حملہ کردیا لیکن سرہند کے حاکم ملک بھگونت سنگھ نے اس کو شکست دے کر قتل کر ڈالا۔ کہتے ہیں کہ شیرشاہ سوری نے شہر سہارنپور کے محلہ رام نگر (پٹھانپورہ) اور محلہ خان عالم پورہ کے درمیان ڈھمولہ ندی پر تیس دروازوں والا پل بنوایا تھا یہ پل آج بھی موجود ہے اس کے ساتھ ہی اندرا گاندھی کی حکومت نے سیمنٹ، لوہا اور کنکریٹ کا نہایت کشادہ، پائیدار اور خوبصورت پل ۱۹۸۴ء میں تیار کیا ہے اس تیس درہ پل کے سوا سہارنپور سوری خاندان کے بادشاہوں نے اپنی کوئی قابل ذکر چھاپ نہیں چھوڑی۔
۱۵۵۵ء میں ہمایوں نے سوری خاندان کمزوری اور گرتی ہوئی طاقت سے پورا فائدہ اٹھایا اور نہایت آسانی سے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کی ایسی مضبوط بنیاد ڈالی کہ جو ۱۷۰۷ء تک نہایت شان اور آن بان سے قائم رہی یہ مضبوط حکومت اورنگ زیب کی وفات تک ایک سواکاون سال رہی اورنگ زیب کی وفات بعد بھی یوں تو اسی مغلیہ خاندان کے بادشاہ ہی ۱۸۵۷ء تک تخت سلطنت پر براجمان رہے مگر نام چارے ہی کے حکمراں تھے ورنہ اُمراء اور وُزراء ہی حکمرانی کرتے رہے ۲۴؍جنوری ۱۵۵۶ء کے دن ہمایوں پچاس سال کی عمر میں کتب خانے کی سیڑھیوں سے گر کر جاں بحق ہوگیا تھا ہمایوں کی وفات کی خبر جب بیرم خاں کو پہنچی تو اس نے مصلحت کے مطابق کلانور کے مقام پر اکبر کی تاج پوشی کی اس وقت اکبر کی عمر ۱۳سال تھی وفات کے سترہ دن بعد اس کا بیٹا ۱۰؍فروری ۱۵۵۶ء کو شہنشاہ جلال الدین اکبر کے لقب سے راج گدی پر بیٹھا اس وقت شہنشاہ جلال الدین اکبر کی عمر تیرہ سال نو مہینے تھی بیرم خاں اکبر کا اتالیق اور نگراں تھا اسی بیم خاں نے ۱۵۵۸ء میں سرساوہ کے حاکم اور جاگیردار ترویدی بیگ ککشال کو قتل کرادیا تھا اکبر نے ۱۵۵۶ء ہمیوبقّال کو پانی پت کے میدان جنگ میں شکست دے کر اپنے سپہ سالاروں، درباریوں ، امراؤں اور وزراؤں کو خطابات اور انعامات تقسیم کئے اس خوشی میں اکبر نے سکندر خاں کو خان عالم کا خطاب دیا اور شیخ پورہ قدیم کی زمین اس کو بخشش کردی اکبر نے خان عالم کو دوہزار پیادے اور ایک ہزار گھوڑے سوار فوج رکھنے کی سند دے کر سہارنپور کا فوجدار مقرر کردیا ایک مؤرخ بلانشاندہی کے لکھتا ہے کہ اکبر کے زمانے میں شہر سہارنپور میں ایک معمولی سا قلعہ تھا اس قلعہ پر کلال، افغان اور تگے قابض تھے وہ لکھتا ہے کہ بیربل نے اکبر سے قلعہ کے ان قابضوں کو آٹھ سو پیادے اور ایک سو گھوڑے سوار سپاہی اپنی حفاظت کی خاطر رکھنے کی سند دلوائی تھی میں نے اکبرنامہ کا بغور مطالعہ کیا ہے مگر اس میں شہر سہرنپور کے کسی قلعہ کا ذکر نہیں ہے وہ لکھتا ہے کہ اکبر نے بیربل کو بوڑیہ، جگادھری اور سہارنپور کے انتظام کا ذمہ دار ٹھہرا رکھا تھا اس زمانے میں شہنشاہ اکبر کے صوبہ سے سترہ لاکھ سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی ۱۵۵۷ئ؁ میں شیخ پورہ قدیم کے زمینداروں نے ڈھمولہ ندی کے کنارے پر ایک بستی آباد کی اور اس آبادی کو خان عالم کے نام سے منسوب کردیا یہ بستی آج تک محلہ خان عالم پورہ کے نام سے جانی جاتی ہے اس بادشاہ کے زمانہ میں سہارنپور اور ہریدوار میں سکّے بنانے کے کارخانے تھے اسی بادشاہ نے سہارنپور کی سرکار کو دہلی صوبے سے الگ کرکے اس کا علیحدہ سے صوبہ بنادیا تھا سہارنپور کے صوبے میں دیوبند، سردھنہ، کیرانہ، دہرادون، اور اِندری (کرنال) کے ضلع شامل تھے شہزادہ خرم پسر نورالدین جانگیر جو بعد میں شاہجہاں کے نام اور لقب سے مشہور ہوکر جانا جاتا ہے خرم کی تعلیم وپرو رش خود اکبر بادشاہ اور اس کی بیوی خدیجہ زمانی سلطان بیگم نے اپنی اولاد کی طرح کی اور خرم اپنے دادا اکبر کے آخری سانس تک اس کے قدموں میں رہا حالانکہ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ خرم کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے کا موقع بھی پیش آگیا تھا مگر اس نے دادا اور دادی سے جدا ہونا پسند نہ کیا۔ ۱۶۰۵ء میں اکبر کی وفات کے بعد شہزادہ سلیم نورالدین، جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا جہانگیر نے اپنی تاجپوشی کی رستم کی ادائیگی کے بعد امراء وزراء درباریوں اور سپہ سالاروں کو خطابات اور انعامات تقسیم کئے کچھ عہدیداروں کے عہدے بڑھادئیے سکندر خاں عرف خان عالم کو میرشکار کا عہدہ دیا گیا اور چار ہزار پیادے اور اور تین ہزار گھوڑے رکھنے کی سند عطا کردی خان عالم کو پرندوں کی دیکھ بھال، چوپائے اور جانوروں کی نگہداشت رکھنے اور شکار کرنے میں کمال حاصل تھا خانم عالم شکار کرنے میں نہایت ماہر اور تجربہ کار تھا۔ ۱۶۲۲ء میں جہانگیر ہریدوار گیا اور دہرہ دون کے جنگلات میں شکار کھیلا اس عرصہ میں خانم عالم میر شکار نے جہانگیر کے سامنے جمنانگر کے کنارے مخلص پور اور شوالک پہاڑ کے درمیان شاہی شکار گاہ تعمیر کرانے کی تجویز پیش کی تھی اسی عرصہ میں نورجہاں بیگم اور جہانگیر نے نورنگر (مظفرنگر) میں اپنے قیام کے دوران سہارنپور کے مخلص پور تک کے علاقوں کا دورہ کیا اور شکار کھیلا اکبر کے زمانہ تک سہارنپور میں سینکڑوں ایسی تبدیلیاں آئیں کہ جن کا تعلق اس دوآبے (سہارنپور) کے انتظامیہ سے رہا اور اس کا انتظام معمولی سے معمولی آدمی کے سپرد کیا جاتا اس کو زمین بخشش میں دی جاتی رہی جہانگیر بادشاہ نے اپنی تخت نشینی کے فوراً بعد زنجیر عدم قلعہ میں لگوادی تھی یہ زنجیر سونے کی بنی ہوئی تھی اور اس کا وزن چار من اور لمبائی تیس گز تھی اس زنجیر میں ساٹھ گھنٹے لگے ہوئے تھے جب کوئی مظلوم اس زنجیر کو کھینچتا تو یہ گھنٹے اتنی زور سے بجتے کہ سوتے ہوئے لوگ جاگ اٹھتے تھے اور لوگوں کو علم ہوجاتا تھا کہ کوئی مظلوم یا فریادی بادشاہ کے پاس آیا ہے اس زنجیر پر کوئی پہرہ نہیں تھا ہر مظلوم کو اس کو کھینچنے کا حق حاصل تھا اکبر بادشاہ کے زمانے میں احدی سپاہیوں کی ماہانہ تنخواہ دس روپیہ تھی جہانگیر نے ان کی تنخواہ پندرہ روپیہ ماہانہ اور ان کے شاگردوں کی تنخواہ بارہ روپیہ ماہانہ کردی تھی اس نے بندراین میں گوبند دیوی کا مندر تعمیر کرایا تھا جہانگیر اسلامی تہواروں کی طرح ہندو تہوار بھی منایا تھا جہانگیر بادشاہ نے دیوان چندو لال کی سازش کا شکار ہوکر سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیوسنگھ کو گرفتار کراکر ولاکھ روپیہ جرمانہ کیا تھا مگر گروارجن دیو سنگھ نے یہ جرمانہ ادا کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کی اس کے انکار کرنے پر بادشاہ نے گروجی کو لاہور کی کوتوالی میں بھیجوادیا مگر گروجی کا شدید ترین مخالف چندو لعل مغل کوتوالی کو بہکا کر گروجی کو اپنے گھر لے گیا اور نہایت تکالیف دے دے کر قتل کردیا جہانگیر نے خسرو کے سات سو حمایتی باغیوں کی کھالیں کھنچوا کر موت کے گھاٹ پہنچا دیا تھا جہانگیر نے اپنے بیٹے خرم کو ۱۶۱۷ء میں شاہجہاں کا خطاب دے کر اپنے تخت سلطانی کے برابر ایک صندلی تخت ڈال کر جلوس کرنے کا حکم دیا تھا خاندان تیموریہ اور دوسرے مسلمان بادشاہوں نے اس نے پہلے اپنے تخت حکومت کے برابر کسی دوسرے کا تخت بچھوانا پسند اور گوارہ نہیں کیا تھا۔
۱۵۹۱ء میں شاہجہاں مارواڑ کے راجہ اودھے سنگھ کی بیٹی جگت گسائی کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۱۶۰۸ء کے دوران شاہجہاں کی شادی یمین الدولہ آصف خاں کی بیٹی ممتاز محل سے ہوئی تھی اس وقت شاہ جہاں کی عمر اکیس سال اور ممتاز محل کی عمر انیس سال تھی شاہجہاں کو اپنے اس بیوی سے محبت ہی نہیں بلکہ والہانہ عشق بھی تھا۔​
(جارہی ہے)​
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

تاریخِ سہارنپور
(قسط نمبر۷)​
۱۶۲۷ء کے دوران سلیم نورالدین جہانگیر بادشاہ وفات پاگیا جہانگیر کی وفات کے بعد شہزادہ خرم شاہجہا کے لقب سے تخت نشین ہوگیا اس نے اپنی تاجپوشی کے وقت اُمراء وزراء درباریوں اور سپہ سالاروں کو انعامات اور خطابات عنایت کئے ۱۶۳۱ء کے دوران ملکہ ممتاز محل کی وفات برہانپور میں ہوگئی۔ اس کی موت ایک بچی جس کا نام گوہر آراء بیگم تھا کی ولادت کے وقت ہوئی تھی شاہجہاں اس صدمہ کو اپنے آخری سانس تک بھلا نہ سکا اس وقت تو ملکہ ممتاز محل کو برہانپور ہی میں سپردخاک کردیا گیا تھا۔ مگر چھ ماہ بعد اس کی میت کو قبر سے نکال کر آگرہ میں دفن کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ملکہ ممتاز محل نے شاہجہاں سے اپنی آخری خواہش میں کہا تھا کہ میرا مقبرہ ایسا تعمیر کرانا جورہتی دنیا تک خاوند اور بیوی کی محبت کی داستان بنی رہے اور یہ یادگار اپنی مثال آپ ہی ہو۔ شاہجہاں نے ۱۶۳۱ء میں تاج محل کی تعمیر شروع کراکر ۱۶۴۸ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچائی اس کی تعمیر پر روزانہ تیس ہزار آدمیوں نے کام کیا۔ اس کی تعمیر پر اس زمانے میں پچاس لاکھ روپیہ خرچ ہوا تھا شاہجہاں کے زمانے میں ایک روپیہ میں عمدہ چاندی بارہ گرام ملتی تھی اور سونے کی قیمت چودہ روپیہ تولہ تھی اس تاج محل کا دنیا کے سات عجائبات میں شمار ہوتا ہے اس بادشاہ کو عمارتیں بنوانے اور باغات لگوانے کا بہت ہی شوق تھا اس نے سینکڑوں عمارتیں اور باغات لگوائے اس کو ایران، ٹرکی، عرب اور یونان سے عمارتی گلکاری اور خطاطی کے ماہر فن استاذ شاہجہاں کی ملازمت میں داخل ہوکر اپنے فن کا کمال ظاہر کرکے انعامات پائے تھے ۱۶۳۸ء میں شاہجہاں بادشاہ نے دہل میں لال قلعہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ۱۶؍اپریل ۱۶۴۸ء کے دن اس قلعہ کا سنگ بنیاد رکھاتھا اور اپریل ۱۶۴۸ء میں اس عجوبۂ روزگار قلعہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تھی اس قلعہ کے دہلی دروازے پر دوطرف سیاہ پتھر کے دو ہاتھیوں کے مجسّمے ہیں اور ان کے پیروں میں بھاری بھاری زنجیریں ڈالی گئی تھیں۔
اس بادشاہ نے اپنے لئے تخت طاؤس بنانے کا حکم دیا تھا ۱۶۳۶ء میں تخت طاؤس بنانا شروع کیا گیا تھا اور سات سال کی جانفشانی اور ہنرمندی کے ذریعہ یہ تخت طاؤس بنکر تیار ہوا تھا اس تخت کی چھت زمرد کے بنے پارہ ستونوں پر رکھی گئی تھی اور دوناچتے موروں کی تصوریں تیروں اور جواہرات سے بنائی گئی تھیں اس تخت جیسا کوئی دوسرا راج گدی کا تخت آج تک کسی بادشاہ نے نہیں بنوایا ۱۷۳۹ء کے دوران نادر شاہ درّانی اس تخت کو زیردستی اٹھواکر ایران لے گیا تھا اس زمانہ میں مغلیہ خاندان کا محمد شاہ (رنگیلا) ہندوستان پر حکومت کررہا تھا اس تخت کی تیاری کیلئے شاہجہاں نے بادشاہی خزانے سے ایک لاکھ تولہ سونا اور اسی لاکھ کے جواہرات شاہی جواہر خانے سے نکلوائے تھے تقریباً ایک کروڑ روپیہ اس پر خرچ ہوا تھا۔
