تاریخِ سہارنپور
(قسط دوم)
یوں تو طالب علمی کے زمانے ہی سے مجھے قصے، کہانیوں، تاریخی اور سوانح عمریوں کے مطالعہ کرنے کا شوق تھا اور عمر کے بڑھتے رہنے کے ساتھ ساتھ میرے ذوق وشوق کے مطالعہ میں اور اضافہ ہوتا رہا ۱۹۲۵ء میں ایک ناگہانی واقعہ کے پیش آجانے پر مجھ کو ترک وطن کرنا پڑا تقریباً دس گیارہ مہینے شہر کپورتھلہ میں رہنے کے بعد مجھ کو شہر پٹیالہ میں قیام کرنا پڑا۔ یہاں میں اپنے ایک محسن اکبر شیخ عبدالکریم مرحوم کلاتھ مرچنٹ کے کارندے کے طور پر اپنے فرائض کو نبھاتا رہا۔ شیخ صاحب کپورتھلا، پٹیالہ اور نابھہ ریاستوں کے درباری توتھے ہی مگر مذکورہ ریاستی حکومتوں کے کئی ایک محکموں کو کپڑا سپلائی کرنے کے ٹھیکیدار بھی تھے کم وبیش ایک سال تک میں اپنے فرصت کے وقت ریاست کی سینٹرل اسٹیٹ لائبریری پٹیالہ میں اخبار پڑھنے جاتا رہا اس زمانے میں ایک طرف ہندوستان کے اکثریتی فرقہ نے مہاتما گاندھی جی کی رہنمائی میں ہندوستان کو حکومت برطانیہ کی غلامی سے آزاد کرانے کیلئے عدم تشدد کی تحریک چلا رکھی تھی دوسری جانب ہندی مسلمان مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں ہندی مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ بنا نے کیلئے مسلم لیگ کے گرد جمع ہورہے تھے۔
اس لائبریری میں دوسرے اخباروں کے علاوہ لاہور سے شائع ہونے والے دو روزنامے ’’زمیندار‘‘ اور ’’احسان‘‘ بھی آتے تھے اخبار زمیندار کے مالک مولانا ظفر علی خاں مرحوم خود اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار (زمیندار) احرار جمعیۃ علماء اور کانگریس کی پالیسیوں کا ترجمان اور معاون تھا۔ احسان اخبار مسلم لیگ کی پالیسیوں کو پیش کرتا اور عام مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے لانے میں سرگرم عمل تھا ان دنوں لائبریری میں مجھ کو چار پانچ تاریخی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا یہ کتابیں پٹیالہ، نابھہ اور جیند کی ریاستوں کے بارے میں لکھی ہوئی تھیں میں نے ان کتابوں سے سرہند سے متعلق واقعات کے کچھ اقتباسات اکھٹے کئے اور ان سے ایک مضمون تیار کیا اس مضمون کو میں نے مولانا ظفر علی خاں کو اپنی عاجزانہ درخواست کے ساتھ اشاعت کیلئے ارسال کیا اور مولانا سے اپنے مضمون کی اصلاح واشاعت کے لئے بھی عاجزانہ خواہش کا اظہار کیا میں نے اس مضمون پر ہر اضافہ، ترمیم وتنسیخ کو قابل قبول تسلیم کئے جانے کو بھی لکھا مولانا مرحوم نے یہ مضمون اپنے صاحبزادے اختر علی خان مرحوم کی صواب دید پر چھوڑ دیا تھا اور مولانا اختر علی خاں نے کچھ الفاظ کی تبدیلی کے بعد اسے شائع کردیا راقم الحروف چونکہ اس زمانے میں گمنامی کی زندگی بسر کررہا تھا اس لئے مضمون کو میں نے اپنے کرم فرما شیخ عبدالکریم کے نام سے شائع کرایا تھا۔ اس کے ضائع ہوجانے کے بعد میں نے اپنے دوستوں اور حلقہ نشینوں کو مذکورہ مضمون پڑھوا کر ان کے تاثرات معلوم کئے ان کی پسندیدگی اور مضمون کی اشاعت سے میرے ذوق تالیف میں جان پڑگئی اس طرح میرا حوصلہ بڑھا اور مضامین کی تالیف میں میرا شوق عشق میں بدل گیا اس ذوق مطالعہ اور شوق تالیف کے نتیجہ میں نارنول، سنام، پٹیالہ، سمانہ اور سنور کے سیاسی پس منظر پر میں نے مضامین لکھ کر شائع کرائے ان مضامین کو میں سید زیڈ، ایچ، عبدالکریم کے فرضی نام سے شائع کراتا تھا ان مضامین میں سب سے یادگاری مضمون سنام سے مسلمانوں کی وابستگی میں نے ذاتی طور پر مولانا اختر علی خاں سے لاہور میں ان کے دفتر میں ملاقات کی اس طرح مذکورہ مضمون کی اشاعت سے خود اعتمادی پیدا ہوگئی۔
