ایک چونکادینے والی روایت
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میںحضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک خط آیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوفہ والوں میں سے بہت سے لوگوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا ،یہ پڑھ کر (خوشی کی وجہ سے )حضرت عمر ؓ نے اللہ اکبر کہا( اللہ ان پر رحم فرمائے) میں نے کہاکہ ان میں اختلاف ہوجائے گا ۔انہوں نے فرمایا اوہو!تمہیں یہ کہاں سے پتہ چل گیا ؟اورحضرت عمر ؓ کو غصہ آگیا تو میں اپنے گھر چلاگیا اس کے بعد انہوں نے میرے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجا ،میں نے انہیں کوئی عذرکردیا پھر انہوں نے یہ کہلاکر بھیجا کہ میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تمہیں ضرور آنا ہوگا ،چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے فرمایا تم نے کوئی بات کہی تھی ؟ میں نے کہا استغفراللہ ! اب دوبارہ نہیں کہوںگا ،فرمایا میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم نے جو بات کہی تھی وہ دوبارہ کہنی ہوگی میں نے کہا آپ نے فرمایا تھا کہ میرے پاس خط میں یہ لکھا ہوا آیا ہے کہ کوفہ والوں میں سے بہت سے لوگوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا ہے اس میں نے کہا تھا کہ ان میں اختلاف ہوجائے گا ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا تمہیں یہ کہاں سے پتہ چلا؟ میں نے کہا میں نے یہ آیت وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْھِدُا للّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ سے لے کر وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الْفَسَاد تک پڑھی (سورۃ بقرہ)
ترجمہ :اوربعضاآدمی ایسا بھی ہے کہ آپ کو اس کی گفتگو جو محض دنیوی غرض سے ہوتی ہے مزہ دار معلوم ہوتی ہے اور وہ اللہ کو حاضر وناظر باتا ہے اپنے مافی الضمیر پر حالانکہ وہ (آپ کی مخالفت میں )نہایت شدید ہے اورجب پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں پھر تا رہتا ہے کہ شہر میں فساد کردے اور(کسی کے )کھیت یا مواشی کو تلف کردے اوراللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے جب لوگ اس طرح کریں گے تو قرآن والا صبر نہیں کرسکے گا پھر میں نے یہ آیت پڑھی وَاِذْ قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمَ وَلَبِئْسَ الْمِھَادُ۔وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَؤفٌ بِالْعِبَادِ(سورہ بقرہ )
ترجمہ :اورجب اس سے کوئی کہتا ہے کہ خدا کا خوف کرتو نخوت اس کو اس گناہ پر (دونا)آمادہ کردیتی ہے سوایسے شخص کی کافی سزا جہنم ہے اوروہ بری ہی آرام گاہ ہے اوربعضا آدمی ایسا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں اپنی جان تک صرف کرڈالتا ہے اوراللہ تعالیٰ ایسے بندوں کے حال پر نہایت مہربان ہیں ،،حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! تم نے ٹھیک کہا ۔(حاکم ۳/۵۴۰ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میںحضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک خط آیا جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوفہ والوں میں سے بہت سے لوگوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا ،یہ پڑھ کر (خوشی کی وجہ سے )حضرت عمر ؓ نے اللہ اکبر کہا( اللہ ان پر رحم فرمائے) میں نے کہاکہ ان میں اختلاف ہوجائے گا ۔انہوں نے فرمایا اوہو!تمہیں یہ کہاں سے پتہ چل گیا ؟اورحضرت عمر ؓ کو غصہ آگیا تو میں اپنے گھر چلاگیا اس کے بعد انہوں نے میرے پاس بلانے کے لئے آدمی بھیجا ،میں نے انہیں کوئی عذرکردیا پھر انہوں نے یہ کہلاکر بھیجا کہ میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تمہیں ضرور آنا ہوگا ،چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے فرمایا تم نے کوئی بات کہی تھی ؟ میں نے کہا استغفراللہ ! اب دوبارہ نہیں کہوںگا ،فرمایا میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں کہ تم نے جو بات کہی تھی وہ دوبارہ کہنی ہوگی میں نے کہا آپ نے فرمایا تھا کہ میرے پاس خط میں یہ لکھا ہوا آیا ہے کہ کوفہ والوں میں سے بہت سے لوگوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا ہے اس میں نے کہا تھا کہ ان میں اختلاف ہوجائے گا ،حضرت عمر ؓ نے فرمایا تمہیں یہ کہاں سے پتہ چلا؟ میں نے کہا میں نے یہ آیت وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیُشْھِدُا للّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ سے لے کر وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الْفَسَاد تک پڑھی (سورۃ بقرہ)
ترجمہ :اوربعضاآدمی ایسا بھی ہے کہ آپ کو اس کی گفتگو جو محض دنیوی غرض سے ہوتی ہے مزہ دار معلوم ہوتی ہے اور وہ اللہ کو حاضر وناظر باتا ہے اپنے مافی الضمیر پر حالانکہ وہ (آپ کی مخالفت میں )نہایت شدید ہے اورجب پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں پھر تا رہتا ہے کہ شہر میں فساد کردے اور(کسی کے )کھیت یا مواشی کو تلف کردے اوراللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے جب لوگ اس طرح کریں گے تو قرآن والا صبر نہیں کرسکے گا پھر میں نے یہ آیت پڑھی وَاِذْ قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمَ وَلَبِئْسَ الْمِھَادُ۔وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ رَؤفٌ بِالْعِبَادِ(سورہ بقرہ )
ترجمہ :اورجب اس سے کوئی کہتا ہے کہ خدا کا خوف کرتو نخوت اس کو اس گناہ پر (دونا)آمادہ کردیتی ہے سوایسے شخص کی کافی سزا جہنم ہے اوروہ بری ہی آرام گاہ ہے اوربعضا آدمی ایسا بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں اپنی جان تک صرف کرڈالتا ہے اوراللہ تعالیٰ ایسے بندوں کے حال پر نہایت مہربان ہیں ،،حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ! تم نے ٹھیک کہا ۔(حاکم ۳/۵۴۰ )