اس بادشاہ کے دور حکومت میں سینکڑوں ہنرمندوں کے علاوہ استاد علی مردان خاں، استاذ حامد خاں اور ماہر فن استاذ محمود نہایت مشہور انجینئر گذرے ہیں یہ تینوں انجینئر عمارتیں بنانے۔ باغ لگوانے اور نہر بنانے کے چیف انجینئر تھے علی مردان نے ایران سے آکر شاہجہاں کی ملازمت کرلی تھی یہ ۱۶۴۰ء میں لاہور کا صوبہ دار اور کشمیر کا منتظم تھا۔ ۲؍جنوری ۱۶۴۵ء کو یہ کامل کا صوبیدار مقرر ہوا اور امیرالامراء کا خطاب بھی اس کو ملا۔ یہ قابل فخرانجینئر ۲۶؍اپریل ۱۶۵۷ء کو کشمیر میں وفات پاگیا اسی انجینئر نے لاہور انجینئر نے سرمور کی پہاڑیوں کے قریب شوالک پہاڑوں اور مخلص پور کے درمیان ایک بادشاہی شکار گاہ بنانے کے منصوبہ کی منظوری شاہجہاں بادشاہ سے حاصل کرلی تھی اس شکار گاہ میں بادشاہ، شہزادوں، بیگمات اور شہزادیوں کی رہائش کے لئے نئے محلات کی تعمیر اور ایک وسیع پھلدار درختوں کا باغ لگانے کا منصوبہ شامل تھا اس زمانے میں محمد صالح کمبوہ واقعات نویسی کے اونچے عہدے پر وفائز تھا۔ یہ اپنے تحریر کردہ شاہجہاں نامہ میں لکھتا ہے کہ شاہجہاں بادشاہ نے غضنفر علی خاں میرشکار خان عالم اور دوسرے عہدیداروں اور اہل کاروں کی زبانی سن رکھا تھا کہ سرمور پہاڑ کے نزدیک جمنادریا کے کناروں کی آب وہوا نہایت ٹھنڈی ہے اور شدید گرمی کے دنوں میں بھی یہاں کشمیری ہواؤں جیسی ہوائیں چلتی ہیں محمد صالح کمبوہ لکھتا ہے کہ ۱۶۳۵ء میں شاہجہاں نے اپنے لشکر کو لے کر لاہور سے اکبرآباد (آگرہ) کا رخ کیا شاہجہاں نے تجویز کیا کہ لاہور سے سہارنپور، بوڑیہ خشکی کے راستے سے اور سہارنپور بوڑیہ سے آگرے تک جمنا میں کشتیوں کے ذریعہ سفر کیا جائے۔ چنانچہ منصوبہ کے تحت ۲۲؍فروری ۱۶۳۵ء کے دن شاہجہانی لشکر اور بادشاہ کی سواری جمنا کے کنارے بوڑیہ آکر ٹھہری پھر یہاں سے سیروشکار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دارالخلافہ آگرہ کیلئے روانہ ہوئی۔ اس زمانے میں رستم خاں دکنی جاگیر دار صوبہ سنبھل کا صوبہ دار تھا دوبارہ ۲۴؍جنوری ۱۶۴۵ء کو بدھ کے دن شاہجہاں کی سواری لاہور اور کشمیر جانے کیلئے متھرا میں ٹھہری اس بار بھی شاہجہاں نے متھرا سے بوڑیہ (سہارنپور) تک کا سفر دریائے جمنا میں کشی کے ذریعہ کیا شاہجہاں بادشاہ نے اپنی تخت نشینی کے موقع پر سکندر خاں عرف خان عالم امیر شکار کو چھ ہزار پید اور پانچ ہزار گھوڑسوار فوج رکھنے کی سند دے کر سہارنپور کا فوجدار مقرر کردیا تھا اور رستم خاں دکنی کو بہار کی گورنری سے ہٹاکر خان عالم کو بہار کا گورنر مقر ر کردیا تھا خان عالم نے اس زمانے میں ڈھمولا ندی کے کنارے پر مسلمان قافلوں اور لشکروں کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ایک مسجد تعمیر کرائی اوراس کی تعمیر کی نگرانی رستم خاں دکنی نے کی اور مسجد اس مسجد کے سامنے ایک ایسی سہ دری بھی بنائی گئی جس میں بیکوقت ایک سو مسافر رہائش کرسکیں سہ دری کی حفاظت کی ذمہ داری شیخ پورہ کے جاگیردار کے سپرد ہوئی ۳۳۰۰ ہزار تین سوروپیہ کی رقم خرچ ہوئی تھی ۱۶۳۵ء میں غضنفر علی خاں سہارنپور کا فوجدار اور منتظم تھا شہاجہاں نے غضنفر علی خاں فوجار کو جمنا کے نارے پر مجوزہ شکار گاہ کی تعمیر کا کام سونپا بادشاہ نے ہدایت کی کہ جلد سے جلد اس شکارگاہ کے منصوبے کو مکمل کیا جائے شکار گاہ کے نشیمن (Resthuos) کیلئے محل، خواب گاہ، غسل خانہ، جھروکہ، درشن گاہ اور بارگاہ خاص وعام کی تعمیر اور پھلدار درختوں کا ایک وسیع باغ لگانا تھا اس منصوبے میں باغ کی سینچائی کی ضرورت کو پورا کرنے اور شکار گاہ کی خوبصورتی بڑھانے کیلئے ایک نہر کا بنانا بھی شامل تھا چنانچہ بادشاہ نے غضنفر علی خان کو اس منصوبے کا انچارج اور خواب دہ مقرر کرکے علی مردان خاں ماہر نہر، استاد محمود ماہر تعمیرات اور فن باغبانی کے شہرۂ آفاق حامد جیسے انجینئر کو اس کے ماتحت کردیا غضنفر علی خاں نے شکار گاہ کے تعمیری اور باغبانی کیمنصوبہ کو جلد سے جلد مکمل کرنے کے ارادے سے نہایت زور شور سے کام شروع کردیا۔ ۲۹؍اپریل ۱۶۵۴ء کے دن غضنفر علی خاں کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ پرگنہ چوراسی (بھگوانپور) کے علاقہ میں ایک نہایت لمبے دانت والا ہاتھی پہاڑوں سے اُتر آیا ہے اور دیہات کے باشندوں اور کاشتکاروں کو جانی، مالی نقصا پہنچا رہا ہے بادشاہ شاہجہاں نے اس ہاتھی کو پکڑنے کیلئے کئی شکاری ہاتھی معہ ضروری سامان کے پرگنہ چوراسی میں روانہ کئے اور اس عملہ کو ہدایت کی کہ مزید امداد غضنفر علی خاں سے لے کر اس ہاتھی کو پکڑ کر رعایا کو امن وسکون عطا کیا جائے شاہی شکاری دستہ اس ہاتھی کو پکڑ کر دہلی لے گیا۔ بادشاہ اس ہاتھی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کو فیل خانہ میں داخل کرنے کا حکم دیا۔
۱۵؍اگست ۱۶۵۴ء کو کسی کے ذریعہ معلوم ہوا کہ مخلص پور (فیض آباد) کی شکار گاہ کی تعمیر میں سست روی برتی جارہی ہے چنانچہ بادشاہ نے غضنفر علی خاں فوجدار ومنتظم سہارنپور کو شکار گاہ کی تعمیر کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا اور محمد حسین بیگ خاں کو یہ ذمہ داری سونپ دی ۱۶۵۶ء میں بادشاہ نے اصالت خاں کے بیٹے محمد ابراہیم کو اس شکار گاہ کے کام کا جائزہ لے کر رپورٹ کرنے کی غرض سے مخلص پور بھیجا محمدابراہیم نے مخلص پور جاکر اس شکار گاہ کے کام کی رفتار کا جائزہ لیا اور بادشاہ کو رپورٹ دی۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ منصوبہ کی تیاری کا کام اتنا تسلی بخش طریقہ سے نہیں ہورہا ہے۔ جتنا کہ غضنفر علی خاں کے زمانہ میں ہورہا تھا شاہجہاں نے اس رپورٹ کو پڑھ کر محمد حسین بیگ کو یہاں سے ہٹاکر پھر دوبارہ غضنفر علی خاں کو ہہی اس منصوبہ کی تکمیل کی ذمہ داری سونپ دی۔
جنوری ۱۶۵۷ء میں بادشاہ کو معلوم ہوا کہ اس شکار گاہ کی کچھ عمارتیں مکمل ہوگئی ہیں چنانچہ ۱۶؍فروری بروز جمعہ شاہجہاں مخلص پور کیلئے روانہ ہوگیا یہ جمنا کے کنارے کنارے سیروتفریح کا لطف اٹھایا اور شکار کھیلتا ہوا بارہ مارچ ۱۶۵۷ء میں بنائی تھی بادشاہ نے اس شکار گاہ میں بنائے گئے محل ، دولت خانہ، خواب گاہ، غسل خانہ، جھروکہ، درشن گاہ اور دربار خاص وعام کی تعمیرات کو دیکھ کر نہایت خوش ہوا شاہی باغ میں لگے پھلدار درخت، پھولوں کی روشوں اور وہ نہر جو باغ کی سینچائی اور عمارتوں کے چاروں طرف گھوم کھا جانے کیلئے بنائی تھی کہ دیکھ کر اپنی مسرت کا اظہار کیا اور عملہ کے کام کو سراہا حالانکہ اب بھی اس شکارگاہ میں کئی دوسرے کام باقی تھے اور ان کاموں پر مزید ایک لاکھ روپیہ خرچ ہونے کا اندازہ تھا جتنا کام مکمل ہوچکا تھا۔ اس پر پانچ لاکھ روپیہ خرچ ہوچکا تھا اس نشیمن کا خاکہ اس طرح پر تھا۔
دولت خانہ کی تعمیر جمنا دریا کے پانی کی سطح سے نوگز یعنی ستائیس فٹ اونچی کرسی دے کر بنائی گئی تھی یہ نہر عمارتوں کے چاروں طرف گھماکر اس میں آبشار اور فوارے بنائے گئے تھے اس باغ میں چالیس مربع گز کا ایک حوض تھا باغ کی چار روشوں میں چھ گز یعنی اٹھارہ فٹ چوڑی نہر بنائی گئی تھی۔ شاہجہاں نے یہاں پر شدید گرمی کے موسم میں ٹھنڈی اور فرحت بخش ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہوکر کہا تھا کہ واقعتا اس جگہ پر ہوا کشمیر کی آب وہوا کے معیار پر چل رہی ہے شاہجہاں نے اس پُرکیف عالم میں مخلص پور کو فیض آباد کے نام سے شاہی کاغذات میں لکھنے کا حکم دیا اور اس شکارگاہ کی حفاظت اور مرمت کے خرچہ کیلئے پچھتّرہزار روپیہ سالانہ کی آمدنی کے مزید علاقے پرگنہ فیض آباد میں شامل کردئیے شاہجہاں اس شکارگاہ کے محل وقوع خوبصوتی اور آب وہوا سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے اپنے پوتے شاہ بلند اقبال کو دولاگھ اور سلطان سلیمان شکوہ کو ایک لاکھ روپئے دئیے تاکہ وہ اپنی اپنی پسند کی حویلیاں اس شاہی شکارگاہ میں تعمیر کرائیں شاہجہاں کا دور حکومت اس اعتبار سے سے تمام مغل بادشاہوں سے ممتاز ہے کہ اس کے زمانے میں تاج محل، موتی مسجد آگرہ، لال قلعہ کے آخری دومہینوں میں شاہجہاں کے بیمار پڑجانے کی وجہ سے اس کے چاروں بیٹوں داراشکوہ، شاہ تشجاع مراد اور اورنگ زیب کے درمیان سلطنت پر قبضہ حاصل کرنے کی خاطر خانہ جنگی شروع ہوگئی ۱۶۵۸ء میں آخر کار اورنگ زیب اور مراد کی چالیس ہزار فوجیوں کے لشکر نے شاہ شجاع اور داراشکوہ کی ایک لاکھ فوج کے لشکر کو آگرہ سے بیس کوس مئی ۱۶۵۸ء میں باغ اعزا آباد کے مقام پر اورنگ زیب کی تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی اور محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیر کا لقب اختیار کیا اس نے تمام شاہی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر شاہجہاں کو آگرے کے قلعہ میں نظربند کردیا شاہجہاں تخت سے معزولی ہونے کے ساتھ سال بعد ۱۶۶۶ء میں وفات پاگیا۔ شاہجہاں بادشاہ اپنے زمانے کا ایک خداترس، نیک دل، فیضا طبع حکمراں تھا اس کا دست فیض رساں ہمیشہ دولت لٹا رہا۔ اس نے کروڑوں روپیہ اپنوں اور غیروں پر تقسیم کیا۔ لاکھوں روپیہ مدینہ منورہ بھیجا۔ عید اور بقرعید کے دن جتنی دولت اس نے لٹائی اتنی کسی دوسرے کے حکمراں نے کبھی خیرات نہیں کی عیاشی اور بداکاری سے اس کو سخت نفرت تھی گویہ کبھی کبھی شراب پی لیتا تھا مگر شرابی نہ تھا۔ شاہجہاں پر مذہب اسلام کا غالب اثر تھا اس نے بڑی بڑی نفیس مسجدیں بنوائیں یہ اپنی نظر بندی کے دوران تو بالکل سچا عابد اور زاہد بن گیا تھا اس کی زندگی اول سے آخر تک نہایت صاف وپاک رہی۔ شاہجہاں کی لاڈلی بیٹی جہاں آراء نے اپنی پرسکون عیش وآرام کی زندگی کو خیرباد کہہ کر باپ کے ساتھ نظربند رہنا اور باپ کی خدمت کرنا پسند کیا جہاں آراء نے باپ کی معیت میں ساتھ دے کر ایک ایساریکارڈ قائم کیا جس کی مثال بادشاہی تواریخ میں نہیں ملتی۔
شاہجہاں کی حکومت کے دوران ۱۶۴۴ء میں شہر سہارنپور میں شہر کا عامل غیث بیگ تھا اسی سال شہزادی جہاں آراء کپڑوں میں آگ لگ جانے کی بیماری سے صحت یاب ہوگئی تھی شہر سہارنپور کے امیر لوگوں نے شہزادی کی صحت یابی کی خوشی کا اظہار کرنے کیلئے ایک جامع مسجد محلہ قضیات میں تعمیر کرائی اس مسجد کی تاریخ اول غ دوئم ن اور سوئم د(یعنی غ+ن+د-۱۶۴۴ء ۱۰۵۴ھ) لکھی گئی ہے۔ ۱۷۶۷ء میں سکھوں نے اس مسجد کو آگ لگانے کی ناپاک کوشش کی تھی ۱۶۴۵ء میں جب بادشاہ شاہجہاں آگرے سے لاہور اور کشمیر کی سیر کو جارہا تھا سرساوہ کے زمینداروں اور شاہی ملازمتوں نے جمنا کے کنارے ایک بستی بساکر شاہجہاں پور کے نام سے منسوب کی انبالہ، سہارنپور روڈ آج اسی گاؤں کے نزدیک سے ہوکر جاتی یہ نومبر ۱۶۴۸ء کے دوران شاہجہاں نے دہلی سے خضرآباد تک جمنا میں کشتیوں سے سفر کیا تھا۔