۱۹۳۹ء کے دوران میں نے ریاست پٹیالہ کی مکمل جامع تاریخ لکھنے کا مستحکم ارادہ کیا اور اس سلسلہ میں میں کئی فارسی، اُردو اور انگریزی کتابوں کا مطالعہ کیا اور کتنے ہی ریاستی باشندوں کی زبانی قصوں اور کہانیوں کو ضبط تحریر میں لایا گیا چنانچہ تاریخی واقعات کے اقتباسات قصوں اور کہانیوں کو محفوظ کرکے میں نے تاریخ ریاست پٹیالہ کو جنوری ۱۹۴۰ء میں مکمل کرلیا میں اس مسودے کی اصلاح کسی قلم کار، ادیب یا مصنف سے کرانا چاہتا تھا چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے میری نظر انتخاب جناب غلام بھیک نیرنگ صاحب مرحوم رئیس انبالہ پر پڑی۔ نیرنگ صاحب اینڈین مسلم لیگ کے مقتدر لیڈروں میں شمار ہوتے تھے فروری ۱۹۴۰ء کے پہلے ہفتہ میں پٹیالہ میں مسلم لیگ کا جلسہ ہونے والا تھا اس جلسہ میں نیرنگ صاحب کے علاوہ خطیبہ ہند زہرہ سخن سیدہ بیگم سردار اختر مرحومہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا یہ خطیبہ کے علاوہ مضمون نگار اور شاعرہ بھی تھیں جلسہ کے اختتام پر نیرنگ صاحب میرے ہمراہ شیخ صاحب کے مکان پرآئے صبح کو ناشتہ کے دوران میں نے ان کو اپنا مسودہ پیش کرکے ترمیم وتنسیخ وتصحیح کی خواہش ظاہر کی میں نے روزنامہ زمیندار میں شائع شدہ سابقہ مضامین بھی نیرنگ صاحب کو دکھلائے انہوں نے مجھ سے مسودہ لے لیا اور انبالہ جاکر مسودے کو پڑھ کر واپس کرنے کا وعدہ کیا تقریباً ایک ماہ کے بعد نیرنگ صاحب اپنے کسی ذاتی کام کے لئے پٹیالہ آئے لیکن مسودہ کو ساتھ لانا بھول گئے۔ مجھ کو دیکھتے ہی انہوں نے اپنی بھول پر نہایت ہی افسوس ظاہر کیا انبالہ واپس جاکر انہوں نے اصلاح شدہ مضمون کے ساتھ اپنا ایک ہدایتی اور ہنمایانہ خط بھی بذریعہ ڈاک ارسال کیا میں اس مسودے کو تاریخ ریاست پٹیالہ کے نام سے شائع کرانے کا متمنی تھا مگر مالی کمزوری میری اس راہ میں رکاوٹ بنی رہی مجبوراً میں نے ایک شب میں اپنے ایک محسن اور کرم فرما شیخ عبدالکریم کی کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ریاست پٹیالہ کے درباری اور ٹھیکیدار کی حیثیت سے ریاست میں ہی نہیں بلکہ آس پاس بھی جانے پہنچانے جاتے ہیں آپ اپنے کو ایک مصنف اور ادیب کی حیثیت سے بھی پیش کیجئے اس پر وہ ہنس دئیے اور کہا سید صاحب آپ تو اس دریا کو پار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ جس کے کنارے بیٹھ کر میں نے کبھی دوچلو پانی بھی نہیں پیا۔ شیخ صاحب کو میں اخبار زمیندار کے وہ چھ شمارے بھی دکھلائے جن میں ریاست پٹیالہ کے چھ قصبوں کے سیاسی اور فوجی حالات وواقعات ان کے مفروضہ نام سے شائع ہوچکے تھے میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے ترک وطن، گمنامی اور خاص مصلحت کی بناء پر سید زیڈ ایچ عبدالکریم کے مفروضہ نام سے ان مضامین کو شائع کرایا تھا اس بات کے کھل جانے پر وہ حیرت زدہ رہ گئے اور مسکرادئیے فوراً ہی میں نے اپنا اصلاح شدہ مسودہ اور نیرنگ صاحب کا وہ ہدایتی اور رہنمایانہ خط شیخ صاحب کے سامنے پیش کیا جو انہوں نے اس کتاب کے بارے میں مجھ کو لکھا تھا اس گفتگو کے دوران محترم شیخ صاحب نے نیم دلی سے شائع کرانے کا وعدہ کیا ان دنوں سردار لیاقت علی حیات خاں ریاست پٹیالہ کے وزیر اعظم تھے شیخ صاحب ان سے متعارف اور واقف تھے چنانچہ ان سے شیخ صاحب نے مسودہ لے کر بابا آلاسنگھ کے نام سے منسوب کرکے شائع کرانے اور مہاراجہ یادوندرسنگھ پٹیالہ کے جنم دن پر اجراء کرنے کی ہدایت کی اس کتاب کا پیش لفظ جناب غلام بھیک نیرنگ صاحب نے لکھا اور پیش لفظ میں سید زیڈ، ایچ کی جدوجہد اور معاونت کو مستحسن قرار دیا تھا۔
چنانچہ ۱۹۴۰ء کے دوران سردار لیاقت علی حیات محل وزیر اعظم پٹیالہ نے مہاراجہ یادوندرسنگھ ہی سے ان کے جنم دن پر اس کتاب کا اجراء کرایا مہاراجہ کے اس جشن ولادت پر شرکاء نے تقریباً دوتین سو کتابیں اسی وقت خرید لیں ۱۹۷۷ء کے دوران میں ضلع سہارنپور مسلم مجلس کا صدر تھا اس زمانے میں جنتا پارٹی کی حکومت مرکز (دہلی) میں قائم ہوچکی تھی جنتا پارٹی میں مسلم مجلس بھی ایک (ایک سیاسی پارٹی تھی جس کے بانی وصدر محترم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی تھے یہ پارٹی مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؔ ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی تجویز پر قائم ہوئی تھی) معاون کے طور مرکزی حکومت میں شریک کار تھی صوبائی چناؤ کیلئے تیاریاں جاری تھیں۔ شیخ ذوالفقار اللہ ویسٹرن کورٹ نے نئی دہلی میں اترپردیس کے ضلع صدور کی میٹنگ بلائی تھی مجھ کو بھی اس میٹنگ میں شریک ہونے کا دعوت نامہ ملا میں اس میٹنگ میں شریک ہونے اور ایک دوسرے مشورے کی غرض سے میٹنگ کے انعقاد سے دوروز پہلے ہی ویسٹ نظام الدین اولیاء میں اپنے رشتہ دار بابو آفتاب احمد کے یہاں پہنچ گیا تھا وقت گذارنے اور تاریخی مطالعہ کے شوق کو پورا کرنے کی خاطر میں سروے آف انڈیا کی لائبریری میں گیا مجھ کو لائبریری میں چمبر آف پرنسز (ایوان شہزادگان) انگریزی زبان میں چھپی کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا اگلے روز مجھ کو ایک دوسری انگریزی کتاب Historical Relation of Roheelan Afgano کو پڑھنے کا بھی موقع ہاتھ آیا اس کتاب میں شہر سہارنپور کا کئی جگہ ذکر آیا میں نے اسی دن تاریخ سہارنپور لکھنے کا ارادہ کرلیا اس ارادے کو پورا کرنے کیلئے مجھ کو الہ آباد، رامپور (سابق ریاست) دہلی، چنڈی گڑھ اور پٹیالہ کی سرکاری لائبریریوں میں سیکڑوں ایسی تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑا جن میں سہارنپور کے واقعات کا ضبط تحریر میں لائے جانے کا امکان تھا اگر چہ میں نے حتی المقدور جدوجہد کرکے تفتیش تمام اور تشخص کی اعانت سے سہارنپور سے متعلقہ حادثات وواقعات اور دوسرے تاریخی مواد کو اکٹھا کرنے پر سات سال صرف کئے کتنی ہی چھوٹی موٹی اور مندرجہ ذیل کتابوں کے پڑھنے اور مطالعہ اور ان کے اقتباسات وواقعات کو ترتیب دے کر میں نے سہارنپور کا سیاسی منظر کتاب تیاری