۱۹؍نومبر کو شاہی سواری اور اس لشکر نے اس گاؤں شاہجہانپور کے میدان پر اپنے ڈیرے ڈالے اور اگلے دن کی صبح کو خضرآباد کیلئے سفر کیا۔
شاہجہاں بادشاہ نے علی مردان خاں انجینئر کو جمنا کے پوربی کنارے سے ایک ایسی نہر بنانے کیلئے مقرر کیا تھا جس کا پانی ہوسکے تو غازی آباد تک لے جایا جائے۔ اسی انجینئر نے ۱۶۵۳ء سے ۱۶۵۷ء تک اس نہر کی کھدائی کو جاری رکھا اور یہ نہر موضع غوث گڑھ (متصل جلال آباد وتھانہ بھون) تک مکمل ہوگئی اسی زمانے میں شوالک پہاڑ کے قریب شاہی شکار کی تعمیر جاری تھی کہ ۲۶؍اپریل ۱۶۵۷ء میں علی مردان انجینئر کا کشمیر میں انتقال ہوگیا دوسری طرف سلطنت میں شہزادوں کی خانہ جنگی نے اس نہر اور شاہی شکار گاہ کی تعمیر کو پایۂ تکمیل تک پہنچنے نہ دیا سلطنت کے وارث شاہجہاں کے بیٹے اورنگ زیب نے ان منصوبوں کو پورا کرانے کی طرف بالکل دھیان نہ دیا۔ میرے خیال میں اورنگ زیب نے ان منصوبوں کو ادھورا رکھ کر قومی اور ملی جرم کا ارتکاب کیا۔ اورنگ زیب کی یہ لاپرواہی دوراندیشی سے خالی اور باپ کی دلی خواہش کے منافی تھی ملک وملت کے حساس دل رکھنے والے دانشور اورنگ زیب کی اس حرکت کو ہمیشہ ہی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے رہیں گے اور اس کی بدذوقی کو کبھی نہ کیا جائے گا اس نے تو شاہی شکار گاہ میں مکمل عمارتوں اور باغیچوں کی حفاظت کی طرف بھی مطلق دھیان نہ دے کر قابل مذمت کام کیا ہے کاش یہ نام نہاد ولی بادشاہ ان دریابردی سے محفوظ کرلیتا تو آج اس شکار گاہ کی عمارتیں اپنی مثال آپ ہوئیں اورنگ زیب نے کالکا کے نزدیک پنجور میں لاہور کے اپنے صوبہ دار قدر خاں سے ایک شکار گاہ تو بنوائی مگر باپ کی بے مثال شکارگاہ کی حفاظت کرنے میں کوتاہی برت کر اپنی تنگ نظری اور خود پرستی کا ناقبل معاف اور قابل مذمن مظاہرہ کیا کٹّر ہندو اور کٹّر مسلم مؤرخوں اور سیاسی لوگوں کو اورنگ زیب کی اس حرکت پر غور کرکے فیصلہ کرنا چاہئے کہ اورنگ زیب کتنا ہندو دشمن یا مسلمان پرور تھا جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ علی مردان انجینئر کے سپرد شاہی شکارگاہ اور جمن شرقی نہر (بڑی نہر) کی تکمیل کی ذمہ داری تھی اس نے شہر سہارنپور میں ۱۶۵۴ء کے دوران دہلی، سہارنپور کے درمیان ان شاہی کاریگروں اور افسروں کے ٹھہرنے کیلئے ایک سرائے تعمیر کرائی جوشکارگاہ مذکورہ نہر کے سلسلے میں دہلی اور سہارنپور کے درمیان کام کرنے آتے جاتے تھے اس سرائے میں بیکوقت ایک سو سوار لوگوں کے ٹھہرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی جس جگہ یہ سرائے تعمیر ہوئی تھی آج اس کو سرائے مردان علی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
یوں تو اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہجہاں کی زندگی ہی میں سلطنت پر قبضہ کرکے اس کو آگرہ کے قلعہ میں نظر بند کردیا تھا۔ اور مئی ۱۶۵۳ء میں رسمی طور پر تخت نشین ہوگیا تھا مگر پوری سلطنت کے حالات کو اپنے موافق بناکر ۱۶۵۹ء میں بڑے تزک واحتشام سے اورنگ زیب نے اپنی تاجپوشی کا جشن منایا اور ابوالمظفر محی الدین محمد اورنگ رزیب بہادر عالمگیر غازی کا لقب اختیار کیا جب ۱۶۵۸ء کے دوران اجین کے قریب دارا شکوہ کے سپہ سالار راجہ جسونت سنگھ کی فوج کو اورنگ زیب نے شکست دیدی تھی اس زمانے میں دارا شکوہ کا لڑکا سلیمان شکوہ کو لکہ بھیجا تھا کہ تم اور باقی بیگ عرف بہادر خاں دریائے گنگا کو درہ کوہل اور دریائے جمنا کو دمجھیڑہ بوڑیہ کے گھاٹوں سے پاکر رکے مجھ سے سرہند یا لاہور آن ملو۔ اور یہی مشورہ سلیمان شکوہ کو سادات بارہ کے سید صلابت خاں نے دیا تھا مگر اورنگ زیب کی نقل وحرکت اور ناکہ بندیوں کے باعث وہ ان دریاؤں کو مذکورہ گھاٹوں سے عبور نہ کرپایا سری نگر پہنچ گیا اور وہاں پر سلیمان شکوہ گرفتار ہوگیا اورنگ زیب نے اپنے دور حکومت میں شیخ باکا محمد کو شہر سہارنپور بخش کر شہر کا منتظم مقرر کردیا تھا شیخ باکا محمد مسراۃ عالم کا مصنف تھا اس نے مسراۃ عالم میں اورنگ زیب کی سوانح عمری لکھی تھی یہ اس علاقے مین اپنے زمانہ کا مشہور ادیب اور عالم تھا شیخ باکا محمد نے رائے والا تالاب کے آس پاس کالونی بسائی اور کئی ایک مسجدیں تعمیر کرائیں اور کنویں بنائے۔ شیخ باکا محمد ستاون سال کی عمر میں ۱۶۸۳ء میں مرگیا۔ گتہ مل اور لارڈ شنامل کے قریب آج بھی اس کا مزار دکھائی پڑتا ہے۔
(جارہی ہے)​
 

مفتی ناصرمظاہری

کامیابی توکام سے ہوگی نہ کہ حسن کلام سے ہوگی
رکن
RE: تاریخ سہارنپور (قسط دوم)

شکریہ عثمان بھائی!اس حسین وجمیل پوسٹنگ کے لئے بہت بہت شکریہ۔مرتب صاحب مرحوم نے بہت ہی محنت سے منتشریادوں کویکجاکرکے ہم لوگوں پربڑاکرم کیاہے۔اورآپ اس کوبالاقساط پوسٹ کرکے مزیدشکریہ کے مستحق ہیں۔
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
Bismillah.gif
تاریخ سہارنپور
(قسط نمبر۸)
دوسری تیسری جمادی الاول ۱۰۷۲ھ کو اورنگ زیب عالمگیر نے خان خا خان عرف خان سپہ سالار کی قیادت میں میر مرتضیٰ کو توپ خانہ دلبر خان کو ہرا دل، رشید خاں وآغر خاں کو نائب سپہ سالار بناکر آسال کو فتح کرنے پر مقرر کیا ان بہادروں اور وفا شعاروں نے بڑی جدوجہد اور جانفشانی سے سلطنت آسام کو فتح کرکے اورنگ زیب کی حکومت میں شامل کردیا اس لڑائی کے دوران ۴۶۳ مختلف قسم کی کشتیاں ۷۳۹ توپیں جن میں ۶۵ آہنی توپیں تھی اور ایک آہنی بچہ دارتوپ ایسی تھی جس میں تین من بارود کا گولہ چلتا تھا ۱۳۴۳ زنبورک ۲۰۰ رام چنگی ۶۵۷ بندوقیں ۳۴۰من بارود کا کھلا ذخیرہ ۱۹۶۰ بکس بارودی ایسے جن میں ہر ایک میں ڈھائی ڈھائی من بارود بھری تھی ۷۲۸ سپر، شورہ گوکھرو آہنی وسرب، ۸۰ ملاح ۸۲ ہاتھی ۳۰ لاکھ کا سونا چاندی ۱۷۳ غلہ کے گودام جن میں چاول، آرڈ، اور ماکولات بھرا تھا سامان غنیمت ہاتھ آیا۔
اورنگ زیب کا دور حکومت بڑا ہی عجیب رہا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اورنگ زیب کی تخت نشینی بھی میدان جنگ میں ہوئی اور جب یہ مرا اس وقت بھی دکن کے میدان جنگ میں تھا اور اس کی تجہیز وتکفین وتدفین بھی میدان جنگ ہی میں ہوئی تھی۔ ۲۰؍فروری ۱۷۰۷ء کے دن یہ حکمراں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
کٹّر ہندو مؤرخوں نے اورنگ زیب کو ہندودشمن اور مندر شکن ثابت کرنے کیلئے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا دوسری طرف بعض مسلمان مؤرخوں نے اورنگ زیب کو زاہد، متقی ہی نہیں بلکہ ولی اللہ پہنچا ہوں کہ اورنگ زیب نہ تو ہندودشمن اور مندر تشکن تھا اور نہ وہ کوئی ولی اللہ یا زاہد تھا وہ عام حکمرانوں سے کچھ ہٹ کر شکی دماغ بادشاہ تھا وہ اپنی حکومت کے خلاف پیدا ہونے والی ہررکاوٹ کو نہایت سختی اور بیدردی سے اکھاڑ پھینکتا تھا۔ اگر یہ ہندودشمن ہوتا تو پھر اس کی فوج کے بیرسنگھ، راجہ امرسنگھ، کیرت سنگھ التمش، راجہ ماروجی، راجہ پہلا دھی، نیتاجی اور اودے بھان سنگھ یہ سولہ ہندوسپہ سالار کیوں ہوتے؟ اورنگ زیب کامل جیسے سو فیصد مسلم آبادی والے صوبہ کا راجہ جسونت سنگھ کو کیوں صوبیدار بنایا۔ اسی راجہ جسونت سنگھ کو شیواجی کے مقابلہ پر فوج کشی کرنے کیلئے کیوں مقرر کرتا۔ ہندوستان سب سے بڑا مؤرخ سرجادوناتھ مغل تاریخ میں اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے بنگال اور دوسرے صوبوں کے کئی مندروں کو جاگیر میں زمین بخشش کیں اور ہندوؤں کو منصب دار اور گورنر مقرر کئے ۱۶۸۸ء میں بنارس کے عامل (کلکٹر) کو اورنگ زیب نے اپنے فرمان کے ذریعہ ہدایت کی کہ جو زمین مندر کو الاٹ کی گئی ہے اس پر مندرر کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ ہرگز نہ پیدا ہونے دینا ۱۶۵۹ء میں اورنگ زیب نے ایک حکم جاری کیا کہ بنارس کے کسی بھی برہمن کو اس کے مذہبی کام کی ادائیگی سے نہ روکا جائے اگر کسی بادشاہی ملازم یار غایا کے کسی آدمی نے اس ہدایت کے خلاف کام کیا تو نہایت سخت وعبرتناک سزادی جائے یہ حقیقت ہے کہ جو ہندویا مسلمان اس کی حکومت کے خلاف ذرا سا بھی کام کرتا یا اس کو کسی پر شک ہوجاتا تو وہ اس کو عبرتناک سزا دیتا مصلحتوں کیلئے باپ کو سالت سال تک نظر بند رکھا اور اپنے تاج وتخت کی حفاظت کی خاطر اپنے بیٹے (ولی عہد) سلطنت محمد سلطان کو جیل میں ڈاخل کر موت کے منہ میں جھونک دیا اپنے حقیقی بھائیوں اور بھتیجوں کو قتل کرایا پھر وہ اپنے مخالف یا کسی دوسرے کو کس طرح بخش سکتا تھا یہ حقیقت ہے کہ وہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ دیندار اور اسلام پرست تھا۔ جس نے اپنی حکومت کو قائم رکھنے کی خاطر اپنے بھائی مراد کو قید کیا ہو دوسرے بھائی داراشکوہ کو قتل کراکر اور ہاتھی پر اس کی لاش کو رکھ کر سارے شہر میں دکھایا ہو اور اپنے بیٹے محمد سلطان کو قید کردیا ہو اور وہ بیٹا قیدہی میں مرگیا ہو اپنے بھتیجے سپر شکوہ کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا ہو اپنے باپ جیسی لائق احترام ہستی کو قید میں نظر بند کردیا ہو اپنی بہن جہاں آراء کو نظر بند کردیا ہو بھلا وہ کسی طرح زاہد متقی اور ولی اللہ ہوسکتا ہے اورنگ زیب کی مذہبی رواداری کے متعلق انگریز مؤرخ کپتان ہملٹن لکھتا ہے سلطنت کا مسلمہ مذہب اسلام ہے لیکن تعداد میں مسلمان دس فیصدی ہیں اور غیرمسلموں کے ساتھ نہایت رواداری برتی جاتی ہے ہندو اپنے برت رکھنے اور تہوار منانے میں بالکل آزاد ہیں اور یہ لوگ اسی طرح سے مذہب کی ادائیگی میں آزاد ہیں جس طرح وہ پچھلے زمانے میں ہندوراجاؤں کی حکومت میں آزاد تھے یہی مؤرخ آگے چل کر لکھتا ہے کہ سورت شہر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ان کے عقائد جدا جدا ہیں اور طریقۂ عبادت بھی بہت مختلف ہے مگر طریقۂ عبادت یا اختلاف عقائد کی بناء پر ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں اور کوئی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ مذہبی جھگڑا یہاں نام کو بھی نہیں۔ اقتدار وحاکمیت کے بارے میں کئی ایک دوسرے سے دست وگریباں ہی نہیں بلکہ قتل وبربادی کو اپنا حق تصور کرتے ہیں اسی طرح مسٹر چارلس گرانٹ لکھتا ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے اپنی حکومت کے دوران ہندوؤں کی قدیم تہذیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ محمد بن قاسم کی حکومت میں ہندوزیادہ تر عہدوں پر فائز تھے ۱۹۷۹ء کے دوران مجھ کو الہ آباد ہائی کورٹ میں جانے کا موقع ملا مجھ کو وہاں کے دستاویزی میوزیم میں اورنگ زیب کے ایک فرمان کو پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس فرمان میں مندر کی دیکھ بھال کیلئے زمین کی آمدنی کا عطیہ دیاگیا ہے یہ حقیقت ہے کہ اورنگ زیب شریعت اسلام کی طرف جھکا ہوا تھا اور وہ شریعت اسلامی اور قانون اسلامی پر کاربند رہنے کی پوری کوشش کرتا تھا اس اسلامی تعلیم وہدایت کی وجہ سے وہ کسی کی مذہبی ادائیگی کی راہ میں رخنہ نہ ڈالتا کیونکہ اسلام نے انصاف کیلئے ہر قسم کی فرقہ داری، تنگ نظری اور اقرباء پروری کو انصاف دینے دلانے اور حاصل کرنے کی راہ سے رکھنے کی سخت تاکید کی ہے۔ اورنگ زیب نے اپنی زندگی ہی میں حکومت کا انتظام اپنے تینوں لڑکوں کے سپرد کردیا تھا بڑے لڑکے شہزادہ محمد معظم شاہ عالم کو شمالی اور شمال مشرق صوبے اور دہلی کو دارالحکومت کے طور پر استعمال کرنے کی تاکید کی تھی چھوٹے بیٹے کام بخش کو بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاست اور منجھلے لڑکے اعظم شاہ کو آگرہ دکن اور جنوب ومغرب کا سارا علاقہ دیدیا تھا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا جس وقت اورنگ زیب کی وفات ہوئی اس نے اپنے لڑکوں کیلئے اتنی بڑی حکومت چھوڑی جس کی مثال ہندوستان کے کسی ہندوراجہ اور مسلمان حکمراں کے دور حکومت میں نہیں ملتی مگر اتنی بڑی سلطنت کو سنبھالنے کی صلاحیت اس کی اولاد میں نہ تھی اور ایک بھی ایسا نہ نکلا جو اس حکومت کو قائم رکھ سکتا ویسے تو اورنگ زیب کی وفات کے بعد بھی تقریباً ڈیڑھ سو سال تک اسی کے خاندان کے بادشاہ ہوتے رہے۔
اورنگ زیب کو دفن کرنے کے فوراً بعد محمد معظم نے اپنی بادشاہ کا اعلان کردیا محمد معظم عرف شاہ عالم ولی عہد سلطنت اس وقت پشاور میں تھا جب شاہ عالم کو محمد اعظم کی اس حرکت کی خبر ملی تو وہ اپنا لشکر لے کر دہلی کی طرف چل پڑا۔ ۲۰؍اپریل ۱۷۰۷ء کو اس نے بھی اپنی تخت نشینی کا اعلان کرکے شاہ عالم بہادر شاہ کا لقب اختیار کرلیا اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا اور سکہ جاری کردیا اس زمانے میں دو آبے (مظفرنگر، سہارنپور) کے علاقے شاہ عالم کے زیرحکمرانی تھے یا تو مسلم اطین اور بادشاہوں کے دور حکومت میں سہارنپور میں عام طور سے امن وامان قائم رہا یا پھر ایسے مخصوص واقعات یہاں پر ہوئے ہی نہیں کہ جن کو کوئق وقائع اور تاریخ نویس اپنی توجہ کا مرکز بناکر ضبط تحریر میں لاتا یہ تو حقیقت ہے عام طور سے اس دوآبی علاقہ کا انتظام سیدھاد ہلی کے منتظم اعلیٰ ہی کرتے رہے اگر چہ اکبر بادشاہ نے اس علاقہ میں دوسری سرکاروں کو شامل کرکے سہارنپور کا الگ اسے صوبہ بنادیا اور اس کا صوبیدار الگ سے مقرر کردیا جاتا یا میرٹھ اور سنبھل کے صوبیدار کی نگرانی اسی طرح اکبر کی سلطنت کے وارث بھی اسی طریقہ پر عمل کرتے رہے یہ علاقہ اپنی زرخیزی کے باعث بادشاہ کو غلے اور چارے کے گوداموں کا کام دیتا تھا۔ چونکہ سہارنپور صنعتی شہر تونہ تھا مگر اپنی زبرخیزی کی وجہ سے اقتصادی اہمیت کا حامل ضرور تھا اسی وجہ سے یہ شہر معمولی معمولی لوگوں کو بخشش دیا جاتا رہا اور اس شہر کا انتظام ایسے ہی غیر مغروف لوگوں کے سپرد کردیا جاتا رہا اورنگ زیب کی وفات کے بعد محمد معظم عرف شاہ عالم بہادر شاہ اول کے دورِ حکومت میں ۱۷۱۰ء میں سکھوں نے مغل شہزادوں کی خانہ جنگی سے پیدا ہوئی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سہارنپور پر حملہ کردیا مؤرخین سکھوں کے اس حملہ سے پیدا ہوئے اُتار چڑھاؤ کے واقعات کو پہلی بار ضبط تحریر میں لانے کی طرف متوجہ ہوئے اسی طرح سیدوں اور روہیلوں نے ان دو آبی علاقوں (مظفرنگر، سہارنپور اور دہرہ دون) پر اپنی حکومت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی محمد معظم عرف شاہ عالم اور محمد اعظم کے درمیان فیصلہ کن لڑائی آگرہ کے جاجونامی مقام پر لڑی گئی اس لڑائی میں شاہ عالم بہادر شاہ اول کو فتح نصیب ہوئی اور یہ اورنگ زیب کی سلطنت کا مالک بن گیا۔ ۱۷۰۸ء میں شاہ عالم بہادر شاہ اول کو دکن کی بغاوت کو دبانے کیلئے دہلی سے باہر جانا پڑا اور یہ وہاں پر تقریباً دوسال تک بغاوتوں کو دبانے میں لگا رہا ۱۷۱۰ء میں سکھوں نے بندہ بیراگی عرف سچا بادشاہ کی قیادت میں پنجاب میں لوٹ مار اور قتل وغارتگری پھیلادی یہاں تک کہ سرہند کے گورنر وزیر خاں کو شکست دے کر سرہند پر اپنا قبضہ جمالیا اس کے بعد جمنا کے تمام پچھمی علاقہ انبالہ پر بھی قابض ہوگئے ان حالات میں سہارنپور پر سکھوں کا یہ پہلا حملہ تھا۔ سکھوں کا یہ لشکر ابھی سہارنپور تک پہنچ بھی نہ پایا تھا کہ شہر سہارنپور کا عامل علی محمد خاں بھاگ کر دہلی چلا گیا اس کے چلے جانے کے بعد سہارنپور کے باشندوں نے متحدہوکر سکھوں کے مقابلہ کی تیاریاں کیں اور اپنی عورتوں بیٹوں کو بے آبروئی سے بچانے کیلئے خود ہی قتل کردیا کچھ عورتوں نے اپنی عصمت دری کی بے آبروئی سے بچنے کیلئے خود ہی کنوؤں میں ڈوب کر جان دیدی۔ اس زمانے میں پاؤں دھوئی، ندی موجود بازار شہید گنج کے قریب سے گذرتی تھی اس ندی نے اس جگہ پر بہت گہرے غار ڈالے ہوئے تھے سینکڑوں عورتوں نے اس کنڈ میں چھلانگ مار کے خود کو ڈبودیا تھا اس دردناک واقعہ سے اس جگہ کو شہید گنج کہا گیا جب سکھ سہارنپور کی طرف بڑھے تو سہارنپور کے باشندوں نے بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور اس سکھ فوج کے یہاں پاؤں نہ جمنے دئیے لیکن یہاں کے باشندوں کو بے حد جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا سہارنپور کے بعد یہ سکھ لشکر نانوتہ، رام پور، امبیٹھ اور ان کے متصل گاؤں میں لوٹ مار، قتل وغارت گری کرتا ہوا جلال آباد جا پہنچا مگر یہاں کے فوجدار اور جلال خاں اور یہاں کے باشندوں نے سکھوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس لشکر کو شکست دیدی، اس شکست کے فوراً ہی بعد تقریباً اتنای ہی بڑا سکھ لشکر کنجپورہ کے گھاٹ سے دریائے جمنا کو پار کرکے شکست خوردہ سکھ لشکر کی مدد کو آن پہنچا چنانچہ سکھوں کے ان ساٹھ ہزار فوجیوں نے جلال آباد کا چاروں طرف سے محاصرہ کرلیا مگر شاہی، فوج، افغان باشندوں اور جلال آباد کی ہندو مسلم رعایا نے اس سکھ لشکر کے یہاں پھر بھی پیر نہ جمنے دئیے اور یہاں سکھوں کو کوئی خاص کامیابی نہ ملی اگر چہ تمام قصبہ برباد ہوگیا تھا یہ سکھ فوج کرنال کی طرف واپس چلی گئی ۱۷۱۱ء میں سکھوں نے پھر سراٹھایا مگر گڑھ کے مقام پر بادشاہی فوج نے ان کو سخت ماردی بہادر شاہ سکھوں کے غیر انسانی مظالم (عورتوں کی عصمت دری، مسجدوں اور فصلوں کو آگ لگانے) کی وجہ سے اتنا متنفر ہوگیا تھا کہ وہ غیر مسلمان پر ڈاڑھی نہ رکھنے کی پابندی لگانے پر مجبور ہوگیا۔ ۱۷۱۲ء میں شاہ عالم بہادر شاہ اول وفات پاگیا اس کی وفات کے اگلے دن جہاندار شاہ اپنے تینوں بھائیوں کو ٹھکانے لگا کر معزالدین کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ یہ نہایت عیش پرست اور بیوقوف قسم کا انسان تھا اس لئے سب بھتیجوں کو گوالیار کے قلعہ میں قید کردیا اور اپنے بھائیوں کے حمایتیوں کو نہایت بے دردی سے قتل کرایا اس کا ایک بھتیجہ فرّخ سیر سپر عظیم الشان بنگال کا گورنر تھا فرخ سیر نے بہار کے حاکم سید حسین علی خاں اور اس کے بھائی سید عبداللہ حاکم الہ آباد کی حمایت اور امداد سے آگرہ اور کنجپورہ نے کے مقام پر جہاندار شاہ کی فوج کو شکست دیدی اس ہار کی وجہ سے جہاندار شاہ کی گیارہ مہینے کی حکومت ختم ہوگئی اور فرخ سیر ۱۷۱۳ء میں راج گدی کا مالک بن گیا اس نے سید حسین علی خاں کو امیر الامراء اور محمد امین خاں کو اعتمادالدولہ کا خطاب دیا اس بیوقوف نے جہاندار شاہ کے حمایتیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کرایا اس نے سید عبداللہ کو وزیر مقرر کیا معمولی شک کی وجہ سے اس نے ہدایت کش شاہ قدرت اللہ کو بھی قتل کرادیا تھا فرخ سیر صرف نام کا بادشاہ تھا ورنہ حقیقت میں سید برادران حکومت کررہے تھے ان سید زادوں نے فرخ سیر کو راج گدی سے معزول کرنے کیلئے راجپوتوں سے سازش کی تھی ۱۷۱۴ء تک تو سکھ خاموش سے رہے مگر بعد میں سکھوں نے پھر سر اٹھانا شروع کیا ۱۷۱۶ء میں فرخ سر نے مغل سردار عبدالصمدخاں کو ایک بڑا لشکر دے کر سکھوں کے فتنہ دبانے کیلئے مقرر کیا اس زمانے میں محمد امین خاں شہر سہارنپور کا فوجدار اور عامل تھا عبدالصمد خاں گورنر لاہور نے دوتین ہزار سکھوں کو اس لڑائی میں قتل کیا اور بندہ بیراگی کو گرفتار کرکے دہلی میں شارع عام پر قتل کرایا۔ اس کمرتوڑ ہار کی وجہ سے سکھ کافی عرصہ تک کوئی فساد کرنے سے مجبور رہے ۱۷۱۹ء میں مرہٹے مذکور سید برادران کی حمایت اور امداد سے دہلی کی حکومت پر قابض ہوگئے انہوں نے فرخ سیر بادشاہ کو گرفتار کرکے اندھا کردیا اور پھر قید میں ڈال دیا۔
اب مرہٹوں نے بہادر شاہ اول کے پوتے شمس الدین ابوالبرکات کو قید خانے سے نکال کر دہلی کی راج گدی پر بٹھادیا۔ پھر مرہٹوں نے تین ماہ کے بعد اس گدی سے معزول کرکے رفیع الدولہ کو شاہجہاں ثانی کی لقب سے گدی نشین کردیا اس کے زمانے میں مرہٹے وہ چادر جس کو شاہجہاں نے اپنی ملکہ ممتاز محل کی قبر پر ڈالنے کی بنوائی تھی لوٹ کر لے گئے تھے۔ شاہجہاں ثانی بادشاہ تین ماہ گیارہ دن کی حکومت کرکے وفات پاگیا اس کے بعد روشن اختر کو محمد شاہ کے لقب سے راج گدی پر بٹھادیا یہ بہار شاہ کا پوتا تھا۔ اور برائے نام یا نام نہاد بادشاہ تھا ورنہ اصل میں رتن چندوزیر ہی حکومت کرتا تھا۔ ابوالبرکات، رفیع الدولہ اور روشن اختر سیدوں، مرہٹوں اور نظام الملک آصف جاہ اور اس کے لڑکے غازی الدین کے کٹ پتلی بنے رہے سیدوں نظام الملک آصف جاہ اور اس کے لڑکے غازی الدین کی نمک حرامی نے مغلیہ حکومت کو غیرمستحکم بنادی، بندہ بیراگی کے قتل کے بعد دوآبہ (سہارنپور، دہرہ دون اور مظفرنگر) کے علاقوں میں سکھوں نے بالکل کوئی جھگڑا اور لڑائی نہیں لڑی در اصل اس امن وامان کی خاص وجہ سادات بارہ کے سرغنہ سید حسین علی خاں اور سیدعبداللہ خاں کی اس علاقہ میں بڑھتی ہوئی فوجی اور سیاسی طاقت تھی اس دور میں نشر پسندوں اور فسادیوں کو فتنہ وفساد پیدا کرنے کی ہمت نہ ہوسکی کیونکہ اس علاقہ میں سیدوں کو حاکم اعلیٰ کی قوت اور حیثیت حاصل ہوچکی تھی لیکن یہ علاقہ ان کی جاگیری حیثیت حاصل کرچکا تھا اور سید حسین علی خاں اس علاقہ کا صوبہ دار بنا ہوا تھا ان سیدوں اور ان کی برادری کے زمینداروں نے بادشاہ کے خاندان اور اس کی رعایا پر جو مظالم توڑیملک کے عوام میں ان کے خلاف سخت قسم کی خاموش نفرت پیدا ہوگئی ۱۷۲۰ء میں حسین علی خاں کو قتل کردیا گیا۔ ۱۷۲۱ء کی جنگ میں سید عبداللہ خاں کو کمرتوڑ شکست نصیب ہوئی اس کو گرفتار کرکے قیدخانہ میں ڈال دیا گیا وہ قید خانے ہی میں مرگیا ان بداندیشوں کا خاتمہ ہوجانے پر بادشاہ نے ان کی ضبط شدہ جائداد محمد امین خاں عرف اعتماد الدولہ کے سپرد کردی محمد امین خاں بادشاہ کے خاص معتمدوں میں سے تھا۔ محمدامین خاں کے دور میں سہارنپور میں آباد روہیلہ تاجروں نے اپنے ہم قوم اور روہیلوں کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کی خاطر ایک ایسی سرائے بنوائی جس میں بیکوقت دوسو آدمیوں کے ٹھہرنے کی گنجائش تھی اور ان کی سواری کے جانوروں کیلئے گندہ نالہ (کرگھی نالہ) کے کنارے کنارے سایہ دار درخت لگائے گئے تھے روہیلہ تاجروں نے اس سرائے کو اپنے روہیلہ سرغنہ سردار داؤد خاں کے نام سے منسوب کیا تھا اس کے زمانے میں روہیلہ سوداگروں کاسہارنپور کی منڈی پر پورا قبضہ تھا محمد امین خاں دوآبے میں نہایت تیزی اور خوش انتظامی سے اپنی گرفت کو مضبوط کرتا جارہا تھا لیکن عمر نے وفا نہ کی اور یہ ۱۷۲۱ء میں ہی وفات پاگیا اس کے مرنے کے بعد امیرالدین وزیر کو دوآبے کا منتظم مقرر کیا گیا یہ بھی محمد امین خاں کی طرح سیدوں کا سخت ترین محالف تھا اس نے سیدوں کو تمام اہم عہدوں سے نکال باہر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ اپنے منصوبہ پر عمل نہ کرسکا۔ کیونکہ یہ پہلے ہی سے سلطنت کے دوسرے کاموں میں الجھا رہا جب اس کو اپنی اس ناکامی کا احساس ہوا تو اس نے رحمت خاں روہیلہ کو سہارنپور کا گورنر بناکر ان سیدوں کی جاگیریں اور جائدادیں ضبط کرنے کی ہدایت کی لیکن رحمت خاں سے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں کچھ غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوگئیں غرض یہ منصوبہہ بالکل ناکام ہوگیا سیدوں کو بادشاہ کے خلاف سازشیں کرنے کا موقع ہاتھ آگیا اور سیدوں نے رحمت خاں کو قتل کرڈالا۔ ایسا ہوجانے سے وزیرامیرالدین کو وہ موقع ہاتھ آگیا جس کی اس کو تلاش تھی اس نے تورانیوں اور روہیلہ افغانوں کا ایک لشکر بناکر روہیلہ سردار علی محمد خاں کی قیادت میں سیدوں کے گڑھ جانسٹھ پر حملہ کرے اس کو تاخت وتاراج کرنے کیلئے بھیجا یہی وہ علی محمد خاں تھا جو سابقہ ریاست رام پور کا نواب اور حکمراں تھا علی محمد خاں نے بھیسانی کے مقام پر سیدوں کے سرغنہ سیف الدین علی خاں کو ایسی کراری شکست دی کی سیدوں کی طاقت چکنا چور ہوکر رہ گئی اور سید لوگ ملک کے دوسرے علاقوں میں چلے گئے اور بالکل خاموش زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے اس کے بعد ملک کے کسی بھی حصہ میں سیدو ں نے سیاست میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حکمران وقت کی اطاعت کرنے کو اپنا شعار بنالیا۔
۱۷۳۸ء میں بادشاہ نے عظیم اللہ خاں کو جو اس علاقہ (مظفرنگر، سہارنپور) میں اچھا اثر رکھتا تھا سیدون کی جائدادوں پر قبضہ دیدیا۔ عظیم اللہ خاں نے از سر نو اس علاقے کا انتظام کیا ۱۷۳۹ء میں ایران کے بادشاہ نادر شاہ درانی جو پہلے ایک ڈاکو تھا اپنی سپہ گری اور قابلیت سے ایران کا بادشاہ بن گیا تھا اس نے پہلے تو کابل اور قندھار کو فتح کرکے اپنی بادشاہت میں شامل کرلیا یہ صوبے بھی دہلی کی حکومت کے ہی زیرنگیں تھے دہلی کے بادشاہ محمد شاہ اور اس کے وزیروں اور درباریوں کو مذکورہ صوبوں کے چھن جانے کی خبر تک نہ ہوئی نادرشاہ جلال آباد اور پشاور کو روندتا ہوا پنجاب آن پہنچا اس نے ہر جگہ خوب لوٹ مار کی گولاہور کے گورنر اور دوسرے شاہی افسران نے نادرشاہ کو روکنا چاہا مگر نادر شاہ کی فوج سب کو شکست دے کر دہلی کی طرف بڑھتی بڑھتی گئی کرنال کے قریب محمد شاہ اور نادر شاہ کی فوجوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور نادرشاہ فتحیاب ہوگیا نادر شاہ نے دہلی میں ڈیڑھ لاکھ انسانوں کا وہ قتل عام کرایا اور لوٹ مار کی جس کو تاریخ رہتی دنیا تک بھلا نہیں سکے گی۔ نادر شاہ نے اٹھارہ دن تک دہلی میں قیام کیا محمد شاہ بادشاہ نے نادرشاہ کو دوکروڑ روپیہ نقد اور ہیرے جواہرات کا نذرانہ دے کر ایران لوٹ جانے پر راضی کرلیا تھا مگر نادر شاہ جاتے وقت تخت طاؤس جس کو شاہجہاں بادشاہ نے بنوایا تھا اٹھاکر اپنے ساتھ ایران لے گیا اور تقریباً بیس کروڑ روپیہ کی قیمت کے ہیرے جواہرات اور دوسری اشیاء کو لدواکر ایران لے گیا اس نے دہلی میں اپنے قیام کے دوران اپنے لڑکے نصیراللہ خاں کی شادی ممد شاہ کی حسین وجمیل لڑکی سے نہایت دھوم دھام سے کی تھی نادر شاہ وعدہ کرکے منکر ہوجانے کا عادی تھا محمد شاہ بادشاہ نہایت عیاش اور عیش پرست بادشاہ تھا ہر روز اس کے دربار میں رنگارنگ کے گانے اور ناچنے کی محفلیں جمتیں اور محمدشاہ ان میں شریک ہوتا اسی وجہ سے اس بادشاہ کو محمد شاہ رنگیلا کے نام سے بھی جانتے اور پکارتے تھے نادرشاہ ایران جاکر قتل ہوگیا اور ایران کی یہ سلطنت اس کے سپہ سالار احمد شاہ ابدال کے ہاتھ آئی اس نے غزنی اور قندھار کو فتح کیا احمد شاہ ابدالی نے کامل کے صوبیدار ناصر خاں سے پانچ لاکھ روپیہ بطور خراج مانگا مگر ناصر خاں نے خراج نے خراج ادا کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ابدالی نے کابل پر حملہ کرکے فتح کرلیا اور ناصر خاں صوبیدار کابل کا پیچھا کرتا ہوا پشاور تک آیا ۱۷۴۷ء میں احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان کی مغلیہ حکومت میں پھیلی ہوئی ابتری اور اور کمزوری کی خبر ملی تو وہ ہندوستان کی طرف متوجہ ہوا اور پنجاب کو لوٹتا اور روندتا ہوا لاہور پہنچا لاہور اور سرہند پر قبضہ کرنے کے بعد ابدالی دہلی کی طرف بڑھتا رہا ابدالی کو ولی عہد سلطنت احمد شاہ نے دہلی سے پرے ہی شکست دیدی ۱۷۴۸ء میں محمد شاہ رنگیلا مرگیا اور راج گدی اس کے بیٹے احمد شاہ کو ملی یہ بھی اپنے باپ محمد شاہ رنگیلے کی ہی عیش پرست حکمراں تھا اس کے زمانے میں صفدر جنگ صوبیدار کی سازش کی وجہ سے مرہٹوں کا دباؤ اودھ پر برابر بڑھ رہا تھا جب احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان کے بادشاہ محمد شاہ کے مرنے کی خبر ملی تو اس نے دوبارہ ہندوستان پر حملہ کردیا ہندوستان کے بادشاہ احمد شاہ نے ایران کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو ملتان اور لاہور کے دوصوبے دے کر صلح کرلی۔ ابدالی کے واپس چلے جانے کے بعد نمک حرام غازی الدین نے مرہٹہ سرداروں سے سازش کرکے احمد شاہ کو گدی سے معزول کردیا اور اندھا کرکے قید خانے میں ڈال دیا۔ اس کمینے نے اس زمانے کے زرخرید مولویوں سے باشاہ کوتخت سے معزول کرنے کے حق میں فتویٰ حاصل کرلیا تھا احمد شاہ کے زمانہ میں مغلیہ حکومت بالکل کمزور ہوچکی تھی کچھ صوبوں پر مرہٹے قابض تھے اور کچھ پر روہیلوں کا قبضہ تھا۔ لاہور اور پنجاب احمد شاہ ایرانی کے تحت تھے جیسا کہ آپ پڑھ چکے ہیں کہ محمد شاہ نے دوآبے کا انتظام اور سیدوں کی جائداد عظیم اللہ خاں کو سونپ دی تھی اس علاقہ پر ابھی وہ اپنی گرفت پوری طرح سے مضبوط نہ کرپاتا تھا کہ اس کا تبادلہ مالوہ کیلئے کردیا گیا اور سہارنپور کا انتظام حفیظ الدین کے سپرد کردیا گیا لیکن دوسال بعد ہی تورانیوں کے سرداروں اور معزالدین نے حفیظ الدین کے خلاف بادشاہ سے شکایت کی اور بادشاہ نے اس کو سہارنپور سے ہٹادیا محمد شاہ کے دور حکومت میں ایک گورنر ظفر خاں عرف روشن الدین تھا اس نے امبیٹھ شاہ محمد باقر کو بخش دیا ٹھا یہ وہ ظفر اں ہے جس نے دہلی کے چاندنی چوک بازار میں ایک چھوٹی مگر نہایت خوبصورت مسجد بنوائی آج بھی اس مسجد کو رشن الدولہ کی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے ی مسجد اپنی خوبصورتی اور تعمیری فن کی بہترین یادگار ہے اور مغلیہ دور حکومت کے عمارتی ہنرمندوں کی یاد دلارہی ہے۔
۱۷۴۸ء میں احمد شاہ کے بادشا بنتے ہی اودھ کے نواب وزیر صفدر جنگ سپہ سالار اور غازی الدین کے درمیان دربار میں اقتدار حاصل کرنے کی خاطر کشمکش پیدا ہوگئی تھی یہ کشمکش پیدا ہوگئی تھی یہ کشمکش دوآبے کے علاقوں پر برتری قائم کرنے کیلئے تھی وزیر صفدر جنگ نے اندرگیر گاؤں سیان کی قیادت میں ایک فوج دوآبے میں لوٹ مار اور گڑبڑ پیدا کرنے کیلئے بھیجی مگر اس فوج کو غازی الدین نے روہیلوں کی امداد سے سہارنپور پہنچنے سے پہلے ہی شکست دیدی۔ روہیلہ سردار محمد علی خاں کی حوت کے بعد صوبیدار صفدر جنگ نے مرہٹوں اور جاٹوں کی حمایت اور امداد سے روہیلوں کو تو اودھ سے نکال باہر کیا مگر اودھ کے علاقوں پر مرہٹوں کا دباؤ بڑھ گیا اور انہوں نے اودھ کو بری طرح سے لوٹا اور برباد کیا اسی زمانے میں سردار نجیب اللہ خاں روہیلہ جو علی محمد خاں کی فوج میں سپاہی کے عہدہ پر ملازم تھا اور اپنی غیرمعمولی سپہ گری کی قابلیت اور اہلیت کے باعث فوج کا سپہ سالار بن گیا تھا یہ علی محمد خاں سابق ریاست رامپور کا بانی تھا اس نے نجیب اللہ خاں کی فوجی اور انتظامی خدمات سے خوش ہوکر گنگا کے کنارے ضلع بجنور میں ایک پرگنہ کی زمین جاگیر میں دیدی تھی بعد میں والیٔ رامپور عی محمد خاں نے بڈھانہ (مظفرنگر) اور کچھ زمین سہارنپور کی بھی دیدی مظفرنگر اور سہارنپور کے یہ پرگنے پہلے سیدوں کی جاگیری ملکیت تھی ۱۷۵۷ء میں نجیب اللہ خاں نے مغلیہ حکومت کی گرتی ہوئی طاقت کا فائدہ اٹھا کر اپنی فوجی کارروائی سے پورے دہرہ دون سہرنپور اور مظفرنگر کے مزید علاقوں پر قبضہ کرلیا اس نے مشرق میں جمنا کے پوربی کنارے پر غوث گڑھ تک اور شمال میں کوہ ہمالیہ کی پہاڑیوں اور جنوب میں گنگا کے کنارے سکرتارپور تک کے علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی جاگیر میں شامل کرلیا اور خود ساختہ نجیب الدولہ کے لقب سے اپنی جاگر کا حکمراں بن گیا اس نے اپنی جاگیر اور اپنی فوجی قلعہ (موجودہ جیل) اور دوسرا قلعہ اپنی رہائش کیلئے اس فرحت باغ میں جو انتظام الدولہ نے اٹھارویں صدی کی دوسری یا تیسری دہائی میں لگایا تھا تعمیر کرایا سردار نجیب اللہ خاں نے فوجی قلعہ (موجودہ جیل) کو تعمیر کراکر احمدگڑھ کے نام سے منسوب کیا تھا یہ عجب حسن اتفاق کہ اس زمانے میں دہلی کی سلطنت کے بادشاہ کا نام بھی احمد شاہ تھا ور ایران کی بادشاہت کا وارث بھی احمد شاہ ابدالی تھا اور شاہ ابدالی والیٔ ایران اس زمانے میں ہندوستان کیلئے درد سر بنا ہوا تھا شاید نجیب اللہ خاں کو یہ سیاسی چال چل کر ایک ہی تیر سے دوشکار کرنے کا خیال آیا ہو سردار نجیب اللہ خاں سے پہلے کسی بھی جاگیر دار صوبیدار نے مستقل طور سے سہارنپور میں اپنی رہائش نہیں کی تھی عوام نے اسی وجہ سے اس رہائشی قلعہ کو نواب گنج کا نام دیا گیا سردار نجیب اللہ خاں کی سیاسی حکمت عملی عالمگیر ثانی اور اس کے وارث کو صفدر جنگ کے پنجہ سے چھٹکارا دلانے میں معاون ثابت ہوئی چنانچہ عالمگیر ثانی نے اپنی بادشاہت کی طرف سے اس کو نجیب الدولہ اور امیرالامراء کا خطاب دیا تھا شاہی دربار میں نجیب اللہ خاں کا اثر ورسوخ بڑھنے لگا عالمگیر ثانی نے غازی الدین سے اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں لیا تھا عالمگیر ثانی نے نجیب اللہ خاں کو پھلے ہی سے شہزادہ علی گوہر کا نگراں اور اتالیق مقرر کیا ہوا تھا غازی الدین نمک حرام کو نجیب اللہ خاں کییہ عزت افزائی ایک آنکھ نہ بھائی اور جلن پیدا ہوگئی غازی الدین چونکہ سپہ سالار ارو وزیر فوج بھی تھا چنانچہ اس نے فوجی کارروائی کرکے احمد شاہ ابدالی کے صوبے ملتان اور لاہور پر قبضہ کرلیا اور سردار نجیب اللہ خاں کو دہلی سے سہارنپور جانے پر مجبور کردیا احمد شاہ ابدالی کو جب پنجاب کے صوبوں کے نکل جانے کی خبر ملی تو وہ ۱۷۵۷ء میں تیسری بار ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور قندھار سے ہوتا ہوا لاہور آدھمکا جب نجیب اللہ خاں کو احمد شاہ ابدالی کا پرزور استقبال کیا اور اپنی وفاداری کا یقین دلایا احمد شاہ ابدالی سردار نجیب اللہ خاں کو ساتھ لے کر دہلی چلا بادشاہی فوجوں سے معمولی سی لڑائی کے بعد احمد شاہ ابدالی نے دہلی کی حکومت پر قبضہ کرلیا اور تمام شاہی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لئے اس نے سردار نجیب اللہ خاں کو سپہ سالار اعظم اور عالمگیر ثانی کا وزیر اعظم مقرر کیا احمد شاہ ابدالی نے محمد شاہ رنگیلے کی حسین وجمیل لڑکی سے اور اپنے لڑکے تیمور شاہ بادشاہ کی بھتیجی سے شادی کی یہ اپنے لڑکے تیمور شاہ کو لاہور ملتان اور ٹھٹھ کا حاکم مقرر کرکے واپس ایران چلا گیا اس کی وطن واپسی کے فوراً بعد غازی الدین نے مرہٹوں کی امداد سے نجیب اللہ خاں کو سہارنپور اپنی جاگیر میں جانے پر مجبور کردیا۔ اسی عرصہ میں شہزادہ علی گوہر ملقب شاہ عالم ثانی دہلی سے کھسک گیا تھا۔ نجیب اللہ خاں نے پھر اس کو خوش آمدید کہا اور اس کی امداد سے بنگال چلا گیا تھا۔ ۱۷۵۹ء میں احمد شاہ ابدالی چوتھی بار ہندوستان میں سکھوں اور مرہٹوں کے فتنوں سے نبٹنے کیلئے آیا یہ لڑائی سکھوں اور احمد شاہ ابدالی کی فوجوں کے درمیان لدھیانہ کے قریب لڑی گئی تھی اس لڑائی میں بیشمار سکھ قتل ہوئے اور قیدی بنائے کئے اس لڑائی کو کولھولگارہ کے نام سے سکھی کتابوں میں جانا جاتا ہے دوسرے سکھ سرداروں کے علاوہ اس لڑائی میں سابق ریاست پٹیالہ کا پانی آلا سنگھ بھی گرفتار ہوا تھا اس زمانے میں احمد شاہ سے اپنے خاوند کو قید سے رہا کرانے کی خاطر رابطہ قائم کیا ارو آخرکار اس نے پانچ لاکھ روپیہ کا نذرانہ دے کر اور احمد شاہ کی اطاعت کا دم بھر کر اپنے خاوند کو احمد شاہ ابدالی کی قید سے آزاد رکرالیا احمد شاہ ابدالی نے اپنے لڑکے تیمور شاہ ہی کی سفارش پر آلا سنگھ کو راجہ کی سند بھی عنایت کردی اب آلا سنگھ ڈاکو یا لٹیرے کی بجائے ایک علاقہ (پٹی) کا راجہ جانا جانے لگا اوراس کی حکومت کو پٹی آلا سنگھ کہا جانے لگا بگڑتے بگڑتے اس کو پٹیالہ کا نام ملا۔ اسی عرصہ میں احمد شاہ ابدالی نے تیمور شاہ کو جہان خان کا خطاب دے کر پنجاب کا گورنر مقرر کردیا تھا اسی بادشاہ نے تھوڑے ہی دنوں بعد سردار آلاسنگھ کو سرہند کا گورنر مقرر کردیا اور مرہٹوں کی سرکشی پر توجہ دی احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کی خوب مرمت کی سکھوں اور مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی کی حمایت میں سردار نجیب اللہ خاں نے اہم رول ادا کیا تھا اس لئے ایک بار پھر نجیب اللہ خاں دہلی کی ابدالی کی حمایت میں سردار نجیب اللہ خاں نے اہم رول ادا کیا تھا اس لئے ایک بار پھر نجیب اللہ خاں دہلی کی سلطنت کا امیر الامراء بنا اور سلطنت کا بخشی بھی مقرر ہوا۔ عالمگیر ثانی کے قتل کے بعد یہی شہزادہ جواں بخت سیرعالی گوہر شاہ عالم ثانی کا نگہبان بنارہا۔۔​
rose.GIF
جاری)​
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
تاریخ سہارنپور
(قسط نمبر ۹)
[align=justify]۱۷۵۹ء کے دوران احمد شاہ ابدلی نے ہندوستان میں اپنا نائب نورالدین خاں کو مقرر کردیا تھا غازی الدین نے احمد شاہ ابدالی کی وطن واپسی کے بعد عالمگیر ثانی کو قتل کراکر شہزادہ عالی گوہر کو شاہ عالم ثانی کے لقب سے تخت شاہی پر بٹھادیا۔ شاہ عالم ثانی نے غازی الدین کی گرفت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی خاطر روہیلہ سرداروں حافظ رحمت خاں دوندے خاں اور شجاع الدولہ صوبیدار اودھ کو اپنے ساتھ ملالیا دوسری طرف غازی الدین نے مرہٹوں کو روہیلوں پر حملہ کرنے کیلئے ابھار اور اپنا لشکر جھانکو کی قیادت میں دوآبے (مظفرنگر اور سہارنپور) کے علاقوں میں لوٹ مار اور فساد بند کرانے کیلئے بھیجدیا مگر جھانکو معمولی سی فوجی جھڑپ ہی میں بجنور کے علاقہ گنگا کے کھادر میں لوٹ مار کرنے اور اپنا اثر قائم کرنے کی خاطر روانہ کردی تھی اس فوج کے خطرے کی وجہ سے سردار نجیب اللہ خاں اپنے مضبوط ترین قلعہ شکر تارپور میں محصور ہونے کی نیت سے گنگا دریا کے کنارے کنارے چل پڑا تھا اس زمانے میں نجیب اللہ خاں کو بہت ہی کٹھن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس پریشانی کی حالت میں سردار نجیب اللہ خاں نے اپنے ہم قوم روہیلہ سرداروں اور وزیر اودھ سے امداد مانگی مگر کسی نے بھی اس کی امداد نہ کی۔
شجاع الدولہ وزیراودھ نے روہیلوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے اور روہیلوں پر اپنی گرفت قائم کرنے کی خاطر روہیل کھنڈ پر حملہ کردیا ایسا لگتا ہے کہ روہیلہ سردار شجاع الدولہ کی اس فوجی کارروائی میں الجھے رہنے کی وجہ سے ہی سے نجیب اللہ خاں کی امداد نہ کرپائے ہوں۔ شجاع الدولہ نے غازی الدین اور اس کے حمایتوں کو روہیل کھنڈ سے نکال باہر کیا سردار نجیب اللہ خاں دریائے گنگا کو ہردوار کے گھاٹ سے عبور کرکے سہارنپور آگیا پ۔نی پت کی جنگ میں کمرتوڑ شکست کے بعد ۱۷۶۳ء میں بھرتپور کے ایک جاٹ سورج مل نے سراٹھایا مگر وہ اس عرصہ میں مرگیا ۱۷۶۴ء میں اس کے لڑکے جواہر سنگھ نے بادشاہ کے خلاف بغاوت کردی مگر نجیب اللہ خاں کی سیاسی حکمت علی سے یہ بغاوت دب کر رہ گئی کوئی بھی مؤرخ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ سردار نجیب اللہ خاں مغلیہ حکومت کی گرتی ہوئی طاقت کو سہارا دینے کیلئے ہر وقت بے لوث خدمت انجام دیتا رہا اس زمانے میں صرف سردار نجیب اللہ خاں ہی ایک ایسا وفاشعار آدمی تھا جو اپنے لڑکے زبیۃ خاں کی مخالفت کے باوجود مغلیہ حکومت کی امداد کرتا رہا۔ اس نے اپنے لڑکے زبیۃ خاں کی شاہ دشمنی کی پالیسی کو کبھی بھی پسند نہیں کیا اور زبیۃ خاں کو بادشاہ کی مخالفت کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کرتا رہا اور اس کے منصوبہ کو ناکام بنانے میں دل وجان سے کوشاں رہا غرض نجیب اللہ خاں کو اپنی لمبی بیماری اور صحت خرابی کی وجہ سے بادشاہی عہدوں سے استعفیٰ دے کر نجیب آباد جانا پڑا وہاں چند سال گذرانے کے بعد ۱۷۷۰ء میں وفات پاگیا اس کے زمانے میں اس کی جاکیر کا افسر اعلیٰ اور سہارنپور کا منتظم (کلکٹر) انورخاں تھا۔ اگر چہ نجیب اللہ ایک بہادر اور منتظم سپہ سالار تھا مگر یہ اپنی جاگیر کو بیرونی حملہ سے محفوظ نہ کرسکا۔
غازی الدین جیسے حاسد مرہٹوں، سکھوں اور جاٹوں کو دوآبے میں لوٹ مار اور فتنہ وفساد کرنے کی خاطر ابھارتے رہتے اور نجیب اللہ خاں کو دہی دربار سے دور رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۱۷۶۲ء میں سردار غریب سنگھ کی قیادت میں سکھوں کی ایک بڑی فوج نے بو ڑیہ، دمجھیڑ اور سرساوہ کے گھاٹوں سے جمنا کو پار کرکے چلکانہ سرساوہ اور اس کے گردونواح میں خوب لوٹ مار کی۔
۱۷۶۴ء میں پھر سکھ فوج نے سہارنپور پر حملہ کردیا سردار نجیب اللہ خاں نے اس سکھ فوج پر نانوتہ اور اسلام نگر کے درمیان حملہ کردیا اور سکھ فوج کو دو حصوں میں تقسیم کرکے شکست دینے میں کامیاب ہوگیا یہ سکھ فوج جمنا کو کنجپورہ (کرنال) کے گھاٹ سے عبور کرکے پنجاب میں واپس چلی گئی۔ اگلے سال سکھوں کے مشہرو بڈھا دل لشکر نے سہارنپور، مظفرنگر یعنی پورے دوآبے میں اپنی فوجی کارروائی سے بھاری تباہی مچائی یہاں تک کہ میرٹھ کے علاقوں کو بھی اپںی لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا نشانہ بناڈالا اس کارروائی میں گوجروں نے بھی سکھوں کی بھرپور حمایت کی تھی اس زمانے میں نجیب اللہ خاں دہلی ہی میں تھا گوروہیلہ سردرا سکھوں کے اس فساد کو دبانے کیلئے دیر سے سامنے آئے مگر پھر بھی روہیلہ سرداروں نے سکھوں کو جمنا پار بھاگ جانے پر مجبور کردیا ۱۷۶۶ء مے سکھ فوجوں نے پھر سردار بھگیل سنگھ اور سردار کروڑا سنگھ کی قیادت میں جمنا دریا کو بوڑیہ اور دمجھیڑہ کے گھاٹ سے عبور کیا یہ سکھ فوج دوآبے کے جنوب ومغرب کے گاؤں اور رام پور، نانوتہ، اسلام نگر قصبوں کو لوٹتی اور برباد کرتی ہوئی میرٹھ کی طرف بڑھتی گئی مگر وہاں کے بادشاہ کی فوج سے سکھ فوج کر لڑائی ہوگئی نتیجہ کے طور پر سکھوں کو ہار نصیب ہوئی ابھی بادشاہی فوج دہلی کی طرف روانہ ہوئی تھی کہ ان سکھ بھگوڑوں نے اسلام نگر، نانوتہ اور رامپور کے دیہات کو لوٹ مار اور بربادی کا نشانہ بنایا مگر نجیب اللہ خاں کی حکمت عملی اور فوجی کارروائی نے سکھوں کی اس فوج میں بھی دراڑ پیدا کردیا اس دراڑ کے پڑجان سے سکھ فوج دوحصوں میں بٹ کر کمزور ہوگئی آخر اسلام نگر کے سامنے سے سکھ فوج نے جمنا کو پار کیا اور پنجاب میں چلی گئی نجیب اللہ خاں کی وفات کے بعد اس کی جاگیر کا وارث اس کا لڑکا زبیۃ خاں بنا۔ زبیۃ خاں (ضابطہ خاں) ۱۷۶۷ء میں مہاراجہ پٹیالہ کی ریاست میں وزارت کے عہدے پر تھا اس نے بھی اپنی جاگیر کا انتظام کرنے کیلئے سہارنپور کو مرکزی حیثیت دے رکھی تھی اس زمانے میں نجیب اللہ خاں کا مقرر کردہ جمال خاں سہارنپور کا عامل (کلکٹر) تھا زبیۃ خاں نے موضع سکروڈھ کے راؤ قطب الدین کو بھگوان کے پرگنہ کا منتظم مقرر کرکے مال گذاری وصول کرنے کی ذمہ داری سونپ دی تھی اگر چہ زبیۃ خاں بھی اپنے باپ کی طرح مغلیہ دربار میں کافی اثرورسوخ کا مالک تھا مگر شاہ عالم ثانی کی اس نے مرہٹوں کے دباؤ ی وجہ سے زبیۃ خاں سے نظر پھیر لی تھی شاہ عالم ثانی کی اس بے التفاتی کی وجہسے زبیۃ خاں دربار میں بے اثر ہوکر رہ گیا زبیۃ خاں نے شاہ عالم ثانی کی اس بے توجہی کو نجیب اللہ خاں کے گھر کی بے عزتی اورتوہین سمجھا اور سہارنپور جاگیر میں چلاگیا دسمبر ۱۷۷۱ء میں اس کو خبر ملی کی مرہٹوں نے دریا گنگا کو ہردوار کے گھاٹ سے پار کرلیا ہے اس نے نہایت پھرتی سے مرہٹوں کا مقابلہ کیا مگر ہار گیا اور سوائے غوث گڑھ کے اس کی ساری جاگیر مرہٹوں کے قبضہ میں چلی گئی اس کے بہت سے ساتھی جنگلوں میں جاکر چھپ گئے اس عرصہ میں ضابطہ خاں (زبیۃ خاں) نے شجاع الدولہ سے امداد مانگی تھی جون ۱۷۷۲ء کے دوران دوآبے میں امن قائم رہا کیونکہ مرہٹے اپنے آبائی گھروں کو جانے کیلئے جلدبازی کررہے تھے مرہٹوں کی واپسی کے بعد زبیۃ خاں کو سنبھلنے کا موقع آگیا اور دوبارہ اپنی جاگیر پر قابض ہوگیا مگر روہیلہ سردار حافظ رحمت خاں شجاع الدولہ کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا اور اس کے قتل ہوجانے سے روہیلوں کی طاقت چکنا چور ہوچکی تھی مگر زبیۃ خاں نے مرہٹوں سے یارانہ گانٹھ کر امیرالامراء کا عہدہ حاصل کرلیا اور دربار شاہی میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی جدوجہد کرنے لگا پھر بھی یہ نجف خاں کے مقابلہ کا نہ ہوسکا اور نجف خاں دربار شاہی پر چھایا رہا یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف بن کر اپنی طاقت کو ہی کمزور نہیں کرتے رہے بلکہ مغلیہ حکومت کی جڑوں پر کلہاڑا چلانے کا سبب بن گئے۔