کی پھر بھی ہوسکتا ہے کہ اور بھی ایسے تاریخی حالات واقعات جو اس کتاب کی زینت بن سکتے تھے میری نظر اوجھل رہ گئے ہوں ویسے میں نے کوشش یہی کہ یہ کتاب اس موضع پر جامع مکمل اور یادگاری بن جائے میں قارئین اور واقعات نویسوں سے اس کی معافی چاہوں گا اور امید کرتا ہوں ناظرین میری سات سالہ مطالعہ اور کتابوں کی ورق گردانی کے نتیجہ میں جو کتاب پیش کی جارہی ہے اس کو پسند فرمائیں گے ان کتابوں کی اعانت اور مدد سے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے وہ یہ ہیں:
اس لائبریری میں دوسرے اخباروں کے علاوہ لاہور سے شائع ہونے والے دو روزنامے ’’زمیندار‘‘ اور ’’احسان‘‘ بھی آتے تھے اخبار زمیندار کے مالک مولانا ظفر علی خاں مرحوم خود اس کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اخبار (زمیندار) احرار جمعیۃ علماء اور کانگریس کی پالیسیوں کا ترجمان اور معاون تھا۔ احسان اخبار مسلم لیگ کی پالیسیوں کو پیش کرتا اور عام مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے لانے میں سرگرم عمل تھا ان دنوں لائبریری میں مجھ کو چار پانچ تاریخی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا یہ کتابیں پٹیالہ، نابھہ اور جیند کی ریاستوں کے بارے میں لکھی ہوئی تھیں میں نے ان کتابوں سے سرہند سے متعلق واقعات کے کچھ اقتباسات اکھٹے کئے اور ان سے ایک مضمون تیار کیا اس مضمون کو میں نے مولانا ظفر علی خاں کو اپنی عاجزانہ درخواست کے ساتھ اشاعت کیلئے ارسال کیا اور مولانا سے اپنے مضمون کی اصلاح واشاعت کے لئے بھی عاجزانہ خواہش کا اظہار کیا میں نے اس مضمون پر ہر اضافہ، ترمیم وتنسیخ کو قابل قبول تسلیم کئے جانے کو بھی لکھا مولانا مرحوم نے یہ مضمون اپنے صاحبزادے اختر علی خان مرحوم کی صواب دید پر چھوڑ دیا تھا اور مولانا اختر علی خاں نے کچھ الفاظ کی تبدیلی کے بعد اسے شائع کردیا راقم الحروف چونکہ اس زمانے میں گمنامی کی زندگی بسر کررہا تھا اس لئے مضمون کو میں نے اپنے کرم فرما شیخ عبدالکریم کے نام سے شائع کرایا تھا۔ اس کے ضائع ہوجانے کے بعد میں نے اپنے دوستوں اور حلقہ نشینوں کو مذکورہ مضمون پڑھوا کر ان کے تاثرات معلوم کئے ان کی پسندیدگی اور مضمون کی اشاعت سے میرے ذوق تالیف میں جان پڑگئی اس طرح میرا حوصلہ بڑھا اور مضامین کی تالیف میں میرا شوق عشق میں بدل گیا اس ذوق مطالعہ اور شوق تالیف کے نتیجہ میں نارنول، سنام، پٹیالہ، سمانہ اور سنور کے سیاسی پس منظر پر میں نے مضامین لکھ کر شائع کرائے ان مضامین کو میں سید زیڈ، ایچ، عبدالکریم کے فرضی نام سے شائع کراتا تھا ان مضامین میں سب سے یادگاری مضمون سنام سے مسلمانوں کی وابستگی میں نے ذاتی طور پر مولانا اختر علی خاں سے لاہور میں ان کے دفتر میں ملاقات کی اس طرح مذکورہ مضمون کی اشاعت سے خود اعتمادی پیدا ہوگئی۔