۱۷۷۴ء میں سردار تارا سنگھ، سردار کھٹک سنگھ، سردار مادھو سنگھ، سرادر صاحب سنگھ، سردار چیت سنگھ اور سردار کھنڈا سنگھ سکھ سپہ سالاروں کی قیادت میں سکھوں کیایک لاکھ فوجی لشکر نے دریائے جمنا کو بوڑیہ، مجھیڑھ، سرساوہ اور کنجپورہ کے گھاٹوں سے پار کرکے پورے دوآبے میں تباہی مچادی، زبیۃ خاں نے سکھ سرداروں کو پچاس ہزار روپیہ نذرانہ دے کر اپنا پیچھا چھڑایا اور اس نے سکھ لوگوں کی دن دونی رات چوگنی بڑھتی فوجی طاقت سے متاثر ہوکر سکھوں سے دوستی کیلئے رابطہ قائم کیا اس نے سکھوں کو اپنی حمایت اور وفاداری کا بھروسہ دلایا زبیۃ خاں شاہ عالم ثانی سے اپنے خاندان کی بے عزتی کا بدلہ لینے کی خاطر سکھوں کا انتہائی حمایتی بن گیا اس نے سکھوں کو اپنی حمایت اور وفاداری کا یقین دلانے کے واسطے اپنا نام دھرم سنگھ رکھ لیا اور سکھوں نے اس کو بخشی کا خطاب دیا ۱۷۷۶ء میں اس نے باشاہ کو مال گذاری ٹیکس ادا کرنے سے انکار کردیا اور کھلم کھلا باشاہ کی مخالفت کرنے لگا یہ اپنے بچاؤ کیلئے غلہ اکٹھا کرنے اور شکرتاپورکے اپنے قلعہ کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں لگ گیا اِدھر مرہٹوں نے دوآبے کے علاقہ نجیب اللہ خاں کی جاکیر میں فوجی کارروائی کردی یہ مرہٹہ فوج شاہی فوج سے جس کی سپہ سالاری نجف خاں کررہا تھا مل کئی زبیۃ خاں نے اپنے اہل وعیال کو معہ متعلقہ ضروری سامان کے گنگا پار بجنور کے علاقہ کی طرف روانہ کردیا اور خود شکرتاپور کے قلع کی طرف کوچ کرگیا یہاں پر وہ حافظ رحمت خاں اور دوسرے روہیلہ سرداروں سے ملا۔ مارچ ۱۷۷۶ء میں سکھوں نے اپنے مخالفوں کو سخت سزاد دینے کا سلسلہ شروع کیا تھا اور نجف خاں کے بھائی عبدالقاسم کو قتل کرکے سارے دوآبے پر قبضہ کرلیا تھا نجف خاں نے پھر ان کو ٹوکا بعد میں سکھوں اور نجف خاں میں باہمی صلح ہوگئی سکھوں کی اس صلح سے زبیۃ خاں کی طاقت کمزور پڑگئی بادشاہ سے اس نے کسی طرح دوبارہ اپنی جاگیر کی سند حاصل کرلی اور سیاست سے دست بردار ہوکر اپنی جاگیر کا انتظام چلاتا رہا سکھوں نے اس کی عہد شکنی کو کبھی نہیں بھلایا اور اس سے بدلہ لینے کے خاطر ۱۷۷۸ء اور ۱۷۸۱ء کے درمیانی عرصہ میں ہر سال دریائے جمنا کو عبور کرکے آتے رہے اور لوٹ مار بھی کرتے رہے مگر ہر بار مرزا محمد شفیع گورنر صوبہ، سہارنپور سکھوں کی راہ میں رکاوٹ بنارہا وہ ان کو کرنال اور انبالہ کے علاقوں میں دھکیلتا رہا۔ ۱۷۸۳ء میں دوآبے مین خشک سالی کی وجہ سے قحط پڑا ہوا تھا سکھوں نے سہارنپور پر اچانک حملہ کردیا اور دل کھول کر اس کے قصبات ودیہات میں لوٹ مار اور کاٹ کی اسی اسی پر بس نہیں کیا بلکہ دہرہ دون میں ہریدوار کے راستے میں گھس کر پوری تباہی مچادی اس زمانے میں زبیۃ خاں بے یارومددگار اپنے غوث گڑھ کے قلعہ میں محصور ہوگیا تھا نہ معلوم کس طرح یہ ان سکھوں سے اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا۔ ۱۷۸۵ء میں یہ بدبخت وبدعہد واحسان فراموش اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے غلام قادر کو عروج حاصل ہوا یہ نہایت کمینہ خصلت اور بددماغ آدمی تھا پہلے تو اس نے اپنے رشتہ داروں اور خاص طور سے اپنے چچا افضل خاں روہیلہ کی جائداد ہڑپ کی پھر اس کے بعد اس نے اپنے دادا نجیب اللہ خاں کی ساری جائداد پر معہ دہرہ دونہ کے قبضہ حاصل کرلیا اس نے غوث گڑھ کے قلعہ کو مضبوط اور محفوظ بنانے پر توجہ دی اس نے بھی اپنے باپ زبیۃ خاں کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سکھوں سے ناطہ جوڑا اور دوآبے میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا سکھوں نے اس کی دوستی کی قدر کی گو یہ حالت بہت تھوڑے عرصہ تک ہی قائم رہی غلام قادر روہیلہ نے بادشاہ کے خلاف کھلے طور پر بغاوت کردی۔ بیگم سمروے سردھنہ کے قریب اس کی جنگ ہوئی اور اس کی شکست نصیب ہوئی شکست کھاکر گنگا پار چلا گیا۔ غلام قادر حملہ کرنے کیلئے پھر لوٹا۔ مرزا نجف خاں پھر بادشاہ کی امداد کو آیا اس موقع پر بھی یہ مقابلہ کی تاب نہ لاکر اپنے علاقہ میں چلا گیا بعد میں غلام قادر اور مرزانجف کے مابین صلح ہوگئی ۱۷۸۷ء میں منصور عی خاں شاہی محل کا انچارج تھا اور اس زمانے میں امیرالامراء کا عہدہ خالی پڑا ہوا تھا اس نے غلام قادر کو امیرالامراء کا عہدہ حاصل کرنے کی دعوت دی منصور علی خاں بھی روہیلہ افغان ہی تھا اسی سال مرزا بخت خاں مرگیا نجف خاں کی موت اور منصور علی خاں کی بادشاہ کے خلاف سازش سے وہ موقع ہاتھ آگیا جس کا وہ خواہشمند تھا اس دور میں بادشاہ کے پردے میں مرہٹے راج کررہے تھے غلام قادر نہایت مغرورانہ انداز سے اپنے لشکر کو سہارنپور سے لے کر دہلی کی طرف چل دیا اس وقت مرہٹے بھی شاہ عالم ثانی کی امداد کو نہ آسکے کیونکہ مرہٹے ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں الجھے ہوئے تھے دہلی پہنچ کر غلام قادر نے منصور علی خاں کی سازش سے شاہی محل اور قلعہ پر قبضہ کرلیا حکومت کا سارا اقتدار غلام قادر روہیلہ اور اسماعیل بیگ کے ہاتھ میں آگیا مرہٹوں کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا بادشاہ پر قابو حاصل کرنے کے بعد غلام قادر نے متھرا جاکر مرہٹوں سے لڑنے کا ارادہ کیا مگر اس کو اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا خزانے کا پیشہ لگانے کی خاطر غلام قادر نے بادشاہ کو مارپیٹ کی اسپر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ بیگمات اور شہزادیوں کے گالوں پر تھپڑ مارمار کر برا حال کردیا اور ان کے جسم پر کوڑے مارے۔ آخر اس کو جب خزانے کا پتہ نہ چلا تو اس بیوقوف، کمینہ اور ظالم نے بادشاہ کی آنکھیں نکال دیں اور اندھا کردیا جب مرہٹوں کو متھرا مے روہیلوں کے ہاتھوں بادشاہ کی اس دُرگکت کی خبر ملی تو مرہٹے اپنا لشکر لے کر متھرا سے دہلی آئے غلام قادر کو جب مرہٹہ فوج کے آنے کی خبر ملی تو یہ میرٹھ کے راستے سے بھاگ کھڑا ہوا مگر مرہٹہ فوج نے اس کا پیچھا کرکے اس کی فوج کو شکست دیدی اور غلام قادر بدہنجار کو گرفتار کرکے متھرا لے گئے مرہٹوں نے مردود غلام قادر روہیلہ کو وہ سزادی جس کا وہ انسانی اور اخلاقی طور پر مستحق تھا مرہٹوں نے اس کا سرمنڈوا کر گدھے پر الٹا سوار کیا اور گھر گھر دکان دکان سے ایک ایک کوڑی منگوائی پھر اس کی زبان کٹوائی اس کے بعد اس کے ہاتھ اور پیر کٹوائے باقی جسم کا لوتھڑا بادشاہ کے پاس دہلی بھجوایا مگر دہلی پہنچنے سے پہلے ہی یہ انسانیت سوز تڑپ تڑپ کر مرگیا مردہ جسم کا لوتھڑا بادشاہ کے سامنے لایا گیا۔ لوگوں نے اس کی لاش کے اس لوتھڑے کا قیمہ کیا اور گندگی کے ڈھیر پر ڈال کر چیل اور کوؤں کو کھلایا گیا کاش اس دنیا کا مالک اور بادشاہ خطا کاروں کو ان کے جرم کے مطابق بلاواسطہ ہروقت موذی کو سزا دے دیا کرے تو پوری دنیا سے ہر قسم کی برائی ختم ہوکر رہ جائے اور انسان تذبذب سے نکل کر نہ مٹنے والی یقین کی حالت میں آجائے۔ اس واقعہ کے بعد اس دوآبے سے روہیلوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا اور مرہٹوں کی بالادستی قائم ہوگئی۔
۱۷۸۹ء میں مرہٹوں نے ضلع باندہ کے غنی بہادر کو سہارنپور صوبے کا گورنر مقرر کیا ۱۷۹۴ءمیں اس گورنر نے جگادھری کے سکھ سردار رائے سنگھ اور شیرسنگھ برہیا کو منگلور کے علاقہ میں کھیتی باڑی کے بہت بڑے بڑے فارم الاٹ کردئیے یہ سردار کچھ عرصہ کیلئے خاموش ہوگئے مگر دوسال بعد ۱۷۹۱ء میں مرہٹوں نے بھیسروں پنت تانیتا کو سہارنپور کے صوبے کا گورنر مقرر کیا اس گورنر نے ان دونوں سکھ سرداروں کو ان کی زمینوں سے بے دخل بناکر کہیں چلے جانے پر مجبور کردیا آخر کار انہوں نے چلکانہ، سلطان پور اور پرگنہ نکوڑ کے کئی گاؤں پر اپنا قبضہ جزوی طور سے جمائے رکھا ان دونوں اور دوسرے ان سکھ سرداروں نے جو کہ ضلع مظفرنگر کے دیہات پر قابض تھے سہارنپور کے گورنر بھرون نپت تانیتا سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے ہم مذہبوں کو سہارنپور کے صوبے میں فتنہ برپا کرنے سے روکنے کے ذمہ دار ہوں گے اور مرہٹہ حکومت کے اطاعت گذار اور وفادار بن کر رہیں گے مگر سکھوں میں پھوٹ پڑجانے کی وجہ سے یہ اپنا وعدہ نہ نبھاسکے ۱۷۹۴ء میں مرہٹہ سردار مادھوجی سندھیا مرگیا سکھوں میں پھوٹ پڑجانے کی وجہ سے یہ اپنا وعدہ نہ نبھاسکے ۱۷۹۴ء میں مرہٹہ سردار مادھوجی سندھیا مرگیا سکھوں نے جمنا دریا کو عبور کرکے دوآبے کے علاقوں میں لوٹ مار کرنی شروع کردی سردار رائے سنگھ نے مرہٹوں کو اپنی امداد کیلئے بلایا مگر مرہٹہ فوج کی ہار ہوگئی اور مرہٹوں کی شکست خوردہ فوج سہارنپور سے جلال آباد کی طرف بھاگ جانے پر مجبور ہوئی پھر لاکو اڈاڈاکو ان بربادشدہ ضلعوں کا چارج لینے کو سہارنپور بھی گیا ۱۷۹۶ء میں لاکواڈاڈانے آئرش جارج تھا مس کو دوآبے اندری کرنال (سہارنپور، مظفرنگر، دہرہ دون) کے انتظام اور سکھوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سپرد کی جارج تھا مس نہایت ہمت والا آدمی تھا اس زمانے میں یہ علاقہ تقریباً بالکل برباد ہوچکا تھا کچہ عرصہ بعد تک توجارج تھامس بابو سندھیا کا دوست اور معاون بن کر رہا بعد میں بابوسندھیا نے سہارنپور کا چارج لے لیا لیکن مذکورہ سکھ سرداروں کے ہم قوم رشتہ داروں نے اس کے انتظام میں رکاوٹیں پیدا کردیں اسی عرصہ میں ترکمان لوگ جو بہرمند علی خاں کی قیادت میں بغاوت کرنے کی تیاریاں کرنے میں معروف تھے جارج تھامس نے لکھنوتی مغل اور شاملی پر فوج کشی کرکے ان کو کچل ڈالا اس نے کرنال کے چار مقامات پر سکھوں کو بھی شکست دید ۱۷۹۷ء کے زمانے میں لاکواڈاڈا نے امام بخش خاں کو سہارنپور کا عامل (کلکٹر) مقرر کیا اور شمبھوناتھ کو جوقوم کا ایک بنیا تھا امام بخش خاں کا نائب منتظم بنایا شمبھو ناتھ نے لاکواڈاڈا کے معتمد کی حیثیت میں جنرل بروں جو علی گڑھ کی فوج کا کمانڈر تھا سے سہارنپور کی فوج کا چارج اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ شمبھو ناتھ نے سکھوں سے رابطہ قائم کرکے جنرل بروں کی فوج کو رشوت دینے کی سازش کی جنرل بیروں کو اس سازش کا بروقت پتہ چل گیا چنانچہ ۱۸۰۰ء میں جنرل بیروں نے کھتولی کے نزدیک شمبھوناتھ اور سکھوں کی فوجوں پر حملہ کردیا اور ماربھگایا بیروں نے ان سکھوں کی تمام جاگیریں ضبط کرلیں بعد میں نجف خاں کی وفات کے بعد شاہ عالم ثانی کی وزارت میں تبدیلیاں ہوئیں اس تبدیلیٔ وزارت کے نتیجہ میں بادشاہ پورے طور پر مرہٹوں کا کٹ پتلی بن گیا مرہٹوں نے شاہ عالم ثانی کی پینسٹھ ہزار روپیہ سالانہ پنشن مقرر کردی۔ بادشاہ کشمکش کی حالت میں جدھر اپنی سلامتی یا فائدہ دیکھا جھک جاتا تھا۔ ۳۰؍دسمبر ۱۸۰۳ء میں لارڈ بیگ نے مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی سے مار بھگا دیا اور بادشاہ کی ایک لاکھ روپیہ سالانہ پنشن مقرر کردی اس طرح مغلیہ حکومت کی مہر بن کر نام کا بادشاہ ہوگیا ۱۸۰۶ء میں شاہ عالم ثانی حالت نے بسی میں مرگیا اس کے مرنے کے بعد انگریزوں نے معین الدین کو تخت نشین کردیا اس کی تخت نشینی کی رسم برائے نام ہوئی تھی ورنہ حکومت تو انگریز ہی کررہے تھے اکبر ثانی جو اس پنشن کی رقم سے پ؍رے شاہی خاندان کی کفالت نہیں کرسکتا تھا اس لئے بادشاہ نے جواہرات اور اپنا قیمتی سامان بیچ بیچ کر شاہی خاندان کے لوگوں کے اخراجات زنندگی پورے کئے یہ نام نہاد (نام چارے) کی بادشاہی کی کٹھن زندگی کو اکتیس سال متواتر گذارتے ہوئے ۱۸۳۷ء میں مرگیا مرتے وقت اس کی عمر اسّی برس تھی اس کے بعد اِسی سال انگریزوں نے محمد سراج الدین بہادر شاہ کو جانشین مقرر کردیا اس نام نہاد بادشاہ کے زمانے میں مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ کے کچھ فوجیوں نے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کردی۔ ان باغیوں اور دوسرے شاہ پرستوں نے بادشاہ کے انکار کے باوجود دوبارہ تخت پر بٹھا کر مغلیہ حکومت کی خود مختاری کا اعلان کردیا۔ شاہ پرستوں اور باغیوں کی انگریزوں سے ۷۲-۷۳ جگہوں پر لڑائی ہوئی مگر انگریزوں ہی کی فتح ہوتی رہی یہ لڑائیاں مئی سے ستمبر تک ہوتی رہیں آخر انگریزوں نے دہلی کو دوبارہ فتح کرلیا انگریزوں نے بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے اس کے جوان لڑکوں کو قتل کرکے بادشاہ ہی کے روبرو سیرپیش کئے پھر بادشاہ کو گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا دہلی کے ہزاروں معززین کو شارع عام پر پھانسی دیدی گئی عورتوں اور بچوں کو قتل کرڈالا گیا چونکہ یہ بغاوت کسی منظم منصوبہ کے تخت نہیں ہوئی تھی اس لئے نہایت آسانی سے انگریزوں نے اس کو دبادیا اور اس بغاوت کا خمیازہ خصوصیت کے ساتھ مغلیہ شاہی خاندان اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا۔
(جاری)​
 

m.usman

وفقہ اللہ
رکن
b0221.gif
تاریخ سہارنپور​
(قسط نمبر ۱۰)
انگریزوں نے مغل حکومت کی بوسیدہ اور گھن لگی ہوئی ہڈیوں پر جس عیاری اور مکاری سے اپنی حکوت قائم کی وہ تاریخ کا نہایت ہی شرمناک باب ہے اور اس پر رہتی دنیا تک انسانیت تھوکتی رہے گی کیونکہ انگریزوں نے بہادروں اور فاتحوں کی حیثیت سے ہندوستان کی سلطنت حاصل نہیں کی تھی بلکہ وہ چوروں اور دھوکہ بازوں کی طرح تاجروں کے بھیس میں آئے اور مغلوں سے روزی روٹی کی بھیک مانگتے اور دامن پھیلا پھیلا کر اور گڑگڑا کر تجارتی سہولیتیں حاصل کرتے رہے۔ انگلستان کے ان مچھیروں کو اپنی گردن نہ اٹھانی چاہئے تھی مگر احسان فراموش جابر حاکم بن گئے۔
یہ جاگیری زمین لنڈھورہ کے راجہ رام دیال سنگھ اور دوسرے سکھوں کو دیدی گئی ۱۸۰۱ء میں راجہ رام دیال سنگھ نے اپنی طاقت کا اس وقت مظاہرہ کیا جب اس نے اعجاز خاں کو بچیٹی کے مقام پر شکست دی یہ اعجاز خاں اپنے کو غلام قادر روہیلہ کے خاندان کا بتلاتا تھا مگر اصل میں اس کا غلام قادر خاں کے خاندان سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا یہ گوجروں کے خلاف مسلمانوں کو فساد کیلئے ابھارنے پر لگا ہوا تھا۔
۳۰؍دسمبر ۱۸۰۳ء کو لارڈ لیک نے مرہٹہ سردار سندھیا کو شکست دینے کیب عد نجیب اللہ خاں والی جاگیر کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اور اس پر قبضہ جمانے کے بعد اس نے اس علاقہ کو ایسٹ اندیا کمپنی کی حکومت میں شامل کرلیتا اور مسٹر گھتری کو سہارنپور کا کلکٹر مقرر کردیا۔ ۱۱؍ستمبر ۱۸۰۴ء کو کرنل برن دہلی کے قریب جنگ کرکے شاہی محل اور شاہجہانی قلعہ پر قابض ہوگیا اس عرصہ میں کرنل برن کو سہارنپور پر سکھوں کے حملے کی خبر ملی اس نے لفٹنٹ بچ (Butch) کو فوج کی ایک ٹکڑی دے کر جمنا کے گھاٹوں کی حفاظت کرنے اور ناکہ بندی کرنے کیلئے روانہ کیا اور فوراً کرنل جیمس شیکسپیرکی قیادت میں دوسری گھوڑ سوار فوج کو سکھوں کے فتنہ سے نبٹنے کیلئے روانہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی اس فوج نے جمنا پار کرکے سکھوں پر اچانک حملہ کردیا کچھ سکھ قتل ہوئے اور باقی نے ہتھیار ڈال کر معافی مانگ لی۔ اب سہارنپور کے علاقوں میں لوٹ مار اور فساد برپا کردیا نام کے مغل بادشاہ نے اپنی ذاتی فوج کو جمنا کے گھاٹوں پر لگادیا اس علاقہ کے لوگ مرہٹہ سردار ہلکر کے متبنّیٰ شمبھو ناتھ کے حملے کے خلاف متحد ہوگئے سہارنپور کے بینوں ے اس زمانے میں ایک بستی بسا کر ہرناتھ پورہ سے منسوب کیا تھا اکتوبر ۱۸۰۴ء میں سکھوں نے آخری بار جگادھری کے رائے سنگھ اور برہیا کے شیرسنگھ کی سرکردگی میں سہارنپور پر حملہ کیا۔ اس سکھ فوج نے جمنا کو سرساوہ کے سامنے سے عبور کیا اور جمنا کے کنارے کے گاؤں دمجھیڑہ اور سلطان پور چلکانہ کے اِرد گرد کے دوسرے گاؤں میں لوٹ مار کرتی ہوئی سہارنپور کی طرف بڑھتی گئی چونکہ جنرل گھتری کے پاس اتنی فوج نہ تھی کہ سکھ فوج کا خاطر خواہ مقابلہ کرتے اس لئے اپنے بچاؤ کی خاطر وہ قلعہ نجیب اللہ (موجودہ جیل) میں محصور ہوگیا آپ پہلے پڑھ چکے ہیں اس قلعہ کو سردار نجیب اللہ خاں روہیلہ نے تعمیر کراکر احمد شاہ ابدالی کی نذر کردیا تھا اور اس کو احمد گڑھ کے نام سے منسوب کردیا تھا نجیب اللہ خاں کے پوتے کمینہ خصلت آدمی کے اٹھان کے دوران اس قلعہ کو غلام قادر کا قلعہ کے نام سے پکارا جانے لگا ہندوستان کی سلطنت پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوجانے پر گو اس قلعہ کو جزوی طور پر جیل خانہ میں تبدیل کردیا تھا مگر قلعہ کے زیادہ تر حصہ کو فوجی ضرورتوں کیلئے استعمال کیا جاتا رہا جب کرنل برن کو سکھوں کے حملے اور قلعہ میں مسٹر گھتری کے محصور ہونے کی اطلاع ملی تو وہ چھ توپیں اور دو بٹالین گھوڑسوار فوج لے کر جلدی سے سہارنپور کی طرف چل پڑا راستے میں کاندھلے کے قریب اس کو مرہٹہ سردار ہلکر کی گھوڑسوار فوج کا ایک دستہ ملا مگڑ کرنل برن مرہٹوں کے مقابلے میں نہ آکر شاملی (مظفرنگر) کے قلعہ میں محصور ہوگیا اور اپنی حفاظت کرتا رہا ۳؍نومبر ۱۸۰۴ء کو لارڈ لیک کی فوج نے کرنل برن کو رہائی دلائی لارڈ لیک کی فوج کے پہنچنے کی خبر مل جانے پر مرہٹہ فوج نو دوگیارہ ہوگئی یہاں سے لارڈ لیک کھتولی کی طرف بڑھتا گیا یہاں پر جنرل گھتری جس کو بیگم سمرو نے سہارنپور میں سکھوں سے چھٹکارا دلایا تھا لارڈ لیک کی فوج سے آن ملا۔ اس زمانے میں سکھوں نے دو آبے کے علاقوں میں دور دور تک لوٹ مار اور فساد پیدا کررہا تھا مگر مظفرنگر میں ان کی پیش قدمی رکی ہوئی تھی کیونکہ تھانہ بھون سے گور جیت سنگھ نے سکھوں کوباہر نکال ڈالا تھا اس کے بعد سکھوں نے پھر اپنی منتشر طاقت کو اکٹھا کرکے ہنڈن ندی کے کنارے دیوبند سے سات میل دور موضع چراؤؤں کے مقام پر مضبوط پوزیشن لی مگر اس علاقہ کے گوجر اور رانگڑھ (راجپوت) اپنی بہو، بیٹیوں، ماں اور بہنوں کی عصمت کو بچانے کے لئے سکھوں کے خلاف کرنل برن کے حمایتی ہوگئے اور یہ لوگ اپنے گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں پر سوار ہوکر تلواریں لے کر سکھوں پر حملہ کرنے کیلئے میدان میں نکل آئے ان لوگوں کے ٹڈی دل کی کثرت کو دیکھ کر سکھ فوجوں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ سکھ بلا مقابلہ کئے ہی بھاگ کھڑے ہوئے اس دن انگریزی توپ خانے نے اہم رول ادا کیا کیونکہ اس دن سکھوں کے پاس ایک بھی توپ نہ تھی سکھوں اور کرنل برن کے درمیان معمولی جھڑپ ہوئی اس جھڑپ میں برہیا کے شیرسنگھ کی ایک ٹانگ توپ کا گولہ لگنے سے اُڑ گئی تھی اس کا چچازاد بھائی رائے سنگھ اس نیم مردہ شیرسنگھ کو اٹھاکر لے جانے میں کامیاب ہوگیا تھا مگر شیرسنگھ جانبرنہ ہوسکا اور مرگیا اس جنگ میں منگلور کے قاضی محمد علی اور شیخ کلن نے بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی امداد کی تھی برطانوی حکومت نے ان کی خدمات کے صلہ میں لنڈھورہ کے راجہ رام دیال سنگھ کی جاگیری زمین میں سے کچھ زمین قاضی محمد علی اور شیخ کلن کو معافی تمام بخشش کردی تھی۔ اگر چہ سکھ فوجیں قدم قدم پر شکست کھاکر بھاگتی رہیں مگر پھر بھی یہ تھانہ بھون نانوتہ اور رام پور قصبات اور ان کے اِرد گرد کے دیہات میں لوٹ مارکرتی رہیں۔ ۱۹؍دسمبر ۱۸۰۴ء کو نہایت پھرتی سے کرنل برن نے ان سکھوں کا پیچھا کیا اور تھانہ بھون ایک طرف چھوڑتے ہوئے پرگنہ گنگوہ کے گاؤں ٹھولو کے مقام پر ان بھاگتے ہوئے سکھوں پر اچانک حملہ کردیا۔ سکھ اس کے حملے کا مقابلہ نہ کرکے چلکانہ کے قریب سے دمجھیڑہ اور بوڑیہ کے گھاٹ سے جمنا دریا کو عبور کرگئے کرنل برن کو دہلی سے جمناپار نہ جانے کا حکم موصول ہوا اور کرنل برن جمنا کنارے سے واپس سہارنپور لوٹ آیا جنوری ۱۸۰۵ئ؁ میں سکھوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں جمنا کو عبور کرکے سہارنپور آتی رہیں مگر ان سکھ ٹکڑیوں کو گاؤں کے لوگ ہی مار بھگاتے رہے۔​
(جاری)​
 
Top