۱۹۳۹ء کے دوران میں نے ریاست پٹیالہ کی مکمل جامع تاریخ لکھنے کا مستحکم ارادہ کیا اور اس سلسلہ میں میں کئی فارسی، اُردو اور انگریزی کتابوں کا مطالعہ کیا اور کتنے ہی ریاستی باشندوں کی زبانی قصوں اور کہانیوں کو ضبط تحریر میں لایا گیا چنانچہ تاریخی واقعات کے اقتباسات قصوں اور کہانیوں کو محفوظ کرکے میں نے تاریخ ریاست پٹیالہ کو جنوری ۱۹۴۰ء میں مکمل کرلیا میں اس مسودے کی اصلاح کسی قلم کار، ادیب یا مصنف سے کرانا چاہتا تھا چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے میری نظر انتخاب جناب غلام بھیک نیرنگ صاحب مرحوم رئیس انبالہ پر پڑی۔ نیرنگ صاحب اینڈین مسلم لیگ کے مقتدر لیڈروں میں شمار ہوتے تھے فروری ۱۹۴۰ء کے پہلے ہفتہ میں پٹیالہ میں مسلم لیگ کا جلسہ ہونے والا تھا اس جلسہ میں نیرنگ صاحب کے علاوہ خطیبہ ہند زہرہ سخن سیدہ بیگم سردار اختر مرحومہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا یہ خطیبہ کے علاوہ مضمون نگار اور شاعرہ بھی تھیں جلسہ کے اختتام پر نیرنگ صاحب میرے ہمراہ شیخ صاحب کے مکان پرآئے صبح کو ناشتہ کے دوران میں نے ان کو اپنا مسودہ پیش کرکے ترمیم وتنسیخ وتصحیح کی خواہش ظاہر کی میں نے روزنامہ زمیندار میں شائع شدہ سابقہ مضامین بھی نیرنگ صاحب کو دکھلائے انہوں نے مجھ سے مسودہ لے لیا اور انبالہ جاکر مسودے کو پڑھ کر واپس کرنے کا وعدہ کیا تقریباً ایک ماہ کے بعد نیرنگ صاحب اپنے کسی ذاتی کام کے لئے پٹیالہ آئے لیکن مسودہ کو ساتھ لانا بھول گئے۔ مجھ کو دیکھتے ہی انہوں نے اپنی بھول پر نہایت ہی افسوس ظاہر کیا انبالہ واپس جاکر انہوں نے اصلاح شدہ مضمون کے ساتھ اپنا ایک ہدایتی اور ہنمایانہ خط بھی بذریعہ ڈاک ارسال کیا میں اس مسودے کو تاریخ ریاست پٹیالہ کے نام سے شائع کرانے کا متمنی تھا مگر مالی کمزوری میری اس راہ میں رکاوٹ بنی رہی مجبوراً میں نے ایک شب میں اپنے ایک محسن اور کرم فرما شیخ عبدالکریم کی کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ ریاست پٹیالہ کے درباری اور ٹھیکیدار کی حیثیت سے ریاست میں ہی نہیں بلکہ آس پاس بھی جانے پہنچانے جاتے ہیں آپ اپنے کو ایک مصنف اور ادیب کی حیثیت سے بھی پیش کیجئے اس پر وہ ہنس دئیے اور کہا سید صاحب آپ تو اس دریا کو پار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں کہ جس کے کنارے بیٹھ کر میں نے کبھی دوچلو پانی بھی نہیں پیا۔ شیخ صاحب کو میں اخبار زمیندار کے وہ چھ شمارے بھی دکھلائے جن میں ریاست پٹیالہ کے چھ قصبوں کے سیاسی اور فوجی حالات وواقعات ان کے مفروضہ نام سے شائع ہوچکے تھے میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے ترک وطن، گمنامی اور خاص مصلحت کی بناء پر سید زیڈ ایچ عبدالکریم کے مفروضہ نام سے ان مضامین کو شائع کرایا تھا اس بات کے کھل جانے پر وہ حیرت زدہ رہ گئے اور مسکرادئیے فوراً ہی میں نے اپنا اصلاح شدہ مسودہ اور نیرنگ صاحب کا وہ ہدایتی اور رہنمایانہ خط شیخ صاحب کے سامنے پیش کیا جو انہوں نے اس کتاب کے بارے میں مجھ کو لکھا تھا اس گفتگو کے دوران محترم شیخ صاحب نے نیم دلی سے شائع کرانے کا وعدہ کیا ان دنوں سردار لیاقت علی حیات خاں ریاست پٹیالہ کے وزیر اعظم تھے شیخ صاحب ان سے متعارف اور واقف تھے چنانچہ ان سے شیخ صاحب نے مسودہ لے کر بابا آلاسنگھ کے نام سے منسوب کرکے شائع کرانے اور مہاراجہ یادوندرسنگھ پٹیالہ کے جنم دن پر اجراء کرنے کی ہدایت کی اس کتاب کا پیش لفظ جناب غلام بھیک نیرنگ صاحب نے لکھا اور پیش لفظ میں سید زیڈ، ایچ کی جدوجہد اور معاونت کو مستحسن قرار دیا تھا۔
چنانچہ ۱۹۴۰ء کے دوران سردار لیاقت علی حیات محل وزیر اعظم پٹیالہ نے مہاراجہ یادوندرسنگھ ہی سے ان کے جنم دن پر اس کتاب کا اجراء کرایا مہاراجہ کے اس جشن ولادت پر شرکاء نے تقریباً دوتین سو کتابیں اسی وقت خرید لیں ۱۹۷۷ء کے دوران میں ضلع سہارنپور مسلم مجلس کا صدر تھا اس زمانے میں جنتا پارٹی کی حکومت مرکز (دہلی) میں قائم ہوچکی تھی جنتا پارٹی میں مسلم مجلس بھی ایک (ایک سیاسی پارٹی تھی جس کے بانی وصدر محترم ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی تھے یہ پارٹی مولانا ابوالحسن علی میاں ندویؔ ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی تجویز پر قائم ہوئی تھی) معاون کے طور مرکزی حکومت میں شریک کار تھی صوبائی چناؤ کیلئے تیاریاں جاری تھیں۔ شیخ ذوالفقار اللہ ویسٹرن کورٹ نے نئی دہلی میں اترپردیس کے ضلع صدور کی میٹنگ بلائی تھی مجھ کو بھی اس میٹنگ میں شریک ہونے کا دعوت نامہ ملا میں اس میٹنگ میں شریک ہونے اور ایک دوسرے مشورے کی غرض سے میٹنگ کے انعقاد سے دوروز پہلے ہی ویسٹ نظام الدین اولیاء میں اپنے رشتہ دار بابو آفتاب احمد کے یہاں پہنچ گیا تھا وقت گذارنے اور تاریخی مطالعہ کے شوق کو پورا کرنے کی خاطر میں سروے آف انڈیا کی لائبریری میں گیا مجھ کو لائبریری میں چمبر آف پرنسز (ایوان شہزادگان) انگریزی زبان میں چھپی کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا اگلے روز مجھ کو ایک دوسری انگریزی کتاب Historical Relation of Roheelan Afgano کو پڑھنے کا بھی موقع ہاتھ آیا اس کتاب میں شہر سہارنپور کا کئی جگہ ذکر آیا میں نے اسی دن تاریخ سہارنپور لکھنے کا ارادہ کرلیا اس ارادے کو پورا کرنے کیلئے مجھ کو الہ آباد، رامپور (سابق ریاست) دہلی، چنڈی گڑھ اور پٹیالہ کی سرکاری لائبریریوں میں سیکڑوں ایسی تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑا جن میں سہارنپور کے واقعات کا ضبط تحریر میں لائے جانے کا امکان تھا اگر چہ میں نے حتی المقدور جدوجہد کرکے تفتیش تمام اور تشخص کی اعانت سے سہارنپور سے متعلقہ حادثات وواقعات اور دوسرے تاریخی مواد کو اکٹھا کرنے پر سات سال صرف کئے کتنی ہی چھوٹی موٹی اور مندرجہ ذیل کتابوں کے پڑھنے اور مطالعہ اور ان کے اقتباسات وواقعات کو ترتیب دے کر میں نے سہارنپور کا سیاسی منظر کتاب تیاری کی پھر بھی ہوسکتا ہے کہ اور بھی ایسے تاریخی حالات واقعات جو اس کتاب کی زینت بن سکتے تھے میری نظر اوجھل رہ گئے ہوں ویسے میں نے کوشش یہی کہ یہ کتاب اس موضع پر جامع مکمل اور یادگاری بن جائے میں قارئین اور واقعات نویسوں سے اس کی معافی چاہوں گا اور امید کرتا ہوں ناظرین میری سات سالہ مطالعہ اور کتابوں کی ورق گردانی کے نتیجہ میں جو کتاب پیش کی جارہی ہے اس کو پسند فرمائیں گے ان کتابوں کی اعانت اور مدد سے یہ کتاب ترتیب دی گئی ہے وہ یہ ہیں:
۱) شمشیر خالصہ مصنف بھائی گیانی سنگھ گیانی
۲) ظفر نامہ تیموری خود نوشت (ترجمہ) اُردو،
مصنف مآثر عالمگیری، سعد خاں
۲) ظفر نامہ تیموری خود نوشت (ترجمہ) اُردو،
مصنف مآثر عالمگیری، سعد خاں